id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
0
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
pakistan-50415556
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50415556
عدالت کا سابق وزیر اعظم نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم، چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جا سکتے ہیں
لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو بیرونِ ملک جانے کی مشروط حکومتی اجازت کے خلاف دائر درخواست پر فیصلہ دیتے ہوئے انھیں چار ہفتوں کے لیے علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی۔
عدالت نے حکومتی وکلا کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم بھی دیا۔ یہ فیصلہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سنیچر کو سنایا اور کیس کی سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کر دی۔ یہ بھی پڑھیے نواز شریف کو آخر کس طبی پیچیدگی کا سامنا ہے؟ ’بیرونِ ملک جانے کی مشروط اجازت مسترد کرتے ہیں‘ تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن سیاسی بیانے کے گرداب میں پھنسی ہیں؟ صحافی عباد الحق کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو چار ہفتوں کے لیے بیرونِ ملک علاج کرانے کی اجازت دیتے ہوئے وفاقی حکومت کے میمورنڈم کو انڈیمنٹی بانڈز کی شرط کی حد تک معطل کر دیا۔ نواز شریف کے صحت یاب ہونے کے بعد ملک واپسی کے لیے سابق وزیر اعظم اور ان کے بھائی شہباز شریف کے الگ الگ بیان حلفی رات نو بجے کے قریب لاہور ہائی کورٹ کے ڈپٹی رجسٹرار جوڈیشل کے پاس جمع کرائے گئے۔ عدالتی حکم پر رجسٹرار لاہور کے سامنے بیان حلفی پر دستخط کیے گئے اور اس مقصد کے لیے نواز شریف نے اپنی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں رجسٹرار ہائی کورٹ کے سامنے دستخط کیے۔ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے چار صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کیا۔ دو رکنی بنچ نے نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک مشروط اجازت دینے کی درخواست باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کر لی۔ لاہور ہائی کورٹ کا تحریری فیصلہ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کا نام غیر مشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کے لیے تحریری حکم جاری کیا۔ دو رکنی بنچ نے فیصلے میں پانچ قانونی نکات ترتیب دیے جن پر آئندہ سماعت پر بحث ہو گی۔ بینچ نے یہ نکات اٹھائے کہ کیا کسی سزا یافتہ مجرم کا نام ای سی ایل میں شامل یا نکالا جاسکتا ہے؟ کیا وفاقی حکومت ایگزٹ کنٹرول لسٹ کے قانون کے تحت کوئی شرائط عائد کر سکتی ہے؟ کیا وفاقی حکومت کسی شدید علیل سزا یافتہ شخص کے بارے میں انسانی بنیادوں پر شرائط والے احکامات جاری کر سکتی ہے؟ وفاقی حکومت نے جو شرائط عائد کی ہیں کیا اس سے ضمانت اور سزا معطلی کے احکامات کو تقویت ملے گی؟ اور حکومتی میمورنڈم میں عائد شرائط الگ الگ کیا جاسکتا ہے؟ سماعت میں کیا ہوا؟ لاہور ہائی کورٹ نے لگ بھگ چھ گھنٹے تک سماعت کی جس کے دوران چار مرتبہ وقفہ ہوا۔ دو رکنی بنچ نے قرار دیا کہ تمام دن کی سنجیدہ کوششوں کے باوجود فریقین میں اتفاق رائے نہ ہو سکا۔ لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف اور ان کے بھائی شہباز شریف کے بیان حلفی کو عدالتی فیصلے کا حصہ بناتے اس میں شامل کیا۔ نواز شریف کا نام مشروط طور پر ای سی ایل سے نکالنے کے حکومتی فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت جنوری سنہ 2020 کے تیسرے ہفتے میں ہو گی۔ بیان حلفی نواز شریف نے عدالتی حکم پر رجسٹرار ہائی کورٹ کی موجودگی میں بیان حلفی پر دستخط کیے اور تحریری یقین دہانی کرائی کہ وہ چار ہفتوں یا پھر اپنے ڈاکٹر کے مکمل صحت مند قرار دینے پر ملک واپس آئیں گے اور اپنے بھائی شہباز شریف کی یقین دہانی پر عمل کرنے کے پابند ہوں گے۔ شہباز شریف نے بھی اپنے بیان حلفی میں یقین دہانی کرائی کہ نواز شریف چار ہفتوں میں واپس آئیں گے یا جب ان کے ڈاکٹر انھیں صحت مند قرار دیں۔ شہباز شریف نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ وہ نواز شریف کی سفارت خانے سے تصدیق شدہ میڈیکل رپورٹ رجسٹرار لاہور ہائی کورٹ بھجواتے رہیں گے اور اگر وفاقی حکومت کو مصدقہ اطلاع ملے کہ نواز شریف بیمار نہیں ہیں تو پاکستانی ہائی کمیشن کا نمائندہ ان کے معالج سے مل کر صحت کی تصدیق کر سکے گا۔ ’عدلیہ کے شکر گزار ہیں‘ عدالتی فیصلے کے بعد شہباز شریف نے میڈیا کو بتایا کہ نوازشریف کو علاج کی اجازت مل گئی ہے، عدالت نے نوازشریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا جس پر ان کے شکر گزار ہیں۔ ’قوم کی بیٹیوں، ماؤں کارکنوں اور میری والدہ کی دعائیں قبول ہو چکی ہیں، نوازشریف کے علاج میں جو رکاوٹیں حائل تھیں وہ اب دور ہو چکی ہیں۔ نوازشریف علاج کروا کر واپس آئیں گے۔ حکومتی ردعمل وزیر اعظم عمران خان کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کا جائزہ لے کر حکومت فیصلے کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ بابر اعوان نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ عدالتی فیصلہ ہے، اسے تسلیم کرتے ہیں۔ سینیٹر فیصل جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ فیصلہ چیلنج کرنے سے متعلق کابینہ میں مشاورت کی جائے گی۔ اٹارنی جنرل انور منصور خان نے کہا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ عارضی بنیادوں پر ہے، عدالت نے جو پانچ سوالات کیے ہیں ان کا تفصیلی جائزہ ابھی لیا جانا باقی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور پھر کابینہ ہی فیصلہ کرے گی کہ اسے چیلنچ کرنا ہے یا نہیں۔ اس سے قبل عدالت نے اپنے تیار کردہ مسودے میں نواز شریف کو بیرون ملک علاج کے لیے چار ہفتے کا وقت دینے کی تجویز دیتے ہوئے وفاقی حکومت اور شہباز شریف کے وکلا کو اپنا مسودہ دیا تھا۔ مسودے کے مطابق حکومتی نمائندہ سفارت خانے کے ذریعے نواز شریف سے رابطہ کر سکے گا۔ عدالت نے وفاقی حکومت اور شہباز شریک کے وکلا کو مجوزہ مسودہ فراہم کر دیا ہے۔ اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل دو رکنی بینچ نے شہباز شریف سے تحریری یقین دہانی کا مسودہ طلب کیا تھا۔ جواب میں شہباز شریف کی جانب سے عدالت میں تحریری یقین دہانی کا مسودہ پیش کیا گیا کہ نواز شریف علاج کے بعد وطن واپس آئیں گے، تاہم حکومتی وکیل نے اس پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد عدالت نے فیصلہ کیا کہ وہ اس حوالے سے مسودہ خود تیار کر کے فریقین کے وکلا کو دے گی۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کیا کہ نواز شریف کی صحت سے متعلق ہفتہ وار رپورٹ مل سکے گی جس پر ان کے وکیل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ برطانیہ میں ہفتہ وار رپورٹ دینے کا کوئی رواج نہیں ہے۔ سنیچر کو ہونے والی عدالتی کارروائی کا تفصیلی احوال لاہور ہائی کورٹ نے نواز شریف کی بیرون ملک جانے کی درخواست پر تقریباً چھ گھنٹے سماعت کی اور چار مرتبہ وکلا کو مشاورت کے لیے وقفہ کیا۔ شہباز شریف سماعت کے دوران مسلسل کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ ان کے وکلا نے نشاندہی کی کہ اینڈیمنٹی بانڈز کی شرط غیر آئینی اور قانون کے منافی ہے۔ وفاقی حکومت کے وکیل اشتیاق اے خان نے اس کی بھرپور مخالفت کی اور جواز پیش کیا کہ اگر نواز شریف واپس نہ آئے تو جرمانہ کون ادا کرے گا۔ لاہور ہائی کورٹ نے تفصیلی سماعت کے بعد چار نکات پر مشتمل مسودہ تیار کیا۔ جسے مسلم لیگ ن نے تو تسلیم کرلیا لیکن وفاقی حکومت کے وکیل نے اعتراض اٹھایا کہ اس میں گارنٹی کی کوئی شق شامل نہیں کی گئی۔ عدالت نے اسی ڈرافٹ کے تحت نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دی۔ دوران سماعت شہباز شریف کے وکلا کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی واپسی کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ان کی صحت ایک ہفتے میں بھی ٹھیک ہو سکتی ہے اور زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے۔ شہباز شریف روسٹرم پر آئے تو عدالت نے ان سے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے؟ جس پرشہباز شریف نے جواب دیا ’انشاءاللہ‘۔ عدالت نے شہباز شریف سے پوچھا کہ آپ کا انھیں ملک واپس لانے میں کیا کردار ہو گا؟ جس پر شہباز شریف نے بتایا کہ میں ان کے ساتھ بیرون ملک جا رہا ہوں اور وہ علاج کے بعد واپس آئیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ وہ نواز شریف کی واپسی سے متعلق تحریری یقین دہانی دینے کو تیار ہیں۔ اس پر عدالت نے یقین دہانی کا مسودہ طلب کر لیا اور قرار دیا کہ عدالت مسودے کی تحریر دیکھ کر اس حوالے سے اپنا فیصلہ صادر کرے گی۔ شہباز شریف کی جانب سے عدالت میں تحریری یقین دہانی جمع کروا دی گئی جس میں لکھا گیا کہ ڈاکٹروں کی جانب سے نواز شریف کی صحت یابی کا سرٹیفیکیٹ ملتے ہی وہ وطن واپس آ جائیں گے۔ نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف کے خلاف سنہ 2017 میں تین ریفرنس فائل کیے گئے اور اس وقت نواز شریف بیرون ملک تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ احتساب عدالت نے انھیں ریفرنس میں پیش ہونے کا حکم دیا تو نواز شریف عدالتی حکم پر پیش ہوئے اور کبھی عدالت سے دانستہ طور پر دور نہیں رہے۔ امجد پرویز نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنی اہلیہ کو بیماری کی حالت میں چھوڑ کر پاکستان آئے اور کیسز کا سامنا کیا۔ نواز شریف اور ان کی بیٹی کو ایون فیلڈ کیس میں سزا ہوئی، دونوں واپس پاکستان آئے اور سزا بھگتی۔ اس سے قبل عدالت میں وفاقی حکومت کے وکیل ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتیاق اے خان نے یہ پیش کش کی کہ اگر انڈیمنٹی بانڈز وفاقی حکومت کے بجائے عدالت میں جمع کروا دیے جائیں تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ اس موقع پر عدالت نے استفسار کہ کیا نواز شریف ضمانت کے طور پر کچھ دینا چاہتے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد درخواست گزار کے وکیل کو مشورہ کے لیے 15 منٹ کا وقت دیتے ہوئے سماعت مختصر وقفے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما بشمول شہباز شریف، پرویز رشید، امیر مقام، جاوید ہاشمی اور دیگر کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ حکومتی استدعا رد اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے حکومتی استدعا کو رد کرتے ہوئے شہباز شریف کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو قابل سماعت قرار دیا تھا۔ یہ درخواست پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے دائر کی گئی تھی۔ شہباز شریف نے جمعرات کو لاہور میں پارٹی اجلاس کے بعد منعقدہ پریس کانفرنس میں حکومت کی مشروط اجازت کو عدالت میں چیلینج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کی جانب سے دائرہ کردہ درخواست میں وفاقی حکومت وزارت داخلہ اور چیئرمین نیب کو فریق بنایا گیا تھا۔ اس درخواست میں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے زرِ تلافی کا بانڈ جمع کروانے کے احکامات کو چیلنج کیا گیا تھا۔
070710_operation_update_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/07/070710_operation_update_fz
عبدالرشیدغازی ہلاک، آپریشن جاری
بچی کو کیا جواب دوں؟ میرے بچے مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ ابو یہ اتنی فائرنگ اور دھماکے کی آوازیں اور یہ مرنے والے کون ہیں۔ اب میں انہیں کیا بتاؤں کہ مرنے والوں نے کیا مطالبات کیے ہیں اور مارنے والوں نے بش بھائی کی خدمت کا بیڑا کیوں اٹھایا ہوا ہے۔ فی الحال میں جمعہ سے دفتر نہیں جا سکا ہوں اور اس وقت میرے اپنے گھر میں کھانے کی چیزیں بالکل ختم ہونے کے قریب ہیں۔ مظفر حسین، اسلام آبادآنکھوں دیکھا حال: کلک کریںوزارتِ داخلہ نے تصدیق کی ہے کہ منگل کی صبح شدت پسندوں کے خلاف شروع ہونے والے فوجی آپریشن میں لال مسجد کے نائب مہتمم غازی عبدالرشید ہلاک ہوگئے ہیں۔ گزشتہ پندرہ گھنٹے سے جاری اس آپریشن میں حکام کے مطابق اب تک ایک کپتان سمیت آٹھ فوجی جوانوں اور پچاس افراد کے ہلاک ہونے کی تصدیق کی ہے۔ اکاون شدت پسندوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ آپریشن کے دوران 29 فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکی کہ کتنے سویلین اس کارروائی میں زخمی ہوئے ہیں اگرچہ ان کی تعداد پچاس سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔
اس سے قبل پاکستان فوج کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ لال مسجد میں کتنے غیر ملکی شدت پسند تھے۔ انہوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ حکومت نے یہ آپریشن پاکستان سے باہر کسی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا۔ اپنی پہلی بریفنگ میں انہوں نے بتایا تھا کہ آپریشن کے شروع ہونے کے بعد سے ستائیس بچے باہر آ چکے ہیں۔ جامعہ حفصہ سے باہر آنے والی ستائیس خواتین جنہوں نے خود کو حُکام کے حوالے کیا ہے اُن میں مولانا عبدالعزیز کی اہلیہ اور جامعہ حفصہ کی سربراہ اُم حسان بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا ابھی مزید بچے اور خواتین تہہ خانوں میں موجود ہیں جس کی بنا پر سیکیورٹی فورسز کو انتہائی محتاط انداز میں آگے بڑھنے کو کہا گیا ہے۔ آخری اطلاعات آنے تک پاک فوج میجر جنرل وحید ارشد نے بتایا کہ مسجد اور مدرسے میں مورچہ بند شدت پسندوں کے پاس راکٹ لانچروں اور دستی بموں سمیت ہر قسم کے ہتھیار موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جامعہ حفصہ میں پچہتر کمرے اور تہہ خانے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہر کمرے، برامدے اور تہہ خانے سے مزاحمت ہو رہی ہے۔ مسجداور مدرسے کے خلاف آپریشن کو سرکاری طور پر ’آپریشن سائلنس‘ کا نام دیا گیا تھا جس کے دوران وفاقی دارالحکومت شدید فائرنگ اوردھماکوں کی آوازوں سے گونجتا رہا۔ اس فوجی آپریشن کے دوران لال مسجد اور چار منزلوں پر مشتمل جامعہ حفصہ کی عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ صبح چار بجے شروع کیئے جانے والے اس آپریشن میں جو آخری اطلاعات آنے تک جاری ہے زخمی ہونے والوں کی حتمی تعداد معلوم نہیں ہو سکی ہے۔ ادھر حکام نے صحافیوں کے راولپنڈی اور اسلام آباد کے ہسپتالوں میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔ تاہم بڑی تعداد میں ایمبولینسوں کے ذریعے ہلاک اور زخمی ہونے والوں کو ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ دونوں شہروں کے تمام ہپستالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور اسلام آباد کے ہپستالوں میں عام مریضوں کو بھی آنےنہیں دیا جا رہا۔ ہسپتال جانے والے صحافیوں کے مطابق انہیں بتایا گیا ہے کہ اگر میڈیا کے کسی شخص کو ہسپتال میں دیکھا گیا تو اسے گولی مار دی جائے گی۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے علاقے میں بدستور کرفیو نافذ ہے اور منگل کی صبح کرفیو میں نرمی کے وقفے کو بھی منسوخ کر دیا گیا۔ آپریش شروع ہونے کے بعد مسجد اور مدرسے کے احاطے سے بیس کے قریب بچے نکل کر بھاگے تھے جنہیں سکیورٹی فورسز نے اپنی حفاظت میں لے لیا تھا۔ لال مسجد اور حکومت کے درمیان گزشتہ رات اس وقت مسئلے کا مذاکرات کے ذریعے حل نکلنے کی امید پیدا ہو گئی تھی جب سابق وزیر اعظم چودھری شجاعت حسین کی قیادت میں ایک وفد نے علماء کے ذریعے مسجد اور مدرسے کے مہتمم عبدالرشید غازی سے بات چیت شروع کی تھی۔ سوموار کو رات گئے حکومتی وفد نے عبدالرشید غازی سے بات چیت کے بعد صدر جنرل پرویز مشرف سے بھی ملاقات کی تھی۔ تاہم رات کسی وقت مذاکرات ناکام ہوگئے جس کے بعد منگل کی صبح چار بجے کے قریب فوجی آپریشن کا فیصلہ کن دور شروع ہوگیا۔ (ہارون رشید، نیئر شہزاد، محمداشتیاق، اعجاز مہر)
150422_yemen_saudi_arab_ak
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/04/150422_yemen_saudi_arab_ak
ابھی تو پارٹی شروع ہوئی تھی
یہ تو بہت اچھا ہو گیا کہ سعودی قیادت میں خلیجی فوجی اتحاد نے یک طرفہ جنگ یک طرفہ طور پر روک دی۔ مگر یہ کون بتائے کہ کیوں روک دی گئی جبکہ اقوامِ متحدہ ، عرب لیگ ، امریکہ ، برطانیہ اور متعدد مسلمان ممالک نے بھی یہ کہتے ہوئے دستِ تعاون بڑھا دیا تھا کہ سعودی اتحاد جو کر رہا ہے ٹھیک کر رہا ہے۔
اب سعودی وزارتِ دفاع نے اعلان کردیا ہے ملک کو لاحق خطرہ ٹل گیا ہے ( ابھی تو پارٹی شروع ہوئی تھی۔۔۔۔) لگ بھگ ایک ماہ پہلے یمن پر پہلا بم پھینکتے ہوئے کہا گیا تھا کہ سعودی مملکت بالخصوص مقاماتِ مقدسہ کو لاحق خطرے کو غیر موثر بنانا ہے، صدر منصور ہادی کی جائز حکومتی رٹ بحال کرانی ہے اور حوثی قبائلیوں کو دارالحکومت صنعا اور بندرگاہ عدن سمیت تمام علاقوں سے پیچھے دھکیلنا ہے جن پر انھوں نے گذشتہ ستمبر سے غیرقانونی قبضہ کر رکھا ہے۔ مگر اب سعودی وزارتِ دفاع نے یکایک اعلان کر دیا کہ ملک کو لاحق خطرہ ٹل گیا ہے ، باغیوں کی مسلح کمر ٹوٹ گئی ہے اور جو اہداف حاصل کرنے تھے ہو گئے ہیں۔ لہٰذا اب آپریشن فیصلہ کن طوفان ختم اور آپریشن بحالیِ امید شروع۔ یعنی مذاکرات ، یمن کی تعمیرِ نو اور وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ یہ کارروائی، جس میں لگ بھگ ایک ارب ڈالر کے خرچے سے کم ازکم پانچ سو سے زائد یمنی ’ہلاک‘ اور درجن سے بھی کم سعودی ’شہید‘ ہوئے۔ سعودی شہدا کے ورثا کو تو سرکار کی طرف سے ایک ایک ملین ریال مل جائیں گے، یمنیوں کو کیا ملے گا؟ آخر یہ بارودی مشق کسے دکھانے، بتانے، جتانے کے لیے تھی؟ بمباری روکے جانے سے دو روز قبل صدر اوباما اور شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے درمیان جو ٹیلی فونک گفتگو ہوئی کیا یہ اس کا چمتکار تو نہیں؟ یا سعودی عرب کو بھی لگنے لگا کہ بمباری کا زیادہ زمینی فائدہ صدر ہادی منصور یا خود سعودیوں کے بجائے یمنی القاعدہ کو ہو رہا ہے۔ القاعدہ کے بھاگوں چھینکا ٹوٹنے کے بعد پچھلے تین ہفتے میں اس نے نہ صرف ایک جیل تڑوا کے اپنے سینکڑوں حامی آزاد کروا لیے بلکہ ایک اور صوبے (حدرموت) تک اپنا اثر و نفوذ پکا کر لیا۔ یا سعودی قیادت بالآخر اس نتیجے پر پہنچ گئی کہ صدر ہادی منصور کے وفادار دستوں میں دم خم نہیں اور وہ چلے ہوئے کارتوس ہیں۔ چنانچہ مزید لاحاصل کارروائی سے بہتر ہے کہ مہمان صدر کو جدہ کے سرور پیلس منتقل ہونے کا مشورہ دیا جائے جو ان دنوں خالی پڑا ہے۔ (اہلِ جدہ عیدی امین مرحوم ، سوڈان کے اپوزیشن لیڈر عثمان المرغانی، تیونس کے معزول صدر زین العابدین بن علی اور نواز شریف کے ناموں سے تو پہلے ہی اچھے سے واقف ہیں) سعودی وزارتِ دفاع نے اعلان کردیا ہے کہ باغیوں کی مسلح کمر ٹوٹ گئی ہے یا اس مہم جوئی کا مقصد امریکہ کو جتانا تھا کہ اب خلیجی ریاستیں اتنی عاقل بالغ ہوگئی ہیں کہ اپنے فیصلے خود کر سکیں۔ یا اصل ہدف یہ تھا کہ غریب یمن کی پٹائی کر کے ایران کو بتایا جائے کہ بھائی صاحب ذرا سنبھل کے، اب بہت ہو گیا۔ (ایسی سچویشن کے لیے کہاوت ہے: ’بیٹی کو پیٹو تاکہ بہو الف ہو جائے‘) یا اس جنگی ورزش کا مقصد سعودی عرب کے تیل سے مالامال مشرقی صوبوں کی شیعہ اقلیت کو پیغام دینا تھا کہ کسی کے بہکاوے میں آنے سے پہلے دس بار سوچ لینا۔ یا پھر عام سعودی رعایا پر ثابت کرنا تھا کہ شاہی حکومت کو ہلکا مت لینا۔ آج بھی ویسا ہی دم خم ہے۔۔۔ یا پھر سعودی عرب کے لیے خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے کے دعوےدار دوستوں کی آزمائش مقصود تھی۔ (مجھے آج تک سمجھ میں نہیں آیا کہ آخرسب خون کا آخری قطرہ ہی کیوں بہانا چاہتے ہیں؟ پہلا قطرہ کون بہائے گا؟) یا سارا جوکھم یوں اٹھایا گیا کہ بیکار بیٹھنے سے بہتر ہے کہ لگے ہاتھوں وہ مہنگے مہنگے ہتھیار ہی ٹیسٹ کر لیے جائیں جو ریاستی دبدبے کے زنگ سے پاک شو کیس میں پڑے پڑے برسوں سے اونگھ رہے ہیں۔ یا پھر حوثیوں، ایران اور سعودی قیادت کے درمیان امریکہ اور اومان سمیت کسی بچولیے وغیرہ کی مدد سے کوئی درپردہ وٹا سٹا ہو گیا کہ یوں اچانک بمبار اڑانیں روک دی گئیں؟ جو بھی مقصد یا مقاصد ہوں گے ان میں کم از کم یہ ہدف شامل نہیں تھا کہ اسرائیل کو کوئی فالتو کی چیتاونی دی جائے۔ اگر سعودی عرب کے بعد اس جنگ بندی کی سب سے زیادہ خوشی ہے تو یقیناً پاکستانی حکومت کو ہے۔ ساتھ ہی یہ جھنجھلاہٹ بھی دامن گیر ہوگی کہ اگر جنگ ایسی اور اتنی ہی ہونی تھی تو خواہ مخوا پارلیمنٹ کو بیچ میں ڈالنے اور خلیجی بھائیوں کو خفا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ مگر مختلف شہروں میں تحفظِ حرمین شریفین کے لیے جلوس نکالنے والوں اور ’بچہ بچہ کٹ مرے گا‘ ٹائپ بیانات دینے والے احباب کو مایوسی ہوئی ہو گی۔ حالانکہ ان چیتوں کا جذبہِ قربانی خاکسار تحریک کے ان بیلچہ برداروں سے کچھ کم نہیں جو اسرائیل کے قیام کے فوراً بعد لاہور کی مال روڈ پر دو قطاروں میں پریڈ کرتے ’لبیک یا فلسطین‘ پکارتے چلے جا رہے تھے کہ کسی منچلے نے باآوازِ بلند مشورہ دیا: ’اے بیڈن روڈ ولوں ہو لئو، ایتھوں اسرائیل نیڑے پئو گا۔‘
070409_bollywood_diary_rs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/04/070409_bollywood_diary_rs
بالی وڈ ڈائری: ایش کی شادی اور شاہ کی دیوانی
پرتیکشا کی سجاوٹجیسے جیسے بالی وڈ کے مشہور جوڑے ایب اور ایش کی شادی کے دن قریب آ رہے ہیں، تیاریاں زور پکڑتی جا رہی ہیں۔ جوہو میں واقع بنگلہ پرتیکشا کے درو دیوار کی صفائی رنگ و روغن جاری ہے۔ منڈپ باندھا جا رہا ہے۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن سنا گیا ہے کہ اس انتہائی سادگی کے ساتھ ہونے والی شادی میں میڈیا سے کسی کو مدعو نہیں کیا گیا اور تو اور بگ بی نے اپنے پڑوسیوں کو بھی بذات خود فون کر کے گزارش کی ہے کہ وہ اپنے یہاں کسی فوٹو گرافر کو آنے نہ دیں کیونکہ ان کی گھر کی چھت سے پرتیکشا بنگلہ کا نظارہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ اب یہ تو زیادتی ہوئی ناں! جو میڈیا آپ کو سر آنکھوں پر بٹھا کر رکھتا ہے اس کے ساتھ یہ سلوک کم سے کم بگ بی کو زیب نہیں دیتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟
شادی کے لباسایش کی ماں اپنے داماد اور سمدھی کے لیے کلکتہ کی ڈیزائنر شریری دتہ سے کپڑے ڈیزائن کروا رہی ہیں۔ دتہ انڈیا میں شیروانی ،کرتے، اچکن بنانے کے لیے مشہور ہیں۔ بگ بی نے ممبئی کی نامور کمپنی کے سنس کو ایب کی شیروانی تیار کرنے کا آرڈر دیا ہے جو بنارس میں چار سو سال سے سونے کے تاروں سے لباس تیار کرنے والے گھرانے سے شیروانی تیار کرا رہے ہیں۔ ایش کے لیے ان کی اپنی قریبی دوست اور ڈیزائنر نیتا للا شادی کا لباس تیار کر رہی ہیں۔ ایش کا نام کیا ہو گا؟جی ہاں اب ایک اور سوال لوگوں کے ذہن میں ہے کہ کیا ایش شادی کے بعد اپنا نام بدل دیں گی۔ نام کیا ہوگا؟ ایشوریہ بچن یا ایشوریہ رائے بچن؟ بگ بی کا کہنا ہے کہ نام کیا ہوگا، اس کی آزادی انہوں نے اپنی بہو کو دے رکھی ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ایش اپنا نام ایشوریہ رائے بچن رکھیں کیونکہ ان کے والد کا نام بھی ہری ونش رائے بچن تھا۔ اسے کہتے ہیں خاندانی نام۔ شاہ رخ کی دیوانیویسے تو لاکھوں کروڑوں نوجوان دل شاہ رخ کے لیے دھڑکتے ہوں گے لیکن حال ہی میں ڈھاکہ کی ایک سبکدوش ٹیچر کی کنگ خان کے لیے دیوانگی دیکھنے کے قابل تھی۔ کوالالمپور میں ایوارڈ فنکشن میں آئے کنگ خان کے لیے سعدیہ شیخ ہوٹل کے چکر لگا رہی تھیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ خان ایک مرتبہ انہیں گلے لگا لیں۔ ہوٹل سے ائیر پورٹ جانے کے لیے خان کار میں بیٹھنے لگے تو شیخ نے انہیں آواز دی۔ خان نے ہوائی بوسہ دیا لیکن شیخ گلے ملنے کے لیے بضد تھیں۔ وہ کار کے سامنے لیٹ گئیں۔ بڑی مشکل سے انہیں ہٹایا گیا اور شیخ نے قسم کھائی کہ وہ اپنی خواہش پوری کر کے رہیں گی۔اف یہ جنون! بے بو کی قسمتبے بو فلم ’قسمت ٹاکیز‘ میں اب کام نہیں کریں گی کیونکہ رتیک نے ان کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ ہیری بویجا کی فلم لو سٹوری میں کرینہ نے کام سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ شاہ رخ کے ساتھ رامو کی فلم ’ٹائم مشین‘ میں کام کرنا چاہتی تھیں۔ اب رامو ٹائم مشین نہیں بنا رہے ہیں اور کرینہ بیچاری نہ ادھر کی رہیں نہ ادھر کی۔ اس لیے پرکشش اور اب ہاٹ کرینہ کپور کے پاس کبھی فلموں کی لائن ہوا کرتی تھی آج فلمیں ہی نہیں ہیں۔ کرینہ کو کون سمجھائے کہ زیادہ دن تک اپنے ناظرین سے دور رہنا اور صرف آئٹم رقص ہی کرنے سے ان کا امیج خراب ہو سکتا ہے۔ سلو کی سفارشسلو بھیا آج کل اپنی ’لیڈی لو‘ کی سفارش کرنے سے نہیں چوکتے۔ سنا ہے کہ سبھاش گھئی سے اختلافات ہونے کے بعد سلو بھیا گھئی کی فلم یو راج میں کام کریں گے۔ لیکن اس فلم کی ہیروئین کے لیے سلو بھیا نے قطرینہ کا نام لے لیا۔ اب کسی بھی فلمساز کی اتنی ہمت نہیں کہ وہ سلو بھیا کی گزارش کو ٹھکرا دیں۔ وہ سب تو ٹھیک ہے لیکن سلو بھیا پھونک پھونک کر قدم رکھیے۔ آپ کو یاد ہے ناں کہ آپ نے کبھی کسی اور کے لیے بھی اسی طرح سفارشیں کی تھیں اور کامیابی کی سیڑھیاں چڑھنے کے بعد کہیں کوئی اور بھی آپ کو بھلا نہ دے۔ پچاس ٹن سفید ریتفلم ’جودھا اکبر‘ کے سیٹ پر ہدایت کار آشوتوش گواریکر نے جے پور سے پچاس ٹن سفید ریت منگا کر ڈالی ہے تاکہ فلم میں کھلے آسمان اور جے پور کا منظر حقیقی لگے لیکن اس چلچلاتی دھوپ اور گرمی میں گرم ریت پر چلنا ایش جیسی نازک اداکارہ کے لیے بہت مشکل ثابت ہو رہا ہے۔ بے بی کردار میں حقیقی رنگ بھرنے کے لیے یہ سب تو کرنا ہو گا۔ آپ کو یاد ہو گا مغلم اعظم میں مدھو بالا کو ایک منظر فلمانے کے لیے کے آصف نے تین دن تک صرف ایک گلاس دودھ پینے کے لیے دیا تھا۔ محبوبہ محبوبہاُرمیلا ماتونڈ کر نے آخر رامو کی فلم شعلے میں گیت ’محبوبہ‘ پر رقص مکمل کر لیا۔ اس رقص کے دوران ان کے ساتھ بگ بی اور ابھیشیک بچن تھے۔ اُرمیلا کا کہنا تھا کہ دو لیجنڈز کو نظروں میں رکھ کر یہ رقص کرنا ان کے لیے زندگی کایادگار پل تھا۔ دو لیجنڈ یعنی بگ بی اور ہیلن جی جنہوں نے پرانی شعلے میں یہ رقص کیا تھا۔ آپ کیا سمجھے تھے بگ بی اور۔۔۔ اوپین اور کنگنا کا دکھبیچارے اوپین اور کنگنا کو دکھ ہے کہ ان کی فلم ’شاکا لاکا بوم بوم‘ میں ہدایت کار سنیل درشن نے ان کے مکالمے ان کی آواز کے بجائے دوسرے فنکاروں کی آواز میں ڈب کیے۔ کنگنا سے زیادہ ہمیں اوپین کے ساتھ ہمدردی ہے، بیچارے اوپین نے ہندی سیکھنے کے لیے استاد بھی رکھا ہے اور اب وہ اچھی ہندی بول لیتے ہیں۔ عائشہ کی ناراضگیعائشہ آج کل اپنے فلمساز اور ہدایت کار دونوں سے ناراض ہیں۔ انہیں دکھ ہے کہ فلم ’ کیا لو سٹوری ہے‘ میں وہ ہیروئن ہیں لیکن ان سے زیادہ کرینہ کپور کی پبلسٹی ہو رہی ہے جنہوں نے فلم میں صرف ایک آئٹم رقص کیا ہے۔ دراصل عائشہ کو ڈر ہے کہ کہیں فلم ’ڈان‘ کی پرینکا کی طرح ان کا حشر نہ ہو جس میں کرینہ کے رقص نے لوگوں کے دل جیت لیے تھے۔ ڈینو موریا کی قسماداکار ڈینو موریا نے اب قسم کھائی ہے کہ وہ کسی لڑکی کے چکر نہیں پڑیں گے۔ لیٹ نائٹ پارٹی نہیں کریں گے اور اپنے کام پر دھیان دیں گے۔ زیادہ تر نئی ہیروئنوں کو ڈینو کے ساتھ عشق کے چرچوں کے بعد شہرت ملی اور وہ اپنا کریئر بناکے آگے نکل گئیں، بیچارے ڈینو وہیں رہ گئے۔ دیکھتے ہیں یہ قسم کب تک قائم رہتی ہے۔ ایک گھر کی تلاش کنگ خان کے ’قریبی‘ دوست کرن جوہر کو ایک گھر کی تلاش ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ جس گھر میں رہتے ہیں وہ اچھا نہیں ہے لیکن وہ ان کے دوست کے گھر کے قریب نہیں ہے ناں! کیا آپ ان کی مدد کر سکتے ہیں۔
060303_nuclear_uscongress
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2006/03/060303_nuclear_uscongress
جوہری معاہدے پر امریکہ میں تنقید
امریکہ کے صدر جارج بُش نے بھارت کے ساتھ جس متنازعہ جوہری معاہدے پر دستخط کیے ہیں اس پر امریکی کانگریس میں تنقید کی گئی ہے جس کی منظوری کے بغیر اس پر عمل نہیں کیا جا سکے گا۔
کانگریس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے اعلیٰ رہنماؤں نے کہا ہے کہ اس معاہدے سے ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک پر جو جوہری عزائم رکھتے ہیں دباؤ ڈالنے کی کوششیں متاثر ہوں گی۔ صدر بُش کی اپنی جماعت رپبلکن پارٹی کے ارکان نے بھی اس معاملے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امریکی انتظامیہ اس معاہدے کو بھارت کے ساتھ نئی شراکت کا اہم ستون سمجھتی ہے اور توقع کی جا رہی ہے کہ صدر بُش بھی بھارت سے پاکستان روانہ ہونے سے قبل یہی بات کریں گے۔ معاہدے کی رُو سے بھارت کو عسکری اور شہری پروگرام علیحدہ رکھنے کی ضمانت دینے اور محدود پیمانے پر عالمی مانیٹرنگ قبول کرنے پر امریکی جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔
sport-55945251
https://www.bbc.com/urdu/sport-55945251
پاکستان بمقابلہ جنوبی افریقہ: دوسرے دن کا کھیل ختم، جنوبی افریقہ کے 106 رنز پر چار کھلاڑی آؤٹ
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مڈل آرڈر بیٹسمین ناکام ہوجائیں تو ایسے میں بائیں ہاتھ سے بیٹنگ کرنے والے فہیم اشرف ٹیم کو مشکل صورتحال سے نکال کر لے جاتے ہیں ۔یہ منظر ہم پچھلے چند برسوں کے دوران متعدد بار دیکھ چکے ہیں۔
فہیم اشرف کے 78 رنز کی اننگز نے پاکستان کے سکور کو 272 تک پہنچایا جنوبی افریقہ کے خلاف راولپنڈی ٹیسٹ کے دوسرے دن بھی پاکستانی ٹیم کو اسی طرح کی صورتحال کا سامنا تھا جب صرف 149 رنز پر اس کی 5 وکٹیں گرچکی تھیں لیکن فہیم اشرف نے اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کی مدد سے پاکستان کا سکور 272 تک پہنچا دیا۔ فہیم اشرف کو اگر اپنے ان ساتھیوں سے مزید مدد مل جاتی تو وہ وہ اپنی 78 رنز ناٹ آؤٹ کی اننگز کو پہلی ٹیسٹ سنچری میں بدل سکتے تھے جو پہلے بھی دو بار قریب آکر ان سے دور ہوچکی ہے۔ دوسرے ٹیسٹ میچ کا تفصیلی سکور کارڈ یاد رہے کہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن کے اختتام پر جنوبی افریقہ نے 106 رنز بنائے ہیں جبکہ اس کے چار کھلاڑی پویلین واپس لوٹ چکے ہیں۔ 'نصیب میں لکھا ہوگا تو سنچری بھی بن جائے گی' فہیم اشرف کہتے ہیں ʹسنچری نہ ہونے کا افسوس ضرور ہوتا ہے لیکن میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر یہ میرے نصیب میں لکھی ہے تو ضرور ہوگیʹ۔ یاد رہے کہ فہیم اشرف نے سنہ 2018 میں آئرلینڈ کے خلاف ڈبلن میں اپنے ٹیسٹ کریئر کی ابتدا کی تھی اور آٹھویں نمبر پر 83 رنز کی ذمہ دارانہ اننگز کھیلی تھی۔ اس وقت بھی پاکستانی ٹیم 159 رنز پر چھ وکٹیں گنوا چکی تھی اور فہیم اشرف نے شاداب خان کے ساتھ ساتویں وکٹ کی شراکت میں 117 رنز کا اضافہ کیا تھا۔ دوسری مرتبہ فہیم اشرف سنچری کے قریب آکر اس وقت دور ہوئے جب گزشتہ دسمبر میں نیوزی لینڈ کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں انہیں جیمی سن نے صرف 9 رنز کی کمی سے تین ہندسوں تک نہیں پہنچنے دیا۔ اتفاق دیکھیے کہ اس اننگز میں بھی پاکستان کی چھ وکٹیں صرف 80 رنز پر گرچکی تھیں اور پھر فہیم اشرف نے محمد رضوان کے ساتھ سکور میں 107 رنز کا اضافہ کیا تھا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فہیم اشرف کو دباؤ میں اعتماد سے بیٹنگ کا فن آتا ہے۔ اس بارے میں وہ کہتے ہیں ʹفرسٹ کلاس کرکٹ میں متعدد بار میں اس صورتحال سے گزر چکا ہوں۔ میری دو فرسٹ کلاس سنچریاں آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے بنی ہیں۔ آپ پر کپتان کا بھی اعتماد ہوتا ہے جو آپ کی کارکردگی کو بہتر بنانے میں مدد دیتا ہےʹ۔ اس حقیقیت کے باوجود کہ فہیم اشرف تواتر کے ساتھ بیٹنگ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے آرہے ہیں وہ خود کو پہلے بولر اور پھر بیٹسمین سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہےʹ جب میرا کریئر ختم بھی ہورہا ہوگا اس وقت بھی میں یہی کہہ رہا ہوں گا کہ میں بولنگ آل راؤنڈر ہوں۔ بیٹنگ میری اضافی خصوصیت ہے۔ اس میں محنت کی ہے اس لیے اچھی پرفارمنس ہو رہی ہےʹ۔ فہیم اشرف یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ پاکستانی ٹیم کی ٹیل (ٹیل اینڈرز) لمبی ہے۔ وہ کہتے ہیںʹ مجھے نہیں لگتا کہ یہ ٹیل ہے۔ اگر آپ دیکھیں تو حسن علی، یاسر شاہ اور نعمان علی سب ہی نے رنز کر رکھے ہیں بلکہ مجھے تو یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ مجھ سے اچھا کھیل رہے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ کھیلتے ہوئے مجھے اعتماد محسوس ہوتا ہےʹ۔ فہیم اشرف کا کہنا ہے کہ حسن علی، یاسر شاہ اور نعمان علی سب ہی نے رنز کر رکھے اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ پاکستان کی ’ٹیل‘ لمبی ہے فہیم اشرف کا کہنا ہے ʹجب آپ نچلے نمبر کے بیٹسمینوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں تو آپ کی کوشش ہوتی ہے کہ جتنا زیادہ سکور کرسکتے ہیں وہ کرلیں تاکہ حریف ٹیم کو دباؤ میں لے سکیں۔ اب جو کرکٹ ہے اس میں آپ زیادہ دفاعی انداز اختیار نہیں کرسکتے اور جو بھی خراب گیند ملتے ہیں اس پر آپ نے اٹیک کرنا ہےʹ۔ فہیم اشرف کہتے ہیں ʹوکٹ سپنرز کے لیے مددگار ہوتی جا رہی ہے اور نعمان علی چونکہ اس گراؤنڈ پر فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلتے رہے ہیں لہذا وہ اپنے تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیںʹ۔ راولپنڈی ٹیسٹ: دوسرے دن کا کھیل ختم، جنوبی افریقہ کے 106 رنز پر چار کھلاڑی آوٹ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان سیریز کے دوسرے ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن کے اختتام پر جنوبی افریقہ نے 106 رنز بنا لیے جبکہ اس کے چار کھلاڑی پویلین واپس لوٹ چکے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی جانب سے ایڈن ماکرم اور ڈین ایلگار نے اننگز کا آغاز کیا۔ پہلے آوٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی ڈین ایلگار تھے جو کہ حسن علی کی گیند پر کیپر رضوان کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس کے بعد اگلی ہی گیند پر ہی راسی وان ڈرڈیوسن کو حسن علی نے کلین بولڈ کر دیا۔ آؤٹ ہونے والے تیسرے کھلاڑی فاف ڈوپلسی تھے۔ چوتھے آؤٹ ہونے والے کھلاڑی ایڈن ماکرم ہیں جو نعمان علی کی گیند پر ایک آسان کیچ تھما بیٹھے۔ حسن علی نے اب تک جنوبی افریقہ کی دو وکٹیں حاصل کی ہیں اس سے پہلے پاکستان نے اپنی اننگز 272 رنز پر مکمل کی تھی۔ پاکستان کی جانب سے فہیم اشرف 78 رنز پر ناٹ آؤٹ رہے ہیں۔ دوسرے دن کے آغاز پر پہلے اوور میں ہی بابر اعظم انریچ نورتہے کی گیند پر دوسری سلپ میں کیچ آؤٹ ہوگئے۔ اس کے بعد فواد عالم 45 کے انفرادی سکور پر رن آوٹ ہوگئے اور گذشتہ روز شاندار شراکت بنانے والے دونوں پاکستانی بلے باز آج صبح جلد ہی آؤٹ ہوگئے۔ ان دو جھکٹوں کے بعد فہیم اشرف اور محمد رضوان نے 41 رنز کی شراکت کی تاہم وکٹ کیپر رضوان 18 کے انفرادی سکور پر آؤٹ ہوگئے۔ محمد رضوان کے آؤٹ ہونے کے بعد فہیم اشرف نے ٹیم کے آخری کھلاڑیوں کے ساتھ ذمہ دارانہ کھیل پیش کرتے ہوئے مجموعی طور پر ٹیم کے سکور میں 82 رنز کا اضافہ کیا۔ پہلے دن کھیل کے اختتام پر پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر 145 رنز بنائے تھے۔ پہلے دن چائے کے وقفے کے بعد بارش کی وجہ سے میچ کو روکنا پڑ گیا اور دن کا تیسرا سیشن نہیں کھیلا جا سکا تھا۔ بابر اعظم نے اپنی نصف سنچری مکمل کی اور فواد عالم کے ساتھ مل کر ان دونوں نے کے درمیان 123 رنز کی شراکت ہوئی۔ راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے بارے میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میچ سے پہلے یہاں کھیلے گیے دس ٹیسٹ میچوں میں سے پانچ میں جیتنے والی ٹیم کی کامیابی ایک اننگز کے فرق سے زیادہ مارجن سے تھی۔ ان دس میچوں میں صرف ایک مرتبہ پہلے بیٹنگ کرنے والی ٹیم کامیاب رہی ہے، 6 مرتبہ دوسری بیٹنگ کرنے والی ٹیم جیتی اور تین میچ برابر رہے۔ اس گراؤنڈ پر پہلی اننگز کا اوسط سکور 299 رنز ہے جبکہ دوسری اننگز کا اوسط سکور 398 ہے۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ کیا ہے تو پہلے دن کے پہلے سیشن میں ہی ٹیم کے ٹاپ تین بلے باز ناکام ہو کر پویلین لوٹ آئے۔ جنوبی افریقہ کے کپتان کوئنٹن ڈی کاک نے ٹیسٹ میچ کے پہلے دن ساتویں اوور میں ہی سپنر کیشو ماہراج کو متعارف کروا دیا اور بظاہر یہ حکمتِ عملی کامیاب رہی ہے۔ پاکستان کی جانب سے عابد علی اور عمران بٹ نے اننگز کا آغاز کیا ہے۔ اپنا دوسرا میچ کھیل رہے عمران بٹ پاکستان کی جانب سے آؤٹ ہونے والے پہلے کھلاڑی تھے۔ وہ 15 کے انفرادی سکور پر کیشو ماہراج کی گیند پر کوئنٹن ڈی کاک کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ اس ٹیم میں پاکستان کے سب سے تجربہ کار بلے باز اظہر علی آج صفر کے سکور پر ہی ایل بی ڈبلیو ہوگئے۔ اظہر علی کی وکٹ بھی کیشو ماہراج نے لی۔ آؤٹ ہونے والے تیسرے کھلاڑی عابد علی تھے جو کہ انریچ نورتہے کی گیند پر ماکرم کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ کھانے کے وقفے تک پاکستان نے تین وکٹوں کے نقصان پر 63 رنز بنائے تھے۔ یاد رہے کہ پاکستان نے سیریز کے پہلے کرکٹ میچ میں جنوبی افریقہ کو سات وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں ایک صفر کی ناقابلِ شکست برتری حاصل کر لی تھی۔ بحیثیت کپتان اپنے پہلے ٹیسٹ میں جیت سے ہمکنار ہونے والے بابر اعظم اس کامیابی کو پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے بڑی اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستانی ٹیم صرف اپنے ہوم گراؤنڈ پر ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی ٹیسٹ میچز جیتے۔ بابر اعظم نے کراچی ٹیسٹ کے اختتام پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ نیوزی لینڈ کے دورے میں شکست کے بعد یہ سیریز پاکستانی ٹیم کے نقطہ نظر سے بڑی اہمیت کی حامل ہے اور یہ جیت ہمارے لیے بہت ضروری تھی۔ پاکستان کی ٹیم: عابد علی، عمران بٹ، اظہر علی، بابر اعظم، فواد عالم، محمد رضوان، فہیم اشرف، حسن علی، تعمان علی، یاسر شاہ، اور شاہین آفریدی جنوبی افریقہ کی ٹیم: ڈین ایلگر، ایڈن مکرم، راس وین ڈاڈیوسن، فاف ڈو پلسی، ٹیمبا باوما، کوئنٹن ڈی کاک، جارج لد، کیشو ماہراج، کاگیسو ربادا، انریچ نورتہے، اور ویان ملڈر
051113_shoaib_inzimam
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/11/051113_shoaib_inzimam
’شعیب یہ کیا کررہے ہو؟‘
انضمام الحق اور شعیب اختر کے سرد تعلقات کی ایک اور مثال ملتان ٹیسٹ کے پہلے دن اس وقت سامنے آئی جب کھیل ختم ہونے کے بعد پاکستانی کپتان نے فاسٹ بولر کو گراؤنڈ میں ایک ٹی وی چینل کے لیے انٹرویو ریکارڈ کراتے دیکھا تو انہیں ڈریسنگ روم سے آواز دے کر اپنے پاس بلالیا اور کہا ’یہ کیا کررہے ہو؟‘
اس بحث میں کوچ باب وولمر بھی شریک ہوگئے۔ دونوں کو اس بات پر اعتراض تھا کہ چونکہ کوئی بھی کھلاڑی بغیر اجازت انٹرویو نہیں دے سکتا لہذا شعیب بھی ایسا نہیں کرسکتے۔اس پر شعیب نے ان سے کہا کہ وہ کرکٹ بورڈ کی اجازت سے غیرمتنازعہ انٹرویو دے سکتے ہیں جس کے بعد وہ ڈریسنگ روم سے باہر آگئے۔ اس سیریز کے دوران انضمام الحق نے بھی ایک ٹی وی چینل سے روزانہ تبصرہ کرنے کا معاہدہ کیا ہے۔ شعیب اختر سے معاہدہ کرنے والے ٹی وی چینل کا تعلق بھی دبئی سے ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انگلینڈ کے خلاف سیریز کے موقع پر کسی میڈیا افسر کا تقرر نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے مقامی صحافیوں کو کھلاڑیوں کے انٹرویو کے سلسلے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ کھیل کے اختتام پر کسی پاکستانی کھلاڑی کی کوئی باقاعدہ پریس کانفرنس نہیں ہوتی جبکہ دوسری جانب انگلینڈ کا کوئی نہ کوئی کرکٹر روزانہ اپنے میڈیا مینیجر کے توسط سے میڈیا کے سامنے پیش ہوتا ہے۔
040513_pollocpainting_nj
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2004/05/040513_pollocpainting_nj
پولک کی پینٹنگ ریکارڈ قیمت
جیکسن پولوک کی ایک پینٹنگ نیو یارک کی ایک نیلامی میں 66 لاکھ 20 ہزار پاؤنڈز میں فروخت ہوئی ہے جو کہ ایک ریکارڈ ہے 1949 کی یہ پینٹنگ ایک نا معلوم شخص نے خریدی ہے۔
دوسری جنگِ عظیم اور جدید فن کے ان نمونوں میں مارک روتھکو اور اینڈی وارہول کے شاہکار بھی شامل ہیں۔اس نمائش میں 58 ملین پؤنڈ کی ریکارڈ فروخت ہوئی ہے۔ اس نمائش کی کامیابی کو خشحال معیشت سے منسوب کیا گیا ہے۔روتھکو کی 1958 کی پینٹنگ پانچ لاکھ آٹھ ہزار پاؤنڈ میں فروخت ہوئئ ہےاس نمائش میں 67 پینٹنگز رکھی گئی تھیں جن میں سے 60 فروخت ہو گئیں۔ گزشتہ ہفتے پکاسو کی 1905 کی پینٹنگ 58 ملین ڈالر میں فروخت ہوئی تھی جش کے بعد وہ دنیا کی مہنگی ترین پینٹنگ بن گئی ۔
150203_india_diary_suhail_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/02/150203_india_diary_suhail_zs
صرف ایک آئیڈیا آپ کی زندگی بدل سکتا ہے!
صرف ایک آئیڈیا آپ کی زندگی بدل سکتا ہے۔
اس وقت ایپل کی مالیت تقریباً 630 ارب ڈالر ہے ایپل کو ہی کیوں نہ خرید لیں؟ آپ نے سنا ہی ہوگا کہ روزانہ ایک سیب کھانے سے آپ اپنی صحت اور ڈاکٹر دونوں کو قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ ایک سیب پیڑ سے گرا تو ہمیں کشش نقل کا قانون ملا، ایک سیب کھایا گیا تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ کیا ہوا۔ دنیا کی سب سے بیش قیمت کمپنی ایپل نے جب گذشتہ سہ ماہی کے لیے اپنے منافعے کا اعلان کیا تو ہندوستان میں یہ خبر زیادہ تر بڑے اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہوئی۔ صرف آئی فون کا آئیڈیا اس کمپنی کو نئی بلندیوں تک پہنچا رہا ہے۔ ایپل نے صرف تین مہینوں میں 18 ارب ڈالر کمائے ہیں، تو آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ رقم کتنی ہوتی ہے۔ ہندوستان کی 50 سب سے بڑی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی کمپنیاں مل کر بھی اتنا منافع نہیں کماتیں۔ اس وقت ایپل کی مالیت تقریباً 630 ارب ڈالر ہے۔ ہندوستان کی معیشت کا کل حجم تقریباً 1900 ارب ڈالر ہے۔ یعنی آپ چاہیں تو ایپل کے سائز کی صرف تین کمپنیاں ہی خرید سکتے ہیں۔ ایپل کے پاس 178 ارب ڈالر نقد رقم بھی موجود ہے۔ یہ رقم امریکہ میں تقسیم کی جائے تو ہر شہری کو 30 ہزار روپے سے زیادہ ملیں گے۔ ایپل چاہے تو ہندوستان کا بجٹ خسارہ پلک جھپکتے ہی ختم ہو سکتا ہے۔ یہ فہرست تو لمبی ہے لیکن آپ کو اندازہ ہوگیا ہو گا کہ 18 ارب ڈالر کتنے ہوتے ہیں۔ پورے سال کے منافعے کا حساب آپ خود جوڑ لیجیے۔ اگر ایپل کو خرید لیا جائے تو سالانہ 72 ارب ڈالر کی بندھی ہوئی آمدنی ہوسکتی ہے۔ یہ آئیڈیا آپ کی زندگی بدل سکتا ہے، لیکن ایپل کو خریدا کیسے جائے؟ یہ آئیڈیا آپ کے پاس ہو تو ضرور اطلاع کیجیے گا۔ ایپل کے پاس 178 ارب ڈالر کیش بھی موجود ہے۔ یہ رقم امریکہ میں تقسیم کی جائے تو ہر شہری کو 30 ہزار روپے سے زیادہ ملیں گے بجلی بھی مفت، پانی بھی اور رہنے کے لیے گھر بھی اگر کوئی آئیڈیا نہ آئے تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ اچھی زندگی گزارنے کے لیے اتنے پیسے کی ضرورت کہاں پڑتی ہے۔ اور اگر آپ دہلی میں رہتے ہوں تو پندرہ بیس دن کے بعد یہ سمجھ میں نہیں آئے گا کہ پیسہ خرچ کیا جائے تو کہاں۔ دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اور میدان میں اترنے والی تینوں پارٹیوں کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کی زندگی بدل دیں گی۔ میدان میں عام آدمی پارٹی ہے جو نریندر مودی کی بی جے پی کو روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کانگریس بھی ہے، بس اس کا ذکر نہیں ہے۔ لیکن تینوں پارٹیوں نے کچھ ایسے وعدے کیے ہیں کہ تینوں کو ہی ووٹ دینے کا دل کرتا ہے۔ کانگریس اور عام آدمی پارٹی کا وعدہ ہے کہ آپ کا بجلی کا بل آدھا کر دیا جائے گا، بی جے پی 30 فیصد کی کٹوتی کا وعدہ کر رہی ہے۔ اگر ووٹر ہوشیاری سے کام لیں اور تینوں پارٹیوں کی مخلوط حکومت بن جائے تو تینوں کو ہی اپنے وعدے پورے کرنے پڑیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو بجلی استعمال کرنے پر آپ کو بل دینے کے بجائے الٹا حکومت سے ہی پیسے ملا کریں گے۔ دہلی کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات ہونے والے ہیں اور میدان میں اترنے والی تینوں پارٹیوں کا وعدہ ہے کہ وہ آپ کی زندگی بدل دیں گی۔ یا بی جے پی اور عاپ کا یہ وعدہ لیجیے کہ جتنے بھی لوگ کچے مکانوں میں رہتے ہیں، ان کے گھر پکے کر دیے جائیں گے۔ یہ اعلان کرتے وقت پارٹیوں نے شاید ان لوگوں کے بارے میں نہیں سوچا جو غریب بھی ہیں لیکن قانون کی پاسداری بھی کرتے ہیں اور انھیں کبھی سرکاری زمین پر قبضہ کرنے کا آئیڈیا پسند نہیں آیا۔ یا اروند کیجریوال کا یہ وعدہ کہ ہر بس میں ایک محافظ تعینات رہے گا اور اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کو چھیڑے گا تو یہ محافظ اسے پکڑ کر سیدھا تھانے پہنچا دے گا۔ لیکن یہ وعدہ کرتے وقت پارٹی کو یہ آئیڈیا کیوں نہیں آیا کہ ہر بس میں پہلے سے ہی ایک ڈرائیور اور ایک کنڈکٹر موجود ہوتا ہے، یہ ذمہ داری انھیں کیوں نہیں سونپی جا سکتی؟ وعدوں کی فہرست لمبی ہے، کچھ ممکن ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو حلق سے آسانی سے نیچے نہیں اتریں گے۔ لیکن فکر مت کیجیے گا، ایک پارٹی نے آپ کی سہولت کے لیے بالکل مفت پانی فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
040718_firework_explosion_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/07/040718_firework_explosion_sen
آتش بازی کے سامان سے دھماکہ
لاہور کے نواحی علاقہ فیروز والہ کے ایک گاؤں نور کوٹ میں آتش بازی کا سامان پھٹ جانے سے ایک کمسن لڑکی جاں بحق اور اس کے والدین سمیت دو افراد شدید زخمی ہو گئے۔
تھانہ فیکٹری ایریا کے ڈیوٹی افسر بختیار نے بتایا کہ زخمی عارف اپنے گھر میں ہی آتش بازی کا سامان بھی بناتا تھا اور لاہور کے موچی دروازہ میں قائم آتش بازی کی مارکیٹ میں سپلائی کرتا تھا۔ اس نے پٹاخے ، ہوائیاں اور آتش بازی کا دیگر سامان تیار کرکے گھر میں ہی رکھا ہوا تھا جو اس نے ایک آدھ روز میں لاہور میں کسی دکاندار کو سپلائی کرنا تھا۔ سنیچر کی شب قریبا آٹھ بجے اچانک نامعلوم سبب کی بنا پر آتش بازی کے یہ سامان زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس کی زد میں آ کر عارف کی گیارہ سالہ بیٹی نازیہ جاں بحق اور اس کی والدہ آسیہ اور ایک راہ گیر شدید زخمی ہوگیا۔ دونوں زخمیوں کو لاہور کے میو ہسپتال میں داخل کرادیاگیا ہے جن کی حالت نازک بتائی جا رہی ہے۔ پولیس کے مطابق گھریلو علاقہ میں آتش بازی کا سامان تیار کرنا جرم ہے۔پولیس نے ایکسپلوسیو ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔
050111_wana_deadline_rza
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/01/050111_wana_deadline_rza
قبائلی جنگجوؤں کو مزید مہلت
پاکستان میں فوجی حکام نے حکومت کو مطلوب دو قبائلی جنگجوؤں بیت اللہ اور عبداللہ محسود کو ہتھیار ڈالنے کے لئے دی جانے والی مہلت میں منگل کے روز مزید دس روز کی توسیع کر دی ہے۔
عبدللہ اور بیت اللہ محسود کو فوجی حکام نے اس سے قبل پندرہ جنوری تک کی مہلت دی تھی۔ کور کمانڈر پشاور لیفٹینٹ جنرل صفدر حسین نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے علما پر مشتمل ستر رُکنی وفد سے آج پشاور میں ایک ملاقات کے دوران اس مہلت میں دس روز کے اضافے کا اعلان کیا۔ اس توسیع کی درخواست علماء نے مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کے لئے کی تھی۔ اس موقع پر کور کمانڈر نے کہا کہ غیرملکی عناصر قبائلیوں اور حکومت دونوں کے دشمن ہیں اور ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی مشترکہ لائحہ عمل سے ہی ممکن ہوسکے گی۔ البتہ اب تک دونوں مطلوب افراد نے ہتھیار ڈالنے سے انکار کیا ہے۔ عبداللہ محسود گزشتہ اکتوبر میں دو چینی انجینروں کے اغوا میں ملوث تھا جبکہ بیت اللہ جنوبی وزیرستان میں محسود علاقے میں فوجی کارروائیوں کی مزاحمت کرنے والے جنگجوؤں کا سربراہ ہے۔
040921_javeeria_marriage
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/09/040921_javeeria_marriage
جویریہ شہباز کی شادی 25 ستمبر کو
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے جلاوطن صدر میاں شہباز شریف کی صاحبزادی چار روز بعد پیا گھر سدھار جائیں گی اور امکان ہے کہ ان کے والد، تایا اور دادا انہیں رخصت کرنے کے لیے تقریب میں موجود نہ ہونگے۔
ان کے خاندانی ذرائع نے بتایا ہے کہ جویریہ شہباز کی شادی پچیس ستمبر یعنی سنیچر کےروز کرنا طے پائی ہے۔ ان کی شادی نواز شریف اور شہباز شریف کی بہن یعنی جویریہ کے پھپھوزاد کزن سے ہورہی ہے۔ دوسری بیٹی رابعہ کی شادی اکتوبر میں کی جائےگی۔ شادی کی ان تقریبات میں صرف قریبی عزیز واقارب کو مدعو کیا گیا ہے۔ حکومتی اجازت ملنے کے بعد شہباز شریف کی دونوں صاحبزادیاں اپنی والدہ نصرت شہباز کے ہمراہ گزشتہ ہفتے ہی وطن لوٹی ہیں۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے خاندان کے دیگر افراد ان کی حکومت کا تختہ الٹ جانے کے بعد سے جلا وطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کے خاندانی ذرائع نے امکان ظاہر کیا ہے کہ ان دونوں بہنوں کے والد شہباز شریف، تایا نواز شریف اور دادا محدشریف انہیں سسرال رخصت کرنے کے لیے موجود نہیں ہونگے۔
pakistan-54951143
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54951143
وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: اب تو پیوند لگانے کی بھی گنجائش نہیں رہی
جس طرح پنجاب کے شہر قصور میں آٹھ سالہ زینب کے ریپ اور قتل اور پھر مجرم کی پھانسی کے بعد حکومت نے زینب الرٹ قانون متعارف کروایا، اسی جذبے کے تحت موجودہ حکومت نے اگلے ہفتے ریپ مقدمات کو تیز رفتاری سے نمٹانے کے لیے خصوصی عدالتیں متعارف کروانے کا آرڈیننس جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے سندھ کے شہر کشمور میں ایک پانچ سالہ بچی اور اس کی والدہ کے ریپ کے مجرم کو اپنی بیٹی کی مدد سے پکڑنے والے اے ایس آئی محمد بخش برڑو سے بھی فون پر بات کر کے اس کی بے لوث جرات کو سراہا۔ دریں اثنا کشمور واقعے کا ملزم ایک مبینہ پولیس مقابلے میں مارا گیا اور اس کے ساتھی کو حراست میں لے لیا گیا۔ یوں ایک طرح سے 'فوری انصاف' ہو گیا۔ اس طرح مجرموں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا جواز یہ بتایا جاتا ہے کہ چونکہ عدالتی نظام جڑوں تک کرپٹ ہو چکا ہے لہٰذا کمزور ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جاتا ہے اور طاقتور سینہ چوڑا کرتے ہوئے پیسے، اثر یا دباؤ کے سبب چھوٹ جاتا ہے۔ وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے ’میں بھی وان جونز کی طرح رونا چاہتا ہوں‘ غدار ہونا اچھی بات نہیں ہے دیکھنا سامنے والا کہیں روبوٹ تو نہیں؟ دراصل بازار عمران خان کا حقیقی دشمن ہے: وسعت اللہ خان کا کالم اہلِ عدالت اپنی کمزوری کا ذمہ دار کمزور قوانین، ناقص تفتیشی نظام، وکلا گردی اور فیصلوں پر نامکمل عمل درآمد کے کلچر کو قرار دیتے ہیں اور جنھیں اسمبلیوں میں جدید و مؤثر قانون سازی کرنا ہے وہ اس دلیل کے پیچھے پناہ ڈھونڈتے ہیں کہ جب تک عام آدمی باشعور نہیں ہو گا، اپنی مدد آپ کے تحت انفرادی اخلاقی نظام خود پر لاگو نہیں کرے گا تب تک کچھ بھی ٹھیک ہونے والا نہیں۔ ایسی جملہ تاویلات سے خود کو تو مطمئن کیا جا سکتا ہے مگر لاقانونیت کا جن قابو میں نہیں لایا جا سکتا۔ ہر لرزہ خیز وارادت کے بعد ہم 'مجرموں کو سرِعام پھانسی دو' کے نعرے لگا کر اور 'یہ انسان نہیں درندے ہیں' وغیرہ وغیرہ کہہ کر دو تین دن کے لیے اپنے ضمیر کو تو دھوکہ دے سکتے ہیں مگر مسئلہ جوں کا توں ہی رہتا ہے۔ ہم دہشت گردی کے تدارک کے لیے خصوصی عدالتیں بنانے کے ماہر ہیں۔ خصوصی عدالتوں سے کام نہیں چلتا تو ان کے اوپر فوجی عدالتیں بنا دیتے ہیں اور پھر ان عدالتوں کے اکثر ناقص فیصلے اعلیٰ عدالتوں میں الٹ جاتے ہیں۔ اور پھر ہم سوچتے ہیں کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کا کیا کریں۔ کہیں یہ پڑے پڑے خراب نہ ہو جائیں تو پھر ہم انھیں زنگ سے بچانے کے لیے فیسوں میں اضافے کے خلاف جلوس نکالنے والے طلبا سے لے کر ریپ کے ملزم تک سب پر انسدادِ دہشت گردی کی دفعات لگا دیتے ہیں۔ ہم نے روایتی عدالتی نظام کی ناکامی کو کامیابی میں بدلنے کے لیے شرعی عدالتی نظام بھی اپنا کر دیکھ لیا۔ ہم نے روایتی جرگہ سسٹم کو انصاف کے تقاضوں کے منافی قرار دے کر اسے کاغذی طور پر اسی طرح ختم کر دیا جس طرح برسوں پہلے سرداری نظام کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ قانونی ترامیم کے بعد اب ہمارے ہاں غیرت کے نام پر قتل کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہر قتل کو بلاامتیاز بظاہر ایک ہی آنکھ سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ اس قدر قانون سازی، اتنے بہت سے اعلانات، اتنی بھانت بھانت کی عدالتیں، اتنی پھانسیاں اور عمر قید جیسی سزائیں سنانے کے بعد بھی ریپ، عورتوں کے خلاف جرائم، غیرت کے نام پر قتل، اغوا اور منشیات کی تجارت جیسے سنگین جرائم میں کتنی واضح کمی آئی؟ سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ ریپ کی جتنی وارداتوں کے پرچے کٹتے ہیں ان میں سے پانچ فیصد وارداتوں کے ملزموں پر باقاعدہ مقدمہ چلتا ہے اور ان پانچ فیصد کے بھی پانچ فیصد مجرموں کو واقعی سزا ملتی ہے۔ زیادہ تر متاثرین اپنا مقدمہ مالی و سماجی کسمپرسی کے سبب آگے بڑھانے کی سکت ہی نہیں رکھتے اور ریاست ایسے تمام مقدمات میں لازمی فریق بننے میں دلچسپی نہیں لیتی۔ بس اس مقدمے میں فریق بنتی ہے جس کا میڈیا پر ڈنکا پٹ جائے۔ بات یہ ہے کہ ہمارا سنہ 1861 کا پولیس ایکٹ، انگریز آقاؤں کا عطا کردہ دیوانی و فوجداری نظام، نوآبادیاتی دور کا ایجاد کردہ سرپرستی و بالادستی کا نظام نمائشی تبدیلیوں کے باوجود نہ صرف جوں کا توں قائم ہے بلکہ اب تو گل سڑ چکا ہے بلکہ اب تو خود انگریز کو بھی یاد نہیں کہ اس نے یہ نظام کس مقصد کے لیے اور کتنی مدت کے لیے بنایا تھا۔ ویسے تو باقی دنیا میں کیا ناانصافی ہو رہی ہے اور کیوں ہو رہی ہے کی تشخیص اور علاج کے ہم ماہر ہیں مگر جب اپنے ہی گھر میں ناانصافی و ناکارہ پن کی دیمک سے جوج رہے نظام کی جگہ ایک جدید، فعال نظامِ قانون و انصاف کی عمارت اٹھانے کی خواہش انگڑائی لیتی ہے تو ہم ایک دوسرے کی مفاداتی مروت میں اس کام کو بیچ راستے میں ہی ترک کر دیتے ہیں۔ ہم بس یہ کر رہے ہیں کہ نظام کی خستہ چادر میں جہاں جہاں سوراخ نظر آتا ہے وہاں وہاں فوری طور پر ایڈہاک قانون سازی کا پیوند لگا دیتے ہیں۔ اب تو پیوند کی بھی گنجائش نہیں رہی۔ اب تو پیوند پر پیوند لگ رہے ہیں۔ خود کو ایک مسلسل دھوکے میں رکھنا اور پھر یہ سمجھتے رہنا کہ ہم دھوکے میں نہیں۔ اس عذاب سے تو نجات بھی شاید ممکن نہیں۔
world-57285389
https://www.bbc.com/urdu/world-57285389
زمبابوے: بھوت کے لباس میں لوگوں کو ڈرا کر چوریاں کرنے والا شخص گرفتار
افریقی ملک زمبابوے میں ایک ایسے چور کو پولیس نے حراست میں لیا ہے جو کہ چوری کے لیے 'بھوت' والا لباس پہن کر لوگوں کو ڈراتا اور پھر ان کی چیزیں چوری کر لیتا تھا۔
پولیس کے ترجمان پال نیتھی کے مطابق تحقیقات سے یہ پتہ چلا ہے کہ اس شخص کا نام نورمن چاگیویزا ہے اور اس نے اب تک دو گھروں میں ڈکیتی کی واردات کی ہے۔ خبر رساں ویب سائٹ نیوز ڈے سے بات کرتے ہوئے پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ چور بھوت بن کر لوگوں کو ڈراتا اور جب لوگ بھاگ جاتے تو وہ ان کے گھر سے ان کی قیمتی چیزیں چوری کر لیتا۔ یہ بھی پڑھیے جب حکام کو خوفزدہ خاتون نے درخت پر چھپے ہوئے ایک ’پراسرار جانور‘ کی اطلاع دی ماؤنٹ ایورسٹ پر آکسیجن چوری ہونے لگی برطانیہ میں ہیروں جڑا شاہی تاج چوری وان گوخ کی چوری شدہ تصاویر برآمد 'اس نے ایک گھر سے سیڑھی چوری کی اور ایک اور واردات میں اس نے گھر کا دروازہ باہر سے بند کر دیا اور وہاں سے سولر پینل چرانے لگا لیکن گھر کے مالک نے دروازہ توڑ کر اسے پکڑ لیا۔' اس واقعے کے بعد پولیس نے چور کو حراست میں لے لیا اور جمعرات کے روز اسے عدالت میں پیش کیا گیا۔
070829_benazir_mush_deal_ns
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/08/070829_benazir_mush_deal_ns
وردی اتارنے پر رضامند: بینظیر
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنماء اور سابق وزیراعظم بےنظیر بھٹو نے دعویٰ کیا ہے کہ صدر جنرل پرویز مشرف فوج کے سربراہ کے عہدے سے سبکدوش ہونے پر رضامند ہوگئے ہیں۔ڈیل: ’بس ایک دو نکتے رہ گئے ہیں‘برطانوی اخبار ڈیلی ٹیلیگراف کو دیے گئے انٹرویو میں بےنظیر بھٹو نے کہا ہے کہ شراکت اقتدار کا معاہدہ اگرچہ ابھی مکمل طور پر طے نہیں پا سکا لیکن ’وردی کا مسئلہ حل ہوگیا ہے‘۔
ان کہنا تھا ’وردی ایک اہم مسئلہ تھی اور (مشرف حکومت کے ساتھ) مذاکرات کے حالیہ ادوار میں بات چیت زیادہ تر اسی کے گرد گھومتی رہی۔‘ بےنظیر بھٹو کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف نے مذاکرات کے اس ہفتے کے دوران ہونے والے دور میں ایک نیا مطالبہ رکھ دیا ہے کہ دوبارہ (صدر) منتخب ہونے کے لیے ان کی مدد کی جائے۔ پاکستان کی ’نوآزاد‘ عدلیہ سے پریشان جنرل مشرف آئین میں بعض ترامیم کے لیے بےنظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی سے حمایت چاہتے ہیں تاکہ وہ دوبارہ صدر منتخب ہو سکیں۔ لیکن بےنظیر بھٹو کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس کے لیے پیپلز پارٹی کی واضح سیاسی حمایت کرنی پڑے گی۔ ’میری پارٹی چاہتی ہے کہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ق) اب بااختیار نہ رہے۔‘ ’ڈیل ایک آدھ نکتے پر اٹکی ہوئی ہے‘ اسلام آباد سے نامہ نگار ہارون رشید کے مطابق وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بےنظیر بھٹو کے ساتھ صدر مشرف کی ’ڈیل‘ کے سلسلے میں اسی فیصد معاملات طے ہو چکے ہیں۔ انہوں نے کہا ’ڈیل ایک آدھ نکتے پر اٹکی ہوئی ہے۔‘ شیخ رشید نے اس سلسلے میں تیسری مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بارے میں آئینی ترمیم کا خاص طور پر ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’مشرف بےنظیر ڈیل‘ کے سلسلے میں اگلے تین دن بہت اہم ہیں اور اگر ڈیل ہو گئی تو قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلانا ہو گا۔ شیخ رشید نے کہا کہ مشرف بےنظیر ڈیل نہ ہونے کی صورت میں پلان بی بھی تیار ہے جس میں قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمنٰ کا کردار بہت اہم ہے۔‘ ان کا دعویٰ تھا کہ صدر کی وردی کا معاملہ بھی تقریباً طے پا چکا ہے۔ ’جن دیگر معاملات پر مفاہمت ہو چکی ہے ان میں صاف و شفاف انتخابات کا انعقاد، بےنظیر بھٹو کے خلاف بدعنوانی کے مقدمات اور آئین کا آرٹیکل اٹھاون بی شامل ہیں۔‘
051011_adnan_affected_areas_uk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051011_adnan_affected_areas_uk
نظروں سے اوجھل متاثرین
بالاکوٹ اور گڑھی حبیب اللہ کی آٹھ اکتوبر کے زلزلےمیں ہونے والی تباہی کو تو میڈیا کی خاصی کوریج مل گئی لیکن ضلع مانسہرہ اور ایبٹ آباد کے دور دراز کے بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں کے رہنے والے یا تو مر گئے یا زخمی اور بے گھر ہوگئے لیکن وہ اب تک مناسب توجہ حاصل نہیں کرسکے اور نہ ان جگہوں پر قابل ذکر امدادی کاروائیاں شروع ہوسکی ہیں۔
صوبہ سرحد میں زلزلے سے جو اضلاع متاثر ہوئے ہیں ان میں ایبٹ آباد، مانسہرہ، بٹگرام اور کوہستان خاص طور پر شامل ہیں۔ ان علاقوں میں متاثرہ افراد کی تعداد کا اندازہ تقریباً پانچ لاکھ لگایا جاتا ہے۔ ان میں سے کچھ علاقوں کو جانے والی سڑکیں زمین کے بہاؤ (لینڈ سلائڈ) سے بند ہیں اور کچھ آج کھول دی گئی ہیں۔ ایبٹ آباد کے علاقہ سرکل بکوٹ سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق چہانگل گاؤں میں لڑکیوں کے ایک اسکول کی عمارت گرنے سے پچاس طالبات ہلاک ہوئی ہیں۔ وادی پکھل میں سینکڑوں کچے مکانات منہدم ہوگئے ہیں اور آج تیسرے روز بھی میتیں ملبے سے نکالی جارہی ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے ان جگہوں پر کئی دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں۔ بالاکوٹ کے لوگوں کا خیال ہے کہ یہاں کے پہاڑوں میں زلزلہ کا مرکز تھا اور اسی وجہ سے یہاں وقفہ وقفہ سے زلزلہ کے ہلکے جھٹکے اب بھی محسوس کیے جارہے ہیں۔ مانسہرہ ضلع میں ہزاروں کی تعداد میں مویشی بھی ہلاک ہوئے ہیں جن کی لاشیں گلنا سڑنا شروع ہوگئی ہیں اور جگہ جگہ بدبو پھیل رہی ہے۔ ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، راولپنڈی اور اسلام آباد کے تمام سرکاری اور نجی ہسپتال زخمیوں سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی استعداد سے زیادہ مریض وہاں زیرعلاج ہیں۔ ایبٹ آباد کے ایوب میڈیکل کمپلکس میں خیموں میں مریضوں کا علاج کیا جارہا ہے۔ اکثر مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اس وقت ہر متاثرہ قصبہ میں خیمہ بستیاں بنانے کی ضرورت ہے۔
071125_tribal_dilawar
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/11/071125_tribal_dilawar
وانا میں این جی او پر حملہ
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں مقامی طالبان نے بچوں اور خواتین کے لیے کام کرنے والی ایک غیر ملکی این جی او کے سٹور پر حملہ کر کے وہاں رکھی ایک ٹرک خوراک کو جلادیا۔
مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا میں یہ سٹور ہیڈکواٹرہسپتال کے اندر واقع ہے اور جو سامان جلایا گیا اس میں گھی، چینی اور دال شامل تھی۔ مقامی طالبان کے ایک کمانڈر ملنگ نے تصدیق کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا کہ ’غیرملکی این جی او کا سامان مسلمانوں کے لیے حرام ہے‘۔ ان کہنا تھا کہ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ غیر ملکی امدادی اداروں سے مدد مانگنے کے بجائے ’خودی‘ پیدا کریں۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پہلے سے ہی غیر ملکی امدادی اداروں کو مقامی طالبان نشانہ بنا رہے ہیں۔
pakistan-46260452
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-46260452
یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ پارلیمان میں مسائل کا حل پیش کرنے کی اہلیت نہیں۔
جولائی 2007، لندن میں نواز شریف کی جانب سے ایک کُل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ میں خود اپنے چینل کی جانب سے اُس وقت لندن سے یہ کُل جماعتی کانفرنس کور کر رہی تھی۔ اس کانفرنس میں اپوزیشن کی تمام جماعتیں اور اُن کے سربراہان ماسوائے محترمہ بے نظیر بھٹو کے شریک تھے۔ جناب عمران خان اُس وقت قومی اسمبلی میں ایک ہی نشست رکھتے تھے اور وہ خود بحیثیت اپنی جماعت کے سربراہ کے اس کانفرنس میں شریک تھے۔
عمران خان کی حکومت کے سو دن آئندہ ہفتے پورے ہو رہے ہیں بارہ مئی کا سانحہ ہو چکا تھا اور کراچی میں ایم کیو ایم کی مدد سے پرویز مشرف کی طاقت کا اظہار بھی۔۔۔ اپوزیشن جماعتیں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں تھیں۔ ملک میں جنرل مشرف کے خلاف زبردست تحریک اپنے عروج پر تھی اور فیصلہ کرنا تھا کہ کس طرح ایک صفحے پر اکٹھے ہو کر جنرل مشرف کو نکال باہر کیا جائے۔ عاصمہ شیرازی کے دیگر کالم پڑھیے مائنس ون، ٹو اور اب تھری؟ خدا کرے یہ سانحہ آخری ہو جانے کی باتیں جانے دو ہائے ہماری مجبوریاں !!! کیسا ہو گا نیا پاکستان مجھے یاد ہے کہ جنرل مشرف کا دست راست کہلانے والی ایم کیو ایم کو عمران خان صاحب دہشت گرد پارٹی ڈکلیئر کروانا چاہتے تھے۔ اُن کی ایما پر اعلامیے میں ایم کیو ایم کو دہشت گرد جماعت قرار دیا گیا تھا۔ گئے وہ دن جب خلیل خان فاختائیں اڑایا کرتے تھے۔ ہونی کو کون روک سکتا ہے۔ آج نہ صرف عمران خان کی حکومت ایم کیو ایم کے ووٹوں کے آسرے پر ہے بلکہ مشرف کی دست راست جماعت اُن کی طاقت کا باعث بھی ہے۔ وقت اور حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ سیاست میں حلیف اور حریف بدلتے رہتے ہیں مگر کیا کیا جائے کہ پاکستان کا ایک آئین ہے جس کے مطابق ملک میں پارلیمانی جمہوریت کا نفاذ ہے۔ کہنے کو تو ملک میں جمہوریت ہی ہے مگر یہ جملہ معترضہ ہو سکتا ہے۔ پارلیمان کی بے توقیری کا آغاز جناب نوازشریف صاحب نے اپنے ہاتھوں سے کیا۔ عوام کی منتخب اسمبلی میں جہاں عوام کی اُمنگوں کے مطابق قانون سازی ہونا تھی محض اس لیے عدم دلچسپی کا شکار رہی کہ 342 کا یہ ایوان کیونکر اور کیسے فیصلے کر سکتا ہے۔ نواز شریف صاحب کی اس روش اور عدم دلچسپی نے اس ایوان کو محض ایک ڈبیٹنگ کلب بنا دیا۔ کوئی فیصلہ اس ایوان میں نہیں کیا گیا۔ یہاں تک کہ طے ہوا کہ ضرب عضب کا اعلان قومی اسمبلی میں کیا جائے گا، نواز شریف صاحب نے خطاب تو ضرور کیا مگر اس کا اعلان نہ کیا اور یوں یہ فیصلہ افواج پاکستان کو ایک ٹویٹ کے ذریعے سُنانا پڑا۔ نواز شریف صاحب کی عدم دلچسپی نے ایوان کو محض ایک ڈبیٹنگ کلب بنا دیا تھا رہے عمران خان صاحب، تو اُنھوں نے ایوان کو بطور اپوزیشن رہنما بھی عزت نہیں بخشی۔ 146 دن عمران خان نواز شریف کے خلاف ڈی چوک پر صف آرا رہے اور پارلیمان کا تقدس چوک چوراہے میں دھوتے رہے۔ 2002 سے اب تک خان صاحب اور نواز شریف کی قومی اسمبلی میں کارکردگی میں کوئی خاص فرق نہیں۔۔ دن گزر گئے ہیں۔۔ اب عمران خان قومی اسمبلی کے ایوان میں براجمان ہیں۔ گذشتہ 90 دنوں میں بمشکل وزیراعظم دو سے تین بار ایوان میں تشریف لائے ہیں۔ قومی اسمبلی میں سوالات کے براہ راست جوابات دینے کا وعدہ دھرے کا دھرا ہے۔ حالت یہ ہے کہ ابھی 100 دن مکمل نہیں ہوئے اور کورم کئی بار نامکمل ہو چکا ہے۔ پارلیمانی تاریخ میں ایسا کم ہی دیکھنے کو ملا ہے کہ حکومت خود کورم نہ ہونے کی نشاندہی کرے اور اجلاس برخاست کر دے۔ مزید پڑھیے! اب کی بار چال کس کی؟ انکار کس کا، کس کو؟ انکار کس وقت اور کیوں؟ ریاست مدینہ، جناح کا پاکستان اور نیا پاکستان گذشتہ تین ماہ میں قومی اسمبلی میں کوئی قانون سازی نہیں ہو سکی۔ یہی نہیں بلکہ کوئی پارلیمانی قائمہ کمیٹی تشکیل نہیں پا سکی اور وجہ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی کا تنازعہ ہے۔ میثاق جمہوریت کے مطابق قائد حزب اختلاف کو چئیرمین بنانے کی روایت ڈالی گئی تاہم موجودہ حکومت نہیں چاہتی کہ ن لیگ کی حکومت کے آڈٹ پیراز کو شہباز شریف کے سپرد کیا جائے۔ یہ مسئلہ کب تک حل ہو گا اس میں کم از کم موجودہ حکومت کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آئے دن دونوں ایوانوں میں ہنگامہ ٹیلی وژن کے ذریعے گھر گھر پہنچ رہا ہے اور پارلیمانی نظام کے خلاف گھات لگا کر بیٹھنے والے یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یہاں فقط جھگڑے ہیں۔۔۔ پاکستان کو درپیش مسائل کا حل پیش کرنے کی اہلیت ان ایوانوں میں موجود نہیں۔ آنے والے دنوں میں اس ایوان کو اہم فیصلے کرنا ہیں۔ ملک میں اس وقت تاریخ کے کم ترین زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ ہم اپنی بقا کے نازک ترین مرحلے سے گزر رہے ہیں۔ عالمی سامراج ہمارے دروازے پر ڈو مور کے مطالبے لئے کھڑا ہے۔ آنے والے دنوں میں علاقائی محاذ بھی ہم سے تقاضے کرتے دکھائی دیں گے۔ عمران خان نے حال ہی میں امدادی پیکج کے حصول کے لیے چین کا دورہ بھی کیا تھا ٹرمپ صاحب کا لہجہ دن بدن سخت ہو رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ہلکی سی دھونس زبردست کمزور ترین معاشی حالت کے سبب گھٹنوں پر لا سکتی ہے جو ملک میں انتشار کا سبب بن سکتی ہے اورہم نہ چاہتے ہوئے بھی ناپسندیدہ فیصلے کرنے پر مجبور ہو سکتے ہیں۔ اس لمحے تک ہمیں ’دیرینہ‘ دوستوں کی جانب سے محض وعدوں پر ہی ٹرخایا گیا ہے۔ حالات کی سنگینی یہاں تک ہے کہ سب ادارے ایک صفحے پر ہیں، ایک ساتھ ہیں، یہاں تک کہ دوسروں سے مدد مانگنے کے لیے بھی ایک ساتھ کوشاں ہیں پھر بھی وہ کامیابی ہاتھ نہیں آ رہی جس کی اُمید جناب عمران خان کی حکومت کے آنے کے ساتھ ہی تھی۔ آئی ایم ایف سے ہونے والے مذاکرات میں کچھ نئے قوانین پر بات بھی ہو رہی ہے اُن میں کچھ قانون سازی آئی ایم ایف کے تقاضوں کے مطابق کرنا ہو گی جس پر شاید اپوزیشن آمادہ نہ ہو۔ پی ٹی آئی ایوان بالا میں وہ قانون سازی کیسے کرے گی یہ صورت حال پریشان کُن بھی ہے اور انتظار طلب بھی۔ ایسے میں تحریک انصاف کی حکومت پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے خلاف محض احتساب کا ڈھنڈورا پیٹ رہی ہے۔ نہیں معلوم کہ یہ سب ایجنڈا ہے یا نااہلی مگر تحریک انصاف کو کاغذی کاروائیوں اور دھمکیوں سے باہر آنا ہو گا ورنہ ہمارے جیسی سیکیورٹی سٹیٹ کے لیے اگر بروقت دفاع کے اخراجات کا بندوبست نہ ہوا تو ناپسندیدہ فیصلے ہو سکتے ہیں۔ تحریک انصاف پارلیمان کو عزت دے۔ میثاق معیشت پر اپوزیشن سے بات کرے ورنہ دیر ہو جائے گی اور پارلیمنٹ کے خلاف سازش کا الزام بھی اسی حکومت پر لگے گا۔
040715_rangerz_attack_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/07/040715_rangerz_attack_sen
لاہور: رینجرز پر حملہ، متعدد گرفتار
لاہور کے نواح میں رینجرز کے جوانوں سے بھری گاڑی پر نامعلوم نقاب پوش افراد نے فائرنگ کردی جس سے رینجرز کے چار جوان شدید زخمی ہوگۓ۔
آخری اطلاعات کے مطابق اس سلسلے رینجرز حکام نے متعدد گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے تاہم تعداد نہیں بتائی۔ بتایا گیا ہے کہ رینجرز ایک گاڑی پر جوان لانگ والا پوسٹ کی طرف جا رہے تھے۔ جب وہ کالا خطائی روڈ پر ساراں والا گاؤں کے پاس پہنچے تو دو نقاب پوش افراد نے گاڑی پر فائرنگ شروع کردی۔ اس فائرنگ سے لانس نائک جاوید، حوالدار ضیغم اور دو سپاہی یاسین اور منظر شدید زخمی ہوگۓ۔ رینجرز کی جوابی فائرنگ سے حملہ آور فرار ہوگۓ۔ رینجرز کے بڑے افسران موقع پر پہنچے اور زخمیوں کو شہر کے ایک سرکاری ہسپتال میں داخل کرادیاگیا۔
071018_leopardfox_play
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/10/071018_leopardfox_play
بےنظیر کی پاکستان آمد پر نیویارک میں تھیٹر
بینظیر بھٹو کی پاکستان واپسی کے موقع پر نیویارک میں ذولفقار علی بھٹو کی زندگی کے آخری دنوں اور بینظیر بھٹو اور پاکستان کے موجودہ حالات پر ایک سٹیج ڈرامہ ’چیتا اور لومڑی‘ یا ’دی لیوپیرڈ اینڈ دی فاکس‘ پیش کیا جارہا ہے۔
تیس سال قبل فوجی آمر ضیا الحق کے ہاتھوں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے اور پھر ان کی پھانسی کے پس منظر میں یہ ڈرامہ اپنی اصلی حالت میں مصنف اور بائیں بازو کے رہنما طارق علی نے لکھا تھا اور حال ہی میں اسے کتابی شکل میں شائع کیا گیا ہے۔ اس ڈرامے کے مرکزی خیال سے متاثر ہوکر تھیٹر نگار راجیو جوزف نےاسے پاکستان کے موجودہ حالات کے مطابق ڈھالا ہے۔ اس ڈرامے کی ہدایات گیووانا سارڈیلی نے دی ہیں آلٹر ایگو پروڈکشنز کطیرف سے پیش کیا جانے والا یہ ڈرامہ سترہ اکتوبر سے نمائش کے لئے پیش کیا جارہا ہے۔
world-49367444
https://www.bbc.com/urdu/world-49367444
برطانیہ میں مقیم برِصغیر کے باشندے کشمیر کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟
برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں جمعرات کو انڈیا کے ہائی کمیشن کے باہر ہزاروں مظاہرین جمع تھے۔ نم آنکھیں لیے ایک خاتون سمیت یہ مظاہرین 'ہم کیا چاہتے؟ آزادی!' کے نعرے بلند کر رہے تھے۔
مسئلہ کشمیر برطانیہ میں موجود جنوبی ایشیائی باشندوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے؟ انڈیا کی حکومت کے خلاف مظاہروں کے باعث شہر کا یہ مرکزی حصہ مفلوج ہو کر رہ گیا تھا اور مظاہرین نے بڑی تعداد میں سڑکوں پر آ کر انڈیا کے اقدام کے خلاف احتجاج کیا۔ ساتھ ہی قدرے کم تعداد میں کچھ انڈین نژاد برطانوی انڈیا کا یوم آزادی منا رہے تھے۔ کسی ناخوش گوار واقعہ سے بچنے کے لیے پولیس پوری تیاری کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ یہ بھی پڑھیے کشمیر کی ویڈیوز، تصاویر دلی میں نہ دکھائی جا سکیں کشمیری رہنما شاہ فیصل کو حراست میں لے لیا گیا کشمیر کے تنازع پر لندن میں مودی حکومت کے خلاف مظاہرہ مگر مظاہرین کے لیے یہ یوم سیاہ تھا اور کئی لوگوں نے بازوں پر کالی پٹیاں باندھ رکھی تھیں اور انڈیا کے زیر انتظام کمشمیر میں حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور وہاں کی صورتحال کو اجاگر کرنے کے لیے ہاتھوں میں کتبے اٹھائے ہوئے تھے۔ لندن میں یہ مظاہرہ اسی دن کیا گیا جب دلی میں انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا کہ ان کا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو اس کی نیم خود مختار حیثیت سے محروم کرنے کا فیصلہ کشمیر کو اس کی 'کھوئی ہوئی عظمت' لوٹا دے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسئلہِ کشمیر جنوبی ایشیائی نژاد برطانوی شہریوں کے لیے کتنی اہمیت رکھتا ہے؟ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے لیڈز کے لیکچرار رزاق راج نے کہا کہ وہ انڈین مصنوعات نہیں خریدیں گے 34 سالہ رِز علی اس مظاہرے میں شرکت کے لیے پیٹربرا سے تین گھنٹے کا سفر کر کے پہنچے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ کشمیر ان کے آبا و اجداد کی جائے پیدائش ہے اور وہاں کی موجودہ صورتحال پر وہ برہم ہیں۔ انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے بارے میں انھوں نے کہا: ’وہ دوسرے ہٹلر ہیں۔‘ البتہ یہ مسئلہ ان کی روزمرّہ زندگی یا برطانیہ میں مقیم انڈینز سے ان کے تعلقات کو متاثر نہیں کرتا۔ رز علی کے مطابق 'ہم مسلمان ہیں اور ہمارا مذہب ہمیں پُرامن رہنا سکھاتا ہے۔' لیڈز کے ایک لیکچرار رزاق راج نے، جن کے والدین پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں مقیم ہیں، بتایا کہ اس سیاسی بحران سے ان کی روزمرہ زندگی پر تو کوئی خاص اثر نہیں پڑا لیکن وہ اب انڈین مصنوعات نہیں خریدیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ہم سب ایشیائی ہیں اور ہمارا ورثہ بھی ایشیائی ہے۔ انڈین میرے لیے اتنے ہی عزیز ہیں جتنا کوئی اور۔ بات انڈینز کی نہیں بلکہ انڈین حکومت ہے۔' 'ان کے اور بھی مسائل ہیں' لیکن ان مظاہروں سے دور جنوبی ایشیا کے چند فلاحی کارکنوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ سماجی ناانصافی کا مقابلہ کرنے سے برادریوں کو ان کے عقیدے اور نسل سے بالاتر ہو کر متحد کرنے میں مدد ملتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشیدگی سے نئی نسل کے منقسم ہونے کے زیادہ امکانات ہیں۔ نیلم ہیرا کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کی نسل سوشل میڈیا کے علاوہ کہیں اور موضوعِ گفتگو نہیں بنی 30 سالہ نیلم ہیرا کا تعلق ہڈرزفیلڈ سے ہے اور وہ انڈین سکھ ہیں۔ مگر بقول ان کے یہ کہ وہ نسلی طور پر کون ہیں، سوشل میڈیا کے علاوہ کہیں اور موضوعِ گفتگو نہیں بنی۔ ’سوشل میڈیا پر شاید اس لیے کیونکہ وہاں لوگوں کے لیے بحث کرنا آسان ہے۔‘ وہ 'سسٹرز' نامی ایک فلاحی ادارے کی بانی ہیں جو تولیدی صحت کے بارے میں غلط فہمیاں دور کرتی ہے اور وہ خود جنوبی ایشیائی برادریوں کی خواتین کے ساتھ کام کرتی ہیں۔ مزید پڑھیں ’انڈیا معاملہ وہاں لے گیا ہے جہاں سے واپسی مشکل ہے‘ ’خدشہ ہے کہ انڈیا نیا قتل عام کرنے کا ارادہ رکھتا ہے‘ محمد حنیف کا کالم: کشمیر مانگو گے۔۔۔ انھوں نے کہا کہ 'جب صحت یا امراض تفریق نہیں کرتے تو پھر ہم کیوں کریں؟' نیلم ہیرا نے مزید بتایا کہ ان کے ساتھ ماضی میں پاکستان اور انڈیا کی کشیدگی کے بارے میں کبھی بھی کسی میٹنگ یا آن لائن کمیونٹی میں بات نہیں ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان خواتین کے پاس فکر کرنے کے لیے اس سے زیادہ اہم باتیں ہیں۔ یہ خواتین مسلسل تکلیف میں ہوتی ہیں ’اس لیے انھیں یہ خیال نہیں آتا کہ کشمیر کے بارے میں بحث کریں یا کسی کی سائیڈ لیں۔ یہ ان کے لیے اہم نہیں ہوتا، ان کے مسائل اور ہیں۔' ’نوجوان نسل شناخت پر غور کرتی ہے‘ خاقان قریشی برمنگھم میں جنسی حقوق یا ایل جی بی ٹی کے حقوق کے علمبردار ہیں۔ اور وہ ہیرا کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ مشترکہ اہداف مختلف مذاہب اور قومیت والوں کو متحد کرتے ہیں۔ 49 سالہ خاقان مختلف پسِ منظر سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ بھی کام کرتے ہیں اور ایک رضاکارانہ طور پر چلائے جانے والے ادارے ’برمنگھم ایشین ایل جی بی ٹی‘ کا حصہ ہیں۔ مشترکہ اہداف مختلف قومیت کے لوگوں کو متحد کرتے ہیں: ایل جی بی ٹی کارکن خاقان قریشی انھوں نے کہا کہ 'سب کوشش کرتے ہیں کہ ایک دوسرے کو ساتھ لے کر چلیں۔ یوں ہم ایک دوسرے سے جڑ رہتے ہیں۔ اگر میں کسی بھی شخص سے رابطہ کرتا ہوں تو میں اس کے عقیدے اور مذہب کو نہیں دیکھتا۔ یہ ان کی شخصیت کا حصہ ہے۔‘ مگر انھیں تشویش ہے کہ نوجوان نسل کے معاملے میں ہر بار ایسا نہیں ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’لوگ اپنی شناخت کے بارے میں زیادہ احتیاط برتنے لگے ہیں، خاص طور پر جب بات سیاسی شناخت کی ہو۔‘ ’میں اور میرے ساتھی مل کر ان چیزوں کے بارے میں بات کرتے ہیں جو سب میں مشترک ہیں۔ ہم دوستی کرنے پر زور دیتے ہیں، چاہے کوئی پاکستانی ہو، مسلمان، ہندو، سکھ یا انڈین ہو۔‘ ’میرا خیال ہے کہ نوجوان نسل شناخت کو زیادہ اہمیت دیتی ہے اور علیحدہ رہنا پسند کرتی ہے۔‘ ’مذہب کو سیاسی رنگ دینا‘ پراگنا پٹیل نے ساؤتھ ہال سسٹرز نامی سیکولر تنظیم قائم کی ہے جس میں سیاہ فام اور اقلیتی خواتین شامل ہیں۔ یہ لوگ صنفی بنیادوں پر تشدد کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ ایک ایسا ماحول ہے جہاں لوگوں کو عدم مساوات کے خلاف متحد کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتی ہیں ’لیکن ہمارے سینٹر کے باہر تو اس کے الٹ ہورہا ہے۔‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لوگ مزید تقسیم ہو رہے ہیں اور دوسرے اقلیتی گروہوں کو تو چھوڑیے جنوبی ایشیائی باشندوں میں یکجہتی پیدا کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مذہب کو سیاسی رنگ دیا جانے لگا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ نوجوانوں میں ایسی سوچ کے پروان چڑھنے کے زیادہ امکانات ہیں ’جس میں وہ یہ سوچیں کہ وہ دوسروں کے مخالف ہیں‘ کیونکہ انھیں تقسیمِ ہند سے متعلق کچھ یاد نہیں جب سنہ 1947 میں برطانوی راج کے خاتمے پر ہندوستان کو دو ملکوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا اور لگ بھگ 10 لاکھ افراد ہلاک جبکہ لاکھوں نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ ان کے مطابق یہ نوجوان دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتی ہوئی سیاسی کشیدگی میں بڑے ہوئے ہیں۔ کشمیر میں کیا ہو رہا ہے؟ اگست کے اوائل میں انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کے خاتمے پر یہاں فوجی دستوں کی تعیناتی کی گئی جبکہ پورا علاقہ مفلوج ہوگیا۔ آرٹیکل 370 ایک ایسی آئینی شق تھی جس کے ذریعے جموں اور کشمیر کی ریاست کو خصوصی حیثیت حاصل تھی جس کے تحت وہاں امور خارجہ، دفاع اور مواصلات کے علاوہ تمام معاملات پر قانون سازی ہو سکتی تھی۔ مواصلات کے تمام ذرائع معطل، مقامی رہنما نظر بند اور ہزاروں فوجی وادی میں تعینات کر دیے گئے تھے۔ اقوامِ متحدہ نے ان بندشوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ عمل حقوق انسانی کی صورتحال کو مزید خراب کر سکتا ہے۔ پچھلے ہفتے بی بی سی نے وادی میں پولیس کو سڑکوں پر ہزاروں مظاہرین پر فائرنگ کرتے اور آنسو گیس پھینکتے فلم بند کیا تھا۔ انڈیا کی حکومت نے پہلے ایسے کسی مظاہرے کی خبر کو مسترد کیا تھا البتہ منگل کو انڈیا کی وزارتِ داخلہ نے ایک اعلامیے میں اس مظاہرے کی تصدیق کی تھی۔ کشمیری طلبہ کشمیر پر انڈیا اور پاکستان دونوں کا دعویٰ ہے اور اس کے بٹے ہوئے حصے ہی دونوں کے زیرِ انتظام ہیں۔ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں علیحدگی پسند شورش ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور اس کے باعث پچھلی تین دہائیوں میں ہزاروں ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔ انڈیا، پاکستان پر شر پسندوں کی معاونت کا الزام لگاتا آیا ہے لیکن پاکستان ان الزامات کو رد کرتا رہا ہے اور کہتا ہے کہ وہ کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کے لیے صرف اخلاقی اور سفارتی مدد فراہم کرتا ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے متنازع فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے لیے ایک ’نئے دور‘ کا آغاز ہے۔ اس فیصلے پر انڈیا میں متعدد لوگوں نے جشن بھی منایا تھا۔
031209_iraq_helicopter_crash
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/12/031209_iraq_helicopter_crash
امریکی ہیلی کاپٹر: ہنگامی لینڈنگ
امریکی فوجی اہلکاروں نے کہا ہے کہ ایک فوجی ہیلی کاپٹر کو فالوجہ کے قریب ہنگامی طور پر اترنا پڑا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا ہے کہ ہوا باز نے ہیلی کاپٹر کو قابو سے باہر نہیں ہونے دیا۔
امریکی اہلکاروں کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی زخمی نہیں ہوا اور نہ ہیلی کاپٹر کو نقصان پہنچنے کی کوئی اطلاع ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق عینی شاہدوں نے کہا تھا کہ اس ہیلی کاپٹر کو راکٹ کا نشانہ بنایا گیا تھا جس کے بعد یہ گر کر تباہ ہوگیا تھا۔ گزشتہ ماہ فالوجہ کے قریب ہی ایک شِنوک ہیلی کاپٹر کو مار گرایا گیا تھا جس میں سولہ امریکی فوجی ہلاک ہو گئے۔
031020_haroon_barbers_jr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/10/031020_haroon_barbers_jr
شیو اور شرمندگی
’ڈاڑھی مونڈھنے کے لئے کہہ کر شرمندہ نہ کریں‘
ممکن ہے کہ کسی حجام کی دکان میں اگر ایسے کسی انتباہ پر نظر پڑے تو شاید پہلی نظر میں یہ بات عجیب سی ہی لگے مگر صوبۂ سرحد کے دورافتادہ پہاڑی ضلع کوہستان کے شہر بشام میں ایسے انتباہ حجاموں کی تمام ہی دکانوں میں باآسانی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ شاہراہ قراقرم پر واقع چھوٹے سے سیاحتی مرکز ’بشام‘ کے تقریباً سترہ حجاموں نے ڈاڑھی مونڈھوانے کو غیر اسلامی فعل قرار دیتے ہوئے اپنی دکانوں پر داڑھی مونڈھوانے پر پابندی عائد کردی ہے۔ یہ فیصلہ ان حجاموں نے ایک مقامی مسجد میں علماء سے صلاح و مشورے کے بعد کیا ہے۔ شہر میں حجاموں کی تنظیم ’بشام حجام ایسوسی ایشن‘ کے ناظم اطلاعات شیر علی نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا کہ ڈاڑھی مونڈھنے کا کام کافی عرصے سے علاقے میں زیر بحث تھا۔ انہوں نے کہا کہ ’کوئی اسے غیر اسلامی قرار دیتا تو کوئی اس سے ہونے والی آمدنی کو حرام بتاتا۔ بالآخر مجبوراً ہمیں اسے بند کرنا پڑا۔‘ تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ اس فیصلے سے روزانہ باقاعدگی سے شیو بنانے والوں کے لئے خاصے مسائل کھڑے ہوجائیں گے۔ ان افراد کے بارے میں انہوں نے کہا ’انہیں تو اب گھر پر ہی شیو کرنا ہوگی۔‘ بشام کے ایک تاجر خانزادہ کا کہنا تھا کہ ’مقامی لوگوں کو تو شیو سے متعلق پریشانی ہوئی ہی ہے مگر ’اصل مسئلہ تو یہاں آنے والے سیاحوں کو ہوگا۔ یہ (بشام) تو ایک چھوٹا سا سیاحتی مرکز تھا وہ لوگ اب کیا کریں گے؟‘ مقامی حجام یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اس فیصلے سے ان کی آمدنی کم ہوگی لیکن ان کا کہنا ہے کہ گاہکوں کے بال بنانے اور حمام کی آمدنی سے ان کا گزارہ ہوجائے گا۔ اس فیصلے کی خلاف ورزی کرنے والے حجام کو نہ صرف بیس ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہوگا بلکہ وہ چھ ماہ کے لئے کاروبار بھی نہیں کرسکے گا۔ بشام کا شمار ان علاقوں میں ہوتا ہے جہاں ماضی میں ’تحریک نفاذ شریعت محمدی‘ (ٹی این ایس ایم) جیسی اسلامی انتہا پسند تنظیموں کا بہت زیادہ اثر رہا ہے۔ گزشتہ برس کالعدم قرار دی جانے والی تنظیم ٹی این ایس ایم نے اب اس علاقے میں دوبارہ مساجد کی سطح پر سرگرمیاں شروع کر رکھی ہیں۔ البتہ شیر علی اس فیصلے کے لئے اس تنظیم یا متحدہ مجلس عمل کی صوبائی حکومت کے دباؤ سے انکار کرتے ہیں۔ مقامی حجاموں کی انجمن نے اس فیصلے پر عمل درآمد کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے۔ اس فیصلے نے علاقے میں ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے۔ فیصلے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ علاقے میں شریعت کے نفاذ کی جانب ایک چھوٹا مگر اہم قدم قرار دیا جاسکتا ہے جبکہ اس فیصلے کے مخالفین اسے ’جہالت‘ قرار دے رہے ہیں۔
140323_jeay_sindh_freedom_march_sa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/03/140323_jeay_sindh_freedom_march_sa
کراچی: جئے سندھ قومی محاذ کی فریڈم مارچ
پاکستان کے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں قوم پرست جماعت، جئے سندھ قومی محاذ کی جانب سے اتوار کی شام فریڈم مارچ کیا گیا۔ تنظیم کے چیئرمین صنعان قریشی اور وائس چیئرمین ڈاکٹر نیاز کالانی کی قیادت میں اس فریڈم مارچ کا آغاز گلشن حدید سے ہوا اور شرکا ’پاکستان نہ کھپے اور سندھ مانگ رہا ہے آزادی‘ کے نعرے لگاتے ہوئے شاہراہ فیصل سے تبت سینٹر پہنچے۔
فریڈم مارچ سے جئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین صنعان قریشی نے خطاب کیا اس مارچ میں جئے سندھ متحدہ محاذ، جئے سندھ محاذ، قومی عوامی تحریک، سندھ یونائٹیڈ پارٹی اور سندھ ترقی پسند پارٹی کے کارکنوں نے بھی شرکت کی، جبکہ سندھ بھر سے کارکن قافلوں کی صورت میں شامل ہوئے اور ایم اے جناح روڈ سرخ جھنڈوں سے لال ہوگئی۔ دوسری جانب اس مارچ کے اس دوران نشتر پارک میں جماعت اسلامی کا نظریہ پاکستان کنوینشن منعقد ہوا، جس سے جماعت کے امیر منور حسن نے خطاب کیا جبکہ جماعت دعوۃ کی جانب سے سفاری پارک سے لیکر پریس کلب تک ریلی نکالی گئی۔ فریڈم مارچ سے جئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین صنعان قریشی نے خطاب کیا اور عالمی دنیا سے اپیل کی کہ آزادی کے حصول میں سندھیوں کی مدد کی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ کیونکہ سندھ ہمیشہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست رہی ہے لیکن جب سے اس کو پاکستان میں شامل کیا گیا پنجاب سے اس سے ناانصافیوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ جئے سندھ قومی محاذ کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ بیاسی فیصد گیس اور انسٹھ فیصد پیٹرول اور مرکز کو اسی فیصد روینیو دینے والے صوبہ سندھ کے علاقے تھر میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں جبکہ اکسٹھ لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پچیس لاکھ ایکڑ زمین جو سندھی ہندو چھوڑ گئے تھے، اس پر جعلی دعوں کی بنیاد پر قبضہ کیا گیا اور اسی طرح کوٹڑی اور گدو بیراج بناکر بیس لاکھ ایکڑ زمین پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے فوجیوں میں کوڑیوں کے مول تقسیم کردی گئی۔ صنعان قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان آج عالمی امن کے لیے حظرہ بن چکا ہے، دنیا نے طالبان اور پنجابی طالبان نام سنا ہوگا لیکن کبھی سندھی طالبان نہیں سنا ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ کیونکہ وادی سندھ کے لوگ پر امن ہیں، جن کو حقوق سے محروم کرکے وسائل پر قبضہ کیا گیا ہے۔ سندھ کی آزادی میں یقین رکھنے والی قوم پرست جماعت جئے سندھ قومی محاذ نے اپنے فریڈم مارچ کے لیے تئیس مارچ کا انتخاب کیا۔ اس مارچ کی تیاریوں کے دوران تنظیم کے رہنما مقصود قریشی اور سلمان ودھو کا پراسرار حالات میں قتل کا سامنے آیا۔ حیدرآباد سے آنے والے ایک کارکن کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ مارچ روکنے کی سازش تھی۔ ’دو ہزار میں اسی طرح فریڈم مارچ میں انیس سو چالیس کی قرار داد پاکستان کو مسترد کیا گیا، اس کے جواب میں بشیر قریشی کو شہید کیا گیا، اس بار جب یہ مارچ منعقد کیا جا رہا تھا تو ہمارے رہنما اور بشیر قریشی کے بھائی مقصود قریشی اور سلمان ودھو کو ہلاک کیا گیا، لیکن لاکھوں لوگوں نے شرکت کر کے خود کو ثابت قدم ثابت کیا۔‘ اس فریڈ مارچ کے موقعے پر مقصود قریشی اور سلمان ودھو کی نمازے جنازہ بھی ادا کی گئی، جن کی میتیں بعد میں رتودیرو کے لیے روانہ کردی گئیں۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ دونوں کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے بعد لاشوں کو جلایا گیا۔ فریڈ مارچ کے موقعے پر مقصود قریشی اور سلمان ودھو کی نمازے جنازہ بھی ادا کی گئی اس ریلی کے لیے یوم پاکستان کا انتخاب کیوں، یہ سوال میں نے ایک نوجوان محمد یامین سے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ کو مسلسل احساس محرومی کی طرف دھکیلا جارہا ہے، انیس سو چالیس کی قرار داد میں صوبوں کے حق حاکمیت کو تسلیم کیا گیا تھا لیکن بعد میں اس پر عمل نہیں کیا گیا، آج ہم اس قرار داد سے اپنی بیزاری کا اعلان کرتے ہیں۔‘ دو ہزار بارہ میں بھی جئے سندھ قومی محاذ نے فریڈم مارچ کا کیا تھا، لیکن اس بار شرکا کی تعداد زیادہ نظر آئی، جس میں اکثریت نوجوانوں کی تھی۔ لاطینی امریکہ کے گوریلا رہنما چے گویرا کی ٹی شرٹ پہنے ہوئے نوجوان علی حیدر سے میں نے پوچھا کہ اُن کا مقصد کیا ہے۔ ’سندھی قوم کو یہ یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آپ کے حقوق اور معدنی وسائل محفوظ ہوں گے، لیکن یہ سب کچھ جھوٹ نکلا، پینسٹھ سال گزرنے کے بعد بھی ہم احساس محرومی کا شکار ہیں، ہمارے بچے بھوک مر رہے ہیں، ہم سے اندرونی اور بیرونی طور پر ہم سے لڑا جارہا ہے۔‘ مارچ کی گزر گاہ ایم اے جناح روڈ کو رات سے ہی ٹاور سے لیکر سی بریز پلازہ تک کنیٹنروں کی مدد سے سیل کیا گیا تھا۔ جئے سندھ قومی محاذ نے انتظامیہ کو جلسے کا مقام تبدیل کرنے سے انکار کیا تھا تاہم روٹ تبدیل کر کے مارچ کے پُرامن ہونے کی یقین دہانی کرائی تھی جس پر وہ قائم رہی۔ جئے سندھ تحریک کے بانی جی ایم سید تھے، جو پاکستان کے قیام کی تحریک میں سرگرم رہے۔ انھوں نے سندھ اسمبلی میں پاکستان کی قیام کے قرارداد پیش کی، انیس تہتر میں آئینِ پاکستان کے بعد انھوں نے پارلیمانی سیاست کو یہ کہہ کر خیرآباد کہا کہ اب صوبوں کو حقوق نہیں مل سکیں گے اور انھوں نے سندھ کی آزادی کا نعرہ لگایا۔
world-53281934
https://www.bbc.com/urdu/world-53281934
کورونا وائرس: ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ کیسے اینٹی باڈی اشرافیہ کو جنم دے سکتے ہیں
دنیا بھر میں حکومتیں اپنی شہریوں کے کورونا وائرس اینٹی باڈی ٹیسٹ کروا رہی ہیں تاکہ ان میں کووڈ19 کے مرض کی ماضی میں موجودگی کا تعین کیا جا سکے۔
کووڈ19 پاسپورٹ سماجی فاصلے کا لحاظ کیے بغیر ڈیٹِنگ کے لیے استعمال کیے جا سکیں گے بعض ملک ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ جاری کرنے کی تیاری کر رہے ہیں اور ہو سکتا ہے کہ دوسرے بھی ان کی تقلید کریں۔ یہ ایک طرح سے اس بات کا ثبوت ہوگا کہ آپ کو کورونا وائرس لگ چکا ہے اور اب اس کے دوبارہ لگنے یا دوسرے کو لگانے کا احتمال نہیں ہے۔ یعنی ایسے پاسپورٹ کے حامل افراد پر لاک ڈاؤن کا اطلاق نہیں ہوگا۔ مگر کیا یہ خیال درست ہے؟ اور کیا یہ ایک ایسے اشرافیہ طبقے کو جنم دے گا جس میں کورونا وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز یعنی مدافعت پائی جاتی ہو اور جو اپنی مرضی سے ڈیٹ (وصل یا محبوب سے ملاقات کرنا)، سفر اور کام پر جا سکتا ہے جبکہ دوسرے افراد کو مسلسل صحت سے متعلق احتیاطی تدابیر سے کام لینا ہوگا؟ یہ بھی پڑھیے ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ کورونا کی وبا کو پھیلا سکتے ہیں: ڈبلیو ایچ او کورونا وائرس کو سمجھنے کے لیے ’R` نمبر کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟ کیا آپ صحت یابی کے بعد دوبارہ کورونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟ ’میں جانتا ہوں کہ میں پاک ہوں، چلو ملتے ہیں‘ ایبرڈین کی رہائشی پیم ایوانز کو حال ہی میں انٹرنیٹ ڈیٹنگ کا ناخوشگوار تجربہ ہوا۔ وہ بتاتی ہیں کہ ایک آدمی نے جو ان سے ملنا چاہتا تھی ایک نئی روش اپنائی۔ پیم ایوانز ایسے مردوں سے نہیں ملنا چاہتیں جو سمجھتے ہیں کہ ان میں کووڈ19 کے خلاف مدافعت موجود ہے ان کا کہنا تھا کہ ’اختتام ہفتہ پر ایک آدمی سے بات ہوئی۔ اس نے بتایا کہ پچھلے ہفتے اس کا کووڈ کا ٹیسٹ منفی آیا ہے اور وہ اس بیماری سے پاک ہے، اس لیے کہیں ملنا چاہیے۔ میں نے اس سے کہا کہ بالکل نہیں۔ وہ تو فوراً ہی بدتمیزی پر اتر آیا۔‘ پیم کا ممکنہ محبوب بظاہر اپنے منفی کورونا ٹیسٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان سے ملنے کے لیے لاک ڈاؤن کے ضوابط توڑنا چاہتا تھا۔ تو کیا ایسے لوگ جنھیں کورونا وائرس لگنے کی سند مل چکی ہے اس کا اس طرح سے فائدہ اٹھائیں گے؟ نیو یارک میں کوروناوائرس اینٹی باڈیز ٹیسٹ کے لیے لوگ ٹیسٹنگ مراکز کا رخ کر رہے ہیں نیو یارک میں بعض لوگ خود میں کورونا وائرس اینٹی باڈیز کی موجودگی کا فائدہ یوں اٹھا رہے ہیں کہ وہ لوگوں کو بتاتے ہیں کہ انھیں یا ان سے کسی کو کوروناوائرس لگنے کا خطرہ نہیں ہے لہذا ان سے ڈیٹ مارنا محفوظ ہے۔ ’امیونیٹی پاسپورٹ‘ تصور یہ ہے کہ اگر آپ میں اینٹی باڈیز ہیں تو یہ مرض آپ کو دوبارہ لاحق نہیں ہو سکتا۔ امیونیٹی پاسپورٹ کا مطلب ایسی سند ہے جس کی بنیاد پر آپ ان مقامات پر بلا روک ٹوک جا سکیں گے جہاں دوسرے لوگوں کے جانے پر پابندی ہوگی۔ مگر اس کے حصول کے لیے لازمی ہے کہ آپ کو کورونا وائرس لگ چکا ہو۔ امیونیٹی پاسپورٹ کا فرضی نمونہ: یعنی اگر آپ کے پاس اصلی دستاویز آ جائے تو آپ کو کسی دوسرے ملک میں پہچنے پر قرنطینہ سے نہیں گزرنا ہوگا ان اصولوں کی بنیاد پر ایسٹونیا ایک ایسا ہی امیونیٹی پاسپورٹ تیار کر رہا ہے جبکہ چِلی ایک ’ریلیز سرٹیفیکیٹ` بنانے میں مصروف ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر امیونیٹی موجود ہے تو جن لوگوں میں یہ پائی جاتی ہے انھیں دوسرے کے مقابلے میں کچھ آزادی حاصل ہونی چاہیے۔ اسٹونیا کے کووڈ امیونیٹی پاسپورٹ کی موبائل فون ٹیکنالوجی کا استعمال ایسی ایپس پر کام ہو رہا ہے جو اینٹی باڈیز، اور ممکنہ طور پر امیونیٹی دکھا سکیں۔ ایک مثال آنفیِڈو ہے۔ اس کے بنانے والے حسین کاسئی کا کہنا ہے کہ امریکہ میں بعض ہوٹل اس ایپ کے ذریعے امیونیٹی پاسپورٹ قبول کر رہے ہیں۔ ان کے بقول ’یہ زیادہ تر ان مہمانوں کے لیے ہے جو سپا یا جِم جانا چاہتے ہیں جہاں پر سماجی فاصلہ رکھنے کا امکان کم ہوتا ہے۔‘ اینٹی باڈی اشرافیہ مگر اس سے کہیں کووڈ امیون اشرافیہ کے پیدا ہونے کا تو کوئی خدشہ نہیں ہے۔ چین میں خریدار ایک ایپ کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ صحت مند ہیں یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر رابرٹ ویسٹ کو ایک ’منقسم سماج‘ کے پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’آپ سوچیں کہ اگر آپ ایسی کوئی سند حاصل کر لیتے ہیں تو یہ آپ کے لیے بہت سے ایسے دروازے کھول دے گی جو دوسروں کے لیے بند رہیں گے۔‘ پروفیسر ویسٹ کے مطابق ’یہ ایک ایسے سماج کو جنم دے گا جس کے کئی درجے ہوں گے اور اس سے امتیاز اور عدم مساوات میں اضافہ ہوگا۔‘ وہ خبردار کرتے ہیں کہ اس سے امیونیٹی کے تصور کی بنیاد ہی کمزور پڑ جائے گی کیونکہ یہ ٹھوس سائنسی شواہد پر استوار نہیں ہوگی۔ کووڈ امیونیٹی پاسپورٹ کا مطلب ہوگا کہ مسافروں کو ماسک پہنے کی ضرورت نہیں ہے پروفیسر ویسٹ کے خیال میں ایک ایسا وقت آ سکتا ہے جب اینٹی باڈی سرٹیفیکیٹ کے حامل افراد کو اسپتالوں اور تیمارداری مراکز میں زیادہ کمزور افراد کے ساتھ کام کرنے کے لیے ترجیح دی جائے گی، اور ایسے ادارے امیونیٹی سندیافتہ عملے کو اپنی تجارتی مہم میں استعمال کریں گے۔ مگر ان کے مطابق ابھی اس بات کے شواہد نا کافی ہیں کہ اینٹی باڈیز کی موجودگی کا مطلب ہے کہ آپ وائرس نہیں پھیلا سکتے۔ ’خطرے کی بات نہیں، اس میں اینٹی باڈیز ہیں‘ عالمی وبا نے خاص طور سے ہوائی صنعت کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے اور یورپ میں سب سے زیادہ مصروف لندن ہیتھرو ایئرپورٹ کے چیف ایگزیکٹیو جان ہالینڈ چاہتے ہیں کہ تمام حکومتیں امیونیٹی سرٹیفیکس کو تسلیم کریں۔ ان کے بقول ’آپ یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ جس ملک میں آپ جا رہے ہیں وہاں آپ کا ہیلتھ سرٹیفیکیٹ قابل قبول ہے اور یہ کہ وطن واپسی پر آپ کو قرنطینہ سے نہیں گزرنا پڑے گا۔‘ کووڈ19 کا وائرس خوردبین کی آنکھ سے امریکہ میں ہارورڈ لا سکول سے وابستہ کارمل شیکر کو خدشہ ہے کہ اس طرح تو لوگ چاہیں گے کہ انھیں کووڈ19 لاحق ہو جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ اس سے تو بہت سے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ مثلاً لوگ کام پر واپس جانے کے لیے اس مہلک مرض کا شکار ہونا چاہیں گے، یا پھر کمپنیاں اپنے ملازمین سے ان کی صحت کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنا شروع کر دیں گے، وہ پوچھیں گی کہ آپ کو کووڈ19 ہو چکا ہے۔ کارمل شیکر کے خیال میں بعض صنعتوں کے لیے اس کے تجارتی فوائد واضح ہیں: ’میں اگر کسی ریستوان میں کام کرتی ہوں تو کیا میرا مینیجر کسٹمرز سے کہہ سکتا ہے، ’اوہ خطرے کوئی بات نہیں ہے کیونکہ ان میں اینٹی باڈیز ہیں۔‘‘ امریکہ میں کووڈ19 کے مصدقہ مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے شیکر کہتی ہیں کہ امیونیٹی کے بارے میں معلوم ہونے میں بڑا فائدہ ہے: ’آپ کووڈ کے مریضوں کی تیمارداری کرنے والے عملے سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ان میں قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ لوگ اس عالمگیر وبا سے پہلے کے دور میں جانا چاہتے ہیں اور اس کے لیے وہ سمجھوتہ کرنے پر تیار ہیں۔ اہم سوالات دنیا بھر کے ممالک بھی ’نیو نارمل‘ کو جلد از جلد اپنانا چاہتے ہیں۔ مگر بہت سوں کے لیے پوری آبادی کا اینٹی باڈی ٹیسٹ کرنا اس وقت مشکل ہے۔ جرمنی البتہ بڑے پیمانے پر اینٹی باڈی ٹیسٹنگ کر رہا ہے۔ کئی ممالک بڑے پیمانے پر ایٹی باڈیز ٹیسٹ کرنے کا انتظام کر رہے ہیں مگر بعض ٹیسٹو کے قابل اعتبار ہونے کے بارے میں شکوک پائے جاتے ہیں۔ امریکہ میں قائم کووڈ19 ٹیسٹنگ پراجیکٹ نے مئی میں ایک تحقیق شائع کی تھی جس کے مطابق 12 ٹیسٹ ایسے تھے جو 81 سے 100 فی صد تک درست پائے گئے تھے۔ جبکہ امریکی سینٹرز فار ڈیزیزز اینڈ پری وینشن نے خبردار کیا تھا کہ بعض ٹیسٹ اینٹی باڈیز کی موجودگی کے بارے میں 50 فی صد تک غلط ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کو کووڈ19 نہیں ہوا وہ اس غلط فہمی کا شکار ہو سکتے ہیں کہ وہ محفوظ ہیں اور یوں غیر حقیقی تحفظ کے احاس کی وجہ سے خود کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ اور اگر اینٹی باڈی ٹیسٹ کا نتیجہ درست ہو بھی تو کیا اس کا مطلب ہے کہ آپ میں اس مرض کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہو چکی ہے؟ عالمی ادارۂ صحت اس بارے میں شبہات کا اظہار کر چکا ہے۔ امریکہ میں اینٹی باڈیز ٹیسٹ کا نتیجہ 15 منٹ کے اندر حاصل کیا جا سکتا ہے ایبرڈین کی رہائشی پیم بھی اینٹی باڈی ٹیسٹنگ سے متعلق دلائل کی قائل نہیں لگتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نہیں جانتے کہ یہ امیونیٹی کب تک برقرار رہے گی۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جن لوگوں میں علامات پائی گئیں کیا ان میں 100 فیصد امیونیٹی پیدا ہوگئی ہے۔ ’ویسے بھی میں پہلی ملاقات میں بوس و کنار کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔ تو میرے لیے دو میٹر کے فاصلے کا فائدہ یہ ہے کہ سامنے والا ایک دم سے آپ کی طرف پیش قدمی نہیں کر سکتا۔‘
081122_kashmir_turnout_as
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/11/081122_kashmir_turnout_as
ووٹ پڑے تو؟
امرناتھ شرائن بورڈ کے قضیے کے بعد کشمیر میں عام طور پر یہ رائے تھی کہ لوگ ووٹنگ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور ٹرن آؤٹ ماضی کے مقابلے میں کم ہوگا۔ ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انتخابات میں بھارت نواز سیاسی جماعتوں کو کوئی بڑی انتخابی ریلی کرنے کا موقع نہیں دیا گیا حتیٰ کہ بعض حلقوں میں لوگوں نے انتخابی امیدوار کا چہرہ بھی نہیں دیکھا تھا۔
مگر اسکے برعکس ووٹ پڑے اور خاصا ٹرن آؤٹ رہا جو سب کے لیے باعث حیرانی ہے۔ خاص طور پر بانڈی پورہ میں جہاں آزادی کی تحریک نہ صرف زوروں پر رہی ہے بلکہ حالیہ ہفتوں میں بھارت مخالف بڑے جلوس بھی نکلے۔ ووٹ کیوں پڑے؟ کچھ وجوہات عیاں ہیں جن کو لوگ جذبات میں آکر شاید بھول جاتے ہیں۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ ملیٹینسی سے متاثرہ بانڈی پورہ میں اگر کوئی انتخابی سرگرمی دیکھ گئی تو وہ سابق شدت پسند عثمان مجید کی تھی جنہوں نے تحریک سے ناطہ توڑ کر سرنّڈر کرنے والے شدت پسندوں کی صف میں شمولیت اختیار کی ۔وہ ’پاکستان کی کشمیر مخالف اندرونی پالیسی‘ کو عوام کے سامنے لائے جس میں ان کی پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں تربیت سےمسلح ہونے تک کی ساری داستان شامل ہے۔علاقے میں پہلے کچھ خوف پھرکچھ ان کے اثر رسوخ نے ماحول میں کافی تبدیلی پیدا کی اور آہستہ آہستہ وہ بیشتر لوگوں کو انتخابات میں ووٹ ڈالنے پر مائل کرگئے مگر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کیا لوگوں نے انہیں ہی ووٹ ڈالے۔ بیس سال سے جاری مسلح تحریک اور اسکے خلاف ’کاؤنٹر انسرجنسی آپریشنز‘ کے دوران عام لوگوں نے کافی مصائب جھیلے ہیں۔ جب عام شہریوں کا زندہ رہنا مشکل ہوجائے تو ان کے لۓ وہ امیدوار مسیحا سے کم نہیں ہوتاجو انہیں یہ آکر کہہ دے کہ اگر انہیں ووٹ دیا جائے تو اُنہیں کوئی فوجی یا شدت پسند تنگ نہیں کرے گا۔ پاکستان کی ’یوٹرن‘ اور صدر زرداری سے منسوب ’کشمیری دہشت گردی‘ کے حالیہ بیان نے کشمیر میں پاکستان کے خلاف منفی سوچ پیدا کر دی ہے اور بیشتر کا ماننا ہے کہ مسلح تحریک کو جلا بخش کر کشمیر کو بربادی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ پاکستان نواز کشمیری رہنماؤں کی اس وقت کافی سبکی ہوئی جو اب بھی الحاق پاکستان کی تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہیں جب ریاستی انتخابات پر پاکستان نے جان بوجھ کر خاموشی اختیار کی حالانکہ اس سے پہلے جب بھی انتخابات ہوئے ہیں تو ایک آدھ رسمی بیان سامنے ضرور آتا رہا ہے۔ گذشتہ چھ برسوں پر محیط پی ڈی پی اور کانگریس کی اتحادی حکومت کے دوران آزادی پسند رہنماؤں کی موجودگی برائے نام رہی اور اپنے چھوٹے چھوٹے محلوں تک ان کی تحریک محدوو تھی مگر امرناتھ شرائن بورڈ کے قضیے کا فائدہ اٹھاکر وہ عوامی مظاہروں کو اپنے کھاتے میں ڈال کر یہ مان کے چلے کہ حالات کے بدلتے ہی ان کی اہمیت بحال ہوگئی اور لوگ ان کی بائیکاٹ کال پر لبیک کہیں گے حالانکہ انہوں نے ابھی تک لوگوں کو کنفیوثن میں رکھا ہے کہ آزادی سے ان کی کیا مراد ہے۔ اس طرح کے کنفیوثن میں اگر لوگوں کو محسوس ہورہا ہے کہ ووٹ پڑنے سے ان کی مشکلات میں ذرا کمی آئیگی تو کیا اس پر حیران ہونا چاہے؟۔
pakistan-52753584
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52753584
پاکستان کے آڈیٹر جنرل نے زکوٰۃ اور بیت المال کے فنڈز میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا ہے
پاکستان کے آڈیٹر جنرل نے زکوٰۃ اور بیت المال کے فنڈز میں اربوں روپے کی بے قاعدگیوں کا انکشاف کیا ہے۔
18 ویں ترمیم سے پہلے زکوۃ اور بیت الامال دونوں ادارے وفاق کے ماتحت تھے یہ انکشاف آڈیٹر جنرل کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی رپورٹ میں کیا گیا ہے جو سنہ 2018-19 کے مالی سال میں ہونے والی بدعنوانیوں کے بارے میں ہے۔ ان رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل کی طرف سے زکوٰۃ کے محکمے کا آڈٹ سنہ 1986 سے جاری ہے اور اس وقت سینٹرل زکوٰۃ کونسل، صوبائی زکوٰۃ کونسل اور مقامی سطح پر قائم کی جانے والی زکوٰۃ کونسل کا آڈٹ کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ سنہ 2018-19 کے لیے سات ارب 38 کروڑ روپے رکھے گئے تھے۔ رپورٹ میں زکوٰۃ فنڈ میں سے 96 کروڑ روپے سے زیادہ کی رقم کا آڈٹ کیا گیا تو اس میں سے 57 کروڑ سے زائد کی بے ضابطگیاں پائی گئیں جو کہ آڈٹ کی گئی رقم کا 60 فیصد بنتا ہے۔ مزید پڑھیے کورونا از خود نوٹس: ’کسی نے بھی شفافیت پر مبنی رپورٹ نہیں جمع کروائی‘ پاکستان میں زکوٰۃ کے نظام پر کیا خدشات ہیں؟ حج پر سبسڈی حج کے فلسفے سے متصادم ہے: حکومت رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جس رقم کا آڈٹ کیا گیا ہے اس میں سے آٹھ کروڑ روپے سے زائد کی رقم متعقلہ حکام سے بازیاب کرنے کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جبکہ وفاقی حکومت زکوٰۃ فنڈز سے جو رقم اکھٹی کرتی ہے اس میں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد 93 فیصد حصہ صوبوں کو چلا جاتا ہے جبکہ سات فیصد وفاق کے پاس رہتا ہے۔ زکوٰۃ فنڈ میں سب سے زیادہ بے قاعدگیاں صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں 18 ویں آئینی ترمیم سے پہلے زکوٰۃ کا محکمہ وفاق کے پاس تھا اور اس محکمے کی بنیاد سابق فوجی صدر ضیا الحق کے دور میں رکھی گئی تھی۔ مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علما نے اس محکمے کی کارکردگی کو اس وقت بہتر قرار دیا تھا جب تک یہ وفاق کے پاس رہا ہے اور جب یہ محکمہ صوبوں کو تفویض کیا گیا تو پھر اس کی کاکردگی پر علما کی طرف سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔ 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد زکوٰۃ فنڈ میں آبادی کے تناسب سے صوبوں کو حصہ دیا جاتا ہے جس میں صوبہ پنجاب کو57 فیصد سندھ کو24 فیصد صوبہ خیبر پختونخوا کو 14 فیصد اور رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کو زکوٰۃ فنڈز میں سے پانچ فیصد حصہ دیا جاتا ہے۔ اس سات فیصد میں سے وفاق نے اسلام آباد کے علاوہ گلگلت بلستان کے لیے بھی رکھا ہوتا ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے جو اب صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بن چکے ہیں میں رہنے والے مستحق افراد کو بھی اسی حصے سے رقم دی جاتی ہے۔ وفاق کو جو زکوٰۃ کے سات فیصد حصے میں بھی اسلام آباد کے لیے35 فیصد فاٹا کے لیے46 فیصد اور گلگت بلتسان کے لیے 19فیصد مقرر کیا گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل آفس کے ایک اہلکار کے مطابق چونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد زکوٰۃ فنڈ میں سب سے زیادہ بے قاعدگیاں صوبہ پنجاب اور صوبہ سندھ میں پائی گئی ہیں۔ اہلکار کے مطابق 57کروڑ میں سے سب سےزیادہ بے قاعدگیاں پنجاب میں پائی گئی جو کہ 24 کروڑ روپے ہے جبکہ 18کروڑ روپے سے زیادہ کی بے قاعدگییاں صوبہ سندھ میں پائی گئی ہیں صوبہ خیبر پختونخوا میں تین کروڑ روپے کی بے ضابطگیاں پائی گئی ہیں۔ اس کے برعکس صوبہ بلوچستان میں زکوٰۃ فنڈ میں ایک ارب روپے سے زیادہ کی رقم موجود ہے جو کہ مستحقین میں تقسیم نہیں کی گئی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زکوٰۃ فنڈ کا صوبائی ادارہ اس رقم کو مستحقین میں تقسیم کرنے کا ذمہ دار ہے تاکہ صوبے میں غربت کی سطح کو کم کیا جاسکے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ بلوچستان پاکستان کا سب سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔ صوبہ خیبر پختونخوا میں بھی صحت کے شعبے میں ادویات کی خریداری کے حوالے سے رولز کی پاسداری نہ کرنے کی نشاندہی کی گئی ہے اس کے علاوہ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ پاکستان بیت المال اور صوبائی حکومت کی طرف سےصحت کارڈ کے اجرا کے بعد زکوٰۃ فنڈ پر اضافی بوجھ ڈالا گیا۔ اس آڈٹ رپورٹ کے مطابق سنہ2018 میں صوبہ خیبر پختونخوا کے 13 اضلاع نے ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ کی رقم عشر کی مد میں اکھٹی کی جبکہ باقی 12 اضلاع نے اس حوالے سے کوئی کام نہیں کیا۔ وفاق کے حصے میں زکوٰۃ فنڈر میں سےجو سات فیصد حصہ آتا ہے وہ بھی مکمل طور پر خرچ نہیں ہونا اور ابھی بھی اس اکاونٹ میں 26 کروڑ روپے کی رقم موجود ہے جو مستحقین تک نہیں پہنچائی گئی۔ اس ضمن میں متعلقہ حکام کا کہنا تھا کہ چونکہ زکوٰۃ کونسل کے چیئرمین اور اس کے ارکان کی مدت مکمل ہوچکی تھی اور نئی تقرری عمل میں نہیں لائی گئی تھی اس لیے یہ رقم مستحقین تک نہیں پہنچ پائی۔ پاکستان بیت المال میں ارب سے زیادہ کی رقم کی بے قاعدگیاں پاکستان بیت المال کے بارے میں آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ2018 سے سنہ 2019 کے مالی سال کے دوران اس محکمے کے لیے پانچ ارب روپے مختص کیے گئے تھے جن میں سے تین ارب روپے سے زائد کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ بیت المال کو دی جانے والی رقم کا مکمل آڈٹ کیا گیا ہے اور اس محکمے کو دی گئی رقم میں جو بے قاعدگیاں ہوئی ہیں وہ اس محکے کو مختص کی گئی رقم کا 62 فیصد ہے۔ اس آڈٹ رپورٹ میں47 کروڑ روپے کی ریکوری کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس آڈٹ رپورٹ میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مستحق افراد کی مالی معاونت کے حوالے سے لوگوں کے مستحق ہونے کے بارے میں ڈیٹا کی تصدیق نہیں کی گئی اور اس ضمن میں دو ارب چالیس کروڑ روپے کی رقم کی ادائیگی کو بے قاعدگیوں کی مد میں شمار کیا گیا ہے۔ آڈیٹر جنرل کے دفتر کے اہلکار کے مطابق اس عرصے کے دوران جن افراد کو دو ارب روپے سے زیادہ کی رقم تقسیم کی گئی ہے ان کے ڈیٹا کے بارے میں ابھی تک تصدیق نہیں کروائی گئی ہے کیونکہ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جو شخص بیت المال سے پیسے لے رہا ہے وہ صوبے سے زکوٰۃ فنڈ سے بھی مستفید نہ ہو رہا ہو۔ اہلکار کے مطابق قانون میں یہ واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ کوئی بھی درخواست دہندہ بیت المال کے علاوہ کسی بھی دوسرے حکومتی ادارے سے مالی امداد نہیں لے سکتا۔ سویٹ ہوم کے بچوں کے لیے فنڈ میں بے ضابطگیاں اس آڈٹ رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ بیت المال کے زیر انتظام چلنے والے منصبوے سویٹ ہوم میں رہنے والے بچوں کے کھانے کی اشیا خریدنے کی مد میں بھی کروڑوں روپے کی بے ضابطگیاں ہوئی ہیں ۔ متعلقہ حکام نے آڈٹ کرنے والے حکام کو بتایا کہ سویٹ ہوم کے لیے اشیائے خورد و نوش یوٹیلی سٹورز سے خریدی گئیں تھیں تاہم بیت المال کے حکام کا یہ جواب تسلی بخش نہیں تھا کیونکہ اس حوالے سے جو دستاویزات پیش کی گئی تھیں وہ بیت المال کے حکام کی بیان کردہ ان دستناویزات کے بالکل برعکس ہیں۔ اس بارے میں آڈیٹر جنرل نے اس معاملے کی چھان بین کراونے کی سفارش کی ہے تاکہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاسکے۔ اس آڈٹ رپورٹ میں ملک کے 8 بڑے ہسپتالوں میں مستحق مریضوں کے لیے خریدی گئی ادویات میں 67 کروڑ روپے سے زائد کی رقم میں بے قاعدگیاں پائی گئی ہیں اور ادویات خریدنے کے حوالے سے کوئی ٹینڈر بھی نہیں دیا گیا۔ اس رپورٹ میں مذکورہ ہسپتالوں کی طرف سے جو ادویات خریدی گئی ہیں ان میں پیپرا رولز کی بھی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ ڈاکٹری نسخے کے علاوہ ادویات کی خریداری اس آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان مذکورہ ہسپتالوں کے اکاونٹ میں ادویات خریدنے کی مد میں پاکستان بیت المال کے اب تک 16 کروڑ روپے سے زیارہ کی رقم پڑی ہوئی ہے جو اُنھوں نے ابھی تک بیت المال کی فنڈز میں منتقل نہیں کی۔ اس کے علاوہ ان ہسپتالوں کے عملے نے اس عرصے کے دوران تین کروڑ روپے سے زیادہ کی ادویات ڈاکٹری نسخے کے علاوہ خریدی ہے اور اس اقدام سے نہ تو کسی مریض اور نہ ہی کسی ڈاکٹر کی نشاندہی کی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس اقدام کو قانون کے مطابق قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس آڈٹ رپورٹ میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ دو ارب روپے سے زیادہ کی سرمایہ کاری مختلف بینکوں میں بھی کی گئی لیکن اس ضمن میں متعلقہ حکام نے کوئی کوٹیشن وغیرہ نہیں لی تھی اور نہ ہی بینکوں سے منافع کی شرح کے بارے میں کوئی بات چیت کی گئی۔ 70 فیصد بے قاعدگیاں ٹھیک ہو گئی ہیں واضح رہے کہ پاکستان بیت المال سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دور میں سنہ1992 میں بنایا گیا تھا اور اس کو سماجی بہبود کی وزارت کے ماتحت کیا گیا تھا۔ پاکستان بیت المال کے معاملات ایک بورڈ چلاتا ہے جس کے ارکان کی تقرری وفاقی حکومت کرتی ہے اور بورڈ کی سربراہی ایک مینجنگ ڈائریکٹر کرتا ہے جس کی تقرری بھی وفاقی حکومت ہی کرتی ہے۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید کے مطابق ان دونوں محکموں کے بارے میں آڈٹ رپورٹ میں جو اعتراضات اُٹھائے گئے ہیں ان کو دور کرنے کے لیے صوبوں کو بھی کہہ دیا گیا ہے۔ پنجاب کے ایڈشنل ایڈووکیٹ جنرل فیصل چوہدری کے مطابق آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں جن بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ان میں سے زیادہ تر معاملات کو ٹھیک کرلیا گیا ہے اور صوبوں کی طرف سے اس ضمن میں ایک رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی ہے۔ اُنھوں نے دعویٰ کیا کہ 70 فیصد بے قاعدگیوں کو ٹھیک کرلیا گیا ہے تاہم اس بارے میں حتمی فیصلہ سپریم کورٹ کی طرف سے کورونا وائر س سے متعلق از خود نوٹس کے فیصلے میں ہی آئے گا۔
pakistan-48414421
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48414421
وسعت اللہ خان کا کالم: چیئرمین نیب اور آڈیو ویڈیو کی تیرتی لاش
گذشتہ ہفتے اچانک ایک پاکستانی چینل ( ٹی وی ون ) پر چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اور ایک خاتون کے درمیان حساس و طرح دار گفتگو کا ایک آڈیو اور ویڈیو کلپ نشر ہوا اور پھر اچانک اس سے لاتعلقی اختیار کر کے چینل نے معذرت کر لی۔ مگر سوشل میڈیا اور سیاسی حلقوں کو بہرحال مصالحہ ہاتھ آ گیا۔ رسیلے مواد کی میمز بننی شروع ہوئیں، انکوائری کے مطالبے ہونے لگے، چیئرمین نیب کے استعفی کا مطالبہ سامنے آ گیا۔
کئی اسے چیئرمین نیب اور ایک خاتون کا ذاتی معاملہ قرار دینے لگے۔ کئی نے دلیل دی کہ چونکہ نیب ایک حساس ادارہ اور کرپشن کا سراغ لگا کر سزا دلوانے کا ذمہ دار ہے لہذا چیئرمین سے لے کر نچلے درجے تک تمام نیب افسران کا اخلاقی معیار عام لوگوں سے بلند ہونا ان ذمہ داریوں کا ناگزیر تقاضا ہے تا کہ نیب کا چہرہ بے داغ رہے۔ ویڈیو سکینڈل: ’یہ چیئرمین نیب کے خلاف پراپیگنڈا ہے‘ میں یہ ماننا چاہتا ہوں کہ یہ ایک مرد اور خاتون کا ذاتی معاملہ ہے جس میں کسی تیسرے کو ٹانگ نہیں اڑانا چاہیے۔ مگر ماننے میں واحد رکاوٹ یہ ہے کہ اس آڈیو اور ویڈیو کی مرکزی کردار طیبہ گل اس سال سولہ جنوری سے دو مئی تک نیب کی حراست میں رہ چکی ہیں اور فی الوقت ضمانت پر ہیں۔ طیبہ کے شوہر فاروق اب بھی نیب مقدمات میں ماخوذ اور کوٹ لکپھت جیل میں قید ہیں۔ طیبہ تسلیم کر چکی ہیں کہ یہ آڈیوز ویڈیو انھوں نے ہی ریکارڈ اور ریلیز کی ہیں۔ نیب کی جانب سے اب تک یہ تو کہا گیا ہے کہ یہ میاں بیوی ایک بلیک میلنگ مافیا کا حصہ ہیں اور جو الزامات چیئرمین نیب پر لگائے گئے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ مگر آج تک نیب کی جانب سے بصری و صوتی مواد کی صحت کو چیلنج نہیں کیا گیا اور نہ ہی یہ وضاحت کی گئی کہ آڈیو اور ویڈیو میں جو شخص طیبہ سے فون پر یا میز کے آر پار گفتگو کر رہا ہے وہ جسٹس جاوید اقبال نہیں کوئی جعلساز ہے جو ان کی آواز اور روپ دھار کر اداکاری و صداکاری کر رہا ہے ۔ کیا اسے محض حسنِ اتفاق سمجھا جائے کہ بقول طیبہ گل آڈیو اور ویڈیو سامنے آنے کے بعد 21 مئی کو ان کے بیٹے، دیور، پہلے سے نظربند شوہر اور ان کے خلاف مزید تین ایف آئی آرز کٹ گئیں۔ اور 25 مئی کو نیب نے چیئرمین اور چھ دیگر افراد کو بلیک میل کرنے اور بے بنیاد پروپیگنڈے کے الزامات میں دونوں میاں بیوی کے خلاف ایک اور ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کر دیا۔ اس ریفرنس کی سماعت سترہ جون کو ہوگی۔ تو کیا عدالت چیئرمین نیب کا موقف بھی قلمبند کرے گی؟ نہیں معلوم کہ یہ معاملہ اگلے چند دنوں میں سلجھے گا یا مزید الجھے گا یا اس کی جانچ کسی بھی سطح پر ہوگی کہ نہیں۔ البتہ چیئرمین نیب چونکہ ایک آئینی عہدیدار ہیں لہذا ان کے منصب سے لگنے والے الزامات کا صاف ہونا بہت ضروری ہے۔ اس کا سیدھا آسان فوری طریقہ تو یہ ہے کہ آڈیوز اور ویڈیو کی فرانزک جانچ کروا لی جائے تاکہ اصلی نقلی کا پتہ چل جائے۔ نیز طیبہ اور چیئرمین نیب کے زیرِ استعمال فونز کی بھی فورنزک جانچ ہو جائے تاکہ کالنگ ریکارڈ سے واضح ہو جائے کہ کس نے کس کو کب کتنی بار کیوں فون کیا اور اگر کسی آڈیو ویڈیو مواد کا تبادلہ ہوا تو اس مواد کی نوعیت اور غرض و غائت کیا تھی ؟ اس فرانزک جانچ کا فائدہ یہ ہوگا کہ حاسدوں کے منہ بند ہو جائیں گے اور جب چیئرمین نیب اپنے ماتحتوں کے اگلے اجلاس کی صدارت کریں گے تو ماتحت دل میں کوئی اوندھا سیدھا خیال لائے بغیر باس کی بات پوری توجہ سے سنیں گے۔ فرض کریں فرانزک سے ثابت ہوتا ہے کہ کردار، گفتگو اور ویڈیو اصلی ہیں۔ تب سوال اٹھے گا کہ آخر کیا سبب تھا کہ ایک زیرِ تفتیش ملزمہ اور چیف تفتیش کار کی ملاقات و گفتگو مروجہ قانونی قواعد و ضوابط سے ہٹ کر براہِ راست ہوتی رہی۔ لیکن اگر اس ذاتی معاملے کو ادارے کے ذریعے دبانے یا بذریعہ میڈیا اس کا رخ موڑنے کی یکطرفہ کوشش ہوتی رہیں تو منہ تو عارضی طور پر بند ہو جائیں گے مگر عہدے کے اخلاقی تقاضوں پر لگنے والا متعفن سوالیہ نشان انصاف کے سمندر پر پھولی لاش کی طرح تیرتا رہے گا۔ امید ہے چیئرمین نیب جو سابق چیف جسٹس آف پاکستان بھی ہیں معاملے کی نزاکت سمجھتے ہوئے یہاں تک نوبت نہیں آنے دیں گے۔
050416_sharjah_future_zs
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/04/050416_sharjah_future_zs
شارجہ کی کرکٹ کیا ہوئی؟
آج سے ٹھیک پچیس سال قبل شارجہ میں کرکٹ شروع ہوئی تو کسی کے وہم وگمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ صحرا میں ہونے والی یہ کرکٹ آ نے والے برسوں میں اپنی پہچان آپ بن جائے گی لیکن عبدالرحمن بخاطر اور ان کے رفقاء کی لگن اورمحنت کے نتیجے میں شارجہ مختصر سے عرصے میں بین الاقوامی کرکٹ کا اہم مرکز بن گیا۔
ہر سال دو ٹورنامنٹس کے انعقاد اور خاص طور پر پاک بھارت مقابلوں نے شارجہ کرکٹ کی رونق میں اضافہ کردیا۔ شارجہ کرکٹ کی تنظیم سی بی ایف ایس ( کرکٹرز بینیفٹ فنڈ سیریز ) نے ان ٹورنامنٹس کے ذریعے ماضی اور حال کے کرکٹرز کی مالی اعانت بھی کی جس کا سب سے زیادہ فائدہ ان کرکٹرز کو ہوا جو گمنامی کی زندگی گزار رہے تھے جن کے لیے پنتیس ہزار ڈالرز کی رقم ملنا بالکل ایسے ہی تھا کہ خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کر دیتا ہے۔ شارجہ کرکٹ کئی الزامات کی زد میں بھی آئی مثلا میچ فکسنگ قضیہ اور پاکستان کو ہر بار جتوانے کا الزام، اس دوران عبدالرحمن بخاطر اور ان کے دیرینہ ساتھی آصف اقبال کے درمیان مبینہ اختلافات اور آصف اقبال کی شارجہ کرکٹ سے علیحدگی کی خبریں بھی آئیں لیکن شارجہ کرکٹ کا سفر جاری رہا۔ شارجہ نے اس عرصے میں نہ صرف ون ڈے انٹرنیشنل ٹورنامنٹس کا باقاعدگی سے انعقاد کیا بلکہ پاکستان کرکٹ کے مشکل حالات میں اس کی مدد کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز اورآسٹریلیا سے اس کی ٹیسٹ سیریز کی میزبانی بھی کی۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سب سے زیادہ 198 ون ڈے انٹرنیشنل میچوں کی میزبانی کرنے والے شارجہ کرکٹ اسٹیڈیم میں آج ویرانی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں اور اپریل2003 کے بعد کوئی ٹورنامنٹ منعقد نہیں ہوسکا ہے؟ کچھ لوگ اس کا سبب شارجہ کرکٹ کے روح روان عبدالرحمن بخاطر کی سوچ میں تبدیلی کو قرار دیتے ہیں جن کی ترجیح ان کے خیال میں اب شارجہ کرکٹ کے بجائے ٹی وی چینل ٹین اسپورٹس ہے۔ سی بی ایف ایس کے وائس چیئرمین قاسم نورانی نے شارجہ رابطہ کرنے پر بی بی سی کو بتایا کہ ٹی وی چینل اس کی وجہ نہیں ہے بلکہ شارجہ میں بین الاقوامی کرکٹ نہ ہونے کی بنیادی وجہ ٹیموں کی بے پناہ مصروفیات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت کوئی بھی ٹیم اس سیزن میں دستیاب نہیں ہے جس میں شارجہ میں کرکٹ ہوسکتی ہے۔ قاسم نورانی کا کہنا ہے کہ شارجہ کا کوئی بھی ٹورنامنٹ پاکستانی ٹیم کی شرکت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے اگست میں مراکش میں کھیلنے پر رضامندی ظاہرکی ہے جس کے بعد وہ بقیہ دو ٹیموں کے حصول کی کوشش کریں گے جو مشکل کام نہیں ہے لیکن شارجہ میں کرکٹ نہ ہونا زیادہ افسوسناک بات ہے۔ عبدالرحمن بخاطر نے2001ء میں مراکش میں بھی کرکٹ کا آغاز کیا لیکن ٹیموں کی بے پناہ مصروفیات کے سبب وہاں کرکٹ جڑ نہیں پکڑ سکی۔ کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ بھارت کے شارحہ میں نہ کھیلنے کے فیصلے سے بھی صحرا کی کرکٹ متاثر ہوئی ہے۔ وجہ کچھ بھی ہو شارجہ میں کرکٹ دوبارہ شروع ہونے کا سب کو اب بھی شدت سے انتظار ہے۔
050531_general_inquiry_si
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/05/050531_general_inquiry_si
فوجی رازوں کی فروخت کی تحقیقات
ہندوستان کے وزير دفاع پرنب مکھر جی نے کہا ہے کہ حکومت ان الزامات کی تحقیقات کرائے گی کہ 1965 کی ہند پاک جنگ کے دوران ایک ہندوستانی اعلیٰ فوجی اہلکار نے ہندوستان کے اہم فوجی راز پاکستان کو فروخت کئے تھے۔
پاکستان کے سرکردہ اخبار ’نیوز‘ نے خبر شائع کی ہے کہ قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر اور فوجی حکمراں ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان نے اپنی زیر اشاعت سوانح عمری میں لکھا ہے کہ ایک ہندوستانی بریگیڈیئر نے فوجی منصوبے کی تفصیلات محض 20 ہزار روپے میں انکے والد کے ہاتھوں فروخت کی تھیں۔ گوہر ایوب نے بریگیڈیئر کی شناخت ظاہر نہیں کی ہے لیکن اتنا ضرور بتایا ہے کہ متعلقہ فوجی اہلکار اب بھی حیات ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس کی شناخت اپنی کتاب میں ظاہر کریں گے۔ وزیر دفاع پرنب مکھرجی نے کہا ہےکہ یہ قرین قیاس نہیں ہے کہ کوئی فوجی افسر محض 20 ہزار روپے کے لئے فوجی نوعیت کے اہم راز فراہم کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ جو الزامات لگائے گئے ہیں انکا تعلق چالیس برس قبل سے ہے لیکن پھر بھی ان کی حکومت اس معاملے کی تحقیقات کرائے گی ۔ پیسے لے کر فوجی راز فروخت کرنے کی خبر آج بیشتر اخبارات نے شائع کی ہے اور ملک کے کئی ٹی وی چینلز پر مسٹر خان کا انٹرویو بھی پیش کیا گیا ہے۔ دلی میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ متعلقہ بریگیڈیئر کون ہو سکتا ہے۔
060903_peshawer_chamship_rs
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/09/060903_peshawer_chamship_rs
انٹرڈسٹرکٹ ہاکی چیمپئن شپ شروع
بینک الفلاح لالہ ایوب میموریل انٹر ڈسٹرکٹ ہاکی چیمپین شپ سرحد لالہ ایوب سٹڈیم پشاور میں اتوار کو شروع ہوگئی ہے جس میں صوبہ بھر سے چودہ اضلاع کی پندرہ ٹیمیں حصہ لے رہی ہیں۔
چیمپئن شپ میں ضلع پشاور کی دو جبکہ کوہاٹ ، بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسمعیل خان ، نوشہرہ، مردان، بونیر، ملاکنڈ، سوات، صوابی، ہری پور اور ایبٹ آباد کی ایک ایک ٹیم حصہ لیں گی۔ پشاور میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ہاکی ایسوسی ایشن ڈسٹرکٹ پشاور کے نائب صدر جہانزیب اورسرحد اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر سید عاقل شاہ نے بتایا کہ چیمپئن شپ کے دوران روزانہ دو میچز کھیلے جائیں گے اور فائنل بارہ ستمبر کو کھیلا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ چیمپین شپ کے مقابلوں کے لیئے تمام تر تیاریاں مکمل کر لی گئی ہیں اور ٹیموں کی رہائش وغیرہ کا بھی بندوبست کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کھلاڑیوں کو ڈیلی الاونسز بھی دیئے جائیں گے جبکہ مین آف دی میچ کو ایک ہزار روپے نقد ملیں گے۔ ہاکی کے عہدیداروں نے بتایا کہ اگر میزبان ٹیم پشاور نے چیمپئن شپ جیتا تو اسے ایک لاکھ روپے انعام دیا جائےگا۔
pakistan-51971350
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51971350
کورونا وائرس: لاک ڈاؤن میں کراچی کے صبح و شام کیسے گزر رہے ہیں
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ان دنوں جیسے دوپہر ڈھلتی ہے تو گلیوں اور محلوں میں چہل پہل اور محفلیں جم جاتی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ حکومت سندھ نے صوبے میں 15 روز کے لیے کاروباری مراکز، مارکیٹیں اور دفاتر بند رکھنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ لوگ آپس میں سماجی فاصلہ رکھیں اور کورونا وائرس تیزی کے ساتھ پھیل نہ پائے، لیکن روایات اور سماجی و ثقافتی رابطے اس کے درمیان دیوار ہیں۔
شہر کا صنعتی علاقہ لانڈھی میں مزدور طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی آبادی زیادہ ہے۔ مقامی سماجی کارکن سرتاج خان نے بی بی سی کو بتایا کہ عام دنوں میں بچے اسکولوں، مدرسوں میں جاتے ہیں جبکہ بڑے مِلوں اور کارخانوں میں کام کاج پر ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس پر بی بی سی اردو کی خصوصی کوریج کورونا: دنیا میں کیا ہو رہا ہے، لائیو کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟ کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟ کورونا وائرس: ان چھ جعلی طبی مشوروں سے بچ کر رہیں لیکن آج کل یہ سارے لوگ اپنے اپنے گلی محلوں میں موجود ہیں کیونکہ دو دو کمروں کے مکانات میں سارا دن کیسے بند رہ سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں کی گلیوں میں میلے جیسا سماں ہے۔ رنچھوڑ لائن اور آس پاس کی گلیوں میں خواتین باکڑوں (صندل) جبکہ مرد سڑکوں پر دائرے لگا کر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ راجستھانی سلاوٹ کمیونٹی ہے۔ ان کا مکان عموماً ایک کمرے پر مشتمل ہوتا ہے اور اسی میں کچن اور واش روم بھی موجود ہوتا ہے۔ عام طور پر یہ لوگ مستری، پلمبر وغیرہ کا کام کرتے ہیں۔ کراچی میں برطانوی راج کے زمانے کی زیادہ تر پتھر کی عمارتیں بھی ان ہی کے آباؤ اجداد نے تعمیر کی ہیں۔ گلیوں میں باکڑوں پر رات گئے تک بیٹھنا اور مردوں کا رات کو باہر سونا یہاں کی روایت ہے اور کورونا وائرس کے خدشات سے بھی ان کے معمولات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ شہر بندی سے قبل پولیس نے ہوٹلوں کے علاوہ تندور بھی بند کروا دیے تھے جو مقامی مزاحمت کے بعد کھول دیے گئے۔ مقامی صحافی شکیل سلاوٹ کے مطابق سالن گھروں میں بنتا ہے جبکہ چپاتی باہر سے آتی ہے۔ لیاری کے چاکیواڑہ چوک اور آٹھ چوک سے لے کر شاہ عبداللطیف بھٹائی روڈ اور کھڈا مارکیٹ کے علاقوں میں بھی ایسے ہیں مناظر ہیں۔ یہاں کے مرد بندرگاہ، ٹمبر مارکیٹ، فرنیچر مارکیٹ اور سپیئر پارٹس مارکیٹ میں کام کرتے ہیں جبکہ خواتین گھروں میں کام کاج کرتی ہیں۔ مردوں کا کام تو لاک ڈاؤن کے بعد سے ٹھپ ہے لیکن خواتین صبح نو بجے سے گھروں میں کام کاج کے لیے روانہ ہو جاتی ہیں اور ان کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے۔ کراچی میں رہائشی علاقوں کی درجہ بندی اگر دیکھا جائے تو کراچی کے شہری چار اقسام کے علاقوں میں رہتے ہیں۔ ایک وہ ہیں جو ڈیفینس، کلفٹن، پی ای سی ایچ ایس جیسے پوش علاقوں میں آباد ہیں جہاں گلیاں اور سڑکیں بھی خوشحال اور کشادہ ہیں اور مکانات بڑے ہیں۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جو فلیٹوں میں رہتے ہیں جن میں گلشن اقبال، گلستان جوہر، صدر کا علاقہ خاص طور پر شامل ہے جہاں دو بیڈ اور ایک ڈرائنگ کی صورت میں تین کمرے موجود ہیں۔ تیسرا علاقہ پسماندہ کچی آبادیوں کا ہے جن میں سے کچھ گجر نالے سمیت مختلف نکاسی آب کے نالوں کے قریب بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے کچھ کو شہر نے گود لے لیا ہے یعنی ریگولرائیز کر دیا گیا ہے۔ چوتھا علاقہ وہ ہے جو کسی کھاتے میں شامل نہیں۔ یہ لیاری ندی کے کنارے، فلائی اوورز کے نیچے یا سبزی منڈی کے قریب بسنے والے لوگ ہیں۔ ان میں سیلاب یا حالات کے ستائے ہوئے لوگ شامل ہیں جو مختلف علاقوں سے نقل مکانی کر کے آئے ہیں۔ انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار انوائرمنٹ کا کہنا ہے کہ ایشیا میں لاکھوں لوگ عارضی بستیوں اور کچی آبادیوں میں رہتے ہیں۔ سہولیات کا فقدان ان کے غیر محفوظ ہونے میں اضافہ کر دیتا ہے، اور ان علاقوں میں امراض پھیلنے کے زیادہ خدشات موجود ہوتے ہیں۔ ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی اور صوبائی حکومت نے غریب آبادیوں میں صابن کی تقیسم کا اعلان کیا ہے لیکن ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ حکومتی اعلان پر عملدرآمد میں وقت درکار ہوتا ہے۔ سرکاری اداروں کی چھٹیوں اور شہربندی سے کراچی کے کئی مقامات پر کچرا بڑھنے لگا ہے۔ چند ماہ قبل تک کچرا اٹھانے پر وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور کے ایم سی میں کشتی جاری تھی جس کے بعد کچرا اٹھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا لیکن اب اس میں ایسے دنوں میں اضافہ ہو رہا ہے جب عوام میں صفائی کی مہم چلائی جا رہی ہے۔ کراچی میں تعلیمی ادارے سب سے پہلے طویل مدت کے لیے بند ہوئے جس کے بعد امتحانات بھی ملتوی کردیے گئے، اسی دوران پی ایس ایل کا سیمی فائنل اور فائنل بھی ملتوی کروا دیا گیا، لیکن ہر اب ہر محلے میں ’پی ایس ایل‘ جاری ہے۔ خالی سڑکیں ان دنوں کرکٹ کی پچ بن چکی ہیں، جہاں بچے اور نوجوان ٹولیوں میں کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ان جوشیلے جوانوں کو کورونا کی جیسے کوئی فکر نہیں۔ کراچی آنے والی تمام بس سروسز اور ٹرینوں کو معطل کردیا گیا ہے، سمندر کنارے آباد صوبائی دارالحکومت تک صوبے اور ملک کے کونے کونے سے کئی وجوہات کی بنا پر لوگ آتے ہیں جن میں روزگار، تفریح، خریداری، صوبائی محکموں میں کام کاج اور یہاں دستیاب صحت کی بہتر سہولیات ہیں۔ فاطمید فاؤنڈیشن اور حسینی بلڈ بینک میں کئی شہروں سے تھیلیسمیا کے شکار بچے خون کی منتقلی کے لیے آتے ہیں تو دوسری جانب ایس آئی یو ٹی ڈائیلائسز کی سہولت فراہم کرنے والا سب سے بڑا ہسپتال ہے جہاں سندھ کے دیگر شہروں کے علاوہ بلوچستان سے بھی مریض لائے جاتے ہیں۔ بس سروس معطل ہونے سے ان مریضوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ اور اس پر قائم جامع کلاتھ، بولٹن مارکیٹ، پلاسٹک مارکیٹ سمیت درکن بھر مارکیٹوں میں ان دنوں سناٹا ہے، صرف میڈیسن مارکیٹ میں لوگوں کی چہل پہل نظر آتی ہے۔ اس شہر کے باسیوں کے لیے شہر بندی کوئی نئی بات نہیں ہے، فرق صرف یہ ہے کہ کراچی آپریشن سے قبل سیاسی جماعتیں ہڑتال کرواتی تھیں یا لسانی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے شہر بند ہوجاتا تھا لیکن اس بار ریاست نے شہر بند رکھنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ ہڑتال اور کشیدگی کے دنوں میں بھی وسطی شہر کی مارکیٹں بند رہتیں اور مختلف کمیونٹیز کے علاقے کھلے رہتے جبکہ شام کو فوڈ اسٹریٹ یا پھر ساحل سمندر پر آکر لوگ اپنا غم اور پریشانی دور کرلیتے۔ ان میں سے کچھ لوگ پاس ہی واقع عبداللہ شاہ غازی کے مزار پر حاضری دینے چلے جاتے لیکن موجودہ وقت میں یہ سب کچھ بند ہے۔ ایم اے جناح روڈ پر جامع کلاتھ کے سامنے ایک مزار واقع ہے جو محکمہ اوقاف کے زیر انتطام ہے۔ اس مزار کے دروازے بند ہیں لیکن گذشتہ شب یعنی جمعرات کو کئی درجن لوگ رات تک جمع تھے اور انھیں آسرا تھا کہ دروازہ کھلے گا جبکہ بعض نے بالاخر باہر ہی دعائیں مانگیں، لنگر تقسیم کیا اور روانہ ہوگئے۔ کورونا وائرس نے کراچی کی معاشی سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے۔ معشیت پہلے ہی مشکلات کا شکار تھی اور اب کراچی میں واقع پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں مسلسل منفی رجحان ہے۔ مزدور رہنما ناصر منصور کے مطابق کورونا کی وجہ سے یورپ میں لاک ڈاون ہے جس وجہ سے آرڈر کینسل ہو رہے ہیں جبکہ اب کراچی میں بھی لاک ڈاؤن کی وجہ سے یومیہ اجرتوں پر کام کرنے والوں کو فارغ کیا جارہا ہے۔ بقول ان کے شہر میں ایک ہزار بڑے صنعتی یونٹ ہیں اور ہر یونٹ میں تقریباً ایک ہزار لوگ ملازمت سے وابستہ ہیں۔ ریڑھی پر مکئی فروخت کرنے والے ایک مزدور سے میں نے معلوم کیا کہ اس پر گذشتہ دو روز سے کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں تو اس نے بتایا کہ ویسے اس کی دیہاڑی 800 سے 900 روپے بن جاتی تھی لیکن دو دنوں میں مشکل سے 300 روپے کمائے ہیں۔ اس نے شکایت کی کہ دوپہر کو ہوٹل پر کھانا نہیں مل رہا۔ یوں تو حکومت سندھ نے ہوٹلوں اور ریستورانوں سے کھانا لینے پر پابندی عائد نہیں کی تھی تاہم پولیس نے تمام ہوٹل بند کروا دیے ہیں، جس پر وزیر اعلیٰ سندھ نے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ کورونا وائرس پر بی بی سی اردو کا خصوصی لائیو پیج یہاں ملاحظہ کیجیے۔
040208_asiafreetrade_ua
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/02/040208_asiafreetrade_ua
ایشیا: آزاد تجارت کا معاہدہ
دو ارب باشندوں کی مجموعی آبادی والے چھ ایشیائی ملکوں نے آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کرنے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
یہ ممالک آزاد تجارت کے لئے خطہ قائم کریں گے۔ اتوار کے روز بھارت، سری لنکا، تھائی لینڈ اور برما کے وزراء اس معاہدے پر دستخط کریں گے جبکہ نیپال اور بھوٹان بعد میں معاہدے میں شامل ہوں گے۔ اس معاہدے کے تحت بھارت، سری لنکا اور تھائی لینڈ دوہزار بارہ تک تجارتی محصولات کا خاتمہ کر دیں گے جبکہ برما، بھوٹان اور نیپال پانچ برس بعد اس نئے تجارتی انتظام کا حصہ بنیں گے۔ مذاکرات میں بنگلہ دیش بھی شامل تھا تاہم آخری وقت میں وہ یہ کہتے ہوئے الگ ہوگیا کہ اگر محصولات میں کمی سے ہونے والے نقصان کی تلافی نہیں کی جاتی تو وہ اس معاہدے میں شریک نہیں ہوگا۔
050707_london_blast_clickable
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2005/07/050707_london_blast_clickable
وسطی لندن میں دھماکے
تفصیلی معلومات کے لئے متعلقہ مقام پر کلک کریں
کنگس کراسشمالی لندن کا سب سے بڑا اور زیادہ استعمال ہونے والا سٹیشن ان دھماکوں میں بری طرح متاثر ہوا ہے۔ کئی اطلاعات کے مطابق اس سٹیشن پر زیر زمین ٹرینیں روک لی گئیں اور مسافر سرنگ میں پیدل نکل کر باہر آئے۔ اس سٹیشن پر ہونے والے واقعات میں کئی افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ایجوئیر روڈمغربی لندن کایہ اہم سٹیشن سب سے پہلے متاثر ہونے والے سٹتیشنوں میں تھا جہاں بھی ٹرینوں کو زیر زمینں روک کر مسافروں کو پیدل باہر نکالا گیا۔ یہاں بھی کئی مسافروں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ ٹیوی سٹاک سکوائروسطی لندن میں عموماً سیاحوں سے بھرے اس علاقے میں لندن کی تیس نمبر ڈبل ڈیکر بس میں ایک شدید دھماکہ ہوا جس میں متعدد افراد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ رسل سکوائراہم تعلیمی مراکز کے قریب واقع وسطی لندن کا یہ اہم علاقہ ان دھماکوں میں خاصہ متاثر ہوا ہے اور کنگس کراس اور ٹیوی سٹاک سکوائر کے درمیان واقع ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر بند کردیا گیا ہے۔ موُر گیٹشمالی لندن میں واقع اس سٹیشن پر بھی ٹرینوں میں دھماکے کی اطلاع ہے۔ باقی سٹیشنوں کی طرح یہ سٹیشن بھی اب بند ہے۔ لیور پول سٹریٹ سٹیشنلندن میں ہونے والے دھماکوں کا آغاز مشرقی لندن کے اس سب سے بڑے اور زیادہ استعمال ہونے والے سٹیشن ہوا اور سب سے پہلے اس سٹیشن اور آلڈ گیٹ سٹیشن کے درمیان لائنوں کو بند کیا گیا۔ آلڈ گیٹ ایسٹوسطی اور مشرقی لندن میں کاروباری مراکز کے قریب واقع اس سٹیشن کو لیور پول سٹریٹ سٹیشن کے ساتھ ہی بند کردیا گیا تھا۔
050905_saddam_trail
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/09/050905_saddam_trail
صدام حسین: مقدمے کی تاریخ طے
عراق کی موجودہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ صدام حسین پر مقدمہ 19 اکتوبر سے شروع ہوگا۔ اس سے پہلے صدام حسین کی صاحبزادی رغد صدام نے اپنے والد کی قانونی مدد کے لئے نئے وکلاء کے تقرر کا اعلان کیا تھا۔ رغد صدام نے کہا کہ صدام حسین کی قانونی مدد کے لیے اس سے قبل جن ڈیڑھ ہزار وکیلوں کو تعینات کیا گیا تھا انہیں فارغ کردیا گیا ہے۔ اب بین الاقوامی وکلاء کا ایک پینل ان کے والد صدام حسین کی پیروی کرے گا۔
عراق کے معزول صدر پر یہ مقدمہ اس الزام میں چلایا جائے گا کہ 1982 میں ان پر ایک ناکام قاتلانہ حملے کے بعد شمالی بغداد کے علاقے میں ایک سو تینتالیس افراد کو، جو کہ شعیہ تھے، ہلاک کیا گیا تھا۔ اس مقدمے کے علاوہ صدام حسین اور ان کی حکومت کے دیگر اہلکاروں پر حلبجہ میں ہونے والے قتل عام اور ملک میں دریافت ہونے والی اجتماعی قبروں جیسے الزامات پر بھی مقدمے چلائے جائیں گے۔ پہلے بھی دوسری جنگ عظیم کے بعد اور حال ہی میں بوسنیا میں ہونے والے قتل عام کے بعد سابق سربراہوں کے خلاف اس نوعیت کے مقدمات چلائے گئے ہیں۔ سابق سرب صدر سلوبودان ملوسیوِچ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے الزامات کے تحت ہیگ میں قائم اقوام متحدہ کی بین الاقوامی عدالت مقدمہ پچھلے تین سال سے چل رہا ہے۔ صدام حسین پر چلائے جانے والے اس مقدمہ کے بارے میں آپ کیا سوچتے ہیں؟ کیا یہ ایک منصفانہ اور غیر جانب دارانہ مقدمہ ہوگا؟ آپ کی رائے میں صدام حسین کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے؟ کیا ان پر مقدمہ عراقی حکومت کو چلانا چاہیے یا پھر بین الاقوامی عدالت کو؟ آپ کو کیا لگتا ہے کیا اس قسم کے مقدمات سے واقعی کچھ حاصل ہوتا ہے؟ اب یہ فورم بند ہو چکا ہے۔ قارئین کی آراء نیچے درج ہیں۔ شمزہ گِل:بلاشبہ صدام حسین ایک مجرم ہیں لیکن بین الاقوامی عدالت کو تفتیش کرنی چاہئے اور انہیں کس نے ایسا سنگ دل بنایا؟۔۔۔۔ محمود احمد بٹ، قطر:صدر صدام نے قاتلانہ حملہ کرنے پر ایک سو تینتالیس کو ہلاک کروایا تھا، حال ہی میں صدر پرویز مشرف کے بھی طور طریقے یہی رہے ہیں، ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے۔۔۔۔ عبدالمیخائیل، امریکہ:بین الاقوامی سیاست کو سمجھنا اور دوستوں پو پہچاننا مشکل کام ہے جسے سیاسیاست کے ماہرین بھی نہیں سمجھ پارہے ہیں اور کوئی پیشین گوئی نہیں کرسکتے۔ صدام حسین ایسے سیاست دان ہیں جنہیں مشرق وسطیٰ میں استعمال کیا گیا، پڑوسیوں کے خلاف ان کا استعمال ہوا تاکہ مشرق وسطیٰ میں سوپر پاورز کا وقتی مفاد حاصل ہوسکے۔۔۔۔ اورم پوری:صدام پر عالمی عدالت میں مقدمہ چلنا چاہئے اور اس کے ساتھ بش اور بلیئر پر بھی مقدمہ چلنا چاہئے۔ میرا خیال ہے بش صدام سے بھی بڑا دہشت گرد ہے۔۔۔ عنیلہ رحمان، یو کے:صدام حسین سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا گیا ہے، اب صدام حسین بےکار ہوگئے، اب مقدمہ چلایا جائے گا۔ جب یہ قتل ہورہے تھے تب انصاف کے ٹھیکیدار کہاں تھے؟ مسلمان حکمرانوں کو سبق سیکھنا چاہئے، ضیاء الحق، صدام حسین اور ایسے بہت سے دوسروں کو۔۔۔۔ احتشام چودھری، شارجہ:میرے خیال میں صدام پر مقدمہ کسی صورت جائز نہیں بنتا۔ اگر انسانوں کو قتل کرنے پر مقدمہ ضروری ہے تو پھر بش اور بلیئر پر بھی مقدمہ چلایا جائے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔۔۔۔ انی عاصم، یو کے:صدام کو جو سزا ملنے کم ہے مگر صدام نے جن کے کہنے پر یہ سب کیا وہ بھی سزا کے حقدار ہیں۔۔۔۔ علیم اختر، گجرات:کیا امریکہ، روس اور اسرائیل اور یو کے درندگی صدام کی درندگی سے کم ہے؟ کیا دوسرے ملکوں پر طاقت دھونس اور غلط جوازوں سے قبضہ کرنا اور پھر آزادی مانگنے والوں پر بمباری کرنا انسانیت ہے؟۔۔۔۔ نظیر شاہین، بھلول:جناب جس چیز کو بنیاد بناکر عراق پر حملہ کیا گیا تھا پہلے اس کے ذمہ داروں کو سزا دینی چاہئے۔ >ڈاکٹر طارق زمان، کوریا:عراق میں جنگ اگر صدام حکومت کے خلاف اس جواز پر لڑی جاتی ہے کہ وہ عالمی دنیا کے لیے خطرہ ہیں تو پھر ان کے خلاف مقدمے کی کاروائی بھی عالمی عدالت ہی میں ہونی چاہیے۔ پھر اسی عدالت میں ان تمام لوگوں پر مقدمات چلنے چاہئیں جنہوں نے انسانیت کا قتل کیا۔ بش میرے خیال میں اس صدی کے انسانوں کے سب سے بڑے قاتل ہیں۔ علی خان، جنوبی کوریا:آخر صدام ہی کو کیوں پھانسی۔ اگر بی بی سی واقعی سروے کرنا چاہتی ہے تو پھر بش اور بلیئر کے لیے بھی رائے مانگی جائے مگر بی بی سی بھی تو ہوا کے رخ کے ساتھ ہی چلے گی۔ زدران خان، پاکستان:میرے خیال میں صدام پر مقدمہ چلنا چاہیے کیونکہ انہوں نے بھی بہت ظلم کیے ہیں۔ عالم گیر بیگ، سویڈن:صدام ظالم، جابر اور قاتل ہیں۔ انہیں ہزار بار پھانسی دی جائے تو بھی کم ہے۔ پتہ نہیں لوگوں کو ہر مسلمان خواہ وہ ایدی امین ہو یا صدام کیوں مظلوم نظر آتا ہے۔ عبدالغفور، ٹورنٹو:جی نہیں، ان مقدمات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس سے بہتر ہے کہ اس پر خرچ ہونے والی رقوم اور وسائل عوام کی بہتری کے لیے خرچ کئے جائیں۔ کامران خان، پاکستان:صدام ایک عظیم رہنما ہیں۔ راجہ یونس، دمام:یہ مقدمہ نہیں، ہارنے اور جیت جانے والے فریقین کا معاملہ ہے۔ اگر اپنے لوگوں کو مارنا جرم ہے تو پھر شاید کوئی بھی حکمران اس سے بری الذمہ نہیں قرار دیا جاسکتا۔ اب بش، بلیئر اور مشرف بھی اپنی باری کا انتظار کریں۔ گل نایاب، لاہور:یہ ایک ناٹک ہے اور امریکہ اس کا ہیرو۔ یہ غیرقانونی، غیراخلاقی اور غیر منصفانہ ہے۔ جاوید، شکاگو:صاف نظر آرہا ہے کہ صدام حسین کسی قسم کی ٹرانس میں ہیں یا انہیں کسی قسم کی نفسیاتی اذیت دی جا رہی ہے۔ صدام حسین کا مقدمہ صرف ان کے اپنے جرائم کی فہرست پر مشتمل نہیں ہونا چاہیے بلکہ ان کے ساتھ جیل میں جو ہورہا ہے، اس کی تفصیلات بھی آنی چاہئیں۔ ثناء خان، کراچی:جس کی لاٹھی اس کی بھینس عبدل قادر، پاکستان:شہر بانو، امریکہظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ کنول، کوریا:جس شخص نے ساری زندگی خود انصاف نہیں کیا، اس کے لیے انصاف کی امید کرنا بہت بے انصافی ہوگی۔ عبدل قادر، پاکستان:اب تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا، مقدمہ چلے یا نہ چلے۔ اب تو وہ ایک عام آدمی ہے اور وہ بھی امریکہ کے پاسآ اس کے ساتھ امریکہ کی جو مرضی وہ سلوک کرے گا۔ امریکی ویسے تو بہت بنتے ہیں، انہوں نے ابو غریب میں قیدیوں کے ساتھ جتنا برا سلوک کیا۔ اب صدام حسین کے ساتھ بھی جو چاہے کر سکتے ہیں۔ ان کو پوچھنے والا کون ہے؟ حماد بخاری، نامعلوم:صدام کا مقدمہ انصاف کے بارے میں نہیں ہے۔ یہ ایک سیاسی اور متعصب کیس ہے۔ یہ ایک ڈرامہ ہے جو امریکہ بین الاقوامی سکرین پر کھیل رہا ہے۔ ریاض فاروقی، دبئی:یہ ایک اچھی بات ہے امریکیوں میں کہ اگر کسی کو سزا دینی ہوتی ہے تو اس کے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں سے دیتے ہیں تاکہ ان کی باقی عوام بھی سبق سیکھے۔ طاہر چودھری، جاپان:صدام پر مقدمہ چلانے سے پہلے بش اور بلئیر پر مقدمہ چلانا چاہیہ جن کی وجہ سے عراس میں ہزاروں لوگ ہلاک ہوئے ہیں، لیکن بی بی سی ایسی رائے نہیں چھاپ سکتا کیونکہ وہ بھی غلام ہے طاقتوں کا۔ کریم خان، کینیڈا:مجھے لگتا ہے کہ جیل میں امریکہ صدام حسین کو مفلوج کر دے گی تاکہ وہ راز اس کے سینے میں ہی دفن رہیں جو اس کے پاس ہیں۔ صدام پر صرف ایک مقدمہ تو ہے نہیں جس کی پیروی کی جائے۔ صدام کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ردماشی کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ امریکہ کے ہوتے ہوئے انصاف کی توقع کرنا ہی فضول ہے۔ عراق پر امریکہ کا حملہ ہی انصاف کے خلاف تھا۔ امین اللہ شاہ، پاکستان:میں تو بس اتنا کہوں گا:بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی خود منصف بھیکسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں؟ واجد علی بابی، سوات، پاکستان:جی نہیں۔ اگر صدام کے ساتھ انصاف ہوتا تو امریکہ عراق پر بلا جواز حملے کی جرآت نہیں کرتا۔ ظہیر الدین راشدی، کراچی، پاکستان:صدام حسین پر مقدمہ ضرور چلنا چاہیے، مگر ایک آزاد، غیر جانب دار اور منصفانہ عدالت میں اور عوام کی صحیح نمائندگی کرنے والی حکومت کے تحت، نہ کہ حملہ آوروں کے ہاتھوں یا ان کی بنائی کٹھ پتلی حکومت کے ہاتھوں۔ صدام کو اپنے دفاع کی اجازت ہونی چاہیے اور انہیں اپنے لیے وکیل مقرر کرنے کا اختیار بھی ہونا چاہیے۔ مگر یہ بات میری سمجھ میں نہیں آتی کہ صرف صدام اور ان جیسے چھوٹے چھوٹے رہنماؤں پر ہی کیوں مقدمے چلائے جاتے ہیں؟ جن بڑے بڑے رہنماؤں نے ہیروشیما، ناگاساکی، افغانستان اور عراق کے معصوم لوگوں کا قتل عام کیا ان پر کوئی عدالت مقدمہ کیوں نہیں چلاتی؟مجھے نہیں لگتا آپ میری یہ رائے شائع کریں گے۔ اور کریں گے بھی تو شاید کانٹ چھانٹ کے۔ مگر یہی سچ ہے۔ وجیح حسن، پاکستان:بہت ضروری ہے تاکہ ایک جلاد کو پتہ چل سکے کہ لاکھوں کو صفہ ہستی سے مٹانے والا اب خود مرنے جا رہا ہے۔ صدام انسانیت کا قاتل ہے اور قتل کی سزا اسلام میں واضح ہے۔ ذیشان قمر، متحدہ عرب امارات:میرا قاتل ہی میرا منصف ہےکیا مرے حق میں فیصلہ دےگا؟ توحید احمد رانا، ترکی:صدام حسین ایک مجرم ہے جس کو اپنے عوام کے ساتھ ظلم کی پوری سزا ملنی چاہیے۔ رہا سوال غیر جانب داری اور انصاف کا، تو وہ صدام حسین کو کبھی نہیں مل سکتا، کیونکہ وہ ایک مسلمان ملک کے مسلمان فوجی سربراہ تھے۔ سلوبودان ملوسیوِچ جیسا آرام اور عالمی میڈیا کورریج ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ امتیاز محمود، برطانیہ:صدام پر عراقی عدالتوں میں ہی مقدمہ چلنا چاہیے کیونکہ وہ ایک عراقی ہے اور جرائم بھی عراق میں ہی پیش آئے۔ ایسے مقدمات کے فائدے محدود ہوتے ہیں مگر یہ موجودہ ڈکٹیٹروں، جیسے مبارک، مشرف اور شاہ عبداللہ، تک ایک موثر پیغام پہنچانے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ فیصل چانڈیو، حیدرآباد، پاکستان:صدام حسین اس وقت کے اپنے ملک کے حکمران تھے اور ان پر قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اگر وہ اپنی حفاظت کے لیے یہ کرتے ہیں تو وہ قاتل اور اگر یہی امریکی صدر کریں تو ان کا ذاتی حق ہے۔۔۔کیا یہ سب کل امریکی حکمرانوں کے ساتھ بھی ہوگا؟ شکیل انجم ملک، جرمنی:بی بی سی پر صدام کی یہ تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ صرف اللہ ہی کی ذات مضبوط اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ صدام نے زندگی میں کبھی نہیں سوچا ہو گا کہ اس کی آخری زندگی اتنی بدتر بھی ہوگی۔ دوسروں پر ظلم کرنے والا آج بدبختی کی مثال بن جائے گا۔ محمد عمر اعظمی، دلی، انڈیا:اگر صدام حسین نے وہ تمام ظلم کیے ہیں جن کا ان پر الزام ہے تب تو انہیں بین الاقوامی قوانین کے تحت سزا ہونی چاہیے۔ مگر جو ہزاروں لوگ عراق میں مارے گئے ان کا ذمہ دار کون ہے؟ میڈیا کبھی اس طرح کے سوال کیوں نہیں پوچھتا؟ آفتاب حسین، متحدہ عرب امارات:صدام پر مقدمہ عراق میں ہی چلایا جانا چاہیے کیونکہ انہوں نہ جرم اپنے ہی ملک میں کیے تھے۔ اس لیے وہاں کے عوام کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنے جابر حکمران کو کٹہرے میں دیکھیں۔
080307_mushrraf_promis_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/03/080307_mushrraf_promis_sen
آئندہ حکومتوں سے مشرف کا وعدہ
صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ اگر امن برقرار نہیں رکھا گیا اور سیاست کو چھوڑ کر حکومتی عمل کی طرف توجہ نہ دی گئی تو حکومتی عمل کبھی پورا نہیں ہو سکےگا۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر امن و امان رہے گا تو وہ وعدہ کرتے ہیں کہ وفاق اور صوبوں میں جو بھی حکومت بنے گی وہ اس کی سپورٹ کریں گے اور یہ سپورٹ اسے ہمیشہ حاصل رہے گی۔
صدر پرویز مشرف نے اس کا اظہار جمعہ کو جیکب آباد میں پانی کی فراہمی کے منصوبے کے افتتاح کے موقع پر کیا۔ انہوں نے کہا کہ دو چیزیں بہت اہم ہیں جن میں سے ایک ملک کی معیشت کو مستحکم رکھنا ہے۔ اس امر میں مشکلات ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ کیا مشکلات ہیں اور نئی حکومت کو بھی ان مشکلات کا علم ہونا چاہیے تاکہ معیشت بہتر ہوتی رہے اور عوام خوشحال ہو۔ دوسری ضروری چیز دہشت گردی اور انتہا پسندی ہے۔ ہمیں اس پر قابو پانا ہے اور اس کے خلاف جدو جہد جاری رکھنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک ڈیڑھ ہفتے میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس طلب کیے جائیں گے اور ان میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی۔ سیاسی عمل ختم کر کے اب حکومتی عمل شروع کرنا چاہیے تا کہ یہ عمل آگے بڑھے اور حکومتی عمل کو آگے لے جانے کے لیے انہیں بردباری اور سمجھ داری دکھانی چاہیے۔ صدر مشرف نے کہا ہے کہ ’وفاق اور صوبوں میں ایک مستحکم حکومت پانچ سال کے لیے چلنی چاہیے‘۔ صدر مشرف نےفوج کےسربراہ اور اپنے درمیاں فاصلوں کے تاثر کو رد کیا۔ میڈیا کی آزادی کا ذکر کرتے ہوئے صدر مشرف نے کہا کہ میڈیا کو اپنی آزادی کے بعد ذمہ داری کےساتھ کام کرنا چاہیے۔ صدر مشرف کے دورہ جیکب آباد میں نجی ٹی وی چینلز کو کوریج کے کےلیے مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
regional-56310548
https://www.bbc.com/urdu/regional-56310548
انڈیا میں اردو مخالف ماحول: ’ان کا کسی زبان سے کوئی لینا دینا نہیں، یہ صرف مسلمانوں کو ڈرانا چاہتے ہیں‘
انڈیا کی وسطی ریاست مدھیہ پردیش کے معروف شہر اجین کے ایک ریلوے سٹیشن کے بورڈ پر اردو میں لکھا ہوا نام مٹا دیا گیا ہے۔
نامہ نگار شورہ نیازی نے بی بی سی کو بتایا کہ اجین میں تعمیر ہونے والے ایک نئے سٹیشن چنتامنی گنیش سے راتوں رات اردو میں لکھے اس کے نام پر زرد رنگ پھیر دیا گیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ متنازع بیانات دینے کے لیے معروف ہندو مذہبی رہنما سنت مہامنڈلیشور آچاریہ شیکھر کی جانب سے احتجاج کے بعد ریلوے حکام نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ آچاریہ شیکھر ایک مقامی مندر کے ناظم ہیں اور انھوں نے ہندو دیوتا کے نام اردو میں لکھے جانے کے خلاف دھمکی دی تھی اور ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان ’جہادی ذہنیت والے لوگ استعمال کرتے ہیں۔‘ یہ بھی پڑھیے ’اردو کے نام پر یہ داغ کون لگا رہا ہے؟‘ اردو، ہندی چولی پہن لے، بھلے پنجابی آنچل اوڑھ لے بی جے پی رہنما کی ٹویٹ کے بعد انڈیا میں اردو زبان پر بحث انھوں نے یہاں تک کہا کہ ’اردو مغلوں کی زبان ہے۔ اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ غیر فطری زبان کا استعمال نہیں ہونا چاہیے۔‘ اجین کے ریلوے حکام نے بتایا کہ اردو میں نام غلطی سے لکھ دیا گیا تھا اور اسے ہٹا دیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ ریلوے سٹیشن کے نام کس زبان میں ہوں گے، اس کا فیصلہ ریاستی حکومت اور وزارت داخلہ کرتی ہے اور اس کے لیے ایک گائیڈ لائن بھی ہے جس کے تحت انڈیا کے تقریباً 718 اضلاع میں سے 100 اضلاع میں سٹیشنوں کا نام ہندی اور انگریزی کے علاوہ اردو میں بھی لکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سٹیشن سے اردو میں نام مٹائے جانے پر لوگ اس کے خلاف سوشل میڈیا پر بات کر رہے ہیں۔ ایک صارف نے لکھا کہ ’یہی لوگ اس وقت شور مچاتے ہیں جب تمل اور کنڑ والے ہندی زبان پر پینٹ کر دیتے ہیں۔ وہ سرکاری زبان کے جواز کو نہیں سمجھتے۔ وہ غیر ہندی ہندو لوگوں کو اپنی تہذیب پر نازاں نہیں ہونے دینا چاہتے۔‘ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو کے پروفیسر کوثر مظہری نے بی بی سی کو بتایا کہ ملک میں اردو مخالف رجحان آزادی کے بعد سے ہی پروان چڑھ رہا ہے لیکن گذشتہ چند برسوں میں اس میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ اس سے قبل اتراکھنڈ میں بھی اردو میں سٹیشن کا نام مٹا کر سنسکرت میں لکھنے کی بات سامنے آئی تھی جس کی شدید مخالفت ہوئی اور اس فیصلے کو واپس لیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ اسی طرح بہار میں بھی کوشش کی گئی تھی لیکن سماج کے مختلف گوشوں سے اس کے خلاف آواز اٹھانے پر اس پر روک لگی۔ انھوں نے موجودہ مرکزی حکومت اور بطور خاص اترپردیش کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہاں ریاستی سطح کے سول سروسز امتحانات سے اردو اور فارسی کو آپشنل مضمون کے طور پر ہٹا دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 2018 میں 65 ہزار سے زیادہ اسسٹنٹ ٹیچرز کی بحالی کے لیے ہونے والے امتحانات سے اردو زبان کو ہٹا دیے جانے پر الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔ اس حوالے سے اردو زبان و ادب کے معروف ناقد گوپی چند نارنگ کا کہنا تھا کہ انھیں اس بات پر افسوس ہے اور ’یہ سب سیاسی کھیل ہے۔‘ اس سے قبل اتراکھنڈ کے شہر دہرہ دون کے ساتھ ایسا ہی کیا گیا تھا لیکن پھر فیصلہ واپس لیا گیا سیاسی کھیل برصغیر ہندو پاک میں سب سے زیادہ سیاست جس زبان پر ہوئی ہے وہ اردو ہے اور وہ آج تک اس کا شکار ہے۔ انڈیا کے معروف قانون دان اے جی نورانی نے سنہ 2005 میں اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’شمالی ہندوستان اور بطور خاص اترپردیش میں اردو کی نسل کشی کے لیے جتنی جی بی پنت، پروشوتم داس ٹنڈن اور سمپورانند جیسے کانگریس لیڈروں کی بدخواہی ذمہ دار ہے اتنا ہی سنگھ پریوار ذمہ دار ہے جس نے اردو کو ایک غیر ملکی زبان تصور کیا اور اسے اپنی غلامی کی علامت سے تعبیر کیا۔‘ کریگ بیکسٹر نے اپنی کتاب ’جن سنگھ‘ میں لکھا ہے کہ سنگھ پریوار جس کا حصہ بی جے پی، آر ایس ایس اور ديگر ہندوتوا تنظیمیں ہیں، اس نے سنہ 1933 میں اردو کو غیر ملکی زبان کہا تھا جو کہ ان کے بقول: ’ہماری غلامی کی زندہ علامت ہے۔ اسے صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جانا چاہیے۔ اردو ملیچھوں (غیر ہندوں کے لیے ایک ہتک آمیز اصطلاح) کی زبان ہے جس نے ہمارے قومی مفادات کو انڈیا میں حاصل کرنے میں بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔‘ (جن سنگھ، کریگ بیکسٹر، صفحہ 20-19)۔ دہلی میں قائم ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی میں ہندی زبان کے پروفیسر گوپال پردھان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ حکومت کسی بھی زبان کی حامی نہیں ہے، یہ کسی کی نہیں ہے۔ یہ ان تمام اقدامات سے صرف مسلمانوں کو ڈرانا چاہتی ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہندوستان کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی کتاب ’ہند سوراج‘ میں یہ بات درج ہے کہ اردو اور ہندی ایک ہی زبان ہیں اس کے دو رسم خط ہیں اور اسے دونوں میں لکھے جانے کی ضرورت ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ جو اسے ایک مذہب سے جوڑ کر دیکھتے ہیں وہ اسے جانتے ہی نہیں ہیں کہ پنڈت رتن ناتھ سرشار سے لے کر پریم چند تک بڑے بڑے نثر نگار ہندو تھے۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ کسی سٹیشن کا نام آپ سنسکرت میں کیسے لکھیں گے جو ہندی سے الگ ہو۔ انھوں نے کہا کہ ’مثال کے طور پر ہمارے سٹیشن کا نام سلطان پور ہے تو اسے آپ ہندی میں جو لکھیں گے ویسا ہی سنسکرت میں لکھیں گے کیونکہ دونوں رسم خط ایک ہی یعنی دیو ناگری ہے۔ یہ لوگوں کو صرف گمراہ کرنے کی بات ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’ان کا کسی زبان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ سنسکرت کے بھی نہیں ہیں۔ کیونکہ سنسکرت میں خدا کے منکر ہونے کی ایک مضبوط روایت رہی ہے۔ کیا وہ اسے قبول کر سکتے ہیں؟‘ انھوں نے کہا کہ دنیا بھر میں سیاست میں کلچر کا شامل ہو جانا خطرناک ہے۔ دوسری جانب ایکٹوسٹ اور صحافی ابھے کمار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کی شدید مخالفت کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اخباروں سے پتہ چلا ہے کہ کچھ دنوں سے ہندو شر پسند اور فرقہ پرست مطالبہ کر رہے تھے کہ مغلوں کی زبان اردو میں سٹیشن کا نام نہیں لکھا جانا چاہیے۔ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ اردو زبان کو مغلوں سے جوڑا جا رہا ہے، اسے مسلمانوں سے جوڑا جا رہا ہے لیکن دراصل اردو زبان ہندی زبان کی طرح خالص ہندوستانی زبان ہے، اس کی پیدائش اور ترویج و اشاعت سب ہندوستان میں ہوئی ہے اور جہاں تک زبان کی بناوٹ کا سوال ہے تو یہ ہندی سے صد فیصد میل کھاتی ہے۔‘ پروفیسر گوپال پردھان نے کہا کہ اب یہ لوگوں کو کون بتائے کہ ہندی اردو کا ہی ایک نام ہے۔ انھوں نے اردو کے معروف ادیب اور ناقد شمس الرحمان فاروقی کے حوالے سے بتایا کہ اردو زبان کا ایک نام ہندی یا ہندوی بھی تھا۔ ڈاکٹر ابھے کمار تاریخ داں ہیں۔ انھوں نے اردو کے حوالے سے ایک دلچسپ بات بتائی۔ انھوں نے کہا: ’آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ بابائے قوم مہاتما گاندھی کو جب قتل کردیا گیا تو اس وقت بھی دہلی میں جب ایف آئی آر درج کی گئی تھی وہ اردو زبان میں ہی درج کی گئی تھی۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’اردو زبان نے جنگ آزادی میں نمایاں کردار ادا کیا اور ’انقلاب زندہ باد‘ جیسے نعرے دیے لیکن شرپسند فرقہ پرست عناصر اس زبان کو ملک کی مخصوص اقلیت سے جوڑ کر ملک کا بہت بڑا نقصان کر رہے ہیں اور ملک کی سالمیت اور یکجہتی کو چوٹ پہنچا رہے ہیں۔‘ دوسری جانب اردو عوام میں مقبول ہے، جشن ریختہ کا ایک منظر جہاں نوجوان بڑی تعداد میں نظر آ رہے ہیں واضح رہے کہ بی جے پی حکومت کے مرکز میں اقتدار میں آنے کے بعد سے بڑے پیمانے پر ناموں کے تبدیل کیے جانے کا سلسلہ نظر آیا ہے۔ چنانچہ دہلی کے قلب میں واقع اورنگزیب روڈ کا نام بدل دیا گیا۔ اسی طرح اترپردیش میں معروف سٹیشن مغل سرائے کا نام بدل کر پنڈت دین دیال اپادھیائے رکھ دیا گیا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ حکومت اکثریتی طبقے کو یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ ایک خاص طبقے کے خلاف ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے اندر لکھنؤ میں قائم خواجہ معین الدین چشتی اردو فارسی عربی یونیورسٹی کا نام بدل کر خواجہ معین الدین چشتی بھاشا وشوودیالیہ کر دیا گیا۔ پروفیسر کوثر مظہری نے کہا کہ اترپردیش کے سول سروسز میں ویسے ہی گنے چنے مسلم طلبہ کامیاب ہوتے تھے اور ان میں سے چند ایک اردو اور فارسی زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر منتخب کرتے تھے لیکن حکومت کے فیصلے کے بعد اب ایسا ممکن نہیں ہو سکے گا۔ یہ ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو مزید حاشیے کی طرف لے جانا ہے۔
060920_hamid_karzai_un_ur
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/09/060920_hamid_karzai_un_ur
حامد کرزئی: فوجی کارروائی ناکافی ہے
افغانستان کے صدر حامد کرزئی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف فوجی کارروائی کے ذریعے ان کے ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے لیے پناہ گاہوں اور وسیع پیمانوں پر بنے رابطے کے جالوں کو جو کہ ان دہشت گردوں کو بھرتی کرنے کے علاوہ ان کی تربیت کرتے ہیں، انہیں اسلحہ فراہم کرتے ہیں اور مالی مدد دینے کے ساتھ اور انہیں مختلف جگہوں پر تعینات کرتے ہیں کو تباہ کرنا ہو گا۔ اپنی تقریر میں حامد کرزئی نے کسی ملک کا خصوصی طور پر نام نہیں لیا لیکن بی بی سی کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ ماضی میں حامد کازئی سمیت دیگر افغان رہنماؤں نے پاکستان پر تنقید کی ہے کہ وہاں پر طالبان دہشت گردوں کو پناہ دی جاتی ہے اور پاکستان ان کو سرحد پار کرنے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کررہا۔ حامد کرزئی نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ افغانستان میں بڑھتی ہوئی منشیات کی پیداوار بھی دہشت گردی سے منسلک ہے اور منشیات کی لعنت افغانستان کی معیشت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔
regional-56080618
https://www.bbc.com/urdu/regional-56080618
ایچ آئی وی: محبت کی وہ داستان جسے ایڈز جیسا مہلک مرض بھی شکست نہ دے سکا
’ہم ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں۔ میں ہندو ہوں اور وہ مسلمان ہے۔ ہماری شادی نہیں ہو سکتی تھی، لہذا ہم اپنے گھروں سے بھاگ گئے اور شادی کر لی۔ پھر پولیس نے ہمیں گرفتار کر لیا اور میری اہلیہ کا میڈیکل چیک اپ کروایا گیا۔ چیک اپ کے بعد مجھے پتا چلا کہ وہ ایچ آئی وی یعنی ایڈز سے متاثرہ ہیں۔ لیکن میں اس سے پیار کرتا تھا، اس لیے میں نے شادی کی تھی، میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔‘
یہ کہنا ہے گجرات میں بناسکانٹھا کے ایک چھوٹے سے گاؤں کے مانوجی ٹھاکر (فرضی نام) کا۔ انھوں نے اپنی محبت کی خاطر دنیا کی ایک نہیں سُنی اور اپنی ایچ آئی وی سے متاثرہ بیوی کو اپنے ساتھ رکھا۔ مانوجی زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ بچپن سے ہی وہ ایک معمار (مستری) کا کام کرتے ہیں اور ان کے پاس زیادہ دولت بھی نہیں ہے۔ محبت کہاں سے شروع ہوئی؟ گاؤں میں مستری کا کام کرنے کے علاوہ مانوجی اپنے بھائیوں کی کھیتی باڑی میں مدد بھی کرتے ہیں۔ گھروں کی تعمیر کے کام کے سلسلے میں انھیں اترپردیش کے ایک مسلمان فیملی کے لیے مکان بنانے کا موقع ملا۔ بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے مانوجی نے بتایا ’گاؤں کا زمیندار ان لوگوں کو اپنے کھیتوں پر مزدور بنا کر رکھے ہوئے تھا اور وہ (زمیندار) اسی مسلمان فیملی کے لیے مکان بنوا رہا تھا۔‘ یہ بھی پڑھیے ’دونوں لڑکیوں سے محبت کرتا تھا اور کسی کو دھوکہ نہیں دے سکتا تھا‘ ’کوئی نہیں جانتا پسند کی شادی کرنے والے پنکی اور راشد کہاں گئے‘ گھسی پٹی محبت: ’ناکام شادی کا مطلب ناکام زندگی نہیں‘ مانوجی نے بتایا کہ ’اس مکان کی تعمیر کے دوران مسلمان فیملی کی 16 سالہ بیٹی رخسانہ (فرضی نام) ہمارے کھانے پینے اور چائے ناشتے کا بندوبست کرتی تھی۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کو ہندی نہیں آتی تھی جبکہ رخسانہ گجراتی نہیں جانتی تھیں۔ میں ہندی جانتا تھا اسی وجہ سے رخسانہ کے خاندان میں گھل مل گیا۔‘ مانوجی کے مطابق ’رخسانہ کے گھر والوں کو بازار سے کچھ بھی خریدنا ہوتا تو وہ رخسانہ کو میرے ساتھ رادھنپور بھیجا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ ہماری شناسائی بڑھتی گئی۔ ہم رادھنپور کے تھیٹر میں فلمیں دیکھنے لگے۔ ہوٹلز میں ناشتے کے لیے بھی جانے لگے۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے اور ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کہ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ کب پیار ہو گیا۔‘ مخالفت رخسانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ میں محبت میں گرفتار ہوں۔ عید پر جب میں 17 سال کی ہوئی تو مانوجی میرے لیے نئے کپڑے، چوڑیاں، جوتے اس طرح لائے کہ کسی کو پتہ نہ چلا۔‘ ’میں نے کپڑے، چوڑیاں اور جوتے پہن لیے۔ مانوجی نے اپنے موبائل فون سے میری تصاویر لیں۔ ہم بہت خوش تھے۔ اس دن میں نے غلطی سے پرانے کپڑے بیگ میں ڈال لیے اور نئے کپڑے پہن کر گھر آ گئی۔ میرے والد نے بہت سارے سوالات پوچھے اور مجھے بہت مارا پیٹا بھی۔ میں نے بتا دیا تھا کہ مانو جی نے یہ کپڑے دیے ہیں۔ اس دن کے بعد میری زندگی جہنم بن گئی۔‘ رخسانہ کہتی ہیں کہ اس کے بعد انھیں گھر میں مار پیٹ کا سامنا رہنے لگا۔ اگر مانوجی ساتھ والے کھیت میں بھی دیکھے جاتے تو رخسانہ کو گھر میں مار پڑتی تھی۔ رخسانہ نے بتایا ’ایک رات جب سب گھر میں سو رہے تھے مانوجی مجھ سے ملنے آئے۔ انھوں نے میرے چہرے اور ہاتھوں پر چوٹ کے نشان دیکھے۔ انھیں بہت دکھ پہنچا۔ انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم مجھ سے شادی کرو گی؟ میں نے ہاں کہہ دیا۔‘ مانوجی نے بتایا ’مجھے لگا کہ میری وجہ سے انھیں اتنی تکلیف اٹھانا پڑی ہے۔ لہذا مجھے اسے بچانا چاہیے۔ میں نے رخسانہ سے شادی کے بارے میں اپنے کنبہ کے افراد سے بات کی۔ وہ سب اس کے خلاف تھے، ان کا کہنا تھا کہ ایک ہندو لڑکے کی ایک مسلمان لڑکی سے شادی کیونکر ہو سکتی ہے؟‘ ’تاہم میرے بھائی نے پیسے سے میری مدد کی۔ ہم نے گھر سے بھاگ کر شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں نے ایک وکیل سے بات کی۔ جب رخسانہ 18 سال اور ایک ماہ کی ہو گئیں، تو وہ اپنی پیدائش کی سند لے کر میرے پاس آئیں۔ اکتوبر 2019 میں ہم گاؤں سے بھاگے اور عدالت میں جا کر شادی کر لی۔‘ شادی کے بعد مشکلات مانوجی نے بتایا کہ ’اس کے بعد اصل پریشانی شروع ہو گئی۔ رخسانہ کے والد اور رشتہ داروں نے ہمیں ہراساں کرنا شروع کر دیا۔ رخسانہ کا کنبہ ہمارے بہن بھائیوں کے ساتھ لڑائی کرتا تھا۔ گاؤں میں ایک بڑا ہنگامہ کھڑا ہو گيا تھا۔ میں نے اپنا فون بند کر لیا۔ ہم مختلف علاقوں میں چھپتے پھرتے تھے۔ ہم نے سوچا تھا کہ جب معاملہ ٹھنڈا پڑ جائے گا تو ہم گاؤں جائیں گے، لیکن معاملہ بڑھتا ہی گيا۔ ہم نے اس دوران دیوالی اور عید بھی منائی۔‘ ’ایک دن جب میں نے اپنے بھائی کو فون کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ رخسانہ کے والد نے ایک نابالغ لڑکی کا اسقاط حمل کرنے کے الزام میں میرے خلاف مقدمہ درج کروا دیا ہے۔ میرے خلاف پوسکو قانون کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔‘ ان دنوں کی جدوجہد کو یاد کرتے ہوئے مانوجی نے بتایا ’پولیس میرے گھر والوں کو دھمکا رہی تھی کہ مجھے بلایا جائے۔ ہم گھر نہیں جا سکتے تھے اور ہمارے پاس پیسے بھی ختم ہو گئے تھے۔ میں کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ کیونکہ مکان کی تعمیر کا کام دستیاب نہیں تھا۔ کئی دنوں تک تو ہم نے صرف روٹی اور پیاز کھا کر ہی گزارا۔‘ رخسانہ نے بتایا کہ ’بسنت کا میلہ آنے ہی والا تھا۔ مانوجی گھر کی ضروریات کا سامان لانے کے لیے رقم دیتے تھے۔ میں نے اس میں سے کچھ پیسے بچائے تھے۔ میں اس سے پتنگ اور ڈور خریدا لائی۔ ہم نے اس دن جلیبی کھائی۔ بہت دن بعد ہم کچھ خوش تھے۔ ہمارے پیسہ ختم ہو رہے تھے اور گھر والوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔‘ لیکن مانوجی کے لیے ابھی اصل مشکلات کا سامنا کرنا باقی تھا۔ رخسانہ نے کہا کہ ’اس کے بعد لاک ڈاؤن ہو گیا۔ سب کچھ بند ہو گیا۔ ہمارے پاس کوئی کام نہیں تھا۔ لیکن محبت ہی ہمارے لیے سب کچھ تھی۔ ہم گاؤں گاؤں گھومتے رہے۔ ہم کوئی بھی کام کر کے کچھ پیسہ کما رہے تھے۔ دوسری طرف مانوجی کے اہل خانہ پر دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔‘ رخسانہ نے بتایا کہ ’مجھ سے مانوجی کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ وہ کورونا کے دوران کام کی تلاش میں جاتے تھے تاکہ ہم دونوں کچھ کھا سکیں۔ آخر کار میں نے پولیس کو رپورٹ کرنے کا فیصلہ کیا۔ منوجی اس کے حق میں نہیں تھے لیکن میں تھانے گئی۔ میں بالغ تھی۔ لہذا ہماری شادی درست تھی اور مانوجی کا کنبہ مجھے اپنانے کو تیار تھا۔‘ ایچ آئی وی انفیکشن کا پتہ چلا رخسانہ نے بتایا کہ ’جیسے ہی میں پولیس سٹیشن پہنچی، منوجی نے بھی پولیس سٹیشن میں سرینڈر کر دیا۔ یہاں سے ہی ہمارے لیے پریشانی شروع ہو گئی۔ مجھے خواتین کی پناہ گاہ میں رکھا گیا تھا۔ پولیس نے میرا میڈیکل ٹیسٹ کرایا اور پھر پتا چلا کہ میں ایچ آئی وی سے متاثرہ ہوں۔ میں بُری طرح سے ٹوٹ گئی تھی۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں مانوجی بھی ایچ آئی وی سے متاثر تو نہیں ہیں۔ ان کا بھی ٹیسٹ کرایا گیا تھا۔ ڈاکٹروں نے انھیں بتایا کہ وہ ایچ آئی وی سے متاثر نہیں ہیں۔ پھر مجھے سکون آيا۔‘ مانوجی نے بتایا کہ ’میں نے پولیس کو بتایا کہ میرے پاس اس بات کا ثبوت ہے کہ میں نے ایک بالغ لڑکی کی رضامندی سے شادی کی ہے لیکن کوئی مجھ پر اعتماد نہیں کر رہا تھا۔ کیس عدالت چلا گیا۔ دو ماہ تک جیل میں رہنے کے بعد مجھے گجرات ہائی کورٹ سے ضمانت مل گئی۔ لیکن میرا سارا دھیان میڈیکل ٹیسٹ پر تھا۔‘ ایچ آئی وی سے متاثرہ فرد سے شادی پر آمادہ مانوجی کے وکیل اپوروا کپاڈیا گجرات ہائی کورٹ میں مانوجی کا مقدمہ لڑنے والے وکیل اپوروا کپاڈیا نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ایک عجیب و غریب معاملہ تھا۔ مانوجی ایچ آئی وی سے منفی تھے، لیکن طبی افسروں کو خدشہ تھا کہ وہ چھ ماہ کے اندر اس بیماری کی زد میں آ سکتے ہیں۔ اپوروا کپاڈیا نے کہا ’چھ ماہ بعد منوجی کا دوسرا ایچ آئی وی ٹیسٹ احمد آباد سول ہسپتال میں ہوا اور اس کا نتیجہ بھی منفی تھا۔ اس دوران مانوجی کو رخسانہ سے شیلٹر میں ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ رخسانہ کے والد نے عدالت میں جھوٹے ثبوت دیتے ہوئے اسے نابالغ ثابت کرنے کی کوشش کی۔‘ ’عدالت کی جانب سے مانوجی سے بھی پوچھا گیا تھا۔ انھیں بتایا گیا تھا کہ رخسانہ کو ایچ آئی وی ہے۔ مستقبل میں یہ آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں وہ اپنی شادی کے فیصلے پر کیا غور کرنا چاہیں گے؟ مانوجی نے عدالت کو بتایا کہ وہ شادی برقرار رکھنا چاہیں گے۔‘ ’ایک ساتھ جینا، ایک ساتھ مرنا‘ رخسانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب ہماری شادی ہوئی تو میں نہیں جانتی تھی کہ میں ایچ آئی وی سے متاثرہ ہوں۔ لیکن میڈیکل ٹیسٹ کے بعد میں نے مانوجی سے شادی توڑنے کو کہا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انھیں انفیکشن کا خطرہ تھا لیکن وہ میری بات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ وہ مجھ سے ہی شادی قائم رکھیں گے۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ شادی کو بھلا دیں۔ میں نے پہلی بار ایسا کہا تو وہ بہت مایوس ہوئے۔ دوسری بار جب وہ ملنے آئے تو دیوداس لگ رہے تھے۔ تیسری بار وہ کافی مایوس نظر آئے۔‘ ’مانوجی کو میری وجہ سے بہت ساری مشکلات پیش آئیں۔ کوئی اور ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ وہ میرے مذہب کو اپنانے پر بھی راضی ہو گئے تھے۔ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر وہ مجھ سے شادی قائم نہیں رکھ سکے تو وہ کسی اور کے ساتھ بھی نہیں کریں گے۔ اسی بات نے میرا دل چھو لیا۔ جب میں نے شادی کے لیے ہاں کہا تو ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ میں نے عدالت میں بھی شادی کے لیے ہاں کہا تھا۔ اب میں ہندو مذہب کو اپنا کر منوجی کے ساتھ رہوں گی۔‘ ’میں نے عدالت میں یہ بھی کہا تھا کہ ہم بچوں کو جنم نہیں دیں گے اور ضرورت پڑنے پر گود لے لیں گے۔ لیکن ہم ساتھ رہیں گے اور ساتھ ہی مریں گے۔‘ ’محبت سب سے اوپر ہے‘ مانوجی ٹھاکر نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ ’رخسانہ جب 12 سال کی تھیں تو انھیں خون دیا گیا تھا۔ اسی خون کی وجہ سے وہ ایچ آئی وی سے متاثر ہو گئیں۔ انھوں نے کچھ غلط نہیں کیا۔ اگر شادی کے بعد مجھے حادثہ پیش آتا تو میں کیا کرتا؟ اب ہمارا مقدر ایک ہے۔ میں بیماری کی وجہ سے رخسانہ کو کیسے چھوڑ دیتا؟ مجھے جذبات پر قابو پانا نہیں آتا۔ میں آپ کو اس کے بارے میں کیسے بتاؤں، محبت سب سے اہم ہے۔‘ گجرات ہائی کورٹ کی جج سونیا گوکانی نے ان دونوں محبت کرنے والوں کی گفتگو سننے کے بعد انھیں ساتھ رہنے اور شادی شدہ زندگی گزارنے کی اجازت دے دی۔ اس کے علاوہ انھوں نے دونوں کو پولیس پروٹیکشن دیے جانے کی بھی ہدایت کی ہے۔ اس کے ساتھ انھوں نے رخسانہ کو سرکاری ہسپتال میں ایچ آئی وی کا علاج کروانے کا حکم بھی دیا ہے۔ عدالت نے غلط سرٹیفکیٹ پیش کرنے پر رخسانہ کے والد کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ رخسانہ کو عدالت سے باہر لاتے ہوئے مانوجی نے بی بی سی گجراتی کو بتایا ’میں زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں لیکن میں نے کہیں پڑھا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو اس کے مقدر میں ہوتا ہے۔ جب میں جیل میں تھا تو رخسانہ کا نام ہر روز ہاتھ پر لکھا کرتا تھا، یہی وجہ ہے کہ مجھے وہ مل گئی۔‘
051006_ipex2005_pakfirms
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/10/051006_ipex2005_pakfirms
100 پاکستانی کمپنیاں امرتسر میں
لگ بھگ ایک سو پاکستانی کمپنیاں امرتسر میں منعقد ہونے والی تجارتی نمائش میں شرکت کریں گیں۔ یہ تجارتی نمائش دسمبر میں منعقد ہوگی۔
ہندوستان اور پاکستان کے تجارتی اداروں کی یہ نمائش شمالی ریاست پنجاب کی حکومت اور پی ایچ ڈی چیمبر آف کمرس اینڈ انِڈسٹری کی جانب سے مشترکہ طور پر منعقد کی جارہی ہے۔ اس نمائش کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تجارت کو فروغ دینا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی حکومت نے اپنے تاجروں کو ہندوستان سے گوشت اور سبزیاں درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ دونوں ملکوں کے تاجر اپنی حکومتوں سے رعایت کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاکہ زمینی راستوں سے اشیاء کی ترسیل آسان ہوسکے۔ ایک باضابطہ تجارتی معاہدے کے تحت گزشتہ ستمبر میں پاکستان نے سینکڑوں بکریاں ہندوستان سے خریدی تھی۔
pakistan-55482443
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55482443
کورونا وائرس کی دوسری لہر: ایبٹ آباد میں کورونا وائرس تیزی سے کیوں پھیل رہا ہے؟
’چند ہفتے قبل جب میرا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا تو میرے ساتھ میری اہلیہ بھی کورونا کا شکار ہو گئیں۔ ہمیں کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوئی تھیں۔ مگر اب میرے والد کورونا آئی سی یو وارڈ میں داخل ہیں۔ میری والدہ کو بھی علامات ظاہر ہونا شروع ہو چکی ہیں۔‘
یہ کہنا تھا صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر ایبٹ آباد کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں استاد کی خدمات انجام دینے والے محمد افضل خان کا۔ ان کی اہلیہ بھی ایک نجی سکول میں پڑھاتی ہیں۔ ’ہم دونوں کے بارے میں ڈاکٹروں کی واضح رائے ہے کہ ہم سکول سے کورونا کا شکار ہوئے ہیں۔ میرے علم میں ہے کہ کئی استاد اور پھر ان کے گھرانے متاثر ہوئے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ بہت احتیاط کرتے تھے، ہر وقت ماسک استعمال کرتے تھے، گھر کی صفائی کا بھی خاص خیال رکھتے تھے۔ مگر ہم میاں بیوی اور تین بچے اپنے والدین کے ساتھ چار کمروں کے گھر میں رہائش پذیر ہیں۔ اس صورتحال میں یہ عین ممکن ہے کہ وائرس ہم دونوں ہی سے ہمارے والدین کو منتقل ہوا ہو۔‘ یہ بھی پڑھیے پاکستان میں کورونا ویکسین ٹرائل: رضاکاروں کا جنسی تعلق سے اجتناب برتنا ضروری کیوں ہے؟ روس، امریکہ، چین، برطانیہ میں سے پاکستان کس ویکسین کو ترجیح دے گا؟ کیا پاکستان کو بر وقت کووڈ ویکسین مل سکے گی؟ برطانیہ ’کورونا ویکسین کی فراہمی کے لیے تیار‘، پاکستان کے نئی ویکسین پر تحفظات یہ کہانی تو صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع ایبٹ آباد کے ایک خاندان کی ہے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ شہر پاکستان میں 40ویں نمبر پر آتا ہے۔ نجی سکولوں کی تنظیم کے رہنما فاریض احمد سواتی کے مطابق ایبٹ آباد کی معیشت کا پچاس فیصد دارومدار تعلیمی اداروں پر مشتمل ہے۔ مگر کورونا سے متاثر ہونے والوں کی ایک بڑی تعداد کا تعلق سیاحت سے بھی ہے۔ سیاحت کے کاروبار سے وابستہ افراد کے مطابق ایبٹ آباد کی معشیت کا 30 فیصد دارومدار سیاحت پر ہے۔ سردار افضل اور ان کے بھائی سردار حبیب گلیات کے سیاحتی مقامات نتھیا گلی اور ڈونگا گلی کے دو مختلف ہوٹلوں میں ویٹر کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ ان کے خاندان کے لوگ بھی سیاحت سے وابستہ ہیں۔ سردار افضل کا کہنا تھا کہ ہم دونوں بھائی اور ہمارے قریبی رشتہ دار کورونا سے متاثر ہو چکے ہیں اور کچھ تو ہلاک بھی ہو چکے ہیں اور ہمارے بہت سے جاننے والے جو کہ ہوٹلوں میں خدمات انجام دیتے ہیں وہ بھی متاثر ہوئے ہیں۔ ایبٹ آباد سیاحت، تعلیمی اداروں، امن و امان کی بہتر صورتحال اور گلگت بلتستان و پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ کورونا کی دوسری لہر کے دوران دسمبر کے مہینے میں تین مرتبہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر اسلام آباد نے اپنے جاری کردہ اعداد و شمار کی روشنی میں بتایا کہ ایبٹ آباد کورونا کے پازیٹو کیسز کے حوالے سے ملک بھر میں پہلے نمبر پر آیا ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر کے 28 دسمبر کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران 15.95 فیصد پازیٹو کسیز کے ساتھ ایبٹ آباد پہلے جبکہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی 14.81 فیصد کے ساتھ دوسرے اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدر آباد 14.47 فیصد کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہا تھا۔ اس سے چند دن قبل نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر نے ایبٹ آباد میں 40 فیصد اور 17 فیصد پازیٹو شرح کی بھی نشان دہی کی تھی۔ ایبٹ آباد کی صورتحال پر طبی ماہرین کی رائے ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر احسن اورنگ کے مطابق ایوب ٹیچنگ ہسپتال ایبٹ آباد میں دس ماہ کے دوران 37261 ٹیسٹ ہوئے ہیں۔ جس میں سے اب تک 4526 پازیٹو ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 28 دسمبر تک ایبٹ آباد میں کل مریضوں کی تعداد 11392 ہے۔ جس میں کئی مریض ایوب ٹیچنگ ہسپتال کے علاوہ بھی دستیاب ٹیسٹنگ کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ڈاکٹر احسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ 208,491 آبادی والے ضلع میں جس رفتار سے مریض پازیٹو ہوئے ہیں۔ اس سے تمام طبی عملے میں تشویش کی لہر دوڑ چکی ہے خاص طور پر دوسری لہر کے دوران مریضوں میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایبٹ آباد کے دو بڑے ہسپتالوں میں خدمات انجام دینے کے علاوہ نجی حیثیت میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کے مطابق ایبٹ آباد میں اگر ریکارڈ شدہ صورتحال تشویشناک سمجھی جا رہی ہے تو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ مریضوں کی تعداد اس سے کئی زیادہ ہے جو ٹیسٹ کروانے کی تکلیف بھی نہیں کرتے بلکہ خفیہ رہ کر گھروں ہی میں علاج کرواتے ہیں۔ کچھ تو علاج اور احتیاط کرنے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ ڈاکٹر جنید سرور ایوب ٹیچنگ ہسپتال میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایمرجنسی سروسز ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بدقسمتی سے شہریوں کی بڑی تعداد اس کو ابھی بھی سنجیدہ نہیں لے رہی ہے۔ ہسپتال آنے والے مریضوں کے لواحقین کی ایک بڑی تعداد جن کو اگر ہم بتائیں کہ مریض میں کورونا کی علامات ہیں تو وہ فوراً اپنے مریض کو لے کر ہسپتال سے غائب ہو جاتے ہیں۔ ’میں ضلع ایبٹ آباد کے علاقے حویلیاں میں کلینک کرتا ہوں۔ وہاں پر میرے پاس اوسطاً پچاس مریض آتے ہیں۔ جن میں سات، آٹھ میں واضح علامات ہوتی ہیں۔ مگر ان میں صرف ایک آدھ ہی ٹیسٹ کرواتے ہیں۔ باقی ہم سے راز رکھنے کی گزارش کے ساتھ بغیر ٹیسٹ ہی کے گھروں ہی میں علاج کروانے کی درخواست کرتے ہیں۔‘ ڈاکٹر احسن اورنگزیب کا کہنا تھا کہ میرے علم میں ہے کہ کورونا سے جڑی جھوٹی کہانیوں اور خوف کی بنا پر کئی مریض گھروں ہی میں ہلاک ہوئے ہیں۔ ان کے لواحقین اپنے مریضوں کے مرض کو خوف اور معاشرتی وجوہات کی بنا پر چھپاتے ہیں۔ سکول و کالج کے طالب علم کورونا پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ڈاکٹر احسن اورنگزیب نے ایبٹ آباد کے انتہائی متاثر ہونے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایبٹ آباد کے مشہور زمانہ تعلیمی اداروں میں ملک بھر سے طالب علم زیر تعلیم ہیں۔ ان طالب علموں کی بڑی اکثریت سکول، کالج اور یونیورسٹیوں کے ہاسٹلوں یا نجی ہاسٹلوں میں رہائش رکھتی ہے۔ یہ طالب علم اور پھر ان کے والدین، قریبی عزیز و اقارب بھی اپنے بچوں سے ملنے کے لیے ایبٹ آباد کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ان لوگوں کی بڑی تعداد ممکنہ طور پر اپنے ہمراہ وائرس لے کر پہنچتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ تو ٹھیک ہے کہ سکولوں اور کالجوں میں ایس او پیز کا خیال رکھا جاتا ہو گا۔ مگر بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ جب کسی ایک مقام پر زیادہ تعداد میں بچے اکھٹے ہوتے ہیں تو ان سے ایس او پیز پر عمل درآمد کروانا اگر ناممکن نہیں تو تھوڑا مشکل ضرور ہے۔ ڈاکٹر احسن اورنگزیب کے مطابق شاید کلاس رومز میں تو فاصلہ برقرار رکھا جا سکتا ہے مگر یہ بچے صبح مختلف گاڑیوں، پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ کے ذریعے سے سکول وکالج آتے جاتے ہیں۔ وہاں پر کس طرح ایس او پیز کا خیال رکھا جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر جنید سرور کا کہنا تھا کہ ابھی تک ایسے کیسز تو سامنے نہیں آئے کہ جن میں بچے متاثر ہوئے ہوں یا ان میں علامات ظاہر ہوئی ہوں مگر بچے وائرس کی متنقلی کا باعث ضرور بنتے ہیں۔ میرے پاس کئی ایسے کیس آئے ہیں جو انتہائی احتیاط کرتے تھے۔ ان کے گھروں میں وائرس پہنچنے کی واحد وجہ صرف ان کے بچے ہی ہو سکتے تھے۔ ایبٹ آباد کے محکمہ تعلیم کے مطابق ایبٹ آباد میں نجی اور سرکاری سطح پر قائم تعلیمی اداروں کی تعداد آبادی اور حجم کے لحاظ سے پاکستان کے کسی بھی شہر سے زیادہ ہیں۔ ان کی تعداد تقریباً 1500 ہو سکتی ہے۔ جس میں یونیورسٹیاں، میڈیکل کالج، پروفیشنل ادارے اور ہائی سیکنڈریز شامل ہیں۔ جن میں سے ایک ہزار کے قریب دوسرے شہروں سے آنے والے طالب علموں کے لیے ہاسٹل کی سہولت رکھتے ہیں۔ سیاحت سے وابستہ افراد بھی متاثر ڈاکٹر جنید سرور کے مطابق کورونا کی دوسری لہر کے دوران سیاحت کی صنعت سے جڑا ہوا شاید ہی کوئی ایسا فرد ہو جو متاثر نہ ہوا ہو۔ ہمارے پاس ہسپتال اور پھر کلینک میں آنے والے کورونا سے متاثرہ مریضوں میں سے 30 فیصد کا کوئی نہ کوئی تعلق سیاحت سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا جب لاک ڈاون کے بعد سیاحت پر سے پابندی اٹھائی گئی تھی تو اس وقت تو ریکارڈ تعداد میں سیاح آئے تھے۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری و ساری ہے بلکہ چند دن قبل ہونے والی برفباری کا نظارہ کرنے لوگوں کی بڑی تعداد آئی تھی۔ جس کے سبب مری روڈ پر ٹریفک بلاک ہو گیا تھا۔ ڈاکٹر احسن اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد کا شمار ان شہروں میں ہوتا ہے جہاں امن و امان کی صورتحال بہتر اور پر فضا مقامات کی موجودگی کےباعث لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ اب تو اس کو سب سے زیادہ کورونا پازیٹو کیسز والا شہر قرار دیا گیا ہے مگر اس کو پاکستان کا سب سے مہنگا شہر بھی قرار دیا جا چکا ہے۔ اس شہر میں تقریباً پاکستان کے ہر بڑے اور امیر آدمی نے اپنے لیئے گھر بنا رکھا ہے۔ جب وبا پھیلی تو ان لوگوں کی بڑی تعداد نے بڑے شہروں سے آ کر ایبٹ آباد کے پرسکون علاقوں میں موجود اپنے گھروں میں رہائش اختیار کر لی تھی۔ ڈاکٹر جنید سرور کا کہنا تھا کہ ایبٹ آباد جہاں پر بذات خود ایک سیاحتی مقام ہے۔ وہاں پر گلگت بلتستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے لیئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان علاقوں میں سفر کرنے والوں کی ایک بڑے تعداد ایک رات یا کچھ دیر کے لیے ایبٹ آباد میں قیام کرتی ہے۔ یہ لوگ مختلف بڑے شہروں سے آ رہے ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد میں وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ یہاں سفر کرنے والے لوگ بھی ہیں۔ شہریوں کی بے احتیاطی ڈاکٹر احسن اورنگ کا کہنا تھا کہ کبھی ایبٹ آباد شہر میں دسمبر کی شامیں سنسان ہوا کرتی تھیں۔ مگر اب تو انتہائی سردی کے باوجود رات گئے تک پلازے، دکانیں کھلی رہتی ہیں۔ لوگوں کی آمد و رفت جاری ہے۔ جہاں پر بہت کم لوگ احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہوتے ہیں۔ ایبٹ آباد کے بازاروں میں گھومیں تو صرف انگلیوں پر گنے جانے والے لوگوں نے ماسک کا استعمال کیا ہو گا ورنہ کوئی پراوہ کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ ڈاکٹر جنید سرور کے مطابق ایبٹ آباد کے مختلف علاقوں میں چلنے والی سوزوکی سروس بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔ 'اس سوزوکی سروس میں انتہائی کم جگہ میں کم سے کم دس لوگوں کو بٹھایا جاتا ہے۔ لوگ ایک دوسرے سے جڑ کر بیٹھتے ہیں اور یہ انتہائی آسانی سے ایک دوسرے میں وائرس منتقل کر دیتے ہیں۔' ڈاکٹر احسن اورنگ کا کہنا تھا کہ 'ہمارے مشاہدے کے مطابق ایبٹ آباد میں کورونا سے زیادہ متاثر غریب طبقے ہیں۔ جن میں ڈرائیور، سکولوں اور کالجوں میں چوکیداری کے فرائض انجام دینے والا سٹاف، ہوٹلوں میں کام کرنے والے، تاجر طبقہ جس میں ریڑھیاں لگانے والوں کی تعداد زیادہ سامنے آئی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ 'سردی بھی کورونا کے پھیلاؤ کا بڑا ذریعہ ہے۔ مقامی آبادیاں غریب لوگوں پر مشتمل ہیں۔ ایک ایک کمرے میں تین، چار لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔ 'اب اگر ان میں سے کوئی ایک بھی کسی بھی مقام سے متاثر ہوکر آتا ہے تو بہت آسانی سے وہ دوسرے کو متاثر کردیتا ہے۔'
science-38440112
https://www.bbc.com/urdu/science-38440112
تاریک مادے کی محقق ویرا روبن چل بسیں
کہکشاؤں کے گھومنے کی رفتار پر تحقیق کرنے والی ماہرِ فلکیات ویرا روبن کا انتقال ہو گیا ہے۔ ان کی تحقیق کے نتیجے میں ڈارک میٹر یا تاریک مادے کا نظریہ پیش کیا گیا تھا۔
ویران روبن کے بیٹے ایلن روبن کے مطابق ان کی والدہ کی عمر 88 برس تھی۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ویرا روبن کا انتقال اتوار کو ہوا۔ یاد رہے کہ ویرا کو بہت اعزازات ملے، جن میں یو ایس نیشنل اکیڈمی میں دوسری خاتون ماہرِ فلکیات کا کے طور پر چنا جانا بھی شامل ہے۔ لیکن بہت سے لوگ سوال کرتے ہیں کہ انھیں ان کی زندگی میں نوبیل انعام کیوں نہیں دیا گیا۔ سنہ 1974 میں روبن نے یہ بات دریافت کی تھی کہ کہکشاؤں کے گرد موجود ستارے پہلے سے قائم اندازے سے زیادہ تیزی سے حرکت کرتے ہیں۔ کششِ ثقل کے قانون کے تحت جب سائنس دانوں نے اس عمل کا مشاہدہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کا باعث ایک ایسا مادہ ہے نظر نہیں آتا۔ اس مادے کو تاریک مادہ کہا جانے لگا۔ تاریک مادہ دراصل مادے کی ایک نامعلوم قسم ہے اور یہ کائنات کے وزن اور توانائی کے مجموعے کا تقریباً 27 فیصد حصہ بنتا ہے۔
050418_msuharraf_manmohan_fz
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/04/050418_msuharraf_manmohan_fz
مذاکرات جاری رہیں گے: مشترکہ اعلان
بھارتی وزیرِاعظم منموہن سنگھ اور پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان مذاکرات کے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا ہے جس میں امن مذاکرات کو جاری رکھنے کا اعادہ کیا گیا ہے۔
یہ مشترکہ اعلامیہ بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس میں پڑھ کر سنایا۔ اس مشترکہ اعلامیہ کے مطابق دونوں ممالک جن نکات پر متفق ہوئے ہیں ان میں باہمی تجارت کے فروغ کے لیے ایک مشترکہ تجارتی کمیٹی کا قیام، جنوری 2006 تک بھارتی ریاست راجھستان اور پاکستانی صوبہ سندھ کے درمیان ریل رابطہ، کشمیر بس سروس میں شامل بسوں میں اضافہ، اس برس کے اواخر تک ممبئی اور کراچی میں قونصل خانوں کے بحالی اور امرتسر اور لاہور کے بیچ ایک نئی بس سروس کا آغاز شامل ہیں۔ امریکی خبررساں ادارے اے پی کے مطابق صدر مشرف نے بھارت کے ساتھ اپنی بات چیت کو کامیاب قرار دیا تاہم انہوں نے کہا کہ کشمیر کے تصفیے میں تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔
pakistan-55462843
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55462843
سہیل یافت: 15 برس بعد باعزت بری ہونے والا شخص جو اب اپنے جیسے اسیران کی مدد کر رہا ہے
بات شک کی بنا پر گرفتاری سے شروع ہوئی اور چند ہی روز میں سہیل یافت جیل میں تھے۔ پولیس کی حراست کے دوران انھیں بدترین جسمانی تشدد سہنا پڑا۔
سہیل یافت الٹا لٹکا کر انھیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا، نیند سے محروم رکھا گیا اور پیروں کے تلوں پر ڈنڈے برسائے گئے۔ سہیل یافت کو اب بھی یاد ہے کہ جب وہ صوبہ پنجاب کے شہر ساہیوال کی جیل میں پہنچے تھے تو ان کی ’دونوں ٹانگیں سوجی ہوئی تھیں اور پیشاب کی جگہ خون آ رہا تھا۔‘ پولیس ان سے وہ گاڑی برآمد کروانا چاہتی تھی جس پر قاتل فرار ہوئے تھے۔ یہ معاملہ ہے 20 برس قبل ساہیوال میں ایک شخص کے قتل کا۔ چند افراد نے اس شخص پر گولیاں چلائیں اور گاڑی میں فرار ہو گئے تاہم ان کی شناخت نہ ہو پائی۔ مرکزی ملزم کے علاوہ اندھے قتل کے اس مقدمے میں پولیس نے چند نامعلوم افراد کو بھی شامل کیا۔ انھی نامعلوم افراد کی تلاش میں لاہور سے ایک کالج کے چند طالب علموں کو حراست میں لیا گیا۔ دورانِ تفتیش اُن میں سے ایک طالبعلم نے پولیس کے سامنے سہیل یافت نامی شخص کا نام لے دیا۔ یہ بھی پڑھیے ’محمد اقبال کو کسی نے اس کا حق نہیں دیا‘ غربت قیدیوں کی قانونی جنگ کی راہ میں بھی رکاوٹ پاکستان میں ایک اور ’ذہنی مریض‘ کے ڈیتھ وارنٹ جاری لاہور میں پولیس نے انھیں شک کی بنا پر گرفتار کر لیا اور ابتدائی تفتیش کے بعد انھیں جیل بھیج دیا گیا۔ جیل کے دروازے سے اندر داخل ہوتے ہی اقلیتی مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے 21 سالہ سہیل یافت کے ذہن میں کئی وسوسے، کئی سوال تھے۔ بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’مجھے یہ علم تھا کہ میرے پیچھے (یعنی مدد کے لیے) آنے والا کوئی نہیں۔‘ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اُن کے بہن بھائی ان کی رہائی کے لیے کچھ نہیں کر سکتے تھے کیونکہ ان کے پاس اتنے مالی وسائل ہی نہیں تھے کہ وہ وکیل کا بندوبست کر سکتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ پہلے ہی روز جیل عملے کے رویے سے انھیں یہ بھی اندازہ ہو چکا تھا کہ جس قسم کے تشدد سے وہ گزر کر آ رہے تھے اس کا سلسلہ رکنے والا نہیں تھا۔ جوں ہی انھوں نے جیل کے رجسٹر پر درج کروانے کے لیے اپنا نام سہیل مسیح بتایا تو رجسٹرار نے دوہتھڑ ان کی کنپٹیوں پر مارتے ہوئے کہا تھا ’اوئے چوہڑیا، تو نے اپنے ساتھ ہمارے بچوں کو بھی پھنسا دیا ہے۔‘ سہیل کے ساتھ اس مقدمے میں جیل جانے والے باقی کے دو ملزمان مسلمان تھے۔ کیا شازیہ میرا انتظار کرے گی؟ اس عرصے کے دوران سہیل یافت کو مسلسل یہ تکلیف بھی ستا رہی تھی کہ کیا وہ دوبارہ کبھی شازیہ سے مل پائیں گے؟ اگر وہ لمبا عرصہ جیل سے نہ نکل سکے تو کیا وہ ان کا انتظار کریں گی یا نہیں؟ شازیہ وہ لڑکی تھی جس سے ان کی ملاقات ماں باپ کی موت کے بعد کے ان دنوں میں ہوئی تھی جب وہ دوستوں کے ساتھ لاہور کے حبیب اللہ روڈ کے پاس واقع میدان میں کرکٹ کھیلنے جایا کرتے تھے۔ ان کی دوستی کب محبت میں بدلی انھیں پتا ہی نہیں چلا۔ دونوں نے شادی کا فیصلہ کیا ہی تھا جب ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ وہ جیل چلے گئے اور شازیہ باہر رہ گئیں۔ آج بیس برس بعد سہیل یافت نہ صرف آزاد ہیں بلکہ وہ اب ایک انویسٹیگیٹر ہیں اور جیل میں قید افراد کے حقوق کے لیے کام کرتے ہیں۔ سہیل لاہور کے ایک نواحی علاقے میں ایک چھوٹے سے گھر میں اپنے تین بچوں اور دوسری اہلیہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ بطور ملزم ان کے 10 برس مزید جیل میں گزرے۔ اس وقت کو یاد کر کے سہیل یافت نے بتایا کہ ’جیل نے مجھ سے بہت پیارے لوگ چھین لیے، اتنا کچھ چھین لیا کہ جس کا مداوا نہیں ہو سکتا۔ یہ گھاؤ وقت بھی نہیں بھر سکتا۔‘ ان پیاروں میں شازیہ بھی شامل تھیں۔ ’وہ لڑکی جس نے دس برس تک میرا انتظار کیا۔ اپنے گھر والوں سے لڑ گئی، سب سے لڑ گئی۔‘ ’وہ کینسر سے بھی لڑی، اور میری قانونی جنگ بھی‘ سہیل یافت کی بڑی بہن روبینہ امتیاز بھی اپنے تئیں اپنے بھائی کی مدد کر رہی تھیں۔ وہ بیک وقت دو محاذوں پر لڑ رہی تھیں۔ ’وہ کینسر سے بھی لڑ رہی تھی اور بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اتنے پیسے جمع کرتی تھیں کہ میرے لیے وکیل کا بندوبست کر سکیں۔ تھوڑا تھوڑا کرتے انہیں دس برس لگ گئے۔‘ جیل میں جانے کے بعد دو برس تک سہیل یافت کا مقدمہ چلا اور عدالت نے انھیں ملزم قرار دیتے ہوئے عمر قید کی سزا سنائی۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سہیل یافت نے کہا کہ عدالت کا فیصلہ بھی عجیب سا تھا۔ ’عدالت نے کہا کہ شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ آپ قتل میں ملوث ہیں مگر شواہد سے یہ پتہ نہیں چلا کہ قتل کس نے کیا۔‘ اس طرح عدالت نے نرم رویہ اپناتے ہوئے انھیں عمر قید کی سزا سنائی۔ وہ جانتے تھے انھوں نے قتل نہیں کیا تھا لیکن اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے انھیں اعلٰی عدالت میں اپیل دائر کرنا تھی۔ اس کے لیے ان کے پاس وکیل کرنے کے پیسے نہیں تھے۔ 'وہاں اوئے چوہڑیا کہہ کر بلاتے تھے' ساہیوال جیل میں پہلے دو برس کے دوران انھوں نے ’جسمانی اور ذہنی اذیت کی انتہا دیکھی‘ اور یہ سلسلہ دوران حراست پہلے ہی روز سے شروع ہو گیا تھا۔ سہیل کے بقول وہ شدید گرمی کے دن تھے جب انھیں ساہیوال جیل منتقل کیا گیا۔ ان کے ہاتھ پاؤں سوجے ہوئے تھے اور پورا بدن دکھ رہا تھا۔ پیاس کی شدت میں جیل میں پہنچنے پر انھوں نے پانی مانگا۔ ’پاس بیٹھے ایک شخص نے مہربانی کی اور سٹیل کے گلاس میں مجھے پانی دیا۔ ابھی میں نے پانی پی کر گلاس رکھا ہی تھا کہ انھیں پتا چل چکا تھا کہ میں اقلیتی برادری سے تعلق رکھتا ہوں۔ وہ شخص مجھ سے لڑنے کے لیے آ گیا کہ تمہیں بتانا چاہیے تھا تم نے ہمارا گلاس خراب کر دیا۔‘ انھیں یاد ہے کہ ان کے وارنٹ کی پیروی کرنے والے جیل کے وارنٹ نے وارڈن سے پنجابی میں کہا کہ ’جب اس چوہڑے کو گٹروں میں ڈالیں گے تو اس کی طبیعت صاف ہو جائے گی۔‘ سہیل کے مطابق وہاں ان کو ان کے نام سے نہیں بلکہ ’اوئے چوہڑیا کہہ کر بلایا جاتا تھا۔‘ بعد میں سہیل پر عیاں ہوا کہ جیل کے اندر مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والوں کو اس ترتیب سے مخلتف بیرکوں میں ڈالا جاتا تھا کہ باقی کاموں کے ساتھ ان کے ذمے ان بیرکوں کے ٹائلٹ اور گٹر صاف کرنے کی ذمہ داری بھی ہوتی تھی اور یہ کام ان سے زبردستی کروایا جاتا تھا۔ ’تیسرے سال علم ہوا انھیں کینسر ہو گیا تھا‘ سہیل یافت نے امتیازی رویوں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ جیل حکام کے ساتھ ان کے خلاف احتجاج بھی کرتے اور شکایات بھی درج کرواتے تھے۔ انھوں نے جیل کے اندر قیدیوں کو پڑھانے کی اجازت بھی حاصل کر لی تھی اور ایک چرچ تعمیر کروانے کے لیے بھی کوشاں تھے۔ اس دوران ان کی بڑی بہن روبینہ امتیاز جو اسلام آباد میں رہتی تھیں سال میں ایک مرتبہ کرسمس کے موقع پر ان سے ملاقات کرنے آتی تھیں جب وہ ان کے لیے گرم کپڑے اور مٹھائی وغیرہ لاتیں۔ دو سال ایسے گزر گئے کہ ان سے ملنے گھر سے کوئی نہیں آیا۔ ’جب تیسرے برس وہ اچانک مجھ سے ملنے کے لیے آئیں تو ان کی رنگت بھی پیلی پڑی ہوئی تھی اور ان کا وزن بھی بہت کم ہوا تھا۔ میں نے بہت پوچھا مگر انھوں نے نہیں بتایا۔ لیکن تب مجھے علم ہوا کہ انھیں کینسر ہو گیا تھا۔‘ شازیہ اور سہیل کی شادی کی تقریب کا منظر ’مجھے یقین کرنے میں وقت لگا کہ وہ میرے سامنے کھڑی تھی‘ شازیہ کہاں تھیں، سہیل کو نہیں معلوم تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں سوچتا تھا کہ اب تک تو اس کی شادی بھی ہو گئی ہو گی، بچے بھی ہوں گے۔ اگر کبھی زندگی نے موقع دیا اور میں باہر گیا تو کہیں دور سے ایک دفعہ اس کو ضرور دیکھوں گا۔‘ ساہیوال جیل میں نو برس گزارنے کے بعد انھوں نے اپنا تبادلہ لاہور کی جیل میں کروا لیا۔ اس دوران ان کی کوششوں سے ساہیوال جیل میں مسیحی قیدیوں کے لیے ایک چھوٹا سا چرچ بھی تعمیر ہو چکا تھا اور ان کے خلاف امتیازی رویوں میں بھی تبدیلی آ چکی تھی۔ لیکن سہیل تب تک اپنی عمر قید کے خلاف اپیل دائر نہیں کر سکے تھے۔ لاہور جیل میں آئے انھیں چند ہی روز گزرے تھے کہ ان کی ملاقات آ گئی۔ ان کے لیے یہ تعجب کی بات تھی کہ کون ان سے ملنے آیا تھا کیونکہ اس وقت تک انھوں نے اپنے گھر والوں کو بھی لاہور منتقلی سے آگاہ نہیں کیا تھا۔ ’میں ملاقات کے لیے مختص ایریا میں پہنچا اور ادھر ادھر گھوم کر سارا دیکھا مجھے کوئی نظر نہیں آیا۔ اس وقت مجھے دکھ سا ہوا کہ مجھے ملنے کوئی نہیں آیا شاید ان کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ جب میں جانے کے لیے مڑا تو ایک ستون کے پیچھے سے مجھے کوئی نظر آیا اور ایسا لگا وہ رو رہی تھی۔‘ ’وہ شاید قبولیت کا وقت تھا‘ وہ شازیہ تھیں۔ سہیل یاتف کہتے ہیں انھیں خود کو سنبھالنے اور یہ یقین کرنے میں تھوڑا وقت لگا کہ وہ واقعتاً ان کے سامنے موجود تھیں۔ اس وقت جو الفاظ شازیہ نے بولے وہ کہتے ہیں وہ ان کی سماعت میں آج بھی گونجتے ہیں۔ ’اس نے کہا میرے لیے کیا فیصلہ ہے۔ اس کا میں کیا جواب دیتا۔ مجھے نہیں معلوم میرے منھ سے یہ الفاظ کیسے نکلے۔ میں نے اس سے کہا جہاں اتنا انتظار کیا ہے تھوڑا اور کر لو میں بس باہر آنے والا ہوں۔ وہ شاید قبولیت کا وقت تھا۔‘ کچھ ہی عرصہ میں ان کی بہن نے وکیل کا بندوبست کر کے ان کی اپیل ہائی کورٹ میں دائر کی اور اس اثنا میں ان کی سزا اپیل کا فیصلہ آنے تک معطل کر دی گئی۔ سہیل یاتف دس برس بعد جیل سے باہر آ گئے۔ اپنے تجربے کی بنا پر سہیل کو انویسٹیگیٹر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان کا کام جیل میں قید ایسے افراد کا پتہ کرنا تھا جو غلط مقدمات میں قید کاٹ رہے تھے یا لمبے عرصے سے اندر تھے پہلے بہن چل بسی، پھر شازیہ انھیں معلوم ہوا کہ شازیہ مسلسل ان کی بہن روبینہ کے ساتھ رابطے میں تھیں۔ انھوں نے اپنے خاندان والوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ شادی نہیں کریں گی۔ ان کی بہن ہی کی کوششوں سے چند ہی ماہ میں سہیل اور شازیہ کی شادی ہو گئی۔ تاہم ان کے لیے خوشی کا یہ وقت مختصر ثابت ہوا۔ شادی کے دو ماہ بعد پہلے ان کی بہن کینسر سے چل بسیں اور پھر ایک سال بعد دورانِ زچگی شازیہ کو دل کا دورہ پڑا جس سے ان کی اور بچے کی موت واقع ہو گئی۔ ان کے سابقہ سسر نے کچھ عرصہ بعد خود ان کی دوسری شادی کروائی۔ وہ کہتے ہیں ان کی دوسری اہلیہ ’بہت چاہنے والی اور محبت کرنے والی ہیں۔‘ تفتیش کار کے طور پر نئے سفر کا آغاز اس دوران سہیل یافت کی ملاقات جیل میں قید افراد کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کی سربراہ سارہ بلال سے ہو چکی تھی۔ وہ جے پی پی کے ایک سیمینار میں ایک سابقہ قیدی کے طور پر اپنے تاثرات بتانے کے لیے مدعو کیے گئے تھے۔ وہیں سارہ بلال نے انھیں جے پی پی کے ساتھ کام کرنے کی دعوت دی۔ ’میں نے کہا اندھا کیا مانگے دو آنکھیں۔ یہ تو زبردست ہو گیا۔ جیل میں یہ ارادہ کر چکا تھا کہ اگر میں کبھی باہر نکلا تو ان بے شمار لوگوں کے لیے کچھ کروں گا جو پھانسی کے پھندے پر لٹکنے تک بھی یہ کہتے رہتے تھے کہ ہم بے قصور ہیں۔‘ اپنے تجربے کی بنا پر انھیں انویسٹیگیٹر کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان کا کام جیل میں قید ایسے افراد کا پتہ کرنا تھا جو غلط مقدمات میں قید کاٹ رہے تھے یا لمبے عرصے سے اندر تھے۔ ایسے ہی ایک مقدمے کی نشاندہی سہیل نے کی اور اقبال نامی ایک ایسے قیدی کا پتہ چلایا جسے جووینائل یعنی بچہ ہوتے ہوئے سزائے موت سنائی گئی تھی اور اسے پھانسی دی جانے والی تھی جو کہ قانون کے خلاف تھا۔ جے پی پی نے ان کے مقدمے کو اٹھایا اور باالآخر اقبال کو رہائی مل گئی۔ سہیل کہتے ہیں ’ایسے مقدمات سے مجھے حوصلہ ملتا ہے کہ کم از کم کوئی تو ان کی وجہ سے مصیبت سے باہر آیا۔‘ بی بی سی نے ان کی کہانی کو دیکھتے ہوئے انھیں ’بی بی سی انسپریشنز ایوارڈ‘ کے لیے چنا جس میں دنیا بھر سے ان جیسے متاثر کن شخصیات کا انتخاب کیا جاتا ہے پندرہ برس بعد ’باعزت بری‘ پانچ برس بعد ہائی کورٹ نے سہیل یافت کی اپیل پر فیصلہ سناتے ہوئے انھیں تمام الزامات سے بری کر دیا۔ اب سہیل ذاتی طور پر بھی جیل میں قید افراد کی مدد کرتے ہیں۔ اپنی ذاتی کوششوں سے وہ ہر کرسمس اور عید کے موقع پر جیل میں قید افراد کے بچوں کے ساتھ جا کر وقت گزارتے ہیں۔ ’جب ایک خاندان کا کفیل شخص جیل چلا جائے تو سب سے زیادہ اس کے بچے متاثر ہوتے ہیں۔ ہم ان کا بتاتے ہیں کہ ہم ان کے ابا کے دوست ہیں اور ان کے والد، بھائی یا شوہر نے ان کے لیے یہ تحائف بھجوائے ہیں۔‘ حال ہی میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ان کی کہانی کو دیکھتے ہوئے انھیں ’بی بی سی انسپریشنز ایوارڈ‘ کے لیے چنا ہے جس میں دنیا بھر سے ان جیسی متاثر کن شخصیات کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ سہیل جیل سے رہا ہونے والے افراد کے لیے بحالی سینٹر بھی بنانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی کوئی سہولت پاکستان میں ایسے افراد کو میسر نہیں جو جیل ٹراما کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں رائج نظام عدل اور اس میں پھنسی اپنی زندگی کے گزرے 15 برس پر نظر دوڑاتے سہیل یافت کہتے ہیں کہ ’دس یا پندرہ برس بعد عدالت آپ سے کہہ دیتی ہے کہ باعزت بری۔ کیا یہ دو الفاظ ان پندرہ برسوں کا مداوا کر سکتے ہیں؟‘
141125_bhojpuri_tutor_about_aamir_khan_mb
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2014/11/141125_bhojpuri_tutor_about_aamir_khan_mb
’ایسے آئیں گے کہ سب ٹُکر ٹُکر دیکھتے رہ جائیں گے‘
ہندی فلم ’گودان' میں محمد رفیع کی آواز میں معروف نغمہ ’پپرا کے پتوا سریكھے ڈولے منوا، کے جيئرا میں اٹھے لا ہلور۔۔۔‘ ہو یا پھر فلم گنگا جمنا کا مقبول گیت ’نین لڑ جئی ہیں تو منوا میں کسکس ہوئے بے کریں۔۔۔‘ پر دلیپ کمار کا دھوتی پہن کر رقص کرنا بھلا کون بھول سکتا ہے۔
راجکمار ہیرانی کی فلم ’پی کے‘ میں اس فلم کے ہیرو یعنی عامر خان بھوجپوری زبان بولتے نظر آنے والے ہیں ایک زمانہ وہ بھی تھا جب ’كھئی کے پان بنارس والا۔۔۔‘ کی رنگت لیے فلم ’ڈان‘ کے گانے پر بہت سے لوگ تھرک اٹھتے تھے پھر بھی بھوجپوری زبان بالی ووڈ کے ہیرو کی زبان کبھی نہیں ہو سکی۔ بھوجپوری صرف فلموں میں نوکر، مالی، سبزی والوں کی زبان بن کر رہ گئی۔ لیکن اب ہیرو بولےگا بھوجپوری، جس پر ہیروئن کا دل آئے گا۔ یہ کہنا ہے بالی وڈ کے اداکار عامر خان کو بھوجپوری سکھانے والے استاد شانتی بھوشن کا۔ امیتابھ بچن نے فلم ڈان میں بھوجپوری زبان کا استعمال کیا ہے واضح رہے کہ راجکمار ہیرانی کی فلم ’پی کے‘ میں اس فلم کے ہیرو یعنی عامر خان بھوجپوری زبان بولتے نظر آنے والے ہیں۔ شانتی بھوشن بھوجپوری میں ٹی وی سکرپٹ لکھتے ہیں۔ بھوجپوری زبان سکھانے کے علاوہ انھون نے عامر کو دو ماہ تک ان کے گھر پر تلفظ اور ادائیگی اور زبان کے نشیب و فراز کی ٹریننگ بھی دی۔ انھیں یہ موقع کیسے ملا اس بارے میں شانتی بھوشن بتاتے ہیں: ’ایک دن اچانک میرے پاس راجکمار ہیرانی کا فون آیا اور مجھ سے پوچھا کہ کیا آپ عامر کو بھوجپوری سکھائيں گے؟ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے میں ان دنوں کو نہیں بھولتا۔‘ عامر کو بھوجپوری سکھانے والے شانتی بھوشن عامر خان کے بارے میں ان سے جب پوچھا گیا تو انھوں نے کہا: ’عامر خان بہت ہی عام شخص ہیں اور مجھے لگا ہی نہیں کہ میں ایک سٹار کے ساتھ ہوں۔ کبھی کبھی تو وہ اتنی زیادہ محنت کرتے تھے کہ میں پریشان ہو جاتا تھا۔‘ عامر کے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ کردار بھوجپوری زبان بولے، جس سے یہ مزیدار بنے اور لوگ اسے آسانی سے سمجھ بھی سکیں۔ دلیپ کمار نے کئی فلموں میں دیہاتی کا کردار ادا کیا ہے لیکن انھوں نے گنگا جمنا میں بطور خاص اس زبان کا استعمال کیا ہے شانتی بھوشن بتاتے ہیں کہ اس تربیت کے دوران عامر خان کا کہنا تھا کہ کتنا اچھا ہوتا اگر فلموں میں کام کرنے سے پہلے کشمیر سے کنیاکماری تک ایک بار گھوم لیتے۔ وہ اپنی بات ختم کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’دیر آئے لیکن درست آئے، اور اب کی بار ایسے آئے کی سب ٹكر ٹكر دیکھتے رہ جائیں گے فلم پی کے میں۔‘
040610_partition_sacf_sen
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2004/06/040610_partition_sacf_sen
بٹوارے پر فلمیں کیوں نہیں بنیں؟
ایک اندازے کے مطابق پچھلے کچھ سال سے انڈیا کی تینتیس زبانوں میں اوسطاً نو سو سے ایک ہزار کے لگ بھگ فلمیں بن رہی ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو پارٹیشن یا بٹوارے کے نتیجے میں، برصغیر انڈیا سے ہندوستان، پاکستان اور بعد میں بنگلہ دیش بن جانے والے ملکوں میں اب تک سترہ ہزار سے زائد فلمیں بن چکی ہوں گی۔
لیکن ان فلموں وہ فلمیں کتنی ہیں جن میں اس خطے کے اس تاریخی عمل کو محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس نے پہلی بار لوگوں کو ایک ایسے تجربے، جذبات اور روّیے سے گزارا جس کا انہوں کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فلمی صنعت کے بارے میں سنجیدہ میگزیں اور اخبار نہ ہونے کے برابر ہیں۔ تاہم گنتی کے جرائد میں ’ساؤتھ ایشیا سنیما‘ ساس نے اگرچہ ابھی بہت زیادہ شمارے شائع نہیں کیے لیکن فلمی صنعت کے بارے میں سنجیدہ رویہ رکھنے والوں میں ایک اہم مقام حاصل کر لیا ہے۔ ساس کا نیا شمارہ بٹوارے کے حوالے سے بننے والی فلموں اور انہیں بنانے والوں کے بارے میں ہے۔ ایک سے تین بننے والے ان ملکوں کے لوگوں کے سر سے جب برٹش کولونیلزم یا برطانوی نوآبادیاتی نظام کے کالے سائے ہٹے تو انہیں اندازہ ہوا کہ جن علاقوں میں وہ ایک زمانے سے رہتے آئے ہیں ان میں سے کچھ علاقے ہندو اور کچھ مسلمان ہو چکے ہیں اس لیے جنہیں اپنے مسلمان ہونے پر زیادہ اصرار ہے وہ ہندو قرار پانے والے علاقوں سے ان علاقوں میں چلے جائیں جنہیں مسلمان قرار دیا جا چکا ہے اور ان علاقوں میں رہنے والے غیر مسلمان ان علاقوں میں آ جائیں جہاں ان کے ہم مذہب زیادہ ہوں۔ یہ بات کہنے میں جتنی آسان اور پین لس غیر تکلیف دہ تھی کرنے میں اتنی کروڈ، کھردری اور ہولناک ثابت ہوئی۔ بس طوفان سا آیا اور دس لاکھ کے قریب لوگوں کو ہلاک اور ڈیڑھ کروڑ لوگوں کو بے گھر کر گیا۔ اس میں کچھ بن گئے، کچھ بگڑ گئے اور کچھ یوں نابود ہوگئے جیسے تھے ہی نہیں۔ کتنی ہی بیٹیاں سارے امتیازوں کے ہوتے ہوئے بن چاہے مائیں بن گئیں۔ گورے حکمرانوں کا قانون ختم ہو چکا تھا اور ان کی جگہ لینے والے اپنی ذمہ داریوں کے پھیلاؤ اور نزاکتوں سے آگاہ نہیں تھے۔ یہ بھی گوروں ہی کی ایک سیاست تھی انہوں نے مقامی سیاستدانوں کو ایسے الجھا کر رکھا کہ ان کی توجہ آزادی اور اقتدار کی منتقلی کے بے طریقہ ہونے پر گئی ہی نہیں یا شاید ان میں یہ تحمل ہی نہیں تھا کہ لمبی سے لمبی ہوتی ناک کے آگے کچھ سوچ سکتے۔ ساس کا یہ خصوصی شمارہ یہ سوال بھی اٹھاتا ہے: بٹوارے پر زیادہ فلمیں کیوں نہیں بنیں؟ سوال بہت اہم ہے اور جواب شاید بہت کڑوا، جس طرح کے لوگ گوروں کے بعد حکومت میں آئے اور جس طرح انہوں نے گوروں کے قانون برتے اس سے تو سچ بولنے اور دکھائے جانے کی امید نہیں کی جانی چاہیے۔ بٹوارے پر پہلی فلم ’چنامول‘ 1951 میں بنگالی زبان میں بنی اور اس کے ڈائریکٹر نمئی گھوش کو اس زمانے میں بھی کئی جگہ اس فلم کی شوٹنگ کی اجازت نہیں دی گئی۔ کیونکہ نئے حکمراں نہیں چاہتے تھے کہ مشرقی پاکستان بن جانے والے مشرقی بنگال سے آنے والے مہاجرین کے کیمپوں کی حالت سارے ہندوستان کے لوگوں یا بنگالیوں ہی کے سامنے آئے۔ بنگالی فلم کا دیکھنے والا تو اب بھی سارا ہندوستان نہیں ہے تو اس وقت تو امکان اور بھی کم تھا، پھر اس وقت سنسر لگانے والے کس سے اور کیا چھپانا چاہتے تھے؟ اب 2004 ہے، اور شیام بنیگل ساس کو دیئے گئے انٹرویو میں اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے بٹوارے پر فلم اس لیے نہیں بنائی کہ اگر وہ ایسا کرتے تو اس کے تقاضوں سے انصاف نہیں کر پاتے۔ یہ اعتراف اس بات کا اظہار ہے کہ شیام بینیگل بٹوارے جیسے موضوع پر بننے والی فلم سے کیا توقع رکھتے ہیں اور ساس کے اس اس شمارے میں یہ ایک نہیں، ایسے کئی انٹرویو ہیں جن میں سوال اٹھاتے ہوئے للت موہن جوشی نے بہت کچھ منکشف کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں بٹوارے پر پہلی اردو/ ہندی فلم ( جسے ہندی/اردو لکھا گیا ہے) ’گرم ہوا‘ والے ایم ایس ستھیو، تمس والے بھیشم ساہنی، شمع زیدی اور گووند نہلانی کے انٹرویو ہیں۔ یہ شمارہ ہمیں رتوک گھتک کے بارے میں بتاتا ہے۔ ڈھاکے سے ہجرت کر کے کلکتہ آنے والا فلم ساز، جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اگر اس کی فلموں کو اس ناوقت موت سے پہلے توجہ حاصل ہو جاتی تو آج ہندوستان سنیما کی تاریخ لکھنے والے اسے کسی اور طرح لکھتے۔ اس تاریخی دستاویز نے ہندوستان میں بٹوارے پر بننے والی فلموں کے بارے میں حقائق جمع کرنے کا حق ادا کر دیا ہے لیکن اس کے باوجود ایک نامکمل معذرت بھی کی گئی ہے کہ اس شمارے میں پاکستانی فلم’ کرتار سنگھ‘، رمیش سپی کی سیریل ’بنیاد‘، پامیلا رووکس کی ’ٹرین ٹو پاکستان‘ جمیل دہلوی کی ’جناح‘ اور پنکج بٹالیا کی’ کارون‘ کا خاطر خواہ کوریج نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور پاکستانی فلم ’خاک و خون‘ کا ذکر اس میں آنے سے رہ گیا ہے لیکن ستاون سال کا جائزہ لیتے ہوئے ایسا ہو جانا کوئی بڑی خرابی نہیں کیونکہ جو کیا گیا ہے وہ بہت ہی اچھا ہے اور جو رہ گیا ہے اسے کوئی اور کرے گا۔ ایک بات ضرور ہے کہ پاکستان میں اگر بٹوارے پر فلمیں نہیں بنیں یا پاکستان ٹیلیویژن، پی ٹی وی نے بھی اس پر وہ توجہ نہیں دی جو انڈیا میں ’بنیاد‘ اور ’تمس‘ بنا کر دی گئی تو اس کی وجہ صرف پاکستانی انڈسٹری کی ٹیکنیکل شعبے میں پسماندگی کو قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے باوجود اس شمارے سے پڑھنے والے کو ممو، زبیدہ، ہے رام، ارتھ، غدر، چترا نادر پرے (چترا بہتی جائے، تنویر مکمل)، خاموش پانی، صبیحہ سومار اور پنجر تک کے بارے میں بہت کچھ ایسا معلوم ہو جاتا ہے جو اس سے پہلے ریکارڈ پر نہیں تھا اور اگر اس کے سوا کچھ رہ گیا ہے تو اسے ساس ہی کا آئندہ شمارہ پوا کر سکتا ہے۔ ساؤتھ ایشین سنیما، ساس، برطانیہ سے شائع ہوتا ہے اور اس کے ایڈیٹر للت موہن جوشی بی بی سی ورلڈ سروس کی ہندی سروس کے لیے بھی کام کرتے ہیں۔
pakistan-55139121
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55139121
آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی: ’سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے‘
پاکستانی فوج کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ اسد درانی کا کہنا ہے کہ سیاسی معاملات میں فوج کی مداخلت ایک حقیقت اور ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔
’لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں‘ بی بی سی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو کے دوران پاکستان کی فوج کی سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کا کہنا تھا کہ لوگ فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت پر خفا ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اس مداخلت سے لوگ ناراض ہیں۔ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ (ان کے بارے میں) یہ تاثر ہے کہ یہ خود نہیں آئے، یہ تو خاکی بوجھ لے کر آئے ہیں۔ کچھ لوگ تاریخ سے نہیں سیکھتے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنی تاریخ بنائیں گے۔‘ اسد درانی کے مطابق ’فوج کی مداخلت تو ہے۔ ہونی چاہیے یا نہیں یہ وہ بحث ہے جو آج تک کسی سمت نہیں بیٹھی ہے۔ تجربہ بھی یہی ہے کہ جب بھی فوج نے مداخلت کی تو دیکھنے میں آیا کہ جن سیاسی جماعتوں کو باہر رکھنے کی کوشش کی گئی وہ واپس آ گئیں۔‘ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’جیسے کہ ایوب خان نے ذوالفقار علی بھٹو کو باہر رکھنا تھا، وہ واپس آ گئے اور منتخب ہو گئے۔ ضیا الحق کے بعد بی بی (بینیظر بھٹو) تشریف لائیں، مشرف جیسے ہی نکلے ہیں تو جن دو جماعتوں کو ان کا خیال تھا باہر رکھنا چاہیے، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز، دونوں جماعتیں الیکشن لڑ کر منتخب ہو گئیں۔ تو یہ (مداخلت) اتنی نقصان دہ ہے، جب آپ (سیاسی) انجینیئرنگ کریں۔‘ یہ بھی پڑھیے دی سپائی کرونیکلز: اسد درانی کا نام ای سی ایل میں شامل آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اسد درانی کی جی ایچ کیو طلبی 'قوی امکان ہے کہ آئی ایس آئی اسامہ کے بارے میں جانتی تھی' اسد درانی کو سنہ 1988 میں بطور ڈائریکٹر جنرل ملٹری انٹیلیجنس تعینات کیا گیا تھا۔ جبکہ سنہ 1990 میں انھیں بطور ڈی جی آئی ایس آئی مقرر کیا گیا تھا۔ سنہ 1993 میں ریٹائر ہونے کے بعد انھوں نے بطور پاکستان کے سفیر جرمنی اور سعودی عرب میں بھی اپنے فرائض انجام دیے ہیں۔ اس وقت وہ اپنی حالیہ کتاب ’اونر امنگسٹ سپائیز‘ کے چھپنے کے بعد ایک بار پھر خبروں میں ہیں۔ یہ کتاب ان کی پہلی چھپنے والی کتاب ’سپائی کرونیکلز‘ کے سلسلے کی دوسری کتاب ہے۔ اسد درانی اکثر تنازعات کی زد میں رہتے ہیں، چاہے وہ ان کی چھپنے والی دو کتابوں میں موجود معلومات سے متعلق ہو یا پھر اسامہ بن لادن سے منسلک ان کے بیانات جنھیں وہ اپنا ’تجزیہ‘ کہتے ہیں۔ ’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے‘ جہاں رہی بات موجودہ حکومت کے خلاف متحدہ اپوزیشن (پی ڈی ایم) کے جاری جلسوں کی تو حزب مخالف کی جماعتوں کے رہنما فوج پر سیاسی معاملات میں مداخلت کی بات کر رہے ہیں۔ سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف نے پی ڈی ایم کے ایک جلسے کے دوران براہِ راست پاکستانی فوج کے سربراہ پر ان کی حکومت کو گرانے اور سنہ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو کامیاب کروانے کا الزام عائد کیا تھا۔ انھوں نے یہ الزام بھی عائد کیا تھا کہ فوج کے کہنے پر عدلیہ ان کے خلاف مقدمات چلا رہی ہے۔ اس حوالے سے بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’جب یہ (فوج) نہیں ہوتے تب بھی لگتا ہے کہ ان کا کوئی کردار ہے۔ آئی ایس آئی ایک ایسا ادارہ ہے جو بنیادی طور پر غیر ملکی انٹیلیجنس (کو کاؤنٹر کرنے) کے لیے ہے۔ کیونکہ اس میں زیادہ تر فوج کے لوگ شامل ہیں اور حاضر سروس افسران ہیں، خاص طور سے ان کا سربراہ۔ تو اگر اس قسم کی (سیاسی انجینیئرنگ) کا کام ان کو مل جائے، زیادہ یا کم، تو ضرور کر سکتے ہیں۔‘ پی ڈی ایم کی تحریک سے متعلق انھوں نے کہا کہ ’مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے۔ عام تاثر یہی ہے کہ آئی ایس آئی کے بغیر (دھرنا) نہیں ہو سکتا۔ جیسے اس سے پہلے کہا جاتا تھا کہ امریکہ کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘ پاکستان کی حالیہ صورتحال پر ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان کو اندرونی مسائل کا سامنا ہے اور مسائل ہمیشہ رہتے ہیں۔ ایک بات تو پکی ہے کہ سب سے زیادہ خطرناک مسئلہ ہوتا بھی اندر ہی ہے۔‘ اسد درانی نے مزید کہا کہ ’اس وقت سیاسی طور پر کچھ لوگ ناراض ہیں۔ کچھ علاقے، جیسا کہ بلوچستان، میں بدامنی ہے۔ سیاسی طور پر اجنبیت کا سامنا ہے۔‘ ’معیشت واقعی خراب ہے۔ یہ نہیں کہ معیشت ٹھیک ہو جائے تو سب کچھ ٹھیک ہو جاتا ہے۔ لیکن جب حکومت پر اعتبار نہ ہو اور کہا جائے کہ یہ تو فوج لے کر آئی ہے اور یہ کیسا لیڈر ہے جو ہر چیز پر کہتا ہے کہ جی میں یوٹرن لوں گا تو لیڈر بن جاؤں گا ورنہ نہیں بنوں گا۔ ہر چیز پر واپس ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی حکومت پر اعتبار تو نہیں رہتا۔ اب یہ ہوا ہے کہ یہ تمام تر مسائل ایک ساتھ اکٹھا ہو گئے ہیں۔‘ ’'مولانا فضل الرحمان کا تجربہ اس فیلڈ میں ہم سب سے زیادہ ہے۔ وہ دھرنا کرنے کے لیے ان (یعنی آئی ایس آئی) کی بات کیوں سنیں گے‘ ’انڈیا اب بڑا خطرہ نہیں‘ سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ملک کی اندرونی سلامتی کو لاحق خطرات اس وقت ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں جن سے نمٹنا اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ انٹرویو کے دوران جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان کو لاحق اندرونی و بیرونی خطرات میں سے ان کے خیال میں اس وقت زیادہ بڑا خطرہ کون سا ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا اب اتنا بڑا خطرہ نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کو انڈیا کی طرف سے کشمیر کے الحاق کی کوشش کے بعد انڈیا کے لیے خود اتنے بڑے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے خطرہ نہیں رہا۔ ’کشمیر پر جو کچھ انڈیا نے کیا اس کے بعد مشرقی سرحد پر ہمارے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ کبھی اگر وہ بالا کوٹ جیسا کچھ کرنا چاہیں تو اس کے لیے تیاری کر رکھیں ورنہ وہ اپنی چیزوں میں اتنے زیادہ پھنسے ہوئے ہیں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے۔‘ اسد درانی کے مطابق ’اگر آپ پاکستان کے باہر سے لاحق خطرات کی بات کرتے ہیں تو کچھ دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔‘ جنرل درانی کے بقول ان میں ایران، ترکی اور سعودی عرب بڑے اور نئے چیلنجز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ویسے بھی انڈیا ہمیشہ اور ہر وقت ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ نہیں رہا۔‘ ملک کو لاحق اندرونی چیلنجز کی تفصیل بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’ملک کو تین طرح کے چینلجز کا سامنا ہے جن میں معیشت، سیاسی عدم استحکام اور سماجی ہم آہنگی بڑے مسائل ہیں، کیونکہ یہ سب اکٹھے ہو گئے ہیں۔‘ ’کچھ لوگ سیاسی طور پر ناراض ہیں۔ کچھ علاقے ہیں جیسا کہ بلوچستان، وہاں لوگوں میں بےچینی پیدا ہے، کچھ لوگ جن کا میں ذکر پہلے بھی کر چکا ہوں، سیاسی طور پر اپنے آپ کو اجنبی اور الگ تھلگ محسوس کر رہے ہیں۔ معیشت واقعی خراب ہے۔۔۔ حکومت کی کریڈیبیلٹی خراب ہے کیونکہ لوگ کہتے ہیں کہ انھیں فوج لے کر آئی ہے۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’انڈیا کو تو ہم نے سنبھال لیا ہے۔۔۔ انڈیا کے متنازع شہریت کے قانون کے بعد تو مسلمانوں کے علاوہ باقی اچھے لوگ بھی بدظن ہو گئے ہیں۔ تو ان حالات میں آپ مجھ سے پوچھیں کہ میں کیا کروں گا؟ تو میں کہوں گا اب آرام سے بیٹھ جائیں۔ کیونکہ تاحال مشرقی سرحد سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اگر دوبارہ بالاکوٹ جیسا واقعہ کریں گے تو اس کی تیاری کر لیں۔ وہ اس وقت خود اتنا پھنسے ہوئے ہیں اپنی چیزوں میں کہ انھیں پاکستان کی اتنی فکر نہیں ہے۔ پاکستان کو اپنی فکر ہے۔ لیکن اگر ہم نے باہر ہی دیکھنا ہے، تو ہمارے پاس ایک دو چیلنجز اور ہیں۔ ایک نیا چیلنج ہے ایران، سعودی عرب، ترکی اس طرح کے مسائل ہیں۔‘ ’انڈیا کی طرف سے کشمیر کے الحاق کی کوشش کے بعد انڈیا کے لیے خود اتنے بڑے مسائل کھڑے ہو گئے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے خطرہ نہیں رہا‘ ’تاثر ہے کہ امریکہ کی سنتے ہیں‘ ایران سے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’ایران میں انقلاب کے بعد ہمارے ایران سے بننے والے تعلقات امریکہ کی مرضی کے برخلاف تھے۔ کیونکہ انھوں (امریکہ) نے کہا کہ 400 سے زیادہ دن (ایران نے) ہمارے سفارتخانے کو یرغمال بنایا۔ ہم (پاکستان) نے کہا (ایران) ہمارا پڑوسی ہے۔ ہم نے تو رابطہ رکھنا ہے۔‘ ’1950 کی دہائی میں جب ہمارے چین کے ساتھ تعلقات بنے تو امریکہ کافی ناراض تھا۔ ایک دن ہمارے پاس آیا اور کہا کہ ہماری بھی بات کروا دیں۔‘ پاکستانی طالبان کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’سب لوگوں کی مرضی کے بغیر اگر طالبان کی حمایت کی ہے تو (اس بارے میں) ہم نے امریکہ کی بات تو نہیں سنی۔ لیکن تاثر یہ ہے کہ پتا نہیں ہم کتنا امریکہ کی سنتے ہیں۔‘ ’اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار کچھ لوگوں کی کمزوری ہوتی ہے امریکہ کی بات سننا۔ کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کریں تو ان کے کام نہیں ہو پاتے۔ اس لیے وہ ان کی جیسی بھی بات ہو وہ مان لیتے ہیں۔‘ ’گلگت بلتستان کی حیثیت بدلنے سے مسئلہ کشمیر کو دھچکا لگے گا‘ حال ہی میں گلگت بلتستان کو عارضی طور پر صوبہ بنانے کی بات کی جا رہی ہے۔ اس بارے میں جہاں ملک میں آرا منقسم ہے وہیں اسد درانی نے اسی سے منسلک ایک قصہ سنایا۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’جب میں کشمیر کے معاملات دیکھ رہا تھا تب مجھے ایک قریبی دوست یوسف سمجھایا کرتا تھا کہ جس دن گلگت بلتستان کی حیثیت تبدیل کرنے کی گڑبڑ کی اس دن ہمارے کشمیر کاز کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔' 'کچھ چیزوں کی حیثیت مت تبدیل کریں کیونکہ جب بھی آپ کسی چیز کی حیثیت سیاسی وجہ سے اس لیے تبدیل کریں گے کہ ہم نے نمبر بنانے ہیں، اس کا نقصان ہو گا۔ بہاولپور اور سوات بڑی اچھی ریاستیں تھیں انھیں مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا اور یہ مرکز بدعنوانی میں شامل ہیں تو نقصان ہوا۔‘ ’بلوچستان کا نظام تین انداز میں بہتر ہینڈل ہو سکتا تھا، سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر۔ لیکن ہم نے پکڑ کر ایک صوبہ بنا دیا اور آج تک نہیں سنبھالا جا رہا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’سابق فاٹا کے بارے میں بھی میں کہتا تھا کہ یہ مت کرو، اس کو صوبے میں ضم مت کرو۔ اس کی اپنی خصوصی حیثیت ہے، بعض حالات میں وہ ہم سے بہتر چل رہا ہے جو کہ پانچ سو سال کا پُرانا نظام ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کا نظام بھی اس طرز کا نہیں کہ لوگ اس نظام کا حصہ بننا چاہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر گلگت بلتستان کو زیادہ حقوق دینے ہیں تو بے شک دیں لیکن ان کو زبردستی پاکستان کا صوبہ نہ بنائیں۔‘ اسد درانی کے مطابق حالیہ دنوں میں لیے گئے چند اقدامات موجودہ حکومت کی صلاحیت میں کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ ’جب یہ اور کچھ نہیں کر سکتے تو حیثیت بدل دیتے ہیں یا پھر کسی جگہ کشمیر کے بجائے سری نگر لکھ دیتے ہیں یا نقشہ تبدیل کر دیتے ہیں۔ یہ مختلف ہتھکنڈے ہیں جو وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جو خود میں صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے اس کا متبادل تلاش کرتے ہیں۔ تو اس کا کوئی فائدہ تو نظر نہیں آ رہا۔‘ انھوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’ون یونٹ بے ایمانی کی وجہ سے بنایا گیا۔ کیونکہ ہم نے بنگالیوں کی اکثریت کو منھ توڑ (جواب) دینا تھا۔ بلوچستان کو اکٹھا کر دیا گیا کیونکہ اس کے پیچھے سوچ تھی کہ ان کی الگ سے دیکھ بھال کون کرے گا۔ حالانکہ پہلے یہ ایک نظام کے تحت موجود تھے۔ اگر تو آپ کا نظام اچھا ہو اور لوگ دیکھ کر کہیں کہ ہم آپ کے ساتھ آنا چاہتے ہیں پھر تو ٹھیک ہے۔ لیکن لوگوں کے ساتھ زبردستی نہ کریں۔‘ ’ہم نے ہمیشہ مجاہدین کے ساتھ بھی تعلق رکھا، ان کی مدد بھی کی کیونکہ وہ غیر ملکی فورسز کو نکال رہے تھے‘ ’پاکستان طالبان کو میز پر بٹھانے سے زیادہ کچھ نہیں کرسکتا‘ افغانستان میں جاری امن عمل پر بات کرتے ہوئے اسد درانی نے کہا کہ ’پاکستان یہ کر سکتا ہے کہ مجاہدین اور طالبان پر اپنے اثر کا استعمال کرتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ باقیوں سے بات کر کے آپ جو فیصلہ کریں گے ہمیں منظور ہے۔ اس سے زیادہ پاکستان کچھ کر بھی نہیں سکتا۔‘ ’ہم نے ہمیشہ مجاہدین کے ساتھ بھی تعلق رکھا، ان کی مدد بھی کی کیونکہ وہ غیر ملکی فورسز کو نکال رہے تھے۔ طالبان کے ساتھ بھی یہی کیا۔ سب پریشر کے باوجود ہم نے ان کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ بھی قائم رکھا اور اپنا تعلق بھی قائم رکھا۔‘ ’سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمہ چلانا بہت آسان ہے‘ چند ماہ قبل شائع ہونے والی اپنی کتاب ’اونر امنگسٹ سپائیز‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’جب تک کسی کتاب میں تنازع نہ ہو تو فائدہ کیا ہے؟‘ ’وہ تو پھر ایک سرکاری قسم کی تحریر ہو گی جو آپ آئی ایس پی آر سے لے لیں یا سرکار سے لے لیں۔ تنازع تو آپ کو پیدا کرنا ہے تاکہ بحث ہو سکے۔‘ اس سے پہلے بھی اسد درانی پر اپنی کتاب ’دی سپائی کرانیکلز‘ میں ’حساس نوعیت کی معلومات‘ لکھنے پر پاکستان کی فوج نے ان سے جواب طلب کیا تھا۔ مزید پڑھیے اسد درانی کے خلاف فوج کی کارروائی میں طریقۂ کار کیا ہوگا؟ اسد درانی کے خلاف ’فارمل کورٹ آف انکوائری‘ کا حکم را کے سابق سربراہ آئی ایس آئی کے مداح کیوں؟ اس کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’جہاں تک ریاست کے راز افشا کرنے کی بات ہے، تو شور بہت مچا لیکن کسی نے آج تک بتایا نہیں کہ اس کتاب میں ریاست سے منسلک کون سے راز تھے۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت لوگوں پر مقدمہ چلانا سب سے آسان کام ہے۔ جتنی باتیں راز تھیں وہ بھی آہستہ آہستہ کسی نے اِدھر سے بتا دیں، کسی نے اُدھر سے، تو رازداری کی کوئی بات نہیں ہے۔ گذشتہ سات آٹھ برسوں میں مجھے اسامہ بن لادن والی بات پر کافی لوگوں نے تنگ کیا ہوا ہے۔ حالانکہ میں نے صرف اپنا تجزیہ دیا تھا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’مجھے ایسا لگتا ہے کہ اپنا تجزیہ دے کر میں نے کسی کمزوری کو ظاہر کر دیا ہے یا دُم پر پاؤں رکھ دیا ہے۔ میں نے ایک تجزیہ دیا جس کی بنیاد اس بات پر تھی کہ اگر میں اس وقت ہوتا تو کیا کرتا؟‘ انھوں نے کہا کہ ’ضروری نہیں کہ کوئی اندر کی معلومات ہوں تب ہی بات کریں گے۔ بلکہ اندر کی معلومات تو اکثر غلط ہوتی ہے۔ لیکن جو صورتحال کے متعلق آپ کا اندازہ ہوتا ہے وہ بہتر نکل آتی ہے۔‘ کتاب سے منسلک تنازعات کے بارے میں انھوں نے مرزا غالب کا شعر دہرایا کہ ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں۔۔۔ کچھ دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا۔‘ ’یہ کہنا کہ مجھے کوئی نقصان ہوا ہے، نہیں، مجھے فائدہ ہوا ہے‘ انھوں نے کہا کہ ’فوج کے اندر کئی لوگوں نے اپنی کتابیں لکھیں اور کسی نے ان سے نہیں پوچھا کہ انھوں نے کیا لکھا ہے۔‘ ’مشرف کی کتاب کسی نے نہیں دیکھی تھی۔ شاہد عزیز کی بڑی تنقیدی کتاب ہے۔ اس پر لوگوں نے کہا کہ اس کا حق ہے، یہ لکھ سکتا ہے۔ لیکن آج تک کسی نے روکا نہیں ہے۔ مجھے ریٹائرمنٹ کے وقت اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے کہا تھا کہ تمھیں خود دیکھنا ہے کہ اپنی بات کہاں تک لکھنی ہے اور کہاں تک نہیں۔ اپنا سینسر خود ہی کرو اور اصول بھی یہی ہے۔‘ اونر امنگسٹ سپائیز کے بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’یہ میرا تجویز کردہ ٹائٹل نہیں تھا۔ میرا ٹائٹل تو کچھ اور ہونا تھا: ’اے ٹیل آف ٹُو بُکس‘ جو میں نے تجویز کیا۔ ’کیونکہ یہ پہلی دو کتابوں پر مبنی ہے۔ لیکن پھر بات ہوئی کہ پہلے والا اچھا ٹائٹل ہے۔ اس کتاب میں یہی لکھا ہے کہ کون سی چیز پر تکلیف تھی اور کس پر نہیں۔ کس بات کو بہانہ بنا کر کچھ کر سکتے ہیں اور کس پر نہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس افسانوی کہانی کا مرکزی کردار اسامہ بن لادن ہے۔ جس کے لیے میں نے فکشنل کردار بنایا ہے، عظمیٰ بنتِ لادن۔ خاتون جنگجو، دہشت گرد، آزادی پسند۔‘ ’ہمیشہ سے ہمارے جہادیوں میں (خواتین کا کردار رہا ہے) اور ہندوستان میں بھی رضیہ سلطانہ، چاند بی بی کا ذکر کرتے ہیں۔ خواتین جہادیوں کو تو لیلیٰ خالد نے بہت متاثر کیا تھا۔ لیلٰیٰ خالد فلسطینی تھی اور اس کہانی میں اس کا ذکر بھی ہے۔‘
081213_india_negroponte
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2008/12/081213_india_negroponte
براؤن اچانک انڈیا کے دورے پر
ممبئی حملوں کے بعد سے اہم عالمی شخصیات کا انڈیا اور پاکستان کے دوروں کا سلسلہ جاری ہے اور جمعہ کو امریکہ کے نائب وزیر خارجہ برائے جنوبی ایشیا جان نیگروپونٹے کے بعد اب برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن انڈیا جا رہے ہیں۔
دلی سے بی بی سی کے نامہ نگار شکیل اختر نے بتایا کہ گورڈن براؤن کی اتوار کی صبح انڈیا کے وزیر اعظم منموہن سنگھ سے ملاقات متوقع ہے۔ ان کے پروگرام میں پاکستان کا دورہ بھی شامل ہے۔ نامہ نگار نے بتایا کہ گورڈن براؤن کا دورہ پہلے سے طے شدہ نہیں تھا اور ان کے اچانک اس خطے میں آنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کے ساتھ ساتھ یورپی ممالک کو بھی جنوبی ایشیا کے حالات پر تشویش ہے۔ جان نیگروپونٹے جمعہ کو پاکستان سے بھارت گئے اور وزیر خارجہ پرنب مکھرجی اور سیکرٹری خارجہ شیو شنکر مینن سمیت کئی اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ اطلاعات کے مطابق بات چیت کا اہم موضوع ممبئی حملوں کے بارے میں ہونے والی تفتیش میں پیشرفت تھا۔ نیگروپونٹے نے اس بات پر زور دیا کہ ممبئی حملوں کی تفتیش کے دوران انڈیا، پاکستان اور سب ہی کو مثبت کردار ادا کرنا ہے۔
041026_mush_kashformula_am
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/10/041026_mush_kashformula_am
جماعت اسلامی مزاحمت کرے گی
پاکستان میں مذہبی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کے صدر اور جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے کہا ہے کہ ’بھارت اور امریکہ اور دنیا کی دیگر اقوام پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے کشمیر حل پر توجہ نہ دیں کیونکہ ان کی اپنی حیثیت متنازعہ ہے اور ان کے کسی فیصلےکو پاکستانی قوم کا فیصلہ نہیں کہا جا سکتا۔‘
قاضی حسین احمد کے بقول ’پاکستانی قوم اور کشیریوں کا موقف ہے کہ ریاست جموں و کشمیر ایک ناقابل تقسیم اکائی ہے اور اس کے مستقبل کے فیصلے کا حق صرف کشمیریوں کو حاصل ہے اور وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کا فیصلہ کریں گے۔‘ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کوئی فیصلہ نہ تو کشمیریوں اور نہ ہی پاکستانی قوم کو منظور ہوگا۔ قاضی حسین احمد کا کہنا تھا کہ ’صدر جنرل پرویز مشرف کو ایسا کوئی حل پیش کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ یہ ان کا ذاتی فیصلہ ہے، وہ خود فیصلے کرتے ہیں اور خود ہی مذاکرات شروع کر دیتے ہیں جن کی کوئی وقعت نہیں ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ ’وہ دنیا پر واضح کرنا چاہتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف ایک متنازعہ شخصیت ہیں اور اپوزیشن ان کے خلاف تحریک کا آغاز کرنے والی ہے۔ اس لیے ان کی کسی بات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ جماعت اسلامی کے سیکریٹری جنرل سید منور حسن نے کہا کہ ’جنرل پرویز مشرف بھارت اور امریکہ کے ایجنڈے پر عمل کر رہے ہیں اور انہیں کشمیر کے ایسے حل پیش کرنے سے باز آ جانا چاہیے۔‘ انہوں نے کہا کہ صدر پرویز مشرف نے ایسے کسی فیصلے پر عمل درآمد کرنے کی کوشش کی تو اس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی اور جماعت اسلامی ان کے خلاف تحریک چلائے گی۔ جماعت اسلامی پاکستان کی ایک ایسی جماعت ہے جس کا کہنا ہے کہ اس کے بے شمار کارکن کشمیر میں عسکری جدوجہد کے دوران ہلاک ہوئے ہیں۔ ادھر جمعیت علماء اسلام(ف) سے تعلق رکھنے والے ایم ایم اے کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل حافظ حسین احمد نے صدر پرویز مشرف کی تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور ان کی اس تجویز کا مطلب ہے کہ شہ رگ کے سات ٹکڑے کر دیئے جائیں۔
050707_london_blast_aldgateeast
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2005/07/050707_london_blast_aldgateeast
آلڈ گیٹ ایسٹ
تفصیلات کے لئے متعلقہ مقام پر کلک کریں
وسطی اور مشرقی لندن میں کاروباری مراکز کے قریب واقع اس سٹیشن اور لیور پول سٹیشن کے درمیان ایک ٹرین پر پہلا دھماکہ صبح آٹھ بج کر اکیاون منٹ پر ہوا۔اس سٹیشن پر پولیس کے مطابق مرنے والوں کی تعداد سات بتائی جارہی ہے جبکہ ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ کم سے کم نوے افراد زخمی ہیں۔
070612_imran_interview
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/06/070612_imran_interview
’لڑائی مہاجروں سے نہیں الطاف سے ہے‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے کہا ہے کہ ایک کیو ایم کے رہنما الطاف حسین کے خلاف مقدمے کے لئے بدھ کے روز ان کی اپنے وکیل عمران خان کے ساتھ حتمی میٹنگ ہے جس کے بعد وہ ایک پریس کانفرنس میں اپنی آئندہ کی حکمت عملی کا اعلان کریں گے۔’یہ فوج لڑنے کے قابل نہیں رہی‘ بی بی سی اردو ڈاٹ کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے سوموار کو برطانوی پولیس کے ادارے سکاٹ لینڈ کے حکام کے ساتھ ایک ملاقات میں انہوں نے اس سلسلے میں دستاویز فراہم کی ہیں۔انصاف چاہتا ہوں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرے لڑکے مارے جائیں اور میں چپ ہوکر بیٹھا رہوں۔ میں اس پارٹی کا رہنما ہوں اور میں انصاف چاہتا ہوں۔ عمران خان
عمران کا کہنا تھا کہ وہ برطانوی میڈیا کے توسط سے یہاں کہ عوام میں بھی الطاف حسین کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ’ایک طرف تو یہاں کے عوام دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اور دوسری طرف ہمارا ایک دہشت گرد یہاں بیٹھا ہوا ہے۔‘ عمران نے یہ واضح کیا کہ وہ نسلی بنیادوں پر سیاست پر یقین نہیں رکھتے اور ان کی لڑائی پاکستان کے مہاجروں سے نہیں بلکہ الطاف حسین سے ہے۔’مہاجر پاکستان کے سب سے پڑھے لکھے لوگ ہیں اور شروع سے ہمارے کئی رہنما بھی مہاجر تھے جیسے لیاقت علی خان وغیرہ لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ ایم کیو ایم کو پاکستان کے قومی دھارے میں شامل ہونا چاہئیے اور صرف سندھ کے چند شہروں تک محدود نہیں رہنا چاہئیے۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر کراچی میں بارہ مئی کے تشدد کے واقعات میں ان کی جماعت کے کارکن ہلاک نہ ہوتے تو وہ کبھی بھی یہ جھگڑا شروع نہ کرتے۔ ’یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میرے لڑکے مارے جائیں اور میں چپ ہوکر بیٹھا رہوں۔ میں اس پارٹی کا رہنما ہوں اور میں انصاف چاہتا ہوں۔‘ پاکستان میں میڈیا پر حالیہ قانون سازی کے حوالے سے عمران خان نے میڈیا کے کردار کو سرہاتے ہوئے کہا کہ ’جب پاکستان کی جمہوری تاریخ لکھی جائے گی اس میں میڈیا کا نام سنہرے لفظوں سے لکھا جائے گا کیونکہ اس میڈیا نے حالیہ دنوں مہینوں میں عوام میں بہت زیادہ آگاہی پھیلائی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ بے نظیر اور نواز شریف کو پاکستان واپس آنا چاہئیے اور پارلیمانی جمہوریت میں حصہ لینا چاہئیے۔ ’میں ابھی میاں صاحب سے ملاقات کرنے جارہا ہوں اور انہیں تاکید کروں گا کہ وہ ضرور پاکستان واپس آئیں۔‘ فوج کے سیاسی کردار کے بارے میں عمران کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ پنجاب تک میں عوام میں فوج کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے اور ’یہ کیسی فوج ہے جو سارے ذرائع پر قبضہ کر کے بیٹھی ہوئی ہے۔ یہ فوج اب لڑنے کے قابل نہیں رہی۔‘ عمران خان کا کہنا تھا کہ انہوں سے جو جدو جہد شروع کی ہے وہ اب جاری رہے گی اور باقی جماعتوں کے رہنماؤں سے مل کر جمہوریت کے لئے اور پھر الیکشن کے لئے کام جاری رکھیں گے۔
060424_nbmeeting_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/04/060424_nbmeeting_sen
’مشرف کی پِچ پر نہیں کھیلیں گے‘
لندن میں پاکستان سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان ملاقات ختم ہو چکی ہے اور اس ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے بتایا کہ وہ چودہ مئی کو ایک اور ملاقات کریں گے۔چارٹر آف ڈیموکریسی پر گفتگودونوں نے اس ملاقات کو تاریحی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پاکستان میں جمہوریت واپس لانے پر اصولی اتفاق کر لیا ہے۔
پاکستان کے سابق وزرائے اعظم کے درمیان یہ ملاقات دوگھنٹے تک جاری رہی۔ پاکستان کے جلاوطن وزرائے اعظم کے درمیان یہ ملاقات لندن کے علاقے پارک لین میں واقع میاں نواز شریف کی رہائش گاہ پر ہوئی اور اس میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بےنظیر بھٹو کے علاوہ پی پی پی کے رہنما مخدوم امین فہیم، واجد شمس الحسن اور ڈاکٹر رحمٰن ملک بھی شامل ہوئے۔ جب کہ مسلم لیگ کی طرف سے میاں محمد نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے علاوہ اقبال ظفر جھگڑا اور سید غوث علی شاہ اس ملاقات میں شریکت کی۔ پاکستانی فوجی حکومت کے ہاتھوں جلاوطن ہونے والے ان دونوں رہنماؤں کے درمیان اس سے قبل دبئی اور سعودی عرب میں بھی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ اس ملاقات سے قبل میاں نواز شریف کے بھائی میاں شہباز شریف نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملاقات کے دوران ملاقات کے دوارن ’چارٹر آف ڈیموکریسی‘ کو آخری شکل دینے پر خیال کیا جائے گا اور یہ بات طے کی جائے گی کہ کہ اے آر ڈی میں شریک سیاسی جماعتیں آئندہ سیاسی عمل میں فوج کو مداخلت کی دعوت دینے سے احتراز کرنے کا وعدہ کریں گی۔
world-54777559
https://www.bbc.com/urdu/world-54777559
اسرائیل، عرب ممالک امن معاہدے: کیا امن معاہدے مشرقِ وسطیٰ میں ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ تیز کر دیں گے؟
وائٹ ہاؤس کے سورج کی کرنوں سے منور لان میں بقول صدر ٹرمپ ’مشرق وسطیٰ کی ایک نئی صبح‘ کا آغاز ہونے جا رہا تھا اور ٹرمپ کے مطابق اس نئی صبح کا آغاز ’خون کو کوئی قطرہ گرائے بغیر‘ ہوا۔
پہلا عرب ملک جس نے اسرائیل سے تعلقات میں نرمی پیدا کی وہ متحدہ عرب امارات ہے جو اب امریکہ کے ساتھ جنگی لڑاکا طیاروں کے معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے تین عرب ممالک نے کئی دہائیوں سے اپنے حریف ملک اسرائیل کے ساتھ سفارتی اور تجارتی معاہدے کیے جو کہ ان کی خارجہ پالیسی میں ایک تاریخی تبدیلی کا مظہر تھے۔ تاہم جیسا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم امن کا ایک نیا نقشہ پیش کر رہے تھے اس میں خاصی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں۔ امن کے بجائے اب ایک ایسا نیا دائرہ جنم لے رہا ہے جس میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شامل ہے۔ پہلا عرب ملک جس نے اسرائیل سے تعلقات میں نرمی پیدا کی وہ متحدہ عرب امارات تھا، جو اب امریکہ کے ساتھ جنگی لڑاکا طیاروں کے معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکا ہے۔ اسرائیل جو پہلے ہی فوجی طاقت کے اعتبار سے بہت آگے ہے اب اپنی طاقت میں مزید اضافے کی کوشش کر سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے اسرائیل عرب ممالک کے قریب کیوں آنا چاہتا ہے؟ متحدہ عرب امارات ایک علاقائی طاقت کے طور پر کیسے ابھرا؟ کیا سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ تاریخی امن معاہدہ کرنے جا رہا ہے؟ امریکی انتظامیہ ایران کو عالمی سطح پر ایک خطرہ قرار دیتی ہے اور اسے تنہا کرنے کی کوششوں میں وہ مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی فروخت کو ایران کے خلاف اپنے اتحادیوں کی طاقت میں توازن پیدا کرنے کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ یہ صورتحال مشرق وسطیٰ میں ایک نئی بے چینی کا سبب بن سکتی ہے جہاں بڑی طاقتیں اپنی پراکسی جنگیں لڑ رہی ہیں، وہاں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ مزید خونریزی جیسے خدشات کو بڑھا رہی ہیں۔ مگر امن کے لیے ہتھیاروں کے حصول کے دعوے کی قلعی کیسے کھلی؟ ایف 35 طیاروں کی متحدہ عرب امارات کو ممکنہ فروخت کے بارے میں واشنگٹن کے لب و لہجے میں بھی تبدیلی آئی ہے عزت کا معاملہ امریکی دفاعی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کا بنایا ہوا ایف 35 لائٹننگ II دنیا کا جدید ترین کثیر الجہتی جنگی طیارہ ہے۔ برطانیہ میں قائم تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے جیسن برونک کے خیال میں یہ ’غیر معمولی‘ نوعیت کا ہے۔ متحدہ عرب امارات گذشتہ چھ سال سے ان کوششوں میں مصروف ہے کہ وہ واشنگٹن سے یہ طیارہ خرید کر پہلا عرب ملک بن جائے جس کے پاس اس قدر جدید لڑاکا طیارہ ہے۔ اس طیارے، ایف 35، کی کمپیوٹنگ طاقت، سائبر پے لوڈ ڈیلیور کرنا، دشمن کے ایئرڈیفنس کو جام کرنے اور روایتی میزائلوں کو لے جانے کی صلاحیت کا حوالہ دیتے ہوئے جیسن برونک کا کہنا ہے کہ گذشتہ 20 سال سے امریکی ایئر فورس نے اس طیارے میں ایسی کئی تبدیلیاں متعارف کرائیں ہیں جن کے بارے میں ہم آج بھی نہیں سوچ سکتے کہ لڑاکا طیارہ یہ سب کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کے مطابق اس طیارے کا مقصد متحدہ عرب امارات کے لیے عزت اور وقار کا مسئلہ بن گیا ہے۔ جمعرات کو امریکی میڈیا پر نشر کی جانے والی رپورٹس کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے کانگرس کو باقاعدہ متحدہ عرب امارات کو 50 ایف 35 طیارے فروخت کرنے سے متعلق اپنے پلان سے آگاہ کر دیا ہے۔ ان طیاروں کی کل مالیت 10.4 ارب ڈالر تک بنتی ہے۔ متحدہ عرب امارات کے لیے یہ کئی برس کے بعد ایک اچھی خبر ہے کہ اس معاملے میں اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ ایم کیو 19 ڈرون درمیانی بلندی پر اڑنے والے ڈرون ہے رکاوٹوں کا انسداد صدر ٹرمپ نے اگست میں جو ڈیل کرائی ہے اس کے تحت متحدہ عرب امارات عرب دنیا میں تیسرا اور گلف میں پہلا ملک ہے جس نے اسرائیل سے تعلقات معمول پر لانے کے لیے معاہدہ کیا۔ اسرائیلیوں کے لیے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ وہ خطے میں اپنے آپ کو قابل قبول بنائیں اور ایک نیا تجارتی رابطہ قائم کریں۔ متحدہ عرب امارات کے لیے اس کا مطلب ہے اپنی معیشت میں بہتری اور خطے میں سکیورٹی اور سائبر سپر پاور تک رسائی حاصل کرنا۔ فلسطینیوں نے اس اقدام کی سختی کے ساتھ مخالفت کی ہے، کیونکہ وہ اسے عرب یکجہتی کے ساتھ غداری اور ان کی ایک ریاست بننے کی امیدوں پر پانی پھیرنے جیسا سمجھتے ہیں۔ اور اب دیگر مسائل نے بھی سر اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور انور گرگاش نے کہا کہ اس امن معاہدے سے وہ تمام روکاوٹیں دور ہو جائیں گی جو ایف 35 طیاروں کی فروخت میں حائل ہے لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ یہ طیارے خریدنے کی درخواست کا تعلق اس معاہدے سے نہیں ہے۔ متحدہ عرب امارات کے حکام اس بات کی نشاہدہی کرتے ہیں کہ اسرائیل سے ہونے والے معاہدے کا کوئی عسکری اور فوجی پہلو نہیں ہے۔ ایف 35 طیاروں کی متحدہ عرب امارات کو ممکنہ فروخت کے حوالے سے واشنگٹن کے لب و لہجے میں بھی تبدیلی آئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات سے موصول ہونے والی درخواست کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس پر غور کیا جا رہا ہے جب کہ صدر ٹرمپ کے داماد اور مشیر جارڈ کشنر نے کہا ہے کہ اس معاہدے نے کامیابی کے امکانات بڑھا دیے ہیں۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات کچھ برس سے امریکی ساخت کے ایم کیو -9 ریپر ڈرون خریدنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اسلحے کی فروخت پر پابندی کے معاہدے کی وجہ سے اس کی مخالفت ہوتی رہی ہے۔ برونک جن کا کہنا ہے کہ وائٹ ہاؤس چینی ساخت کے ڈرون کی فروخت کو روکنا چاہتا ہے۔ ’مسلح ڈرون کا جن بوتل سے باہر آ گیا ہے‘ لہذا اس نوعیت کے اسلحے کے سودے مشرق وسطی میں طاقت کے توازن پر کسی طرح اثر انداز ہو سکتے ہیں؟ اسرائیل کی قیادت بے چینی کا شکار ہے اسرائیل میں بہت سے لوگ متحدہ عرب امارات کو ایف 35 طیاروں کی فروخت کے سخت مخالف ہیں اور اس بات پر پریشان ہیں کہ اس سودے سے خطے میں اسرائیل کی برتری پر اثر پڑے گا۔ امریکہ کے قوانین میں یہ بات درج ہے کہ مشرق وسطی میں اسلحے کی فروخت کا ایسا کوئی سودا نہیں کیا جائے گا جس سے اسرائیلی فوج کو اپنے ہمسایہ عرب ملکوں پر حاصل دفاعی لحاظ سے اسلحے کی معیاری برتری پر کوئی اثر پڑے۔ یعنی خطے میں اسرائیل کو جو فوجی برتری حاصل ہے اسے برقرار رکھا جائے گا۔ امریکہ کے اس قانون کی وجہ سے مشرق وسطی میں اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس کو ایف 35 طیارے چار سال قبل فراہم کیے گئے تھے اور سنہ 2024 اس کو کل پچاس ایف 35 طیارے فراہم کر دیے جائیں گے جن کی فی طیارہ مالیت دس کروڑ ڈالر ہے۔ اسرائیل کی فضائیہ نے مئی 2018 میں کہا تھا کہ یہ پہلا ملک ہے جس نے ایف 35 طیاروں کو جنگی کاررائیوں میں استعمال کیا جن میں شام میں ایرانی اہداف کو نشانہ بنایا جانا شامل ہے۔ لبنان کے دارالحکومت بیروت کی فضاؤں میں ایک ایف 35 طیارے کی پرواز کی تصاویر جاری ہونے سے شدید تنقید شروع ہو گئی تھی کیونکہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان کشیدگی پائی جاتی ہے اور عملی طور پر یہ دونوں ملک اب بھی حالتِ جنگ میں ہیں۔ اسرائیل کے اخبارات اور اس کے بعد امریکی ذرائع ابلاغ میں اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی طرف سے خفیہ طور پر متحدہ عرب امارات کو ایف 35 کی مجوزہ فروخت کی حمایت کرنے کی خبروں کی اشاعت کے بعد اسرائیل کے اندر ایک سیاسی مسئلہ کھڑا ہو گیا تھا۔ اسرائیل کی وزارت عظمیٰ کے دفتر نے ان خبروں کی شدت سے تردید کی تھی اور ایک طویل بیان جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ اسرائیل کے وزیر اعظم واشنگٹن کی طرف سے ان طیاروں کی متحدہ عرب امارات کو فروخت کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں۔ یہ سارا معاملہ اسرائیل کی بحران کا شکار سیاست میں جلتی پر تیل کے مترداف ثابت ہوا کیونکہ یہ خدشات شدت سے ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ خطے میں اسرائیل کی برتری کم ہو جائے گی۔ اسرائیل کے وزیر دفاع اور نیتن یاہو کے سیاسی حریف بینی گانتیز اس خبروں کی اشاعت کے بعد بھاگے بھاگے واشنگٹن گئے تاکہ اس بات کو ینقی بنایا جا سکے کہ متحدہ عرب امارات کو ایف 35 طیاروں کی فروخت کے بعد بھی اسرائیل کی فوجی برتری اور طاقت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ اسرائیل کی حکومت نے اب متحدہ عرب امارات کو ایف 35 طیاروں کی فروخت کی مخالفت چھوڑ دی ہے۔ حکومت سے قریب تصور کیے جانے والے ایک اخبار نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم جدید ترین اسلحہ خریدنے کی ایک شاپنگ لسٹ (فہرست) کے ساتھ واشنگٹن گئے تھے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ اسرائیل کی امریکی اسحلے کی شاپنگ لسٹ میں وی 22 اوپری ٹلٹ روٹر لڑاکا طیارے ایف 15 لڑاکا طیارے اور لیزر گائیڈڈ میزائل شامل ہیں۔ اسی دوران دو امریکی قانون دانوں نے کانگرس سے کہا ہے کہ اسرائیل کو 30 ہزار پاؤنڈ یا 14 ہزار کلو گرام کے جی بی یو بنکر بسکٹر بم دستیاب کیے جائیں۔ اسرائیل کے وزیر دفاع نے امریکی وزیر دفاع پر جدید ہتھیار فروخت کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اسرائیل کی وزارت دفاع کے سابق اہلکار میجر جنرل آموس گیلاد جو نیتن یاہو پر کھل کر تنقید کرتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وزیر دفاع نے سیاسی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے ایک اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ متحدہ عرب امارات کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ دوسرے عرب ملکوں کو کیا ملنے والا ہے۔ یہ بات انھوں نے ان خبروں کے تناظر میں کہی کہ سعودی عرب، جس نے ابھی اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کا معاہدہ کرنا ہے، وہ بھی ایف 35 طیارے خریدنے کا خواہش مند ہے۔ قطر نے بھی یہ طیارے خریدنے کی درخواست کی ہے جبکہ بحرین جس نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ہی اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر دستخط کیے تھے، وہ بھی امریکہ سے جدید دفاعی ہتھیار اور ٹیکنالوجی خریدنے کا خواہش مند ہے۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اسلحے کی فروخت کے ان معاہدوں سے خطے میں کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالیوں کے لیے سبز جھنڈی امریکہ میں ویتنام جنگ کے بعد بائیں بازو کے امن کے لیے کام کرنے والے سرگرم افراد کی طرف سے قائم کے جانے والے سینٹر آف انٹرنیشنل پالیسی سے تعلق رکھنے ولے ولیم ہرٹنگ کا کہنا ہے کہ امریکہ اس وقت مشرق وسطیٰ میں خود اسلحے کی دوڑ شروع کر رہا ہے۔ وہ واشنگٹن کے طرف سے اسرائیل اور عرب معاہدوں کو ’ابراہیم اکارڈز‘ کو اسلحہ فروخت کرنے کے معاہدے قرار دیتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ متحدہ عرب امارات، بحرین، سعودی عرب اور سوڈان جو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کر رہے ہیں وہ بھی امریکہ کے اسلحے کی فیکٹروں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ خلیجی ممالک کو جدید ترین امریکی طیارے دستیاب کرنے کا مطلب ان کی پالیسیوں کی توثیق کرنا ہو گا۔ انھوں نے کہا کہ اس کا مطلب ان خلیجی ملکوں اور خاصی طور سعودی عرب جہاں صورت حال سنگین حد تک خراب ہے، وہاں انسانی حقوق کی پامالیوں اور خلاف ورزیوں سے آنکھیں بند کرنا ہو گا۔ یمن کے دارالحکومت صنا میں انسانی حقوق کی تنظیم کے شریک بانی رادا المتوکل نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کی جانب سے ان ملکوں کو اسلحے کی فروخت، ان ملکوں کو اپنی پالیسیاں جاری رکھنے کے لیے سبز جھنڈی دکھانے جیسا ہو گا دریں اثنا انسانی حقوق کی تنظیمیں یمن کی صورت حال پر شدید تشویش ظاہر کر رہی ہیں جو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف جنگ سے تباہ و برباد ہو گیا ہے۔ یمن کے دارالحکومت صنا میں انسانی حقوق کی تنظیم کے شریک بانی رادا المتوکل نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کی جانب سے ان ملکوں کو اسلحے کی فروخت، ان ملکوں کو اپنی پالیسیاں جاری رکھنے کے لیے سبز جھنڈی دکھانے جیسا ہو گا۔ وہ یمن میں شہری آبادیوں پر فضائی حملوں کے دستاویزی ثبوت جمع کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ اب تک انھوں نے پانچ سو کے قریب ایسے واقعات کا ریکارڈ مرتب کیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان میں سے کچھ حملوں میں استعمال کیے جانے والے بموں کے ٹکڑوں سے معلوم ہوا ہے کہ ان میں اکثر امریکی ساخت کے تھے، کچھ برطانیہ میں بنائِے گئے تھے اور ایک اطالوی ساخت کا بھی تھا۔ المتوکل، جنھوں نے یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور انسانی بحران کے بارے میں اقوام متحدہ کو بھی تفصیل سے آگاہ کیا تھا، ان کا کہنا ہے کہ یمن پر حملہ آور ملکوں کو امریکی حمایت پر پورا بھروسہ ہے اور یہ اطمینان ہے کہ وہ انھیں اسلحہ فراہم کرتا رہے گا۔ دفاعی تجزیہ کار برونک کہتے ہیں کہ متحدہ عرب امارات ایک عرصے سے اس دھن میں ہے کہ وہ کسی طرح یمن میں استعمال کرنے کے لیے امریکی ڈرون حاصل کر لے۔ انھوں نے کہا کہ حوثی باغیوں کی طیارہ شکن توپوں کو نشانہ بنانے کے لیے یہ ڈرون بڑے موثر ثابت ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ ڈرون بہت بلندی سے ان توپوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ ہالینڈ کی اسلحے کے خلاف تنظیم ’پیکس گروپ‘ کے مطابق یمن ڈرون کے تجرباتی استعمال کا میدان جنگ بنا رہا ہے۔ سعودی عرب کی قیادت میں قائم فوجی اتحاد نے یمن میں شہری آبادیوں کو نشانہ بنانے کے الزمات کی تردید کی ہے۔ ایران نواز ہجوم کا اکٹھ برونک کا کہنا ہے کہ اگر متحدہ عرب امارات کو ایف 35 طیارے فروخت کیے گئے تو دوسرے ملک بھی یہ خریدنا چاہیں گے اور ایک لائن لگ جائے گی۔ واشنگٹن میں بیٹھے کچھ لوگ جو اس صورت حال سے بچنانا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ایران کی طرف سے اسلحہ کے پھلاؤ اور مشرق وسطیٰ میں چینی اسلحے کی بڑھتی ہوئی مانگ کا تدارک کرنے کی ضرورت ہے۔ امریکی ایوان صدر نے خلیجی ریاستوں کو اسلحے کے فروخت پر جارحانہ پالیسی اپنائے رکھی ہے جس کا مقصد امریکہ میں اسلحے کی صنعت کو فائدہ پہنچانا ہے۔ امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمین کا کہنا ہے اسرائیل کی فوجی برتری پر کوئی اثر نہیں پڑے گا گذشتہ سال امریکی صدر نے کانگریس کی طرف سے مخالفت سے بچنے کے لیے ہنگامی قوانین کے تحت حاصل صدارتی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور اردن کو اربوں ڈالر کے اسلحے کی فروخت کے معاہدوں کی منظوری دی تھی۔ اسرائیل میں امریکی سفیر ڈیوڈ فریڈمن نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کے معاہدوں کے بعد متحد عرب امارات کو ایف 35 طیاروں کی فروخت کے بارے میں ظاہر کیے جانے والے خدشات کو رد کر دیا تھا۔ انھوں نے یروشلم پوسٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کو جو خطے میں فوجی اور اسلحے کی برتری حاصل ہے، وہاں تک پہنچنے کے لیے خطے کے دوسرے ملکوں کو بہت سال لگیں گے لیکن دوسری طرف آبنائے ہرمز کے ساحل پر ایک طاقت ور اتحادی کی حمایت سے اسرائیل کو بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ تنقید صرف ایران نواز عناصر کی طرف سے کی جا رہی ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں میں بدستور اضافہ کر رہا ہے باوجود اس کے کہ اس کی فضائیہ کے طیارے پرانے ہوتے جا رہے ہیں۔ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ سے وابستہ دفاعی امور کے ماہر اور امریکی فضائیہ کے لیفٹیننٹ کرنل کرسٹین میکوان کا کہنا ہے کہ تہران نے گذشتہ ایک دہائی بلاسٹک میزائل، ڈرون طیارے اور کروز میزائیل بنانے پر صرف کی ہے۔ ماہرین اس بات سے متفق نہیں ہیں کہ اسرائیل سے معاہدے کے بعد متحدہ عرب امارت کو ایف 35 طیاروں کی فروخت کا سودا جلد ہونے میں کوئی مدد ملے گی کیونکہ کانگریس اس سودے میں تاخیر کا باعث بننے کے علاوہ اسے روک بھی سکتی ہے اور جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے سے بھی اس پر اثر پڑ سکتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اسلحے کے سودوں پر بحث مرکوز رکھنا شکی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے جبکہ اسرائیل سے معاہدہ خطے میں تعاون اور مذہبی ہم آہنگی کو فروغ دے گا۔ لندن میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کے ترجمان نے اسرائیل سے معاہدے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے خطے میں معاشی خوشحالی، امن اور مذہبی ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا۔
070715_disappearing_island
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/07/070715_disappearing_island
انڈیا کے ڈوبتے جزیروں کے مکین
’سنمدر نے ہمارا سب کچھ نگل لیا، سب کچھ ، ہم گھر سے بے گھر ہوگئے‘۔ یہ کہہ کر انوارہ بیگم نے جھک کر دلدل کےکنارے سے جنگلی پودوں کی پتیاں توڑ کر اپنی ساڑھی کے آنچل میں باندھیں۔ وہ یہ پتیاں خراب اور موٹے قسم کے چاولوں کے ساتھ ابال کر اپنے بچوں کو رات کے کھانے کے طور پر کھلانے والی ہیں۔
انوارہ بیگم انڈیا کے مشرقی پانیوں میں سُندربن ڈیلٹا کے سطح سمندر سے نیچے چلے جانے والے ایک جزیرے کی رہائشی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’ہمارے کھیت تھے جہاں اچھی قسم کا چاول اور سبزیاں پیدا ہوتی تھی، ہم وہ سب سامان منڈی ميں فروخت کیا کرتے تھے، میں روز مچھلی پکایا کرتی تھی وہ زندگی بہت خوبصورت اور پرسکون تھی‘۔ انوارہ کے شوہر صابر علی بتاتے ہيں کہ ’ہم اپنے جزیرے میں سب سے زيادہ امیر تھے، ہمارے تین ایکڑ میں پھیلے ہوئے کھیت تھے اور بہت بڑا مکان تھا۔آج ہم سب سے زيادہ غریب ہو چکے ہيں‘۔ صابر علی کے ساتھ ہزاروں کاشتکار اپنے آبائي جزیرے لوہاچارہ اور گھوڑامارہ چھوڑ کر ساگر جزیرے میں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ لوہا چارہ مکمل طور پر زیر آب آ چکا ہے۔ ’یہ سنمدر سب کچھ کھا لے گا۔ ہمارا پورا جزیرہ اپنے پیٹ میں اتارے بغیر نہيں رکے گا۔ سب کچھ ختم ہونے والا ہے‘۔ یہ الفاظ ہیں امول منڈل کے جو گھوڑا مارہ میں رہتے ہيں اور گزشتہ پندرہ سالوں میں ان کے چار مکانات سمندر کی نذر ہو چکے ہیں۔ ان کے پاس آخری مکان بچا ہے جس میں وہ رہائش پذیر ہیں ۔اس مکان سے چند میٹر کے فاصلے پر زمین میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہيں۔ منڈل آج کل ایک غریب مزدر ہیں۔ گھوڑامارہ کے ہی ارجن جانا نے ایک باندھ کے اوپر ایک چھوٹا سا کمرہ بنا لیا ہے جہاں وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ کہتے ’میں اسی امید پر یہاں آیا تھا کہ ہم اسی جزیرے پر کچھ سال اور گزار سکے گے لیکن اب میں سمجھ گیا ہوں کہ اس جگہ کو خیر آباد کہنے کا وقت آچکا ہے‘۔ جانا ایک اچھے کھاتے پیتے کاشتکار تھے، اب بقول ان کے ’میری ساری زمین چلی گئی اب میں مچھلیاں پکڑ کر کسی طرح بھوک اور موت کو اپنے دروازے میں داخل ہونے سے روک رہا ہوں‘۔ گھوڑا مارہ اور لوہاچارہ کی یہ اجڑی ہوئی زندگیاں در حقیقت گلوبل وارمنگ کی سچی آئینہ دار ہيں۔ کولکاتہ کی جادو پورہ یونیورسٹی کے ماہرین اور سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ پورا سندر بن خطرے کا شکار ہے، گلوبل وارمنگ کی وجہ سے سمندر کی سطح لگاتار بڑھتی جارہی ہے۔ سمندر کی سطح بڑھنے کی عالمی شرح دو ملی میٹر ہے جبکہ سندربن ڈیلٹا میں یہ شرح تین اعشاریہ ایک چار ہے۔ انسانی آبادی والا حصہ جو گھنے جنگلات کامحور رہا ہے زيادہ تیزی سے سمندر میں غرق ہوتا جا رہا ہے۔ لوہاچارہ اور سپاری بھانگا جزیرے پوری طرح ڈوب چکے ہیں۔ سمندر بہت تیزی کے ساتھ گھوڑامارہ اور موشنی جزيروں کو نگلتا جا رہا ہے بس چند سال اور ۔۔۔۔پھر یہ دونوں جزیرے بھی پورے طور سمندر میں روپوش ہو جائیگے۔ یہ الفاظ ہیں سوگتوہازرہ کے۔ ہازرہ جادو پور یونیورسیٹی میں سکول آف اوشنوگرافی کے سربراہ ہیں جہاں دو دہائیوں سے سندر بن پر ریسرچ کا کام چل رہا ہے۔ ہازرہ کہتے ہیں کہ ’اگر اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہا تو بیس سو بیس تک بارہ مزيد جزیرے مکمل طور پر اور بڑے جزیروں کے بھی کچھ حِصّے زیر آب چلے جائیں گئے اور دو لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوجائیں گے۔ صرف انسانی آبادی ہی نہيں بلکہ سمندر کا پانی بڑھنا سندربن کے قریب چار سو رائل بنگال ٹائگروں کے لیے بھی مسلسل خطرہ بنتا جارہا ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں سندربن جنگلات کا تیس فیصد حصہ سمندر میں ڈوب چکا ہے۔ سندربن ڈویلپمنٹ کے سابق سربراہ پرانابش سانیال کا کہنا ہے کہ ’سمندر کی سطح تیزی سے بڑھنے کے سبب سندر بن جنگلات میں تمام چھوٹے بڑے تالاب اور ندیوں کا پانی پوری طرح سے کھارا ہو چکا ہے جو کہ رائل ٹائیگرز کے پینے کے لیے موزوں نہيں ہے۔ اس وجہ سے شیر پانی کی تلاش میں جنگلات کی شمالی سرحدوں کی طرف جانے لگے ہیں جہاں ٹائگر کے شکار کا خطرہ بہت بڑھ گیا ہے‘۔ جہانگیر کہتے ہیں کہ اس صورت حال پر قابو پانا مشکل نہيں ناممکن ہے۔ حکومت کو ایک جزیرے سے دوسرے جزيرے پر لوگوں کو لانے کے بجائے کچھ ٹھوس قدم اٹھانے چاہیں۔ کولکاتہ یونیورسیٹی میں شعبہ میرین کے سابق سربراہ پروفیسر املیش چودھری کا خیال ہے کہ موجودہ بحران کے لیے گلوبل وارمنگ ہی ذمہ دار نہيں بلکہ پورا بنگال بیسن مشرق کی طرف جھک رہا ہے اور ایسا تین سو سالوں سے ہو رہا ہے۔ جنوبی بنگال کی تمام ندیاں مشرق کی طرف جارہی ہيں گھوڑا مارہ کے مغربی کنارے پر بہت تیزي سے زمین ’ایروژن‘ ہورہا ہے۔ مغربی بنگال میں شعبہ ماحولیات کے سیکریٹری ایم ایل مینا کا کہنا ہے کہ ہوگلی ندی کے نچلی سطح پر بہت تیزی سے گاد جمع ہونے سے اس علاقے کے تمام جزيروں میں ’سائيڈل امپکٹ‘ بہت زيادہ بڑھ گیا ہے۔ مینا بھی اس اروژن کے لیے گلوبل وارمنگ کو کُلی طور پر ذمہ دار ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہيں کہ ’یہ اروژن روکنا بہت مشکل ہے، ہم نے مختلف جگہوں پر باندھ باندھے ہیں لیکن کچھ فائدہ نہيں ہوا‘۔ وزیر برائے ترقی سندربن کانتی گانگولی کا کہنا ہےکہ ’اروزن‘ رکنے والی نہيں ہے اور باندھ اور پشتے بنانے سے کو ئی فائدہ نہيں ہے۔ ہم نے لوہاچارہ اور گھوڑا مارہ کے ہزاروں افراد کو ساگر جزيرے میں لاکر بسایا اور ہم لگاتار سائنس دانوں، عالمی ماہرین اور مرکزی حکومت کے ساتھ رابطہ بنائے ہوئے ہیں تاکہ ہم کچھ ٹھوس قدم اٹھا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اس بحران کی وجہ چاہے جو بھی ہو ’گلوبل وارمنگ‘، ’سائڈل امپکٹ‘ یا کچھ اور لیکن یہ حقیقت ہے کہ سندربن کی تمام آبادی تباہی کے کگار پر کھڑی ہے۔ لوہاچار کی سہری جان بی بی کی چھ ایکڑ زمین اور ایک مکان ہوا کرتا تھا، ان کے پاس مویشی بھی بھاری تعداد میں تھے۔ وہ کہتی ہیں کہ ایک دن ’جوار‘ کےدوران اچانک زبردست ریلہ آیا اور ہمارا سب کچھ بہا کر لے گيا۔ سہری جان بی بی اب ساگر دیپ میں بھیک مانگ کر گزارہ کرتی ہیں۔
pakistan-53950853
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53950853
کراچی میں بارشوں، سیلابی صورتحال سے تنگ رہائشیوں کا احتجاج: ’اس وقت ڈیفینس، کلفٹن کے حالات کسی کچی آبادی سے بہتر نہیں‘
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے علاقوں ڈیفینس اور کلفٹن سے بارش کے پانی کی نکاسی نہ ہونے اور بجلی کی عدم فراہمی کے خلاف ان علاقوں کے رہائشیوں کی جانب سے کنٹونمٹ بورڈ (سی بی سی) کے دفتر کے باہر پیر کو احتجاج کیا گیا۔
مظاہرین کی بڑی تعداد نے سی بی سی کے خلاف نعرے بازی کی اور سی بی سی کی عمارت کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی۔ اس موقعے پر پولیس کی بھاری نفری سی بی سی دفتر پہنچ گئی۔ نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق سی بی سی کے دفتر کے باہر جمع احتجاجی مظاہرین سی ای او کو بلانے اور ان کے ساتھ مذاکرات کا مطالبہ کر رہے ہیں تاہم بورڈ کی جانب سے ابھی تک مذاکرات شروع نہیں کیے گئے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ کلفٹن کنٹونمنٹ کی انتظامیہ سیوریج کے پانی کی نکاسی کے نظام کو بہتر بنائے اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکوں کی فوری مرمت کی جائے۔ مظاہرے میں شامل ایک رہائشی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اب پانی سر سے اونچا ہو گیا ہے اور اس وقت ڈیفینس کلفٹن کے حالات کسی کچی آبادی سے کم نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر جگہ پانی بھرا ہوا ہے اور گٹروں کا پانی بھی گھروں اور پانی کی ٹینکیوں میں جا رہا ہے۔ مظاہرین انفراسٹکچر کو بہتر بنانے اور ٹیکسز معاف کرنے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے سیلابی صورتحال: سندھ کے 20 اضلاع آفت زدہ قرار دے دیے گئے ’حکومتی اہلکار کراچی میں گھومتے رہے مگر انھیں چلو بھر پانی نہیں ملا‘ کراچی میں طوفانی بارش سے تباہی، مختلف حادثات میں کم از کم 23 افراد ہلاک یاد رہے اس احتجاج کی منصوبہ بندی گذشتہ رات سوشل میڈیا پر اس وقت ہوئی جب پانچ دن سے بجلی، گیس، اشیائے خودرونوش اور پینے کے پانی کی کمی کا شکار کئی افراد پیر کے روز سی بی سی اور ڈی ایچ اے کی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کی دعوت دیتے نظر آئے۔ لیکن جیسے ہی زیادہ سے زیادہ افراد نے اس احتجاج میں حصہ لینے کی حامی بھری، سوشل میڈیا پر کچھ ایسی ویڈیوز نظر آئیں جن میں سی بی سی کے دفتر کے باہر کئی سکیورٹی اہلکار اور گاڑیاں کھڑی نظر آ رہی تھیں۔ اس پر کئی صارفین انتظامیہ پر تنقید کرتے یہ پوچھتے نظر آئے کہ جب لوگ بےیارومددگار پڑے حکام کو پکار رہے تھے، اس وقت یہ سکیورٹی اہلکار کیوں نہ دکھائی دیے؟ اس کے باوجود پانچ روز سے بنیادی اشیائے ضرورت کی کمی کا شکار شہری سی بی سی کے دفتر کے باہر پہنچ گئے۔ تاہم بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ سڑکوں پر پانی کی موجودگی میں بجلی کی بحالی سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام بارشوں کے گذشتہ سو سالہ ریکارڈ کی روشنی میں 2007 میں تعمیر کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سنہ 1977 میں 24 گھنٹوں کے دوران 207 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی تھی۔ ڈی ایچ اے کراچی کے اعلامیے کے مطابق حالیہ مون سون بارشوں سے قبل برساتی نالوں سے صفائی بھی کی گئی تھی اور ڈی ایچ اے کے مطابق 207 ملی میٹر کی گنجائش کے برعکس 12 گھنٹوں میں 235 ملی میٹر بارش ہوئی۔ اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے صورتحال کو معمول پر لانے کی مکمل کوشش کی جا رہی ہے۔ واضح رہے کہ 1950 میں پاکستان کی مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسران کو رہائشی فراہم کرنے کے لیے ڈفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ ڈی ایچ اے کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق 72 ایکڑ کے قریب اراضی سے اس رہائشی منصوبے کا آغاز کیا گیا جو اس وقت 8797 ایکڑ پر پھیل چکا ہے اور اس کے ساتھ 466 کلومیٹر سڑکوں اور اتنے ہی فاصلے پر نکاسی آب کا نظام بھی بچھایا گیا ہے۔ کراچی کے کون کون سے علاقے اب بھی متاثر ہیں؟ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے گذشتہ روز ڈیفینس اتھارٹی اور کنٹونمنٹ بورڈز کے حکام سے ملاقات کی تھی جس کے بعد ڈیفینس سے پانی کی نکاسی کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے مشینری اور سٹاف فراہم کیا گیا تھا جس کے بعد پانی کی نکاسی میں تیزی آئی۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے سینٹر مرتضی وہاب اور سینیٹر سعید غنی دھڑا دھڑ ایسی ویڈیوز اور تصاویر ٹویٹ کرتے نظر آئے جن میں وہ اپنی زیرِ نگرانی کئی علاقوں سے پانی نکالنے کے دعوے کرتے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کراچی شہر کے ہول سیل مارکیٹ جوڑیا بازار بھی بارشوں سے متاثر ہوئی ہے جہاں ابھی تک کئی فٹ پانی موجود ہے گذشتہ روز وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ نے بازار کا دورہ کیا تھا اور تجاروں کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جلد پانی کی نکاسی کی جائے گی۔ دوسری جانب ملیر کے دیہی علاقوں میں متعدد افراد بے گھر ہوگئے ہیں، سکن اور ملیر ندی کے بہاؤ کے باعث کوہی گوٹھ اکمل محلہ، دیھ تھانو، سموں گوٹھ، لاسی گوٹھ سمیت درجن بھر دیہاتوں کے لوگ بے گھر ہوگئے جنھوں نے مقامی سکولوں، مساجد میں پناہ لی ہوئی ہے اور ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ان کے لیے تنبو لگائے جارہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر نظر دوڑائیں تو جمعرات کو شروع ہونے والی بارشوں کے بعد آج پانچویں روز بھی مکینوں کو ناصرف گھروں کی نچلی منزلوں میں بدستور کئی فٹ تک کھڑے پانی کے نکلنے کا انتظار ہے بلکہ انھیں بجلی، گیس، اشیائے خوردونوش، ادوایات۔۔۔ حتیٰ کہ پینے کا پانی تک میسر نہیں۔ زیرِ آب آنے والے علاقوں میں رہنے والوں کے صرف مکان اور گاڑیاں ہی نہیں ڈوبیں، کئی صارفین کے مطابق ان کے گھروں میں پچھلے 90 سے زائد گھنٹوں سے بجلی نہیں ہے۔۔ یو پی ایس ختم ہو چکے ہیں اور جینریٹروں نے بھی جواب دے دیا ہے اور بجلی ہی نہیں، گیس بھی ناپید ہے۔ بجلی کی بندش سے پیدا ہونے والے مسائل کئی افراد موم بتیاں اور فون کی فلیش لائٹ سے کام چلاتے نظر آ رہے ہیں لیکن آخر موبائل کی بیٹری کتنی دیر چل سکتی ہے؟ ہر وقت آپ نے گھر میں موم بتیاں کہاں ذخیرہ کر کے رکھی ہوتیں ہیں۔ کے الیکٹرک کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کا عملہ زیر آب علاقوں میں بجلی کے بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ ڈفینس اور کلفٹن کے کچھ علاقوں میں پانی کھڑا ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تاہم شہر کے 95 فیصد علاقوں میں بجلی بحالی ہوچکی ہے۔ کے الیکٹرک کے مطابق حکام کی جانب سے پانی کی نکاسی میں تیزی آنے کے بعد دو فیڈر نثار شہید اور مسلم کمرشل میں بحالی ہوچکی ہے اس کے علاوہ کلفٹن بلاک 7، اور باتھ آئی لینڈ کے بھی دو فیڈر بحال کیے جا چکے ہیں۔ ترجمان کا کہنا ہے کہ رہائشی علاقوں، بیس منٹ اور سب سٹیشن میں پانی کی موجودگی کے باعث جانی خطرات لاحق ہیں جس کے وجہ سے بخاری کمرشل، اتحاد کمرشل ایریا، خیابان شہباز اور 26 اسٹریٹ کے بعض علاقوں میں بجلی بحال نہیں ہوسکی ہے۔ کے الیکٹرک کے مطابق بجلی کی بحالی کا سارا دارو مدار پانی کی نکاسی سے وابستہ ہے امید ہے کہ 6 سے 12 گھنٹوں میں نکاسی ہوجائے گی جس کے بعد مقامی نقص دور کرکے بجلی بحال کردی جائے گی۔ جن کے گھروں میں کسی طرح گیس میسر ہے انھیں اشیائے خوردونوش کی کمی کا سامنا ہے۔ اب خود ہی سوچیے اگر آپ کے گھر کی نچلی منزل، آپ کی گلی۔۔۔ حتیٰ کہ پورا علاقے میں کئی کئی فٹ پانی کھڑا ہو ایسے میں اول تو آپ باہر نکلیں گے کیسے اور اگر نکل بھی گئے تو کون سٹور کھول کے آپ کی راہ تک رہا ہو گا۔ صرف کھانے پینے کی اشیا کی کمی ہی نہیں، کئی لوگوں کے گھروں میں ایسے بزرگ اور بیمار افراد موجود ہیں جن کے لیے ادوایات کی فراہمی کا کوئی راستہ نہیں۔ جہاں کراچی کے شہری اپنے ہی شہر میں دربدر و خوار اور مہاجر بن کر رہ گئے ہیں لیکن اس سب کے باوجود کراچی والوں کے اندر کی انسانیت اور ہمدردی کا جذبہ قابلِ ستائش ہے۔ خزرا نے ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہمارا ڈی ایچ اے ٹو ایک واٹس ایپ گروپ ہے۔ آج صبح میں نے اس گروپ میں بتایا کہ ہمارے ہاں بجلی گیس نہیں ہے اور ہم نہ کھانا بنا سکتے ہیں نا ہی اسے گرم کر سکتے ہیں۔‘ خزرا کہتی ہیں اس کے بعد تین خواتین نے انھیں کھانا بھیجنے کی پیشکش کی اور ایک تو انھیں گرم گرم دال چاول اور مرغی کا سالن بھیجنے میں کامیاب بھی ہو گئیں۔ ایک اور خاتون نے انسٹاگرام پر پوسٹ کیا کہ فلاں علاقے میں ان کی دوست اپنے گھر پر تنہا ہیں اور انھیں مدد کی اشد ضرورت ہے۔ اگلے دن انھوں نے دوبارہ پوسٹ کرکے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بتایا کہ 50 سے زائد انجان افراد نے انھیں نا جانتے ہوئے اور ایسے سنگین حالات میں بھی انھیں مدد کی پیشکش کی۔۔۔ اور ان میں سے کچھ نے تو گندے اور بجی کی تاروں سے بھرے خطرناک پانی کو عبور کرتے ہوئے ان کی دوست کے گھر جاکر انھیں باقاعدہ مدد فراہم بھی کی۔ ایک اور خاتون حرا نے ٹویٹ کی ’اگر کسی کے گھر میں بجلی، کھانا اور پینے کا صاف پانی نہیں تو برائے مہربانی مجھ سے رابطہ کیجیے۔ میں فلاں علاقے میں رہتی ہوں اور کھانا پکا کر آپ تک پہنچا سکتی ہوں۔‘ رابطے کی بات آئی تو آپ کو بتاتے چلیں، رابطہ بھی وہیں لوگ کر سکیں گے جن کے موبائل میں کچھ بیٹری بچی ہے یا جن کے علاقے میں سگنل آ رہے ہیں۔ حالیہ بارشوں کے بعد سے کئی علاقوں میں موبائل سگنلز بھی غائب ہیں۔۔۔ کئی صارفین پوچھتے نظر آتے ہیں کہ بارش میں لینڈ لائن کی خرابی تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن موبائل سنگلز کو کیا ہو گیا؟ دوسری جانب کراچی میں ڈیفنس کلفٹن سے منتخب پی ٹی آئی کے رکن سندھ اسمبلی شہزاد قریشی کی ایک ویڈیو بھی وائرل ہے جس میں وہ لوگوں کی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے ڈی ایچ اے اور سی بی سی کی انتظامیہ کو موردِ الزام ٹھراتے وزیرِ اعظم اور صدر سے ڈی ایچ اے اور سی بی سی کا آڈٹ کرنے کی درخواست کر رہے ہیں۔ وائرل ویڈیو میں شہزاد قریشی کو یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’بارش کے بعد ڈی ایچ اے ڈوب گیا، نکاسی آب نہیں ہورہی، لوگوں کے گھروں کی نچلی منزلیں پانی سے بھری ہیں، لوگوں کی کروڑوں کی پراپرٹی کو نقصان پہنچا ہے، ڈیفنس اور کلفٹن میں پانی نہیں آرہا، یہاں بجلی بھی غائب ہے، اس صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟‘ ساتھ ہی وہ سوال کرتے ہیں کہ ’کلفٹن اور ڈیفنس کے علاقے میں تو سندھ حکومت اور میئر کراچی کی نہیں چلتی تو پھر اس موجودہ صورتحال کا ذمے دار کون ہے؟‘
140510_italy_immigration_sq
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/05/140510_italy_immigration_sq
’اٹلی نہ آنا، بھوکوں مرو گے‘
میرے ہم وطنوں اٹلی مت آنا، تم بھوکوں مرو گے۔
اینجلو سیوکا ویڈیو کو انگولا، سری لنکا اور پاکستان میں ہر جگہ پھیلانا چاہتے ہیں کیمرے کی آنکھ میں آنکھیں ڈالتے ہوئے یہ الفاظ ہیں انگولا سے اٹلی آئے ہوئے جوان ہوزے کے۔ ہوزے کے بعد سری لنکا سے آئے ہوئے روشن کیمرے کے سامنے آتے ہیں اور بڑی سنجیدگی سے کہتے ہیں :’ یہ ملک شدید مشکل میں ہے اور یہاں تارکین وطن بھی مشکل کا شکار ہیں۔‘ روشن کے بعد پاکستان سے اٹلی ہجرت کرنے والی نیمل کی باری تھی اور انھوں نے بھی دوسرے دو تارکین وطن کی طرح یہی کہا کہ ’اٹلی میں غیر قانونی طور پر آنے کا صاف مطلب یہ ہے کہ آپ کو بھوک اور بے بسی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘ ان تینوں افراد کی یہ گفتگو ایک ویڈیو کا حصہ ہے جس میں تینوں نے یہ پیغام اپنی اپنی مادری زبان میں ریکارڈ کرایا ہے۔ ویڈیو کے آن لائن آنے کے بعد اٹلی میں ہر کوئی اس پر بات کر رہا ہے۔ مذکورہ ویڈیو دراصل اٹلی میں دائیں بازو کی جماعت ’ناردرن لیگ‘ کے ایک امیدوار کی انتخابی مہم کا حصہ ہے جو یورپی یونین کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان کی جماعت یورپ کی دیگر دائیں بازو کی جماعتوں کی طرح امیگریشن کے خلاف ہے۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے انتخابی امیدوار اینجلو سیوکا کا کہنا تھا کہ تینوں تارکین وطن نے اس ویڈیو میں اپنی مرضی سے حصہ لیا ہے، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں دیے جانے والے پیغامات امیدواروں نے نہیں لکھے بلکہ یہ خود ان کی تخلیق ہیں۔ اینجلو سیوکا چاہتے ہیں کہ یہ ویڈیو ان تینوں تارکین وطن کے ملکوں یعنی انگولا، سری لنکا اور پاکستان میں ہر جگہ پھیل جائے تا کہ لوگ اٹلی آنے سے باز رہیں۔ تاہم اینجلو سیوکا تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی ویڈیو انھیں اطالوی لوگوں کے زیادہ سے زیادہ ووٹ لینے میں بھی مددگار ثابت ہو گی۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران اٹلی کی جنوبی بندرگاہ کے راستے آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، تاہم اس ویڈیو سے پہلے یورپی پارلیمان کے انتخابات کے سلسلے میں جاری مہم میں امیگریشن کے مسئلے پر ملک میں زیادہ کھُل کے بات نہیں ہوئی تھی۔ شاید اسی لیے ناردرن لیگ نے ایک مرتبہ پھر یہی حربہ استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ یاد رہے کہ ماضی میں بھی یہ جماعت تارکین وطن کے خلاف پیغامات کے ذریعے اطالوی رائے دہندگان کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس ہفتے اطالوی بحریہ 4300 سے زائد مردوں، عورتوں اور بچوں کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا چکی ہے مذکورہ ویڈیو کے علاوہ ناردرن لیگ کے سربراہ متًیو سالوینی نے مطالبہ کیا ہے کہ اٹلی کی بحریہ اپنے سمندروں میں حادثات کا شکار ہونے والی تارکین وطن کی کشتیوں کو بچانا چھوڑ دے۔ واضح رہے کہ شمالی افریقہ سے اٹلی پہنچنے کےخواہشمند افراد اکثر ٹوٹی پھوٹی کشتیوں کا سہارا لیتے ہیں جو سمندر میں حادثوں کا شکار ہو جاتی ہیں اور اطالوی نیوی کے جہاز ان لوگوں کو ڈوبنے سے بچاتے ہیں۔ مسٹر سالوینی کا کہنا ہے کہ نیوی کے اس آپریشن کی وجہ سے تارکین وطن کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ کئی تـجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ امیگریشن کے خلاف مہم سے ناردرن لیگ کو فائدہ پہنچ سکتا ہے اور جماعت ان لوگوں کے ووٹ لینے میں کامیاب ہو سکتی ہے جو تارکین وطن کو اپنے لیے خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہی لگتا ہے کہ مذکورہ ویڈیو کا تارکین وطن پر کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے کیونکہ اس ہفتے کے دوران بھی اطالوی بحریہ 4300 سے زائد مردوں، عورتوں اور بچوں کو سمندر میں ڈوبنے سے بچا چکی ہے جو کسی طرح اٹلی پہنچنا چاہتے تھے۔
pakistan-54949671
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54949671
کیا ہنر سیکھنا بے روزگاری کا توڑ ہو سکتا ہے؟ ملیے ایسے لوگوں سے جو ڈگری ہولڈرز سے زیادہ کماتے ہیں!
بلال ابھی تیرہ برس کے بھی نہیں تھے تو گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر دو اینٹیں رکھ کر سٹیرنگ کنٹرول کرتے اور گاڑی چلانے کی کوشش کرتے تھے۔
بلال کبھی کبھار ورکشاپ آنے کی کوشش کرتے تھے لیکن والد انھیں ڈانٹ کر گھر بھجوا دیتے تھے آج وہ راولپنڈی میں گاڑیوں کی مرمت اور سپییئر پارٹس کی ایک بڑی مارکیٹ کے وسط میں اپنی ورکشاپ چلا رہے ہیں۔ تباہ شدہ گاڑی کو پھر سے نئی زندگی دینا ان کا کام ہے۔ ان کے والد کا ڈینٹنگ اور پینٹگ کا کاروبار ہے۔ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ لینے تک بلال کبھی کبھار ورکشاپ آنے کی کوشش کرتے تھے لیکن والد انھیں ڈانٹ کر گھر بھجوا دیتے تھے۔ میں نے ان کے والد سجاد خان سے پوچھا کہ آپ کو کیوں پسند نہیں تھا کہ بلال یہ کام سیکھیں تو کہنے لگے ’میں نے میٹرک کے بعد حالات کی مجبوری کے باعث یہ کام شروع کیا، آج تیس سال سے اوپر ہو گئے ہیں لیکن اس شعبے کا ماحول اتنا اچھا نہیں اور میں بچوں کو ادھر اس ڈر سے نہیں آنے دیتا تھا کہ کہیں بری صحبت میں مبتلا نہ ہو جائیں، اس لیے ان کی توجہ پڑھائی پر رکھنا چاہی‘۔ ان کے دیگر تین بچے تو پڑھائی میں بہترین رزلٹ لے کر آتے تھے۔ بلال نے بھی راولپنڈی کے ایک اچھے سکول سے میٹرک تو کر لیا لیکن پھر آئی کام کے فرسٹ ائیر کو مکمل نہ کیا اور والد کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور کہا میں گاڑیوں کا کام کرنا چاہتا ہوں۔ مزید پڑھیے ’مشکل وقت میں اگر ڈپلومہ نہ ہوتا تو مجھے نوکری نہ ملتی‘ اپنا کاروبار کرنے کے خواہشمند نوجوان درکار سرمایہ کیسے اکٹھا کر سکتے ہیں؟ ’وہ بازار جہاں بے صبروں سے پیسہ صبر کرنے والوں کو منتقل ہوتا ہے‘ یہ سنہ 2016 کی بات ہے۔ سجاد خان کہتے ہیں کہ ’میں نے اسے سمجھایا اور پھر بات مان کر بلال کو اپنے ساتھ کام پر لگایا۔ اب یہ گاڑی تیار کر لیتا ہے۔ اب میں گیراج میں نہ بھی ہوں تو یہ کام سنبھال لیتا ہے‘۔ بلال کے والد کہتے ہیں کہ کام سیکھتے ہوئے اسے کئی بار ڈانٹا اور مارا بھی، یہ محنت طلب کام ہے اور بہترین رزلٹ مانگتا ہے۔ میں نے جب بلال سے یہ پوچھا کہ سخت سردی اور سخت گرمی میں ڈینٹنگ پڑھائی کے مقابلے میں مشکل تو لگتی ہوگی، تو کہنے لگے کہ محنت کے کام میں نہ شرم کرنی چاہیے اور نہ ہی اسے مشکل سمجھنا چاہے۔ ’آج میں کئی ڈگری ہولڈرز سے زیادہ کماتا ہوں، مجھے پڑھائی سے زیادہ کام سیکھنا پسند تھا سو میں نے یہ کیا‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مہینے میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ آمدن ہو ہی جاتی ہے۔ ان کے والد سجاد خان کہتے ہیں کہ کام یہ بہت اچھا ہے لیکن اس جانب بچے زیادہ تر مجبوری کی وجہ سے آتے ہیں لیکن اگر کچھ تعلیم حاصل کر کے آیا جائے تو ماحول زیادہ بہتر ہو سکتا ہے۔ لیکن یہاں زمینی حقائق کچھ مختلف ہیں۔ 14 یا 16 سال تعلیم یعنی ڈگری کا حصول یہاں زیادہ نوجوانوں کا خواب ہے اور پھر ایک اچھی پوسٹ پر مناسب تنخواہ یا اپنا بزنس اور پھر ریٹائرمنٹ کے بعد آرام کی زندگی۔ لیکن ایسے میں تکنیکی تعلیم یا ہنر مندی کی جانب جانا ہمیں کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ یہ والدین اور کسی طالب علم کی دوسری چوائس تو ہو سکتی ہے لیکن پہلی شاید کم ہی ہوتی ہے۔ آپ کو کسی ٹائر پنکچر کی شاپ پر چائلڈ لیبر کرتا بچہ تو دکھائی دے گا لیکن یہ کم ہو گا کہ آپ کسی میٹرک پاس لڑکے کو سکول سے آکر شام میں کسی گیراج، کسی پلمبر یا پھر کاریگر کی دکان پر دیکھیں۔ یعنی تعلیم اور ہنرمندی بیک وقت ساتھ ساتھ کم ہی دکھائی دیتی ہیں۔ ڈگری یافتہ اور بیروزگار اب آئیے ایک نظر اعدادو شمار پر بھی ڈال لیں کہ ملک میں اس وقت ڈگری یافتہ اور بے روز گار افراد کی شرح کیا ہے؟ اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں مالی سال 21-2020 کے دوران بے روزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ مالی سال 20-2019 کے دوران اس کی تعداد 58 لاکھ تھی۔ لیبر فورس سروے 2017-2018 کے مطابق آئندہ مالی سال کے لیے بے روزگاری کی شرح 9.56 فیصد بتائی گئی ہے۔ ڈگری رکھنے والوں میں بے روزگاری کی شرح دیگر مجموعی طور پر بے روزگار افراد کے مقابلے میں تقریباً 3 گنا زیادہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فراہم کی جانے والی تعلیم اور نئے تعلیم یافتہ افراد کو جزب کرنے کی معیشت کی ضرورت کے درمیان مطابقت نہیں ہے۔ بیروزگاری کی سب سے زیادہ شرح 11.56 فیصد، 20-24 سال کی عمر والے افراد میں پائی جاتی ہے۔ ایسے میں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کے لیے مخصوص تعلیمی ادارے قائم کیے جاتے ہیں۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تکنیکی اور فنی تعلیم کے لیے قائم ادارے حکومتی سطح پر ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی، ٹیوٹا کے ماتحت چلتے ہیں۔ ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق سنہ 1999 میں وہاں 3856 طالب علم تھے اور 2018 تک یہ تعداد بڑھ کر ایک لاکھ پانچ سو کے قریب پہنچ چکی تھی۔ لڑکیوں کی تعداد 31 جبکہ لڑکوں کی تعداد 69 فیصد ہے۔ ادارے کی ویب سائٹ کے مطابق 65 فیصد طلبا و طالبات کو نوکریاں مل چکی ہیں جبکہ 35 فیصد بے روزگار ہیں۔ ’گھر کی ہر خراب چیز کو ٹھیک کرنے کی کوشش‘ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر ضلع ساہیوال میں محمد عدنان کی رہائش ہے۔ وہ یہیں پلے بڑھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں اپنے گھر کی ہر خراب چیز کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرتا تھا تو بھائی نے کہا کہ یہ تکنیکی طور پر ذہین ہے تو اسے اسی فیلڈ میں ڈالیں۔‘ انھوں نے اپنے بھائی کے مشورے پر میٹرک کے بعد تین سال کا ڈپلومہ کیا۔ ’ڈپلومے میں میں نے کمپیوٹر بھی پڑھا لیکن میں نے دیکھا ہے کہ بی ایس سی کی ڈگری ہمارے ڈپلومے سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔‘ اس سوال کے جواب میں کہ کیا انھوں نے ڈپلومے کے بعد نوکری کے لیے کوشش نہیں کی تھی۔ اس کے جواب میں عدنان کہنے لگے کہ ’ہم بہت جوشیلے تھے، سمجھتے تھے کہ 50 ہزار کا چیک مل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا، حقیقت مختلف ہوتی ہے۔ وہاں آئس کریم کے پلانٹ میں گئے تو انھوں نے کہا جھاڑو لگاؤ۔ کچھ دن کام کیا پھر سمجھ آئی کہ نہیں ابھی مزید پڑھنا ہو گا۔ اس لیے میں نے بی ٹیک کر لیا‘۔ وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے بی ٹیک کی بنیاد پر اینگرو میں یوٹیلیٹی آفیسر کی نوکری مل گئی اور اب میں اللہ کا شکر ہے بہت اچھا کما رہا ہوں‘۔ عدنان کہتے ہیں کہ اصل میں ڈپلومہ کرنے والے کے بارے میں یہ خیال ہوتا ہے کہ وہ ای میل پر رابطہ کاری میں بی ایس سی اور ڈگری ہولڈر سے کم قابل ہوگا ورنہ پریکٹیکل کام میں ڈپلومہ ہولڈر ہی بہتر ہوتا ہے۔ ’مجھے ابتدا میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، وہ کہتے تھے تجربہ لے کر آؤ لیکن شاید یہ ہر نوکری میں ہی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ تجربہ ہے یا نہیں‘۔ عدنان کا کہنا ہے کہ ’میری کلاس کے سبھی لڑکوں کو کوئی نہ کوئی نوکری مل گئی تھی۔ رابطہ کرنے کے لیے ہمارا ایک وٹس ایپ گروپ بنا ہوا ہے‘۔ محمد اعجاز انہی کے ہم جماعت ہیں جنھوں نے مکینیکل میں ڈپلومہ کیا لیکن ان کا تجربہ کچھ بہت اچھا نہیں رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میرا تجربہ اتنا اچھا نہیں رہا۔ سعودیہ کا ویزا ملا اور ٹیکنیشن کے طور پر نوکری ملی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس میں آپ سے بہت زیادہ کام لیا جاتا ہے۔ میں نے سات سال وہاں کام کیا۔‘ لیکن پھر وطن واپس آنا پڑا تو اعجاز نے یہاں نوکری ڈھونڈنے کے بجائے ایک مختلف کاروبار کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’میں نے پاکستان واپس آ کر پانچ لاکھ روپے سے ایک کنٹریکٹر کا کام شروع کیا۔ میں ہسپتالوں کے سالانہ ٹینڈرز لیتا ہوں اور اللہ کا شکر ہے کہ بہت اچھا کام چل رہا ہے۔‘ ان دونوں طالب علموں کے استاد سمیع اللہ خان گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ساہیوال میں فرائض انجام دے رہے ہیں لیکن انھیں پنجاب کے دیگر شہروں میں بھی کام کرنے کا موقع ملا۔ بی بی سی سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ اس وقت مختلف طرح کے کورسز کروائے جا رہے ہیں اور ہم ساتھ ساتھ بچوں کی کاؤنسلنگ بھی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس تین قسم کی کیٹیگریز ہیں۔ تین سال کا پروگرام ہوتا ہے جس میں ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئرنگ کروایا جاتا ہے۔ گورنمنٹ ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ (جی ٹی ٹی آئی) ہوتے ہیں وہاں دو سال اور ایک سال کے کورسز ہوتے ہیں، یہ ڈپلومہ نہیں ہوتا۔ تیسرے گورنمنٹ ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس ہیں جہاں بچوں کو تین یا چھ ماہ کے پروگرام آفر کیے جاتے ہیں۔' ان تین قسم کے کورسز سے نوکری کے کس قدر مواقع میسر ہو سکتے ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ `ڈپلومے والے آگے پڑھ بھی لیتے ہیں یا یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں، نہ بھی پڑھیں تو کسی جگہ کسی بھی انڈسٹری میں لیب ٹیکنیشن کے طور پر کام شروع کر لیتے ہیں۔ یہ ٹیکنالوجسٹ ہوتے ہیں، انجینئیر نہیں ہوتے۔ دو سال اور ایک سال کا کورس کرنے والوں کو بیرون ملک میں بھی اچھی نوکری مل جاتی ہے یا پاکستان کی اچھی انڈسٹریوں میں جیسے ہائر ہے، ٹیوٹا ہے، اس میں نوکری مل جاتی ہے۔‘ حال ہی میں رحیم یار خان کے ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ میں اٹلس ہونڈا لمیٹڈ کی ٹیم جانب سے انٹرویوز لیے گئے۔ شیخوپورہ میں کام کے لیے کل 27 سٹوڈنٹس کو منتخب کیا سمیع اللہ مانتے ہیں کہ اپنے 15 سال سے زیادہ عرصے کے تجربے میں انھوں نے اس نظام تعلیم میں ایڈمیشن لینے والے زیادہ تر طلبہ کو فیس کی مجبوری یا کم نمبروں کی وجہ سے اس فیلڈ کا انتخاب کرتے دیکھا لیکن ان کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں ہنر مندی کا حصول اور انٹرپنیورشپ ہی اچھے مستقبل کی ضمانت ہوں گے۔ ’میرا خیال ہے کہ ایک وقت آئے گا کہ لوگ انٹرپنیورشپ کی جانب جائیں گے، ہمیں جانا ہوگا۔ ہم ایسے لوگ تیار کریں جو نوکری پیدا کرنے والے ہوں، نوکری ڈھونڈنے والے نہ ہوں۔ ایک چھوٹی سی دکان جو دو لاکھ سے بھی شروع ہو گی، کام چلے گا تو یا وہ اسے بڑھائے گا یا پھر اسی میں وسعت پیدا کرے گا اور کسی کو رکھے گا۔ '
world-53140600
https://www.bbc.com/urdu/world-53140600
شمالی کوریا کے لیڈر کِم جونگ ان کی بہن کِم یو جونگ: شمالی کوریا کی سب سے بااثر خاتون اور ممکنہ سپریم لیڈر؟
پچھلے کچھ برسوں میں پیانگ یانگ کے اقتدار کی دھندلی رہداریوں میں شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن کی بہن کم یو جونگ اہم شخصیت بن کر ابھری ہیں۔
وہ سپریم لیڈر کِم جونگ اُن کی سگی اور چھوٹی بہن ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ بہن بھائیوں میں وہی ان کی سب سے قریبی اور طاقتور اتحادی ہیں۔ جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی نے دعویٰ کیا ہے کہ شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ ان نے اپنے معاونین کو جن میں ان کی بہن کم یو جونگ شامل ہیں، مزید حکومتی ذمہ داریاں سونپ دی ہیں۔ جنوبی کوریا کی خیفیہ ایجنسی کا کہنا ہے کہ صدر کم مطلق العنان حکمران ہیں اور ملک کا مکمل اختیار ان کے ہاتھ میں ہے لیکن انہوں نے چند پالیسی ساز شعبوں کی ذمہ داریاں دیگر حکام کو تفویض کر دی ہیں تاکہ ان پر کام اور ذہنی دباؤ کم ہو سکے۔ جنوبی کوریا کی قومی انٹیلی جنس سروس نے مزید کہا کہ ’کم یو جونگ اب ریاست کے امور چلا رہی ہیں۔‘ لیکن یاد رہے کہ جنوبی کوریا کی ایجنسی ماضی میں شمالی کوریا کے بارے میں غلط ثابت ہو چکی ہے۔ جنوبی کوریا کی قومی اسمبلی کے جمعرات کو ایک بند کمرے میں ہونے والے اجلاس میں یہ معلومات پیش کی گئیں۔ اسمبلی ارکان نے بعد ازاں یہ معلومات صحافیوں کو بھی فراہم کیں۔ ایجنسی کے حوالے سے کہا گیا کہ کم جونگ ان نے اب بھی مکمل اختیار اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے لیکن وہ بتدریج اس میں دوسروں کو بھی شریک کر رہے ہیں۔ ایجنسی نے مزید کہا کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کے بارے میں شمالی کوریا کی پالیسی اب کم یو جونگ کے ہاتھ میں ہے اور وہ عملی طور پر شمالی کوریا میں کم جونگ ان کے بعد دوسری سب سے طاقت ور شخصیت ہیں لیکن اب تک کم جونگ ان نے کسی کو اپنا جانشین نامزد نہیں کیا ہے۔ جنوبی کوریا کی ایجنسی کے خیال میں کم جونگ ان نے یہ ذمہ داریاں دوسروں کو سونپ کر ایک طرف تو اپنے اوپر کام کے بوجھ کو کم کیا ہے تو دوسری طرف انہوں نے کسی ممکنہ ناکامی کی صورت میں خود پر الزام آنے کا سدباب بھی کر لیا ہے۔ کچھ مبصرین کو جنوبی کوریا کی ایجنسی کے اس دعوے پر شک ہے اور جنوبی کوریا کی ایک ویب سائٹ کے مطابق اس مہینے ہونے والے دو اہم اجلاسوں سے کم یو جونگ کی عدم موجودگی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ شاید ان کے اختیارات کم کر دیے گئے ہیں۔ جنوبی کوریا کی خفیہ ایجنسی کس حد تک قابل اعتبار ہے؟ دنیا بھر میں شمالی کوریا کے معاشرے میں سب سے زیادہ رازداری برتی جاتی ہے۔ جنوبی کوریا کی قومی انٹیلی جنس سروس کے پاس شاید دوسرے اداروں کے مقابلے میں شمالی کوریا کے بارے میں زیادہ معلومات ہوں لیکن ماضی میں اس کا ریکارڈ ملا جلا رہا ہے۔ مثال کے طور پر سنہ 2016 میں جنوبی کوریا کے ذرائع ابلاغ نے خیفہ ایجنسی کی طرف سے دی جانے والی ایک بریفنگ کا حوالے دیتے ہوئے کہا تھا کہ شمالی کوریا کی فوج کے چیف آف سٹاف ری ینگ گل کو سزائے موت دے دی گئی ہے۔ تین ماہ بعد جنوبی کوریا کی حکومت نے کہا کہ لگتا ہے کہ ری ینگ زندہ ہیں کیونکہ ان کا نام حکمران جماعت کے حکام کی فہرست میں دیکھا گیا تھا۔ سنہ 2017 میں خیفہ ایجنسی نے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ اس نے اپنے ہی ملک میں سنہ 2012 کے صدراتی انتخابات کے نتائج میں بھی رد و بدل کرنے کی کوشش کی تھی۔ کِم یو جونگ: شمالی کوریا کی اگلی سپریم لیڈر؟ کِم یو جونگ 2018 میں پہلی بار جنوبی کوریا کے دورے کے دوران کسی سرکاری حیثیت میں منظر عام پر آئیں اور وہ کِم خاندان کی پہلی فرد تھیں جو جنوبی کوریا کے دورے پر گئیں۔ وہ اس دستے کا حصہ تھیں جس نے جنوبی کوریا میں منعقدہ ونٹر اولمپکس میں شمالی اور جنوبی کوریا کی مشترکہ ٹیم کے طور پر حصہ لیا تھا۔ 2018 ہی وہ سال تھا جب کِم جونگ اُن نے عالمی سفارت کاری کا راستہ اختیار کیا اور انھوں نے چین کے صدر شی جن پنگ، جنوبی کوریا کے وزیر اعظم مون جے اِن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقاتیں کیں۔ اسی بارے میں شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کی جگہ کون لے سکتا ہے؟ کم جونگ ان 20 روز بعد پہلی مرتبہ منظر عام پر: سرکاری میڈیا جنوبی کوریا: کِم جونگ اُن کا دل کا آپریشن نہیں ہوا گھوڑے پر سوار کم جونگ اُن کہاں جا رہے ہیں؟ اپنے بھائی کِم جونگ اُن سے قریبی تعلق کی وجہ سے کِم یو جونگ اپریل 2020 میں ایک بار پھر خبروں میں آئیں جب ان کے بھائی کئی ماہ کے لیے منظر عام سے غائب ہو گئے اور ایسی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ وہ دل کے عارضے کی وجہ سے انتقال گئے ہیں اور کِم یو جونگ کو شمالی کوریا کے نئے رہنما کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ کِم یو جونگ کی اہمیت میں 2017 میں اضافہ ہوا جب انھیں پولٹ بیورو کا ممبر بنایا گیا۔ وہ اس سے پہلے بھی بااثر تھیں اور اپنے بھائی کے پراپیگنڈہ اور ایجٹیشن ڈیپارٹمنٹ کے شعبے کی ڈپٹی ڈائریکٹر تھیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اب بھی اس شعبے سے منسلک ہیں اور اپنے بھائی کی ساکھ کو بہتر بنانے پر معمور ہیں۔ کِم یو جونگ کا شمار بھی شمالی کوریا کے ایسے رہنماؤں میں ہوتا ہے جن پر امریکہ نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ اس کا مطلب ہوا کہ کوئی امریکی شہری ان سے کسی طرح کی لین دین کرنے کا مجاز نہیں ہے اور اگر ان کے امریکہ میں کوئی اثاثے ہیں تو انھیں منجمد کر دیا جائے گا۔ کِم یو جونگ اپنے بھائی کی مشیر بھی ہیں، یہاں وہ جنوبی کوریا کے رہنما مون جے اِن کے ساتھ دیکھی جا سکتی ہیں کِم یو جونگ کتنی بااثر ہیں؟ شمالی کوریا کے اقتدار کے ڈھانچے کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ لہٰذا یہ جاننا بھی بہت انتہائی مشکل ہے کہ کِم یو جونگ کا اپنا سیاسی نیٹ ورک کتنا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شمالی کوریا کی حکمران جماعت کیمونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل چو ریانگ ہیے کے بیٹے سے بیاہی ہوئی ہیں۔ اگر یہ اطلاع ٹھیک ہے تو وہ یقیناً بہت بااثر ہوں گی کیونکہ چو ریانگ ہیے عملی طور پر کِم جونگ اُن کے نائب ہیں۔ انھیں اپنے بھائی کِم جونگ اُن کی 'سیکریٹ ڈائری' کے طور پر بھی شہرت حاصل ہے۔ ایسا خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ کِم جونگ اُن کے روز مرہ کے کام کاج میں بھی کِم یو جونگ کا اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو پالیسی معاملات پر بھی مشورہ دیتی ہیں۔ این کے نیوز کے اولیور ہوتھم نے بی بی سی کو بتایا کہ کِم یو جونگ کی عمر تیس برس کے لگ بھگ ہے اور شمالی کوریا میں اس عمر کی خواتین زیادہ بااثر نہیں ہوتیں اور کِم یو جونگ اپنا تمام اثر اپنے بھائی سے حاصل کرتی ہیں۔ کچھ عرصے قبل کِم یو جونگ نے سیول کی جانب سے شمالی کوریا کی حکومت مخالف پمفلٹس کی تقسیم روکنے میں ناکامی پر دونوں ملکوں کی سرحد پر غیر فوجی علاقے میں فوج بھیجنے کی دھمکی دی تھی۔ انھوں نے یہ دھمکی بھی دی تھی کہ شمالی کوریا کے قصبے کیسانگ میں دونوں ملکوں کے درمیان رابطے کے دفاتر کی عمارت تباہ ہو جائے گی۔ کچھ ہی دنوں بعد، سولہ جون کو کیسانگ میں ایک زوردار دھماکے کی آواز سنی گئی اور علاقے میں دھوئیں کے بادل دیکھے گئے۔ کچھ دیر بعد سیول میں حکام نے تصدیق کی کہ اس عمارت کو جسے بنانے سنوارنے پر جنوبی کوریا کے آٹھ ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے، تباہ کر دیا گیا ہے۔ کِم خاندان کے شجرہ نصب میں کیا ہے؟ اگر کِم جونگ اُن کا جانشین ڈھونڈنے کا وقت آیا تو اس میں خاندانی تعلق کی بہت اہمیت ہوگی۔ ملک کی پراپیگنڈہ مشینری نے عشروں سے کِم خاندان کے شجرہ نسب کے حوالے سے ایک کہانی گھڑ رکھی ہے جس کے مطابق کِم خاندان کا تعلق ’ماؤنٹ پیکٹو بلڈ لائن‘ سے ہے جن کا ہمیشہ شمالی کوریا کی سیاست میں اہم کردار رہا ہے۔ کِم یو جونگ بھی اسی نام نہاد 'ماؤنٹ پیکٹو بلڈ لائن' کی رکن ہیں جسے کِم اُل سونگ کی براہ راست نسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کِم جونگ اُن کی اولاد ہے لیکن ان کی عمریں ابھی بہت کم ہیں۔ چونکہ کِم یو جونگ کی بلڈ لائن بھی وہی ہے جو کِم جونگ اُن کی ہے، تو مقامی میڈیا کو کِم خاندان کے کسی ممبر کو اقتدار کی منتقلی کا جواز پیش کرنے میں دشواری نہیں ہو گی۔ لیکن اس شجرہ نصب کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اگر وہ سپریم رہنما نہیں چنی جاتی ہیں، تو پھر ان کی جان کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ ککمین یونیورسٹی آف سیول کے پروفیسر فیودر ٹرٹسکائیو کے مطابق اگر کِم خاندان کے کسی اور فرد کو اقتدار نہیں مل جاتا تو پھر کِم یو جونگ کے لیے راستہ کھلا ہوگا۔ ’یا تو وہ سپریم لیڈر بن جائیں گی یا پھر انھیں تمام اختیارات سے ہاتھ دھونا پڑے گا،اور شاید زندگی سے بھی۔‘ کِم یو جونگ کِم خاندان میں کہاں فٹ ہوتی ہیں؟ کِم یو جونگ کِم جونگ اِل کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں اور وہ شمالی کوریا کے موجودہ سپریم لیڈر کِم جونگ اُن کی سگی بہن ہیں۔ ان کا ایک اور بھائی کِم جونگ چول بھی ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ کسی اہم عہدے پر فائز نہیں ہیں۔ کِم یو جونگ 1987 میں پیدا ہوئیں اور موجودہ سپریم لیڈر کِم جونگ اُن سے چار برس چھوٹی ہیں۔ انھوں نے بھی اپنے بھائی کی طرح سوئٹزرلینڈ میں تعلیم حاصل کی ہے۔ دونوں بہن بھائی ایک وقت میں سوئٹزرلینڈ کے شہر برن میں قیام پذیر رہے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں سکول کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان کے سکیورٹی گارڈز اور ان کے نگران ان کا ضرورت سے زیادہ خیال رکھتے تھے اور ایک بار جب انھیں ہلکا سا زکام ہوا تو وہ انھیں فوراً سکول سے نکال کر ہسپتال لے گئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق کِم یو جونگ نے بہت ہی الگ تھلگ ماحول میں پرورش پائی ہے اور ان کا کِم خاندان کے افراد سے بھی زیادہ میل جول نہیں رہا ہے۔ کِم یو جونگ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کِم جونگ اُن کی سگی بہن ہیں اور دونوں اکٹھے تعلیم کی غرض سے سوئٹزرلینڈ میں مقیم رہے ہیں وہ کیا کرتی ہیں؟ کِم یو جونگ 2014 سے اپنے بھائی کی شہرت کی محافظ ہیں اور انھیں پارٹی کے پراپیگنڈہ ڈیپارٹمنٹ میں اہم حیثیت حاصل ہے۔ جب انھیں 2017 میں پولٹ بیورو میں ترقی دی گئی تو اس سے یہ تاثر ملا کہ وہ پیانگ یانگ کی اقتدار کی راہدریوں میں اہمیت اختیار کر رہی ہیں حالانکہ ان کا عہدہ اب بھی وہی ہے جو پولٹ بیورو کا ممبر بننے سے پہلے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کِم جونگ اُن کے عوام کے سامنے آنے کے حوالے سے تمام امور کی ذمہ دار ہیں اور وہ اپنے بھائی کی سیاسی مشیر کے طور پر بھی کام کر رہی ہیں۔ جب 2019 میں امریکی صدر ٹرمپ اور کِم جونگ اُن کی ملاقات بے نتیجہ رہی تو یہ خیال کیا جاتا تھا کہ کِم یو جونگ کو پولٹ بیورو سے ہٹا دیا گیا ہے لیکن 2020 کے اوئل میں انھیں دوبارہ پولٹ بیورو کا ممبر بنا دیا گیا۔ کم یو جونگ 2014 سے پہلے کبھی کبھار ہی منظر عام پر آئی ہیں۔ پہلی بار انھیں 2011 میں اپنے والد کے جنازے میں دیکھا گیا تھا اور پھر 2014 میں بھائی کے اقتدار پر فائز ہونے کے وقت انھیں دیکھا گیا۔ کِم یو جونگ کبھی کبھار ریاستی میڈیا پر اپنے بھائی کے ہمراہ دیکھی گئی ہیں۔ جب 2008 میں کِم یو جونگ کے والد کِم جونگ اِل کی طبعیت بگڑ رہی تھی تب ان کا شمار خاندان کے ان افراد میں کیا جاتا تھا جو والد کی جگہ لے سکتے ہیں۔ اب جب ان کے بھائی کِم جونگ اُن مسند اقتدار پر فائز ہیں، جب بھی وہ منظر عام سے غائب ہوتے ہیں تو کِم یو جونگ کو ان کا جانیشن کے طور پر دیکھا جانے لگتا ہے۔ جس طرح کِم جونگ اُن 2020 میں کئی ماہ کے لیے منظر عام سے غائب رہے اسی طرح وہ 2014 میں بھی منظر عام سے غائب تھے، تو کِم یو جونگ کا بطور جانیشن ذکر ہونے لگا لیکن ان کے بھائی 2020 کی طرح منظر عام پر آ گئے تھے۔
070824_iraqipersident_ka
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/08/070824_iraqipersident_ka
عراقی حکومت کا بائیکاٹ جاری ہے
عراق کے دو نائب صدور میں سے ایک سنّی عرب طارق الہاشمی نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ان کی پارٹی اس وقت تک شیعہ پارٹی پر مبنی قیادت کا بائیکاٹ جاری رکھے گی جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں کیے جاتے۔
الہاشمی کی عراقی اسلامک پارٹی کے علاوہ اور بھی کئی سنّی گروپوں نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر رکھی ہے جس کے باعث اس وقت کابینہ میں سنّی عرب ممبران کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ دیگر اطلاعات کے مطابق حکومت میں شامل ایک اور سیکولر سیاسی گروپ عراقیہ لسٹ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اگلے ہفتے باقاعدہ طور پر حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ واضح رہے کہ یہ پارٹی اس سے قبل بھی کابینہ کی میٹنگز کا بائیکاٹ کرتی رہی ہے۔ اس ضمن میں عراقیہ گروپ کے سربراہ اور سابق عارضی وزیرِاعظم ایاد علاوی نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے موجودہ شیعہ حکومت ملازمتوں کے معاملے میں فرقہ پرستی سے کام لے رہی ہے۔ اس سے قبل ایک امریکی انٹیلیجنس رپورٹ میں خبردار کیا گیا تھا کہ عراقی حکومت کی پوزیشن آئندہ آنے والے مہینوں میں مزید غیر یقینی ہو جائے گی۔ اس سلسلے میں حال ہی میں ایک ری پبلکن سینیٹر جان وارنر نے صدر بش پر زور دیا ہے کہ وہ عراق سے جزوی طور پر اپنی افواج کا انخلاء کریں۔ جان وارنر کا کہنا ہے کہ اس انخلاء سے عراقی حکومت پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ واشنگٹن کی عراق کے لیے مدد مستقل بنیادوں پر نہیں ہے۔
071231_swat_arrests
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/12/071231_swat_arrests
سوات: طالبان ایف ایم دوبارہ شروع
صوبہ سرحد کے شورش زدہ ضلع سوات میں حکام نے ایک مبینہ خودکش حملہ آور سمیت آٹھ مشتبہ عسکریت پسندوں کے گرفتاری کا دعویٰ کیا ہے جبکہ دوسری طرف مقامی طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کے غیرقانونی ایف چینل نے نشریات دوبارہ شروع کردی ہیں۔
سوات میڈیا سینٹر کے ایک اہلکارنے بی بی سی کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز نے پیر کی شام کوشورش زدہ علاقے ایوب پل پر ایک مشتبہ خودکش حملہ آور کو گرفتار کرلیا تاہم انہوں نے اس بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔ انکے بقول فضاء گٹ کے مقام سے مقامی طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کے سات قریبی ساتھیوں کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے جنہیں مزید تفتیش کے لیے ایک نامعلوم مقام پرمنتقل کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف سوات میں ایک مقامی صحافی شیرین زادہ نے بی بی سی کو بتایا کہ مقامی طالبان کے سربراہ مولانا فضل اللہ کے غیرقانونی ایف ایم چینل نے دوبارہ نشریات شروع کردی ہیں اور انہوں نے اپنی تقریر میں لوگوں پر زور دیا کہ وہ ’شرعی نظام کے نفاذ کے لیے انکی حمایت میں سڑکوں پر نکل آئیں۔‘ ان کے بقول ایف ایم چینل کی فریکوئنسی کمزور ہے اور ایسا معلوم ہو رہا ہے کہ نشریات دوردراز علاقے سے ہو رہی ہیں۔مولانا فضل اللہ کے ایف ایم چینل نے تقریباً ڈیڑہ ماہ قبل اس وقت نشریات معطل کردی تھیں جب ان کے مسلح ساتھیوں نے علاقہ چھوڑ دیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے اتوار کی شب کو گٹ پیوچار اور آس پاس کی پہاڑوں پر واقع مقامی طالبان کے مشتبہ ٹھکانوں کو رات بھر بھاری توپ خانے سے نشانہ بنایا جس میں کسی قسم کے جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے۔
040115_samjhota_arrives
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/01/040115_samjhota_arrives
سمجھوتا لاہور پہنچ گئی
ہندوستان سے سمجھوتہ ایکسپریس تین سو بیس مسافروں کو لے کر تقریباً ساڑھے سات بجے شام لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچ گئی۔
ریل گاڑی دو بج کر بیس منٹ پر واہگہ پہنچی تھی جہاں تقریبا چار گھنٹے تک مسافروں کا کسٹم اور امیگریشن ہوتا رہا۔ مسافروں کی ایک بڑی تعداد ہندوستان سے بوریوں میں پان لے کر آئی ہے۔ ہندوستان سے آنے والے مسافروں کے لئے خوش مدید کے بینرز سٹیشن پر لگے ہوئ تھے اور کافی صحافی اور کیمرامین بھی وہاں موجود تھے۔ مسافروں میں کئی کشمیری خاندان بھی شامل ہیں جو پاکستان میں اپنے رشتے داروں سے ملنے کے لیے آئے ہیں۔
vert-fut-56884052
https://www.bbc.com/urdu/vert-fut-56884052
کنڈوم بنانے کی ضروت کیوں پیش آئی اور بہترین کنڈوم بنانے کا سفر کہاں تک پہنچا؟
وہ تقریباً 5000 سال قبل یورپ کی قدیم تہذیبوں میں سے ایک کا عظیم حکمران تھا۔ کہا جاتا ہے کہ کریٹ کے کنگ مینوس کو ایک مسئلہ درپیش تھا۔۔۔ ان کا سیمن زہریلا تھا اور بادشاہ کے حرم میں موجود متعدد عورتیں ان کے ساتھ جنسی تعلقات کے بعد ہلاک ہوگئیں۔
یہ غیر معمولی جنسی بیماری ہی کنڈوم بنانے کا سبب بنی اور کنگ مینوس وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے کنڈوم کا استعمال کیا۔ یہ حفاظتی غلاف بکری کے مثانے سے تیار کیا گیا تھا لیکن اس سے ہم بستری کے دوران بادشاہ کی ساتھی خواتین کو محفوظ رکھنے میں مدد ملی تھی (حالانکہ اس بارے میں ایسی بحث بھی ہوتی رہی ہے کہ یہ غلاف بادشاہ نے خود پہنا تھا یا ان کی ساتھی خواتین نے)۔ آج دنیا بھر میں ہر سال 30 بلین کنڈوم فروخت ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے تعاون سے چلنے والی تنظیم یو این ایڈز کے مطابق سنہ 1990 کے بعد سے کنڈوم کے استعمال سے ایک اندازے کے مطابق 45 ملین ایچ آئی وی انفیکشن کی روک تھام ممکن ہوئی ہے۔ لیکن عالمی ادارہ صحت کے مطابق ابھی بھی ہر روز 10 لاکھ سے زیادہ جنسی طور پر منتقل ہونے والے انفیکشن ہو رہے ہیں۔ اور ایک اندازے کے مطابق ہر سال 80 ملین حمل غیر ارادتاً ہوتے ہیں۔ صحت عامہ کے متعدد ماہرین کا اصرار ہے کہ بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے اور خاندانی منصوبہ بندی میں کنڈوم کو زیادہ اہم کردار ادا کرنا چاہیے۔ جدید لیٹیکس کنڈومز زیادہ تر جنسی بیماریوں سے 80 فیصد یا اس سے زیادہ تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ ان اعداد و شمار میں کنڈوم کا غلط استعمال بھی شامل ہے۔ جب صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو کنڈوم ایچ آئی وی کی ترسیل کو روکنے میں 95 فیصد تک مؤثر ثابت ہوسکتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ’یو ایس بی کنڈوم‘ آپ کو کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے؟ انڈیا میں اب اچاری کونڈوم، سوشل میڈیا پر تنقید ’ذومعنی جملوں‘ کے استعمال پر مفت کنڈومز کی تقسیم بند ’ماحول دوست‘ سیکس کے لیے بنائے گئے خصوصی کنڈوم بلومنگٹن، انڈیانا یونیورسٹی میں ایڈز اور ایس ٹی ڈی روک تھام کے سینئیر ڈائریکٹر، ولیم یاربر کے مطابق لوگوں کو کنڈوم کا صحیح طریقے سے استعمال کروانا، اب بھی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ وہ کہتے ہیں ’ہماری تحقیق کے مطابق بہت سے لوگ کنڈوم استعمال کرنا چاہتے ہیں لیکن انھیں کنڈوم کے استعمال سے منفی تجربات ہوئے ہیں یا وہ کنڈوم کی ’خراب ساکھ‘ پر یقین کیے بیٹھے ہیں، یا انھیں کنڈوم کے صحیح استعمال سے ملنے والی جنسی لذت کے متعلق زیادہ معلومات نہیں ہیں۔‘ کنڈوم استعمال نہ کرنے کی متعدد وجوہات ہیں جن میں مذہبی وجوہات سے لے کر جنسی معلومات کی کمی اور اسے پہن کر محسوس ہونے والی ناپسندیدگی شامل ہیں۔ کنڈوم کا پھٹنا یا پھسلنا نسبتاً غیر معمولی ہے، لیکن ایسا ہوتا ہے۔۔۔ کچھ تحقیقات کے مطابق ایک سے پانچ فیصد کیسز میں ایسا ہوتا ہے۔ اور اس سے خود اعتمادی پر بھی اثر پڑ سکتا ہے جس کے نتیجے میں لوگ اس کا استعمال ترک کر سکتے ہیں۔ محققین کو امید ہے کہ جدید مادوں اور ٹیکنالوجیز کے ساتھ ایسے بہتر کنڈوم تیار کیے جا سکتے ہیں جنھیں زیادہ سے زیادہ افراد استعمال کر سکیں۔ مضبوط کنڈوم تیار کرنے کے لیے ایک خیال یہ بھی ہے کہ گرافین کا استعمال کیا جائے۔ یہ کاربن ایٹموں کی ایک انتہائی پتلی پرت ہے جسے پہلی بار 2004 میں برطانیہ کی مانچسٹر یونیورسٹی میں نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں نے شناخت کیا تھا۔ نیشنل گرافین انسٹی ٹیوٹ کے سائنسدان اراوند وجے راگھاون کا خیال ہے کہ ’دنیا کا سب سے پتلا، ہلکا پھلکا، مضبوط اور حرارت کے تبادلے میں مددگار مواد سے بننے والا کنڈوم، اس کی خصوصیات کو بہترین بنا سکتا ہے۔ ان کی ٹیم کو کنڈوم کے جدید ڈیزائن تیار کرنے کے لیے بل اور میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن نے 2013 میں ایک گرانٹ دی تھی۔ لیکن گرافین کو خود ہی اکیلے کسی بھی چیز کو بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا لہذا وجئےارگھاون کی ٹیم گرافین کو لیٹیکس اور پولیوریتھین دونوں کے ساتھ جوڑ رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’گرافین ایک نینو سکیل مواد ہے جو ایک ایٹم جتنا پتلا اور چند مائیکرو میٹر چوڑا ہے۔ لیکن اس چھوٹے پیمانے پر یہ کرہ ارض کا سب سے مضبوط مادہ ہے۔‘ ’چیلنج یہ ہے کہ اس خصوصیت کو نینو سے اس میکرو سکیل پر منتقل کیا جائے جس پر ہم حقیقی دنیا کی اشیا استعمال کرتے ہیں۔‘ ’ایسا کرنے کے لیے ہم کمزور خصوصیت والے پولیمر کے ساتھ گرافین کے مضبوط ذرات کو جوڑ کر یہ کام کرتے ہیں۔ پھر گرافین اپنی مضبوطی والی خصوصیت کو کمزور پولیمر میں منتقل کرکے اسے نینو سکیل پر مضبوط بنا دیتا ہے۔‘ وجیراگھاون نے مزید کہا کہ اس امتزاج سے ایک پتلی پولیمر فلم کی طاقت میں 60 فیصد اضافہ ہوسکتا ہے یا کنڈومز اپنی موجودہ طاقت برقرار رکھتے ہوئے 20 فیصد تک پتلے کیے جا سکتے ہیں۔ اگرچہ ابھی تک گرافین کنڈوم دستیاب نہیں ہیں، اس وقت یہ ٹیم اپنے جدید، مضبوط ربڑ کو تجارتی بنادوں پر بنانے کے لیے کام کر رہی ہے۔ آسٹریلیا کی کوئینز لینڈ یونیورسٹی میں ایک اور گروپ کنڈوم بنانے میں استعمال ہونے والے مواد کو پتلا اور مضبوط بنانے پر کام کر رہا ہے۔ یہاں وہ ایسے کنڈوم تیار کررہے ہیں جن میں لیٹیکس کے ساتھ آسٹریلیا کی آبائی سپنیفیکس گھاس ( تیز نوک والی گھاس) کو ملایا جا رہا ہے۔ آسٹریلیا کی دیہی کمیونٹیز طویل عرصے سے سپنیفیکس کی گوند کو مختلف آلات بناتے ہوئے چپکانے کے لیے استعمال کرتی آ رہی ہیں۔ محققین کو سپنیفیکس گھاس سے نکلے ہوئے نینو سیلولوز کے ساتھ لیٹیکس کو تقویت دینے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ لیٹیکس کے نتیجے میں آنے والی پرتیں 17 فیصد تک مضبوط تھیں اور یہ اس سے بھی زیادہ پتلی بنائی جاسکتی ہیں۔ محققین کا کہنا ہے کہ وہ ایسا کنڈوم تیار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جو 20 فیصد تک زیادہ دباؤ برداشت کر سکتا ہے اور پھٹتا نہیں اور تجارتی پیمانے پر بننے والے لیٹیکس کنڈومز کے مقابلہ میں 40 فیصد زیادہ پھول سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف کوئینز لینڈ کے میٹریل انجینئر نسیم امیرالیان جو اس منصوبے کی قیادت کررہے ہیں، کا کہنا ہے کہ ٹیم اب کنڈوم مینوفیکچررز کے ساتھ مل کر فارمولیشنز اور پروسیسنگ کے طریقوں کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ انھیں امید ہے کہ وہ ایسے کنڈومز بنا سکتے ہیں جو مضبوط ہوں لیکن موجودہ کنڈومز کی نسبت 30 فیصد زیادہ پتلے ہوں، اور ان کنڈومز کو پہننے والے کو محسوسں ہی نہ ہو سکے کہ اس نے کنڈوم پہن رکھا ہے۔۔۔ اور اسی خصوصیت کے باعث زیادہ سے زیادہ لوگ ان کنڈوم کا استعمال کریں گے۔ اس مواد سے کئی اور چیزیں بھی بنائی جا سکتی ہیں جن میں ڈاکٹروں کے لیے مضبوط لیکن زیادہ حساس دستانے تیار کرنا شامل ہے۔ اب تک لیٹیکس کنڈومز میں استعمال ہونے والا سب سے عام مواد ہے، لیکن بہت سے لوگ لیٹیکس سے تکلیف محسوس کرتے ہیں اور اکثر انھیں چکنا کرنے والی کسی چیز کی ضرورت پڑتی ہے۔ لیٹیکس نسبتاً مہنگا بھی ہے، جو کنڈوم کے استعمال میں اضافی رکاوٹ ہوسکتا ہے۔ دنیا کی تقریباً 4.3 فیصد آبادی لیٹیکس الرجی کا شکار بھی ہے، لاکھوں لوگوں کے لیے عام طور پر مارکیٹ میں ملنے والے کنڈومز ناقابل استعمال ہیں۔ اگرچہ اس کے متبادل کے طور پر پولیوریتھین یا قدرتی جھلی والے کنڈوم دستیاب ہیں، لیکن ان میں خامیاں ہیں۔ پولیوریتھین کنڈوم لیٹیکس کنڈومز کی نسبت بہت آسانی سے پھٹ جاتے ہیں، جبکہ قدرتی جھلی والے کنڈومز میں چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں جو ایس ٹی ڈی پیتھوجینز جن میں ہیپاٹائٹس بی اور ایچ آئی وی وغیرہ شامل ہیں، کا راستہ نہیں روک پاتے۔ تاہم آسٹریلیائی سائنسدانوں کا ایک اور گروپ لیٹیکس کی جگہ ’ٹف ہائیڈروجیل‘ کے نام سے ایک نیا مواد استعمال کرنا چاہتا ہے۔ زیادہ تر ہائڈروجلز، نرم اور دھنسا دینے والے ہوتے ہیں، لیکن سونبرن یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی اور آسٹریلیا کی یونیورسٹی آف وولونگونگ کے محققین جن ہائڈروجلز پر کام کر رہے ہیں وہ ربڑ کی طرح مضبوط اور لمبے ہوتے ہیں۔ اس ٹیم نے ’یوڈیمون‘ کے نام سے ایک کمپنی بھی قائم کی ہے جو ’جیلڈومز‘ پر ابتدائی تحقیق کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ چونکہ ان میں لیٹیکس نہیں ہوتا، لہذا الرجی والے ان مسائل سے بچا جا سکتا ہے جو روایتی کنڈومز کے استعمال سے پیش آتے ہیں۔ لیکن ٹیم کا کہنا ہے کہ ان ہائیڈروجلز کو بھی انسانی جلد کی طرح محسوس کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جاسکتا ہے تاکہ قدرتی احساس بھی ہوتا رہے۔ چونکہ ہائیڈروجیل میں پانی شامل ہے اور یہ خود چکنا کرنے کی خاصیت رکھتے ہیں، یا ان کی تشکیل میں ایسی اینٹی ایسٹیڈی دوائیاں استعمال کی جا سکتی ہیں جن کا مواد استعمال کے دوران جاری کیا جائے۔ یہ یقینی بنانا کہ کنڈومز کو اضافی چکنائی کے بغیر استعمال کیا جاسکتا ہے، ایک ایسا چیلنج ہے جس پر سائنس دانوں نے اپنی توجہ مبذول کی ہوئی ہے۔ امریکہ کی بوسٹن یونیورسٹی کے محققین کے ایک گروپ نے ایک ایسی کوٹنگ (روغن کی تہہ) تیار کی ہے جسے جب کنڈوم پر لگایا جائے تو وہ سیلف لُبریکیٹنگ بن جاتے ہیں (یعنی ان میں چکنائی کی خصوصیت شامل ہو جاتی ہے)۔ اس کام کے لیے محققین نے ہائیڈروگلائڈ کوٹنگز کے نام سے ایک کمپنی کی بنیاد رکھی ہے۔ چیف ایگزیکٹو اور اس سٹارٹ اپ کی شریک بانی، سٹیسی چن کا کہنا ہے کہ سیلف لُبریکیٹنگ کنڈوم کم از کم 1000 جھٹکوں کا دباؤ سہہ سکتے ہیں جبکہ عام کنڈوم صرف 600 جھٹکوں کا دباؤ سہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ لیٹیکس کنڈومز میں استعمال ہونے والے لُبریکینٹس (چکنائی والا مادہ) زیادہ تر چپچپے ہوتے ہیں، پانی کو پیچھے دکھیلتے ہیں اور استعمال کے دوران ہی ختم ہوتے جاتے ہیں۔ تاہم بوسٹن یونیورسٹی کے محققین کا کہنا ہے کہ وہ ہائیڈرو فیلک کی ایک پتلی پرت یا پانی سے ملنے والے پولیمر کو لیٹیکس کی سطح سے جوڑ کر رکھ سکتے ہیں۔ پانی کے ساتھ رابطے میں آنے پر پولیمر، چھونے پر پھسل سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ استعمال کے دوران وہ جسمانی رطوبتوں سے خارج ہونے والی مادے کو نمی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے رگڑ کو کم کر سکتے ہیں۔ چن کا کہنا ہے کہ ’لُبریکینٹس (چکنائی والا مادہ) ہی کنڈومز میں اکثر خرابیوں کا باعث ہے۔ جنسی تعلقات کے دوران ہماری کوٹکنگ (روغن کی تہہ) لیٹیکس کنڈوم پر لگی رہتی ہے اور مسلسل لُبریکیشن فراہم کر سکتی ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اس سے کنڈوم کے استعمال میں پیش آنے والا سب سے بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ تقریباً 33 افراد پر کیے گئے سروے کے دوران بغیر چکناہٹ والے (ان لبریکیٹڈ ) لچکدار کنڈوم کے مقابلے میں اس کوٹکنگ والے کنڈومز نے رگڑ کو 53 فیصد تک کم کر دیا اور بازار میں دستیاب لُبریکینٹس (چکنائی والا مادہ) کے مقابلے میں بھی اس کی کارکردگی یہی رہی۔ چھوٹے پیمانے پر ہونے والے تحقیق میں 70 فیصد شرکا نے اپنے ذاتی لُبریکینٹس کے مقابلے میں ایسے کنڈومز کو ترجیح دی جن پر نئی کوٹنگ یا روغن کی تہہ لگائی گئی تھی۔ چونکہ اس وقت یہ پروڈکٹ اسے کاروباری بنانے والے عمل سے گزر رہی ہے، لہذا چن کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتا سکتیں کہ سیلف لُبریکیٹنگ کنڈوم کب تک استعمال کے لیے دستیاب ہو سکیں گے۔ کنڈوم کا سائز بھی اکثر مسئلہ بن سکتا ہے۔ امریکہ میں ایک کنڈوم بنانے والی کمپنی 60 مختلف سائز کے کنڈوم فروخت کر رہی ہے۔ سنہ 2014 میں انڈیانا یونیورسٹی سے ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ میں جنسی طور پر سرگرم مردوں کے عضو تناسل کی لمبائی چار سینٹی میٹر سے 26 سینٹی میٹر تک ہے جبکہ موٹائی تین سینٹی میٹر سے لے کر 19 سینٹی میٹر تک ہے۔ اس کے مقابلے میں مردوں کے لیے کنڈوم کی اوسط لمبائی 18 سینٹی میٹر ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے گلوبل پروٹیکشن کارپوریشن دس مختلف لمبائیوں اور نو مختلف سائز کے کنڈوم بنا رہی ہے۔ سنتھیا گراہم نے، جو ساؤتھمپٹن ​​یونیورسٹی میں جنسی اور تولیدی صحت کی پروفیسر اور انڈیانا یونیورسٹی کے کنسی انسٹی ٹیوٹ میں کنڈوم ٹیم کی ایک محقق ہیں، وہ بھی یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ آیا کنڈوم پہننے کے نئے طریقوں سے ان کا استعمال آسان ہوسکتا ہے؟ ان کی ٹیم ایک نئی قسم کے کنڈوم پر ٹیسٹ کر رہی ہے جس میں بلٹ ان ایپلی کیٹر (جسم کے کسی حصے پر دوا لگانے کا آلہ) استعمال ہوتا ہے جس سے کنڈوم کو ہاتھ لگائے بغیر پہنا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک ایسا ریپر بھی ساتھ آتا ہے جس سے کنڈوم کو باآسانی باہر نکالا جا سکتا ہے۔ اس کا مقصد روایتی کنڈوم ریپر سے کنڈوم نکالتے ہوئے ہونے والے نقصان سے بچنا ہے۔ اس میں انرولنگ سٹرپس کا ایک جوڑا استعمال کیا جاتا ہے جو کنڈوم پورا کھلنے کے بعد خودبخود الگ ہو جاتا ہے - اس کا مقصد استعمال سے قبل یہ یقینی بنانا ہے کہ کنڈوم کا سائز ٹھیک ہے۔ لیکن فنڈز کی کمی کے سبب ابھی تک اس آلے کو کلینیکل ٹرائلز میں استعمال نہیں کیا جا سکا۔ اس کے علاوہ کئی اور بنیادی مسائل بھی ہیں جو کنڈوم کے استعمال کی راہ میں حائل ہیں۔ گراہم کہتی ہیں ’کنڈوم استعمال نہ کرنا ایک عام سی بات ہے۔ زیادہ تر افراد ایس ٹی ڈی اور جنسی تعلقات سے ہونے والی دیگر بیماریوں سے بچنے کے بجائے حمل روکنے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔‘ ’سب سے زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ بہت سے نوجوان سوچتے ہیں کہ یہ بیماریاں قابلِ علاج ہیں، لہذا وہ ان کے بارے میں فکر مند نہیں ہیں۔‘ اگر ایک مضبوط، پتلا اور زیادہ آرام دہ کنڈوم بنا بھی لیا جائِے تو یہ تو واضح ہے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے زیادہ سے زیادہ تعلیم کی ضرورت ہے۔
060218_karachi_murder_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/02/060218_karachi_murder_fz
کراچی متحدہ کے دو کارکن قتل
کراچی میں متحدہ قومی مومنٹ سےتعلق رکھنے والے دو افراد کو قتل کردیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم نے اس واقعے کو امن امان کی صورتحال خراب کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔
شہر کے سائیٹ کے علاقے میں ہفتے کی شام کو کمال احمد اور محمد عامر کو قتل کیا گیا۔ پولیس کے مطابق کمال احمد اور محمد عامر ایک جیپ میں قصبہ کالونی جا رہے تھے کہ بڑا بورڈ پر ان کی گاڑی ٹریفک میں پھنس گئی۔ اس دوران موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے ان پر فائرنگ کی اور دونوں موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔ متحدہ قومی مومنٹ کے اعلامیے کے مطابق کمال انصاری سینیئر کارکن اور عامر احمد کارکن کے بھائی اور ہمدرد تھے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے کہا ہے کہ قتل کی یہ واردات امن وامان خراب کرنے کی گھناونی سازش ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ امن دشمن عناصر شہر کا امن خراب کرنے پر تلے ہیں۔ رابطہ کمیٹی نے حکومتی حکام سے مطالبہ کیا کہ قتل میں ملوث ملزمان کو گرفتار کیا جائے۔
050729_un_resolution_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/07/050729_un_resolution_fz
القاعدہ اور طالبان: پابندیاں سخت
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے القاعدہ اور طالبان کے خلاف پابندیوں کے دائر کار کو وسیع کرنے کے لیے متفقہ طور پر ایک قرار داد منظور کی ہے۔
اس قراد داد میں ان کارروائیوں کی تشریح کی گئی ہے جن میں ملوث پائے جانے والے کس شخص یا گروپ کے ارکان کے خلاف بین القوامی سفرکرنے پر پابندی اور عالمی سطح پر اس کے اثاثوں کو منجمد کرنے جیسے اقدامات اٹھائے جا سکیں گے۔ اس قرار داد میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی پولیس ایجنسی انٹرپول کے درمیان القاعدہ اور طالبان کی حمایت کرنے والوں کے خلاف موثر طور پر کارروائی کرنے کے لیے بہتر تعاون کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ میں سفارت کاروں کا خیال ہے کہ اس نئی قرار داد سے حکومتوں کو یہ سمجھنے میں مزید آسانی ہو گی کہ کس قسم کے لوگوں اور گروپوں کے خلاف کارروائی کی جا سکے گی۔
entertainment-56226953
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-56226953
دل نا امید تو نہیں: پیمرا کو نئے ڈرامے پر اعتراض، اداکارہ یمنیٰ زیدی نوٹس سے نالاں
حال ہی میں پاکستان کے نجی انٹرٹینمنٹ چینل ٹی وی ون کی جانب سے ڈرامہ سیریل ’دل ناامید تو نہیں‘ نشر کیا جانا شروع ہوا ہے جسے ناظرین کی جانب سے پذیرائی تو ملی، مگر پیمرا کو اس ڈرامے پر چند اعتراضات ہیں۔
پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے ٹی وی ون کو ہدایت کی ہے کہ وہ پانچ دن کے اندر اندر اس میں موجود مواد کو پیمرا کے ضابطہ اخلاق سے ہم آہنگ کرے۔ پیمرا کے مطابق اس ڈرامے میں معاشرے کی حقیقی تصویر پیش نہیں کی گئی ہے۔ ڈرامے میں انسانی ٹریفکنگ اور بچوں کے جنسی استحصال پر بات کی گئی ہے جبکہ یمنیٰ زیدی نے ایک جسم فروش لڑکی کا کردار ادا کیا ہے۔ یمنیٰ زیدی کے کردار کی مناسبت سے انھیں پارٹیز میں شامل دکھایا گیا ہے جسے خاص طور پر ’غیر اخلاقی مواد‘ قرار دیا گیا ہے۔ ڈرامے کی قسط نمبر دو، تین اور چھ پر اعتراض کیا گیا ہے جن میں حرکات و سکنات، مواد اور مکالموں کو معیوب کہا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کیا پاکستانی ٹی وی ڈرامہ فحش اور غیراخلاقی ہو گیا ہے؟ پیمرا ’ہم جنس پرستی‘ پر معترض، ’ہم‘ ٹی وی کو نوٹس کیا پیمرا نے فضل الرحمان کی پریس کانفرنس بند کروائی؟ مگر اس ڈرامے میں مرکزی کردار نبھانے والی اداکارہ یمنیٰ زیدی پیمرا کے اس نوٹس سے نالاں دکھائی دیتی ہیں۔ بی بی سی اردو کے لیے صحافی براق شبیر کے ساتھ گفتگو میں انھوں نے اس ڈرامے کے مواد اور اس پر جاری ہونے والے نوٹس کے حوالے سے بات کی ہے۔ یمنیٰ زیدی کو سماجی موضوعات پر مبنی ڈراموں کے لیے جانا جاتا ہے اور پیار کے صدقے اور ڈر سی جاتی ہے صلہ کے بعد ان کا یہ تیسرا ڈرامہ ہے جس پر پیمرا نے اعتراض کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پیمرا کے نوٹیفیکیشن میں پاکستان کے سرکاری نشریاتی ادارے پی ٹی وی کا نام نہیں لیا گیا ہے جس کے چینل پی ٹی وی ہوم پر بھی یہ ڈرامہ نشر ہو رہا ہے۔ یمنیٰ زیدی کہتی ہیں کہ دل نا امید تو نہیں صرف اُن کی کہانی نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ دو اور ٹریکس ہیں جو بہت ہی ضروری ہیں۔ ’پہلے بھی گذشتہ کچھ برسوں میں میرے پراجیکٹس پر نوٹسز (آ چکے ہیں) اور میں کبھی اس پر کوئی بیان جاری نہیں کرتی۔ لیکن دل ناامید تو نہیں بڑا خاص پراجیکٹ ہے اور جن پہلوؤں پر بات کی گئی ہے وہ بہت اہم ہیں۔ ان پر ہمیں بات کرنی چاہیے، ان پر ہمیں سوچنا چاہیے۔‘ پیمرا کے نوٹس کے حوالے سے وہ کہتی ہیں کہ جن مسائل پر ڈرامے میں بات کی گئی ہے، وہ ہمارے دیہات، سرکاری سکولوں اور گلی محلوں میں عام ہیں۔ ’مجھے سمجھ نہیں آیا کہ پیمرا نے مواد پر نوٹس کیسے جاری کر دیا۔ میں اس نکتے کو سمجھ نہیں پا رہی کہ ہمارے گاؤں، سرکاری سکولوں، گلی محلوں میں جو مسئلے مسائل ہوتے ہیں، اگر ہم ان پر بات نہیں کریں گے تو ہم صرف خبریں دیکھیں گے، اور وہ حقیقی خبریں یہ ہوں گی کہ کسی بچے یا کسی بچی کے ساتھ یہ ہو گیا۔‘ یمنیٰ زیدی کا ڈرامے میں ایک انداز یمنیٰ کہتی ہیں کہ اگر وہ کسی چیز پر سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں، اگر کوئی مواد بنایا ہے تو کم از کم اس کو نشر ہونے دینا چاہیے۔ ’مجھے دل ناامید تو نہیں پر جو رائے مل رہی ہے وہ اتنی اچھی ہے، میں توقع نہیں کر رہی تھی۔ مجھے بڑا افسوس ہوا کہ پیمرا کی جو پوری ٹیم ہے وہ پھر کس چیز کی اجازت دینا چاہتے ہیں؟‘ وہ کہتی ہیں کہ پاکستانی انڈسٹری کے پاس پہلے ہی بہت کم وسائل ہوتے ہیں۔ ’اس پر اگر ہم بطور انڈسٹری کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اسے نشر تو ہونے دیں۔‘ اس سوال پر کہ انھیں معاشرے کے اس حصے کے بارے میں کیا لگتا ہے جو اس طرح کا مواد ٹی وی پر نشر کیا جانا پسند نہیں کرتے، یمنیٰ زیدی کہتی ہیں کہ ’جو لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں ان کے بھی خاندان ہیں، بچے ہیں، ہزار قسم کے مسئلے مسائل ہوتے ہیں، آپ اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟‘ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم صرف ساس بہو کے ڈرامے نہیں بنا سکتے، ہم رومانوی بھی بناتے ہیں، تو جب بہت ساری چیزوں کو جگہ دی جاتی ہے تو اسے بھی چھوٹی سے جگہ دینی چاہیے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ویسے تو اداکاروں کے لیے اپنے کسی ڈرامے کی شوٹنگ کے بعد اس کی ہر قسط دیکھنا ممکن نہیں ہوتا لیکن یہ ڈرامہ اُن کے لیے مختلف حیثیت رکھتا ہے۔ ’میں تو صرف اداکارہ ہوں، مجھے نہیں پتا اس پر بنانے والوں کا کیا ردِ عمل ہے، لیکن مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ میں ذاتی طور پر اس پراجیکٹ کی ہر قسط دیکھتی ہوں، اور سوچتی ہوں کہ کتنا اچھا بنایا ہوا ہے، کتنی عمومی چیزوں پر بات کی گئی ہے جس سے ہم میں سے کوئی نہ کوئی گزرا ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ وہ پیمرا کے نوٹس سے خوش نہیں ہیں۔ ’پہلے بھی میرے پراجیکٹس کو نوٹسز ملے ہیں مگر اس (نوٹس) پر مجھے بڑی تکلیف ہوئی کہ اسیا نہیں ہونا چاہیے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ لوگ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے بات کر رہے ہیں اور انھیں یہ دیکھ کر اچھا لگ رہا ہے۔ ’میں نے زیادہ تر یہ دیکھا کہ لوگ اس کی حمایت کر رہے ہیں اور وہ پیمرا کے نوٹس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس چیز پر خود انھیں نظرِثانی کرنی چاہیے کہ انھوں نے اسے نوٹس کیوں جاری کیا ہے۔‘ کیا اس پراجیکٹ کی پیشکش پر سوچا تھا کہ اس طرح کا ردِعمل آ سکتا ہے؟ اس سوال پر وہ کہتی ہیں کہ اُنھیں نہیں پتا تھا کہ یہ ڈرامہ کون سے چینل پر چلے گا یا کیا ردِعمل ملے گا۔ ’میں نے تو ایک مقصد کے لیے کرنا چاہا تھا، تو اس مقصد کے لیے میں ابھی بھی اس پر بات کر رہی ہوں۔‘ ’بس مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں خالی خالی کام نہ کروں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ اگر میری تصویر کسی پراجیکٹ پر ہے تو اس کی کوئی روح، کوئی مقصد ہونا چاہیے۔ اور چیزیں تو بنتی رہتی ہیں، مگر میری ذاتی چوائس یہ ہوتی ہے۔ اسی لیے سکرپٹ کے انتخاب میں وقت لگتا ہے اور پریشانی بھی ہوتی ہے۔‘ ’شکر ہے کہ میری زندگی ایسی نہیں‘ جیسے کہ پہلے بتایا گیا کہ یمنیٰ نے اس ڈرامے میں ایک جسم فروش لڑکی کا کردار ادا کیا ہے۔ اس کردار نے انھیں کتنا متاثر کیا، اس پر بات کرتے ہویے وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے اس کردار کو کافی قریب سے محسوس کیا ہے۔ ’بذاتِ خود میری بہت سمٹی ہوئی شخصیت ہے اور میں زیادہ گھلتی ملتی یا بات نہیں کرتی، تو جب ہم کچھ پارٹیوں کے مناظر شوٹ کر رہے تھے تو مجھے وہ احساس ہی اتنا برا لگا، میں نے سوچا کہ جن لوگوں کی ساری زندگی ہی ایسی ہوتی ہے تو وہ کتنی کٹھن ہوتی ہو گی۔‘ ’میں نے شکر کیا کہ میری ساری زندگی ایسی نہیں ہے، اور میں نے شکر کیا کہ اس پر ایسا ڈرامہ بنایا جا رہا ہے کہ ایک لڑکی اس سے کیسے لڑ کر نکلتی ہے۔‘ یہ ڈرامہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی ہوم پر بھی نشر کیا جا رہا ہے تاہم پیمرا نے نوٹس صرف ٹی وی ون کو جاری کیا ہے ’آج کل صرف یہی ڈرامہ دیکھنے لائق ہے‘ پیمرا کے نوٹس کے بعد سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے عمومی طور پر ڈرامے کی حمایت میں تبصرے دیکھنے میں آ رہے ہیں جبکہ شاذ و نادر ہی کوئی تبصرہ اس ڈرامے کے خلاف دیکھنے میں آ رہا ہے۔ زیادہ تر پاکستانی انٹرٹینمنٹ صارفین ٹوئٹر پر اس جانب توجہ دلاتے ہوئے نظر آئے کہ جن چیزوں کی اس ڈرامے میں عکاسی کی گئی ہے، ان میں سے زیادہ تر رویے پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ فیشن ویب سائٹ سمتھنگ ہاٹ کے مینیجنگ ایڈیٹر حسن چوہدری نے لکھا کہ ہاں، دل ناامید تو نہیں یقینی طور پر 'پاکستانی معاشرے کی حقیقی تصویر' نہیں دکھا رہا۔ انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں آج تک بچوں کے جنسی استحصال، تشدد، خواتین کے جنسی استحصال، سکول جانے والی لڑکیوں پر دباؤ اور جہیز کے لیے شادی کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ صارف عطیہ طارق نے کہا کہ یہ مضحکہ خیز ہے کہ کیسے پیمرا نے بچوں کے جنسی استحصال کے حوالے سے آگاہی پھیلانے والے ڈرامے اُڈاری پر پابندی لگانے کی کوشش کی اور اب سیکس ٹریفکنگ، جہیز، بچوں اور خواتین کے جنسی استحصال اور دیگر موضوعات پر کھلے انداز میں بات کرنے والے ڈرامے دل ناامید تو نہیں کے خلاف ایکشن لیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ لیکن اس سے انھیں حیرت نہیں ہوئی۔ صارف ماریہ نواز نے لکھا کہ آج کل ٹی وی پر جو واحد ڈرامہ دیکھنے لائق ہے وہ ’دل ناامید تو نہیں‘ ہے۔ تاہم کچھ افراد نے پیمرا کے اس فیصلے کی حمایت بھی کی۔ صارف کوکب زیدی نے الزام عائد کیا کہ یہ ڈرامہ غیر ملکی فنڈنگ سے بنایا گیا ہے اور اس پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ یہ ڈرامہ حقیقی تصویر پیش نہیں کرتا۔ تاہم انھوں نے اپنے اس الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔ ایک اور صارف ثنا نے کہا کہ یورپ ان لوگوں کی تعریف کرتا ہے اور یہ لوگ اُن جیسے بننا چاہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ جانتی ہیں کہ زیادہ تر چیزیں پاکستان میں ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم 'بے حیائی اور فحاشی' پھیلانے کے لیے حدیں پار کریں۔
060120_bus_lhr_update
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/01/060120_bus_lhr_update
لاہور امرتسر بس سروس شروع
واہگہ کے راستے لاہور امرتسر بس سروس آج بیس جنوری سے شروع ہوگئی ہے۔ پہلی بس سے آنے والے مسافروں میں معروف گلوکارہ ریشماں بھی موجود تھیں جنہوں نے سرحد پار کرنے پر صحافیوں کو بتایا کہ کہ انہوں نے ہندوستان آنے کے لیے پہلے ہوائی جہاز کا ٹکٹ خریدا تھا لیکن جب انہیں لاہور امرتسر بس کے متعلق پتہ چلا تو انہوں نے بس کے سفر کو ترجیح دی۔
انہوں نے کہا کہ بس کا سفر خوشگوار اور اطمینان بخش تھا۔ جمعہ کی صبح امرتسر کے لیے جانے والی یہ بس جب لاہور سے روانہ ہوئی تو مسافروں میں خوشی کا ماحول تھا۔ کل چھبیس مسافر سوار تھے جن میں دو ہندوستانی شہری بھی تھے۔ ایک خاتون مونیکا ورما نے جو پیدل واہگہ سرحد عبور کرکے لاہور کرکٹ دیکھنے پہنچی تھیں بتایا کہ اس بس سے سفر کرنے پر وہ بہت خوش ہیں۔ ’اچھا لگ رہا ہے کہ ہم بھی اس چیز کا حصہ بنے۔‘ انہوں نے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اب سفر لوگوں کے لیے بہت آسان ہوجائے گا۔ ’یہ بالکل ایسا ہے جیسے آپ ایک شہر سے دوسرے شہر میں بس سے چلے جائیں۔‘ پہلی بس کے مسافروں میں جوائنٹ سیکرٹری فردوس علیم سمیت پندرہ پاکستانی اہلکار بھی تھے۔ واہگہ پہنچنے پر مسافروں کا گرمجوشی سے استقبال کیا گیا۔ امرتسر کے میئر سنیل دتی بھی واہگہ پر مسافروں کے خیرمقدم کے لیے موجود تھے۔ ہر طرف لوگوں کے چہروں پر خوشی نظر آرہی تھی اور مسافروں کا ڈھول باجے کی تال پر بھنگرے سے استقبال ہوا۔ طویل بیماری سے نحیف ریشماں کے ساتھ ان کی بیٹی شازیہ بھی امرتسر آئی ہیں۔ وہ دونوں امرتسر سے دلی جائیں گی جہاں خواجہ نظام الدین اولیاء اور خواجہ بختیار کاکی کے مزاروں پر حاضری دیں گی اور وہاں سے راجستھان جائیں گی۔ ریشماں نے بتایا کہ وہ امرتسر میں گولڈن ٹیمپل ضرور جائیں گی تاکہ خدا سے دعا کرسکیں کہ اس نے انہیں ان کے ’سکھ بھائیوں سے ملایا۔‘ پاکستان ٹوارزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن جوبس چلارہی ہے اس کے ڈپٹی منیجر منصور اعظم نے امید ظاہر کی کہ آنے والے دنوں میں مسافروں کی تعداد بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ اس بس سے اس لیے کم مسافر جارہے ہیں کہ یہ آنے جانے کا موسم نہیں ہے، اسکول اور کالج کھلے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جب امرتسر کے لیے ویزے ملنے شروع ہوں گے تو مسافروں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ لوگوں کو بھارت کے وزٹ ویزے ملنے ابھی شروع نہیں ہوئے بلکہ ویزے صرف ان لوگوں کو مل رہے ہیں جن کے وہاں پر عزیز رشتے دار رہتے ہیں یا کوئی تجارت ہے۔ امرتسر کے لیے لاہور سے جمعہ کے روز بس چلا کرےگی اور بدھ کے روز واپس ہوگی۔ تقریبا پچاس کلو میٹر کے اس سفر کے لیے سات سو چالیس روپے ہندوستانی اور پاکستانی نو سو روپے کرایہ طے کر دیا گيا ہے۔ امرتسر لاہور سے تقریبا پچاس کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان عوامی رابطے کے لیے یہ تیسری بس سروس ہے۔ دلی لاہور اور مظفّرآباد سری نگر کے درمیان بس سروس پہلے ہی شروع کی جا چکی ہے۔
050509_quetta_strike
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2005/05/050509_quetta_strike
بلوچستان میں احتجاج
متحدہ قومی موومنٹ کی بلوچستان رابطہ کمیٹی کے رکن عطاء اللہ کرد اور مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات عبداللہ اچکزئی نے اپنے اپنے عہدوں سے استعفی دے کر تا دم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر رکھی ہے ۔ آج ہڑتال کے چھٹے روز دونوں رہنماؤں کی حالت تشویشناک ہو گئی جس وجہ سے انھیں سول ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے آٹھ قائدین کو مارچ میں مبینہ طور پرکراچی میں گرفتار کیا گیا لیکن سندھ اور بلوچستان حکومت نے ان کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ بلوچ طلباء کے مطابق ان کے قائدین کو ڈیرہ بگٹی میں فرنٹیئر کور اور بگٹی قبائل کے مابین جھڑپ کے خلاف احتجاج کرنے کی پاداش میں گرفتار کیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے گرفتاری کے باوجود ان طلباء کو نہ تو کسی عدالت میں پیش کیا گیا ہے اور نہ ہی کوئی اور قانونی کارروائی کی گئی ہے۔ عطاء اللہ کرد نے کہا ہے کہ ان کی گرفتار طلباء سے کوئی نظریاتی وابستگی نہیں ہے بلکہ وہ یہ سب انسانیت کے لیے کر رہے ہیں انھوں نے محب وطن قوتوں سے کہا ہے کہ وہ اس بارے میں آواز اٹھائیں۔ اس کے علاوہ آج بلوچ سٹوڈنٹس آرکنائزیشن کے طلباء نے بولان میڈیکل کمپلیکس میں احتجاج کیا ہے اور اسپتال کے ہنگامی شعبے کو گھنٹے تک بند رکھا گیا ۔ اس کے علاوہ آج یہاں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بے روزگار انجینیئرز نے احتجاج تادم مرگ بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ بلوچستان میں اس وقت کوئی تیرہ سو تعلیم یافتہ انجینیئرز بے روزگار ہیں لیکن حکومت ان کے لیے کسی قسم کے عملی اقدامات نہیں کر رہی بلکہ صرف زبانی جمع خرچ سے کام چلایا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں بے روزگاری اور روز مرہ اشیاء کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ صوبے میں بڑی تعداد میں انجینیئرز کے علاوہ ڈاکٹرز ، تربیت یافتہ اساتذہ اور زرعی گریجویٹس بے روزگار ہیں۔ گزشتہ روز ایک نوجوان عبدالظاہر نے پریشانیوں سے تنگ آکر خود کشی کر لی ہے۔ اس کی قمیض کی جیب سے برآمد ہونے والے خط میں لکھا تھا کہ اس کا ماضی تابناک ہے نہ مستقبل روشن وہ اپنے گھر والوں کے لیے کچھ نہیں کر سکتا اس لیے خود کشی کر رہا ہے
080105_pmlq_advert
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/01/080105_pmlq_advert
پاکستان مسلم لیگ کا اشتہار اور قومیتیں
پاکستان میں جمعہ کے اخبارات میں پاکستان مسلم لیگ(ق) کا ایک اشتہار شائع ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ’پورے پاکستان اور خصوصاً سندھ میں تشدد اور لاقانونیت کے حالیے واقعات میں متاثر ہونے والے ہم وطنوں کے ساتھ ہے‘۔ اس کے بعد کہا گیا ہے کہ سندھ کے ہنگاموں میں جو پنجابی، مہاجر، پٹھان اور بلوچ آبادکار متاثر ہوئے ہیں وہ مسلم لیگ کے امدادی سیل سے رابطہ قائم کریں۔ اشتہار میں تمام قومیتوں کا ذکر ہے سوائے سندھیوں کے۔
مسلم لیگ ق سندھ کے سیکرٹری جنرل نادر اکمل لغاری نے کہا کہ انہوں نے یہ اشتہار نہیں دیکھا لیکن جس نے اس طرح کا اشتہار دیا ہے بہت غلط کیا ہے جبکہ مسلم لیگ ق کے سینیٹر اور ریلیف سیل کے ایک ذمہ دار کامل علی آغا نے کہا کہ جب لفظ ’ہم وطنوں‘ استعمال ہواتواس میں پہلی ترجیح سندھیوں کی ہے۔ اسی اشتہار کے تناظر میں بی بی سی اردو سروس کے کاشف قمر نے جب کامل علی آغا سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ سیل کا کام بیان کیے گئے متاثرین کی معاونت کرنا ہے تاکہ وہ جنرل مشرف کے قائم کردہ خصوصی کمیشن سے نقصانات کا معاوضہ لے سکیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ اگلا جملہ ان کے دعوے کی نفی کر رہا ہے اور سندھیوں کا باقی قومیتوں کے ساتھ ذکر نہیں تو کامل علی آغا نے پھِر کہا کہ ہموطنوں میں سب سے پہلے سندھی آتے ہیں جو بانی پاکستان بھی تھے۔ جب ان کی توجہ اشتہار میں کسی اخبار کی ایک خبر کے حوالے کی طرف دلائی گئی جس میں بارہ لڑکیوں کی ’گوٹھوں اور ندی نالوں‘ میں اجتماعی زیادتی کا ذکر تھا اور پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اس کی تصدیق کی تھی تو انہوں نے کہا کہ وہ اخباری خبروں کو سچ مانتے ہیں اور میڈیا کی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ کامل علی آغا سے سوات میں بے گھر ہونے والوں کے بارے میں بات کے دوران پوچھا گیا کہ اگر ان کی جماعت نے اس وقت بھی ایسا ہی رد عمل دکھایا تھا تو اس کا اشتہار کب شائع ہوا تو ٹیلیفون بند ہو گیا۔ دوسری جانب ق لیگ کے صوبۂ سندھ میں جنرل سیکریٹری نادر اکمل لغاری نے پارٹی کی جانب سے شائع کرائے گئے ایسے اشتہاروں کی کھلے الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ وہ یہ معاملہ جماعت کی اعلٰی قیادت کے سامنے بھی اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد ان کی جماعت تمام گروپوں کے ساتھ ملک کر پاکستان کے استحکام کے لیے کام کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جس نے اس طرح کا اشتہار دیا ہے بہت غلط کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے اندر قومیتوں کی بنیاد پر اپنے آپ کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہ وہ خود بلوچ ہیں اور سندھ میں بلوچوں کی بہت بڑی تعداد آباد ہے۔ جب ان سے مزید سوال کیا گیا تو انہوں نے کہ ’مجھے اس کے بارے میں معلوم نہیں اور میں اس کے حق میں نہیں ہوں‘۔ انہوں نے کہا کہ وہ اس مسئلے کو اپنی جماعت کی مرکزی قیادت کے سامنے اٹھائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کو قومیت کی بنیاد پر تو نہیں تقسیم کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ دہشتگردوں کے ہاتھوں بینظیر بھٹو کی ہلاکت جیسی بزدلانہ حرکت کے بعد ’مجرمانہ عناصر‘ نے نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اور اس میں غریب لوگوں کا بھی بہت نقصان ہوا۔ انہوں نے کہا کہ ’جرائم پیشہ عناصر نے بے نظیر بھٹو کی ہلاکت پر لوگوں کے جذبات کا فائدہ اٹھایا۔ اس صورتحال میں قومی یکجہتی پر مسلم لیگ کے کردار کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس میں جماعت کا سوال نہیں بلکہ یہ پاکستان کا مسئلہ ہے اور اس میں ’ہم امن اور محبت کا ہی پیغام دیں گے‘۔نوٹ: پاکستان مسلم لیگ (ق) نے اپنا جو اشتہار سنیچر کو جاری کیا ہے اس میں باقی قومیتوں کے علاوہ سندھیوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔
pakistan-52899686
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52899686
ریپ کی گئی بچی سے ملزم کی موجودگی میں تفتیش ’انہونی بات‘ نہیں؟
’مجھے پتا ہے تمھارا اس کے ساتھ افیئر تھا اور تم اپنی مرضی سے اس کے پاس آتی جاتی رہی ہو۔‘
لاہور کے تھانہ شاہدرہ کے ایک بند کمرے میں ایک خاتون سب انسپکٹر 15 سالہ انعم (فرضی نام) سے یہ کہتے ہوئے ان کا بیان قلمبند کرنا شروع کرتی ہیں۔ انعم اور ان کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ اسے ڈیڑھ سال تک ریپ کیا جاتا رہا۔ اس واقعے سے ایک دن قبل آنے والی میڈیکل رپورٹ میں انعم سے ریپ کی تصدیق ہو چکی تھی اور اس دن وہ اپنا بیان ریکارڈ کروانے کے لیے والدہ کے ہمراہ تھانہ شاہدرہ میں موجود تھیں۔ مگر اس کمرے میں صرف خاتون پولیس اہلکار اور مدعیان ہی نہیں بلکہ ایک مرد پولیس اہلکار کے علاوہ بچی کے ساتھ ریپ کا ملزم سلیم علی (فرضی نام) بھی موجود تھا۔ مدعی اور ملزم کے خاندان کے لوگوں کے علاوہ پولیس ذرائع نے بھی 29 اپریل 2020 کو ہونے والی اس ملاقات کی تصدیق کی ہے۔ انعم کے مطابق خاتون پولیس افسرنے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے مزید کہا کہ ’تمھارے منھ پہ ملزم اسی لیے تھپڑ مارتا تھا کیونکہ تم خود اس کے پاس جاتی تھیں‘۔ ان کا کہنا ہے کہ خاتون افسر نے ان سے یہ بھی دریافت کیا کہ آیا وہ ملزم سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ انعم کے مطابق انھوں نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کسی بھی طرح کی بات کرنے سے منع کر دیا اور رونے لگیں۔ یہ بھی پڑھیے ’14 سالہ ہمسائی‘ سے ریپ کے الزام میں چار محلے دار گرفتار ’ریپ سے متاثرہ‘ کم عمر ماں حکومتی ادارے کے حوالے پاکستان نے بچیوں کا ریپ کرنے والے مفرور مجرم کو برطانیہ کے حوالے کر دیا کمسن فرشتہ ریپ کیس کا مرکزی ملزم گرفتار انعم کے مطابق اس کے بعد خاتون افسر نے ملزم سے سوال کیا جس کے جواب میں اس نے کہا ’میڈم یہ خود میرے پاس آتی تھی اور اس کے سب گھر والے بھی ایسے ہی ہیں۔‘ دس منٹ تک جاری رہنے والی اس غیر روایتی ملاقات میں جہاں ملزم اور ریپ کا شکار متاثرہ بچی کو آمنے سامنے بٹھا کر سوالات کیے گئے تھے وہیں اس سے قبل مقدمے کی مدعی اور بچی کی والدہ کوثر بی بی (فرضی نام) اور بچی کے ایک کزن کے علاوہ ملزم کے بھائی اور رشتہ داروں کمرے سے باہر نکال دیا گیا تھا۔ کمرے سے بیٹی کی سسکیوں کی آواز سن کر انعم کی والدہ دروازہ کھول کر اندر آئیں اور ان کے مطابق انھوں نے پولیس اہلکار سے دریافت کیا کہ ’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میری بچی کو، وہ کیوں رو رہی ہے؟‘ کوثر بی بی کا دعویٰ ہے کہ انھیں پولیس افسر نے بتایا کہ ’آپ بچی کو لے جائیں، ہم نے تفتیش کر لی ہے۔ یہ ایک کمزور کیس ہے کیونکہ ایک سال پرانا واقعہ بتایا جا رہا ہے۔ جب آپ کی ملزم پارٹی سے کوئی ڈیل نہیں ہو سکی تب آپ نے تھانے میں پرچہ درج کروا دیا‘۔ ان کے مطابق ’پولیس افسر نے مزید کہا ’مجھے پتا ہے آپ خود بھی کیسی عورت ہیں‘ جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’میڈم یہ آپ کیسے الزامات لگا رہی ہیں۔ ہم غریب ضرور ہیں لیکن بےغیرت ہرگز نہیں۔ میں تو بڑی مشکل سے محنت مزدوری کر کے اپنی تینوں بیٹیوں کو پال رہی ہوں‘۔ کوثر بی بی کا دعویٰ ہے کہ تھانہ شاہدرہ میں ایک خاتون سب انسپکٹر نے جب ان کی بیٹی سے تفتش کی تو اس وقت کمرے میں پولیس اہلکاروں سمیت ریپ کا مبینہ ملزم بھی موجود تھا (فائل فوٹو) ’بچی کو کھڑا کریں تاکہ اس کی جسامت تو دیکھ سکیں‘ کوثر بی بی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ انھوں نے ملزم کے خلاف درخواست دی تو اس کے اگلے دن ’جب ابتدائی تفتیش جوزف کالونی پولیس چوکی کے انچارج کے پاس آئی تو اس نے کہا کہ بچی کو لے کر چوکی آ جائیں۔ جب ہم وہاں پہنچے تو چوکی انچارج نے کہا کہ بچی کو کھڑا کریں تاکہ وہ اس کی جسامت تو دیکھ سکے کہ اس کے ساتھ واقعی کچھ ہوا بھی ہے یا نہیں۔‘ انعم کی والدہ کے مطابق ’اسی روز رات 10بجے کے قریب وہی افسر فون کر کے پھر کہتا ہے کہ بچی کو دوبارہ چوکی لائیں۔ میں ڈر گئی کہ اکیلی عورت اور رات کے اس وقت بچی کو کیسے لے کر جاؤں اور بھلا اس وقت کون سی تفتیش کرنی ہے پولیس نے۔` کچھ سوچ بچار کے بعد کوثر تھانے کی جانب روانہ تو ہوئیں مگر ڈرکے مارے انعم کو گھر پر ہی چھوڑ گئیں مگر ان کے بقول ’اندھیرا اس قدر زیادہ تھا کہ آدھے راستے سے ہی واپس لوٹ آئی‘۔ ’اس واقعے کے اگلے روز پھر چوکی انچارج نے فون کر کے کہا کہ چوکی آئیں لیکن ہم نہیں گئے بلکہ ہم نے میڈیا کا سہارا لیا اور ٹی وی پر خبر چلنے کے فوری بعد ہمیں ایف آئی آر درج ہونے کا پیغام بھی موصول ہو گیا۔‘ کوثر کے مطابق پرچہ درج ہونے کے ساتھ ہی تفتیش تبدیل ہو کر تھانہ شاہدرہ کی خواتین پولیس افسران کے سپرد ہوئی تھی۔ جب اس مقدمے کے اندارج میں تاخیر کے بارے میں تھانہ بادامی باغ کے ایس ایچ او ارشد بھٹی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ہر ایسی درخواست کی اچھی طرح جانچ پڑتال کے بعد ایف آئی آر درج کرتے ہیں کیونکہ ریپ جیسے سنگین الزامات میں بغیر مناسب تحقیق کیے پرچہ درج نہیں کیا جاتا‘۔ انھوں نے مزید کہا کہ ’ملزم پارٹی کا مؤقف جاننے میں ایک آدھ دن لگ گیا اور جیسے ہی ان کا بیان لے لیا گیا، ہم نے پرچہ درج کرلیااور تفتیش شاہدرہ منتقل ہو گئی‘۔ ’ملزم اور متاثرہ فریق کو آمنے سامنے بٹھا کر تفتیش انہونی بات نہیں‘ بچی سے ملزم کے سامنے تفتیش کے بارے میں بات کرتے ہوئے لاہور پولیس کے سربراہ سی سی پی او ذوالفقار حمید کا کہنا تھا کہ یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ملزم اور متاثرہ بچی کو آمنے سامنے بٹھا کر تفتیش کی گئی اور ’یہ ایک نارمل پریکٹس ہے‘۔ انھوں نے کہا کہ ایسے سنگین الزامات کی تحقیقات کے دوران فریقین کو آمنے سامنے بٹھانا ضروری ہوتا ہے تاکہ ان الزامات کی صداقت پرکھی جا سکے۔ ذوالفقار حمید کے مطابق ’بعد میں عدالت میں بھی تو دونوں پارٹیوں نے آمنے سامنے ہی موقف دینا ہوتا ہے لہٰذا اس میں کوئی حرج والی بات نہیں‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جب تک قانون تبدیل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہمیں ایسے ہی چلنا پڑے گا۔ ریپ سے متاثرہ خواتین کی سہولت کے لیے ہم نے مختلف تھانوں میں الگ سے جینڈر انویسٹیگیشن سیل بنا دیے ہیں جہاں خواتین پولیس افسران تفتیش کرتی ہیں‘۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نابالغ لڑکی سے ریپ ہوا ہو اور دونوں خاندان آپس میں صلح کر لیں تو ریاست مدعی بن تو سکتی ہے لیکن جب متاثرہ پارٹی عدالت میں جا کر بیان نہیں دے گی تو پولیس ملزمان کو سزا کیسے دلوا سکتی ہے؟ ’عدل شکنی کی بدترین مثال‘ فوجداری مقدمات کے ماہر اور معروف قانون دان احسن بھون نے بی بی سی کو بتایا کہ پولیس عام طور پر ریپ کے مقدمات کی تفتیش بھی روایتی طریقے سے ہی کرتی ہے لیکن جب متاثرہ لڑکی نابالغ ہو تو پھر پولیس کو ان روایتی طریقوں سے ہٹ کر جو حالات ہوں ان کو مدنظر رکھ کر چلنا چاہیے کیونکہ ایک نابالغ لڑکی کے لیے ایسے حالات میں بیان دینا جب اس کا ملزم اس کے سامنے بیٹھا ہو ایک مشکل کام ہے۔ انھوں نے کہا ایسے حالات میں ریکارڈ کیے گئے بیان کو عدالت بھی دیکھتی ہے کہ آیا ایسا بیان کسی دباؤ کے تحت تو نہیں لیا گیا۔ انھوں نے مزید کہا کہ نابالغ بچیوں کے ریپ کے مقدمات میں پولیس کو ایسے جدید خطوط پر تفتیش کرنی چاہیے جن سے متاثرہ لڑکی کا اس کے ملزم سے آمنا سامنا کم سے کم ہو۔ انسانی حقوق کی کارکن طاہرہ عبداﷲ کا کہنا ہے کہ انعم کا کیس ’عدل شکنی کی ایک بدترین مثال ہے۔ یہ کس قانون میں لکھا ہے کہ ملزم کو ریپ کا شکار بچی کے سامنے بٹھا کر تفتیش کی جائے گی۔ یہ تو نظام انصاف کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے‘۔ طاہرہ عبداﷲ کے مطابق ’یہ پنجاب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی بھی ناکامی ہے کہ وہ متاثرہ بچی کو فوری اپنی حفاظت میں نہ لے سکا جس کی وجہ سے بااثر ملزمان نے بچی کے غریب والدین پر کیس واپس لینے کے لیے دباؤ ڈلوانا شروع کر دیا اور ایک نابالغ بچی کی اسی کے ریپسٹ کے ساتھ شادی کروانے تک کا جھانسہ دیتے رہے‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ریپ کے قانون اور بنیادی انسانی حقوق کے قوانین کے بارے میں لاعلمی، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ماتحت عدلیہ میں پائے جانے والی خرابیاں، امیر اور بااثر ملزمان کا خود کو قانون سے بالاتر سمجھنا، معاشرے میں لڑکیوں کی کمتر حیثیت، معاشرے میں بدنامی اور ماتھے پر کلنک لگنے کے خوف کی وجہ سے ایسے سنگین کیس انجام تک نہیں پہنچ پاتے اور ملزمان بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں‘۔ مقدمہ کہاں تک پہنچا ہے؟ پولیس نے اب تک کی اپنی تفتیش میں متاثرہ لڑکی کے مجسٹریٹ کے سامنے دیے گئے بیانات اور میڈیکو لیگل رپورٹ کی روشنی میں ملزم سلیم کو انعم سے ریپ کا مرتکب قرار دیا ہے۔ پولیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملزم اور متاثرہ لڑکی موبائل فون کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں تھے۔ متاثرہ لڑکی نے مجسٹریٹ کے روبرو ضابطۂ فوجداری کے سیکشن 164 کے تحت جو بیان ریکارڈ کروایا ہے اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ملزم کے پاس اس کی نازیبا تصاویر تھیں اور وہ اسے بلیک میل کر کے ڈیڑھ برس سے ریپ کرتا رہا ہے۔ لڑکی نے اپنے بیان میں ملزم کے وکیل کی جانب سے عدالت میں پیش کیے گئے اس دعوے کو بھی مسترد کر دیا ہے کہ وہ دونوں شادی کرنا چاہتے ہیں۔ خیال رہے کہ ملزم سلیم مقدمہ درج ہونے کے فوری بعد سے ضمانت قبل از گرفتاری پر ہے۔ 15 جون کو مقدمے کی آخری سماعت کے دوران عدالت نے ریماکس دیے تھے کہ وہ ملزم کی ضمانت کے بارے میں اس دن فیصلہ کر دے گی لیکن ملزم کے وکلا نے استدعا کی کہ انھیں جواب جمع کروانے کے لیے مزید کچھ روز کا وقت دیا جائے جس کے بعد اس کیس کی سماعت 20 جون تک ملتوی کر دی گئی ہے۔
india-48422251
https://www.bbc.com/urdu/india-48422251
وزارتِ سائنس و ٹیکنالوجی کا نیا قمری کیلینڈر: کیا فواد چوہدری پاکستان کو ایک عید دے سکیں گے؟
پاکستان میں رمضان اور عید کے چاند پراختلافات ہر سال سامنے آتے ہیں۔ رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر پورے ملک میں عملدرآمد ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ان اختلافات کو ختم کرنے کے لیے وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے سائنس کی مدد سے پانچ سال کا قمری کیلینڈر جاری کرنے کا اعلان کر دیا جس کے بعد رویت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مفتی منیب نے فواد چوہدری کے فیصلے کو آڑے ہاتھوں لیا۔
وزارت سائنس وٹیکنالوجی نے چاند دیکھنے سے متعلق ایک ویب سائٹ متعارف کرا دی ہے جس کے مطابق عیدالفطر پانچ جون کو ہوگی اور دونوں کے درمیان میڈیا اور سوشل میڈیا پر بیان بازی ہو رہی ہے۔ وفاقی وزیر اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اس معاملے کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے باقاعدہ ایک قمری کیلنڈر کے اجرا کے ساتھ چاند کی تاریخوں کے بارے میں ایک ویب سائٹ بھی متعارف کرا دی ہے۔ اس ویب سائٹ کے مطابق عیدالفطر پانچ جون کو ہوگی۔ ویب سائٹ پر ماہانہ رپورٹس، ہجری کیلینڈر، اسلامی تہوار اور نقشے موجود ہیں۔ وزارت سائنس کی طرف سے عید کے اعلان کے باوجود مفتی منیب نے عید کا چاند دیکھنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کا باقاعدہ اجلاس بلا رکھا ہے۔ وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے جاری کردہ کیلینڈر اور ویب سائٹ کی ضرورت اور رویت ہلال کمیٹی کا موقف جاننے کے لیے بی بی سی نے متعلقہ حکام اورعلماء سے بات کی ہے۔ یہ بھی پڑھیے عید کے دن کا تعین کیسے کیا جاتا ہے؟ عید کی نماز مسجد میں نہیں تو فیس بک لائیو پر سہی رمضان اور عید کے چاند کے تعین کے لیے کمیٹی قائم اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بی بی سی کو بتایا کہ وزارت مذہبی امورنے نئے تیار کردہ قمری کیلینڈر کی شرعی حثیت جاننے سے متعلق کونسل سے رائے طلب کی ہے تاہم کونسل نے اس متعلق حتمی رائے دینے کے لیے مہلت مانگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے وزارت سائنس کو جوابی خط لکھ کر یہ تجویز دی ہے کہ ہمیں موقع دیا جائے، ہم مختلف امور کے ماہرین کا عید کے بعد اجلاس بلائیں گے اور پھران کی آراء کی روشنی میں رائے دیں گے۔` سید مشاہد حسین خالد، ڈائریکٹر جنرل وزارت مذہبی امور نے بی بی سی کو بتایا کہ بحیثیت رکن رویت ہلال کمیٹی وہ سمجھتے ہیں کہ وزارت سائنس کا جاری کردہ قمری کیلینڈر رویت ہلال کے لیے اچھا ہے۔ ’یہ بہت اچھا ہو گیا کہ عام عوام کی آگاہی کے لیے یہ کیلینڈر آگیا ہے۔ عام لوگ چاند سے متعلق جن شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہیں اب ان کو سائنسی طور پر مطمئن کیا جاسکے گا۔ یہ کیلینڈر ہمارے (رویت ہلال کمیٹی) اعلان پر عملدرآمد میں آسانی پیدا کرے گا۔‘ رویت ہلال کمیٹی کیسے کام کرتی ہے؟ رویت ہلال کمیٹی کے رکن سید مشاہد حسین نے بی بی سی کو بتایا کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے کل 24 اراکین ہیں۔ اس کمیٹی کو سپارکو، محکمہ موسمیات، فلکیات، پاکستانی فضائیہ اور بحریہ کی خدمات بھی حاصل رہتی ہیں۔ انہوں نے کہا ’کمیٹی پہلے سے ہی رویت چاند کے لیے جدید سائنسی آلات کا استعال کررہی ہے۔ چاند سے متعلق پاکستانی نیوی کا اندازہ زیادہ درست ہوتا ہے۔ دیگرمحکموں کی طرح نیوی بھی 15 روز قبل چاند سے متعلق اندازہ رپورٹ رویت ہلال کمیٹی کو بھیج دیتی ہے۔ اس کے بعد آخری دن تک یہ اپ ڈیٹس مسلسل موصول ہوتی رہتی ہیں۔‘ البتہ شہادتیں اکھٹی کرنے کے لیے رویت ہلال کمیٹی کواسلام آباد، پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی کی زونل کمیٹیوں کی معاونت حاصل رہتی ہے۔ ان شہادتوں کو ماہرین جدید سائنسی علوم کی روشنی میں پرکھتے ہیں۔ ’لوگ شہادت لے کرآتے ہیں لیکن اگر وہ ماہرین کے سوالات کا درست جواب نہ دے سکیں تو پھرچاند دیکھنے سے متعلق ایسی شہادتیں مسترد کردی جاتی ہیں۔' رمضان اورعید کا چاند ہی پر تنازع کیوں؟ قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ رمضان اورعیدین ایسے تہوار ہیں کہ ان پر سب کی نگاہیں ہوتی ہیں جس وجہ سے ان مخصوص مہینوں میں عام عوام کی غیرمعمولی دلچسپی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمارا موقف یہی تھا کہ اس معاملے میں جلدی نہ کی جائے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے علماء کا اتفاق ہے کہ رویت ضروری ہے لیکن جدید آلات مفید اور معاون ہیں۔ `رویت اور سائنس دونوں کو ملا کر دیکھنا چاہیے۔ صرف کیلینڈر پرانحصار نہیں کرنا چاہیے۔` مفتی منیب رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ ہیں سید مشاہد حسین خالد کا کہنا ہے کہ چونکہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے صرف سال میں چار دفعہ اجلاس ہوتے ہیں اس وجہ سے یہ خبروں کی زینت بن جاتے ہیں۔ کمیٹی کے یہ اجلاس رمضان، شوال، ذوالحج اورمحرم کے سلسلے میں ہوتے ہیں۔ سال کے دیگر ماہ زونل کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے ہیں۔ ہرزونل کمیٹی میں چھ اراکین ہوتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’چیئرمین رویت ہلال کمیٹی مفتی منیب الرحمان کوقمری کیلینڈر یا سائنسی طریقہ کار پر کوئی اختلاف نہیں ہے، ان کو گلہ دائیں بائیں کی باتوں (رویت ہلال کمیٹی پر تنقید) سے ہوتا ہے‘۔ دیگر دنیا میں چاند کیسے دیکھا جاتا ہے؟ سید مشاہد حسین خالد کا کہنا ہے کہ سعودی عرب میں پہلے سے ایک قمری کیلینڈربنا ہوا ہے لیکن وہ انتظامی امور سے متعلق ہے جیسے دفاتر اور بنکوں کے کام کے ایام یا تنخواہوں کی ادائیگی سے متعلق معاملات۔ ہم نے اس کیلینڈر کو ہی فالو کیا ہے۔ سعودی عرب میں بھی عیدین اور حج کا چاند آل شیخ کی 11 رکنی کمیٹی دیکھتی ہے۔ انڈیا میں بھی مذہبی کمیٹی ہے جو رمضان اور عید کے چاند کا اعلان کرتی ہے ’سعودی عرب میں انتظامی امور آل سعود کمیٹی کے سپرد ہیں جبکہ آل شیخ کمیٹی مذہبی امور کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ انڈونیشیا میں صرف شافعی مسلک کے مطابق سرکاری رویت ہلال کمیٹی عید کا اعلان کرتی ہے اور ایک دن ہی عید ہوتی ہے۔ ہمارے پڑوسی ملک انڈیا میں مذہبی کمیٹی ہے جورمضان اور عید کی چاند کا اعلان کرتی ہے، جس پر پورے بھارت میں عمل کیا جاتا ہے۔‘ سوشل میڈیا پر صارفین کی رائے کیا ہے؟ وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری کی طرف سے نئی ویب سائٹ کا اعلان سوشل میڈیا پر کیا گیا۔ جس پر انہیں بہت پذیرائی ملی اور بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کے اس فیصلے کی تائید کی اور اسے مثبت پیش رفت قرار دیا۔ مگر تنقید کرنے والوں نے بھی ان پر مذہبی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام لگایا۔ نوکشس نمیرہ نے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے اس فیصلے کو سراہا اور چاند کی ایک ایسی فوٹو پوسٹ کی جس کے اندر سے فواد چوہدری خوشی سے ہنستے دکھائی دے رہے ہیں۔ صحافی فرح ناز نے اس فیصلے پر ٹویٹ کی کہ ’دونوں مختلف باتیں ہیں۔ مسٹر چوہدری رویت ہلال کی سنت کی ہی پیروی کر رہے ہوں گے؟ مگر سائنس کی مدد سے کیا وہ درست پیشینگوئی کر سکیں گے؟ درست؟ تو یہ ایک معین کیلینڈر تو نہ ہوا۔‘ بی بی سی اردو کے فیس بُک پیج پر جب ہم نے اپنے قارئین سے اس بارے میں پوچھا تو ان کی رائے کچھ یوں تھی۔ ایک صارف لیاقت علی ہزارہ نے لکھا ہے کہ ’سائنسی طریقہ بالکل ٹھیک ہے‘۔ ممتاز حسین نے تبصرہ کیا کہ ’ہم اس دور میں ہیں جہاں سب کچھ گوگل کے مرہون منت ہے۔ راہ بھول جانے پر گوگل، ریسٹورانٹ کا ایڈریس گوگل۔۔ موسم کا حال گوگل اورچاند دیکھنے کے لیے مولوی۔۔۔! دنیا بہت دور نکل گئی ہے اب یہ روایتی انداز بدلو‘۔ جہان زیب نے لکھا ہے کہ ’رویت ہلال کمیٹی نے ہمیشہ چاند کے متعلق درست فیصلہ کیا۔ رویت ہلال شریعت کے مطابق فیصلہ کرتی ہے۔ بلوچستان میں رویت ہلال کمیٹی کے اعلان پر عید ہوگی‘۔ زہری نام کے ایک صارف نے تبصرہ کیا ہے کہ ’جی چاند دیکھنے کا مذہب یا مولویوں سے کوئی تعلق نہیں اگر صحیح طور پر سائنسی طریقے سے دیکھا جائے تو کوئی حرج نہیں اس میں، جیسے لوگ گھڑی کا ٹائم دیکھ کر نماز وقت پر پڑھتے ہیں سورج نہیں دیکھتے اسی طرح چاند کی پیدائش کا تعین بھی سائنس سے کیا جا سکتا ہے‘۔ اور چونکہ سوشل میڈیا ہے تو بات رویت ہلال تک ہی محدود نہ رہی اور کچھ صارفین نے فواد چوہدری کی ذات پر بھی تنقید کا موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ایک صارف زبیر نواز نے لکھا ہے کہ ’فواد چوہدری کا کیلینڈر اگلے پانچ سال کی عید تو بتا سکتا ہے لیکن یہ ہرگز نہیں بتا سکتا کہ پانچ سال بعد وہ کس سیاسی جماعت میں ہونگے‘۔
070323_quetta_rockets
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/03/070323_quetta_rockets
کوئٹہ: ریڈیو پاکستان پر راکٹ
کوئٹہ شہر میں ریڈیو پاکستان اور انسانی حقوق کی تنظیم کے سابق چیئرمین کے مکان پر راکٹ گرے ہیں لیکن کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
نامعلوم مقام سے داغا گیا ایک راکٹ ریڈیو پاکستان کی عمارت کو لگا ہے جس سے اسٹوڈیو کے سامنے گیٹ کے پاس کمرے کی چھت کو نقصان پہنچا ہے۔ دوسرا راکٹ انسانی حقوق کی تنظیم کے سابق چیئر مین اور سابق وفاقی وزیر طاہر محمد خان کے مکان کی دیوار کو لگا ہے جس سے دیوار کو نقصان پہنچا ہے۔ اس مکان میں ان دنوں طاہر محمد خان کے صاحبزادے رہتے ہیں جبکہ وہ خود شہر سے باہر مکان میں منتقل ہو گئے ہیں۔ راکٹ گرنے سے زور دار دھماکے ہوئے ہیں اور دھماکے کے ساتھ ہی علاقے میں بجلی منقطع ہو گئی ہے۔ ریڈیو پاکستان کی عمارت کے پاس کچھ عرصہ قبل ایک دستی بم کا دھماکہ ہوا تھا جس سے ایک دیوار کو نقصان پہنچا ہے۔
sport-51781583
https://www.bbc.com/urdu/sport-51781583
Lahore Qalandars and Peshawar Zalmi: ڈک ورتھ کے تحت پشاور زلمی کی جیت، لاہور قلندرز نے ہوم گراؤنڈ میں بازی مار لی
پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) سیزن فائیو کے 20ویں اور 21ویں میچز میں پشاور زلمی نے اسلام آباد یونائیٹڈ کو شکست دی جبکہ لاہور قلندرز نے اپنے ہوم گراؤنڈ میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو ہرایا۔
21ویں میچ میں کوئٹہ نے لاہور کو پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے محض 99 رنز کا ہدف دیا جس کا تعاقب لاہور نے 12ویں اوور میں کر لیا۔ محمد حفیظ نے 39 رنز کی اننگز کھیلی جبکہ محمد نواز نے دو وکٹیں حاصل کی ہیں۔ وکٹ میں ٹرن کی وجہ سے بلے بازوں کو مشکل کا سامنا ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے اپنے 20 اوورز میں نو وکٹوں کے نقصان کے ساتھ 98 رنز بنائے تھے۔ میچ کا مکمل سکورڈ کارڈ سمت پٹیل نے اپنے چار اوورز میں صرف پانچ رنز دیتے ہوئے چار وکٹیں حاصل کیں سمت پٹیل نے صرف پانچ رنز دیتے ہوئے اپنے چار اوورز میں چار وکٹیں حاصل کی ہیں جو اس سیزن کی بہترین بولنگ کارکردگی ہے۔ یہ پی ایس ایل سیزن فائیو کا کم ترین اور لیگ میں مجموعی طور پر پانچواں کم ترین سکور ہے۔ پی ایس ایل میں کسی بھی ٹیم کا کم ترین سکور 59 رنز ہے جو 2017 میں لاہور نے پشاور کے خلاف بنایا تھا۔ بریسٹ کینسر کی آگاہی کے لیے کھلاڑیوں نے گلابی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں لاہور کے خلاف کوئٹہ نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے شروع کے 10 اوورز میں صرف 34 رنز بنائے۔ اس دوران لاہور نے 14 گیندوں پر چار وکٹیں لی ہیں۔ سمٹ پٹیل وہ پہلے بولر ہیں جنھوں نے پی ایس ایل میں ایک ہی اوور میں بغیر کوئی رن دیتے ہوئے تین وکٹیں حاصل کی ہیں۔ کوئٹہ کے اوپنرز جیسن روئے اور شین واٹسن نے اننگز کا آغاز کیا اور شاہین آفریدی کی دوسری ہی گیند پر واٹسن ایل بی ڈبلیو آؤٹ ہوگئے۔ پی ایس ایل کا پہلا میچ کھیلنے والے لاہور کے فرزان راجہ نے دو وکٹیں حاصل کیں سمت پٹیل، جو دوسرا اوور کرا رہے تھے، نے گیند سپن کرتے ہوئے شہزاد اور روئے کو کافی مشکل میں ڈالا۔ روئے کو پٹیل کی گیند پر ایل بی ڈبلیو آؤٹ دیا گیا تھا تاہم ریویو کے ذریعے وہ بچ گئے کیونکہ بال کا بلے سے ایج لگا تھا۔ وکٹ میں ٹرن کی وجہ سے بلے بازوں کو کافی مشکل پیش آئی آؤٹ ہونے والے دوسرے کھلاڑی شہزاد تھے جو شاہین کی گیند پر کیچ دے بیٹھے۔ سمت پٹیل کر سپن ہوتی گیند پر کپتان سرفراز کا ایج لگا اور سلپ پر بین ڈنک نے کیچ پکڑا۔ جیسن روئے اور اعظم خان بھی پٹیل کی سپن نہ سمجھ سکے اور آؤٹ ہوگئے۔ ان کے بعد بین کٹنگ پٹیل کی گیند پر ایک جارحانہ شاٹ کھیلنے کی کوشش میں مڈ وکٹ کے ہاتھوں کیچ آؤٹ ہوئے۔ پی ایس ایل کا پہلا میچ کھیلنے والے لاہور کے فرزان راجہ نے دو وکٹیں حاصل کیں۔ انھوں نے نواز اور فواد احمد کی وکٹیں حاصل کیں۔ لاہور نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا اب تک یکطرفہ مقابلوں میں کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو لاہور قلندرز پر 5-4 کی برتری حاصل ہے۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم: جیسن روئے، شین واٹسن، احمد شہزاد، اعظم خان، سرفراز احمد (کپتان)، بین کٹنگ، محمد نواز، سہیل خان، محمد حسنین، فواد احمد، زاہد محمود لاہور قلندرز کی ٹیم: سہیل اختر (کپتان)، ڈین ولاس، دلبر حسین، بین ڈنک، فخر زمان، محمد حفیظ، سمت پٹیل، شاہین آفریدی، ڈیوڈ ویسا، سلمان ارشاد، فرزان راجہ ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت پشاور زلمی کی جیت 20واں میچ راولپنڈی میں اسلام آباد یونائیٹڈ اور پشاور زلمی کے درمیان کھیلا گیا جس میں پشاور کو جیت کے لیے 196 رنز کا ہدف دیا گیا تھا تاہم ڈک ورتھ لوئس میتھڈ کے تحت اسلام آباد کو 7 رنز سے شکست ہوئی۔ پشاور زلمی نے 9 اووز کے بعد دو وکٹوں کے نقصان پر 85 رنز بنائے تھے اور انھیں اب بھی 11 اوورز میں 111 رنز درکار تھے۔ میچ بارش کی وجہ سے ختم ہونے پر اسلام آباد کے کپتان شاداب خان خوش نہیں تھے کیونکہ ڈی ایل میتھڈ کے تحت پشاور کو 7 رنز سے جیت مل گئی۔ 9 اوورز کے بعد پار سکور دو وکٹوں کے نقصان پر 78 رنز تھا اور پشاورکو اسلام آباد پر 9 رنز کی برتری حاصل تھی۔ میچ کا مکمل سکور کارڈ کامران اکمل نے 37 رنز کی جارحانہ اننگز کھیلی لیکن پھر آؤٹ ہوگئے آؤٹ ہونے والے پہلے دو کھلاڑی امام الحق اور کامران اکمل تھے۔ کامران اکمل 37 رنز کے ساتھ اچھی فارم میں کھیل رہے تھے لیکن انھیں ظفر گوہر نے جارحانہ سٹروک لگاتے ہوئے کیچ آؤٹ کیا۔ ٹام بینٹن اور حیدر علی نے رن ریٹ کو بہتر رکھتے ہوئے 21 رنز کی شراکت قائم کی جو پشاور کی جیت میں اہم ثابت ہوئی۔ اسلام آباد کی بیٹنگ اسلام آباد یونائیٹڈ نے پانچ وکٹوں کے نقصان پر اپنے 20 اوورز میں 195 رنز بنائے۔ پشاور نے اپنی بولنگ کے دوران چھ کیچ چھوڑے اور ان کی فیلڈنگ پر تنقید کی گئی ہے۔ اسلام آباد کی اننگز میں شاداب خان سرفہرست رہے جنھوں نے 42 گیندوں پر 77 رنز بنائے اسلام آباد کی اننگز میں شاداب خان سرفہرست رہے جنھوں نے 42 گیندوں پر 77 رنز بنائے۔ شاداب نے کالن انگرام کے ساتھ 76 رنز اور کالن منرو کے ساتھ 67 رنز کی شراکت قائم کی۔ حسن علی نے دو اہم وکٹیں حاصل کیں۔ رضوان حسین کی دوسری وکٹ حسن علی نے ایک بہترین یارکر کے ذریعے حاصل کی میچ کے دوران زلمی کی طرف سے چھ کیچ چھوڑے گئی اور جب آخر کار کالن انگرام کا کیچ پکڑا گیا تو اسلام آباد یونائیٹڈ نے ٹوئٹر پر انھیں مبارک باد پیش کی۔ ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’ہم زلمی کو کیچ پکڑنے پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔‘ بریسٹ کینسر کی آگاہی کے لیے کھلاڑیوں نے گلابی ٹوپیاں پہنی ہوئی ہیں۔ یاد رہے کہ بارش کے باعث میچ کے ٹاس میں تاخیر ہوئی ہے۔ لوک رونکی، جو پی ایس ایل 5 کے ٹاپ سکورر ہیں، راحت علی کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوئے۔ انھوں نے اسی اوور میں ایک چھکا بھی لگایا تھا۔ پشاور نے دو گیندوں پر منرو کے دو کیچ چھوڑے جس سے انھیں کافی نقصان ہوا۔ پہلے کپتان وہاب ریاض نے شعیب ملک کے اوور میں کالن منرو کا کیچ چھوڑا اور پھر راحت علی کی گیند پر لیونگسٹون نے سلپ پر کیچ ڈراپ کر دیا۔ رضوان حسین کی دوسری وکٹ حسن علی نے ایک بہترین یارکر کے ذریعے حاصل کی۔ کالن منرو 35 گیندوں پر 52 رنز بنا کر آؤٹ ہوئے کالن منرو اور شاداب خان کے درمیان نصف سنچری کی شراکت قائم ہوئی جس کے بعد منرو اپنی وکٹ گنوا بیٹھے۔ انھوں نے محض 35 گیندوں پر 52 رنز بنائے تھے۔ ان کی وکٹ کارلوس بریتھ ویٹ نے حاصل کی اور یہ صرف تب ممکن ہوسکا جب لییم لیونگسٹون نے باؤنڈری پر ایک اچھا پکڑا۔ 15ویں اوور میں راحت علی کی گیند پر انگرام کا بھی کیچ چھوٹا تھا جب وہ 15 گیندوں کے بعد 20 رنز پر تھے۔ اگلے ہی اوور میں شاداب کا کیچ شعیب ملک نے گرا دیا تھا۔ کالن انگرام حسن علی کی گیند پر آؤٹ ہوئے جبکہ آؤٹ ہونے والے پانچویں کھلاڑی شاداب تھے جن کے دو کیچ چھوڑے گئے لیکن آخر کار ان کا کیچ وہاب کی گیند پر لیونگسٹون نے پکڑا۔ پشاور کے کپتان وہاب ریاض نے ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کا فیصلہ کیا ہے جمعے کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے ملتان سلطانز کے چھ کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے لیکن 17ویں اوور میں بارش کے باعث میچ منسوخ ہو گیا ہے۔ دونوں ٹیموں کو ایک ایک پوائنٹ دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ملتان نے پوائنٹس ٹیبل پر اپنی پہلی پوزیشن برقرار رکھی ہے۔ ڈیرن سیمی نے اپنی خراب فارم اور فٹنس کے باعث پشاور زلمی کی قیادت چھوڑنے کے اعلان کر دیا تھا۔ ان کی جگہ وہاب ریاض بقیہ ٹورنامنٹ میں پشاور کی کپتانی کریں گے۔ پشاور زلمی کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی پیغام جاری کیا گیا کہ ڈیرن سیمی اب اگلے دو سال ٹیم کے کوچ رہیں گے جبکہ موجودہ بولنگ کوچ محمد اکرم اب ڈائریکٹر کرکٹ کا عہدہ بھی سنبھالیں گے۔ اب تک پی ایس ایل 5 میں سب سے زیادہ 242 رنز اسلام آباد یونائیٹڈ کے اوپنر لوک رونکی نے بنائے ہیں۔ رائلی روسو نے اسلام آباد یونائیٹڈ کے خلاف 43 گیندوں پر چھ چھکوں اور 10 چوکوں کی مدد سے تیز ترین سنچری بنائی تھی۔ جہاں تک بات بولرز کی ہے تو کوئٹہ گلیذی ایٹرز کے فاسٹ بولر محمد حسنین 14 وکٹوں کے ساتھ چھائے ہوئے ہیں۔ اسی فہرست میں ملتان سلطانز کے عمران طاہر 8 وکٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہیں۔ اسلام آباد یونائیٹڈ کی ٹیم: لوک رونکی، کالن منرو، رضوان حسین، کالن انگرام، آصف علی، فہیم اشرف، ڈیل سٹین، کپتان شاداب خان، رومان رئیس، ظفر گوہر، عاکف جاوید پشاور زلمی کی ٹیم: کامران اکمل، امام الحق، ٹام بینٹن، حیدر علی، لییم لیونگسٹون، شعیب ملک، کارلوس، کارلوس بریتھ ویٹ، کپتان وہاب ریاض، حسن علی، یاسر شاہ، راحت علی
071216_dilli_diary_ka
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/12/071216_dilli_diary_ka
مودی کا قد اور پارٹی میں گھبراہٹ
مودی کا بڑھتا ہوا سیاسی قد
گجرات کے اسمبلی انتخابات قومی اہمیت اختیار کر گئے ہیں ۔اخبارات اور ٹیلی ویژن پر ہر جگہ اس پہلو پر بحث و مباحثے ہو رہے ہیں کہ گجرات اسمبلی کے انتخابات قومی سیاست پر کس طرح اثر انداز ہونگے۔ بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ اگر مودی کی شکست ہوئی تو یہ صرف مودی کے لیے ہی نہیں بی جے پی کی قومی سیاست کے لیے بھی ایک بڑا دھچکا ثابت ہوگی ۔ لیکن اگر مودی دوبارہ جیت گئے تو اس سے نہ صرف مودی کی پوزیشن مستحکم ہوگی بلکہ آنے والے دنوں میں وہ قومی سیاست میں بھی اہم کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ مودی کے بڑھتے ہوئے سیاسی قد سے خود بی جے پی کے اندر بھی بحث و مباحثے ہو رہے ہیں ۔ پارلیمانی انتخابات سے ڈیڑھ برس قبل گزشتہ ہفتے ایل کے اڈوانی کو اچانک وزیر اعظم کے عہدے کا امیدوار بنانے کااعلان کیے جانے کو بھی بی جے پی کی قومی قیادت میں اسی گبھراہٹ سے تعبیر کیا جا رہا ہے کہ اگر گجرات میں مودی منتخب ہوئے تو بی جے پی کے اندر کئی حلقوں کی جانب سے ان پر دلی کی سیاست میں سرگرم ہونے کے لیے دباؤ بڑھے گا۔ چینیوں کا جواب نہیں اس بار گجرات کے انتخابات میں ایک خاص بات یہ دیکھنے کو ملی کہ پوری ریاست میں ہر جگہ وزیراعلیٰ نریندر مودی کا ’ماسک‘ یعنی مکھوٹا فروخت ہوتا ہوا نظر آیا ۔مختلف انداز میں مودی کے ماسک لاکھوں کی تعداد میں ان کے حامیوں میں تقسیم کیے گیے تھے۔ مودی کے انتخابی جلسوں میں ہزاروں لوگ مودی کا مکھوٹا پہنے ہوۓ نظر آتے تھے ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ مودی کے پلاسٹک کے یہ ماسک یا مکھوٹے ہندوستان کی کسی کمپنی نے نہیں بلکہ کھلونے بنانے والی چین کی ایک کمپنی نے بنائے ہیں۔ ایک ہند نژاد امریکی نے ان مکھوٹوں کو چینی کمپنی سے بنوایا تھا۔ ہندوستان میں ترقی کے معاملے میں اکثر چین سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ لیکن چین ہندوستان سے کافی آگے نکل چکا ہے ۔ خود ہندوستان میں بھی چین کے الیکٹرانک کے سامان سے لے کر مودی کے مکھوٹے اور دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں تک چین کی بنی ہوئی دستیاب ہیں۔ افضل کی رحم کی درخواست پر یاد دہانی وزارت داخلہ پارلیمنٹ پر حملے کے معاملے میں سزایاب محمد افضل گرو کی رحم کی درخواست پر دلی حکومت کی رائے جاننے کے لیے یاد دہانی کا ایک خط بھیجنے والی ہے۔ افضل کی اہلیہ تبسم نے گزشتہ برس اکتوبر میں رحم کی اپیل داخل کی تھی۔ جسے صدر مملکت نے اگلے روز ہی دلی کی ریاستی حکومت کے پاس بھیج دیا تھا۔ لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔ اطلاعات کے مطابق دلی کی ریاستی حکومت کے نئے چیف سیکرٹری مقرر ہوئے ہیں ۔اس لیے وزارت داخلہ نے افضل کی رحم کی اپیل پر دلی حکومت کی رائے جاننے کے لیے حکومت کو یاد دہانی کاخط بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔ افضل گرو کو پارلیمنٹ پر حملے کے جرم میں موت کی سزا دی گئی ہے۔ حزب اختلاف کی جماعت بی جے پی افضل کو ابھی تک پھانسی نہ دیے جانے پر مرکزی حکومت پر شدید نکتہ چینی کرتی رہی ہے ۔ ہندوستانیوں کا سپر پاور ہندوستانیوں کی غالب اکثریت یہ سوچتی ہے کہ ہندوستان 2020 تک ایک عالمی طاقت کے طور پر ابھرے گا ۔ جرمنی کے ایک تحقیقی ادارے ’برٹلسمین اسٹفسٹنگ‘ کے ذریعے نو ملکوں میں کیے گئے ایک جائزے کے مطابق 72 فی صد ہندوستانیوں کا خیال ہے کہ آئندہ تیرہ برس میں ہندوستان ایک سپر پاور ہو گا ۔ 59 فی صد امریکی یہ مانتے ہیں کہ امریکہ کی عالمی لیڈر کی کی حیثیت برقرار رہے گی ۔ جبکہ صرف 39 فی صد چینی یہ سوچتے ہیں کہ آئندہ تیرہ برسں میں چین ایک سپر پاور ہوگا۔ ایک دلچسپ پہلو یہ کہ دوسرے ملکوں میں ایسے لوگوں کی تعداد صرف 29 فی صد ہے جو ہندوستان کو آئندہ تیرہ برسوں میں ایک سپر پاور کے طور پر دیکھتے ہیں ۔اس جائزے کے مطابق ہندوستان اقتصادی اور عالمی حیثیت کےاعتبار سے امریکہ ، چین ، روس ۔یوروپی یونین اور جاپان کے بعد چھٹے نمبر پر رہا ۔ پرائمری کے یہ ٹیچر، ماشا اللہ ہندوستان میں سبھی تک تعلیم پہنچانےکے مقصد کے تحت جو مختلف اسکیمیں نافذ کی گئیں ان کا خاطر خواہ نتیجہ برآمد ہوا ہے اور پرائمری اسکولوں میں بچوں کی تعداد میں زبردست اضافہ ہو رہا ہے ۔ لیکن ان اسکولوں میں ٹیچروں کی تعلیمی اہلیت پر شدید تشویش پیدا ہو گئی ہے ۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ ایڈ منسٹریشن کے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ابتدائی اسکولوں کے تقریباً سینتالیس لاکھ ٹیچرز میں نصف سے زیادہ ایسے ہیں جنہوں نے ہائر سکنڈری یعنی بارہویں درجے سے زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی ہے ۔ اس مطالعے کے مطابق ایک تہائی ٹیچرز ایسے ہیں جو صرف دسویں پاس ہیں۔ اہم بات یہ کہ یہ صورتحال گجرات، کرناٹک، مہاراشٹر، کیرالہ اور مغربی بنگال جیسی تعلیم میں آگے رہنے والی ریاستوں میں زیادہ بری ہے۔
science-40155567
https://www.bbc.com/urdu/science-40155567
پاکستان میں جنگلات کا رقبہ کیوں تیزی سے کم ہو رہا ہے؟
پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے ضلع دیامر سے تعلق رکھنے والے گل محمد کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ ایک درخت کاٹنے سے کتنا نقصان ہو سکتا ہے۔ انھیں اگر فکر ہے تو اپنے پیٹ کی کیونکہ پہاڑوں میں رہتے ہوئے ان کے پاس نہ تو کوئی روزگار ہے اور نہ ایندھن کا کوئی دوسرا ذریعہ جس سے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکیں۔
بیشتر جنگلات مقامی لوگوں کی ملکیت ہے اور شاید اسی کا فائدہ اٹھاکر ٹمبر مافیا یہاں جنگلات کی بے دریغ کٹائی کررہی ہے: خان محمد قریشی لہٰذا ان کا یہ معمول ہے کہ ہر ہفتہ یا دس دنوں میں وہ اپنے گزر بسر کے لیے گاؤں کے پہاڑوں میں جاکر ایک درخت کاٹ کر گھر لاتا ہے جسے وہ ایندھن کے طورپر استعمال کرتا ہے یا پھر اسی درخت کو فروخت کردیتا ہے۔ گل محمد کا کہنا ہے کہ ان کا گاؤں پہاڑوں کے درمیان میں واقع ہے جہاں اکثریتی افراد کے پاس روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'یہاں کوئی بجلی نہیں، گیس نہیں اور نہ دیگر زندگی کے بنیادی سہولیات میسر ہیں لہٰذا گھر کا چولہا چلانے اور پیٹ پالنے کےلیے یہاں کے لوگ درخت نہیں کاٹیں گے تو اور کیا کریں گے۔' گل محمد کے مطابق 'یہاں شہر سے لوگ آتے ہیں جو ہم سے نو سو یا ہزار روپے میں ایک ایک درخت خریدتے ہیں اور پھر وہ اپنے ساتھ گاڑیوں میں لے کر جاتے ہیں۔' پاکستان میں ماہرین کے مطابق گذشتہ چند سالوں میں جنگلات کی غیر قانونی کٹائی عروج پر رہی جس سے مجموعی طورپر ملک بھر میں جنگلات کا رقبہ تیزی سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا شمار اب دنیا کے ان ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں جنگلات پر تحقیق کرنے والے سرکاری تدریسی ادارے پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ کےمطابق ملک میں 90 کی دہائی میں 35 لاکھ 90 ہزار ہکٹر رقبہ جنگلات پر مشتمل تھا جو دو ہزار کی دہائی میں کم ہو کر 33 لاکھ 20 ہزار ہیکٹر تک رہ گیا۔ ادارے کے مطابق 2002 میں جنگلات کا رقبہ بڑھ کر 45 لاکھ ہیکٹر تک پہنچا یعنی مجموعی طورپر ملک میں پانچ اعشاریہ ایک فیصد رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے تاہم جنگلات پر کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے ایف اے او اور دیگر اہم غیر ملکی ادارے ان اعداد و شمار کو درست نہیں مانتے۔ ان کے مطابق پاکستان میں گذشتہ ایک دہائی سے مسلسل ہر سال جنگلات کا رقبہ کم ہوتا جارہا ہے جس کے تحت یہ رقبہ کل رقبے کے تین فیصد تک رہ گیا ہے۔ دیامر کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں جگہ جگہ کٹے ہوئے درختوں کے سر نظر آتے ہیں پاکستان میں زیادہ تر جنگلات گلگت بلتستان، خیبر پِختونخوا اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں پائے جاتے ہیں جبکہ گلگت بلتستان میں 70 فیصد جنگلات صرف ضلع دیامر میں پائے جاتے ہیں۔ اس ضلع کی سرحدیں خیبر پختونخوا سے ملتی ہے۔ دیامر میں ماحولیات پر کام کرنے والے غیر سرکاری تنظیم ہمالیہ کنزرویشن ڈویلپمینٹ کے ڈائریکٹر خان محمد قریشی کا کہنا ہے کہ ان کے ضلع میں بیشتر جنگلات مقامی لوگوں کی ملکیت ہیں اور شاید اسی کا فائدہ اٹھاکر ٹمبر مافیا یہاں بےدریغ کٹائی کررہی ہے۔ انھوں نے الزام لگایا کہ 'ٹمبر مافیا' کے افراد سادہ لوح دیہاتیوں سے ان کا خون درختوں کی کاٹنے کی صورت میں چوس رہے ہیں کیونکہ درخت یہاں کی سب سے بڑی دولت ہے جو ان کےلیے خون کا کام کرتی ہے۔ ‘ ان کے مطابق جنگلات کے کاٹنے اور اگانے کے ضمن میں مقامی لوگوں اور حکومت کے درمیان کئی معاہدے بھی موجود ہیں لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا بلکہ بعض صورتوں میں ٹمبر مافیا ان کا سہارا لے کر علاقے کو بنجر بنا رہی ہے۔ گل محمد کے مطابق 'یہاں شہر سے لوگ آتے ہیں جو ہم سے نو سو یا ہزار روپے میں ایک ایک درخت خریدتے ہیں دیامر کے دور افتادہ پہاڑی علاقوں میں جگہ جگہ کٹے ہوئے درختوں کے سر نظر آتے ہیں جس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس علاقے میں کس بےدردی سے درختوں کو کاٹا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ چلاس اور دیگر شہری علاقوں میں جگہ جگہ سڑک کے کنارے درختوں کے ڈھیر نظر آتے ہیں جہاں ان کی کھلے عام خرید و فروخت بھی جاری ہے۔ بعض مقامات پر کٹے ہوئے درختوں کی مارکیٹ تک رسائی بھی آسان ہے اور ان کی نقل و حمل پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں جس سے ملکی قوانین اور حکومتی اداروں کے کردار پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ گلگت بلتستان میں ادارہ برائے تحفظ ماحولیات (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے انچارج ڈاکٹر بابر خان کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک میں 25 فیصد رقبے پر جنگلات کا ہونا ضروری ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں یہ رقبہ چار فیصد تک رہ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جنگلات کے کاٹنے سے نہ صرف لوگوں کی ذاتی زندگی متاثر ہو رہی ہے بلکہ اس سے مجموعی طورپر سماج پر بھی اثرات پڑ رہے ہیں۔ بعض مقامات پر کٹے ہوئے درختوں کی مارکیٹ تک رسائی بھی آسان ہے اور ان کی آمد و فت پر کوئی روک ٹوک بھی نہیں ان کے بقول 'جنگلات ہماری زندگی ہیں اور اسے بچانے کےلیے ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانا ہو گی ورنہ آنے والے دنوں میں ان کے بھیانک نتائج سے ہم خود کو بچا نہیں پائیں گے۔' پاکستان میں جنگلات کا تیزی سے خاتمہ ایک انتہائی اہم اور سنگین معاملہ ہے لیکن یہ مسئلہ جتنا اہم ہے اتنی سنجیدگی حکومتی ایوانوں میں نظر نہیں آتی۔ تاہم بیشتر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک دور دراز پہاڑی علاقوں میں مقامی آبادی کو روزگار اور توانائی کے متبادل ذرائع فراہم نہیں کیے جاتے اس وقت تک جنگلات کی غیرقانونی کٹائی روکنا ممکن نہیں۔
world-54533000
https://www.bbc.com/urdu/world-54533000
ایڈا لوو لیس ڈے: ٹیکنالوجی سے وابستہ خواتین جن کے لیے یہ سال مشکل رہا
کاروان سے کچن میں کام کرنے والی تک اور پاڈ کاسٹ بنانے سے حاملہ خواتین تک میں نے ٹیکنالوجی سیکٹر میں اور اس کے گرد کئی خواتین سے بات کی کہ انھوں نے کورونا وائرس کی وبا کے دوران درپیش چیلنجز کا سامنا کیسے کیا۔
محققین کا کہنا ہے کہ وبا کے دنوں میں دنیا بھر میں خواتین پر ان کی ملازمت کے ساتھ ساتھ خاندان اور گھریلو ذمہ داریاں مردوں کی کی نسبت زیادہ ہیں۔ اس بارے میں ان خواتین نے ہمیں اپنے رجحانات، مایوسیوں اور امیدوں کے متعلق بتایا ہے۔ ان میں سے ایک خاتون کلیئر مسکٹ کا کہنا ہے 'میرا نیا کاروبار ہے اور ایک نئی زندگی ہے۔' لاک ڈاؤن کی وجہ سے انھیں اپنے کام اور رشتے گنوانے پڑے۔ اس منگل کو (Ada Lovelace Day) ایڈا لوولیس ڈے منایا جا رہا ہے، یہ سائنس، ٹیکنالوجی، انجینیئرنگ اور ریاضیات کی دنیا میں مردوں کے غلبے میں کام کرنے والی خواتین کے سالانہ جشن کا دن ہے۔ اور رواں برس یہ کافی مشکلات کا احوال لیے ہوئے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے شہرزاد: خالی ہاتھ کینیڈا آئیں اور ویڈیو کمپنی کی مالک بن گئیں امریکی انتخابات میں حصہ لینے والی انڈین اور پاکستانی خواتین نیُو شُو: چین میں خواتین کے لیے مخصوص خفیہ زبان ورشا امین، ٹیکنالوجی اینڈ ڈیجیٹل سکل کوچ، ہیمشائر ’شروع میں ایسا لگا کہ کاروبار رک سا گیا ہے۔ میرا اعتماد بھی ختم ہو گیا۔ اب میں مکمل طور پر آن لائن کام کرتی ہوں اور اس کے لیے مجھے ٹیکنالوجی سے مدد مل گئی ہے۔ بہت عجیب بات ہے لیکن میرا خیال ہے کہ میں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔ میں نے مہنیوں بعد تک کی بکنگ کر رکھی ہے۔‘ ڈیجیٹل مہارت کی کمی معیشت کو اربوں کا نقصان پہنچا رہی ہے۔ لوگ حتیٰ کہ بہت سی کمپنیاں پیچھے رہ گئی ہیں۔ اس پر کووڈ کی پیچیدگیاں، ایسا لگتا ہے ہر چیز پیچھے کی طرف جا رہی ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی تیزی سے ترقی کر رہی ہے۔ ’میں ڈیسیکسیا کی مریض ہوں اس لیے مجھے یہاں پہنچنے کے لیے ٹیکنالوجی کی مدد چاہیے۔ میرا پختہ یقین ہے کہ ٹیکنالوجی کسی کو بھی اس قابل کر سکتی ہے کہ وہ کہیں بھی اپنا کاروبار شروع کر سکے اور اسے کامیاب بنا سکے۔‘ ’میرے شوہر ایک نیورو سائنٹیسٹ (اعصابی نظام کے سائنسدان) ہیں۔ جب کووڈ آیا تو وہ اس کے خلاف لڑائی میں صف اول پر کام کر رہے تھے اور ہمارے پاس بچوں کی دیکھ بھال کے لیے کوئی مدد بھی نہیں تھی۔‘ ’ایسے بھی دن آئے جب میں اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھی رو رہی تھی۔ معاملات میں توازن قائم کرنا مشکل ہو رہا تھا۔ ستمبر میں میری بیٹی سکول جانے لگی۔ آگے چل کر جب وہ زیادہ خود مختار ہونے لگے گی تو میں اپنے کاروبار پر پوری توجہ دے سکوں گی۔‘ جیس ریٹی، ٹیکنالوجی تعلقات عامہ کمپنی کی بانی، کارن وال کارن وال سے تعلق رکھنے والی جیس ریٹی ایک ٹیکنالوجی کمپنی کی بانی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ میری زندگی کا مشکل ترین سال ہے۔ لاک ڈاؤن کے آعاز پر ہی میں نے صرف دو دن میں اپنے کاروبار کا 40 فیصد گنوا دیا۔‘ ’میں نے اپنا مقصد حاصل کرنے کے لیے بہت محنت کی۔ میں ایک وبا کے ہاتھوں سب کچھ گنوانے کی وجہ سے سخت غصے میں تھی۔ میں اپنے صارفین کو مسلسل نظر آنے کے لیے گھنٹوں تک زیادہ سے زیادہ کام کرتی تھی۔ ‘ ’مجھے خوف تھا کہ اگلے ہفتے میں کچھ اور گنوا دوں گی۔ لیکن اب میرے پاس 60 فیصد زیادہ کام ہے۔ ‘ ’میں گھر سے کام کرتی ہوں۔ لیکن میرا سب سے بڑا مسئلہ میری آٹھ سال کی بیٹی کا سکول بند ہونے جانے کے باعث ہمہ وقت میرے ساتھ ہونا تھا۔ ہم جانتے تھے ایسا ہوگا لیکن یہ سب بہت تیزی سے ہو گیا۔ کام کے ساتھ ساتھ بچوں کا خیال کرنا کافی مشکل کام تھا۔ لاک ڈاؤن سے پہلے میں شاید اسے ناممکن قرار دیتی۔‘ ’مجھے یہ کہتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ اس نے اپنا زیادہ وقت نیٹ فلیکس اور ڈزنی دیکھتے ہوئے گزارا۔ لیکن میں ہی کمانے والی تھی اور میرے پارٹنر گھر کی تزئین میں مصروف تھے اور اس کی تکمیل تک ہم ایک گاڑی میں بنے کمرے میں مقیم تھے۔‘ ’اب میں ایک نیا کاروبار شروع کرنے لگی ہوں اور اس مرتبہ یہ تدریسی ٹیکنالوجی سے متعلق ہو گا۔ میں جتنا ممکن ہو سکے چیزیں کرنا چاہتی ہوں تاکہ اپنے قریبی لوگوں کو بچا سکوں اور آئندہ 'ناممکنات' سے نمٹنے کے لیے تیار رہ سکوں۔‘ کلیئر مسکٹ، ایسیکس ’جو میں کیا کرتی تھی وہ اب نہیں ہوتا۔ میں اپنے خوابوں کی زندگی اور کرئیرمیں جی رہی تھی۔ اور میں نے اس کے حصول کے لیے کاروباری دنیا کو ترک کیا تھا۔ اور وبا کے آتے ہی سب ختم ہو گیا۔‘ ’میرے صارفین جن کے ساتھ میرا کام طے تھا انھوں نے غیر ضروری اخراجات سے منع کر دیا۔ اس کے بعد میرا رشتہ ختم ہو گیا۔ میرے بہترین دوست نے میرا گھر چھوڑ دیا۔ اور اچانک میرا دوسرے لوگوں کے ساتھ رابطہ صرف زوم پر ہی رہ گیا تھا۔‘ میں نے ایسی خواتین سے بات کی جو میری فیلڈ کی تھیں اور ہم نے اپنے احساسات بانٹنے شروع کیے۔ اس سے مجھے خیال آیا کہ ’میں اس انداز گفتگو کو دنیا کے سامنے کیسے لاؤں تاکہ دوسروں کو بھی اس سے تحریک ملے۔‘ ’یہ مجھے پاڈ کاسٹگ کی طرف لے گیا۔ ایک برے تجربے کے بعد میں نے خود کو سکھایا کہ کیسے پروڈکشن کرنی ہے۔ اب میرے بل ادا ہو رہے ہیں اور پاڈ کاسٹ کے ذریعے میں اپنی ایک آن لائن کمیونٹی بنا رہی ہوں۔ وبا سے پہلے میں مستقبل کے لیے جیتی تھی اور ہر وقت کسی بڑی تقریب یا دورے کے لیے منتظر رہتی تھی۔ ‘ وہ کہتی ہیں کہ ’اب مجھے نہیں پتا مستقبل میں کیا ہو گا چیزیں واپس پہلے جیسی ہوں گی یا نہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بھی ٹھیک ہے کیونکہ اب میرے پاس ایک نیا کاروبار ایک نئی زندگی ہے۔‘ ریبیکا سائبر سکیورٹی سپیشلسٹ، آئر لینڈ ’میں پہلے گھر سے کام کرتی تھی لاک ڈاؤن کے آغاز کے دنوں میں مجھے نہیں لگا کے یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ ہے۔ لیکن پھر احساس ہوا کہ کچن کی میز پر بیٹھ کر کام کرنا بہت مشکل ہے، پھر میں نے اپنی ایک دوست سے ایک پرانا ڈیسک لیا اور میں بہت خوش تھی۔‘ ’جب سے لاک ڈاؤن کا آغاز ہوا تب سے انٹرنیٹ پر سائبر سکیورٹی کے بہت سے مسائل سامنے آنے لگے ہیں کبھی کسی بینک میں جمع کروائی گئی کسی رسید کے اصل ہونے کا مسئلہ ہوتا تو کبھی معمولی رقم کی منتقلی ایک اکاؤنٹ سے دوسرے میں ہوتی اور کبھی چھوٹی سی رقم واپس حاصل کرنا مشکل ہو جاتا۔‘ ’میں اپنے پہلے بچے کے ساتھ چار ماہ کی حاملہ تھی مجھے نئے کپڑے چاہیے تھے لیکن جب آپ دکان پر جاتے ہیں تو آپ کوئی چیز پہن کر ٹرائی نہیں کر سکتے اور مجھے اس بات کا بالکل اندازہ نہیں تھا کہ میرا سائز کیا ہو چکا ہے۔ میرے باہر جانے کے اوقات بھی محدود ہو گئے تھے۔ میں گاڑی نہیں چلاتی تھی۔ مجھے کام کے ساتھ سب کچھ کرنا تھا، ہم مصروف اوقات میں باہر نہیں جاتے تھے کیونکہ قطاروں میں کھڑا ہونا بہت تھکا دینے والا عمل تھا۔‘ ’مجھے ایسا لگا کہ میں نے اپنی آزادی کھو دی ہے۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں کسی دوسرے والدین سے تب تک نہیں مل سکوں گی جب تک میرے بچوں کا سکول شروع نہیں ہو جائے گا۔‘ گلیری براڈلے، ٹیکنیکل رائٹر، لیڈز ’لاک ڈاؤن سے پہلے میں اور میرے شوہر اپنی کمپنی چلاتے تھے جس میں ہم صارفین کی رہنمائی اور ویب سائٹ کے لیے مواد لکھا کرتے تھے۔ لاک ڈاؤن کے دوران ہماری آمدن میں دو تہائی کمی ہو گئی، ہم قانونی طور پر کسی قسم کی حکومتی مدد کے بھی مستحق نہیں تھے اور چونکہ ہمارے پاس کام بھی بہت کم تھا ہم چھٹیوں پر بھی نہیں جا سکتے تھے۔‘ ’مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ ہم دھیرے دھیرے کسی کھائی کے دہانے پر پہنچ رہے ہیں۔ لیکن مجھے انتہائی حیرت اور خوشی ہوئی جب مئی میں مجھے میری خواہش کے مطابق ملازمت کی پیشکش ہوئی اور وہ تھی انٹرنیٹ اور ٹیکنالوجی کے لیے گھر سے بیٹھ کر مواد لکھنا۔ گھر میں رہ کر بچوں کی موجودگی میں کام کرنا ایسا مشکل ترین کام تھا جو ہم نے کیا۔‘ ’میرا بیٹا سات سال کا ہے اور وہ بہت خوفزدہ ہے۔ ہم کبھی کبھار اس کے ساتھ وقت نہیں گزار سکتے مگر ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے گھر میں ٹی وی دیکھنے کے اوقات کے لیے بنے اصول ختم ہو چکے تھے۔ ہمارے لیے اصل مسئلہ ٹیسٹ کروانے کا تھا۔ میری چھوٹی بیٹی کو جولائی میں کووڈ ہو گیا اور اسے حال ہی میں دوبارہ بخار ہو گیا لیکن ٹیسٹ کے رزلٹ آنے میں چھ دن لگ اور میرے بیٹے کو پھر سے سکول سے چھٹی کرنا پڑی۔ میرے شوہر آدھی رات تک کام کرتے ہیں تاکہ چیزوں کو ٹھیک کیا جا سکے۔‘ سو چارمن انیڈرسن، بانی ایڈا لوو لیس ڈے، امریکہ وہ کہتی ہیں کہ ایڈا لولیس ڈے کے لیے ’ہم عموماً وسطی لندن میں کیبرے انداز کی تقریب منعقد کرتے ہیں۔ اب ہم نے اس کی جگہ پانچ مفت ویبینارز منعقد کیے ہے اور 50 گھنٹے کی آن لائن ایکسٹرا وگینزا منعقد کی جا رہی ہے جس میں بلاگ، سوشل میڈیا پوسٹ اور یوٹیوب کی پلے لسٹ شامل کی گئی۔‘ ’ہم اپنی آن لائن کانفرنس منعقد کر رہے ہیں ہیں جو کہ 29 ممالک میں چلے گی۔ مجھے لائیو سٹریمنگ سروسز اور کانفرنس کے پلیٹ فارم کے لیے چیزوں کو دیکھنا ہے جس کے بارے میں شاید پہلے کبھی بھی نہیں سوچتی تھی۔‘ یہ کافی تھکا دینے والا کام ہے کہ کس طرح سے آن لائن ایونٹس منعقد کیے جائیں جو مناسب قیمت پر بھی ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ جو اضافی کام ہے اسے بھی برداشت کیا جائے۔ ’اس وبا کی وجہ سے ہماری آمدن پر بہت برا اثر پڑا ہے ہے کیونکہ اب کمپنیوں کے پاس تقریبات کو سپانسر کرنے کے لیے خرچ کی رقم کم ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ ہمیں اس مندی کا مقابلہ کیسے کرنا ہے لیکن اس سب کے باوجود میں جو کر رہی ہو اس کے لیے بہت پرجوش ہوں۔ ‘ ’وبا نے ہمیں ہر چیز کے بارے میں دوبارہ سوچنے پر مجبور کیا ہے اور کچھ تبدیلیاں جو اب ہم نے کی ہیں وہ شاید مستقل طور پر رہیں۔ سنہ 2020 ایک مشکل دور ہے اور ابھی ہم اس مشکل سے باہر نہیں آئے لیکن مجھے امید ہے کہ یہ ہمیں مضبوط بنائے گا اور ہم مزید خواتین تک پہنچ کر ان کی بھی مدد کر سکیں گے۔‘
regional-50981268
https://www.bbc.com/urdu/regional-50981268
غریب گھرانے سے قدس فورس کی کمان تک: جنرل قاسم سلیمانی کی زندگی تصاویر میں
عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو عموماً شہرت کی چکاچوند سے دور رہنے والی شخصیت سمجھا جاتا تھا تاہم حالیہ برسوں میں وہ کھل کر سامنے آئے جب انھیں ایران میں داعش کے خلاف اپنی کارروائیوں کی بدولت شہرت اور عوامی مقبولیت ملی۔ وہ شخص جنھیں چند سال پہلے تک بہت سے ایرانی شہری راہ چلتے پہچان بھی نہیں سکتے تھے، دستاویزی فلموں، ویڈیو گیمز، خبروں اور پاپ گیتوں کا موضوع بن گئے۔
ایران میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد اگر کسی شخصیت کو طاقتور سمجھا جاتا تھا تو وہ جنرل قاسم سلیمانی ہی تھے تہران میں ایک تقریب کے دوران ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی سے ملتے ہوئے دکھایا گیا ہے (3 جنوری 2020 کو جاری کی گئی اس تصویر کی تاریخ نہیں بتائی گئی) 62 سالہ قاسم سلیمانی کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور انھوں نے واجبی سی باقاعدہ تعلیم حاصل کی تھی لیکن پاسدارانِ انقلاب میں شمولیت کے بعد وہ تیزی سے اہمیت اختیار کرتے گئے۔ 1980 سے 1988 تک جاری رہنے والی ایران عراق جنگ میں قاسم سلیمانی نے اپنا نام بنایا اور جلد ہی وہ ترقی کرتے کرتے سینیئر کمانڈر بن گئے۔ کرشماتی شخصیت کے مالک سمجھے جانے والے جنرل سلیمانی کو جہاں پسند کرنے والے بہت تھے وہاں ناپسند کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی اور ان کے شخصیت کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کرتی تھیں۔ یہ تصویر 8 مارچ 2015 کو صوبہ صلاح الدین کے قصبے میں نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے دوران لی گئی 1998 میں قدس فورس کے کمانڈر بننے کے بعد سلیمانی نے بیرونِ ملک خفیہ کارروائیوں کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے اثر میں اضافہ کرنا شروع کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے اتحادی گروہوں کو ہر ممکن مدد فراہم کی اور ایران سے وفادار ملیشیاؤں کا ایک نیٹ ورک تیار کر لیا۔ 4 جون 2019 کو ایرانی سپریم لیڈر کے دفتر سے جاری کیے گئے تصاویر بیں بائیں جانب ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی اور دائیں جانب ملیشیا کمانڈر ابو مہدی المہندس بغداد میں ہشید الشابی جنگجوؤں کے جنازے میں شریک ہیں۔ پاسدارانِ انقلاب کے مطابق امریکی ڈرون حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والوں میں عراقی ملیشیا کے کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی شامل ہیں کہا جاتا ہے کہ اپنے کیریئر کے دوران قاسم سلیمانی نے عراق میں شیعہ اور کرد گروپوں کی سابق آمر صدام حسین کے خلاف مزاحمت میں مدد کی جبکہ وہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطینی علاقوں میں حماس کے بھی مددگار رہے۔ 2003 میں عراق پر امریکی جارحیت کے بعد انھوں نے وہاں سرگرم گروپوں کی امریکی اڈوں اور اس کے مفادات کو نشانہ بنانے کے سلسلے میں رہنمائی بھی کی۔ 27 مارچ 2015 کو لی گئی اس تصویر میں جنرل قاسم سلیمانی تہران میں ایک مذہبی تقریب میں شریک ہیں انھیں اس بات کا کریڈٹ بھی دیا جاتا ہے کہ انھوں نے شام کے صدر بشارالاسد کو ان کے خلاف 2011 میں شروع ہونے والی مسلح مزاحمتی تحریک سے نمٹنے کے لیے حکمتِ عملی بھی بنا کر دی۔ ایران کی اس مدد اور روسی فضائی مدد نے ہی بشارالاسد کو باغی فوج کے خلاف جنگ میں پانسہ پلٹنے میں مدد دی۔ جنرل قاسم سلیمانی (بائیں) 8 مارچ 2015 کو صوبہ صلاح الدین کے قصبے میں نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے دوران محاذ پر ایران میں رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد اگر کسی شخصیت کو طاقتور سمجھا جاتا تھا تو وہ جنرل قاسم سلیمانی ہی تھے۔ 10 ستمبر 2019 کو لی گئی اس تصویر میں ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای، عراق میں مہدی ملیشیا کے سربراہ مقتدی الصدر اور ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی تہران میں محرم کی ایک مجلس میں شریک ہیں 2013 میں سی آئی اے کے سابق اہلکار جان میگوائر نے امریکی جریدے دی نیویارکر کو بتایا تھا کہ سلیمانی 'مشرقِ وسطیٰ میں سب سے طاقتور کارندے تھے۔' 8 مارچ 2017 کو لی گئی اس تصویر میں نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے عسکریت پسندوں کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے دوران جنرل قاسم سلیمانی کو صوبہ صلاح الدین کے قصبے تل قصیبہ میں فرنٹ لائن پر ایک بکتر بند گاڑی کے قریب دیکھا جا سکتا ہے پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ کے طور پر سلیمانی مشرقِ وسطیٰ میں اپنے ملک کی سرگرمیوں اور عزائم کے منصوبہ ساز اور جب بات امن یا جنگ کی ہو تو ایران کے اصل وزیرِ خارجہ تھے۔ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ردعمل میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ 27 مارچ 2015 کو لی گئی اس تصویر میں جنرل قاسم سلیمانی کو آیت اللہ علی خامنہ ای کے ساتھ ایک مجلس میں شریک دیکھا جا سکتا ہے انھیں شام کے صدر بشارالاسد کی ملک میں باغیوں کے خلاف جنگ، عراق میں ایران نواز شیعہ ملیشیاؤں کے عروج، شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ کے خلاف جنگ کے علاوہ اور بہت سے کارروائیوں کا ذمہ دار بھی سمجھا جاتا تھا۔ جنرل قاسم سلیمانی 11 فروری 2016 کو تہران میں اسلامی انقلاب کی 37 ویں برسی کی تقریبات کے موقع پر کرشماتی شخصیت کے مالک سمجھے جانے والے جنرل سلیمانی کو جہاں پسند کرنے والے بہت تھے وہاں ناپسند کرنے والوں کی بھی کمی نہیں تھی اور ان کے شخصیت کے بارے میں کئی کہانیاں گردش کرتی تھیں۔ ۔
051014_indian_armyloc
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051014_indian_armyloc
بھارتی فوج کی مدد پر اتنا وبال کیوں؟
بھارت کے اس دعوے کہ اس نے لائن آف کنٹرول پر پاکستانی فوج کے زلزلے میں ٹوٹ جانے والے بنکر دوبارہ بنانے میں مدد کی اور پاکستان کی تردید کہ یہ 'من گھڑت' ہے کے بعد اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کشمیر میں زلزلے کے متاثرین کی مدد کے لیے کس حد تک تعاون کرنے کو تیار ہیں۔
یہ ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور پاکستان اور بھارت دونوں ہی اپنے موقف پر قائم ہیں۔ بھارتی فوج کا کہنا ہے کہ ان کے اہلکاروں نے پاکستانی فوجیوں کی مدد کے لیے ایل او سی پار کی جو بنکر ٹوٹ جانے کے بعد شدید سردی میں کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور تھے۔ بھارت میں ان اطلاعات کو خاصی اہمیت دی گئی اور بعض جگہوں پر شہ سرخیوں میں بھی چھاپہ گیا۔ لیکن اب پاکستانی حکام کہہ رہے ہیں کہ ایسا نہیں ہوا۔ پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل شوکت سلطان نے اسے ' خالصتاً من گھڑت' قرار دیا۔ کئی دہائیوں سے ایل او سی پاکستان اور بھارتی فوج کے درمیان متواتر ہونے والی جھڑپوں کا مقام رہا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان قیام امن کے عمل کی شروعات کے بعد سے لائن آف کنٹرول پر کشیدگی میں کمی آئی ہے اور اس میں بہتر رابطوں نے مدد کی ہے۔ لیکن اب بھی بہت فاصلہ طے ہونا ہے۔ پاکستان نے بھارت سے کمبل، خیمے اس طرح کی دیگر امداد قبول کی ہے لیکن وہ ہیلی کاپٹروں کی پیشکش مسترد کر رہا ہے۔ فوج کا رتبہ اور کارکردگی دونوں ممالک کے لیے وقار کا مسئلہ ہے۔ پاکستانی علاقے میں بھارت فوجیوں کی لوگوں کی مدد کرتے ہوئے تصاویر اسلام آباد کے لیے سیاسی پشیمانی کا باعث ہو سکتی ہیں۔ قیام امن کا عمل اب تک طے شدہ راستے پر جاری ہے لیکن اس کا مستقبل غیر یقینی ہے۔ پاکتسان کے صدر جنرل پرویز مشرف کی مشکل یہ ہے کہ ایک طرف سیاسی قیمت ہے اور دوسری طرف متاثرین کی فلاح۔ بہت سے بھارتی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر معاملہ اس کے بر عکس ہوتا اور زلزلہ بھارت میں آتا تو بھارت بھی شاید امداد قبول نہ کرتا۔
regional-55599931
https://www.bbc.com/urdu/regional-55599931
انڈیا میں قدیم شہروں کے ناموں کی تبدیلی: کئی بادشاہوں کا دارالحکومت رہنے والے ’اورنگ آباد‘ کا نام سمبھاجی نگر کیوں کیا جا رہا ہے؟
'اس سرزمین نے بے تحاشا تباہی دیکھی ہے، اس کے جسم بے شمار زخموں سے چھلنی ہے، ان سب کے باوجود حیدرآباد کوئی مثال نہیں ہے۔' حیدرآباد کے بارے میں یہ قول راگھویندر عالم پور کا ہے۔ لیکن یہاں آپ اورنگ آباد کو حیدرآباد کی جگہ پر رکھ سکتے ہیں۔ باقی سب ایک جیسا ہے۔
اورنگ آباد اور حیدرآباد میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ دونوں شہر کثیر الجہت ثقافت اور حسن اخلاق کے لیے مشہور ہیں۔ اورنگ آباد کبھی دکن میں طاقت کا مرکز تھا۔ یہ بہت سی سلطنتوں کا دارالحکومت رہا ہے۔ جب نظام خاندان نے اپنے اقتدار کی بنیاد رکھی تو اورنگ آباد نے کافی اہمیت حاصل کرلی۔ اگرچہ نظام کا دارالحکومت حیدرآباد تھا لیکن اورنگ آباد کو دوسرا دارالحکومت ہونے کا شرف حاصل تھا۔ یہ بھی پڑھیے ایک سکھ گرو کی برسی پر مغل بادشاہ اورنگزیب کا چرچا کیوں؟ انڈیا میں ’اسلامی‘ ناموں کے خلاف ’جنگ‘ کیا اورنگزیب واقعی ہندوؤں سے نفرت کرتے تھے؟ چونکہ یہ نظام کی سلطنت کے نواح میں سب سے بڑا اور اہم شہر تھا لہذا اس کو مخصوص درجہ حاصل تھا۔ لیکن آج حیدرآباد اورنگ آباد دونوں ایک بار پھر سرخیوں میں ہیں۔ حیدرآباد کا نام 'بھاگیہ نگر' اور اورنگ آباد کا نام 'سمبھاجی نگر' رکھنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ لو اورنگ آباد 'لو اورنگ آباد' اور 'سپر سمبھاجی نگر' اورنگ آباد سٹی اور اورنگ آباد ضلع کا نام تبدیل کرنے کی بحث تھوڑے تھوڑے وقفے سے اٹھتی رہتی ہے۔ حال ہی میں اورنگ آباد شہر میں جگہ جگہ 'لو اورنگ آباد' اور 'سپر سمبھاجی نگر' لکھے ہوئے سائن بورڈز نظر آئے۔ اس نے ایک بار پھر شہر کے نام پر تنازع کو ہوا دی اور کئی سیاسی جماعتیں اس میں کود پڑیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کہنا ہے کہ 'شیوسینا کئی سالوں سے اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ ریاست میں اب شیوسینا اقتدار میں ہے، لہذا اسے شہر کا نام سمبھاجی نگر رکھ کر یہ مطالبہ پورا کرنا چاہیے۔ دوسری طرف کانگریس نے واضح کیا ہے کہ 'وہ شہر کا نام تبدیل کرنے کے کسی بھی اقدام کی شدید مخالفت کرے گی۔' اس معاملے پر کانگریس اور شیوسینا کی مخلوط حکومت کے درمیان فرق ہے۔ وزیر اعلی ادھو ٹھاکرے نے کہا ہے کہ 'اتحاد کی مخلوط حکومت سیکولرازم کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور مغل شہنشاہ اورنگزیب اس خانے میں فٹ نہیں بیٹھتے ہیں۔ وہ سیکولر نہیں تھے۔' ٹھاکرے نے اپنے حالیہ بیانات میں کئی بار اورنگ آباد کو 'سمبھاجی نگر' کہا ہے جس پر کانگریس پارٹی کو اعتراض ہے۔ کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے یہ مسئلہ ترجیحی نہیں ہے۔ اس پر تبادلہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کانگریس پارٹی نام کی تبدیلی کی سیاست کے خلاف ہے جس سے معاشرے میں دراڑ پیدا ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ تاہم کانگریس پارٹی نے بھی واضح کیا ہے کہ انھیں سمبھاجی مہاراج سے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ سپر سمبھاجی نگر مہاراشٹرا نو نرمان سینا نے اورنگ آباد کا نام بدلنے کے لیے جاری مہم کی حمایت کی ہے۔ شیوسینا نے اپنے ترجمان اخبار 'سامنا' میں اپنا مؤقف واضح کردیا ہے۔ سامنا کے اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ 'بالاحصاب ٹھاکرے نے اورنگ آباد کا نام' سمبھاجی نگر 'رکھا تھا اور لوگوں نے اسے قبول کرلیا تھا۔' لیکن اورنگ آباد اکثر مقامی سیاست کی وجہ سے سرخیوں میں رہا ہے۔ اگر ہم شہری انتخابی حلقے پر نگاہ ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ سیاسی جماعتیں اس کو اتنی اہمیت کیوں دے رہی ہیں۔ اس شہر کے نام کا معاملہ بار بار کیوں سامنے آتا ہے؟ دراصل اورنگ آباد میں زیادہ ہندو آبادی ہے لیکن مسلم آبادی بھی کم نہیں ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس کے نام کو سیاسی مقاصد کے لیے تبدیل کرنے کے لیے زور و شور اسے اٹھایا جاتا ہے۔ راجت داگ سے اورنگ آباد تک اورنگ آباد میں مقیم ریٹائرڈ پروفیسر اور مورخ دلاری قریشی کا کہنا ہے کہ 'عام طور پر اورنگ آباد کی معلوم تاریخ صرف یادو خاندان تک ہی محدود رہی ہے لیکن یہاں ستوہنا سلطنت اور اس دور کے شواہد بھی ہیں۔' انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ 'کنہری کے غاروں میں جو کتبے ہیں ان میں ستوہنوں نے اورنگ آباد کا ذکر راجت داگ کے طور پر کیا ہے۔ یہ غاریں اورنگ آباد یونیورسٹی (ڈاکٹر باباصاحب امبیڈکر مراٹھواڑہ یونیورسٹی، اورنگ آباد) میں ہیں۔ دراصل یہ تجارتی راستے میں ایک اہم مرکز تھا۔ یہ تجارتی راستہ اججین مہیشتی-برہان پور-اجنتا-بھوکاردن-راجت داگ-پریٹشٹھان سینٹر سے ہوتا ہوا گزرتا تھا۔' یادووں کے عہد میں دیوگیری یعنی دولت آباد ایک نمایاں مقام بن گیا تھا۔ بعد میں علاؤالدین خلجی نے دولت آباد کے قلعے پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔ دیوگری یا دولت آباد سنہ 1327 میں محمد بن تغلق نے دارالحکومت کو دہلی سے دولت آباد منتقل کرنے کا فرمان جاری کیا تھا۔ بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی۔ لیکن سنہ 1334 میں اس نے اپنا خیال بدل لیا اور دہلی کو دارالحکومت رکھنے کا فیصلہ کیا۔ سنہ 1499 میں دولت آباد احمد نگر کے نظام شاہی کے زیر اقتدار آیا۔ اگلے 137 سال تک دولت آباد نظام کے قبضے میں رہا۔ تغلق کے دور حکومت میں دولت آباد میں تعمیراتی کام چونکہ محمد بن تغلق اپنا دارالحکومت دہلی سے دولت آباد منتقل کرنا چاہتے تھے اس لیے انھوں نے راستے میں کئی جگہوں پر سرائے قائم کی، کنویں کھدوائے اور مساجد بنوائیں۔ اورنگ آباد بھی ایسی ہی ایک جگہ تھی۔ دلاری قریشی کا کہنا ہے کہ تغلق نے اورنگ آباد میں ایک جگہ پر ایک سرائے، کنواں اور مسجد تعمیر کرائی تھی۔ آج اس جگہ کو 'جونا بازار' کہا جاتا ہے۔ کھڈکی اور چکلٹھانا ملک عنبر احمد نگر کے نظام کے وزیر اعظم اور کمانڈر تھے۔ انھوں نے چکلٹھانہ کی لڑائی میں مغلوں کو شکست دی تھی۔ ملک عنبر کو یہ مقام بہت پسند تھا۔ انھوں نے کھڈکی گاؤں کو فروغ دینے کا فیصلہ کیا اور اسی پر اورنگ آباد شہر کی پہلی بنیاد رکھی گئی۔ ملک امبر نے یہاں سڑکیں، پل اور پانی کی فراہمی کے لیے نہریں تعمیر کرائیں۔ انھوں نے نوکھنڈا جیسے محل بھی بنوائے تھے۔ انھوں نے پرتگالیوں کے لیے ایک چرچ بھی بنایا (ملک عنبر جنجیرہ میں اپنے کام کے دوران پرتگالیوں کے رابطے میں آئے تھے)۔ محمد بن تغلق کے دور حکومت مین دولت آباد میں بہت سے تعمیراتی کام ہوئے مسماری کے باوجود وجود قائم رہا مغل بادشاہ جہانگیر نے سنہ 1616 میں کھڈکی پر حملہ کیا اور شہر کو تباہ و برباد کردیا۔ بادشاہ کی افواج نے اتنی تباہی مچا‏ئی کہ شہر کو ہوش میں آنے میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔ ملک عنبر نے اسے دوبارہ بنانے کی کوشش کی لیکن سنہ 1626 میں اس کی موت ہو گئی۔ فتح نگر سے خزیستہ کی بنیاد تک کچھ سالوں کے بعد ملک عنبر کا بیٹا فتح خان کچھ وقت کے لیے کھڈکی آیا۔ تاریخ کے اسکالر پشکر سوہنی کہتے ہیں: 'انھوں نے اس شہر کا نیا نام فتح نگر رکھا۔ لیکن مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے اپنے بیٹے اورنگزیب کو سنہ 1636 میں دکن کا صوبیدار بنا دیا۔ اس وقت اس شہر کا نام تبدیل کر دیا گیا۔' سنہ 1657 کے بعد ، خوزیستہ بنیاد کا نام اورنگ آباد رکھ دیا گیا۔ اورنگ آباد مغل تاریخ میں اتنا ہی اہم ہے جتنا لاہور، دہلی اور برہان پور۔ ملک عنبر اورنگزیب کا پسندیدہ شہر ابتدا میں اورنگزیب کا قیام کچھ دیر دولت آباد میں رہا لیکن بعد میں وہ خوزیستہ بنیاد چلے گئے۔ انھیں یہ جگہ پسند آ گئی، لہذا ایک بڑی تعداد وہاں آکر آباد ہوگئی۔ شہر میں باون پورہ بسائے گئے۔ اس کی قلعہ بندی کی گئی۔ بعد میں اسے دکن کا دارالحکومت بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ملک عنبر کی طرح اورن زیب نے بھی 11 نہریں تعمیر کرائیں۔ دلاری قریشی بتاتی ہیں کہ بہت سارے سیاحوں نے اس شہر کی خوبصورتی کا ذکر ہے۔ انھوں نے کہا: 'اورنگ آباد کا ایک ایسے شہر ذکر کیا گیا ہے جہاں ہوا خوشبو سے بھری ہے، جہاں پانی امرت (آب حیات) کی طرح ہو۔ اورنگزیب سنہ 1681 میں یہاں آیا تھا اور پھر اس نے کبھی دکن نہیں چھوڑا۔ شہنشاہ اورنگزیب نے یہاں خلد آباد میں ایک چھوٹا سا مقبرہ تعمیر کرنے اور اس پر تلسی کے پودے لگانے کی وصیت کی تھی۔‘ بادشاہ جہانگیر آصف جاہی حکومت اورنگزیب کی موت کے بعد دکن میں مغل حکمرانی پہلے کی طرح کبھی طاقتور نہیں ہوسکی۔ یہاں صوبیدار کی حیثیت سے آنے والے نظام آصف جاہ اول نے مغلوں کے خلاف بغاوت کی اور اپنا اقتدار قائم کیا۔ لیکن اورنگ آباد ان کا بھی ریاستی دارالحکومت رہا۔ تیسرے نظام نے سنہ 1761 میں حیدرآباد میں اپنا دارالحکومت قائم کیا۔ تب تک اورنگ آباد بہت سارے بادشاہوں کا دارالحکومت رہا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ حیدرآباد نیا دارالحکومت بن گیا ہو لیکن اورنگ آباد کی اس کے بعد بھی پرانے دارالحکومت کے طور پر اہمیت قائم رہی۔ سنہ 1948 میں جب ریاست حیدرآباد کو انڈیا میں ضم کر لیا گیا تو اورنگ آباد کے ساتھ مراٹھاواڑ کا علاقہ بھی انڈیا کا حصہ بن گیا۔ بادشاہ اورنگزیب اورنگ آباد سمبھاجی نگر بنانے کی کوشش کب شروع ہوئی؟ شیوسینا نے سنہ 1988 میں اورنگ آباد میونسپل انتخابات میں 27 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی۔ اس کے بعد بالا صاحب ٹھاکرے نے ثقافتی منڈل میدان میں ایک ریلی سے خطاب کیا۔ اس ریلی میں انھوں نے اعلان کیا کہ اورنگ آباد کا نام سمبھاجی نگر ہوگا۔ اس کے بعد شیوسینا کارکن آج بھی اورنگ آباد کو سمبھاجی نگر کہتے ہیں۔ اور شیو سینا کے ترجمان اخبار میں بھی اسے سمبھاجی نگر ہی لکھا جاتا ہے۔ جب بھی بلدیاتی انتخابات میں اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو یہ انتخابی مسئلہ بن جاتا ہے۔ پہلی شیوسینا-بی جے پی حکومت کے دوران منظوری در حقیقت سنہ 1995 میں اورنگ آباد بلدیہ کے ایک اجلاس میں اورنگ آباد کو سمبھاجی نگر بنانے کی قرارداد منظور کی گئی۔ اس کے بعد اسے ریاستی حکومت کو بھیج دیا گیا۔ سنہ 1995 میں مہاراشٹر میں شیوسینا-بی جے پی کی مخلوط حکومت تھی۔ اس وقت سابق رکن پارلیمان چندرکانت کھیرے اورنگ آباد کے سرپرست وزیر تھے۔ اسمبلی کے سابق اسپیکر ہری بھاؤ باگڈے ضلع جالنا کے سرپرست وزیر تھے۔ انھوں نے کابینہ کے اجلاس میں اورنگ آباد کا نام تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی جسے قبول کرلیا گیا۔ چندرکانت کھیرے نے بی بی سی مراٹھی سے پہلے کی گفتگو میں کہا تھا: 'جب 1995 میں شیوسینا-بی جے پی کی مخلوط حکومت تھی تو کابینہ نے اورنگ آباد کا نام سمبھاجی نگر رکھنے کے تجویز کو منظور کیا تھا۔ ہم نے اس کا نام سمبھاجی نگر رکھ دیا۔ لیکن کسی نے عدالت میں اپیل کی۔ ہائی کورٹ نے ہمارے حق میں فیصلہ دیا۔ سپریم کورٹ نے بھی ہمارے حق میں فیصلہ کیا۔ لیکن اس دوران ہمارا اتحاد الیکشن ہار گیا اور اورنگ آباد کا معاملہ تعطل کا شکار ہو گیا۔' جب ان سے پوچھا گیا کہ اورنگ آباد شہر کا نام سمبھا جی نگر کیوں رکھا جائے؟ تو انھوں نے کہا کہ اس کا نام اورنگ زیب جیسے 'ڈکٹیٹر' حکمراں کے نام پر نہیں رہنا چاہیے۔ انھوں نے کہا: 'ایک وقت میں اس شہر کا نام کھڈکی تھا۔ اورنگزیب نے نام تبدیل کرکے اورنگ آباد کردیا۔ اورنگزیب نے سمبھاجی مہاراج کو سونیری محل میں چار ماہ تک قید رکھا۔ ان کے خلاف یہاں مقدمہ چلا۔ وہ ہمارے لیے بہت اہم ہیں۔ لہذا اسی لیے ہم اس کا نام سمبھاجی نگر رکھنا چاہتے ہیں۔' اورنگ آباد ایئرپورٹ سنہ 1996 میں شیوسینا-بی جے پی اتحاد کی کابینہ نے سمبھاجی نگر کے نام کو منظور کیا تھا۔ لیکن اس وقت اورنگ آباد بلدیہ کے کونسلر مشتاق احمد نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا۔ سنہ 2018 میں مشتاق احمد نے بی بی سی مراٹھی سے اس بارے میں بات کی۔ انھوں نے کہا تھا: '1996 میں اس وقت کی ریاستی حکومت نے ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر کوئی شخص اورنگ آباد کے نام کے بارے میں کو اعتراض درج کرنا چاہتا ہے تو کرا سکتا ہے۔ ہم نے اس نوٹیفکیشن میں نام تبدیل کرنے کے فیصلے کو چیلنج کیا۔ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی لیکن عدالت نے یہ استدعا مسترد کردی کہ معاملہ ابھی نوٹیفیکیشن تک ہی محدود ہے۔ اپیل قبل از وقت ہے۔' مشتاق نے بتایا کہ 'پھر ہم نے سپریم کورٹ میں اپیل کی۔ سپریم کورٹ نے درخواست منظور کر لی اور ریاستی حکومت کو سخت و سست کہا۔ ایک جج نے ریاستی حکومت کو یہ کہتے ہوئے سرزنش کی کہ شہروں کے نام تبدیل کرنے کے بجائے ان کی ترقی پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن مزید سماعت سے پہلے ریاست میں کانگریس اور این سی پی کی مخلوط حکومت آ گئی ہے۔ 'وزیراعلیٰ ولاسراؤ دیش مکھ نے اورنگ آباد کا نام سمبھاجی نگر رکھنے کا نوٹیفکیشن منسوخ کردیا اور پھر اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں دائر ہماری درخواست فطری طور پر خارج ہو گئی۔'
050103_tsunami_scientists
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/01/050103_tsunami_scientists
آفات پر تحقیق کی ضرورت: منموہن
وزیراعظم منموہن سنگھ نے ملک کے سائنس دانوں سے کہا ہے کہ وہ قدرتی آفات سے تحفظ کے لئے جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کی تحقیق پر توجہ دیں۔ انہوں نے کہا کہ سونامی جیسے تباہ کن طوفان کو خاموشی سے نہیں دیکھا جاسکتا اور اس کے لۓ بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے ۔
گجرات کے شہر احمدآباد میں 92 ویں سائنس کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ اس طرح کی تباہی سے جیسے ہمیں نمٹنے میں مہارت ہے ویسے ہی ایسی آفات کے متعلق ہم میں پیشگی اطلاع دینے کی بھی صلاحیت ہونی چاہئے۔ منموہن سنگھ نے کہا کہ سمندری زلزلے کے اس پورے پس منظر میں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر اس طرح کی تباہی سے انسانیت کو پوری طرح محفوظ نہیں کیا جاسکتا تو سائنس اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ایسے حالات سے منٹنے کے لئے کیسے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا: ’ہمیں اپنے موصلاتی نظام اور امدادی سسٹم میں تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ سیلاب، طوفان، زلزلے، خشک سالی، تودے گرنے اور برف باری جیسے قدرتی آفات کے متعلق پیشگی اطلاعات دی جا سکیں۔ ہمیں ان وجوہات کو اچھی طرح سمجھنا ہوگا جس کے سبب ایسے واقعات ہوتے ہیں تاکہ لوگوں کو خبر دار کیا جاسکے۔‘ اس سے قبل حکومت یہ اعلان کر چکی ہے کہ وہ قدرتی آفات کے متعلق پیشگی اطلاع حاصل کرنے کے لۓ خصوصی مواصلامتی نظام پر غور کر رہی ہے اور جلد ہی اس سلسلے میں کئ اہم قدم اٹھا ئے جائیں گے۔
040225_netizen_rashid_mehmud
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/02/040225_netizen_rashid_mehmud
کون؟ انسان، کہاں سے؟ زمین سے
تقریباً تین سال پہلے جب میں انٹرنیٹ سے بالکل بے خبر تھا، مجھے یہ نہایت ہی انوکھی چیز لگتی تھی۔ اور اکثر گپ شپ کے دوران جب میرے دوست ایک دوسرے کو اپنی شناخت یعنی آئی ڈی بتاتے تو میں حیران ہوتا کہ یہ کیا چیز ہو سکتی ہے۔ اور پھر اسی جستجو میں ایک دن ہمت کر کے میں انٹرنیٹ کلب چلا گیا۔ کچھ معلومات تو میں نے اپنے دوستوں سے حاصل کر رکھی تھیں اور باقی کچھ انٹرنیٹ کلب پر موجود ایک اہلکار نے میری رہنمائی کر دی۔ اور اس طرح مجھے انٹرنیٹ کا چسکا پڑا۔
لیکن اب میں دن میں تقریباً پانچ سے چھ گھنٹے انٹرنیٹ پر گزارتا ہوں۔ میری پسندیدہ ویب سائیٹز میں بیرون ملک یونیورسٹیوں کی سائیٹز ہیں، جن کی مدد سے میں اپنی مطلوبہ معلومات آسانی سے حاصل کر سکتا ہوں اور شاید یہ سب کچھ انٹرنیٹ کی ہی وجہ سے ممکن ہوا ہے، ورنہ میرے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ میں اتنی زیادہ معلومات کہیں اور سے حاصل کر سکتا، اور خاص طور پر دوسرے ممالک کے تعلیمی ادراوں کے بارے میں۔ اور اگر میں یہ کہوں تو حق بجانب ہونگا کہ انٹرنیٹ کی وجہ سے اب پوری دنیا قدموں میں محسوس ہوتی ہے۔ بیرون ملک یونیورسٹیوں کے علاوہ میں انٹرنیٹ کی مدد سے مختلف قسم کے کمپیوٹر کے مسائل کو حل کرنے والی ویب سائیٹز کو بھی دلچسپی سے دیکھتا ہوں جن کی مدد سی نت نئی آنے والی تبدیلیوں سے اپنے آپ کو آگاہ کرتا رہتا ہوں۔ اس کے علاوہ نوجوانوں کی اکثریت کی طرح میں بھی چیٹِنگ پر اپنا کافی وقت صَرف کرتا ہوں، میرے اکاؤنٹ میں تقریباً سو کے قریب دوست ہیں اور اُن میں سے کچھ تو میری پریشانی کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ جب میں اُن سے اُن کا تعارف کروانے کے لئے کہتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ ہم انسان ہیں اور کچھ نہیں کہتے، اور اگر اُن سے یہ پوچھوں کہ وہ کہاں رہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں زمین پر اور اِس طرح کے فضول جوابات، لیکن کیا کیا جائے ۔۔۔۔ اِسی طرح چیٹنگ کےدوران میری دوستی فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے ایک لڑکے سے ہوئی اور چند ماہ کی بات چیت کے بعد ایک روز اُس نے مجھے اپنے مسائل بتانے شروع کر دیے اور مجھ سے ایک ہزار روپے ادھار مانگے، دوستی کی وجہ سے میں نے منی آرڈر کے ذریعے اُسے یہ روپے بھیج دیے۔ لیکن اب وہ کہتا ہے کہ میں اُس سے ملنے فیصل آباد جاؤں جو ظاہری سی بات ہے میرے لئے ممکن نہیں ہو گا۔ اِسی لئے میں چَیٹنگ کو ’چِیٹنگ‘ (دھوکہ دہی) کہتا ہوں۔ لیکن بحیثیت ایک نوجوان ہم لوگ اور کیا کریں؟ معاشرے میں ہر طرف ہی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ لیکن میں اپنی حد تک یہ ضرور کہوں گا کہ اب مجھے اور میری طرح کے اور بہت سے نوجوانوں کو انٹرنیٹ کا سینس (سمجھ) آ رہا ہے کہ یہ چیٹنگ اور فضول کاموں کے علاوہ کچھ اور بھی ہے۔ لیکن ان سب باتوں کے باوجود میں بھی کبھی کبھی ’چُسکی‘ لگا لیتا ہوں، یعنی وہ سائیٹز بھی ؟ انٹرنیٹ کا اور اس سے وابستہ لوگوں کا تو مستقبل نہ صرف روشن بلکہ بہت ہی شاندار ہوگا لیکن ہم جیسے نوجوان جو گھنٹوں کے حساب سے اپنا قیمتی وقت اس پر ضائع کرتے رہتے ہیں،ان کے بارے میں مجھے تشویش ضرور ہے۔ نوٹ: راشد محمود نے ہمارے نمائندے محمد اشتیاق سے بات چیت کی۔ آپ بھی اپنی کہانی ہمیں لکھ بھیجیں۔
sport-43538239
https://www.bbc.com/urdu/sport-43538239
ٹرافی اٹھائیے؟ سرخ کاپی اٹھائیے
لیگ کرکٹ میں عمومی تاثر یہ ہے کہ فرنچائز خریدنا بھی ریس کے گھوڑوں پہ بازی لگانے جیسا ہی ہے۔ جتنا بڑا نام، اتنی بھاری رقم، اتنی ہی میڈیا ہائپ اور ویسی ہی کمرشل ویلیو۔ فرنچائز مالکان چونکہ کرکٹرز نہیں ہوتے، اس لیے ان کو گمان ہوتا ہے کہ کمرشل ویلیو ہی کمرشل پرافٹ پیدا کر سکتی ہے۔
مثلا لاہور قلندرز اور کراچی کنگز نے اس سیزن میں بھی سراسر کمرشل ویلیو کو ہی محور حیات سمجھے رکھا۔ اس سے یہ فائدہ ضرور ہوتا ہے کہ ٹورنامنٹ شروع ہونے سے پہلے ہی ٹیم کا ایک ’ماحول‘ سا بن جاتا ہے، گویا ڈنکہ بجنے لگتا ہے۔ لیکن جونہی ٹورنامنٹ شروع ہوتا ہے تو ساری کی ساری کمرشل ویلیو صرف شرٹ کے لوگوز تک سمٹ جاتی ہے اور کرکٹنگ ویلیو کی جانچ شروع ہو جاتی ہے۔ تب یہ بے معنی رہ جاتا ہے کہ کس نے کتنے پیسے خرچ کئے۔ وہ ڈنکہ اچانک عنقا ہونے لگتا ہے اور وہ ’ماحول‘ یکایک سرد ہوا میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ مقابلہ صرف گیند اور بلے کا رہ جاتا ہے۔ اب تک کے تینوں سیزنز میں اسلام آباد یونائیٹڈ کا سفر دیکھیں تو حیرت اس بات پہ ہوتی ہے کہ کبھی بھی اس فرنچائز نے کمرشل ویلیو پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔ بطور برانڈ یہ مزاج کی دھیمی رہی ہے۔ اس کے میڈیا پارٹنرز بھی اسی کی طرح نیم مزاج سے ہیں۔ اسی لیے تینوں سیزنز کے ڈرافٹس سے لے کر فائنل میچ تک، کبھی بھی ان کو واضح فیوریٹس نہیں سمجھا گیا۔ فرنچائز کرکٹ مینجمنٹ کی پیچیدگیاں اپنی جگہ مگر پی ایس ایل کی فرنچائز مینجمنٹ میں کچھ درد کرکٹ سے سوا بھی ہوتے ہیں۔ کچھ روز پہلے معین خان پی سی بی سے نالاں دکھائی دیے کہ ایسے پلیئرز ڈرافٹ ہی کیوں کیے جاتے ہیں جو پاکستان آنے کو تیار نہیں ہوتے۔ حیرت یہ ہوئی کہ جب پچھلے سال بھی یہ معاملہ پی سی بی نے فرنچائزز اور پلیئرز کی صوابدید اور فریقین کی مرضی پہ چھوڑ دیا تھا تو اس بار انھوں نے پیٹرسن کو ڈرافٹ ہی کیوں کیا۔ اس بار جب ڈرافٹ میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے شین واٹسن اور ڈوین سمتھ کو ریلیز کیا تو یہ کمرشل ہی نہیں، کرکٹنگ نقطۂ نگاہ سے بھی غلط چال دکھائی دے رہی تھی۔ لیکن جب ناک آوٹ مراحل قریب آئے تو یہی فیصلہ اسلام آباد کی سب سے بڑی قوت بن گیا۔ سو واٹسن اور سمتھ کے پاکستان نہ آنے کا خسارہ کوئٹہ اور پشاور کو بھگتنا پڑا، اسلام آباد کا یونٹ مکمل رہا۔ اگر تب یہ مشکل فیصلہ نہ کیا جاتا تو شاید ڈین جونز بھی معین خان کی جگہ کھڑے وہی کچھ کہہ رہے ہوتے۔ ثانیا، فرنچائز کرکٹ میں ٹیم بنانے کے لیے بڑے سٹارز ضروری سمجھے جاتے ہیں اور مینیجمنٹ سٹاف کو ثانوی اہمیت دی جاتی ہے۔ لیکن اسلام آباد نے ٹیم بنانے کے لئے اس کا الٹ طریقہ نہ صرف اپنایا بلکہ درست بھی ثابت کیا۔ گراؤنڈ میں اچھی ٹیم بنانے سے پہلے آفس میں اچھی ٹیم بنائی گئی۔ نتیجتاً گراونڈ میں ٹیم خودبخود اچھی بن گئی۔ مینیجرز سے بولنگ کوچ تک اور ہیڈ کوچ سے کپتان کے انتخاب تک سبھی فیصلے کمرشل ملاوٹ سے محفوظ رہے۔ ٹی 20 نے کرکٹ کو باسکٹ بال جیسی ریاضیاتی سائنس بنا دیا ہے۔ کچھ روز پہلے جب پوسٹ میچ تقریب میں مصباح سے پوچھا گیا کہ ڈین جونز اپنی سرخ کاپی میں کیا لکھتے رہتے ہیں تو انھوں نے بتایا کہ کھیل میں کپتان کو بیرونی امداد بھی درکار ہوتی ہے۔ ڈین جونز کی سرخ کاپی وہ بیرونی امداد ہے جو انھیں یہ بتاتی ہے کہ کس بلے باز کے لیے کون سا بولر تگڑا رہے گا۔ ڈین جونز کی سرخ کاپی نے اس بار چمتکار دکھا دیا ویسے یہ عین ممکن تھا کہ عماد وسیم اور شاہد آفریدی زخمی نہ ہوتے تو فائنل میں دوسری ٹیم شاید پشاور زلمی نہ ہوتی۔ کراچی کی بدقسمتی یہ رہی کہ ناک آوٹ مراحل میں انھیں قیادت کی بے یقینی نے گھیرے رکھا۔ جب گراونڈ میں اترنے سے صرف چار گھنٹے پہلے کپتان کا تعین کیا جا رہا ہو تو جیت کے لئے جادو کی چھڑی ہی ڈھونڈنا پڑتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح اسلام آباد کو بھی دشواری کا سامنا رہا۔ شروع کے میچوں میں مصباح ان فٹ رہے۔ وہ فٹ ہوئے تو نائب کپتان رمان رئیس انجرڈ ہو گئے۔ ایسے میں جب دوبارہ مصباح کی چوٹ سامنے آئی تو یہ نیم بحرانی صورت حال تھی۔ ایسے میں کسی بھی فرنچائز کا اعتماد ڈگمگا جاتا لیکن یونائیٹڈ کا شروع سے فوکس کرکٹنگ ویلیو اور سرخ کاپی ہی تھے، اس لیے دشواری کسی بحران میں بدلنے سے پہلے ہی سہل ہو گئی۔ ان چار ہفتوں میں کافی اتھل پتھل ہوئی۔ بڑے بڑے برج گر گئے۔ ہاٹ فیورٹس پہلے راونڈ سے باہر ہوئے۔ بہت سی توقعات نظر کا دھوکہ نکلیں۔ لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ کی توجہ اپنے مقصد سے بالکل نہیں بٹی۔ نہ انھیں ناک آوٹ تک رسائی کے لیے کسی کے ہارنے کا انتظار کرنا پڑا اور نہ ہی ٹرافی اٹھانے کے لئے کسی اور کے گرنے کا۔
pakistan-54970093
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54970093
تحریک لبیک پاکستان: حکومت کے مذہبی و سیاسی جماعت سے ’کامیاب‘ مذاکرات اور معاہدے پر سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے
پاکستان میں حکومت اور تحریک لبیک پاکستان کے درمیان ’کامیاب‘ مذاکرات اور چار نکاتی معاہدے پر اتفاق کے بعد کئی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ آیا ایک سیاسی و مذہبی گروہ اس طریقے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے اپنی شرائط منوا سکتا ہے۔ جبکہ بعض افراد اسے حکومت و انتظامیہ کی بہتر حکمت عملی سمجھ رہے ہیں۔
اس معاہدے کا اعلان تحریک لبیک پاکستان کی جانب سے کیا گیا ہے جس کے تحت ’حکومت دو سے تین ماہ کے اندر پارلیمان سے قانون سازی کے بعد فرانس کے سفیر کو ملک بدر کرے گی‘ اور یہ کہ پاکستان میں ’تمام فرانسیسی مصنوعات کا سرکاری سطح پر بائیکاٹ کیا جائے گا۔‘ یاد رہے کہ فرانس میں پیغمبر اسلام کے متنازع خاکوں کی اشاعت کے بعد تحریک لبیک نے اتوار کو راولپنڈی میں لیاقت باغ سے فیض آباد تک ریلی نکالی تھی، تاہم پولیس کے بعد جھڑپوں کے بعد اتوار کی شب کو یہ ریلی دھرنے کی شکل اختیار کر گئی تھی۔ اتوار اور پیر کو اسلام آباد اور راولپنڈی میں اہم شاہراہیں بند رہیں جبکہ شہریوں کو موبائل اور انٹرنیٹ سروس کی معطلی کا بھی سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ بھی پڑھیے یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟ خادم حسین رضوی کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ فیض آباد دھرنا ختم: حکومتی ’معاہدے‘ کے بعد ٹریفک اور موبائل سروس بحال حکومت اور تحریک لبیک میں معاہدہ کیسے ہوا؟ فیض آباد دھرنے کے دوران تحریک لبیک نے پیر کی صبح تک یہ مؤقف اپنایا کہ تاحال حکومت کی طرف سے کوئی بھی ان سے مذاکرات کے لیے نہیں پہنچا۔ دوسری طرف راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ کے مطابق تحریک لیبک کی مقامی قیادت نے اس احتجاجی ریلی کے انعقاد کے سلسلے میں ضلعی انتظامیہ سے باقاعدہ اجازت نہیں لی تھی۔ لیکن پھر پیر کی شب اچانک فریقین کے درمیان ’کامیاب‘ مذاکرات اور معاہدے کے بعد دھرنا ختم کر دیا گیا۔ ترجمان وزارت مذہبی امور عمران صدیقی کے مطابق خود وزیر اعظم عمران خان نے وزیر مذہبی امور کو مذاکرات کا ٹاسک دیا تھا جبکہ مذاکرات میں وزیر داخلہ بریگیڈیئر سید اعجاز شاہ، وزیر اعظم کے مشیر برائے داخلہ شہزاد اکبر، سیکریٹری داخلہ اور کمشنر اسلام آباد عامر احمد علی بھی شامل تھے۔ تحریک لبیک کی جانب سے جاری کردہ معاہدے کی کاپی تحریک لبیک کی جانب سے شیئر کردہ اس معاہدے کے مطابق، مذاکرات میں ان چار نکات پر اتفاق ہوا: اس کی کاپی سوشل میڈیا اور مقامی ذرائع ابلاغ پر گردش کر رہی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک سادہ کاغذ پر چار نکات اور دونوں فریقین میں نمائندوں کے نام درج ہیں۔ ’ہم یہ فلم اب کئی بار دیکھ چکے ہیں‘ مقامی نیوز چینلز کے ساتھ ساتھ ٹوئٹر اور فیس بُک پر بھی حکومت اور تحریک لبیک کے درمیان مذاکرات پر مختلف نوعیت کے تبصرے جاری ہیں۔ جہاں کچھ سوشل میڈیا صارفین اسے حکمراں جماعت تحریک انصاف کی کامیابی قرار دے رہے ہیں وہیں ناقدین کا کہنا ہے کہ ایک سیاسی و مذہبی گروہ حکومت کو خارجہ امور پر ’کیسے حکم دے سکتا ہے؟‘ فدا جتوئی نامی صارف نے اس معاہدے پر اپنے اعتراضات ایک ٹویٹ میں شکل میں لکھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک وزیر داخلہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کیسے طے کر سکتا ہے؟‘ ایک صارف نے لکھا کہ اگر فرانس میں بعض لوگ ’دوبارہ اسلام مخالف مواد شائع کرتے ہیں تو ہم کیا کریں گے؟ بالآخر ہم وہاں بسنے والے تمام پاکستانیوں کو واپس بلا لیں گے؟‘ دی ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام میں بطور ڈپٹی ڈائریکٹر ذمہ داریاں نبھانے والے مائیکل کوگلمین نے معاہدے کو حکومت کی شکست قرار دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم یہ فلم اب کئی بار دیکھ چکے ہیں۔ ٹی ایل پی کی جیت کے ساتھ ہم اب یہ فلم بار بار دیکھتے رہیں گے۔‘ صحافی طلعت حسین کا بھی یہی موقف ہے کہ ’خادم رضوی نے عمران خان حکومت سے اپنے تمام مطالبات منوا لیے ہیں۔‘ ٹوئٹر صارف فراز کا اس سب پر کہنا تھا کہ ’پاکستان کبھی بھی ایک بڑی معیشت سے اپنے تعلقات اتنے خراب نہیں کرے گا۔۔۔ جھوٹا وعدہ ہونے کے باوجود حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔‘ عمیر مالک نے حکومت، تحریک لبیک معاہدے کو ’لالی پاپ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس طریقہ کار سے یہ رجحان بڑھ جائے گا۔ ’حکومت نے اپنی کمزوری دکھائی ہے۔‘ فیصل نقوی کہتے ہیں کہ کسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے لیے ’پاکستان کو کسی قانون کی ضرورت نہیں۔۔۔ اس لیے امید ہے کہ کچھ نہیں ہو گا۔‘ ’انتظامیہ نے بحران سے بچا لیا‘ دوسری طرف ایسے صحافی اور سوشل میڈیا صارفین بھی ہیں جو حکومت اور انتظامیہ کو ’کامیاب مذاکرات‘ اور ’بحران سے بچانے‘ پر ان کا شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ صحافی معید پیرزادہ نے لکھا کہ ’مبارک ہو! اسلام آباد انتظامیہ نے ٹی ایل پی کی صورتحال کو مذاکرات کے ذریعے حل کر دیا۔ امید ہے کہ بھولے مظاہرین اب واپس چلے جائیں گے۔ ’منگل سے کاروباری اور تعلیمی سرگرمیاں معمول کے مطابق ہو جائیں گی۔‘ انھوں نے ایک دوسری ٹویٹ میں کہا کہ انتظامیہ نے شہریوں کو ایک بحران جیسی صورتحال سے بچا لیا ہے۔ اسی طرح صحافی کامران خان نے لکھا کہ صبح اسلام آباد میں معمولات بحال ہو گئے ہیں۔ ’ایک اور فیض آباد دھرنا پُرامن ماحول میں براستہ مذاکرات ختم۔‘ یاد رہے کہ اس جماعت نے سنہ 2017 میں بھی دھرنا دیا تھا اور حکومت سے ایک معاہدے کے بعد دھرنا ختم کیا گیا تھا۔
050420_iraq_deaths_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/04/050420_iraq_deaths_as
بغداد دھماکے میں دو امریکی ہلاک
امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ عراق کے دارالحکومت بغداد میں دو امریکی فوجی ایک بم حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
تفصیلات کے مطابق حملہ اس وقت ہوا جب فوجی شہر کے گشت پر نکلے ہوئے تھے۔ منگل کے روز ہونے والے ایک اور واقعے میں ہوائی اڈے کی سڑک کے نزدیک ایک دھماکے میں چار فوجی زخمی ہو گئے تھے۔ ہسپتال کے ذرائع کے مطابق اس دھماکے میں سات عراقی شہری بھی زخمی ہوئے ہیں۔ اس سے قبل بغداد کے شمال میں ایک کار بم حملے میں کم از کم نیشنل گارڈز کے چھ اراکین ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ حملہ بغداد کے اعظمیہ ڈسٹرکٹ میں ہوا جس میں چالیس دیگر افراد بھی زخمی ہوئے۔
041228_asif_zardari_passport_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/12/041228_asif_zardari_passport_as
زرداری کو نیا پاسپورٹ جاری
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے شوہر آصف علی زرداری کو وزارت داخلہ کی ہدایت پر نیا پاسپورٹ جاری کر دیا گیا ہے اور ان کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لسٹ یعنی ای سی ایل سے نکال دیا گیا ہے جس کے بعد وہ بیرون سفر کر سکیں گے۔
زرداری کے وکیل فاروق نائیک نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ پاسپورٹ منگل کو کراچی کے پاسپورٹ آفس سے جاری کیا گیا جو آصف زرداری کو مل گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ انہیں وفاقی وزارت داخلہ نے آگاہ کیا کہ زرداری کا نام ای سی ایل سے بھی نکال دیا گیا ہے۔ بلاول ہاؤس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ آصف زرداری جلد ہی دبئی جائیں گے جہاں وہ اپنی اہلیہ بینظیر بھٹو اور بچوں سے ملاقات کریں گے۔ واضح رہے کہ سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو1999 سےخود ساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔ فاروق نائیک نے بتایا کہ زرداری کا پاسپورٹ 1996 میں بینظیر حکومت کے خاتمے پر ضبط کیا گیا تھا اور زرداری کا نام ای سی ایل پر 2002 میں ڈالا گیا تھا۔ زرداری کو اس سال 22 نومبر کو رہا کیا گیا تھا مگر انسداد دہشت گردی کی ایک عدالت کی طرف سے ان کی ضمانت کی منسوخی پر انہیں اس ماہ کیا اکیس تاریخ کو پھر گرفتار کر لیا گیا تھا مگر سندھ ہائی کورٹ نے اگلے ہی دن ان کی ضمانت بحال کر دی جس کے بعد ان کو دوبارہ رہا کر دیا گیا تھا۔ زرداری کے وکیل کا کہنا تھا کہ وہ سندھ ہائی کورٹ میں دائر اس آئینی درخواست کو واپس لے رہے ہیں جس میں زرداری کو پاسپورٹ نہ جاری کرنے کے حکومتی اقدام کو چحلنج کیا گیا تھا۔
040211_basant_curtraiser_adnan
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/02/040211_basant_curtraiser_adnan
لاہورمیں آسمان پتنگوں سے سجےگا
سنیچرکی رات سے لاہوری آسمان پر پتنگوں کا کھیل کھیلیں گے اور شہر کے افق کو اگلے چوبیس گھنٹوں تک رنگ برنگی پتنگوں سے سجایا جائے گا۔ پیچے ہونگے، ناچ گانا ہوگا، چھوٹی چھوٹی گلیوں میں گھروں کی چھتوں سے لے کر بڑے بڑے ہوٹلوں تک ہر جگہ بسنت کا رنگ ہوگا، شور ہوگا۔ پورے شہر میں میلہ ہوگا۔
لاہور کی بسنت جو پتنگ بازی اور مہمان داری کا ایک بے ساختہ تہوار ہے، اس مرتبہ بھی کاروباری اداروں اور سرکاری سرپرستی میں پوری تیاریوں کے ساتھ منایا جارہا ہے۔ لاہور میں دوسرے شہروں سے آنے والے مہمانوں کے لیے تمام ہوٹلوں میں کمرے بک ہوچکے ہیں اور ان کے کراۓ عام دنوں سے کہیں زیادہ وصول کیے گۓ ہیں۔ ہندوستان سے پینسٹھ فلمی ستارے جن میں شلپا سیٹھی، پوجا بھٹ اور اکشے کمار وغیرہ شامل ہیں ان کے لاہور پہنچنے کی خبریں ہیں لیکن آج بھی لاہور میں انڈین ائیر لائینز کے لوگوں کا کہنا ہے کہ ان لوگوں کو ابھی تک ویزہ نہیں مل سکا ہے۔ اس لیے ان کا آنا ذرا مشکوک ہے۔ ہندوستان کے سابق وزیراعظم آئی کے گجرال اور راجھستان کے وزیراعلی وسوندھرا راجے بھی بنست تقریبات کے لیے لاہور میں بارہ فروری کو متوقع ہیں۔ اگر وہ آۓ تو سرکاری مہمان ہوں گے۔ لاہور کے لوگ چھتوں پر پتنگ بازی کرتے تھے بو کاٹا کے نعرے بلند کرتے اور بگل بجاکر بسنت مناتے آۓ ہیں۔ اب ا س میں نیا رنگ یہ آگیا ہے کہ اس موقع کو کاروباری ادارے اپنے مستقل گاہکوں کو خوش کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ اپنے گاہوں کو ملک بھر سے لاہور بلا کر ہوٹلوں میں ٹھہراتے ہیں اور ان کی موسیقی اور رقص کی محفلوں سے تواضع کرتے ہیں۔ تاہم حکومت نے جشن بہاراں کےنام سے جو تقریبات شروع کی ہیں وہ ہر خاص و عام کے لیے کھلی ہیں۔ یہ لگاتار پانچواں سال ہے کہ لاہور میں پنجاب حکومت کی طرف سے بسنت کے موقع پر جشن بہاراں کی تقریبات کا اہتمام کوکا کولا کمپنی کے مالی تعاون سے کیا جارہا ہے۔ لاہور میں یہ تقریبات بیس فروری تک جاری رہیں گی۔ پیپسی کولا، نیسلے ، موبائل فون کمپنیاں اور بڑے کاروباری ادارے اپنے طور پر بسنت کی تقریبات کا اہتمام کررہے ہیں۔ ان کمپنیوں نے حکومت کو پیسے دے کر لاہور کی تاریخی عمارتوں جیسے شاہی قلعہ کو بسنت کے روز اپنی تقریبات کے مخصوص کرلیا ہے جہاں صرف ان کے مہمان جا سکیں گے عوام الناس نہیں۔ لاہور کے مینار پاکستان اور گلشن اقبال کے پارک میں بھی مختلف تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے جن میں کھانے پینے کے اسٹال ہیں، دستکاروں کو کام کرتے دکھایا جاتا ہے اور موسیقی کے پروگرام ہیں۔ سات فروری کی شام لاہور کے ریس کورس پارک میں اس جشن بہاراں کا افتتاح ہوا۔ علاقائی رقص ہوۓ، آتش بازی ہوئی اور دوسرے گلوکاروں کے علاوہ گلوکار ابرارالحق نے ایک گھنٹہ تک اپنے مشہور گیت گاۓ اور ان کے مداح جھوم رہے تھے۔ اب بیس فوری کو لاہور میں یہ سرکاری تقریبات ریس کورس میں اپنے عروج اور اختتام کو پہنچیں گی تو پنجاب کے وزیراعلی پرویز الہی وہاں آئیں گے تو مختلف مقابلوں میں جیتنے والوں کو انعامات دیے جائیں گے ، موسیقی کی محفل ہوگی اور آتش بازی کی جاۓ گی۔ اسکولوں کے بچے قذافی اسٹیڈیم سے ایک قافلہ کی صورت میں اسکولوں کے بینڈز کے ساتھ کچھ پیدل ، کچھ بگیوں میں اور کچھ اسکیٹنگ کرتے ہوۓ یا بائسیکل چلاتے ہوۓ علاقائی لباس پہنے ریس کورس پارک تک جائیں گے۔ بارہ اور تیرہ فروری کو آل پاکستان پتنگ بازی ایسوسی ایشن کے زیر اہمام ریس کورس میں پتنگ بازی کا مقابلہ ہورہا ہے جبکہ مینار پاکستان کے زیرسایہ اقبال پارک میں تو پتنگ بازی کے یہ مقابلہ چھ فروری سے شروع ہوۓ اور بیس فروری تک چلتے رہیں گے۔ تیرہ اور چودہ کی رات اندرون شہر میں حویلی آصف جاہ اور کامران بارہ دری میں موسیقی کی محفلیں ہوں گی اور پندرہ کو الحمرا میں کلچرل کمپلیکس میں بسنت بہار کے نام سے موسیقی اور رقص کا پرگرام ہوگا۔ سولہ فروری سے فورٹریس میں ہارس اینڈ کیٹل شو یا میلہ مویشیاں منعقد کیا جارہا ہے۔ اس بار تو ریس کورس پارک میں پالتو پرندوں کی نمائش بھی بسنت کے ان پروگراموں کا حصہ ہے اور بارہ فروری کو لڑکیوں کے لیے پھولوں کے گلدستے بنانے کامقابلہ بھی منعقد کیا جارہا ہے۔ لاہور کی نہر کے کنارے کینال میلہ شروع ہورہا ہے اور شہر کے نمایاں مقامات کو سجایا جارہا ہے اور خوبصورت روشنیوں سے آراستہ کیا جارہا ہے۔ لاہور کی روایتی بسنت میں پتنگ بازی مرکزی چیز ہے لیکن اس نئی بسنت میں پتنگ ذرا پیچھے رہ گئی ہے۔ چند روز پہلے لاہور کے ناظم میاں عمر محمود پتنگ بازی پر مستقل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا کہ شیشے کے مانجھے سے بنی ڈور اور دھاتی ڈور کے پھرنے سے کئی لوگ مر گۓ یا زخمی ہوۓ۔ آج واپڈا (لیسکو) کے چیف ایگزیکٹو اکرم ارائیں نے آج کہا ہے کہ پتنگیں اڑانے کی اجازت صرف شہر سے باہر کھلے میدانوں میں ہونی چاہیے اور شہر میں بسنت کے موقع پر پتنگیں اڑانے پر مکمل پابندی عائد کی جاۓ۔ ان کا کہنا ہے کہ ڈور سے تاروں کے شارٹ سرکٹ ببنے سے واپڈا کا کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ پتنگ بازی کی جتنی شدید مخالفت ہورہی ہے اس کو دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ آنے والے دن لاہور کے لوگوں کی روایتی بسنت کے لیے زیادہ اچھے نہیں۔ یہ وقت کوکا کولا بسنت کا ہے۔
050110_iraq_syria_ra
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/01/050110_iraq_syria_ra
شام مطلوبہ افراد حوالے کرے: عراق
عراق کی عبوری حکومت نے شام کی حکومت سے باضابطہ طور پر یہ مطالبہ کیا کہ وہ ان لوگوں کو اس کے حوالے کرے جو شام کی زمین استعمال کرتے ہوئے عراق میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہے ہیں۔
عراق کی طرف سے مانگے جانے والے لوگوں میں سابق عراقی لیڈر صدام حسین کے سوتیلے بھائی صباوی اور عراق کے سابق انٹیلیجینس چیف طاہر ہبوش شامل ہے۔ عراق کی عبوری انتظامیہ نے الزام لگایا ہے کہ اس کے ہمسایہ ملک شام اور ایران عراق میں جاری مزاحمتی کارروائیوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ شام کے حکام نے عراق کی عبوری حکومت کی طرف سے لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے اور ان کو غیر ذمہ دارانہ قرار دیا۔ شام کے سرکاری اخبار نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ عراق کی عبوری حکومت کی جانب سے مبینہ وڈیو جس میں شام پر مزاحمت کارروں کی مدد کا الزام ہے، جعلی ہے۔
world-54587678
https://www.bbc.com/urdu/world-54587678
چین، امریکہ تعلقات: پاکستان کی وساطت سے ہنری کسنجر کا خفیہ دورہ چین اور ’نقلی کسنجر‘ کی مری روانگی
سنہ 1971 میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے چین کا ایک خفیہ لیکن تاریخ ساز دورہ کیا تھا۔ اُس وقت پاکستان گھمبیر سیاسی بحران میں گھرا ہوا تھا اور امریکہ سرد جنگ کے اُس زمانے میں چین اور سویت یونین کے درمیان پیدا ہونے والی نظریاتی اور تزویراتی خلیج کا فائدہ اٹھانا چاہتا تھا۔
ہنری کسنجر یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں عام انتخابات ہو چکے تھے مگر حکومت سازی میں تاخیر ہو رہی تھی اور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا آغاز ہو چکا تھا۔ مشرقی پاکستان سے ہزاروں کی تعداد میں بنگالی ہجرت کر رہے تھے جبکہ مکتی باہنی بھی پاکستانی فوج کے خلاف کارروائیوں میں مصروف تھی۔ یہ وہ دور ہے جب سویت یونین نے انڈیا کے ساتھ ’امن، دوستی اور تعاون‘ کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے میں تزویراتی تعاون پر زور دیا گیا تھا اور اس معاہدے کے بعد انڈیا کا روایتی غیر جانبداری کا دعویٰ کمزور ہو گیا تھا۔ سویت یونین غالباً پاکستان کے چین کی جانب زیادہ جھکاؤ کی وجہ سے ناراض بھی تھا۔ لیکن ان تمام حالات اور واقعات کے پسِ منظر میں امریکہ پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں بہتری کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ یہ بھی پڑھیے کیا امریکہ اب بھی ’سپر پاور‘ ہے؟ بجب ایک پاکستانی اونٹ والا امریکی نائب صدر کا مہمان بنا امریکی صدور کے پاکستان دورے: کبھی کشیدگی کم کرنے تو کبھی طیارے میں تیل کے بہانے اس سے قبل سنہ ساٹھ کی دہائی میں پیش آنے والے بیشتر واقعات کے پس منظر میں سویت یونین اور چین کے درمیان تعلقات میں سرد مہری بڑھ رہی تھی۔ مغربی ممالک اور خاص کر امریکہ ان عالمی حالات کا بغور جائزہ لے رہے تھے لیکن اب تک کسی نے دو کمیونسٹ حکومتوں، چین اور سوویت یونین، کے اختلافات کے فائدہ اٹھانے کو کوشش نہیں کی تھی۔ رچرڈ نکسن پہلے امریکی رہنما تھے جنھوں نے اس کام کا آغاز کیا۔ صدر بننے سے پہلے ہی انھوں نے ایک آرٹیکل میں چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ صدر منتخب ہونے کے بعد سنہ 1969 میں انھوں نے پاکستان کے اس وقت کے صدر یحییٰ خان سے چین سے خفیہ رابطہ کاری کے لیے مدد مانگی تھی۔ اس خفیہ دورے کا مکمل منصوبہ کیسے بنایا گیا اور اسے دنیا کی نظروں سے مکمل مخفی رکھنے کے لیے ’نقلی کسنجر‘ کی سربراہی میں ایک وفد کو پرفضا پہاڑی مقام مری کیسے بھیجا گیا اس کی تفصیلات آگے چل کر، اس سے پہلے ان ذرائع کے بارے میں جاننا ضروری ہے جو امریکہ چین سے رابطوں کے لیے استعمال کر رہا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان میں عام انتخابات ہو چکے تھے مگر حکومت سازی میں تاخیر ہو رہی تھی اور مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائی کا آغاز ہو چکا تھا چین سے رابطوں کے کئی چینلز اس دوران امریکہ نے پاکستان کے علاوہ رومانیہ اور پولینڈ کے ذریعے بھی چینی قیادت کو رابطہ کاری کے پیغامات بھجوائے اور انھی کوششوں کے نتیجے میں بالآخر اُس وقت امریکہ کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر پاکستان کی وساطت سے نو جولائی کو بیجنگ خفیہ مشن پر گئے اور 11 جولائی کو واپس آئے۔ کسنجر کے اسی خفیہ دورے کے اگلے برس فروری میں صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کیا، اور اس طرح عالمی بساط پر امریکہ نے دو کمیونسٹ طاقتوں کے درمیان اختلافات کو اپنے لیے استعمال کرنے کے پروگرام کا آغاز کیا۔ رچرڈ نکسن سنہ 1967 ہی میں چین سے تعلقات میں بہتری کا اشارہ دے چکے تھے تاہم اس کا عملی آغاز جنوری سنہ 1969 سے ہوا یعنی نکسن کے عہدہ صدارت پر براجمان ہوتے ہی۔ اگرچہ پولینڈ کے ذریعے سفیروں کی سطح پر ہونے والے رابطوں کی بدولت امریکہ کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ چین بھی امریکہ سے تعلقات کی بہتری میں دلچسپی رکھتا ہے لیکن ٹھوس پیش رفت کے لیے ابھی کوئی کام نہیں ہوا تھا۔ صدر رچرڈ نکسن یکم اگست سنہ 1969 کو پاکستان کے دو روزہ دورے پر آئے جہاں ان کی صدر آغا محمد یحییٰ خان کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ اور اس طرح چین سے رابطے کے لیے امریکہ نے پاکستان کو بہترین ذریعہ قرار دیا۔ صدر نکسن اور یحیی خان خفیہ رابطہ کاری کا آغاز ہر بات انتہائی صیغہِ راز میں رکھی جا رہی تھی۔ خفیہ رکھنے کی وجہ سے صدر یحییٰ خان اس مخمصے میں رہے کہ آیا انھیں اس وقت چین کے وزیرِ اعظم چو این لائی کو پیغام بھجوانا چاہیے یا وہ انھیں یہ پیغام اس وقت دیں جب ان کی بالمشافہ ملاقات ہو۔ ادھر کسنجر نے دفترِ خارجہ سے بھی اس کوشش کو خفیہ رکھا۔ آرکائیوز کے مطابق صدر نکسن چاہتے تھے کہ صدر یحییٰ خان اپنی کسی معمول کی ملاقات میں چینی رہنماؤں کو امریکہ کی اس خواہش کے بارے میں آگاہ کریں۔ انھوں نے اس وقت پاکستان کے امریکہ میں سفیر آغا ہلالی کو بتایا تھا کہ اس معاملے پر امریکی حکومت میں سے صرف کسنجر رابطہ کیا جائے گا۔ جولائی اور اگست میں نچلی سطح کی رابطہ کاری کے سلسلے میں پیش رفت ہونا شروع ہوئی۔ پولینڈ کے ذرائع سے بھی رابطے قائم ہوئے۔ لیکن 16 اکتوبر کو ہنری کسنجر نے صدر نکسن کو آگاہ کیا کہ پاکستان کے سفیر آغا ہلالی نے ان سے ملاقات کی ہے اور بتایا کہ صدر یحییٰ کی چینی رہنماؤں سے ملاقات سنہ 1970 کے اوائل میں متوقع ہے۔ ’ہلالی یہ جاننا چاہتے تھے کہ امریکہ پاکستان کے ذریعے چین کے لیے کس قسم کا پیغام دینا چاہتا ہے۔‘ اس پر کسنجر نے کہا ’صدر یحییٰ جب چینی رہنماؤں سے ملاقات کریں تو انھیں آگاہ کریں کہ امریکہ اپنے بحریہ کے دو بحری جہاز (ڈِسٹروئرز) آبنائے فارموسا سے ہٹا رہا ہے۔‘ تائیوان کا نام فارموسا بھی رہا ہے۔ اسی برس امریکہ نے چین کو ایسے مزید اشارے دینا شروع کر دیے جن سے چین کو یقین ہو کہ امریکہ تعلقات کی بہتری میں سنجیدہ ہے۔ ان میں چین پر امریکہ کی چند زرعی مصنوعات خریدنے کی پابندیاں ہٹانے سے لے کر دیگر سرگرمیوں کے آغاز کے بھی اشارے تھے۔ ہنری کسنجر کا پاکستان کے صدر یحییٰ خان کے ساتھ آغا ہلالی کے ذریعے مسلسل رابطہ تھا۔ یحییٰ خان نے کسنجر کو بتایا کہ چینی رہنما امریکی کوششوں سے خوش ہیں لیکن وہ یہ نہیں چاہتے ہیں کہ امریکہ چین کی رضا مندی کو چین کی کمزوری سمجھے۔ کسنجر نے فروری سنہ 1970 کو یحییٰ خان کو کہلوایا کہ وہ چینیوں سے کہہ دیں کہ امریکہ چاہتا ہے کہ یہ سارا معاملہ پریس سے پوشیدہ رکھا جائے۔ اور اس کے لیے امریکہ پیکنگ (بیجنگ) کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنا چاہتا ہے جسے وائٹ ہاؤس کے علاوہ کوئی باہر کا شخص نہیں جانتا ہو گا۔ ہنری کسنجر اور چینی وزیرِ اعظم چو این لائی تائیوان کا نازک مسئلہ اس دوران امریکہ نے تائیوان کے سربراہ چیانگ کائی شیک کو بھی اعتماد میں لیا جو عوامی جمہوریہ چین سے امریکہ رابطوں کی کوششوں پر خوش نہیں تھے۔ صدر نکسن نے انھیں یقین دہانی کرائی کہ ان کی اہمیت کسی صورت کم نہ ہو گی لیکن ’وہ اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں ناکام ہوں گے اگر وہ چین اور امریکی تصادم‘ کے امکانات کم نہیں کرتے ہیں۔ اکتوبر میں صدر یحییٰ اور صدر نکسن کی اس سلسلے میں ایک اور ملاقات ہوتی ہے جس میں نکسن نے یحییٰ سے چین جانے کے بارے میں ان کا پروگرام دریافت کیا۔ نکسن نے کہا کہ وہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے چین کے ساتھ رابطے کا سلسلہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔ رابطوں کا یہ سلسلہ رومانیہ کے صدر نکولائی چاؤشسکو کے ذریعے بھی چل رہا تھا۔ کسنجر نے صدر چاؤشسکو سے ملاقات کی اور انھیں بتایا کہ امریکہ چین کے ساتھ رابطے کا براہ راست سلسلہ قائم کرنا چاہتا اور یہ کہ وہ چین کے ساتھ تصادم نہیں چاہتا ہے۔ چاؤشسکو نے امریکی پیغام چین پہنچانے کا وعدہ کیا۔ ادھر پاکستان کے سفیر آغا ہلالی نے کسنجر کو دسمبر سنہ 1970 میں بتایا کہ صدر یحییٰ نے صدر نکسن کا پیغام چینی رہنماؤں کو پہنچا دیا ہے۔ ’چو این لائی نے (صدر یحییٰ) کو بتایا کہ امریکہ سے بات چیت کی کوشش پر چیئرمین ماؤ اور وائس چیئرمین لِن بیاؤ حمایت کرتے ہیں۔‘ تاہم چو این لائی نے صدر یحییٰ کو بتایا کہ تائیوان کا سوال چین کے لیے ایک مرکزی معاملہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ چین تائیوان سے امریکی فوجیوں کے انخلا کے سلسلے میں کسی بھی بات چیت کی کوشش کا خیر مقدم کرے گا۔ کسنجر نے چین سے بات چیت کے لیے زبانی پیغام بھیجنے کا کہا۔ ہنری کسنجر نے اشارہ دیا کہ امریکہ چین کے ساتھ تائیوان سمیت دیگر کئی معاملات پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔ تاہم امریکہ مشرقی ایشیا سے اپنی افواج کشیدگی کم ہونے کے ساتھ ساتھ بتدریج کم کرے گا۔ نکسن کا اعلان اسی شام صدر نکسن نے ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ امریکہ کی چین کے ساتھ تعلقات کی بہتری کی کوششیں جاری رہیں گی۔ ’ایک طویل مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے جو بالآخر چین کے ساتھ معمول کے تعلقات قائم کرنے پر منتج ہو گی، ہم کمیونسٹ چین کے ساتھ رابطوں کو قائم کرنے کے لیے تجارتی اور سفری پابندیاں کم کرنے کی کوششیں جاری رکھیں گے۔‘ اسی پس منظر میں سنہ 1971 کے اوائل میں بائیں بازو کے نظریات والے ایک امریکی صحافی ایڈگر سنو چین کا دورہ بھی کرتے ہیں۔ یہ وہی امریکی صحافی ہیں جو اس سے پہلے چینی کمیونسٹ پارٹی کی تاریخ پر ایک کتاب بھی لکھ چکے ہیں اور کمیونسٹ چین سے ہمدردی بھی رکھتے ہیں۔ آغا ہلالی چین کا حوصلہ افزا جواب اسی برس یعنی سنہ 1971 میں اپریل کے مہینے میں پاکستان کے صدر یحییٰ خان چینی وزیرِ اعظم چو این لائی کا پیغام امریکہ بھجواتے ہیں۔ یہ پیغام ہنری کسنجر کو 27 اپریل کو ملا جس میں چینی رہنما نے کہا تھا کہ چینی حکومت مذاکرات کے لیے امریکہ کے نمائندے کا خیر مقدم کرے گی۔ اس کے بعد دونوں ملکوں میں براہ راست رابطوں کی تیاریاں اور اس سے متعلقہ بات چیت زور پکڑ گئی۔ امریکی حکومت تائیوان کے بارے میں چین کو یقین دہانی نہیں کرانا چاہتی تھی لیکن اس کی وجہ سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کو روکنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ صدر نکسن نے اپنے مشیر کسنجر کو ہدایت کی کہ وہ چین جانے کی تیاری کریں۔ لیکن انھوں نے کسنجر سے کہا کہ وہ جب چینی رہنماؤں سے بات کریں تو تائیوان کے بارے میں کسی نرمی کا اشارہ مت دیں۔ ’چینیوں کو کہیں بھی احساس مت ہو کہ امریکہ تائیوان کا سودا کرنے کے لیے تیار ہے۔‘ سنہ 1971 میں جون کی 19 تاریخ کو آغا ہلالی نے کسنجر کو پیغام بھیجا کہ انھیں صدر یحییٰ خان نے بتایا ہے کہ بالآخر چین جانے کے انتظامات ہو گئے ہیں اور وہ ہمارے دوست (نکسن) کو ان کے ’فُول پروف‘ ہونے کی یقین دہانی کرا دیں۔‘ اسی پیغام میں کسنجر سے کہا گیا تھا کہ وہ آٹھ جولائی کو پاکستان پہنچ جائیں۔ تاہم ہنری کسنجر نے 21 جون کو آغا ہلالی سے ایک ملاقات کی جس میں انتظامات کی تفصیل کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور اس مشن کے خفیہ ہونے کے بارے میں اپنی تسلی کی۔ آغا ہلالی سے انھوں نے اس طیارے کے بارے میں بھی بات کی جس پر انھیں سوار ہو کر چین جانا تھا۔ اگلے دن کسنجر نے پاکستان میں امریکی سفیر جوزف فارلینڈ کو اپنے خفیہ دورے کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ وقت آنے پر امریکی وزیرِ خارجہ کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔ کسنجر نے پہلے پاکستان پہنچنے کے دوران اپنے سفر کی تفصیلات دیں اور پھر بتایا کہ وہ آٹھ جولائی کو پاکستان پہنچیں گے، اور بظاہر 10 کو واپس روانہ ہو جائیں گے۔ امریکی نیشنل سکیورٹی کی آرکائیوز کی منظر عام پر لائی جانے والی دستاویزات کے مطابق اسلام آباد کے سفارت خانے سے جون کے آخر میں پیغام آیا کہ انتظامات طے کر لیے گئے ہیں۔ جن کے مطابق کسنجر 11 جولائی کو واپس آ جائیں گے اور پھر وہ یہاں سے پیرس روانہ ہو جائیں گے۔ سفارت خانے کے مراسلے میں خفیہ سفر کی مزید تفصیلات بھی دی گئی تھیں۔ پرنسپل ٹریولر (کسنجر) سیاہ چشمہ اور ایک ہیٹ پہنے ہوئے ہوں گے۔ ’سائیڈ ٹرِپ‘ (چین کے سفر) کے دوران ان کے ہمراہ ’(ونسٹن) لارڈ، ہولڈریج، سمائیر اور دو خفیہ ایجنٹس‘ ہوں گے۔ (ہنری کسنجر کے ایک سٹاف افسر) سانڈرز راولپنڈی ہی میں ٹھہریں گے۔ ایک اور سٹاف افسر ہیلپرین اسلام آباد میں امریکی سفیر فارلینڈ اور ایک تیسرے سیکریٹ ایجنٹ کے ہمراہ ایک پہاڑی مقام (مری) کی جانب روانہ ہو جائیں گے جبکہ سانڈرز ایک گیسٹ ہاؤس میں قیام کریں گے۔ ’پارٹی میں شامل دو لڑکیوں، ڈائیان میتھیوز اور فلورنس گوائر کو علحیدہ علحیدہ سیف ہاؤسز میں رکھا جائے گا۔ پارٹی کے اسلام آباد آنے تک اس کے تمام ارکان کو، سوائے تین سیکریٹ سروس کے ایجنٹوں کے، باقی جو کہ سفارت خانے میں ہوں گے، کو آگاہ رکھا جائے گا۔‘ اس مراسلے میں یہ بھی کہا گیا کہ فارلینڈ کو اس بات کے لیے بھی راضی کیا جائے کہ سفارت خانے کا ڈاکٹر پہاڑی مقام پر ان کے ہمراہ نہ جائے، اور اس کا بہترین ممکنہ طریقہ یہ ہے کہ ہیلپرین اپنے فیلڈ سٹیشن سے سانڈرز کو فون کریں اور کہیں کہ پرنسپل ٹریولر آرام کر رہے ہیں اور وہ تنہا رہنا چاہتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر ڈاکٹر کو فون کریں گے۔ دورہ پاکستان کے دوران صدر نکسن ایک لیمو گاڑی سے اتر رہے ہیں آغا ہلالی کے صاحبزادے، ظفر ہلالی جو خود بھی سفارت کار رہے ہیں، بتاتے ہیں کہ جب کسنجر چین کے دورے پر روانہ ہو رہے تھے تو اسی وقت پہاڑی مقام (مری) کی جانب ایک نقلی کسنجر کو روانہ کیا گیا تھا تاکہ یہ تاثر یقینی بنے کہ وہ مری آرام کے لیے جا رہے ہیں، نہ کہ کسی خفیہ مشن پر۔ اس کے علاوہ ایک بوئنگ میں سفری سہولتوں اور حفاظتی انتظامات کا ذکر کیا گیا اور یہ بھی بتایا گیا کہ جب 11 جولائی کو طیارہ چکلالہ ایئر پورٹ پر اترے گا تو اس پارٹی کو گھوم گھما کر گیسٹ ہاؤس لے جایا جائے گا تاکہ یہ تاثر دیا جائے کہ یہ پہاڑی مقام سے آئے ہیں۔ اس کے بعد پرنسپل ٹریولر (کسنجر) صدر سے ملاقات کریں گے اور اس کے بعد وہ ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہو جائیں گے جہاں سے ان کا طیارہ پیرس کے لیے پرواز کر جائے گا۔ سب باتیں منصوبے کے مطابق ہوئیں۔ اور تاریخی دورہ کامیاب رہا۔ چین واپسی کے بعد پیرس سے ہوتے ہوئے کسنجر واشنگٹن ڈی سی پہنچے اور پھر 15 جولائی کو صدر نکسن نے کسنجر کے چین کے خفیہ مشن کے بارے میں ایک بیان جاری کیا۔ ہنری کسنجر نے سنہ 1971 میں چین کا دو مرتبہ دورہ کیا، ایک مرتبہ جولائی میں اور پھر اکتوبر میں۔ چین کی جانب سے کسنجر کے ساتھ مذاکرات میں وزیرِ اعظم چو این لائی نے حصہ لیا۔ بات چیت کے آغاز میں دونوں کے درمیان تائیوان کے معاملے میں اختلاف تھا لیکن کسنجر نے چین کے موقف کو تسلیم کیا۔ اس ملاقات کے نتیجے میں ہنری کسنجر نے ویت نام، مشرقی ایشیا اور جاپان کے بارے میں چین سے اہم معاملات پر بھی کافی کچھ کامیاب مذاکرات کیے۔ اس کے علاوہ چین کے ساتھ سویت یونین کے خلاف ایک متفقہ موقف بھی بنانے کی بنیاد بنائی۔ کسی بھی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا چین کا یہ دورہ پاکستان کی وساطت سے ممکن ہوا تھا اور اس میں صدر نکسن کے کہنے پر پاکستان کے صدر یحییٰ حان نے اہم کردار ادا کیا تھا جنھوں نے چینی رہنماؤں کو اپنے اثر و نفوذ کے ذریعے بات چیت کے لیے قائل کیا، اگرچہ ان حالات میں چینی بھی امریکیوں سے تعلقات کے خواہاں تھے۔ امریکہ اور چین کے تعلقات میں پاکستان کے اس کردار، خفیہ سفارت کاری اور اعتماد سازی کو بہت زیادہ سراہا جاتا ہے۔ اس دورے کے بعد کمیونسٹ بلاک کی ابھرتی ہوئی طاقت تقسیم ہوئی اور کمیونسٹ بلاک آہستہ آہستہ کمزور ہونا شروع ہو گیا۔ پاکستان جس نے اس خفیہ مشن کے انتظامات میں کلیدی کردار ادا کیا اُسے اِس خدمت کے عوض کیا ملا؟ یہ ابھی تک واضح ہونا باقی ہے۔ امریکہ کی اس خفیہ سفارتکاری کے دوران پاکستانی فوج مشرقی پاکستان میں فوجی کارروائیوں میں مصروف تھی اور اسی دوران انڈیا سویت یونین کی مدد سے پاکستان کے خلاف جنگی تیاریوں میں بھی مصروف تھا۔ اس خفیہ مشن اور اس کی تزویراتی اہمیت کو بین الاقوامی امور کے تمام ماہرین تسلیم کرتے ہیں لیکن اکثر مغربی تجزیہ مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کی وہاں کے شہریوں کے خلاف کارروائیوں پر خاموشی پر نکسن اور کسنجر کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ظفر ہلالی کے مطابق صدر نکسن کے صدر یحییٰ کے نام شکریہ کے خط میں اُن کے والد آغا ہلالی کا نکسن نے خاص شکریہ ادا کیا تھا۔ ’نکسن نے اتنی زیادہ تعریف کی تھی کہ میرے والد نے اس کے خط میں ترامیم کرائیں اور خط دوبارہ لکھا گیا۔ سوچیے کہ ایک پاکستانی سفیر امریکی صدر کے خط کے مسودے کو درست کرائے۔‘ پاکستانی سفارت کار ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ نکسن کا اظہارِ تشکر کافی نہیں سمجھا جا سکتا ہے جب تک کہ اس بات کا یقین کریں کہ اندرا (گاندھی) مغربی پا کستان کو فتح کرنا چاہتی تھی اور نکسن نے کہا کہ ایسی کسی بات کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ بہرحال یہ بات تاریخ میں ہمیشہ متنازع رہے گی کہ امریکہ نے پاکستان کو استمال کرنے کے بعد پاکستانی فوج کے مشرقی پاکستان میں مبینہ جرائم کو نظر انداز کر کے اُسے انعام دیا یا سویت یونین کے حمایت یافتہ انڈیا کو مغربی پاکستان پر قبضہ کرنے سے روکا۔
regional-55303221
https://www.bbc.com/urdu/regional-55303221
چین کے صوبے سنکیانگ میں اویغور برادری کا ’استحصال‘: کپاس کے کھیتوں میں جبری مشقت کروائے جانے کا انکشاف
بی بی سی کے سامنے آنے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق چین اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں کپاس کے وسیع کھیتوں میں لاکھوں اویغوروں اور دیگر اقلیتوں کو سخت دستی مزدوری پر مجبور کر رہا ہے۔
حال ہی میں آن لائن دریافت ہونے والے دستاویزات، ایک ایسی فصل کو چننے میں جبری مشقت کے ممکنہ پیمانے کی پہلی واضح تصویر مہیا کرتی ہیں، جو دنیا میں روئی کی فراہمی کا پانچواں حصہ ہے اور پوری دنیا میں فیشن کی صنعت میں وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے۔ نظربند کیمپوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کے ساتھ، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں دس لاکھ سے زائد افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے، اقلیتی گروہوں کو ٹیکسٹائل فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور کرنے کے الزامات کے دستاویزات پہلے ہی سامنے آ چکے ہیں۔ چینی حکومت ان دعوؤں کی تردید کرتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ یہ کیمپ ’پیشہ ورانہ تربیتی سکول‘ ہیں جبکہ فیکٹریاں بڑے پیمانے پر اور رضاکارانہ طور پر ’غربت کے خاتمے‘ کی سکیم کا حصہ ہیں۔ لیکن نئے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ ایک برس میں پچاس لاکھ اقلیتی کارکن، ان حالات میں کپاس کی چنائی کرتے ہیں جو انتہائی خطرناک ہیں۔ یہ بھی پڑھیے اویغور مسلمانوں کے لیے ’سوچ کی تبدیلی‘ کے مراکز چین: کیمپوں میں اویغوروں کو ’برین واش‘ کیسے کیا جاتا ہے؟ اویغور ماڈل کی ویڈیو جس نے چین کے حراستی مراکز کا پول کھول دیا واشنگٹن میں وکٹمز آف کمیونزم میموریل فاؤنڈیشن کے سینئر فیلو اور ان دستاویزات کو سامنے لانے والے ڈاکٹر ایڈریئن زینز نے بی بی سی کو بتایا: ’میری نظر میں اس کے مضمرات واقعی ایک تاریخی پیمانے پر ہیں۔‘ ’پہلی بار ہمارے پاس نہ صرف اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ اویغوروں سے کپڑوں کی تیاری میں جبری مشقت کرائی جا رہی ہے بلکہ یہ براہ راست کپاس کی چنائی کے بارے میں بھی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ یہ گیم چینجر ہے۔‘ ’کوئی بھی شخص جو اخلاقیات کی پرواہ کرتا ہے اسے سنکیانگ کو دیکھنا ہو گا جو چین میں کپاس کا 85 فیصد اور دنیا بھر میں کپاس کا 20 فیصد مہیا کرتا ہے، اور کہنا چاہیے کہ اب ہم ایسا نہیں کر سکتے۔‘ منظر 1 - دستاویزات کی سلائیڈز یہ دستاویزات، جو کہ آن لائن سرکاری پالیسی اور سرکاری خبروں کا مجموعہ ہیں، سے پتہ چلتا ہے کہ اکسو اور ہوٹن کے صوبوں نے سنہ 2018 میں سنکیانگ کنسٹرکشن اینڈ پروڈکشن کورپس کے نام سے ایک چینی نیم فوجی تنظیم میں کپاس کی چنائی کے لیے دو لاکھ 10 ہزار کارکنوں کو ’لیبر ٹرانسفر‘ کے ذریعہ بھیجا۔ اس سال اکسو نے اپنے کھیتوں کے لیے 142،700 کارکنوں کی ضرورت کی نشاندہی کی جو بڑے پیمانے پر ’سب کو منتقل کیا جانا چاہیے‘ کے منتقلی کے اصول کے ذریعے پورا کیا گیا۔ چنائی کرنے والوں کو ’غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں کی شعوری طور پر مزاحمت‘ کی ’رہنمائی‘ کرنے کے حوالے سے اشارہ یہ واضح کرتا ہے کہ یہ پالیسیاں بنیادی طور پر سنکیانگ کے ایغوروں اور دیگر روایتی مسلم گروہوں کے لیے تیار کی گئیں ہیں۔ سرکاری اہلکار سب سے پہلے کپاس کے کھیتوں کے ساتھ ’ارادے کے معاہدوں‘ پر دستخط کرتے ہیں، جس میں ’مزدوروں کی تعداد، مقام، رہائش اور اجرت‘ کا تعین کیا جاتا ہے، جس کے بعد چنائی کرنے والوں کو ’جوش و جذبے سے سائن اپ‘ کرنے کے لیے متحرک کیا جاتا ہے۔ اس بارے میں کئی اشارے ملتے ہیں کہ یہ جوش و جذبہ پورے دل سے نہیں ہوتا۔ ایک رپورٹ میں ایک گاؤں کے بارے میں بتایا گیا ہے جہاں لوگ ’زراعت میں کام کرنے کو تیار نہیں‘ تھے۔ عہدیداروں کو ’تعلیمی کام‘ کے لیے دوبارہ جانا پڑا اور آخرکار 20 افراد کو روانہ کردیا گیا جبکہ مزید 60 کو ’برآمد‘ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ کیمپ اور فیکٹریاں چین ایک طویل عرصے سے اپنے غریب دیہی علاقوں سے بڑے پیمانے پر لوگوں کی نقل مکانی کرتا رہا ہے، جس کا مقصد روزگار کے مواقع کو بہتر بنانا بتایا جاتا ہے۔ صدر شی جن پنگ کی اس سب سے اہم اندرونی سیاسی ترجیح کا مقصد یہ ہے کہ اگلے سال کمیونسٹ پارٹی کی صد سالہ تقریب کے موقع تک غربت کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ لیکن سنکیانگ میں اس سے کہیں زیادہ سیاسی مقصد اور بہت زیادہ کنٹرول کے شواہد موجود ہیں اور اسی طرح بڑے پیمانے پر اہداف اور کوٹہ بھی ہے جن پر پورا اترنے کے لیے حکام پر دباؤ ہے۔ اس خطے کے بارے میں چین کے نظریے میں ایک واضح تبدیلی کا علم سنہ 2013 میں بیجنگ میں راہگیروں اور مسافروں اور سنہ 2014 میں کنمنگ شہر پر ہونے والے دو وحشیانہ حملوں سے لگایا جاسکتا ہے، جس کا الزام چین نے اویغور اسلام پسندوں اور علیحدگی پسندوں پر لگایا تھا۔ اس کے جواب میں، سنہ 2016 کے بعد سے ’دوبارہ تعلیم‘ کے کیمپوں کی تعمیر کو دیکھا گیا جن میں ایسے افراد کو رکھا جاتا ہے جن کے کسی رویئے کو عدم اعتماد کی ممکنہ علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جیسے کہ فون پر خفیہ میسجنگ ایپ کو انسٹال کرنا، مذہبی مواد کو دیکھنا یا بیرون ملک کسی رشتہ دار کا ہونا۔ اگرچہ چین انھیں ’انتہا پسندی کے خاتمے کے سکول‘ قرار دیتا ہے لیکن اس کے اپنے ریکارڈ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حقیقت میں یہ ایک قید خانہ ہے جس کا مقصد پرانے عقائد اور ثقافت رکھنے والے افراد کو کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ وفاداری میں تبدیل کرنا ہے۔ سنہ 2018 سے صنعتی توسیع کا بڑا منصوبہ جاری ہے جس میں سینکڑوں فیکٹریوں کی تعمیر بھی شامل ہے۔ بڑے پیمانے پر ملازمت اور بڑے پیمانے پر حراست میں رکھنے کا متوازی مقصد کیمپوں کے اندر یا ان کے قریب موجود بہت سی فیکٹریوں کی ظاہری حالت سے واضح ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کا خیال ہے کہ اسے کام کی بدولت سنکیانگ کی اقلیتوں کے ’فرسودہ نظریات‘ کو تبدیل کرنے اور جدید، سیکولر، اجرت سے کمانے والے چینی شہریوں میں تبدیل کرنے میں مدد ملے گی۔ منظر 2۔ کیمپ اور فیکٹری کے گرافکس بی بی سی نے کوقا شہر میں ایک ایسی سہولت گاہ کا دورہ کرنے کی کوشش کی، جسے آزاد محققین نے دوبارہ تعلیم کے کیمپ کے طور پر شناخت کیا تھا۔ 2017 میں تعمیر کردہ اس کیمپ کی سیٹیلائٹ تصاویر میں اندرونی سیکورٹی کی دیواریں دکھائی دیتی ہیں اور ایک گارڈ ٹاور دکھائی دیتا ہے۔ سنہ 2018 میں اس کے ساتھ ایک بالکل نئی فیکٹری نمودار ہوتی ہے۔ تعمیر مکمل ہونے کے فوراً بعد سیٹلائٹ نے کچھ اہم عکس بند کیا۔ آزاد تجزیہ کار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ بڑح تعداد میں لوگوں کو، بظاہر تمام ایک ہی رنگ کا یونیفارم پہنے ہوئے، دونوں مقامات کے درمیان چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ جب متعدد گاڑیاں ہمارا پیچھا کر رہی تھیں تو ہم نے اس کمپلیکس کی ویڈیو بنائی۔ ایسا لگتا ہے کہ فیکٹری اور کیمپ کو اب ایک بڑے فیکٹری کمپلیکس میں یکجا کر دیا گیا ہے، جس میں غربت کے خلاف مہم کے فوائد کو بڑھاوا دینے کے پروپیگنڈے نعرے درج ہیں۔ کافی دن پہلے ہی ہمیں فلم بندی سے روک دیا گیا اور یہاں سے جانے پر مجبور کر دیا گیا۔ مقامی سرکاری میڈیا کے مطابق ٹیکسٹائل فیکٹری میں 3000 افراد ’حکومتی تنظیم‘ کے تحت ملازمت کرتے ہیں۔ لیکن اس بات کی تصدیق کرنا ناممکن ہے کہ سیٹلائٹ تصویر میں موجود لوگ کون ہیں یا ان کے حالات کیا ہیں۔ اس فیکٹری کو بھیجے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا گیا ہے۔ سنکیانگ میں ہم نے جتنا وقت بھی گزارا، اس دوران پولیس، مقامی پروپیگنڈہ عہدیداروں اور دیگر افراد کے ذریعہ ہمیں بار بار فلم بندی سے روکا جاتا رہا اور اس کے بعد سینکڑوں کلومیٹر تک نامعلوم افراد کے بڑے گروہوں نے بغیر نشان والی گاڑیوں میں ہمارا پیچھا کیا۔ 'گہری جڑوں والی سست سوچ' بی بی سی کی ٹیم کا پیچھا کرتی گاڑیاں کیمپوں اور کارخانوں کے درمیان رابطے کے باوجود، زیادہ تر وہ لوگ ہیں جنھیں حراست میں نہیں لیا گیا اور وہ سنکیانگ کی غربت مٹانے کی مہم کا اصل ہدف ہیں، اس گروپ کو سکیورٹی کے لیے کم خطرہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ کھیتی باڑی یا گلہ بانی کرنے والے غریب خاندانوں سے 20 لاکھ سے زیادہ افراد کو کام کے لیے متحرک کیا گیا ہے جن میں سے اکثر کی پہلے ’فوجی طرز‘ کی ملازمت کی تربیت دی جاتی ہے۔ اب تک کہ دستیاب شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کیمپ کے قیدیوں کی طرح، یہ افراد بھی فیکٹریوں اور خاص طور پر سنکیانگ کی عروج پر پہنچنے والی ٹیکسٹائل ملوں میں مزدوری کے لیے استعمال ہوتے رہے ہیں۔ رواں سال جولائی میں امریکہ میں قائم سینٹر برائے سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز (CSIS) نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ ’ممکن‘ ہے کہ ان اقلیتیوں کو کپاس کی چنائی کے لیے بھی بھیجا گیا ہو لیکن اس بارے میں ’مزید معلومات کی ضرورت ہے۔‘ ڈاکٹر زینز کو ملنے والی نئی دستاویزات میں نہ صرف یہ معلومات فراہم کی گئی ہیں بلکہ اس سے اقلیتوں کو بڑے پیمانے پر کھیتوں میں منتقل کرنے کے پیچھے ایک واضح سیاسی مقصد بھی ظاہر ہوتی ہے۔ منظر 3۔ کپاس کے کھیت ’موقع‘ دستاویزات سنکیانگ کی علاقائی حکومت کی طرف سے کپاس کی چنائی کرنے والوں سے متعلق اگست 2016 کو نوٹس جاری کیا گیا، جس میں عہدیداروں کو ’ان کی نظریاتی تعلیم اور نسلی اتحاد کی تعلیم کو تقویت دینے‘ کی ہدایت کی گئی۔ ڈاکٹر زینز کو ملنے والی ایک پروپیگنڈا رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ کپاس کے کھیت غریب اور دیہی علاقوں کی ’گہری جڑوں والی سست سوچ‘ کو تبدیل کرنے کا ایک موقع فراہم کرتے ہیں اور انھیں بتاتے ہیں کہ ’مزدور شاندار ہے۔‘ ایسے جملے چینی ریاست کے اویغور طرز زندگی اور رواج کے بارے میں جدیدیت کی راہ میں رکاوٹ کے طور پر کام کرنے کے نظریہ کی بازگشت کرتے ہیں۔ ایک اور پروپیگنڈا رپورٹ میں کپاس کی چنائی کے فوائد بیان کرتے ہوئے گھر میں رہنے اور ’بچوں کی پرورش‘ کرنے کی خواہش کو ’غربت کی ایک اہم وجہ‘ بتایا گیا ہے۔ ریاست بچوں، بوڑھوں اور مویشیوں کی دیکھ بھال کے ’مرکزی‘ نظام مہیا کررہی ہے تاکہ ہر کوئی ’کام پر جانے کی پریشانیوں سے آزاد ہو۔‘ اور ایسے بہت سے حوالہ جات موجود ہیں کہ کس طرح متحرک کپاس چننے والوں کو کنٹرول اور نگرانی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس سال اکتوبر میں اکسو کی ایک پالیسی دستاویز میں یہ حکم دیا گیا کہ کپاس چننے والوں کو ایک سے دوسری جگہ گروپوں میں منتقل کیا جانا چاہیے اور ان کے ہمراہ ایسے عہدیدار ہونے چاہیے جو ان کے ساتھ ’کھاتے، رہتے، مطالعہ کرتے ہیں اور ان کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ محمت(فرضی نام) اب یورپ میں رہائش پذیر ایک نوجوان اویغور ہیں جو سنکیانگ واپس نہیں آ سکتے کیونکہ بیرون ملک سفر کی تاریخ ان کیمپوں میں قید کی ایک بنیادی وجہ ہے۔ پیچھے موجود اپنے خاندان سے رابطہ کرنا بھی اب ان کے لیے کافی خطرناک ہے۔ لیکن جب سنہ 2018 میں ان کی اپنے گھر والوں سے بات ہوئی تو انھیں پتا چلا کہ ان کی والدہ اور بہن کو کام کے لیے منتقل کر دیا گیا ہے۔ انھوں نے مجھے بتایا: ’وہ میری بہن کو اکسو شہر کی ایک ٹیکسٹائل فیکٹری میں لے گئے۔ وہ وہاں تین مہینے رہیں اور انھیں کوئی پیسے نہیں ملے۔‘ ’سردیوں میں میری والدہ حکومتی عہدیداروں کے لیے کپاس چن رہی تھیں۔۔۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں ہر گاؤں سے 5-10 فیصد چاہیے، وہ ہر خاندان کے پاس آتے ہیں۔‘ ’لوگ چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ جیل یا کہیں اور جانے کے بارے میں خوفزدہ ہوتے ہیں۔‘ گذشتہ پانچ برسوں میں گھر گھر جانا سنکیانگ میں قابو پانے کا ایک کلیدی طریقہ کار بن چکا ہیے اور ہر اقلیتی گھرانے کے بارے میں تفصیلی معلومات جمع کرنے کے لیے ساڑھے تین لاکھ اہلکاروں کو تعینات کیا گیا ہے۔ ’مکمل طور پر من گھڑت‘ سنکیانگ میں کپاس کی صنعت چین کے دوسرے صوبوں سے آنے والے موسمی تارکین وطن کارکنوں پر انحصار کرتی تھی لیکن کپاس کی چنائی انتہائی مشکل کام ہے اور کہیں اور اچھی اجرت اور بہتر ملازمت ملنے کا مطلب ہے کہ یہاں مہاجرین آنا بند ہو گئے۔ اب پروپیگنڈا رپورٹس کے مطابق مقامی مزدوروں کی فراہمی نے مزدوری کے اس بحران اور کاشتکاروں کے لیے زیادہ منافع کے دونوں مسائل کو حل کر دیا ہے۔ لیکن کہیں بھی ایسی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ سینکڑوں افراد، جن کو بظاہر کپاس کی چنائی میں کبھی کوئی ​​دلچسپی نہیں تھی، اچانک ان کھیتوں کا رخ کیوں کر رہے ہیں۔ اگرچہ دستاویزات میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ماہانہ تنخواہ کی سطح 5000 آر ایم بی (764 امریکی ڈالر) تک جا سکتی ہے لیکن ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایک گاؤں سے تعلق رکھنے والے 132 افراد کے لیے اوسطاً ماہانہ تنخواہ صرف 1670 آر ایم بی (255 امریکی ڈالر) تھی۔ لیکن تنخواہ جتنی بھی ہو، بین الاقوامی کنونشن کے تحت اجرت والی مزدوری کو ابھی بھی جبری مشقت سمجھا جا سکتا ہے۔ چین کی وزارت خارجہ کو جمع کرائے گئے سوالات کے جواب میں بی بی سی کو ایک فیکس جواب موصول ہوا جس میں کہا گیا ہے: ’تمام نسلی گروہوں کے لوگ اپنی مرضی کے مطابق سنکیانگ میں اپنی ملازمت کا انتخاب کرتے ہیں اور قانون کے مطابق رضاکارانہ ملازمت کے معاہدوں پر دستخط کرتے ہیں۔‘ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ سنکیانگ میں غربت کی شرح سنہ 2014 میں تقریباً 20 فیصد سے کم ہو کر آج ایک فیصد سے کم ہو گئی ہے۔ بیان میں جبری مشقت کے دعووں کو ’مکمل طور پر من گھڑت‘ قرار دیا گیا ہے اور چین کے ناقدین پر الزام لگایا ہے کہ وہ سنکیانگ میں ’جبری بے روزگاری اور جبری غربت‘ پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’سنکیانگ کے تمام نسلی گروہوں کے مسکراتے چہرے امریکہ کے جھوٹ اور افواہوں کا سب سے طاقتور ردعمل ہیں۔‘ لیکن بیٹر کاٹن انیشی ایٹو، جو ایک آزاد ادارہ ہے، نے بی بی سی کو بتایا کہ چین کی غربت کے خاتمے کی سکیم کے بارے میں خدشات ان اہم وجوہات میں سے ایک ہیں جن کی وجہ سے انھوں نے سنکیانگ میں کھیتوں کے آڈٹ اور تصدیق کو روکنے کا فیصلہ کیا۔ ڈائریکٹر آف سٹینڈرڈز اینڈ ایشورنس ڈیمین سینفلفو نے کہا ہے کہ ’ہم نے اس خطرے کی نشاندہی کی ہے کہ غریب دیہی برادری کو غربت مٹانے کے پروگرام سے منسلک ملازمت پر مجبور کیا جائے گا۔‘ ’یہاں تک کہ اگر ان مزدوروں کو معقول اجرت مل بھی جاتی ہے، جو کہ ممکن ہے، تو اس کے باوجود ہو سکتا ہے کہ انھوں نے آزادانہ طور پر اس روزگار کا انتخاب نہ کیا ہو۔‘ مسٹر سینفلفو، جنھوں نے سنکیانگ تک اپنے بین الاقوامی نگرانوں کی بڑھتی ہوئی محدود رسائی کو ایک اور عنصر قرار دیا، نے کہا کہ تنظیم کے فیصلے سے صرف عالمی فیشن کی صنعت کے لیے خطرہ بڑھتا ہے۔ ’میرے علم کے مطابق، ایسی کوئی تنظیم نہیں جو مقامی طور پر سرگرم ہو اور اس کپاس کی تصدیق کر سکے۔‘ بی بی سی نے 30 بڑے بین الاقوامی برانڈز سے پوچھا کہ کیا وہ ہماری تحقیق کے بعد چین سے مصنوعات منگوانے کا سلسلہ جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ہمیں جواب دینے والوں میں سے صرف چار کپمنیوں مارکس اینڈ سپینسر، نیکسٹ، بربری اور ٹیسکو نے کہا کہ ان کی یہ سخت پالیسی ہے کہ چین سے کہیں بھی حاصل کی جانے والی اشیا میں سنکیانگ کی را کاٹن استعمال نہ کریں۔ جب ہم سنکیانگ چھوڑنے کی تیاری کر رہے تھے، تو کورلا شہر سے بالکل باہر، ہم ایک ایسی جگہ سے گزرے، جو 2015 میں ایک کھلے صحرا کی مانند تھی۔ منظر چار: جیل کمپلیکس کا سیٹلائٹ اب یہ ایک بہت بڑا، جیل کیمپ کمپلیکس ہے، آزاد تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کے اندر متعدد فیکٹریوں کی عمارتیں نظر آتی ہیں۔ ہمارا ماننا ہے کہ یہ اس سائٹ کی پہلی آزادنہ فوٹیج ہے۔ یہ ایسے بہت سے کمپلیکس میں سے ایک ہے، جو کہ سنکیانگ میں بڑے پیمانے پر قید اور بڑے پیمانے پر مشقت کے مابین دھندلی ہوئی حدود کی ایک یاد دہانی ہے۔
regional-37816390
https://www.bbc.com/urdu/regional-37816390
کشمیر ڈائری: ’بےتکے بیانات میں شعور کے کچھ قطرے کون ملائے گا‘
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں تین ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری احتجاج کی لہر، تشدد اور کرفیو کا کشمیریوں پر کیا اثر پڑا ہے؟ بی بی سی اردو نے سرینگر کی رہائشی ایک خاتون سے رابطہ کیا جن کے تجربات و تاثرات کی آٹھویں کڑی یہاں پیش کی جا رہی ہے۔ کشمیر میں مواصلاتی بلیک آؤٹ جزوی طور پر ختم ہوا ہے۔ لینڈ لائن اور موبائل فون کی سہولت تو بحال کر دی گئی ہے لیکن موبائل انٹرنیٹ سروس بدستور بند ہے جس کی وجہ سے یہ تحریریں آپ تک بلاتعطل پہنچانے میں تاخیر ہو سکتی ہے۔
کشمیر کی وزیرِ اعلیٰ محبوبہ مفتی نے حال ہی میں ایک تقریر کے دوران کہا کہ ان سے بڑا حقوقِ انسانی کا علم بردار کوئی نہیں ہے۔ وزیرِ اعلیٰ نے یہ الفاظ ادھم پور میں پولیس اکیڈمی کی پاسنگ آؤٹ تقریب کے دوران کہے۔ ادھم پور بی جے پی کے شائقوں کا علاقہ ہے اور پولیس کے یہ نئے اہلکار کل کو ہماری سڑکوں پر اپنی بندوقیں تانیں چل رہے ہوں گے۔ ٭ مظفر پنڈت کی موت کب ہوئی؟ ٭ کشمیریوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ ہے؟ ٭ کشمیر میں انڈین فوج کا 'جرنیلی بندوبست' ٭ 'بھیڑ بکریاں بچ گئیں مگر انسانی جانیں نہیں' ٭ 'ہمارے پتھر محبت کی نشانی' ٭ 'جہاں قاتل ہی منصف ہیں' ٭ کشمیر میں تعلیم بھی سیاست کی زد پر ایسے الفاظ جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دیں، ان کی تربیت کا اہم حصہ ہیں ورنہ یہ پولیس اہلکار نہتے آدمی یا بچے پر کیسے گولی چلائیں گے؟ ان کے ذہنوں میں یہ بات ڈالنی ہے کہ کشمیری آزادی کی جدوجہد نہیں بلکہ کسی کے بہکاوے میں آ کر 'سماج دشمن' حرکات کر رہے ہیں جس کا ازالہ سرکار کو کرنا ہے۔ کشمیری عوام برے اور سرکار اچھی - وزیرِ اعلیٰ تو پھر اعلیٰ ہی ہوگئیں۔ ہمارے سیاستدان تو اکثر و بیشتر ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں مگر ان وزیرِ اعلیٰ نے تو ریکارڈ ہی توڑ دیے ہیں۔ کشمیر میں جس درجے کی بربریت ہم نے اس حکومت کے دوران دیکھی ہے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معصوم بچوں کی آنکھوں اور جسموں کو چھرّوں کا نشانہ بنانا بھی اسی حکومت کا تحفہ ہے۔ جب ان بچوں کے بارے میں کسی صحافی نے سوال کیا تو وزیرِ اعلیٰ نے جواب دیا کہ وہ بچے 'پولیس اور سی آر پی ایف کے کیمپوں پر حملہ کرنے گئے تھے ٹافیاں یا دودھ لینے نہیں۔' انشا کی آنکھوں میں چھرّے اس کے باورچی خانے کی کھڑکی سے لگے۔ عرفات کو پبلک پارک میں اور ریاض کو کام سے گھر جاتے ہوئے۔ یاسمین کو گولی اس کے گھر کے قریب ایک گلی میں ماری گئی جب وہ اپنے چھوٹے بھائی کو گھر کی طرف لا رہی تھی۔ شبیر کو گھر سے گھسیٹ کر شدید پٹائی کر کے مار ڈالا گیا اور آٹھ سالہ جنید گھر سے دودھ لینے ہی نکلا تھا جب اس پر چھرّے داغے گئے۔ یہ تو بس کچھ نام ہیں اور کس کس کی کہانی انسان بیان کرے؟ وزیرِ اعلیٰ نے اوڑی حملے میں ہندوستانی فوجیوں کی موت پر 'شدید غم و غصے' کا اظہار کیا اور ہمارے جوانوں کی موت پر انھیں 'تھوڑی سی پریشانی' ہوئی۔ انھوں نے حال ہی میں وزیرِ اعظم مودی کو کشمیریوں کے زخموں پر 'مرہم' لگانے کو بھی کہا۔ اب ہمارے حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ کشمیر کے جانے مانے اور ایوارڈ یافتہ حقوقِ انسانی کے علمبردار خرم پرویز کو جیل میں بند کرنے والے خود کو اس کے مساوی بیان کرنے لگے ہیں۔ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ ایسے بیان دیتے ہوئے یہ لوگ کس دنیا میں ہوتے ہیں؟ کیا کبھی یہ اپنے ان الفاظ پر غور کرتے ہیں؟ کیا اس حکومت میں کوئی ایسا مشیر یا سپیچ رائٹر نہیں ہے جو ایسے بےتکے بیانات میں شعور کے کچھ قطرے ملا دے۔ شاید نہیں۔
050302_bbcsangat_dams_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/03/050302_bbcsangat_dams_ms
بی بی سی سنگت: ڈیم اور پانی
بی بی سی اردو پاکستان میں اپنے سامعین اور قارئین سے براہ راست ملنے اور ان کی رائے جاننے کے لیے ایک ملک گیر رابطہ مہم شروع کر رہی ہے۔
مارچ میں جاری رہنے والی اس مہم ’بی بی سی سنگت۔۔۔ کہیں آپ سنیں ہم‘ کے دوران بی بی سی اردو کی ٹیمیں حیدرآباد، خیرپور، بہاولپور، فیصل آباد، چکوال، گلگت، مظفرآباد، ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب اور گوادر میں آپ تک پہنچیں گی اور ان موضوعات پر جو آپ کے نزدیک اہم ہیں، آپ کے خیالات جانیں گی۔ اس سلسلے کا پہلا پروگرام دو مارچ کو صوبہ سندھ کے شہر حیدرآباد میں منعقد ہو رہا ہے۔ اس پروگرام کا مرکزی موضوع مرکزی موضوع ’پانی کے وسائل اور بڑے ڈیم‘ ہے۔ ہم ہر روز اگلے شہر میں ان موضوعات پر آپ کی رائے جاننا چاہیں گے تاکہ ہمارے وہ قارئین جو ان پروگرامز تک اپنی آواز نہ پہنچا پائیں وہ ہمارے صفحات پر اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ آپ کے خیال میں ’پانی‘ پاکستان کے عوام اور خصوصاً سندھ کے لیے کتنا اہم مسئلہ ہے؟ کیا بڑے ڈیم تعمیر ہونے چاہئیں ؟ ان ڈیمز کی تعمیر کتنی فائدہ مند اور کتنی نقصان دہ ہوگی؟ اس پر ہمیں اپنی رائے بھیجیے۔ اس کے علاوہ اگر آپ بی بی سی اردو سروس کے بارے میں اپنی آراء یا یادیں ہمیں بھیجنا چاہیں تو وہ اسی فورم کے ذریعے تفصیل سے لکھ کر بھیجیں۔ عبدالرؤف دیتھو، کینیڈا:مشرف بھٹو کی طرح پنجاب کے ایجنٹ ہیں جو اپنے آپ کو سندھی بولتے ہیں لیکن ہر کام پنجاب کا ہوتا ہے۔ سندھ کی زراعت برباد ہوگئی، پنجاب میں بمپر کراپ فصل ہورہی ہیں۔ بھٹو نے پنجاب کو خوش کرنے کے لئے تھل کینال دریائے سندھ پر بنایا۔ مشرف کالاباغ کی بات کررہے ہیں۔۔۔ زین علی، کراچی:میرے خیال میں ڈیم کی ضرورت تو ہے لیکن کالاباغ ہی کیوں؟ باشا ڈیم کیوں نہیں؟۔۔۔۔ نوید نقوی، کراچی:مجھے نہیں پتہ کہ اگر کالاباغ ڈیم نہیں بنا تو کیا ہوگا کیوں کہ سندھ کے سیاست دان کچھ کہہ رہے ہیں اور گورنمنٹ کچھ۔ اب وہ لوگ بےچارے کیا رائے دیں گے جنہوں نے آج تک ڈیم تو کیا، ہوا بھی نہیں دیکھا۔ ان کو یہ نہیں پتہ کہ ڈیم تعمیر کرنے یا نہ کرنے سے یہ فرق پڑتا ہے پر ایک بات تو ہے کہ ہوگا وہی جو پاکستان کی گورنمنٹ چاہے گی۔ عبدالغفار پندرانی، لڑکانہ:یہ ڈیم کے ایشوز کو سنتے ہوئے بیس سال ہونے والے ہیں۔ابھی تک کچھ بھی دیکھنے کو نہیں ملا۔۔۔۔ ظاہر شاہ، امریکہ:موجودہ حالات میں کالاباغ ڈیم ایک سیاسی تنازعہ بن گیا ہے اور اسے نظرانداز کرنے کی ضرورت ہے۔ باشا ڈام اتنا حساس مسئلہ نہیں ہے اور ہمیں اسے فوری طور پر تعمیر کرنا چاہئے۔ بڑے ڈیم بنانے کی جگہ ہمیں چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے پر توجہ دینی چاہئے۔ محمد علی بشیر میمن، کراچی:ڈیم اور پانی کے مسئلے پر کسی بھی سیاسی جماعت کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ عوام کو غلط راہ دکھائیں اور ڈیم کے اوپر پیدا کی جانے والی ساری غلطیاں دشمنوں کی پھیلائی ہوئی ہیں۔ ہم سب کو چاہئے کہ اس مسئلے پر جلد از جلد ایک ہوجائیں۔ شاہد ارشاد، خان پور:ڈیم پاکستان کے لئے ضروری ہیں۔ کچھ سیاست دان ڈیم کے خلاف ہیں اور حکومت سنجیدہ نہیں ہے۔ اگر حکومت فیصلہ کرتی ہے تو کوئی اس کی مخالفت نہیں کرتا ہے۔ میرے خیال میں لوگوں کی اکثریت اور سیاست دان بھی اس کی مخالفت بغیر کسی اچھی وجہ کے کررہے ہیں۔ شعیب باوجہ، فیصل آباد:کالا باغ ڈیم ایک ٹیکنیکل مسئلہ ہے جس پر انجینیئرز کو کچھ اعتراض بھی ہے لیکن بات کو عوام میں ایشو بنانے کی سیاست چمکائی جارہی ہے جو سیاست دان کالا باغ ڈیم کی مخالفت کرتے ہیں ان میں سے کتنے ایسے ہیں کہ جب عوام کو پانی نہیں ملے گا تو ان کو کوئی مسئلہ ہوگا۔ قومی مفاد کو سیاست کی نظر کرنا اپنے آپ سے اور آنے والی نسلوں سے دشمنی اور ملک سے غداری ہے۔ بلاول، میرپور خاص:جو بھی ملک کا حکمران آتا ہے پنجاب کو بڑھنے اور سندھ کو کھانے کی بات کرتا ہے۔ میر شاہ مراد طالپور، میرپور خاص:جو کہتے ہیں کہ کالاباغ بنے، وہ پہلے سندھ کے پانی کا حصہ تو پورا دیں۔ اس کے بعد باشا ڈیم بنائیں کیوں کہ اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہے۔ پھر کالاباغ پر ایک اچھی نیگوشی ایشن کرکے سب کو راضی کرکے بنائیں۔ مگر پتہ نہیں حکومت کالاباغ کی زیادہ فکر کرتی ہے؟ ضیاء الرحمان شہزاد، گجرانوالہ:ڈیم نہیں بنے تو پاکستان مشکل میں ہوگا۔ شازیہ نظامانی، ٹانڈو قیصر:جی نہیں، کالاباغ ڈیم کو کبھی نہیں بنانا چاہئے۔ پانی کا معاملہ سندھ کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ جنرل صاحب ابھی تک سندھیوں کو پانی کی فراہمی کا یقین نہیں دلاسکے، ڈیم بنانے کے بعد سندھ کو کیا خاک پانی ملے گا۔ میرے خیال میں کالا باغ ڈیم بنانے کا خیال جنرل صاحب کو اپنے دل سے نکالنا چاہئے کیوں کہ سندھیوں کو ناراض کر کے وہ پاکستان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لے لیں۔۔۔۔ ارسلان، مانچسٹر:ڈیم بنانا ضروری ہے۔ سندھ کو تو فائدہ ہے، نہروں کے ذریعے پانی بہتر طریقے سے کھیتوں تک پہنچایا جاسکتا ہے، یا صرف دریا کے ذریعے؟ پنجابی تو ہر پاکستان سی بہت زیادہ انتہائی پیار کرتے ہیں۔ بےشک وہ سندھی ہو، بلوچی ہو، پٹھان ہو، یا کشمیری، لیکن۔۔۔۔ ماجد رفیق، لاہور:کچھ کام بغیر کسی بحث و مباحثے کے کرنا چاہئے۔ جتنی زیادہ بحث آپ کرتے ہیں اتنے تنازعات کھڑے ہوتے ہیں۔ جنرل صاحب، بس ڈیم بنادیجئے۔۔۔۔ دانش احمد، نیویارک:ڈیم کا صحیح معنی جاننے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں لوگ غیریافتہ ہیں۔ انہیں ڈیم کا معنی اور اس کی اہمیت نہیں معلوم ہے۔ یہی مسئلہ ہے۔ سیاست دانوں نے ڈیم کا معنی خراب کررکھا ہے۔ جادل منگی، گھوٹکی:اصل مسئلہ ڈیم یا پانی کا نہیں ہے۔ یہ مسئلہ ہے کہ بلوچوں، سندھیوں اور پٹھانوں پر کیسے غلبہ حاصل کیا جائے۔ ہم اسے قبول نہیں کریں گے اور ڈیم کی مخالفت کرتے رہیں گے۔۔۔۔ فیصل چانڈیو، حیدرآباد سندھ:ایک ایسے ڈیم کی بات کررہے ہیں جس پر تین صوبوں کے اعتراضات ہیں اور عوامی مخالفت بھی، اور حالیہ بارشوں میں چھوٹے ڈیم ٹوٹ گئے تو اس ڈیم کی کیا ضمانت ہے کہ یہ صحیح ہوں گے، اور یہ ڈیم کسی فرد واحد کے لئے نہیں بنتے۔۔۔۔ محمد فیصل جمال، چکوال:ہر شخص کے لئے پانی ضروری ہے۔ پاکستان کے لئے پانی جمع کرنے کے لئے ڈیم کی ضرورت ہے۔ اگر ہم پانی جمع کرنے کے لئے ڈیم نہیں بناتے ہیں تو پانی کی قیمت ڈیژل اور پیٹرول سے بھی زیادہ ہوجائے گی۔ پانی کی ضرورت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ہمیں پانی کی ضرورت بجلی اور کاشتکاری کے لئے اور پینے کے لئے ضروری ہے۔ اگر ہم ڈیم نہیں بناتے ہیں تو آنے والی نسلیں پانی کے لئے لڑیں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ پانی صرف ایک صوبے کے لئے مسئلہ نہیں، پورے پاکستان کو پانی چاہئے۔ شکیل شہزاد، پاکستان:میری رائے یہ ہے کہ ڈیم بننا چاہئے کیوں کہ یہ مستقبل میں پاکستان کے لئے اچھا ہوگا۔۔۔۔ راشد میمن، نیوجرسی:کالا باغ ڈیم کا مسئلہ پانی کا ہے۔ اگر حکومت عوام کو سمجھاسکتی ہے کہ وہ ڈیم سے کئی دریا نکالے گی تو سندھ کے عوام راضی ہوجائیں گے۔ لیکن حکومت نے پہلےہی دریا بنانے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن اگر یہ منصوبہ ملٹری بناتی ہے تو خدا پاکستان کی خیر کرے۔۔۔غلام رسول بھگت، میرپور خاص:مجھے لگتا ہے کہ پنجاب اور سندھ کے درمیان پانی کی جنگ ہوگی۔ انشاء اللہ سندھ کامیاب ہوگا۔ پنجابی۔۔۔۔ ذیشان حیدر، جرمنی:کالاباغ ڈیم کے لئے چاروں صوبوں کے تکنیکی ماہرین کو بٹھائیں اور اس پر فیصلہ کریں۔ اس کے بعد ہی ڈیم بنانے کا فیصلہ ہو۔غریب جالبانی، سہوان شریف:جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ملک میں پانی کا مسئلہ ڈیم بناکر حل کیا جاسکتا ہے وہ بیوقوف ہیں۔ آپ پانی کے مسئلے کا حل انصاف کرکے کرسکتے ہیں۔ طارق محمود، سرگودھاڈیم مخالف طبقے نے اس مسئلے کو اتنا الجھا دیا ہے کہ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ڈیم شروع ہوا تو نہ جانے کیا ہو جائے گا۔حکومت میں بھی کچھ ایسی طاقتیں ہیں جو نہیں چاہتیں کہ ڈیم بنے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ عام پاکستانی کو بتائے کہ یہ ڈیم کیوں ضروری ہے۔ سرفراز، ٹنڈو جامڈیم ہماری ضرورت ہیں اور ان کو ضرور بننا چاہیے۔ اگر ڈیم نہیں بنے تو ہم بجلی اور پانی سے محروم ہو جائیں گے۔ یحییٰ، نواب شاہکالاباغ ڈیم کا مسئلہ پاکستان کو تباہ کر سکتا ہے۔ کیا ہم اسے پاکستان کی سالمیت کے لیے ترک نہیں کر سکتے؟ عمران ملک، لاہورپاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں غلط لوگ غلط فیصلے کرتے ہیں۔ کالا باغ ایک تکنیکی مسئلہ ہے مگر اسے سیاست کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ کالا باغ کے مخالفین مستقبل میں پانی کو ترسیں گے۔ عمر حجام، ڈھیرکیپنجاب نہ جانے کیوں بچگانہ رویہ اختیار کیے ہوئے ہے؟ مراد، حیدرآبادسندھ میں پانی کی کمی خطرناک صورت اختیار کر گئی ہے لیکن ہمارے سیاست دان اس مسئلے پر اپنی دکان چمکانے میں مصروف ہیں۔ نواز ملک، قطراگر یہ ڈیم ملک کے لیے ضروری ہے تو اسے بنا تاخیر کے بن جانا چاہیے۔ ریحان وحید، کینیڈاحکومت کو چاہیے کہ وہ ڈیم کے نقشے اور اس کے نقصانات و فوائد عام فہم زبان میں ٹی وی اور ریڈیو پر نشر کرے۔ماہرین بھی اس پر اپنی رائے دیں۔ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے گا۔ محمد اشفاق الرٰحمن، ٹوبہ ٹیک سنگھپاکستان میں پانی کا مسئلہ بہت زیادہ ہے اور نئے ڈیموں کی ضرورت ہے۔ اگر ان کی تعمیر نہ کی گئی تو آبپاشی اور بجلی جیسے مسائل سر اٹھانے لگیں گے۔ جان محمد بھٹو، شکار پورکالا باغ ڈیم پنجاب کو خوش کرنے کے لیے بنایا جا رہا ہے۔ اور ہم اس سے سندھ اور سرحد کو تباہ کن نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ عامر احسن خان، اٹکجب ہم پہلے سے موجود ڈیم ہی نہیں بھر پاتے تو نئے ڈیم کی ضرورت ہی کیا ہے اور مصیبت جس پر آتی ہے وہی جانتا ہے۔ غازی بروتھا پراجیکٹ نے جس طرح ہم لوگوں کو متاثر کیا ہے یہ ہم ہی جانتے ہیں۔ منظور احمد، گنگا چھوٹیپانی اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے مزید ڈیم بنانے کی ضرورت ہے اور کسی کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ غلام فرید شیخ، گمبٹمسئلہ پانی کا نہیں ہے بلکہ اس کی تقسیم کا ہے۔ پاکستان میں پانی ہے لیکن صحیح طرح سے تقسیم نہیں ہوتا۔جہاں تک ڈیم کا تعلق ہے تو صرف وہی ڈیم بننے چاہییں جو کہ سب کو قابلِ قبول ہوں۔ احسن خان، چینمستقبل قریب میں پانی پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہوگا اس لیے حکومتِ پاکستان کو کالا باغ جیسے بڑے ڈیم تعمیر کرنے چاہییں اور تمام پاکستانیوں کو اس معاملے پر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ امتیاز احمد،اسلام آبادپانی پاکستان کے ہر علاقے کی ضرورت ہے۔ سندھ کو نئے ڈیموں کی ضرورت ہے اور اس میں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے۔ سعید احمد بیگانہ، جاپانپانی کے مسئلے کا واحد حل صرف اور صرف کالا باغ ڈیم ہے۔ اب مزید دیر اپنے پیروں پر خود کلہاڑی مارنے کے مترادف ہو گی۔ اس مسئلے کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہیے۔ گل انقلابی، دادودریائے سندھ کا پانی سندھ کے عوام کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ سندھ کے ساتھ گزشتہ ستاون برس میں ایک کالونی سے بھی بدتر سلوک کیا گیا ہے۔ سندھ پاکستان کا ستر فیصد سے زیادہ ریونیو پیدا کرتا ہے لیکن بدلے میں اسے سوائے تسلیوں کے کچھ نہیں ملتا۔ آصف علی، ٹنڈو محمد خانڈیم کی تعمیر سے سندھ کا زرعی نظام بری طرح متاثر ہوگا اور عوام بھوکے مر جائیں گے۔ جمن حلائی، ہالہکالاباغ ڈیم اور تھل کینال سندھ کو پانی کے آخری قطرے سے محروم کرنے کی سازش ہے۔سندھیوں کو یہ ڈیم اور یہ نہر منظور نہیں۔ بیجل جونیجو، لاڑکانہسندھ اور کالاباغ ڈیم ساتھ نہیں چل سکتے۔
070623_plassey_250_years
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/06/070623_plassey_250_years
پلاسی: برصغیر میں قومی شناخت کا سوال
ڈھائی سو برس قبل تئیس جون کے دن جب بنگال کے ایک گاؤں پلاسی میں سورج طلوع ہوا تو بادل چھائے ہوئے تھے۔ وقفے وقفے سے بارش ہورہی تھی۔ پلاسی کے اس گاؤں کےآم کے باغ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے چار ہزار کے قریب فوجی چھپے ہوئے تھے۔ کسی کو کچھ یقین نہیں تھا کہ بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ کی چالیس ہزار نفوس پر مشتمل فوج سے ٹکرانے کے بعد کمپنی کی فوج کا کیا بنے گا۔
لارڈ کلا ئیو کی قیادت میں کمپنی کی فوج میدان جنگ کو دیکھ رہی تھی۔ لڑائی شروع ہوئی۔ اسی دوران بارش کا ایک زبردست ریلا آیا۔ کمپنی کی فوج کے پاس تو ترپال وغیرہ موجود تھیں جو انہوں نے اپنی توپوں پر ڈال دی مگر نواب کی توپیں بارش میں بھیگ گئیں۔ بارش تھمنے کے بعد پھر لڑائی کا آغاز ہوا۔ اور بس! کمپنی کی توپیں گرجتی رہیں اور نواب کی فوج چند گھنٹوں میں پسپا ہوگئی۔ اس طرح کمپنی کی پہلی بڑی لڑائی ہندوستان کے کسی بھی حکمران کے خلاف کمپنی کی فتح کی صورت میں ختم ہوئی۔ سوبھیر بھومک نے بتایا کے ڈھائی سو برس پورے ہونے پر پلاسی میں کسی بڑی تقریب کا کوئی انتظام نہیں تھا، البتہ کانگریس نے اور بائیں بازو کے لوگوں کی ایک نئی تنظیم، انڈیا بنگلہ دیش پاکستان پیپلز فورم نے اپنے اپنے سیمیناروں کا اہتمام کیا ہوا تھا۔ سوبھیر بھومک تو پلاسی میں آج کے واقعات بتاتے ہیں مگر جب کمپنی کو ڈھائی سو برس پہلے پلاسی میں فتح حاصل ہوئی تھی تو اس وقت لندن کے لوگوں کا کیا رد عمل تھا؟ لندن کے تاریخ دان، محقق اور کئی کتابوں کے مصنّف نک رابنز بتاتے ہیں کہ یہاں لندن میں کمپنی کے حصص کی قیمتیں مزید بڑھ گئیں اور مقامی اخبارات نے کہا کہ یہ کامیابی قومی قرضے اتارنے کا ایک زبردست موقع ہے اور کامیابی کی وجہ سے جو آمدنی حاصل ہو اس کے نتیجہ میں ٹیکسوں میں کٹوتی ہونا چاہئیے۔ لندن میں یہ بھی کہا جارہا تھا پلاسی کے بعد برطانیہ کو اتنی رقم ملے گی کہ سارا کا سارا یورپ حیران رہ جائیگا۔ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کہ وائس چانسلر پروفیسر مشیرالحسن کا کہنا ہے کہ پلاسی کی لڑائی نے تین اہم باتیں مسلمہ طور پر طے کردیں: اول یہ کہ اس لڑائی کے بل بوتے پر ایسٹ انڈیا کمپنی پورے ہندوستان پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئی، دوسری بات یہ کہ مغل سلطنت جو پہلے ہی کمزور ہوچکی تھی اس کی کمزوری کھل کر سامنے آگئی، اور تیسری بات یہ کہ لارڈ کلائیو کی کامیابی سے انگریزوں کی فوجی برتری مقامی فوجوں پر مکمل طور پر ثابت ہوگئی۔ لندن میں اپنی ایک حالیہ تقریر میں پروفیسر امرتیا سین نے بتایا کہ ’ کہنے والوں نے کہا ہے کہ گھٹیا حربے زیادہ عرصے تک نہیں چل سکتے ہیں۔ کمزور سیاسی نظام جو کہ اس وقت ہمارے خطے کی شناخت بن چکا تھا ایک بڑی سلطنت کے بننے کے لئے ایک کھلا موقع تھا اور پلاسی کی جنگ نے یہی ثابت کیا۔‘ پروفیسر امرتیا سین کا کہنا تھا کہ پلاسی کی جنگ ہندوستان کی ترقی کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔ ’برطانوی امپیریلزم کا ہندوستان کی تاریخ کو آگے بڑھانے میں ایک اہم کردار ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں امپیریلزم کا حامی ہوں، جس طرح لوٹ مار کے نظام پر تنقید کی وجہ سے میں امپیریلزم کا مخالف قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح میں اس کا حامی بھی نہیں ہوں۔ ہمیں اس دور کے حالات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘ پروفیسر امرتیا سین نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ پلاسی کے بعد ہندوستان میں نئی نئی قومی شناختوں کی بحث کا آغاز ہوا: ’پلاسی کی لڑائی کے بعد ایک ایسی سلطنت قائم ہوئی جو اس سے پہلے ہندوستان میں موجود نہیں تھی۔ یہاں اس سے پہلے بھی سلطنتیں رہ چکی ہیں۔ مثلاً مغل سلطنت، پٹھانوں (افغان) کی سلطنت، بدھ سلطنت، ہندو سلطنت، موریا سلطنت، گپتا سلطنت وغیرہ۔ مگر یہ سب مقامی سلطنتیں تھیں۔ جبکہ یہ (برطانوی) سلطنت سمندر پار سے آئی تھی جس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں اپنے آپ کو خود سے دیکھنے کے انداز کا ایک نیا مکالمہ شروع ہوا اور یوں مختلف گروہوں کی شناخت کا معاملہ اٹھا۔‘ ’اور دیکھنا یہ ہے کہ یہ رویے کیا کسی سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ ہیں۔ اور اگر یہ سہ سب کچھ کسی سوچی سمجھی پالیسی کا نتیجہ نہیں ہیں تو پھر یہ سب کچھ کیوں ہوا۔ آخر برصغیر میں تقسیم تو ہوئی ہے۔ مگر ماضی میں پورے ہندوستان کی ایک شناخت تھی۔ آج جب اس خطے کی آزادی کو ساٹھ برس ہوچکے ہیں تو اس پر کھل کر بات ہونی چاہیئے، مکالمہ ہونا چاہئیے۔‘ جنوبی ایشیا کے رہنما یہ مکالمہ آگے بڑھاتے ہیں یا نہیں مگر پلاسی کے میدان میں آج چند ایک دانشوروں نے دورحاضر کے تقاضوں کے مطابق اس مکالمے کی اہمیت پر زور ضرور دیا ہے۔ پلاسی سے بی بی سی کے میرے ساتھی سوبھیر بھومک نے بتایا کہ بائیں بازوں کے لوگوں کی تنظیم انڈیا بنگلہ دیش پاکستان پیپلز فورم نے کہا کہ آج ضرورت صرف یہ نہیں ہے کہ نواب سرج الدولہ اور پلاسی کے دیگر شہداء کی یاد منائی جائے بلکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے دور کی کمپنیاں یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں سے کسی قسم کے لین دین کرتے وقت پاکستان، ہندوستان اور بنگلہ دیش کے رہنما کس سوچ کے ساتھ معاملات نمٹاتے ہیں۔ پلاسی کی لڑائی کے ڈھائی سو برس ہونے پر آج جنوبی ایشیا کی قومیں کہاں کھڑی ہیں، کیا یہ آگے بڑھی ہیں یا نہیں؟ شاید یہ بحث ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی صورت میں ایک نیا رخ اختیار کرے۔
080504_hizbullah_allegation_ra
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/05/080504_hizbullah_allegation_ra
حزب اللہ پر جاسوسی کا الزام
مغرب کی حمایت یافتہ لبنانی حکومت نےشیعہ ریڈیکل تنظیم حزب اللہ پر دہشت گردی کا الزام لگاتے ہوئے کہا ہے کہ اس نے بیروت انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر خفیہ کیمرہ نصب کرکے ایئرپورٹ اور طیاروں کی فلمسازی کی۔
حزب اللہ نے خفیہ طور پر بیروت ایئیرپورٹ کی فلم بنانے کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ الزامات کا مقصد خوف پھیلانا ہے۔ لبنان میں پچھلے آٹھ سالوں سےایک سیاسی بحران جاری ہے اور ملک میں کوئی صدر بھی نہیں ہے۔ لبنانی حکومت نے الزام لگایا ہے کہ حزب اللہ نے بیروت ایئرپورٹ پر خفیہ کیمرے نصب کیے تاکہ وہ ایئرپورٹ پر نظر رکھ سکے۔ حکومت کے مطابق شاید حزب اللہ دہشگردی کی کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ لبنانی حکومت کے ایک حامی اخبار نہار نے ایسی دستاویزات شائع کی ہیں جن کے تحت لبنانی فوج کے خفیہ شعبے نے تصدیق کی ہے کہ بیروت ایئرپورٹ پر ایک ایسا خفیہ کیمرہ کا پتہ چلایا ہے جس سے پورے ایئرپورٹ پر نظر رکھی جاسکتی تھی۔ رپورٹ کے مطابق عام کپڑوں میں ملبوس تین لوگ کیمرے کو اتار کر لےگئے اور وہ لبنانی حکومت کی تحویل میں نہیں آسکا۔ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ یہ الزامات لبنان کے سیاسی مسائل کو حل کرنے کے لیے عرب لیگ کی کوششوں کو روکنے کی کوشش ہیں۔ عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل امر موسیٰ لبنان کے سیاسی بحران کو حل کرانے کے لیے جلد بیروت پہنچ رہے ہیں۔
130718_police_cm_a
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/07/130718_police_cm_a
وزیرِاعلیٰ سے جواب طلبی
جناب وزیرِاعلیٰ صاحب ’گزشتہ ماہ میرے گھر یلو بجٹ میں دو سو روپے ماہانہ کا اضافہ صرف اس لیے ہوا کہ آپ نے اپنی ذاتی رہائش گاہ کے سامنے سڑک کو حفاظت کی خاطر بند کر دیا ہے، اس لیے مجھے اب طویل چکر لگا کر جانا پڑتا ہے‘۔ یہ الفاظ ایک ریٹائرڈ پروفیسر نے ایک خط میں لکھے ہیں۔
پرویز خٹک نے لاہور کا ایک دورہ بغیر کسی اضافی پروٹوکول یا سیکیورٹی کے کیا تھا۔ یہ خط وزیر اعلیٰ کے پتے پر نہیں روانہ کیا گیا بلکہ اس خوف سے کہ شاید وزیر اعلیٰ کو ان کے کارندے یہ خط نہیں دے پائیں گے اس لیے پروفیسر صاحب نے یہ خط فیس بک پر ہی اپ لوڈ کردیا ہے ۔ جی ہاں یہ خط لکھا ہے پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پولیٹکل سائنس کے ریٹائرڈ پروفیسر اقبال تاجک صاحب نے جو ان دنوں پشاور کے ہی ایک رہائشی علاقے حیات آباد میں مقیم ہیں۔ تاجک صاحب جب پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتے تھے تو ان دنوں بھی وہ پشاور یونیورسٹی کے تمام معاملات پر کڑی نظر رکھتے تھے، مثال کے طور پر یونیورسٹی کی سینیٹ اور سینڈیکیٹ کے اجلاس میں کیا ہو رہا ہے چانسلر اور وائس چانسلر یونیورسٹی کے معاملات میں کہیں کوئی کوتاہی تو نہیں برت رہے اور یہ کہ کس استاد نے کہاں سے اور کیسے ڈگری حاصل کی ہے ۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے وزیراعلیٰ بننے سے پہلے بڑے وعدے اور دعوے کیے تھے جن میں ایک یہ تھا کہ وہ شہر سے یہ ناکے ہٹا دیں گے کیونکہ لوگ تو تنگ ہیں ہی وہ خود بھی ان غیر ضروری ناکوں سے پریشان ہیں۔ پروفیسر اقبال تاجک سے اس بارے میں رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ در اصل لوگ ان چیزوں سے اب بہت تنگ ہیں لیکن کوئی بول نہیں رہا اس لیے انھوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ یاد رہے کہ پرویز خٹک وہی وزیر اعلیٰ ہیں جنھوں نے لاہور کا ایک دورہ بغیر کسی اضافی پروٹوکول یا سیکیورٹی کے کیا تھا۔ اس خط میں پروفیسر اقبال تاجک نے مزید لکھا ہے کہ طویل چکر لگانے کی وجہ سے ان کی گاڑی میں اب اضافی ایندھن ڈالنا پڑتا ہے جس سے ان کے ذاتی بجٹ میں دو سو روپے ماہانہ کا اضافہ ہو گیا ہے۔ خط میں وزیر اعلیٰ سے استدعا کی گئی ہے کہ دو سورپے نقد یا بذریعہ چیک اس خط پر تحریر ان کے پتے پر ارسال کرکے ممنون ہونے کا موقع دیں۔ انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب تک یہ سڑک ان کی ذاتی حفاظت کی وجہ سے بند رہتی ہے تب تک ہر ماہ انھیں یہ دو سو روپے ماہانہ بھیجتے رہیں۔ پروفیسر اقبال تاجک کے بقول ان کا خط پانی کا ایک قطرہ ہے اور انھیں امید ہے کہ مزید قطرے گریں گے تو یہ دریا بنے گا۔
070219_train_relatives_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/02/070219_train_relatives_zs
لواحقین کے لیے خصوصی ٹرین
پاکستان ریلویز کے حکام کا کہنا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں متاثرہ افراد کے لواحقین اور اہلِِخانہ کو بھارت لے جانے کے لیے خصوصی ٹرین چلائی جائے گی۔
واہگہ سٹیشن پر متاثرہ ٹرین کی آمد کے منتظر حکام نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے عدنان عادل کو یہ بھی بتایا کہ بھارتی حکام کی جانب سے اب تک چونسٹھ ہلاکتوں کی تصدیق کی گئی ہے۔ حکام کے مطابق متاثرہ بوگیوں کو الگ کرنے کے بعد جو ٹرین پاکستان کی جانب روانہ کی گئی ہے اس میں پانچ سو ترپّن پاکستانی اور دو سو چار بھارتی باشندے سوار ہیں۔ ریلوے حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس دھماکے کے باوجود پاکستان اور بھارت کے درمیان چلنے والی سمجھوتہ ایکسپریس کے شیڈول پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور پاکستان سے چلنے والی ٹرین بھارت جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت جانے والی ٹرین پر ایک ہزار ایک سو بیس مسافر سوار ہیں۔ سمجھوتہ ایکسپریس ہفتے میں دو مرتبہ لاہور اور اٹاری کے درمیان مسافروں کو لاتی اور لے جاتی ہے۔
regional-50739255
https://www.bbc.com/urdu/regional-50739255
بچوں کا جنسی استحصال: انڈیا میں پیسوں کے لیے والد نے دوستوں سے بیٹی کا ریپ کروایا
بارہ سالہ بچی نے کاؤنسلرز کو بتایا کہ دو سال تک ہر ہفتے مرد اس کے گھر آتے اور اس کا ریپ کرتے۔ چند افراد سے اس کے والد کی جان پہچان تھی اور کچھ بالکل انجان تھے۔
انتباہ: اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں وہ کہتی ہیں کہ اس سب کی شروعات تب ہوئی جب میرے والد اپنے دوستوں کو گھر پر شراب پینے کے لیے مدعو کرنے لگے۔ شراب کے نشے میں دھت مرد ان کے والدین کے سامنے انھیں چھیڑتے اور چھوتے۔ کبھی کبھار مرد ان کی والدہ کے ساتھ ان کے گھر کے واحد پھپھوند کی بو سے بھرے بیڈروم میں غائب ہو جاتے۔ پھر ایک دن، بچی نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے والد نے ان کو اپنے ایک دوست کے ساتھ بستر پر دھکیل دیا اور باہر سے دروازہ بند کر دیا۔ اُس مرد نے بچی کا ریپ کر دیا۔ یہ بھی پڑھیے انڈین برادری جہاں جسم فروشی ایک روایت ہے جیا بچن:’ریپ کے مجرموں کو سرِعام قتل کیا جائے‘ اسقاط حمل کی اجازت نہ ملی، دس سالہ بچی ماں بننے پر مجبور جلد ہی بچی کا بچپن بھیانک خواب بن گیا۔ ان کے والد نے مردوں کو کال کر کے ان کی مردوں کے ساتھ بکنگ شروع کر دی اور بدلے میں پیسے وصول کرنے لگے۔ کاؤنسلرز کا ماننا ہے کہ تب سے اب تک کم از کم 30 مردوں نے بچی کا ریپ کیا ہے۔ بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے حکام نے 20 ستمبر کو بچی کے اساتذہ کی طرف سے ملنے والی خفیہ اطلاع پر عمل کرتے ہوتے ہوئے بچی کو سکول سے بازیاب کرایا اور محفوظ مقام پر لے گئے۔ حکام کے مطابق طبی جانچ سے ریپ ثابت ہوا۔ ان کے والد سمیت چار افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ ایک بچی کو پورنوگرافک مقاصد اور جنسی تشدد کے لیے استعمال کرنے پر تمام افراد پر ریپ کی فردِ جرم عائد کی گئی ہے۔ ان تمام لوگوں کی ضمانت مسترد کر دی گئی ہے۔ پولیس پانچ مزید افراد کو ڈھونڈ رہی ہے جن کی بچی کے والد کے ساتھ جان پہچان ہے اور انھوں نے بچی کے ساتھ مبینہ ریپ اور زیادتی کی ہے۔ تفتیش کاروں نے 25 ایسے مردوں کے ناموں اور تصاویر پر مبنی فہرست مرتب کی ہے جنھیں خاندان نے بچی سے ملوایا۔ بچی نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ ’مجھے ایک بھی شکل یاد نہیں ہے۔ سب کچھ دھندلا ہے۔‘ خاندان جنوبی انڈیا میں سرسبز پہاڑیوں، صاف ہوا اور تازے پانی کی ندیوں کے لیے مشہور اچھے خاصے خوشحال قصبے میں رہتا تھا۔ لیکن قصبے کی خوشحالی بچی کے خاندان کو چھو کر بھی نہ گزری۔ ستمبر میں سکول کو ان چند اساتذہ کی طرف سے شکایت ملی جو بچی کے پڑوس میں رہتے تھے۔ وہ کہنے لگے ’بچی کے خاندان کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اور اس کے گھر میں کچھ چل رہا ہے۔ اس سے بات کرنے کی کوشش کریں۔‘ سکول کی انتظامیہ نے فوراً خواتین کی مدد کے لیے بنائے گئے گروپ کی ایک کاؤنسلر کو بلایا۔ اگلے ہی روز کاؤنسلر سکول آئیں۔ بچی اور کاؤنسلر سٹاف روم میں آمنے سامنے بیٹھے۔ اوپر کے کمرے میں بچی کی والدہ نے اس سب سے بے خبر ہو کر معمول کی اساتذہ اور والدین کی میٹنگ میں حاضری دی۔ کاؤنسلر نے بچی سے پوچھا ’مجھے اپنے خاندان اور اپنی زندگی کے بارے میں بتاؤ۔‘ انھوں نے چار گھنٹوں تک بات کی۔ بچی نے بتایا کہ گھر پر اسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ اس کے والد بے روزگار ہیں۔ وہ کہنے لگیں کہ کرایہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے انھیں کسی بھی وقت گھر سے نکالا جا سکتا ہے۔ بچی نے سسکیاں بھرنا شروع کر دیا۔ پھر وہ چپ ہو گئی۔ کاؤنسلر نے انھیں سکول میں ہونے والی صنف کی کلاسز کے بارے میں بتایا کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کتنی عام ہو چکی ہے۔ بچی نے اچانک بات کاٹتے ہوئے بولا ’میرے گھر میں بھی کچھ ہو رہا ہے۔ میرے والد میری والدہ کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔‘ کاؤنسلر نے تفصیلات پوچھیں۔ وہ کہنے لگیں کہ ایک بار ان کی والدہ سے ملاقات کرنے کے لیے آئے مرد نے ان کے ساتھ زیادتی کی۔ ان کی والدہ نے اس مرد کو انکار کیا تھا۔ بچی کے مطابق جب وہ سکول پر ہوتی تو کئی مرد اس کی والدہ سے ملنے آتے۔ پھر گھر آنے والے مردوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ رات گئے تک شراب کے دور ختم ہونے کے بعد مرد انھیں جنسی طور پر تشدد کا نشانہ بناتے۔ بچی کا کہنا ہے کہ کبھی کبھار ان کے والد ان کو اپنی کوئی برہنہ تصاویر اتار کر ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے مردوں کو بھیجنے پر مجبور کرتے کاؤنسلر نے سوال کیا کہ کیا وہ مانع حمل ادویات کے بارے میں جانتی ہیں جو حمل اور جنسی بیماریوں سے بچنے میں مدد کرتی ہیں۔ بچی نے کہا ’نہیں، نہیں، ہم کنڈوم استعمال کرتے ہیں۔‘ بات چیت کے دوران یہ پہلی بار تھی کہ انھوں نے سیکس کرنے کا اقرار کیا۔ اس کے بعد بچی نے اپنا بچپن چھننے کی دل دہلا دینے والی داستان سنائی۔ انھوں نے بتایا کہ ’مرد آتے اور میری والدہ کو بیڈروم میں لے جاتے۔ مجھے لگتا تھا کہ یہ عام سی بات ہے۔ لیکن پھر میرے والد نے مجھے انجان مرد کے ساتھ کمرے میں دھکیل دیا۔‘ کبھی کبھار ان کے والد ان کو اپنی کوئی برہنہ تصاویر اتار کر ان کے ساتھ زیادتی کرنے والے مردوں کو بھیجنے پر مجبور کرتے۔ اس سال کے آغاز میں ان کے والدین پریشان ہو گئے جب انھیں تین ماہ کے لیے ماہواری نہیں آئی۔ وہ انھیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے جس نے ان کا الٹراساؤنڈ کیا اور کچھ ادویات کا نسخہ دیا۔ اب تک کاؤنسلر کو یقین آ چکا تھا کہ بچی سیریل ریپ کا شکار بنی ہے۔ انھوں نے بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے افسران کو بلایا اور بچی کو بتایا کہ اسے محفوظ مقام پر لے جایا جائے گا۔ بچی بالکل حیران پریشان نہ ہوئی۔ لیکن اساتذہ سے ملاقات کے بعد جب والدہ نے دیکھا کہ بیٹی کو کار میں لے کر جا رہے ہیں تو وہ چلانے لگیں۔ ’آپ میری بیٹی کو کیسے لے جا سکتے ہیں؟‘ کاؤنسلر نے انھیں بتایا کہ بچی کو ’کچھ جذباتی مسائل‘ درپیش تھے اور ان کے علاج کے لیے اسے لے جایا جا رہا ہے۔ ’آپ کون ہوتے ہیں میری اجازت کے بغیر میری بیٹی کا علاج کرنے والے؟‘ گذشتہ دو ماہ سے بچی جنسی تشدد کی شکار باقی لڑکیوں کے ساتھ رہ رہی تھی۔ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے حوالے سے انڈیا کا ریکارڈ شرمناک ہے۔ سرکاری ریکارڈ کے مطابق زیادہ تر واقعات میں ملوث افراد متاثرین کے رشتہ دار، پڑوسی اور آجر ہوتے ہیں۔ سنہ 2017 میں انڈیا میں بچوں کے ساتھ رپورٹ ہونے والے ریپ کے واقعات کی تعداد 10221 تھی۔ حالیہ برسوں میں ملک میں بچوں کے خلاف جرائم میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ کاؤنسلرز کے مطابق اس قسم کے ہولناک واقعات غیرمعمولی بات نہیں ہے۔ جس پناہ گاہ میں بچی کو رکھا گیا ہے وہاں 12 سے 16 سال کی تین لڑکیاں ایسی ہیں جنھیں ان کے والد نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ کاؤنسلرز کا ماننا ہے کہ اب تک کم از کم 30 مردوں نے بچی کا ریپ کیا ہے ایک کاؤنسلر کا کہنا ہے کہ انھوں نے 15 سالہ حاملہ لڑکی کو کمرہ امتحان پہنچایا تھا جسے اس کے والد نے ریپ کیا۔ کاؤنسلر نے بتایا ’ہم نے لڑکی سے پوچھا اگر وہ بچہ پیدا کرنے کے بعد چھوڑ دے گی۔ تو اس نے کہا کہ میں اپنا بچہ کیوں دوں؟ یہ میرے والد کا بچہ ہے۔ میں بچے کی پرورش کروں گی۔‘ اس رپورٹ میں شامل مرکزی بچی پہلے کچھ دن تو پناہ گاہ میں کافی دیر تک سوتی رہی لیکن پھر اس نے بے پرواہی سے لکھا کہ وہ اپنی ’اماں‘ سے کتنی محبت کرتی ہے۔ بچی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی نے ’(ریپ کی) کہانی گھڑی کیونکہ وہ ہم سے لڑ رہی تھی اور ہمیں سبق سکھانا چاہتی تھی۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ایک وقت ایسا تھا جب حالات اتنے برے نہیں تھے۔ کبھی کبھار ان کے شوہر ایک دن میں 2000 روپے کما لاتے تھے۔ اب گھر میں وہ اکیلی رہتی ہیں۔ ان کے شوہر جیل میں مقدمے کی شنوائی کا انتظار کر رہے ہیں اور ان کی بیٹی پناہ گاہ میں ہے۔ بچی کی والدہ نے بی بی سی کو بتایا ’میں ایک خیال رکھنے والی ماں ہوں۔ اسے میری ضرورت ہے۔‘ میل سے اٹی دیواروں پر سے پینٹ اتر رہا ہے۔ بچی کی غیر موجودگی میں، گھر کی دیواروں پر ان کی بیٹی کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ والدہ نے بتایا ’وہ دیواروں پر لکھتی اور نقش بناتی رہتی۔ بس وہ یہی کیا کرتی تھی۔‘ بچی نے یہ لکھ کر کاغذ دیوار پر چسپاں کیا ہوا تھا ’دوستوں۔ اگر میں اپنے اندرونی جذبات کھل کر بیان کر پاؤں تو اپنے آپ میں بہت بڑی کامیابی ہو گی۔‘ چند ماہ پہلے ماں اور بیٹی کی لڑائی ہوئی تھی۔ جب بچی سکول سے واپس آئی تو اس نے نیلے رنگ کا چاک اٹھایا اور گھر کے مرکزی دروازے پر کھجور کا درخت اور ایک گھر بنایا جس کی چمنی سے دھواں نکل رہا تھا۔ اس عمر کی بہت سی لڑکیاں تصورات سے ایسی ہی تصاویر بناتی ہیں۔ پھر اس نے دروازے پر جلدی سے معافی نامہ لکھا اور باہر چلی گئی۔ بچی نے لکھا ’معاف کر دینا، اماں!‘
050119_lahore_fog
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/01/050119_lahore_fog
لاہور: دھُند سے حادثہ
لاہور میں دھند کی وجہ سے ہونے والے ایک حادثہ میں کم سے کم ایک درجن گاڑیاں آپس میں ٹکرا گئیں۔ اس حادثے میں کم سے کم دو افراد ہلاک اور بیس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔
مانگا منڈی میں پولیس نے بتایا کہ نیشنل ہائی وے پر دھند کی وجہ سے ایک بس اور ویگن آپس میں ٹکرا گئیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے فوراً بعد دس گاڑیاں ان دونوں گاڑیوں میں ٹکرا گئیں جس کی وجہ سے ٹریفک جام ہو گئی۔ پولیس کے مطابق دو افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی اور مرنے والوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔ پنجاب کئی روز سے دھند کی لپیٹ میں ہے اور ہر طرح کے سفر میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
080524_marine_trial_ra
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/05/080524_marine_trial_ra
امریکی فوجیوں کے خلاف مقدمہ نہیں
امریکہ میں ایک فوجی عدالت نے ان دو فوجی اہلکاروں کے خلاف مجرمانہ الزامات عائد نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن کی یونٹ پر الزام تھا کہ گزشتہ برس افغانستان میں اس نےایک کارروائی کے دوران انیس شہریوں کو ہلاک کرنے کا الزام تھا۔
فوجی عدالت نے کہا ہے کہ یونٹ نے جوابی فائرنگ اپنے دفاع میں اس وقت کی جب ان پر کار بم حملہ کیا گیا تھا۔ تاہم عدالت نے اپنے تاثرات میں تربیت کے کچھ مسائل کی جانب توجہ دلوائی ہے۔ واضح رہے کہ اس واقعے کے دو ماہ بعد امریکی فوج نے اس پر معذرت کرتے ہوئے مرنے والوں کو ورثاء کو معاوضے کی پیشکش کی تھی۔ اس سے پہلے گزشتہ برس ایک فوجی جرنیل یہ کہہ چکے ہیں کہ فوج کو اپنے کسی اقدام کی معافی نہیں مانگنی چاہیے تھے۔ ادھر بغداد کے جنوب مغرب میں فوج نے ایک امریکی فوجی ہلاک ہونے کی تصدیق کر دی ہے۔ جبکہ فلوجہ میں سٹرک کے کنارے رکھے بم کے پھٹنے سے چھ امریکی فوجی زخمی اور ان کا عراقی مترجم ہلاک ہوگیا۔
050803_pervez_terror_rs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/08/050803_pervez_terror_rs
پرویزمشرف: چھ نکاتی حکمت عملی
پاکستان کےصدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ پاکستان وہشت گردی سے نمٹنے کے لیے چھ نکاتی حکمت عملی اور قومی سطح پراسلام سے متعلق بحث کا بھی آغاز کیا جائےگا۔
بی بی سی کےایک پروگرام میں بات کرتے ہوئےانہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف اس حکمت عملی میں بنیاد پرست گروپوں کے علاوہ نفرت کا پرچار کرنے والےمواد پر بھی پابندی لگائی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ وہ روشن خیال اور اعتدال پسند پاکستان کےتصور کوفروغ دینے کے حامی ہیں اور پاکستان پر دہشت گردی کا الزام لگائے جانے سے انہیں غصہ آجاتا ہے۔ صدر پرویز مشرف نے کہا کہ اقوام عالم کو ایک دوسرے پر دہشت گردی کےالزامات لگانے کی بجائے ملکر اس کے خلاف کام کرنا چاہیے۔ لندن میں گزشتہ ماہ ہو نے والے خودکش بم حملوں کے بعد سے پاکستانی بنیاد پرستوں کے کردار کی جانچ پڑتال شروع کر دی گئی ہے۔ ان خوکش بم حملہ آوروں کے بارے میں یہ اطلاعات تھیں کہ ان میں سے بعضنےان حملوں سے کچھ عرصہ پہلے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
pakistan-44012660
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44012660
کیا پاکستانی فوج انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی چاہتی ہے؟
شمالی کوریا محض چند ماہ قبل تک جوہری اسلحے اور بین الابراعظمی میزائلوں کے تجربوں اور دھمکیوں کی زبان بول رہا تھا، جسے نہ صرف خطے بلکہ دنیا کے امن کے لیے خطرہ قرار دیا جا رہا تھا۔
تاہم گذشتہ ماہ کی 27 تاریخ کو اسی شمالی کوریا نے وہ کام کر دکھایا جو ناممکن سمجھا جاتا تھا۔ اس نے جنوبی کوریا کے ساتھ سنہ 1953 کے بعد سے جاری جنگ باضابطہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ جارحانہ عزائم اور بظاہر آمرانہ شخصیت کے حامل سمجھے جانے والے شمالی کوریا کے سربراہ کِم جونگ اُن نے خود چل کر دونوں ممالک کے درمیان قائم عارضی سرحد کو پار کیا۔ اسی بارے میں کوریاؤں میں امن تو انڈیا پاکستان میں کیوں نہیں؟ ’انڈیا، پاکستان قیام امن کے لیے مذاکرات کریں‘ جزیرہ نما کوریا پر ہونے والے اس بڑے واقعے کے بعد جنوبی ایشیا میں بھی خصوصا سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں پر یہ سوال گردش کرنے لگا کہ 'اگر دونوں کوریا ایسا کر سکتے ہیں تو انڈیا اور پاکستان کیوں نہیں؟' دو مختلف تاریخ رکھنے والے خطوں کے مابین ایسی مماثلت کھینچنے کے خیال پر ماہرین کی رائے تقسیم کا شکار ہے تاہم خطے کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کم از کم پاکستان کی جانب سے ایسے اشارے دیے گئے ہیں کہ وہ انڈیا کے ساتھ امن چاہتا ہے۔ ایسے اشارے خصوصا پاکستان کی فوج کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔ اس سلسلے کا آغاز رواں برس مارچ میں ہوا جب تاریخ میں پہلی مرتبہ اسلام آباد میں انڈین سفارت خانے کے دفاع کے اتاشی کو پاکستان ڈے کی پریڈ پر مدعو کیا گیا۔ رواں برس ہی دونوں ممالک کی افواج شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کے تحت ستمبر میں روس میں منعقد ہونے والی مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی حصہ لینے کے لیے تیار ہو گئی ہیں۔ تاہم کشمیر میں انڈین فوج کو جارحیت کا سامنا ہے جس کے لیے وہ اکثر پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتا ہے، جبکہ گذشتہ کچھ ماہ سے لائن آف کنٹرول پر دونوں افواج کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان انڈیا پر پہل کرنے کا الزام لگاتا ہے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ چند ہی روز قبل پاکستان کی جانب سے خیر سگالی کے طور ایک بیمار انڈین قیدی کو رہا کیا گیا اور اس سے قبل ایک انڈین شہری کو واپس بھیج دیا گیا جو غلطی سے سرحد پا کر آیا تھا۔ فوج کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟ کیا پاکستانی فوج کی جانب سے ایسے دوستانہ اقدامات کو انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف خواہش کا اشارہ سمجھا جا سکتا ہے؟ دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد کے خیال میں کچھ ایسا ہی ہے۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کی قیادت کا یہ خیال ہے کہ گذشتہ 70 برس سے ایک دوسرے کے ساتھ تصادم اور چار جنگوں کے باوجود کشمیر سمیت سیاچن تک کسی مسئلے کا حل نہیں نکلا ہے۔ اگر آئندہ 300 برس بھی تصادم رہے تو مسائل حل نہیں ہوں گے۔ بلکہ دونوں ممالک ترقی نہیں کر پائیں گے۔ 'اس لیے یہ ایک سوچ ضرور پائی جاتی ہے۔ مگر وہ کہتے ہیں تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے، تو دیکھنا یہ ہے کہ انڈیا یہاں سے ہاتھ پکڑ کر آگے چلتا ہے یا نہیں۔ بد قسمتی سے انڈیا کی حالیہ حکومت انتہائی پاکستان مخالف خیالات رکھتی ہے۔' ڈاکٹر الحان نیاز اسلام آباد کی قائدِاعظم یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور جنوبی ایشیا کے حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوج کا مؤقف گذشتہ دس پندرہ برس سے یہی ہے کہ انڈیا اور پاکستان کو کشمیر سمیت تمام مسائل بات چیت سے حل کرنا چاہییں۔ اگر پاکستانی فوج مثبت اشارے دے رہی ہے اور اگر انڈیا اس کو مثبت طریقے سے وصول کرتا ہے تو اچھی بات، تاہم ان کے مطابق 'بنیادی طور پر دونوں ریاستوں کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی۔ سوچ کی تبدیلی کی وجہ کیا؟ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی میں شعبئہ سیاسیات کے پروفیسر اور تجزیہ کار شبیر احمد خان کا خیال ہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے حالیہ اشارے چین کی طرف سے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور کی کامیابی کے خواہش کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ 'میں یہ تو نہیں کہوں گا کہ پاکستان پر دباؤ ہے تاہم اثر و رسوخ ضرور استعمال ہوا ہو گا۔' وہ بھی شمالی کوریا کی مثال دیتے ہیں۔ 'چائنا نے ایسا ہی کچھ جزیرہ نما کوریا میں کیا۔ کہاں شمالی کوریا دھمکیاں دے رہا تھا اور کہاں اس نے اچانک دنوں میں جنگ ہی ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔' جبکہ بریگیڈیئر ریٹائرڈ سعد محمد کہتے ہیں کہ شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن کے تحت ہونے والی مشقوں میں انڈیا اور پاکستان کی افواج کی شراکت کے حوالے سے پس پردہ جو شرط رکھی گئی ہو گی وہ یہی ہو گی کہ یہ دونوں ممالک اپنی دشمنی ایس سی او میں مت لائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید اس بات کا احساس بھی پایا جاتا ہے کہ 'ہمارا کشمیر کا بیانہ چل نہیں رہا، دنیا بھر میں کوئی اسے خرید نہیں رہا۔ اس میں پاکستان کو نئی سوچ اور فکر لانی چاہیے۔' 'کشمیر پر پاکستان کا اصولی مؤقف ہے اور اس کو چھوڑنا نہیں چاہیے۔ مگر دنیا میں باقی ممالک ہیں جو مسائل پر اپنا مؤقف تبدیل کیے بعیر بھی اکٹھے کام کر رہے ہیں، آپ انڈیا اور چین ہی کو دیکھ لیجیے۔' انڈیا اور چین کے ایک دوسرے سے زمین کےاور سرحدی تنازعات ہے اور وہ دونوں اپنے موقف پر آج بھی قائم ہیں مگر اس کے باوجود دونوں میں بات چیت بھی ہوتی ہے اور تجارت بھی چل رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان کے خیال میں پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوج کو مل کر اس مقصد کے لیے کام کرنا ہو گا تو ہی کامیابی ہو گی۔ اگر سیاسی قیادت پیچھے رہے یا انہیں اجازت نہ ہو اور صرف فوج ہی یہ کام کرے تو یہ چل نہیں سکے گا۔ باجوہ ڈاکٹرن یا کیانی ڈاکٹرن؟ کیا یہ تبدیلی فوج کے موجودہ سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی ڈاکٹرن یا نظریے کا نتیجہ ہے؟ پروفیسر شبیر احمد خان اس بات سے اتفاق نہیں کرتے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے یہ ممکنہ نظریاتی تبدیلی موجودہ آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے نظریات کے نتیجے میں سامنے آئی ہو گی۔ ان کا کہنا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں پہلی بار پاکستانی فوج کی جانب سے ایک لفظ سامنے آیا تھا کہ 'پاکستان کی سلامتی کو جو خطرہ لاحق ہے وہ انڈیا سے نہیں بلکہ ہوم گرون یعنی گھر سے پیدا ہونے والا ہے۔' ا س کے بعد فوج کے اگلے سربراہ جنرل راحیل شریف آئے اور انھوں نے دہشت گردی کے خلاف آپریشن شروع کیے۔ حال ہی میں جنیوا میں جنرل باجوہ نے بھی کہا کہ 'پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے وہ ہم نے 40 سال پہلے پیدا کیے تھے۔' ان کے خیال میں یہ جنرل اشفاق کیانی ہی کے ڈاکٹرن کا تسلسل ہے۔ کیا انڈیا مثبت جواب دے گا؟ شبیر احمد خان سمجھتے ہیں کہ انڈیا پاکستانی فوج کے ان اشاروں کا مثبت جواب دے گا کیونکہ وہ بھی نہیں چاہے گا کہ وہ پاکستان کی طرف سے کسی مسئلے میں الجھے۔ 'انڈیا ایک بہت بڑی منڈی بن چکا ہے جس پر مغرب سمیت تمام دنیا کی توجہ مرکوز ہے اور اس کا 'شائننگ انڈیا' کا خواب بھی ہے اس لیے اس کے مفاد میں ہے کہ وہ مطمئن ہو جائے کہ پاکستان کی طرف سے اسے کوئی مسئلہ نہیں ہو گا۔ 'میرے خیال میں انڈیا کو سفارتی طریقے سے سمجھایا گیا ہے کہ بہت ہو چکا۔ اور انڈیا کی پاکستان کے حوالے سے دکھاوے کی پالیسی مختلف ہے اور بیک ڈور پالیسی کچھ اور ہے۔ 'پاکستان نے خود کو بہت تبدیل بھی کیا ہے۔ انڈیا کا مطالبہ رہا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرے اور پاکستان ایک عرصے سے وہی کر رہا ہے۔' ڈاکٹر الحان نیاز کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج کے حالیہ اشاروں کے باوجود اس وقت پاکستان اور انڈیا کے درمیان سنجیدہ بات چیت کا عمل بحال ہونے کی زیادہ امید نہیں رکھنی چاہیے۔ وہ اس کی دو وجوہات بتاتے ہیں۔ 'پاکستان اور انڈیا کے درمیان ایسے مسائل پر بات چیت کے لیے پہلے سے فورم موجود ہیں جیسا کہ دونوں ملکوں کے سیکریٹری خارجہ یا فوج کی سطح پر ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز ملتے اور مسائل کے حل کے لیے بات چیت بھی کرتے رہتے ہیں۔ مسئلہ بنیادی مسائل کے حل کا ہے۔' دوسرا تدابیری مسئلہ ہے۔ پاکستان میں جلد نئے انتحابات ہونے جا رہے ہیں۔ جو بھی نئی حکومت آئے گی اس حوالے سے اس کا ردِ عمل کیا ہو گا یہ دیکھنے کا انتظار کرنا ہو گا۔ کیا کوریا کا ماڈل کارگر ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر الحان نیاز کی نظر میں پاکستان اور انڈیا کے مسئلے پر کوریا کی مثال 'انتہائی کمزور مماثلت ہے۔ دونوں خطوں کی تاریخ مختلف ہے۔ جزیرہ نما کوریا میں جو ہوا وہ سرد جنگ کا نتیجہ تھا اور پھر دنیا کی بڑی طاقتوں سمیت سب نے اس معاملے کو پگھلانے کی کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہو سکی۔ 'کوریا میں دونوں اطراف کے سربراہان کے درمیان حالیہ ملاقات فوٹو کھنچوانے کا اچھا موقع تھا۔ ایسا پاکستان اور انڈیا کےدرمیان بھی ہوا تھا جب وزیرِ اعظم نریندر مودی سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی سالگرہ کے موقع پر ان کے گھر پہنچ گے تھے۔ تاہم فوٹوگرافی سے مسائل کا حل نہیں نکلتا۔' ان کا کہنا تھا کہ مسائل اس وقت حل ہوں گے جب دونوں اطراف میں سیاسی عزم ہو کہ اب برصغیر میں ہم نے امن میں کام کرنا ہے۔ اور وہ سٹریٹیجک فیصلہ پاکستان اور انڈیا دونوں میں سے ابھی تک کسی نے نہیں کیا۔
151012_yasir_shah_hurt_as
https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/10/151012_yasir_shah_hurt_as
پہلے ٹیسٹ سے قبل سپنر یاسر شاہ زخمی ہو گئے
یاسر شاہ زخمی ہونے کے بعد گراؤنڈ سے باہر جاتے ہوئے
ابو ظہبی میں انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان پہلے ٹیسٹ میچ سے پہلے پاکستان کے اہم سپنر یاسر شاہ زخمی ہو گئے ہیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سوموار کو ٹریننگ کے دوران 29 سالہ یاسر شاہ کی کمر میں تکلیف ہوئی جس کے باعث وہ گراؤنڈ سے چلے گئے۔ کپتان مصباح الحق نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران بتایا کہ یاسر شاہ کا زخمی ہونا ایک دھچکہ ہو سکتا ہے۔ ’ہم نے اس پر نظر رکھی ہوئی ہے اور امید کرتے ہیں کہ کل صبح تک وہ ٹھیک ہو جائیں گے۔‘ پاکستانی ٹیم متحدہ عرب امارات میں ہونے والی تین ٹیسٹ میچوں کی اس سیریز میں یاسر شاہ اور اور دوسرے بائیں بازو سے گیند کرنے والے سپنر ذوالفقار بابر پر بہت انحصار کر رہی ہے۔ یاسر شاہ نے سری لنکا کے خلاف بہتر باؤلنگ کرتے ہوئے 24 وکٹیں حاصل کی تھیں شاہ نے سری لنکا میں جولائی میں ہونے والی سیریز میں 24 وکٹیں حاصل کی تھیں اور پاکستان یہ سیریز دو ایک سے جیت گیا تھا۔ انگلینڈ کے خلاف سیریز میں بھی ان سے بہت توقعات کی جا رہی ہیں۔ اے ایف پی کے مطابق شاہ کو گراؤنڈ سے کمر پکڑ کر تکلیف میں جاتے ہوئے دیکھا گیا۔ مصباح نے کہا کہ ’ڈریسنگ روم میں وہ کافی بہتر طریقے سے چل رہے تھے لیکن ہم ان کے متعلق حتمی فیصلہ (کل) صبح ہی کریں گے۔‘ انھوں نے عندیہ دیا کہ اگر یاسر شاہ نہیں کھیلتے تو انگلینڈ کے خلاف وارم اپ میچ میں باؤلنگ کرنے والے نوجوان باؤلر محمد اصغر کو بلایا جا سکتا ہے۔ دوسری طرف انگلینڈ کے تیز باؤلر سٹیون فِن بھی اپنے بائیں پاؤں میں تکلیف کے باعث پہلا ٹیسٹ میچ نہیں کھیل پائیں گے۔ 26 سالہ فِن نے گذشتہ ہفتے پاکستان کے خلاف وارم اپ میچ میں عمدہ باؤلنگ کرتے ہوئے چار کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا تھا۔ اطلاعات کے مطابق پاکستان کے اوپنر اظہر علی کی بھی پہلے ٹسیٹ میچ میں شمولیت مشکوک ہے۔