id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
0
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
040324_jail_ikramullah_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/blog/story/2004/03/040324_jail_ikramullah_ms
قبائلی علاقہ، کالاقانون
میرا جرم یہ ہے میں قبائیلوں کی آزادی اور حقوق کی جنگ لڑ رہاہوں، ملک کے دوسرے علاقوں کی طرح فاٹا میں رہنے والے طلباء کو بھی بہتر تعلیم کے مساوی مواقع دلانا چاہتاہوں اور ان کو ایک صدی سے زائد عرصہ سے مسلط ایف سی آر (فرنٹیر کرائمز ریگولیشن) جیسے کالے اور استعماری طاقتوں کے بنائے ہوئے قانون سے نجات دلانا چا ہتا ہوں۔
مجھے جیل میں تیسرا مہینہ ہونے کو ہے۔ گزشتہ سال چھبیس دسمبر کو میں لنڈی کوتل ڈگری کالج کے چند طلباء سے ملاقات کرنے جمرود جیل چلا گیا تھا جنھیں انتظامیہ نے گرڈ اسٹیشن پر مبینہ حملے کے الزام میں گرفتار کیا ہوا تھا۔ گرفتار ہونے والوں میں میری تنظیم کے کچھ کارکن بھی شامل تھے۔ میں نے جیل جاکر لائن آفیسر سے درخواست کی کہ ہم گرفتار شدہ طلباءسے ملنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پولٹیکل ایجنٹ نے طلباء سے ملاقات پر پابندی لگائی ہے۔ بعد میں علاقہ تحصیلدار نے مجھے بھی جیل کے احاطے سے گرفتار کرکے پابندِ سلاسل کردیا۔ مجھ پر الزام لگایا گیا کہ میں نے طلباء کو مشتعل کرنے اور ان کو جیل سے بھگوانے کی کوشش کی۔ اگر میں واقعی جیل توڑ سکتا تھا تو اب تک تو میں خود جیل سے نہیں بھاگ چکا ہوتا ؟ گرفتاری کے دو گھنٹے بعد مجھے جمرود جیل سے باڑہ منتقل کیاگیا اور وھاں پر کچھ دن رہنے کے بعد مجھے خیبر ہاؤس جیل منتقل کردیا گیا جہاں پر پو لیٹکل ایجنٹ خیبر کا دفتر بھی ہے۔ خیبر ہاؤس میں دو بیرک ہیں ایک چھوٹا اور دوسرا بڑا۔ بڑے بیرک میں تقریباً بیس کے قریب قیدی رہ سکتے ہیں جبکہ دوسرے بیرک میں تین سے چار قیدیوں کے رہنے کی گنجائش ہے۔ پہلے میں بڑے بیرک میں تھا لیکن اب چھوٹے میں آگیا ہوں۔ دونوں بیرکوں میں اکثر اوقات گنجا ئش سے زیادہ قیدی ہوتے ہیں۔ بڑے بیرک ہے کےساتھ ایک ملحقہ باتھ روم بھی ہے جبکہ دوسرے بیرک میں کوئی باتھ روم نہیں۔ قیدیوں کو رفع حاجت کے لیے بڑے بیرک میں جانا پڑتا ہے جو ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اگر کسی قیدی کے پیٹ میں تکلیف ہو یا وہ رفع حاجت کےلیے باتھ روم جانا چا ہتا ہے تو پہلے وہ سنتری کو بلائے گا جو آکر تالا کھولے گا، پھر دوسرے بیرک کا دروازہ کھلے گا اور یہ سب کچھ پولیس والوں کی موجودگی میں ہوتا ہے۔ کھانے میں دونوں وقت ایک چھوٹی سی روٹی دی جاتی ہے اور اس کے ساتھ تھوڑا سا آدھا کچا اور آدھا پکا دال چنا، لوبیا، آلو یا کبھی کبھی دال ماش دی جاتی ہے۔ تمام قیدی دن رات ان بیرکوں میں بند رہتے ہیں۔ ان کے دروازے مضبوط لوہے کی سلاخوں سے بنے ہوئے ہیں جہاں سے قیدی باہر جھانک سکتے ہیں اور ملاقاتیوں سے ملاقات بھی کرسکتے ہیں۔ رات کے وقت ان دروازوں سے ٹھنڈے ہوا کے جھونکے آتے ہیں جس کی وجہ سے بے چارے قیدی ٹھٹھر کر رہ جاتے ہیں۔ جب تیز بارش لگی ہو تو چھت سے پانی ٹپکتا ہے اور بیرک کے بڑے ڈسٹ بن سے جونزدیک ہے، بدبو بھی آتی ہے۔ یہاں اندر سردی سے بچاؤ کا کوئی انتظام نہیں۔ جیل انتظامیہ کی طرف سے بستر وغیرہ فراہم نہیں کیا جاتا اور کوئی طبی سہولت بھی موجود نہیں۔ اگر کوئی قیدی بیمار ہوجاتا ہے تو باربار رونے پیٹنے اور درخواستوں کے بعد جیل انتظامیہ انہیں اس شرط پر ہسپتال لےجاتی ہےکہ وہ اپنے پیسوں سے علاج کرائے گا۔ ہاں اگر آپ کے پاس پیسے زیادہ ہیں اور آپ خاصہ داروں اور لائن افسر کو خوش رکھ سکتے ہیں تو آپ کو علاج کے علاوہ صدر کے چکر لگانے اور سیر وتفریح کا موقع بھی فراہم کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے ساتھ والی بیرک میں صادق خان نامی قیدی ہے جس کی عمر اسی سال ہے۔ وہ دمّے کا مریض ہے اور اسے اکثر سانس کا مسئلہ ہوجاتا ہے لیکن بے چارہ غریب بھی ہے۔ اگر اس کا علاج نہیں کرایا گیاتو وہ جیل کے اندر مر جائے گا۔ اس کے ساتھ ایک اورجوان قیدی بائیس سالہ امیرزیب قوم قمبر خیل رہتا ہے۔ اسے گردوں کا مسئلہ ہے اور پیشاب میں خون آتاہے۔ امیرزیب اکثر اوقات تکلیف کی شدت کے باعث روتا رہتا ہے۔ بائیس سالہ ایک اور نوجوان انورخان کے گردوں میں پتھر ہے۔ اس کو جب تکلیف ہوتی ہے تو سارے جیل کو سر پر اٹھا لیتاہے لیکن یہاں سننے والا کون ہے؟ میرا تعلق ایک سیاسی خاندان سے ہے۔ میرے دادا مرحوم ملک ولی خان کوکی خیل کوکی خیل قبیلے کے سربراہ تھے اور انیس سو باسٹھ میں قومی اسمبلی کے رکن رہ چکے ہیں۔ وہ میرے والد صاحب اسلام آباد میں ایک اہم سول سرکاری عہدے پر فائزہیں۔ میرے تین بچے مجھے اکثر اوقات یاد آتے ہیں۔ دوسال پہلے بھی میں اسی قسم کے الزامات میں گرفتار ہوا تھا۔ جب میں جیل سے رہا ہوا تو میں نے کئی ایسے قیدیوں کو رہائی دلانے میں اہم کردار ادا کیا جو سو فیصد بے گناہ تھے۔ ان میں ایک سندھی بھی تھا جو پانچ سال تک بغیر کسی جرم کے بند رہا۔ اس دفعہ بھی میرا مصمم اردہ ہے کہ رہا ہوتے ہی بیرک کے جو کئی بے گناہ قیدی ہیں، ان کی رہائی کے لیے انشاءاللہ ہر ممکن کوشش کروں گا۔
030922_chiraq_iraq
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/09/030922_chiraq_iraq
فرانس ویٹو نہیں کرے گا، شراک
فرانس کے صدر ژاک شراک نے کہا ہے کہ وہ عراق میں کثیرالملکی فوج کی تعیناتی کے لئے اقوام متحدہ سے منظوری حاصل کرنےکی امریکی کوششوں کو ویٹو نہیں کریں گے۔
تاہم فرانس کے صدر نے کہا ہے کہ وہ کسی ایسی قرارداد کی بھی حمایت نہیں کریں گے جس میں اقتدار کی منتقلی کا نظام الاوقات اور اقوام متحدہ کے کردار کی بات نہیں ہوگی۔ فرانس کے صدر نے یہ بات اپنے امریکی ہم منصب جارج بش سے ملاقات اور اقوام متحدہ کے اہم اجلاس میں شرکت سے تھوڑی دیر پہلے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز سے بات کرتے ہوئے کی۔ ژاک شراک نے پہلی بار عراق میں دو مرحلوں میں اقتدار کی منتقلی کی بات کی جس میں پہلے علامتی طور اقتدار امریکہ سے عراق کی گورننگ کونسل کے حوالے کیا جائے گا اور اس کے بعد نو مہینوں میں اقتدار کی حقیقی منتقلی عمل میں آئے گی۔
science-50390987
https://www.bbc.com/urdu/science-50390987
طویل عمر کا راز: کیا واقعی رحمدلی سے بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے
اگر آپ میں رحمدلی ہے تو اس کا آپ کو کیا فائدہ؟ سوائے اس کے کہ آپ دوسروں پر مہربانی کر کے خوش ہوتے رہیں؟ ہو سکتا ہے یہ بات سچ ہو، لیکن ایک تحقیقی مرکز سے منسلک سائنسدانوں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ رحمدلی آپ کے لیے اس سے کہیں زیادہ فائدہ مند ہو سکتی ہے اور اس سے آپ کی عمر میں بھی اضافہ ہو سکتا ہے۔
یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں قائم ’بیداری کائینڈنیس انسٹیٹیوٹ‘ کے ڈائریکٹر ڈینیئل فیسلر کہتے ہیں کہ یہ مذاق کی بات نہیں بلکہ ’ہم اس حوالے سے سائنسی نقطۂ نظر کو سامنے رکھتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے دائرے میں بیٹھ کر رحمدلی رحمدلی نہیں کھیلتے، بلکہ ہم بات کر رہے ہیں نفسیات کی، بیالوجی کی، اور مثبت معاشرتی رابطوں کی۔‘ امریکہ میں رحمدلی یا اخلاص کے حوالے سے بحث شہ سرخیوں کی زینت حال ہی میں بنی ہے۔ گذشتہ ماہ جب سابق صدر براک اوباما ڈیموکریٹک پارٹی کے بزرگ رہنما اور شہری حقوق کے علمبردار الیجاہ کمنگز کی تدفین کے موقع پر انھیں خراج تحسین پیش کر رہے تھے تو سابق صدر نے رحمدلی، صلح رحمی کا ذکر بڑے زور و شور سے کیا۔ یہ بھی پڑھیے آخر ہم لمبی عمر کیوں نہیں جی رہے؟ کیا گیت گانے سے کوکین جیسا مزا آتا ہے؟ مذہب ہمیں ماحول دوست بناتا ہے یا ماحول دشمن؟ سابق صدر کا کہنا تھا کہ ’ ایک مضبوط شخصیت (کی خصوصیات) میں یہ بھی شامل ہوتا ہے کہ وہ شخص رحم دل ہو۔ رحمدلی اور درد مندی کوئی کمزوری کی بات نہیں ہے۔ دوسروں کا خیال رکھنے میں کمزوری کی کوئی بات نہیں۔ آگر آپ کے اندر ایمانداری ہے اور آپ لوگوں سے عزت سے پیش آتے ہیں، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ دوسروں سے کمترہیں اور ان کے مرہون منت ہیں۔‘ براک اوباما کے بعد ایلن ڈیجینرر نے بھی اسی قسم کی بات کی جب انہوں نے کچھ لوگوں کو یہ بتا کر حیران کر دیا کہ سابق صدر جارج ڈبلیو بُش کے ساتھ ان کی دوستی کتنی زیادہ ہے۔ ایلن ڈیجینرر کا کہنا تھا کہ ’جب میں کہتی ہوں کہ ہمیں ایک دوسرے پر مہربان ہونا چاہیے تو میرا مطلب یہ نہیں کہ آپ صرف ان لوگوں کے ساتھ صلح رحمی کریں جو صلح رحمی پر یقین رکھتے ہیں۔ میں کہتی ہوں آپ سب کے ساتھ رحمدلی سے پیش آئیں۔‘ اس ہفتے عالمی سطح پر ’یومِ رحمدلی‘ منایا جا رہا ہے، اس لیے یہ سوال بے جا نہ ہوگا کہ رحمدلی کا مطلب کیا ہے اور اس کی اہمیت کیا ہے؟ کچھ ماہرین نے انہی سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ہے۔ ان ماہرین کے بقول یہ ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے، بلکہ یہ زندگی موت کا سوال ہے۔ صلح رحمی کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کمزور ہیں: براک اوباما ڈینیئل فیسلر نے اپنی تحقیق میں جائزہ لیا کہ دوسرے لوگوں کو رحمدلی سے کام لیتے ہوئے دیکھ کر ہم اپنے اندر یہ جذبہ کیسے بیدار کر سکتے ہیں۔ ان کی تحقیق کا مقصد یہ جاننا تھا کہ وہ کون لوگ ہوتے ہیں جو جنھیں دوسروں کی دیکھا دیکھی ’رحمدلی چمڑ‘ جاتی ہے۔ ان کے خیال میں ’یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں رحمدلی نہیں پائی جاتی ہے۔ امریکہ کے اندر اور باقی دنیا بھر میں ہم دیکھتے ہیں کہ انفرادی سطح پر مخلتف سیاسی نظریات یا مختلف مذاہب کی وجہ سے لوگوں میں انفرادی سطح پر بھی تناؤ یا کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘ ’اس کے باوجود دنیا میں رحمدلی پائی جاتی ہے۔ رحمدلی کا مطلب ہوتا ہے کہ آپ کے خیالات، جذبات اور عقائد کی جھلک آپ کے ان کاموں میں نظر آنی چاہیے جو آپ دوسروں کی خاطر کرتے ہیں، ایسے کام جو آپ دوسروں کے فائدے کے لیے کرتے ہیں۔ اس قسم کے کام خود اپنے آپ میں رحمدلی کی مثال ہوتے ہیں۔ ‘ اس کے برعکس بے رحمی سے مراد ’ایسے عقائد ہیں جو دوسروں کے لیے ناقابل برادشت ہوتے ہیں، اور آپ کے کام میں دوسروں کی بھلائی کی کوئی قدر نہ ہوتی۔ یہ بے رحمی والی بات ان لوگوں کو سمجھ آ سکتی ہے جن کو سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا تجربہ ہو چکا ہے، یعنی جب لوگ سوشل میڈیا پر لٹھ لیکر آپ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ ڈینیئل فیسلر کے بقول ’دوسروں کے پیچھے لٹھ لیکر پڑ جانے کی روایت کوئی نئی نہیں ہے، کیونکہ لوگ جب اپنا نام خفیہ رکھ سکتے ہیں تو اس بات کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں کہ ان کا رویہ جارحانہ ہو جائے اور وہ دوسرے لوگ کے جذبات اور ان کی بھلائی کا خیال نہ کریں۔‘ ’بیداری کائینڈنیس انسٹیٹیوٹ‘ کی بنیاد رکھنے والوں کی خوش قسمتی یہ تھی کہ انہیں اس کام کے لیے بیداری فاؤنڈیشن کی طرف سے دو کروڑ ڈالر کی مالی امداد مل گئی۔ بیداری فاؤنڈیشن کے روح رواں جینیفر ہیرس اور میتھیو ہیرس ہیں۔ یہ انسٹیٹیوٹ، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے شعبہ سائنس کی عمارت میں قائم ہے اور اس کا مقصد عام لوگوں اور ایسے رہنماؤں کی مدد کرنا ہے جو دوسروں میں رحمدلی جیسے اوصاف ابھار سکیں۔ مسٹر ہیرس کہتے ہیں کہ اس چیز پر تحقیق کرنے کی ضرورت تھی کہ ’اس جدید دنیا میں رحمدلی کا جذبہ اتنا کمیاب کیوں ہو گیا ہے‘ اور ہم ’سائنس اور روحانیت کے درمیان اس خلیج‘ کو کیسے پُر کر سکتے ہیں۔ انٹیسٹیوٹ میں جن تحقیقی منصوبوں پر کام کیا جارہا ہے ان میں درج ذیل موضوعات شامل ہیں۔: ڈ ینیئل ہنٹ (بائیں) اور ڈینیئل فیسلر اس کے علاوہ انسٹیٹیوٹ میں طلباء اور لاس اینجلیس کے علاقے کے ضرورت مند لوگوں کو یہ تربیت بھی دی جاتی ہے کہ وہ کیسے ’مائینڈ فُل‘ بن سکتے ہیں یعنی اپنے ذہن میں احساس پیدا کر سکتے ہیں۔ مسٹر فیسلر کہتے ہیں یہ بات سب جانتے ہیں کہ ’بُرا ذہنی دباؤ، یعنی ایسی صورت حال جب آپ کوشش کے باجود مشکل حالات کا سامنا نہیں کر پاتے، آپ کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اچھا ذہنی دباؤ وہ دباؤ ہوتا ہے جب آپ کو مشکل کا سامنا ہوتا ہے، لیکن آپ کو اس پر قابو پانے میں اطمینان ملتا ہے، جیسے کسی پہاڑ پر چڑھنا۔‘ ’ایسے لوگوں کے درمیان رہنا آپ کے لیے اچھا نہیں ہوتا جن کو آپ کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی، اور اس سے بری صورت حال وہ ہوتی ہے جب یہ لوگ آپ کے خلاف کھلی جارحیت پر اتر آتے ہیں۔ سچ پوچھیں تو اس قسم کے لوگوں میں رہنے سے آپ کی زندگی واقعی کم ہو جاتی ہے۔‘ اس کے برعکس اگر آپ کو لوگوں سے صلح رحمی ملتی ہے اور آپ بھی ان سے رحمدلی سے پیش آتے ہیں، تو آپ نفرت والے زیریلے ماحول سے نکل آتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر آپ کسی ریستوران جاتے ہیں اور کافی چائے بنانے والی لڑکی یا لڑکا آپ سے مسکرا کے پوچھتا ہے کہ آپ کیسے ہیں، اس سے بھی آپ کی صحت پر بہتر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ’رحمدلی کے بارے میں سوچنا، یہ سوچنا کہ آپ دوسروں کے ساتھ کیسے رحمدلی کر سکتے ہیں، اس سے بھی آپ کا بلڈ پریشر کم ہو جاتا ہے۔ اس کے بھی صحت مندانہ اثرات ہوتے ہیں اور آپ کو ذہنی سکون ملتا ہے۔۔‘ ’فوری پیغام` انسٹیٹیوٹ سے منسلک ماہرین کے علاوہ کولمبیا یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیلی ہارڈنگ نے بھی رحمدلی کا مطالعہ کیا ہے جسے انہوں نے کتابی شکل میں ’دا ریبٹ افیکٹ‘ کے عنوان سے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر ہارڈنگ کہتی ہیں کہ رحمدلی کے جذبے سے ’آپ کے جسم کے دفاعی نظام پر بھی اچھے اثرات ہوتے اور بلڈ پریشر پر بھی۔ اس سے لوگوں کو زیادہ طویل اور بہتر زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے۔ یہ ایک بڑی حیران کن چیز ہے کیونکہ رحمدلی کی وافر مقدار دستیاب ہے اور آپ اسے (کسی دوا کے برعکس) جتنا چاہیں کھا سکتے ہیں اور اس سے آپ اوور ڈوز کا شکار بھی نہیں ہوتے۔ یہ چیز مفت میں دستیاب ہے۔‘ ڈاکٹر ہارڈنگ کے بقول خود پر رحم کرنے کے مقابلے میں دوسروں سے رحمدلی سے پیش آنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ اپنی کتاب کے عنوان کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ میں نے خرگوش والی کہانی کبھی سنہ 70 کے عشرے میں پڑھی تھی۔ اس کہانی میں خرگوشوں کا ایک گروہ دوسرے خرگوشوں کے مقابلے میں زیادہ طویل زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ خرگوش زیادہ اچھی زندگی اس لیے گزار رہے تھے کیونکہ ان کا مالک، یعنی وہ جو شخص اس گروہ پر تحقیق کر رہا تھا وہ زیادہ مہربان تھا۔‘ ’بطور ڈاکٹر میں یہ نتائج دیکھ کر ششدر رہ گئی تھی۔ مجھے لگا کہ اس کہانی میں ہمارے لیے بھی ایک فوری پیغام موجود ہے۔‘ ’رحمدلی چیزوں کو بدل دیتی ہے اور اس سے لوگوں کو پیچیدہ دنیا میں اپنا راستہ تلاش کرنے میں مدد ملتی ہے۔‘ ڈاکٹر ہارڈنگ بتاتی ہیں کہ ’خود پر رحم کرنے کے مقابلے میں دوسروں سے رحمدلی سے پیش آنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔‘ تا ہم خود اپنے ساتھ دوسرے لوگوں کے ساتھ رحمدلی کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثلاً ’اگر آپ اپنے دفتر، سکول یا گھر میں دوسروں کے جذبات کا خیال رکھتے ہیں، ان سے ہمدردی کرتے ہیں تو اس کے بہتر نتائج نکلتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ طب کی دنیا میں ٹیکنالوجی بہتر ہو رہی ہو، لیکن آپ کبھی بھی انسانی ہمدردی کو مشینوں سے نہیں بدل سکتے ہیں۔ آپ کی ذہنی اور جسمانی صحت کے درمیان تعلق نہایت اہم ہوتا ہے۔‘
regional-56236895
https://www.bbc.com/urdu/regional-56236895
نیپال کے ماؤ نواز انقلابی اور ان کی بیٹی کی کہانی: ’لوگ اپنی جانیں دے رہے ہیں اور تم انقلاب کے لیے شادی بھی نہیں کر سکتیں؟‘
جب فروری سنہ 1996 میں ان کے والد پشپ کمل داہال پرچنڈ نے نیپال میں بادشاہت کے خاتمے کے لیے مسلح تحریک کا آغاز کیا تو اس وقت رینو داہال صرف 18 سال کی تھیں۔
نیپال کے سابق وزیر اعظم پرچنڈ اپنی بیٹیوں کے ساتھ ذرا سوچیں کہ جب 18 سالہ بیٹی اپنے والد کو گولہ بارود اور بندوق کے ساتھ دیکھتی ہوگی تو اسے کیسا محسوس ہوتا ہوگا؟ رینو کا کہنا ہے کہ وہ بندوق انصاف کے لیے اور مطلق العنان حکمرانی کے خلاف اٹھائی گئی تھی۔ پرچنڈ چھ چھ ماہ تک اپنے کنبے سے دور رہتے تھے۔ رینو اپنے والد اور نیپال کمیونسٹ پارٹی (ماؤ نواز) کے ساتھ مسلح تحریک میں شامل رہیں۔ لیکن پرچنڈ نیپال میں اس وقت کے شاہی نظام سے لڑتے ہوئے کبھی اس بات سے غافل نہیں رہے کہ ان کی بیٹیاں بھی تھیں۔ انھیں احساس تھا کہ وہ ایک باپ بھی ہیں اور ان کی ذمہ داریاں ہیں۔ یہ بھی پڑھیے 'رام نیپالی تھے، ایودھیا نیپال میں ہے': وزیر اعظم اولی کے بیان پر تنازع نیپال: انڈیا ہماری زمین سے ’فوری طور پر نکلے‘ ’انڈیا نہیں چاہتا تھا کہ نیپال سیکولر ریاست بنے‘ پرچنڈ کو یہ خوف تھا کہ ان کی لڑائی دو چار مہینوں میں ختم نہیں ہونے والی ہے اور ایسی صورتحال میں ان کی بیٹیوں کا کیا ہوگا۔ پرچنڈ کی تین بیٹیاں تھیں۔ سب سے بڑی بیٹی گیانو، پھر رینو اور سب سے چھوٹی بیٹی گنگا۔ گیانو کی شادی ’جن یدھ‘ یعنی عوامی جنگ کے آغاز سے تین سال قبل سنہ 1993 میں ہوچکی تھی۔ لیکن جب بادشاہت کے خلاف مسلح تحریک بڑھ رہی تھی اسی دوران ان کی دو بیٹیاں رینو اور گنگا بڑی ہو رہی تھیں۔ رینو اور ارجن شادی کے بعد نیپال کمیونسٹ پارٹی (ماؤ نواز) کے اندر پرچنڈ کی بیٹی رینو کی شادی سے متعلق ایک میٹنگ ہوئی۔ پارٹی نے رینو کی شادی کی تجویز کو منظور کر لیا۔ یہ سال ’جن یدھ‘ کے آغاز کے ایک سال بعد سنہ 1997 کی بات ہے۔ رینو کو پارٹی کے فیصلے اور تجویز سے آگاہ کیا گیا۔ رینو اس وقت 19 سال کی تھیں جب انھیں لڑکے سے ملنے کے لیے کہا گیا۔ رینو اس لڑکے سے ملنے انڈیا کے شہر جالندھر پہنچیں۔ انھوں نے ہنستے ہوئے کہا: ’لوگ لڑکی دیکھنے جاتے ہیں لیکن میں لڑکے کو دیکھنے گئی تھی۔ میں دو دنوں تک لڑکے کے گھر پر ہی رہی۔ لیکن میں شادی کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔ اس وقت میری عمر بھی بہت کم تھی۔ لیکن پاپا اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ ہمیں ساتھ رکھتے۔ پارٹی کا فیصلہ تھا کہ مجھے شادی کرنی چاہیے۔ لیکن میں اپنے والد کو تو اپنی بات بتا سکتی تھی۔ میں نے پاپا سے کہا کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتی۔ پاپا نے جواب دیا کہ لوگ تحریک کے لیے اپنی جان دے رہے ہیں اور تم شادی بھی نہیں کرسکتی؟ تمہاری شادی انقلاب کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کے بعد میں خاموش ہوگئی۔‘ رینو کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی تحریک میں صرف تحریک کا ہی کام نہیں ہوتا ہے۔ زندگی کے باقی کام بھی اسی دوران ہوتے ہیں۔ انقلاب اور محبت ایک ساتھ چلتے ہیں۔ کبھی محبت انقلاب میں شریک ہوتی ہے تو کبھی انقلاب کے دوران ہی محبت ہو جاتی ہے۔ میری شادی بھی اسی سفر کا ایک حصہ ہے۔‘ ایک ساتھ دونوں بہنوں کی شادی لکھنؤ میں خفیہ طور پر ہوئی لکھنؤ میں ہوئی شادی رینو جالندھر میں جس لڑکے سے ملنے گئی تھی ان کا نام ارجن پاٹھک تھا۔ ارجن پاٹھک اس وقت جالندھر ڈی اے وی میں زیر تعلیم تھے۔ اس وقت ارجن 21 سال کے تھے۔ سنہ 1997 کی اس ملاقات کو یاد کرتے ہوئے ارجن نے کہا: ’ہمارے درمیان زیادہ بات نہیں ہوئی تھی۔ شادی کا فیصلہ پارٹی کا تھا اور ہم پارٹی کے اصولوں اور فیصلوں کے پابند تھے۔ سچ پوچھیں تو مجھے شادی کی زیادہ خواہش نہیں تھی۔‘ لیکن 9 فروری سنہ 1997 کو لکھنؤ کے لیلا ہوٹل میں چپکے سے ان کی شادی ہو گئی۔ رینو کا کہنا ہے کہ ان کی چھوٹی بہن گنگا کی بھی ان کے ساتھ شادی ہوئی۔ رینو نے بتایا: ’دونوں بہنوں کی شادی آدھے گھنٹے میں ہو گئي۔ لکھنؤ میں پولیس انتظامیہ کو اس کا علم نہ ہوسکا۔ اس شادی میں بہت کم لوگ شریک تھے۔ بس دونوں کے والدین اور پارٹی کے کچھ اہم رہنما۔ بابورام بھٹارائی کی اہلیہ ہیسیلا یامی اور نیپال کے موجودہ وزیر داخلہ رام بہادر تھاپا بادل موجود تھے۔ ارجن پاٹھک کہتے ہیں ’میں شادی کے وقت بی ایس سی سیکنڈ ایئر میں تھا۔ پارٹی کا خیال تھا کہ بچوں کے ساتھ کوئی تحریک نہیں ہوسکتی ہے۔ ایسی صورت میں پارٹی رہنماؤں نے بچوں کو آباد کرنے کا فیصلہ کیا۔ شادی کی تجویز پارٹی ہی کی جانب سے آئی تھی اور پارٹی سے وابستگی کی وجہ سے اس فیصلے کو قبول کرنا پڑا۔‘ ’یہ شادی اس وقت ہوئی جب پرچنڈ کا ٹھکانہ خفیہ تکھا گیا تھا۔ یہ شادی بھی خفیہ رکھی گئی تھی۔ انڈیا میں پولیس انتظامیہ سے بھی بچنا تھا۔ اسی لیے کسی کو بھنک نہیں لگنے دی گئی۔ یہ جمہوری تحریک کی شادی تھی اور اسی انداز میں کی گئی تھی۔‘ رینو اور ارجن شادی کے بعد ’وقت کا تقاضا‘ ارجن اور رینو دونوں کا خیال ہے کہ پرچنڈ نے وقت کی ضرورت تحت بندوق اٹھائی تھی کیونکہ نظام بہرا ہوچکا تھا اور دوسری طرح سے بات سننے کو تیار نہیں تھا۔ ارجن نے کہا: ’بادشاہی نہیں جاتی ہے۔ بندوق اٹھانا مجبوری تھی۔ تاہم، جو ہم نے سوچا وہ بھی نہیں ہوا۔ ابھی بھی بہت کچھ باقی ہے۔ وقت بدل چکا ہے، کافی آگے نکل چکا ہے۔ اگر ایک بار پھر سے یہاں بادشاہت آجاتی ہے تو ہم یہ خیال کرنے لگیں کہ پھر سے اس کے خلاف مسلح ہو جائیں تو یہ اتنا آسان نہیں ہے۔ عوامی حمایت جو پہلے ملی تھی وہ اب مشکل ہے۔ ایک طویل عمل کے بعد نیپال میں عوامی جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ موجودہ ماحول میں اسے دوبارہ جواز فراہم کرنے میں وقت لگے گا۔‘ رینو نیپال کے چتون ضلع میں بھرت پور میونسپل کارپوریشن کی میئر ہیں اور ارجن پاٹھک اس وقت سوشل سائنسز سے پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ارجن کا تعلق نیپال کے گلمی ضلع سے ہے۔ ارجن کے والد ٹیک بہادر پاٹھک کو سنہ 1967 میں انڈین فوج کی گورکھا رجمنٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ ارجن بھی سات سال کی عمر میں انڈیا آئے تھے۔ ٹیک بہادر پاٹھک کا انڈین فوج میں داخلہ ٹیک بہادر پاٹھک اور پرچنڈ کے گہرے دوست بننے کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ ٹیک بہادر پاٹھک کے گھر کی مالی حالت بہت اچھی نہیں تھی جس نے انھیں نیپال چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ سنہ 1967 میں وہ نیپال کے گلمی سے انڈیا میں اترپردیش ریاست کے ضلع گورکھپور پہنچے۔ انھوں نے گورکھپور میں نیپال کے پوکھرا علاقے کے بمبہادر گرونگ سے ان کی ملاقات ہوئی۔ گرونگ انڈین فوج میں کپتان تھے۔ پاٹھک نے گورکھپور آرمی کیمپ میں کیپٹن گرونگ سے ملاقات کی اور فوج میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔ ٹیک بہادر پاٹھک کہتے ہیں: ’اس وقت کوئی خالی جگہ نہیں تھی ، لیکن گرونگ جی نے اپنے سینیئر افسران سے بات کی اور ہمیں فوج میں رکھ لیا۔ گورکھپور میں دو تین ماہ رہا۔ اس کے بعد مجھے ہماچل پردیش میں 14 جی ٹی سی یعنی 14 گورکھا تربیتی مرکز بھیج دیا گیا۔ اسی جگہ میں نے تربیت حاصل کی۔ تربیت کے بعد مجھے فیروز پور روانہ کردیا گیا۔‘ ’یہ پاکستان کی سرحد کے قریب ہے۔ تین چار مہینوں تک سخت ٹریننگ ہوئی اور پھر لہہ لداخ بھیجا گیا۔ دو سال لداخ میں رہنے کے بعد جموں کے پونچھ سیکٹر بھیج دیا گیا۔ یہ سنہ 1971 کا سال تھا اور پاکستان نے دسمبر کے پہلے ہفتے میں انڈیا پر حملہ کردیا تھا۔‘ ٹیک بہادر پاٹھک اپنی تصویر کے ساتھ کھٹمنڈو میں ٹیک بہادر پاٹھک اس وقت بمشکل 22 سال کے تھے اور انھوں نے انڈین سپاہی کی حیثیت سے پاکستان کے خلاف جنگ میں شرکت کی تھی۔ پاٹھک کہتے ہیں: ’ہمیں سرحد عبور کرکے حملہ کرنے کے لیے کہا گیا۔ ہم پونچھ کے لونگر سیکٹر سے آگے بڑھ رہے تھے۔ پاکستان کی فوج پہلے سے ہی ہماری چوکی پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھی۔ بیچ ہی میں ہمارا مقابلہ ہوگیا۔ دونوں طرف سے فائرنگ ہوتی رہی۔ ساری رات وہیں گزری۔ اس دوران ہمارے ایک ساتھی کو پاکستان کے فوجیوں نے پکڑا اور بے دردی سے ہلاک کردیا۔ دوسرے دن اس کی لاش اپنے ساتھ لے کر آیا۔‘ ٹیک بہادور پاٹھک کا کہنا ہے کہ انھوں نے انڈین فوج کا حلف لیا اور اسی کے مطابق پاکستان کے ساتھ جنگ لڑی۔ ٹیک بہادر پاٹھک سنہ 1971 کی جنگ کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’جنگ بہت خوفناک تھی۔ میں بتا نہیں سکتا۔ اس وقت میں 22 سال کا تھا لیکن کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ مجھے کوئی گولی نہیں لگی۔` ٹیک بہادر پاٹھک اپنی اہلیہ کے ساتھ انڈین فوج کیوں چھوڑی؟ سات سال میں ہی ٹیک بہادر نے انڈین فوج کو الوداع کہہ دیا۔ آخر ٹیک بہادر پاٹھک نے فوج چھوڑنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ انھوں نے بتایا: ’سنہ 1962 میں انڈیا اور چین کے مابین ایک جنگ ہوئی تھی۔ اس میں بڑی تعداد نیپالی باشندے ہلاک ہوئے تھے۔ جب میں لداخ گیا تو دیکھا کہ جنگ میں مارے جانے والوں کی یاد میں یادگاری تختیاں لگی تھیں۔ یہ تختیاں انتہائی خراب حالت میں تھیں۔ مشکل سے نام پڑھ سکا تھا۔ گورکھا وہاں بہت بری حالت میں رہ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ نیپالی بھائیوں نے اتنی سخت سرد علاقے میں ہندوستان کے لیے جان دی اور یہ ان کی حالت ہے۔ ہندوستان کی فوج کے پاس اس وقت اتنا سازوسامان بھی نہیں تھا۔‘ ’میں کیزوئل لیو لے کر دہلی گیا۔ میرا بھائی ہمیں ایک میٹنگ میں لے جایا گیا۔ یہ کمیونسٹوں کی ایک میٹنگ تھی اور وہاں ایسا محسوس کیا کہ اپنے لوگ کتنی مشکلات میں جی رہے ہیں اور میں کچھ کرنے کے قابل نہیں ہوں۔ پھر یہ محسوس کیا کہ اب استعفی دے کر اپنے ملک کے لیے کچھ کرنا چاہیے۔‘ فوج کی نوکری چھوڑنے کے بعد ٹیک بہادر پاٹھک نیپال چلے گئے تو انھوں نے سوچا کہ اب گزر بسر کیے ہوگی؟ پیسے نہیں ہیں۔ پھر انھوں نے تعلیم حاصل کرنا شروع کیا اور جالندھر میں انڈین اوورسیز بینک میں نوکری لی۔ لیکن نوجوان ٹیک بہادر کا دل نیپال کے شاہی نظام کے خلاف جنگ میں لگا ہوا تھا۔ بینک میں ملازمت کے دوران انھوں نے انڈیا میں کام کرنے والے نیپالیوں کو متحد کرنا شروع کیا۔ اس کے لیے نیپال ایکتا سماج پریشد کے نام سے ایک تنظیم تشکیل دی گئی اور اس کے اجلاس پورے انڈیا میں منعقد ہوئے۔ پاٹھک ملازمتیں اور احتجاج دونوں ایک ساتھ کرتے رہے۔ پرچنڈ کے بیٹے پرکاش داہال کی 36 سال کی عمر میں موت ہو گئی پاٹھک کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بینک منیجر سے لے کر عام انڈینز کو بتایا کہ نیپال میں ایک مطلق العنان بادشاہت کا نظام ہے اور وہاں بھی انڈیا کی طرح جمہوریت کی ضرورت ہے۔ ٹیک بہادر پاٹھک کہتے ہیں کہ انڈیا کے عام لوگوں نے نیپال میں جمہوریت کی جنگ میں بہت مدد کی۔ سنہ 1985 میں ٹیک بہادر پاٹھک نے پرچنڈ کو پہلی بار گورکھپور میں نیپال کمیونسٹ پارٹی کے جلسے میں سنا۔ پاٹھک کہتے ہیں کہ پرچنڈ کی پیش کش بہت زبردست تھی۔ ٹیک بہادر کو 1988 میں نیپال بلایا گیا۔ پارٹی کی اعلی قیادت کو پتا چل گیا تھا کہ پاٹھاک انڈین فوج میں خدمت انجام دے چکے ہیں اور وہ ماؤنوازوں کو ہتھیار چلانے کی تربیت دے سکتے ہیں۔ ٹیک بہادور پاٹھک کہتے ہیں: ’نیپال کے موجودہ وزیر داخلہ رام بہادر تھاپا بادل نے گورکھا ضلع پہنچنے میں میری رہنمائی کی۔ رات کوہی جنگل جانا پڑا۔ میں نے پہاڑوں اور جنگلات میں ایک ہفتہ تکف ماؤنوازوں کو ہتھیار چلانے اور دشمنوں سے بچنے کی تربیت دی۔‘ پرچنڈ سمیت اس میں تمام بڑے رہنما شامل تھے۔ دن میں نظریاتی تربیت ہوتی تھی۔ اس تربیت کے بعد بادشاہت کے خلاف مسلح جنگ شروع ہوگئی تھی۔ پاٹھک انڈیا میں کام کرنے والے نیپالیوں سے چندہ لینے کے بعد پارٹی کو رقم بھیجتے تھے۔ پاٹھک کہتے ہیں کہ تربیت کے دوران ہی پرچنڈ اور میں دوست بن گئے۔ پرچنڈ دستی بم اور ٹائم بم بنانے کا طریقہ بھی جانتے تھے۔ ان کا نشانہ بہترین تھا۔ وہ پہلے سے ہی پٹرول بم اور ریڈیو بم بنانا جانتے تھے۔ ’رام بہادر تھاپا عوامی جنگ کے ایک سال بعد سنہ 1997 میں شادی کی تجویز کے ساتھ دہلی آئے تھے۔ میں بھی جالندھر سے دہلی گیا تھا۔ میں شادی کے لیے رضامند ہوگیا اور شادی کے بعد دونوں میرے ساتھ جالندھر میں رہے۔ رینو اور ارجن بھی پارٹی کام میں مصروف رہتے تھے۔ رینو نے پارٹی میں تنظیم کی سطح پر خواتین کو متحد کرنا شروع کیا۔‘ نیپال میں بادشاہت کے خاتمے کے بعد یعنی سنہ 2008 میں ٹیک بہادر پاٹھک نے انڈین اوورسیز بینک کی نوکری چھوڑ دی۔ انھیں اب بھی پنشن ملتی ہے۔ ان کا اپنا جالندھر میں مکان تھا جسے انھوں نے سنہ 2015 میں بھی فروخت کر دیا۔ پاٹھک کہتے ہیں کہ یہ مکان نیپال میں انقلاب کا گواہ تھا، لیکن انھیں کھٹمنڈو میں ایک گھر بنانا تھا لہذا اس کے لیے انھیں یہ گھر فروخت کرنا پڑا۔ انڈیا کا کردار پرچنڈ بادشاہت کے خاتمے کے بعد سنہ 2008 میں نیپال کے وزیر اعظم بنے تھے۔ لیکن ایک سال کے اندر ہی انھوں نے اس وقت کے آرمی چیف روکم مانگڈ کٹوال سے تنازعے کے بعد استعفیٰ دے دیا تھا۔ رینو داہال کا کہنا ہے کہ یہ ان کے والد کا جلد بازی کا فیصلہ تھا۔ رینو نے کہا: ’ایک ملازم سے جھگڑے پر استعفی نہیں دینا چاہیے تھا۔ یہ فیصلہ لوگوں کے لیے متاثر کن تھا، کیونکہ اس کے ذریعے ایک پیغام گیا تھا کہ پرچنڈ کو کسی عہد کا لالچ نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد نظام کو تبدیل کرنا ہے۔ لیکن حکمت عملی اور اشتراکی تحریک کے حوالے سے یہ جلد بازی میں کیا جانے والا فیصلہ تھا۔‘ رینو انڈیا کے بارے میں کہتی ہیں کہ نیپال میں انقلاب لانے میں انڈیا کے عوام نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ رینو نے کہا: ’سیاسی سطح پر رشتے خواہ جیسے بھی ہوں، لیکن نیپال اور انڈیا کے عام لوگوں کے درمیان بہت اچھے تعلقات رہے ہیں۔‘ پرچنڈ کو اپنی زندگی میں بہت ساری جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن سنہ 2017 ان کے لیے بہت اذیت ناک تھا۔ ان کے اکلوتے بیٹے پرکاش داہال کا 36 سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اس سے قبل پرچنڈ کی بڑی بیٹی گیانو بھی کینسر کی وجہ سے انتقال کر گئیں۔ پرچنڈ کی اہلیہ سیتا بھی بہت سی بیماریوں میں مبتلا ہیں اور ممبئی میں ان کا علاج جاری ہے۔
world-50304152
https://www.bbc.com/urdu/world-50304152
گھر پر بنائے گئے شوربے سے لے کر سمارٹ شاپنگ تک، خوراک کا ضیاع کم کرنے کے سات طریقے
دنیا میں ہر سال تقریباً ایک اعشاریہ تین ارب ٹن کے برابر کھانا ضائع ہو جاتا ہے اور اس کا بڑا حصہ کوڑا کرکٹ کے گڑھوں میں پھینک دیا جاتا جس سے موسمیاتی تبدیلی کا عمل تیز تر ہوتا جا رہا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں پیدا ہونے والی ایک تہائی خوراک ضائع ہو جاتی ہے نیویارک کے مشہور شیف تباخ میکس لامنا کے بقول آج انسانیت کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے ایک ’بہت بڑا مسئلہ خوارک کا ضیاع ہے۔‘ میکس نے ’زیادہ پودے، کم ضیاع‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی لکھی ہے اور درج ذیل مضمون میں ایسی تجاویز دیتے ہیں جن کی مدد سے ہم اور آپ اس روش کو تبدیل کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔ ’’ کھانا ہمیشہ سے میری زندگی کا ایک اہم جزو رہا ہے۔ ایک شیف کا بیٹا ہونے کی وجہ سے میں ایسی دنیا میں بڑا ہوا جہاں کھانا ہی سب کچھ تھا۔ میرے والدین نے مجھے ہمیشہ یہی سکھایا کہ بیٹا کھانا ضائع نہیں کرتے۔ تقریباً نو ارب انسانوں کے اس سیارے پر آج ہمیں ہر سطح پر فُوڈ اِنسکیورٹی یا خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا ہے اور دنیا میں 820 ملین انسانوں کو اتنا کھانا نہیں ملتا جتنا ان کے لیے ضروری ہے۔ میکس لا منا نیو یارک کے ایک شیف ہیں جو کھانا بالکل ضائع نہیں ہونے دیتے خوراک کا ضیاع آج انسانیت کو درپیش مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کیونکہ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں بنائے جانے والے تمام کھانے میں سے ایک تہائی ضائع ہو جاتا ہے۔ کھانا ضائع ہونے کا مطلب صرف کھانا ضائع ہونا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیسے، پانی، توانائی، زمین اور ذرائع آمد ورفت، ہر چیز ضائع ہوئی ہے۔ یہ بھی پڑھیئے کیا ہم کیڑے کھا کر دنیا کو بچا سکتے ہیں؟ ایک قسم کی خوراک پر زندگی ممکن ہے؟ کہیں خوراک کی شدید کمی تو کہیں کرسمس کی خوشیاں غربت اور بھوک یہاں تک کہ اگر آپ کھانا پھینک رہے ہیں تو اس سے موسمیاتی تبدیلی پر بھی اثر پڑ رہا ہے، کیونکہ یہ کھانا اکثر کوڑا کرکٹ کے گڑھوں میں پھینکا جاتا ہے جہاں وہ گلتا سڑتا رہتا ہے جس سے میتھین گیس پیدا ہوتی ہے جو آب و ہوا پر برے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اگر کھانے کے ضیاع کو ہم ایک ملک تصور کریں تو امریکہ اور چین کے بعد آلودگی پھیلانے والی (گرین ہاؤس) گیسیں پیدا کرنے والا یہ تیسرا بڑا ملک ہوتا۔ اس حوالے سے ہم مندرجہ ذیل کام کر سکتے ہیں۔ سوچ سمجھ کر خریداری یا سمارٹ شاپنگ اکثر لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ کھانا خرید لیتے ہیں، ہمیں سمارٹ شاپنگ کرنی چاہیئے بہت سے لوگ اپنی ضرورت سے زیادہ خوراک خرید لیتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے آپ کو چاہیے کہ اپنی ضرورت کی چیزوں کی فہرست بنائیں اور صرف وہی اشیاء خریدیں۔ اس کے بعد یہ یقینی بنائیں کہ آپ نے جو کھانا خریدا ہے، دوبارہ بازار جانے سے پہلے وہ تمام کھانا ختم کریں۔ کھانا ٹھیک سے ذخیرہ کریں ہر طرح کی خوراک کو فریج میں ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے بھی خوراک ضائع ہوتی ہے کھانے کی بہت زیادہ مقدار اس وجہ سے ضائع ہو جاتی ہے کہ ہم اسے درست طریقے سے ذخیرہ نہیں کرتے۔ بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں کہ تازہ سبزیوں کو خراب ہونے سے کیسے بچاتے ہیں، جس کی وجہ سے کچّی سبزیاں وقت سے پہلے پک جاتی ہیں، اور پھر جلد ہی پہلے گل سڑ جاتی ہیں۔ مثلاً آلو، ٹماٹر، لہسن، کھیرے اور پیاز کو کبھی بھی فریج میں نہیں رکھنا چاہیے۔ ان سبزیوں کو ہمیشہ کمرے کے درجۂ حرارت پر رکھنا چاہیے۔ پتوں والی سبزی اور دھنیا، پودینہ جیسی بوٹیوں کو تنے تک پانی میں بھگو کر دیر تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ مزید پڑھیئے خوراک کی کثرت مگر یمن قحط کے دہانے پر کیوں؟ وہ صحت بخش غذا جو ہماری خوراک کا حصہ نہیں رہی کھانا پکانا واقعی اطمینان بخش ہوتا ہے: مشلین سٹار شیف اسی طرح اگر آپ سمجھتے ہیں کہ روٹی زیادہ آ گئی ہے تو اسے فریج کی بجائے فریزر میں رکھیں۔ سبزیوں کو ضائع ہونے سے بچانے کی اس مہم میں اپنا حصہ ڈالنے کے لیے آپ کو چاہیے کہ جب بازار جائیں تو وہ چیزیں اٹھائیں جو دیکھنے میں چاہے بہت زبردست نہ ہوں۔ اور اس سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ بڑی دکانوں کی بجائے ریڑھی والے یا خود کسان سے خریداری کریں۔ بچ جانے والا کھانا محفوظ کریں (بلکہ بہتر ہے اسے کھا لیں) بچ جانے والے کھانے کو استعمال کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ مثلاً جو سبزیاں بچ گئی ہیں انھیں سٹر فرائی کر لیں بچ جانے والا کھانا صرف چھٹیوں کے دنوں کے لیے نہیں ہوتا۔ اگر آپ کے ہاں معمول میں بہت زیادہ کھانا بنتا ہے اور ہمیشہ کھانا بچ جاتا ہے تو ہفتے میں ایک دن مقرر کرلیں اور اس دن صرف وہ کھانا ختم کریں جو فریج میں پڑا ہوا ہے۔ کھانا کوڑے میں پھینکنے سے بچنے کا یہ طریقہ بہت اچھا ہے۔ اس کا فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے آپ کا وقت اور پیسہ بھی بچتا ہے۔ اپنے فریزر سے دوستی بڑھائیں کھانے اور دیگر اجزا کو فریز کرنے سے کھانا کم ضائع ہوتا ہے اور آپ کے پاس ہمیشہ صحت مند آپشن موجود رہتا ہے کھانے کو محفوظ کرنے کا سب سے آسان طریقہ یہ ہے کہ آپ اسے فریز کر دیں اور اور ایسے کھانوں کی فہرست بہت طویل ہے جنھیں آپ آسانی سے منجمد کر سکتے ہیں۔ مثلاً ایسی سبزیاں جو قدرے نرم پڑ چکی ہیں اور آپ کے پسندیدہ سلاد میں جا سکتی ہیں، آپ انھیں بیگ میں ڈال کر فریزر میں رکھ سکتے ہیں۔ آپ ان سے بعد میں سمُودی وغیرہ بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح دھنیے، پودینے جیسی بچی ہوئی بُوٹیوں کو زیتون کا تیل اور لہسن لگا کر برف بنانے والی ٹرے میں رکھ کر برف (آئیس کیوب) بنائی جا سکتی ہے جسے آپ دوسرے چیزوں کو ہلکا پھلکا تلتے ہوئے یعنی ’ساتے‘ کرتے ہوئے ان میں ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح آپ بچے ہوئے دوسرے کھانوں، اپنے فارم سٹینڈ سے بچی ہوئی اضافی خوراک اور سوپ اور مرچوں کو فریز کر سکتے ہیں۔ یہ اس بات کو یقینی بنانے کا ایک نہایت عمدہ طریقہ ہے کہ آپ کے پاس ہمیشہ صحت مند اور گھر کا پکا ہوا کھانا موجود ہے۔ اپنا لنچ پیک کریں اپنے بچے ہوئے کھانے کو لنچ کے طور پر پیک کرنا ایک اچھی عادت ہے اور اس سے آپ کی خوراک میں تمام اجزا شامل رہتے ہیں اگرچہ اپنے رفقاء کے ساتھ لنچ پر جانا یا اپنے پسندیدہ ریسٹورینٹ سے کھانا کھانا پر لطف لگتا ہے لیکن یہ ہمیشہ مہنگا ہوتا ہے اور خوراک کے ضیاع میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ پیسے بچانے اور کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کا ایک مددگار طریقہ یہ ہے کہ کام پر اپنا لنچ ساتھ لائیں۔ اگر آپ کے پاس صبح وقت کم ہوتا ہے تو کوشش کریں کہ بچے ہوئے کھانے چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں فریز کر لیا کریں۔ اس طرح آپ کے پاس ہر صبح پہلے سے بنے ہوئے اچھے ذائقہ دار لنچز تیار ہوں گے۔ گھر پر ہی سٹاک بنائیں گھر پر سٹاک بنانا بچی ہوئئ سبزیوں کو استعمال کرنے کا ایک بہتر طریقہ ہے گھر پر بچی ہوئی سبزیوں کا سٹاک یا شوربہ بنانا خوراک کو ضائع ہونے سے بچانے کا ایک آسان طریقہ ہے۔ بچی ہوئی سبزیوں کو جیسا کہ ان کے اوپر کے حصے، تنے، چھلکے وغیرہ یا دوسرے بچے ہوئے حصوں میں تھوڑا سا زیتون کا تیل یا مکھن ڈال کر سوتے بنا لیں، اس میں پانی ڈالیں اور پھر اسے ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیں۔ لیجیئے خوشبودار سبزیوں کا شوربہ تیار ہے۔ اگر بنا سکتے ہیں تو کھاد بنا لیں گھروں میں بھی بچے کھچے کھانے سے کھاد بنائی جا سکتی ہے بچے ہوئے کھانے سے کھاد بنانا بھی ضائع ہوتی ہوئی خوراک کو پودوں کے لیے طاقت بنانے کا ایک مفید طریقہ ہے۔ اگرچہ سبھی کے لیے گھر سے باہر کمپوزٹنگ کا نظام لگانے کی جگہ نہیں ہوتی لیکن کچن میں ہی کمپوزٹنگ کے ایسے بہت سے نظام موجود ہیں جو اس عادت کو آسان اور سب کی دسترس والے نظام بناتے ہیں۔ ان کے لیے بھی جن کے پاس جگہ بہت محدود ہے۔ باہر رکھا ہوا کمپوزٹر اس کے لیے تو اچھا کام کرے گا جس کے پاس زیادہ جگہ ہے جبکہ کاؤنٹر ٹاپ کمپوزٹرز شہر میں رہنے والے ان افراد کے لیے اچھے ہے جو گھریلو پودے یا جڑی بوٹیوں کے چھوٹے باغیچے بناتے ہیں۔ چھوٹے قدم اور بڑے نتائج خوراک کا ضیاع کم کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے اصل بات یہ ہے کہ ہم سب خوراک کا ضیاع کم کر سکتے ہیں اور ایسا کرنے کے لامحدود طریقے ہیں۔ صرف یہ خیال کر کے ہی کہ ہم گھر پر روزانہ کتنا کھانا پھینکتے ہیں، ہم زمین کے کچھ قابلِ قدر ذرائع کو بچا سکتے ہیں۔ خریداری، کھانا پکانے اور خوراک کا استعمال کرنے کے اپنے طریقوں میں صرف تھوڑی سی تبدیلی بھی ماحول پر اس کے اثرات میں کمی لا سکتی ہے۔ تھوڑی سی کوشش سے آپ خوراک کے ضیاع میں ڈرامائی تبدیلی لا سکتے ہیں، پیسے اور وقت بچا سکتے ہیں اور دھرتی ماں پر سے بوجھ کم کرنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
040513_almodovar_on_film
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2004/05/040513_almodovar_on_film
المادوار کی نئی فلم: محرکات اور ذاتی تجربات
سپین کے مشہور ہدایتکار پیدرو الما دوار نے اپنی نئی فلم ’لا مالا ایجوکیشن‘ یا ’بری تعلیم‘ کے بارے میں کہا ہے کہ اس فلم میں جو، ساٹھ کی دہائی میں کیتھولک سکولوں میں بچوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر بنائی گئی ہے، ان کے اپنے بچپن کے کچھ تجربات بھی شامل ہیں۔
الما دوار کی اس نئی فلم کو ناقدین کی طرف سے بہت زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ اس فلم کی کہانی ایک ایسے پادری کی کہانی ہے جسے اپنے ایک شاگرد سے پیار ہوجاتا ہے اور وہ اس کے ساتھ زیادتی کر نے کی کوشش کرتا ہے۔ ’ہاں میں خود جانتا ہوں ایسے ایک پادری کو بھی اور ایک ایسے شاگرد کو بھی۔‘ المادوار کا کہنا تھا کہ انہوں نے خود بھی ایسے ہی پادریوں سے تعلیم حاصل کی ہے جن کی تعلیم کا تصور سزا کے خوف پر مبنی تھا۔ تاہم ان کا اصرار تھا کہ فلم کی کہانی مکمل طور پر ان کے ذاتی تجربے پر مبنی نہیں ہے۔ ’یہ فلم یقینناً میری نمائندگی کرتی ہے لیکن اس فلم کے واقعات و حالات مکمل طور پر میری ذاتی زندگی سے نہیں ہیں۔‘ ناقدین کےخیال میں ’لا مالا ایجوکیشن‘ یقینناً عالمی فلمی سین پر الما دوار کی ساکھ کو بہت تقویت دے گی جو پچھلے بیس برس میں مسلسل بڑھ رہی ہے۔
pakistan-54019676
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54019676
خواتین کی صحت: ’دوران حمل ماں میں ذیابیطس کنٹرول میں نہ رہنے سے بچے کی موت بھی ہو سکتی ہے‘
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں واقع شفا ہسپتال کے گائنی وارڈ کے شعبہ انتہائی نگہداشت میں داخل ہوتے ہی پہلے کمرے میں سدرہ گلزار سے ملاقات ہوئی جن کے ہاں ایک دن پہلے ہی بچے کی پیدائش ہوئی ہے۔
سدرہ کو ابھی مزید ایک دن اپنے جسم سے منسلک مختلف مشینوں اور اپنی نگہداشت پر معمور ڈاکٹروں اور نرسوں کی نگرانی میں گزارنا ہو گا۔ انھیں کچھ ہی فاصلے پر واقع نوزائیدہ بچوں کی نرسری میں موجود اپنے نومولود بیٹے سے ملنے کے لیے بھی کچھ وقت مزید انتظار کرنا ہو گا۔ سدرہ ہی کی طرح ان کا نوزائیدہ بچہ بھی طبی عملے کی مسلسل نگرانی میں ہے۔ سدرہ نے مسکراہٹ کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور موبائل پر اپنے بیٹے کی تصویر دکھائی جو دیکھنے میں بالکل صحت مند ہے اور پُرسکون نیند کے مزے لے رہا ہے۔ تاہم دوسری بہت سے حاملہ خواتین کے برعکس سدرہ کی کہانی تھوڑی مختلف اور پیچیدہ ہے۔ زچگی کے بعد انھیں مسلسل مشینوں کے ذریعے چیک کیا جا رہا ہے کیونکہ وہ حمل کے دوران ذیابیطس کا شکار ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات صورتحال ایسی ہو جاتی کہ انھیں اپنا شوگر لیول کنٹرول کرنے کے لیے دن میں چار، چار بار انسولین استعمال کرنی پڑتی۔ حمل کے آخری دنوں میں بچے کی زندگی کو لاحق خطرات کے پیش نظر اُن کی گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شازیہ فخر کو سدرہ کی حمل کی مدت مکمل ہونے سے قبل ہی ان کا سی سیکشن یعنی آپریشن کرنا پڑا۔ جب نو برس قبل سدرہ کی شادی ہوئی تھی تو اس وقت نہ تو انھیں اور نہ ہی ان خاندان میں کسی کو ذیابیطس تھی۔ سدرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’شادی کے پانچ سال بعد میرے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔ حمل کے چوتھے مہینے میں مجھے پتہ چلا کہ مجھے ذیابیطس ہو گئی ہے، پلیٹلیٹس بھی کم ہو گئے تھے۔ میں نے یہ سب کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن بغیر دوا کہ یہ صورتحال کنٹرول نہ ہو سکی اور پھر نویں مہینے میں میرے ہاں بچہ تو پیدا ہوا مگر مردہ۔ یہ ایک بہت بڑا نقصان تھا جسے قبول کرنا بہت مشکل تھا۔‘ یہ بھی پڑھیے بچوں میں وقفہ: ’ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں اندر سے ختم ہو گئی ہوں‘ پاکستان میں مانع حمل ادویات کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کی حقیقت کیا ہے؟ پاکستان میں حاملہ خواتین کا بڑا مسئلہ ’اینیمیا‘ کیوں ہے اور اس سے بچا کیسے جا سکتا ہے؟ ڈاکٹر شازیہ فخر کہتی ہیں کہ بہت سے خواتین حمل کے دوران ذیابیطس کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں جس کی وجہ سے انھیں اور بچے کو نقصان ہو سکتا ہے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سدرہ کی ڈاکٹر گائناکالوجسٹ شازیہ فخر نے بتایا کہ ’آج میں نے 15 سے 20 حاملہ خواتین کا چیک اپ کیا ہے جن میں سے تقریباً سات خواتین ایسی آئیں جو دورانِ حمل ذیابیطس کا شکار ہیں۔‘ لیکن وہ یہ شکایت بھی کرتی ہیں کہ اکثر خواتین یا تو اس مسئلے سے بے خبر رہتی ہیں یا پھر شناخت ہونے کے بعد بھی ذیابیطس کو کنٹرول کرنے پر زیادہ توجہ ہی نہیں دیتیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ پاکستان اور انڈیا سمیت اس پورے خطے میں ذیابیطس اور بلڈ پریشر کا مرض بہت زیادہ ہے، اور ایک حالیہ تحقیق کے مطابق دوران حمل ماؤں میں ان بیماریوں کے شکار ہونے کا تناسب 4.2 فیصد سے 26 فیصد تک ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ بہت سی خواتین بلڈ پریشر کے معاملے کو تو مسئلہ سمجھتی ہیں لیکن ذیابیطس کو کنٹرول کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی جس کی وجہ سے زچہ و بچہ دونوں ہی کے لیے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ دوران حمل ذیابیطس کیوں ہوتی ہے؟ سدرہ کہتی ہیں کہ ’جب میں انسولین نہ لوں تو میری شوگر 250 تک پہنچ جاتی ہے، انسولین استعمال کرنے کے بعد کھانا کھانے پر شوگر کی سطح 160 تک ہوتی ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ انھیں خود محسوس نہیں ہوتا کہ ان کے خون میں شوگر ہائی لیول پر جا رہی ہے۔ لیکن ایسا ہوتا کیوں ہے کہ حمل کے دوران شوگر لیول بڑھنے لگے؟ اس کے جواب میں ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ حمل کے دوران کچھ ایسے ہارمونز ہوتے ہیں جو جسم میں خارج ہونے والی انسولین کے لیول پر اثر ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے شوگر لیول معمول سے بڑھ جاتا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ فخر بتاتی ہیں کہ حمل کے دوران ہونے والی ذیابیطس کی دو قسمیں ہیں۔ سدرہ گلزار ’ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کسی خاتون کو حمل ٹھہرنے سے پہلے ہی ذیابیطس ہو مگر اسے یہ معلوم نہ ہو اور حمل کے دوران کروائے جانے والے ٹیسٹوں سے اس کی تشخیص ہو۔‘ دوسری صورتحال یہ ہو سکتی ہے کہ پہلے حمل کے دوران ذیابیطس ہو اور بچے کی پیدائش کے بعد وہ ٹھیک ہو جائے۔ شوگر کی اس قسم کو ’جیسٹیشنل ذیابیطس‘ کہتے ہیں۔ کونسی خواتین کو دورانِ حمل ذیابیطس کا مسئلہ ہو سکتا ہے؟ ڈاکٹر شازیہ کے مطابق حاملہ خاتون کی میڈیکل ہسٹری بہت زیادہ اہم ہے یعنی اگر انھیں پہلے حمل میں ’جیسٹیشنل ذیابیطس‘رہی ہو تو وہ دوسرے حمل کے دوران انھیں دوبارہ ذیابیطس ہونے کا قوی امکان ہو گا۔ ہسپتالوں میں حمل کی تصدیق کے ساتھ ہی مریضہ کی ہسٹری دیکھتے ہوئے ان کا ’گلوکوز ٹالرینس ٹیسٹ‘ کیا جاتا ہے اگر اس وقت رزلٹ منفی آ جائے تب بھی مسلسل بنیادوں پر چٹھے سے ساتویں مہینے میں دوبارہ چیک کیا جاتا ہے کیونکہ حمل کا دورانیہ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ذیابیطس کی بروقت تشخیص نہ ہو سکے تو کیا مسائل ہو سکتے ہیں؟ اگرچہ اب گھروں میں بچوں کی پیدائش کے رحجان میں بہت زیادہ کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن شہری علاقوں میں بھی اکثر خواتین حمل کی تصدیق کے کئی ماہ بعد ڈاکٹر کے پاس باقاعدگی سے جانا شروع کرتی ہیں۔ ایسے میں اگر کسی حاملہ خاتون کے ذیابیطس میں مبتلا ہونے کی تصدیق نہ ہو سکے تو اس پر اور پیدا ہونے والے بچے پر سنگین اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ڈاکٹر شازیہ نے بتایا کہ حمل کے ہر گزرتے ماہ میں شوگر کی مقدار بڑھنے سے پیٹ میں موجود بچے پر اس کے اثرات پڑ سکتے ہیں۔ ’بہت سی خواتین بلڈ پریشر کے معاملے کو تو مسئلہ سمجھتی ہیں لیکن ذیابیطس کو کنٹرول کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی‘ ’اگر حمل کے ابتدائی دنوں میں ماں کی ذیابیطس کنٹرول میں نہیں ہے تو بچے کے دماغ، دل یا ریڑھ کی ہڈی متاثر ہو سکتی ہے۔ دوسرے اگر ماں کو پہلے ذیابیطس نہ ہو بعد میں ہو جائے اور اسے علم نہ ہو سکے ایسے میں یہ ہو سکتا ہے کہ بچے کے گرد موجود پانی کی مقدار بڑھ سکتی ہے۔‘ انھوں نے مزید بتایا کہ ’اس صورت میں بچے کا وزن زیادہ ہو سکتا ہے اور بچے کا وزن زیادہ ہونے سے بھی مسائل ہو سکتے ہیں جیسا کہ نارمل ڈلیوری کا نہ ہونا۔ ایسی صورت میں اگر نارمل ڈیلیوری کی کوشش کی جائے تو بہت سے دیگر مسائل پیش آ سکتے ہیں۔‘ مزید پڑھیے ’حمل کے دوران سنی سنائی باتوں پر ہرگز نہ جائیں‘ لاک ڈاؤن نے میرے اسقاط حمل کو مزید درد ناک تجربہ بنا دیا ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ماں میں ذیابیطس بچے میں بھی منتقل ہو جائے اور ہوتا یہ ہے کہ جب بچہ ماں کے جسم سے الگ ہوتا ہے تو اس کی شوگر اچانک کم ہو جاتی ہے اور اسے بھی مانیٹر کرنا پڑتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ اگر شوگر کا لیول بہت زیادہ نہ ہو تو حاملہ خواتین کو دوائی دینے کے بجائے انھیں خوراک کے ذریعے ذیابیطس کنٹرول کرنے کی تلقین کی جاتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’پہلے انسولین ہی ہوا کرتی تھی اب کچھ دوائیں بھی آ گئی ہیں۔ لیکن ہم اسے مانیٹر کرنا کبھی بھی نہیں چھوڑتے کیونکہ حمل کے اگلے مراحل میں ذیابیطس بڑھنے کا خدشہ رہتا ہے۔ اگر شوگر لیول ہائی ہو جائے تو انسولین بھی استعمال کروائی جاتی ہے۔‘ ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ ذیابیطس میں مبتلا حاملہ خواتین کے سی سیکشن کرنے سے بھی زیادہ خطرناک یہ ہوتا ہے کہ اگر ماں میں شوگر لیول ہائی ہونے کی تشخیص نہ ہو یا ماں اسے کنٹرول نہ کر پائے تو ایسی صورت میں بچے کے پیٹ میں ہی ہلاکت ہو سکتی ہے۔‘ ذیابیطس سے متاثرہ حاملہ خواتین کا سی سیکشن کرنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی کہ بچے کا وزن بہت زیادہ ہوتا ہے اور وہ نارمل طریقے سے ڈیلیور نہیں ہو پاتا۔ ذیابیطس میں مبتلا ماؤں کے بچوں کا جسم عام بچوں جیسا ہی ہوتا ہے لیکن ان کے کندھوں کے سافٹ ٹشوز زیادہ موٹے ہوتے ہیں اور کندھے چوڑے ہونے کی وجہ سے سر تو باہر آ جاتا ہے مگر کندھے پھنس جاتے ہیں اور ایسا ہونا بدترین صورتحال ہوتی ہے۔ پانی زیادہ ہونے کی وجہ سے بچے کی ایک پوزیشن نہیں ٹھہرتی اور وہ پیدائش کے دوران اپنی پوزیشن تبدیل کرتا ہے اور اس دوران واٹر بیگ پھٹنے سے ایک دم اس کی کارڈ باہر نکل سکتی ہے۔ بچہ ڈیلیور بھی ہو جائے تو اس کا وزن زیادہ ہونے کی وجہ سے یوٹرس کے دوبارہ سے سکڑنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے اور ماں کا زچگی کے بعد حد سے زیادہ خون کا اخراج ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ ’ماں کی شوگر زیادہ ہوتی ہے تو اس کا گلوکوز بچے میں جاتا ہے۔ اس طرح بچے کی پینکریاز بھی زیادہ انسولین بناتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہو جاتا ہے تو ماں کا گلوکوز نہیں جا رہا ہوتا تو اس کا شوگر لیول ایک دم سے کم ہو جاتا ہے۔ اس کے جسم میں پینکریاز کو انسولین زیادہ بنانے کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے۔ اور یوں بچے کو ہائپوگلائسیمیا ہو جاتا ہے۔ اور اس سے بچے کی موت واقع ہو سکتی ہے۔ ہسپتال میں تو بچے کو مانیٹر کیا جاتا ہے لیکن گھروں میں پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی کو ایسی صورتحال میں مسئلہ ہو سکتا ہے۔‘ ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں عام طور پر 48 گھنٹوں میں بچے ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لیکن چھ ہفتوں کے بعد ہم ماں کو دوبارہ سے چیک کرتے ہیں۔ ڈاکٹر شازیہ کہتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ اگر ماں کو ذیابیطس ہو تو یہ بچے میں منتقل ہو۔ سدرہ کے نوزائیدہ بچے کے حوالے سے ڈاکٹرز نے بتایا ہے کہ وہ مکمل طور پر صحتمند ہے اور اسے ذیابیطس کا کوئی مسئلہ نہیں اور امید ہے کہ سدرہ کا شوگر لیول بھی آنے والے چند روز میں بالکل نارمل ہو جائے گا اور انھیں مزید دوا یا انسولین کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ حمل سے پہلے ہی خواتین کو چاہیے کہ اگر وہ ٹائپ بی یا ون ذیابیطس میں مبتلا ہیں تو اینڈو کرانالوجسٹ سے رابطہ کر کے کنٹرول شوگر لیول کے ساتھ پرینگنینسی کی جانب جائیں اور جیسے ہی حمل کا پتہ چلے خود کو رجسٹرڈ کروائیں تاکہ ابتدائی ٹیسٹ میں ہی معلوم ہو جائے۔ سدرہ نے اپنے پہلے بچوں کو حمل کے آٹھویں اور نویں ماہ کے دوران کھو دیا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ حمل کے دوران ذیابیطس کنٹرول کرنا مشکل ہے لیکن اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ وہ ماؤں کو مشورہ دیتی ہیں کہ ’اپنے آپ کو متحرک رکھیں، ہم جس طرح عام طور پر کھانا کھاتے ہیں، ذیابیطس کے دوران ایک بار پیٹ بھر کے کھانا نہیں کھانا چاہیے۔ تھوڑا تھوڑا کھائیں۔ چار پانچ میل لے لیں۔‘
world-54406577
https://www.bbc.com/urdu/world-54406577
ڈونلڈ ٹرمپ اور کورونا وائرس: کورونا سے متاثرہ امریکی صدر والٹر ریڈ ہسپتال سے وائٹ ہاؤس منتقل، انتخابی مہم میں جلد واپسی کا اعلان
کورونا وائرس سے متاثرہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو والٹر ریڈ ہسپتال سے وائٹ ہاؤس منتقل کر دیا گیا ہے اور انھوں نے انتخابی مہم میں جلد واپسی کا اعلان بھی کیا ہے۔
پیر کے روز ان کی جانب سے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا گیا تھا کہ وہ اب بہت بہتر محسوس کر رہے ہیں اور انھیں آج ہی وائٹ ہاؤس منتقل کر دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ہی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایک اور ٹویٹ بھی سامنے آئی ہے جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان کی ’انتخابی مہم میں جلد واپسی ہو گی۔‘ صدر ٹرمپ کو والٹر ریڈ ہسپتال سے مرین ون ہیلی کاپٹر کے ذریعے وائٹ ہاؤس منتقل کیا گیا۔ ہسپتال سے نکلتے وقت انھوں نے نیلے رنگ کا پینٹ کوٹ کے علاوہ ٹائی اور ماسک بھی پہن رکھا تھا۔ جب ٹرمپ والٹر ریڈ ہسپتال سے باہر آ رہے تھے تو وہ مکا دکھا رہے تھے۔ یہ بھی پڑھیے کورونا وائرس: ڈیکسامیتھازون زندگی بچانے والی پہلی دوا ثابت ہوگئی ٹرمپ کورونا سے متاثر: امریکی انتخابات کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟ اگر ٹرمپ بیماری کے باعث صدارتی ذمہ داریاں پوری کرنے کے قابل نہ رہیں تو؟ انھوں نے کہا 'سب کا بہت شکریہ'۔ تاہم انھوں نے میڈیا کے سوالات کا جواب نہیں دیا جن میں ایک صحافی کا یہ سوال بھی شامل تھا کہ 'صدر صاحب، کیا آپ ایک سپر سپریڈر ہیں؟' صدر ٹرمپ ہسپتال سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے مختصر دورانیے میں وائٹ ہاؤس پہنچ گئے جہاں انھوں نے ٹرومین بالکنی میں کھڑے ہو کر تصاویر بنوائیں اور حفاظتی ماسک اتار دیا۔ خیال رہے کہ اب تک امریکہ میں 74 لاکھ سے زیادہ افراد اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں جبکہ اس کے نتیجے میں دو لاکھ 10 ہزار افراد ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ کی بیماری کی نوعیت کے حوالے سے سوالات اب بھی موجود ہیں کیونکہ سنیچر اور اتوار کے روز متضاد بیانات سامنے آتے رہے ہیں۔ جبکہ وائٹ ہاؤس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے حوالے سے تاحال کچھ بھی واضح نہیں ہے۔ صدر ٹرمپ کو ایک ایسے موقع پر ڈسچارج کیا گیا ہے جب وائٹ ہاؤس سٹاف کے مزید افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ اب تک ٹرمپ کے قریبی کم از کم 12 افراد کا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آ چکا ہے جبکہ متعدد جونیئر سٹاف اراکین بھی اس فہرست میں شامل ہیں۔ ایسے متعدد افراد جن کا کورونا وائرس ٹیسٹ مثبت آیا ہے انھوں نے 26 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں ایک اجلاس میں شرکت کی تھی جسے ممکنہ طور پر 'سپر سپریڈر تقریب' کا نام دیا جا رہا ہے۔ اب تک وائٹ ہاؤس کی جانب سے اس حوالے سے وضاحت سامنے نہیں آئی کہ صدر ٹرمپ میں کورونا وائرس کی تصدیق کے بعد سے اب تک کتنے سٹاف اراکین میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ کورونا وائرس سے متاثرہ تازہ ترین شخصیت کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے وزیر پادری گریگ لاری ہیں۔ جو اس تقریب کا حصہ تھے جس میں صدر ٹرمپ نے امریکی سپریم کورٹ کے لیے امیدوار کا اعلان کیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کے روز گارڈن میں ہونے والی اس تقریب سے قبل لاری امریکی نائب صدر مائیک پینس کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہونے والی ایک دعائیہ تقریب میں بھی شریک ہوئے تھے ٹرمپ کے معالجین کا کیا کہنا تھا؟ ان کے اس اعلان کے کچھ ہی دیر بعد ان کے معالجین کی جانب سے ایک پریس بریفنگ کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ’ٹرمپ ابھی پوری طرح صحتیاب نہیں ہوئے لیکن ان کی وائٹ ہاؤس منتقلی محفوظ ہے۔‘ خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ میں جمعے کو کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد انھیں والٹر ریڈ ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ سرکاری معالج ڈاکٹر شان کونلی نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ صدر ٹرمپ کی صحت بتدریج بہتر ہو رہی ہے اور اب ہم انھیں ہسپتال سے ڈسچارج کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ 72 گھنٹوں کے دوران انھوں نے بخار یا سانس لینے میں تکلیف جیسی کوئی شکایت نہیں کی اور ان کے آکسیجن لیول بھی معمول پر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جو سہولیات صدر ٹرمپ کو والٹر ریڈ میں دی جا رہی ہیں وہ وائٹ ہاؤس میں بھی دی جا سکتی ہیں۔ تاہم وہ ٹرمپ کی صحتیابی کے حوالے سے ’محتاط طور پر پُرامید‘ ہیں۔ ادھر صدر ٹرمپ کا اپنی ٹویٹ میں کہنا تھا کہ ’کووڈ 19 سے ڈریں نہیں، اس اپنی زندگی پر سوار نہ ہونے دیں، میری انتظامیہ میں اس بیماری کے بارے میں معلومات بھی اکھٹی کی ہیں اور اس سے نمٹنے کے لیے مؤثر دوائیں بھی بنا لی ہیں۔‘ صدر ٹرمپ حامیوں سے ملاقات کے باعث تنقید کی ذد میں طبی ماہرین امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اپنے حامیوں سے ملنے کے لیے ہسپتال سے باہر آنے کے اقدام پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ امریکی صدر نے ماسک تو پہن رکھا تھا لیکن اس بارے میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ ان کی وجہ سے گاڑی میں بیٹھے خفیہ ایجنسی کے اہلکار بھی کورونا وائرس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے ترجمان جڈ ڈیری نے کہا ہے کہ اتوار کے روز صدر ٹرمپ کا یہ دورہ 'میڈیکل ٹیم کی جانب سے محفوظ قرار دیا گیا تھا۔' دوسری جانب صدر ٹرمپ کی بیماری سے متعلق متضاد بیانات پر بھی سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ امریکی صدر اور ان کی اہلیہ میلانیا ٹرمپ میں جمعے کو کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی تھی جس کے بعد صدر ٹرمپ کو والٹر ریڈ ملٹری میڈیکل ہپستال میں داخل کیا گیا تھا جبکہ میلانیا ٹرمپ وائٹ ہاؤس ہی میں ہی قرنطینہ ہیں۔ جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے اعدادوشمار کے مطابق امریکہ میں کورونا وائرس سے اب تک تقریباً 70 لاکھ سے زیادہ افراد متاثر جبکہ دو لاکھ سے زیادہ ہلاک ہو چکے ہیں۔ صدر ٹرمپ میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد ان کی انتخابی مہم میں خلل آیا ہے۔ واضح رہے کہ 3 نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں جو بائیڈن ٹرمپ کے مدمقابل ہیں۔ امریکی صدر کے اردگرد موجود رہنے والے افراد میں میلانیا ٹرمپ سمیت ریپبلکن پارٹی کے سینٹرز میں بھی کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ والٹر ریڈ ملٹری ہسپتال جہاں امریکی صدر زیر علاج ہیں، کے ڈاکٹر جیمز فلپس کے مطابق صدر ٹرمپ کی گاڑی میں موجود تمام اہلکاروں کو اب 14 دن قرنطینہ میں رہنا پڑے گا۔ امریکہ کی نیشنل براڈکاسٹنگ کمپنی (این بی سی) کے مطابق میلانیا ٹرمپ نے، جو کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد وائٹ ہاؤس میں ہی قرنطینہ ہیں، تمام خدشات کے باوجود اپنے شوہر کو ہسپتال جا کر ملنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اہکار(جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے ہیں) نے ہفتے کے روز این بی سی کو بتایا کہ انھیں کووڈ ہے۔ 'اس سے انھیں ہسپتال لے کر جانے والے اہلکار اور صدر ٹرمپ تک لے جانے والا طبی عملہ بھی متاثر ہو سکتا ہے سوشل میڈیا پر ردعمل اس وقت امریکہ سمیت دنیا بھر میں لوگوں کی دلچسپی اب نومبر میں ہونے والے امریکی انتخابات کی بجائے امریکی صدر کی صحت اور علاج کے حوالے سے تازہ ترین معلومات حاصل کرنے پر مرکوز ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر بھی متعدد صارفین دھرا دھر اپنے خیالات اور شکوک و شبہات کا ذکر رہے ہیں۔ امریکی صحافی ہوورڈ فائن مین نے ڈونلڈ ٹرمپ کے تازہ ویڈیو پیغام کے بارے میں ٹوئٹر پر لکھا: ٹرمپ کے ساتھ کئی برسوں کی ملاقاتوں اور سنہ 2016 کی انتخابی مہم کے بعد اور ٹرمپ کی ویڈیو کو دوبارہ غور سے دیکھنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ٹرمپ خوفزدہ ہیں، بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔ ان کو دیکھنا بھی تقریباً مشکل ہے۔' امریکہ میں معاشی امور کے ماہر رابرٹ ریچ ٹوئٹر پر لکھا: 'جب عالمی ادارہ صحت نے امریکی عوام کوعلاج کے لیے قواعد تجویز کیے تو ٹرمپ نے انھیں نظر انداز کیا لیکن جب ان اپنی صحت پر بات آئی تو وہ ان قواعد پر عمل کر رہے ہیں۔' ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما حکیم جیفریز نے اتوار کے روز ٹرمپ کو ہستال کے باہر دیکھے جانے پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے مختصر انداز میں لکھا:' 205000 امریکی مر چکے ہیں۔ ہمیں تصاویر نہیں قیادت چاہیے۔' سی این این کی نامہ نگار ایم جے لی نے بھی ٹرمپ کے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: 'ٹرمپ والٹر ریڈ کے باہر موجود اپنے حمایتیوں کے لیے گاڑی میں بیٹھے باہر آئے۔ اس فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کا شکار ٹرمپ کے ساتھ اس گاڑی میں اہلکار بھی سوار ہیں۔' امریکی گلوکارہ بابرہ سٹریسینڈ نے لکھا: 'بدھ کو اپنی انتخابی ریلی میں جاتے ہوئے ممکنہ طور پر ٹرمپ کو علم تھا کہ انھیں کورونا وائرس ہے۔ وہ بہت سی زندگیوں کو خطرے میں ڈال سکتے تھے۔ پھر وہ نیوجرسی میں بغیر ماسک پہنے فنڈ جمع کرنے بھی گئے۔ یہ بہت غیر ذمہ دارانہ ہے۔' امریکی ٹی وی میزبان جوئے ریڈ ڈونلڈ ٹرمپ پر انتہائی برہم دکھائی دیں اور لکھا: 'وائٹ ہاؤس کے خانساموں اور سٹاف، خفیہ ایجنسیوں کے اہلکاروں اور کورونا وائرس کا شکار ستر لاکھ سے زیادہ امریکی شہریوں اور 207000 افراد کے خاندان، جو ٹرمپ کے دور حکومت میں مارے گئے اور ماشی تباہی کا شکار لاکھوں افراد کے لیے دعائیں۔' صدر ٹرمپ کے ارد گرد اور کون کورونا سے متاثر ہوا ہے؟ ڈاکٹر کونلی نے اس بارے میں کوئی جواب نہیں دیا کہ صدر ٹرمپ کب اور کہاں سے کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں۔ تاہم گذشتہ ہفتے صدر ٹرمپ کے پرہجوم روز گارڈن والے جلسے میں جہاں انھوں نے ایمی کونی بیرٹ کی بطور سپریم کورٹ جج نامزدگی کی تھی، اس ضمن میں کافی زیر بحث ہے۔ صدر ٹرمپ اور خاتون اول کے علاوہ چھ اور افراد جنھوں نے اس تقریب میں شرکت کی تھی، ان میں بھی وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ سنیچر کو انتخابی مہم کی مشیر اور سابق نیو جرسی گورنر کرس کرسٹی میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ صدر ٹرمپ کے قریب دیگر افراد میں ان کی قریبی معاون ہوپ ہکس، انتخابی مہم کے منیجر بل سٹیپین اور سابق وائٹ ہاوس کونسلر کیلین کونوے شامل ہیں۔ جبکہ ریپبلکن پارٹی کے رہنما مچ میکونل کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے اجلاس کی کارروائی کو 19 اکتوبر تک مؤخر کیا جاتا ہے تاہم جج بیرٹ کی بطور سپریم کورٹ جج نامزدگی کا جائزہ لینے والی سینیٹ کی کمیٹی برائے عدلیہ کام کرتی رہے گی۔ بعدازاں سنیچر کو سینیٹر نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ انھوں نے صدر ٹرمپ سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے اور انھیں ’صدر ٹرمپ کی صحت بہتر لگی اور وہ اچھا محسوس کر رہے ہیں۔‘ صدر ٹرمپ اب بھی سرکاری ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں جبکہ نائب صدر مائیک پینس جنھیں امریکی آئین کے تحت صدر بہت زیادہ بیماری اور ذمہ داریاں نہ نبھانے کے قابل رہنے کے باعث اپنے اختیارات سونپ سکتے ہیں، کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا ہے۔ صدر ٹرمپ کو جمعے کی شام ہسپتال منتقل ہونے سے قبل عوامی سطح پر دیکھا گیا تھا جب انھوں نے ہیلی کاپٹر پر سوار ہونے سے قبل رپورٹروں کی جانب ہاتھ ہلایا تھا تاہم وہ کچھ بولے نہیں تھے۔
pakistan-55470470
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55470470
آٹو انڈسٹری: پاکستان میں نئی آٹو کمپنیاں چھوٹی گاڑیوں کے بجائے ایس یو ویز کیوں بنا رہی ہیں؟
ایک وقت تھا جب پاکستان میں گاڑی کو ایک لگژری تصور کیا جاتا تھا لیکن اب بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک ضرورت بن گئی ہے۔ ملک میں گذشتہ دہائی میں متوسط طبقے میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملک میں گاڑیوں کی مانگ میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
البتہ گذشتہ کچھ عرصے سے ملکی معیشت میں گراوٹ، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے باعث ملک میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے اور کورونا کی وبا کے باعث کاروں کی صنعت متاثر ہوئی ہے۔ تاہم حکومتِ پاکستان کی جانب سے نئی آٹو پالیسی متعارف کروانے کے بعد ملک میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے انٹری کی۔ ان کمپنیوں کے مارکیٹ میں آنے سے پاکستانی صارفین کو سستی اور معیاری گاڑیوں کی آس لگ گئی لیکن ان کمپنیوں نے متوسط طبقے کی توقعات کے برعکس مارکیٹ میں ایسی گاڑیاں متعارف کروائی جو چھوٹی گاڑی لینے والے صارفین کی پہنچ سے بہت دور ہیں۔ ان نئی کمپنیوں نے ہیچ بیک (چھوٹی گاڑی)، سیڈان (ڈگی والی گاڑی) کے بجائے کراس اوور یا کمپیکٹ ایس یو ویز یعنی سپورٹس یوٹیلیٹی وہیکل کو پاکستان میں متعارف کیا جو دیکھتے دیکھتے پاکستانی مارکیٹ میں مقبول ہو گئیں۔ پاکستان کی مارکیٹ جہاں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ صارفین کی قوت خرید کم ہے اور پاکستانی زیادہ تر چھوٹی یا سیڈان گاڑیاں خریدنا پسند کرتے ہیں تو پھر ان نئی کمپنیوں نے ایس یو ویز کو پاکستانی کار مارکیٹ میں کیوں متعارف کروایا؟ اس سوال کے جواب پر گاڑیوں کے آن لائن پورٹل پاک ویلز کے چیئرمین سنیل سرفراز منج کا کہنا تھا پاکستان کی کار انڈسٹری میں آنے والی نئی گاڑیوں کی کمپنیاں جن گاڑیوں کو پاکستانی مارکیٹ میں متعارف کروا رہے ہیں انھیں ہم مکمل طور پر ایس یو ویز نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ کراس اوور کمپیکٹ ایس یو ویز ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں یہ رحجان پیدا ہوا ہے کہ لوگ سیڈان گاڑیوں سے جنھیں عام طور پر 'ڈگی والی گاڑی' کہا جاتا ہے سے کراس اوور، ایس یو ویز پر منتقل ہو رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان میں آخر گاڑیاں مہنگی کیوں ہیں؟ پاکستانی آخر کاریں کیوں نہیں خرید رہے؟ کیا واقعی استعمال شدہ گاڑیوں کی خرید و فروخت پر اب ٹیکس دینا ہوگا؟ پاکستان میں کوئی گاڑی بچی ہے جو متوسط طبقے کی پہنچ میں ہے؟ ہنڈائی کمپنی کی متعارف کروائی گئی ایس یو وی ٹیوسون سنیل منج کا کہنا تھا کہ پاکستانی مارکیٹ میں کراس اوور کپمیکٹ ایس یو ویز کی کٹیگری واحد تھی جہاں اب تک پہلے سے موجود گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے زیادہ کام نہیں کیا تھا۔ اسی وجہ سے مارکیٹ میں آنے والی نئی کمپنیاں اس کیٹیگری میں اپنی گاڑیاں بنا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی صارف ہنڈا سوک یا ٹویوٹا کرولا سے بڑی گاڑی خریدنا چاہتا ہے تو پاکستان میں اس کے بعد ایس یو ویز میں ٹویوٹا فورچونر یا لینڈ کروزر وغیرہ آتی ہیں جن کی قیمت تقریباً ایک کروڑ اور اس سے زیادہ ہے اور وہ اس صارف کی قوت خرید سے باہر ہو جاتی ہیں۔ اس چیز کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں نئی آنے والی کمپنیوں نے اس چیز کو ٹارگٹ کر کے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی ہے۔ شبیر الدین ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ سیلز چینگان موٹرز بھی اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پاکستان میں 40 لاکھ سے 70 لاکھ کے درمیان کوئی گاڑی موجود نہیں تھی۔ یہ مارکیٹ میں ایسا خلا تھا جس کو پر کرنا اور یہاں موجود صارفین کو اپنی جانب متوجہ کرنا بہت اہم تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کٹیگری کے صارف کو پیسے کا اتنا مسئلہ نہیں ہے اور یہ ایک اہم وجہ ہے کہ نئی آنے والی کمپنیوں کے لیے یہ ایک آسان حل ہے کہ وہ اس کیٹگری میں گاڑیاں بنا کر صارفین کو اپنی جانب کھینچ لیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دو قسم کی گاڑیاں بہت بکتی ہیں ایک چھوٹی گاڑیاں جنھیں ہیچ بیک کہا جاتا ہے جس کی قیمت دس لاکھ سے 17 لاکھ کی ہیں اور دوسری سیڈان جو 30 لاکھ سے چالیس لاکھ کی گاڑیاں ہے۔ اس لیے نئی کمپنیوں کی کمپیکٹ ایس یو ویز ان 35، 40 لاکھ روپے خرچنے والے صارفین کو مدنظر رکھ کر مارکیٹ میں لائی جا رہی ہیں۔ محمد فیصل چیف آپریٹنگ آفیسر کیا موٹرز کا کہنا تھا کہ 'کیا' کمپنی کے پاکستان میں دوبارہ آنے سے قبل پاکستان میں کوئی بھی کمپیکٹ ایس یو وی گاڑی موجود نہیں تھی اور شاید لوگوں اور کمپنیوں نے یہ ہی سوچا تھا کہ پاکستان میں سیڈان ہی سب سے مقبول گاڑی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ کے اس پوٹینشل کو دیکھتے ہوئے 'کیا' نے پاکستان میں اپنی پہلی گاڑی 'کیا سپورٹیج' متعارف کروائی، جس کے بعد دیگر کمپنیوں نے اس کیٹگری میں کام کیا۔ پاکستانی مارکیٹ میں نئی آنے والی گاڑیاں کون سی ہیں؟ کیا موٹرز کی متعارف کردہ ’کیا سپورٹیج‘ ایس یو وی سنیل منج کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں سب سے پہلے کورین کمپنی 'کیا' جو پاکستان میں لکی گروپ کے اشتراک سے ایک مرتبہ پھر آئی ہے نے اپنی کمپیکٹ ایس یو وی 'کیا سپورٹیج' کا ماڈل دیا ہے۔ اس کے بعد ہنڈائی کمپنی نے ٹیوسون، چینی کمپنی ایم جی نے 'ایچ ایس' ماڈل کی گاڑی پاکستانی مارکیٹ میں متعارف کروائی ہے۔ اس کے علاوہ ملائیشین کمپنی پروٹون نے الحاج فا گروپ کے اشتراک سے پروٹون 'ایکس 70' متعارف کروائی ہے، ریگال آٹوز پرنس کی 'گلوری 580' متعارف ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا تقریباً پانچ چھ کمپنیاں اس کٹیگری میں کام کر رہی ہیں۔ نئی کمپنیاں چھوٹی گاڑی کیوں کم بنا رہی ہیں؟ اس سوال پر سنیل منج کا کہنا تھا چھوٹی گاڑیوں کی مارکیٹ میں مقابلہ بہت زیادہ ہے، جس میں اگر پاکستانی مارکیٹ کی بات کی جائے تو سوزوکی مارکیٹ لیڈر ہے۔ سوزوکی کے چار ماڈل آلٹو، ویگن آر، سوئفٹ، کلٹس اس وقت مارکیٹ میں اس کٹیگری میں موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں دو اور وجوہات بھی اہم ہیں ایک یہ کہ اس کٹیگری کا گاہک ایک دو لاکھ روپے کے فرق سے گاڑی چھوڑ دیتا ہے جس کی وجہ سے مقابلہ اور سخت ہو جاتا ہے۔ جبکہ 40 سے 65 لاکھ روپے خرچنے والا گاہک ایک دو لاکھ پر فکرمند نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کیٹیگری میں نئی کمپنیوں کے پاس منافع کمانے اور کھیلنے کے زیادہ مواقع ہیں۔ محمد فیصل کا کہنا تھا کہ 'کیا' نے جب پاکستان میں دوبارہ قدم رکھا ہے تو وہ اس ذہن کے ساتھ آئی ہے کہ پاکستان میں ہر کٹیگری میں صارفین کو بہترین اور آرام دہ سفر والی گاڑی مہیا کی جائے۔ اس ضمن میں 'کیا' اور یقیناً دوسری کمپنیاں بھی کام کر رہی ہے۔ پاکستان میں کراس اوور کمپیکٹ ایس یو ویز کی مارکیٹ کتنی ہے؟ چینگان آٹوز کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ سیلز شبیر الدین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیڈان گاڑیوں کی مارکیٹ تقریباً 90 ہزار یونٹس سالانہ کی ہے اور اس میں دس سے 20 فیصد ایسے صارفین بھی ہیں ہو چالیس لاکھ سے 60 لاکھ روپے تک رقم خرچ کر سکتے ہیں تو اگر کوئی کمپنی چالیس لاکھ سے چند لاکھ زیادہ پر انھیں ایک کمپیکٹ ایس یو وی پیش کرے گی تو یقیناً وہ اس کو خریدیں گے۔ لہذا کم از کم ایسے صارفین کی تعداد دس فیصد تو ضرور ہے۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے پاک ویلز کے سنیل منج کا کہنا تھا کہ اگر ہم اعداد و شمار کا جائزہ لیں تو پاکستان میں سالانہ دو لاکھ کے قریب نئی گاڑی فروخت ہوتی ہے اور 'کیا' نے گزشتہ ایک برس کے دوران اپنے 'کیا سپورٹیج' کے 20 ہزار یونٹس فروخت کیے ہیں جو کہ ایک اچھی تعداد ہے۔ اس حساب سے پاکستانی مارکیٹ میں کمپیکٹ ایس یو وی خریدنے والوں کی شرح تقریباً دس فیصد ہے۔ پاکستان میں جلد متعارف کروائے جانے والی گاڑی پروٹون ایکس 70 نئی آنی والی ایس یو ویز کے لیے مقابلہ کتنا سخت ہوگا؟ سنیل منج کا کہنا تھا کہ اس کٹیگری کی پاکستان میں مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ہنڈائی نے ٹیوسون متعارف کروائی اور چند ماہ میں ہی اس کی بکنگ کا دورانیہ سات آٹھ ماہ پر چلا گیا۔ اسی طرح ایم جی نے پاکستانی مارکیٹ میں اس رحجان کو دیکھتے ہوئے اپنی کمپیکٹ ایس یو وی ایچ ایس ماڈل کو باہر سے درآمد کر کے یہاں بیچنا شروع کر دیا ہے جبکہ انھوں نے یہاں پلانٹ چلنے کا انتظار بھی نہیں کیا۔ اسی طرح ریگال آٹوز کی گلوری کی بھی چھ سو گاڑیوں کی بکنگ یہاں تیاری سے قبل ہی ہو چکی تھی۔ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں گاڑی بہت مہنگی ہے اور دوسری جانب پاکستان کی معیشت بھی نیچے جا رہی ہے اور عوام کی قوت خرید بھی متاثر ہے تو پھر یہ گاڑیاں کون خرید رہا ہے۔ اس سوال پر سنیل منج کا کہنا تھا کہ مارکیٹ سروے کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل درست ہے کہ 600 سے ہزار سی سی والی گاڑی کی فروخت میں 25 فیصد کمی ہوئی ہے کیونکہ کورونا کی وبا کے دوران معاشی طور پر سب سے زیادہ یہ طبقہ متاثر ہوا ہے تاہم جو 40 سے 60 لاکھ روپے کی قوت خرید رکھنے والا شخص اس سے اتنا متاثر نہیں ہوا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس کا ایک ثبوت یہ بات بھی ہے جو کپمیکٹ ایس یو ویز بنانے والی کمپنیاں سمجھتی ہیں کہ یہ گاڑیاں مارکیٹ میں اپنی اصل قیمت سے زیادہ پر اوون یا پریمیم پر بک رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ گاڑیاں صارفین کے لیے اپنی اصل مالیت سے زیادہ وقت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر کیا سپورٹیج یا ہنڈائی ٹیوسون اگر مارکیٹ میں سات سات لاکھ روپے اوون پر بک رہی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ صارف ان گاڑیوں کو ساٹھ لاکھ روپے سے مہنگی گاڑی کی ویلیو سمجھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کے پاکستانی مارکیٹ میں آنے والی نئی کارساز کمپنیوں نے مارکیٹ میں موجود صارفین کی نبض کو سمجھ لیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اب کمپنیوں کو پتا چل گیا ہے کہ یہاں صارفین کو کیا چاہیے، کیونکہ پہلے سے موجود گاڑیوں کی کمپنیوں نے اپنی گاڑیوں میں سیفٹی اینڈ سکیورٹی اور ملٹی میڈیا فیچرز بہت کم متعارف کروائے جبکہ اب نئی کمپنیاں اپنی گاڑیوں کو تمام فیچرز سے آراستہ کر کے مارکیٹ میں متعارف کروا رہی ہیں۔ سنیل منج کا کہنا تھا کہ پاکستان میں نئی آنے والی کمپنیوں کی ایس یو ویز کی کامیابی کا راز ہی یہ ہے کہ انھوں نے صارفین کو گاڑیوں میں 'ششکے' ڈال کر دیے ہیں۔ جبکہ چینگان موٹرز پاکستان کے شبیر الدین کا کہنا تھا کہ ایک اچھے فیچرز والی گاڑی چلانا پاکستانی صارف کا حق ہے جسے آج تک اس سے محروم رکھا گیا۔ ان کا کہنا تھا جب پانچ چھ کمپنیاں اس کیٹگری میں آ رہی ہے تو یقیناً ان کے لیے مقابلہ سخت ہوگا اور مارکیٹ سیچوریٹ ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ طویل المدت میں وہ ہی کمپنی مارکیٹ میں بچ پائے گی جو پاکستانی مارکیٹ کو لے کر سنجیدہ ہے، جس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ہم چینگان انٹرنیشنل کی بات کریں تو سنہ 2018 میں یہ واحد کمپنی ہے جس نے پاکستان کے ماسٹرز گروپ کے ساتھ 100 ارب ڈالر کی مشترکہ سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صارف اگر کوئی ایسی گاڑی خریدتا ہے جس کی پیرنٹ کمپنی نے پاکستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہو تو ایسی کمپنی کہیں بھاگ کر نہیں جاتی۔ پاکستانی مارکیٹ میں متعارف کروائی جانے والی چینی کمپنی کی گاڑی ایم جی ایچ ایس جبکہ 'کیا موٹرز' کے چیف آپریٹنگ آفیسر محمد فیصل اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں کتنے جوائنٹ ونچرز اور ملٹی نیشنل کمپنیز کی مثالیں موجود ہیں جنھوں نے جب چاہا مارکیٹ سے نکل گئے ایسا نہیں ہے کہ اشتراک والی کمپنیاں باہر نہیں نکلتیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ اگر ہم نظر دوڑائیں ملک میں سوزوکی موٹرز اپنے بل بوتے پر چل رہی ہے جبکہ دیگر دو کمپنیاں مقامی کمپنیوں کے اشتراک سے موجود ہیں لیکن ان تمام نے ماضی میں گاڑیوں کے کتنے ایسے نئے ماڈل متعارف کروائے جو بین الاقوامی سطح پر لانچ ہو رہے تھے حالانکہ وہ جوائنٹ ونچر میں تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی مارکیٹ بہت بدل رہی ہے۔ اب جو اچھی پراڈکٹ دے گا وہی مارکیٹ میں رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر 'کیا' کی بات کی جائے تو اس نے عالمی سطح پر کار انڈسٹری میں دو چیزوں پر بہت کام کیا ہے، ایک اپنی گاڑیوں کے سٹائلنگ پر، اسے نوجوانوں میں مقبول بنانے کے لیے جاذب نظر بنایا ہے اور دوسرا گاڑی کی کوالٹی پر بہت کام کیا ہے۔ 'پاکستان میں اگلے چھ ماہ بہت دلچسپ ہوں گے' چیف آپریٹنگ آفیسر کیا موٹرز محمد فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اگلے چھ ماہ کار انڈسٹری میں بہت دلچسپ اور ہنگامہ خیز ہوں گے کیونکہ پاکستانی حکومت کی جانب سے آٹو پالیسی کے تحت دی جانیوالی مراعات جون 2021 میں ختم ہو جائے گی اور نئی کمپنیاں اس کے اختتام سے پہلے پہلے اپنی مصنوعات (گاڑیاں) مارکیٹ میں لانے کی خواہشمند ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلے چھ ماہ پاکستان کی کار انڈسٹری اور خصوصاً صارفین کے لیے بہت فائدمند ہوں گے کیونکہ ہر کمپنی اس حکومتی آٹو پالیسی کے مدت ختم ہونے سے پہلے پہلے مختلف گاڑیاں مارکیٹ میں لائیں گیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مستقبل میں پاکستان میں سیڈان گاڑیوں کا کلچر کم ہو جائے گا اور ملک میں زیادہ تر چھوٹی گاڑیاں اور ایس یو ویز چلتی پھرتی نظر آئیں گی۔ مگر اس سے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ سیڈان کی کیٹگری میں مقابلہ ختم ہو جائے گا کیونکہ ابھی چینگان نے 'آلز ون' متعارف کروائی ہے جبکہ ایک دو اور کمپنیاں بھی سیڈان کیٹگری میں گاڑیاں متعارف کروانے جا رہے ہیں جن میں ملائیشن کمپنی کی 'ساگا' بھی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ چینی کمپنیاں ملک میں دونوں کیٹگریوں میں رہے گی، سیڈان میں بھی اور ایس یو وی میں بھی۔ جبکہ 'کیا پاکستان' کے متعلق بات کرتے ہوئے محمد فیصل کا کہنا تھا کہ اگلے برس جنوری میں ہم ایک اور ایس یو وی سورنٹو متعارف کروانے جا رہے۔ اس ضمن میں چینگان کے ڈائریکٹر مارکیٹنگ اینڈ سیلز شبیر الدین کا کہنا تھا کہ ان کی کمپنی کی توجہ اس بات پر ہے کہ ہم متوسط آمدنی والے صارفین کو اچھی اور بین الاقوامی معیار سے مطابقت رکھنے والی گاڑیاں آفر کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ صرف ایس یو ویز ہی نہیں بلکہ دیگر کیٹگریوں میں بھی کمپنیاں اپنے ماڈل لا رہی ہیں جیسے چینگان موٹرز نے سیڈان کی کیٹگری میں 'آلزون' کے نام سے ایک نئی گاڑی متارف کروائی ہے جو چھوٹی گاڑی خریدنے پر مجبور صارفین کو اپنی جانب راغب کرے گی۔ تاہم فی الوقت اس کی قیمت مارکیٹ میں جاری نہیں کی گئی لیکن جنوری میں اس بارے میں مزید تفصیلات سامنے آئیں گی۔ شبیر الدین کا کہنا تھا 'اس کی قیمت متوسط طبقے کو مدنظر رکھ کر جاری کی جائے گی۔' شبیر الدین کا کہنا تھا کہ 'ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم سستی گاڑی لے کر آئے گے، ہمارا وژن یہ ہے کہ جوگاڑی آپ کو دی جا رہی ہے اس کی وقت اس کی قیمت سے بہت زیادہ ہے۔' مزید پڑھیے پاکستان کی سڑکوں پر الیکٹرک کار چلانے کا تجربہ کیسا؟ سستی الیکٹرک گاڑیاں پاکستان کیسے منگوائی جاسکتی ہیں؟ نئی گاڑیوں کے مقابلے میں ’بگ تھری‘ ہی کیوں مقبول؟ مقامی سطح پر تیاری یا لوکلائزیشن کیوں ضروری؟ شبیر الدین کا کہنا تھا کہ اگر پانچ یا چھ کمپنیاں اپنے پانچ چھ ماڈلز لے کر صرف دس فیصد صارفین کے لیے مارکیٹ میں آتی ہیں تو ان کے لیے اس میں زیادہ منافع کمانا اور زیادہ دیر تک ٹکے رہنا مشکل ہوگا اور وہ اتنا منافع نہیں کما پائیں گی۔ اس لیے انھیں اپنی گاڑیوں کی قیمتوں کو کنٹرول کرنا ہو گا اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کچھ پارٹس مقامی سطح پر تیار کیے جائے جس سے مقامی پارٹس کی صنعت میں نہ صرف روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے بلکہ ان کمپنیوں کو سیڈان کیٹگری کے صارفین کو کمپیکٹ ایس یو ویز کی جانب راغب کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ لوکلائز کرنے کے لیے آپ کو حجم چاہیے یہ تب ہی ممکن ہے جب یہاں نئی کمپنیاں سنجیدگی کے ساتھ سرمایہ کاری کریں، یہاں گاڑیوں کی آفٹر سیلز سروس فراہم ہو اور حکومتی آٹو پالیسی کی مدت ختم ہونے سے پہلے نئے کمپنیاں مارکیٹ میں اپنی گاڑیوں کا حجم بڑھا سکیں۔ 'کیا موٹرز' کے محمد فیصل کا کہنا تھا کہ صارفین کا یہ اعتراض ہے کہ نئی گاڑیوں کے پارٹس پہلے سے موجود کمپنیوں سے مہنگے ہیں۔ جیسا کہ نئی کمپنیاں گاڑیوں کے مختلف ماڈلز متعارف کروا رہی ہیں جیسے جیسے ان کے پارٹس کی مقامی سطح پر تیاری شروع ہوتی جائے گی تو یقیناً اس سے ان کی قیمت کم ہو گی اور صارف کو سہولت ملے گی۔ ایس یو ویز کی مارکیٹ میں مقبولیت کی وجہ؟ گاڑیوں کی خرید و فروخت کرنے والے ایک نجی کار شو روم ڈیلر سہیل وحید کا کہنا تھا کہ نئی کمپنیوں کی کمپیکٹ ایس یو ویز پاکستانی مارکیٹ میں بہت مقبول ہو رہی ہیں کیونکہ ان گاڑیوں میں سہولت اور آرام سیڈان گاڑی کا اور ڈرائیو فور ویل ایس یو وی کی ہے۔ سہیل وحید کا کہنا تھا ایک اور وجہ اس صنعت سے جڑا اوون یا پرمیئم کا منافع بخش کاروبار بھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت تقریباً تمام کمپنیوں کی ایس یو ویز پانچ سے سات لاکھ روپے اوون پر بک رہی ہیں کیونکہ سرمایہ کاروں نے گاہکوں کا اس طرف رحجان دیکتھے ہوئے گاڑیاں بک کر لیں ہیں اور اب یہ منافع پر بیچ رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سرمایہ کاروں نے بھانپ لیا ہے کہ اب گاہک بھیڑ چال میں ایس یو ویز خریدنے کی کوشش کرے گا لہذا انھوں نے گاڑیاں بک کرو دی ہیں، اصل یا بلواسطہ صارف بہت کم ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی کمپیکٹ ایس یو وی رکھنے والی ایک خاتون صارف نمرا منیر نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان گاڑیوں کی مقبولیت کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ سب سے پہلے یہ زیادہ آرامدہ ہیں، ان کی گراؤنڈ کلیرنس بہت بہتر ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تیسری اور سب سے اہم بات کراس اوورز یا کمپیکٹ ایس یو ویز ان صارفین کے لیے ہیں جنھیں سیڈان اور ایس یو ویز دونوں پسند ہیں جیسے مجھے ایس یو وی پسند تھی اور میرے شوہر کو سیڈان لہذا ہم دونوں یہ خریدنے پر آمادہ ہو گئے۔ ان گاڑیوں کے معیار کے متعلق نمرا منیر کا کہنا تھا کہ صارف کے ذہن میں جاپانی گاڑی کی کوالٹی بہتر ہے جبکہ ان نئی کمپنیوں کو اپنا معیار منوانے میں وقت لگے گا۔ کیا مارکیٹ میں پہلے سے موجود کمپنیوں کو فرق پڑے گا؟ 'کیا' کمپنی کے محمد فیصل کا کہنا تھا کہ اگر اس وقت ان کمپنیوں کا جائزہ لیں تو انھیں مارکیٹ میں مقابلے کی فضا کے باعث گھبراہٹ محسوس ہو رہی ہے اور ان کے مارکیٹ شیئر پر یقیناً فرق پڑا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ جتنا عوام توقع کر رہے تھے ہم اتنا فرق نہیں ڈال سکے لیکن ابھی نئی آنے والی کمپنوں کو سال ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے کچھ وقت گزرے گا، صارفین کے اعتماد اور نئے پراڈکٹس مختلف کیٹگری میں آنے سے پرانے مارکیٹ پلیئرز کو ایک واضح فرق ضرور پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگلے چھ ماہ میں نئی کمپنیوں کے درمیان سر توڑ مقابلہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ نئی کمپنیاں ابھی مارکیٹ میں قدم جما رہی ہیں لیکن جون 2021 میں جب تمام کمپنیوں کے سب ماڈلز متعارف ہو چکے ہوں گے تب آج کے مارکیٹ لیڈرز تب کے مارکیٹ لیڈرز نہیں رہے گے۔ کار ڈیلر سہیل وحید کا کہنا تھا چینی برانڈ کمپنیاں صرف اس صورت میں مارکیٹ میں کامیاب ہوں گی اگر وہ اپنی گاڑیوں کی قیمت کو دیگر کمپنیوں کی قیمت سے واقعتاً کم رکھیں کیونکہ پاکستانی صارف کے لیے چینی کمپنی کا نام آتے ہی دو چیزیں ذہن میں آتیں ہیں، ایک سستی اور دوسری گھٹیا یا بری کوالٹی کی حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بس اگر ان کی قیمت کم ہوگی اور ری سیل بہتر ہوگی تو یہ کامیاب ہوں گی۔
060222_mma_women_rally_ak
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/02/060222_mma_women_rally_ak
ایم ایم اے کی خواتین کا مظاہرہ
پاکستان کی دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کی خواتین نے آج اسلام آباد کے آبپارہ چوک میں پیغمبر اسلام کے بارے میں یورپی اخبارات میں متنازعہ خاکوں کی اشاعت پر احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ ڈنمارک اور ناروے سے سفارتی تعلقات فی الفور منقطع کرے۔
اس مظاہرے میں شریک خواتین نے ان خاکوں کی اشاعت کے خلاف احتجاجی نعرے لگائے جن میں ان خاکوں کو بنانے والے کارٹونسٹ کے لیئے موت کی سزا کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ مظاہرے کی شرکاء نے مختلف بینر بھی اٹھا رکھے تھے جن پر لکھی عبارتوں میں کہا گیا کہ ان خاکوں کے اشاعت سے مغرب کا اصل چہرہ سامنے آ گیا ہے۔ مظاہرے میں شریک مجلس عمل کی ممبر قومی اسمبلی سمیعہ راحیل قاضی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پوری مسلم دنیا میں ان خاکوں کی اشاعت کے خلاف غم وغصے کی لہر ابھری ہے اور اسی سلسلے میں پورے ملک میں مجلس عمل کی خواتین آج احتجاج کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان خاکوں کے پس پردہ تہذیبوں کے تصادم کو ہوا دی جا رہی ہے۔ انہوں نے پاکستانی حکومت پر بھی شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ان خاکوں کی اشاعت کے خلاف سخت موقف اختیار نہیں کیا۔ سمیعہ راحیل کے مطابق مسلم دنیا کے حکمران اپنے ممالک کی عوام کے جذبات کے ترجمان بننے کی بجائے اس مسئلے پر نرم پالیسی اختیار کر رہے ہیں۔ مظاہرے میں شریک بڑی تعداد نوجوان لڑکیوں کی تھی جو ان خاکوں کی اشاعت کے خلاف نعرے لگا کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہی تھیں۔
041208_islamophobia_anan_as
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/12/041208_islamophobia_anan_as
’اسلاموفوبیا‘ کی مذمت کریں: عنان
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے اسلام مخالفت کے بارے میں ایک کانفرنس کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ ایسے لوگوں کی حرکتوں کو کسی مذہب کی کسوٹی نہ بنایا جائے جو عام لوگوں کو ہلاک کر رہے ہیں۔
کوفی عنان نے کہا کہ خود مسلمانوں کو بھی یہ بات واضح کرنی ہے کہ ایسا خون خرابہ ناقابل قبول ہے کیونکہ یہ اسلام کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ اسلام مخالفت صدیوں سے پائی جاتی ہے لیکن حال کے واقعات نے مسلمانوں میں یہ احساس پیدا کیا ہے کہ ان سے ناانصافی کی جا رہی ہے اور ان کو سمجھا نہیں جارہا ۔ کوفی عنان نے کہا کہ دنیا بھر کے قائدین پر لازم ہے کہ اسلام کے خلاف تعصب کی مذمت کریں اور یہ انتظام کریں کہ تفریق کے خلاف قوانین پر پوری طرح عمل کیا جاۓ۔ نیو یارک میں ہونے والے اس اجلاس میں علماء دین اور دانشوروں کے علاوہ دوسرے مذاہب کے سرکردہ لوگ بھی شرکت کررہے ہیں۔
070428_iraq_education_situ_sq
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/04/070428_iraq_education_situ_sq
’ عراق حملے کے بعد ابتر تعلیمی حالت‘
اقوام متحدہ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ اساتذہ اور طلباء کے اغواء اور قتل، سکولوں اور یونیورسٹیوں میں بم دھماکوں سمیت تعلیمی اداروں پر حملوں میں ڈرامائی اضافے کو روکنے کی کوشش کریں۔
اقوام متحدہ کی تعلیمی ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں سب سے زیادہ برے حالات عراق میں ہیں جہاں گزشتہ برس ملک کے تیس لاکھ طلباء میں سے پچھہتر فی صد تعلیمی اداروں میں جا رہے تھے اور اب ان کی تعداد کم ہو کر تیس فی صد رہ گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے تعلیم کے بارے میں اپنی رپورٹ میں ’سیاسی اور نظریاتی مقاصد کے لیے گھٹیا ہتھکنڈوں کے ذریعے لاکھوں طلباء کی تعلیم کی قربانی‘ پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک میں طلباء، اساتذہ اور تعلیمی اداروں پر کیے جانے والے حملوں کے ذمہ دار فرقہ پرست، علیحدگی پسند اور متحارب گروپ ہیں۔ عراق کے علاوہ رپورٹ میں جن دیگر ممالک میں تعلیمی اداروں کی حالت زار پر تشویش ظاہر کی گئی ہے ان میں کولمبیا، برما اور تھائی لینڈ بھی شامل ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کولمبیا اور برما میں سب سے بڑا مسئلہ مخلف گروپوں کی جانب سے بچوں کو بطور سپاہی بھرتی کیا جانا جبکہ تھائی لینڈ میں کم سے کم ایک سو سکولوں کو نذر آتش کر دیا جانا ہے۔
160517_south_punjab_amir_rana_1_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/05/160517_south_punjab_amir_rana_1_zs
کیا مسئلہ صرف جنوبی پنجاب میں ہے؟
پنجاب میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے حوالے سے جب بھی بات ہوتی ہے، سوئی آ کر جنوبی پنچاب پر ٹِک جاتی ہے حالانکہ جن عوامل اور شواہد کی بنیاد پر جنوبی پنچاب کو شدت پسندی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے، ویسے ہی عوامل باقی حصوں میں بھی کارفرما ہیں۔
عمومی خیال یہ ہے کہ زیادہ تر شدت پسند تنظیمیں، جنوبی پنجاب میں ارتکاز پذیر ہیں لیکن حقائق یہ ہیں کہ ان تنظیموں کے نیٹ ورک پورے صوبے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ * جنوبی پنجاب میں شدت پسندی: کلک ایبل نقشہ اگر صرف ان تنظیموں کے مرکزی دفاتر پر ہی نظر ڈالی جائے تو وہ بھی پورے صوبے میں منقسم ہیں۔ کالعدم لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ کے مرکزی دفاتر وسطی پنجاب، سابقہ حرکت المجاہدین کے دفاتر اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان واقع ہیں کالعدم سپاہ صحابہ کا مرکزی نیٹ ورک لاہور، جھنگ، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور کراچی میں منقسم ہے البتہ کالعدم جیش محمدنے بہاولپور کو مرکز بنایا ہے۔ اگر مذہبی جماعتوں کے پھیلاؤ کو دیکھا جائے تو ان کا ارتکاز بھی وسطی پنجاب میں ہے۔ لاہور کو مذہبی جماعتوں کا دارالخلافہ کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا جہاں چھوٹی بڑی 180 مذہبی جماعتیں کام کر رہی ہیں اور ان میں بیشتر کے مرکزی دفاتر اسی شہرمیں موجود ہیں۔ کالعدم جیش محمد نے بہاولپور کو اپنا مرکز بنایا ہے مدارس اور مساجد کے پھیلاؤ کو بھی مذہبی شدت پسندی کے پھیلاؤ کے عامل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ اگر اس کو پیمانہ مان لیا جائے تو شدت پسندی کو کسی ایک علاقے سے مخصوص نہیں کیا جا سکتا۔ مدارس کی افزائش اور پھیلاؤ کے دو اسلوب ہیں۔ یہ بڑے شہری اور صنعتی مراکز کے گرد تیزی سے پھیلتے ہیں یا بڑی شاہراہوں کے ساتھ۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ مذہبی اداروں کو چلانے کے لیے جو وسائل درکار ہیں وہ یہیں سے میسر آ سکتے ہیں۔ تمام مسالک کے بڑے مدارس کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور،گوجرانوالہ، فیصل آباد اور ملتان میں زیادہ ارتکاز پذیر ہیں۔ چھوٹے شہروں میں اگر بڑے مدارس ہیں بھی تو یا تو ان کی نوعیت تاریخی ہے یا وہاں طلبا کی تعداد کافی کم ہے۔ لیکن یہ بات بہت اہم ہے کہ بڑے شہروں اور صنعتی مراکز کے قریب واقع مدارس میں مقامی طلبا اور اساتذہ کی تعداد کم ہے۔ اگر صرف لاہور اور فیصل آباد کے مدارس کو دیکھا جائے تو وہاں بالترتیب قبائلی علاقوں، کشمیر اور جنوبی پنجاب کے طلبا کی زیادہ نظر آئے گی۔ اسں پس منظر میں یہ بات قیاس کی جا سکتی ہے کہ پنجاب کے جنوبی علاقے شدت پسندوں کی بھرتی کے مراکز ہیں۔ اسّی اور نوے کی دہائی تک یہ بات کسی حد تک درست کہی جا سکتی تھی اور اس کی وجہ حرکت المجاہدین، حرکت الجہاد اسلامی، سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں کا ان علاقوں میں خاص سرگرم ہونا تھا لیکن اسی عرصے کے دوران جماعت اسلامی سے وابستہ یا اس کی فکر سے ہم آہنگ تنظیموں کے لیے وسطی اور شمالی پنجاب بھرتی کے حوالے سے زیادہ زرخیز علاقے تھے۔ مدارس کی افزائش اور پھیلاؤ کے دو اسلوب ہیں۔ یہ بڑے شہری اور صنعتی مراکز کے گرد تیزی سے پھیلتے ہیں یا بڑی شاہراہوں کے ساتھ۔ تو پھر شدت پسندی کی بحث میں جنوبی پنجاب کیوں اہم ہے؟ اس کی ایک اور وجہ غربت اور پسماندگی بتائی جاتی ہے لیکن ایسے ہی عوامل نہ صرف اندرون سندھ اور بلوچستان میں زیادہ فعال ہیں بلکہ وسطی اور شمالی پنجاب کے کئی دیہی اضلاع ایسی ہی صورتحال سے دوچار ہیں۔ رحیم یار خان اور راجن پور کے ڈیلٹائی علاقوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف آپریشن سے اس رائے کو بہت تقویت ملی ہے کہ جنوبی پنجاب میں ایسے علاقےموجود ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پہنچ سے دور ہیں اور وہاں جرائم پیشہ ، ملک دشمن اور دہشت گرد اپنی پناہ گاہیں بنا لیتے ہیں لیکن ایسے علاقے راوی اور چناب درمیان بھی موجود ہیں۔ پنجاب میں شدت پسندی اور عسکریت پسندی کا چیلنج بہت اہم ہے اور اسے کسی علاقے سے منسوب نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سمجھنے کے لیے دو پہلو اہم ہیں۔ پہلا کالعدم تنظیموں کے بارے میں عمومی تاثر سے متعلق ہے۔ یہ تنظیمیں فرقہ وارانہ اور عسکری نوعیت کی ہیں اور بیشتر ریاست کے اداروں کی آلۂ کار رہی ہیں۔ ان تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ یہ پاکستان کے اندر دہشت گردی میں ملوث نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ریاست کی معاون ہیں لیکن یہ تنظیمیں القاعدہ، داعش، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار اور لشکر جھنگوی جیسے دہشت گرد گروپوں کی دو طرح سے معاون ہیں۔ رحیم یار خان اور راجن پور کے ڈیلٹائی علاقوں میں جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف آپریشن سے اس رائے کو بہت تقویت ملی ہے کہ جنوبی پنجاب میں ایسے علاقےموجود ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پہنچ سے دور ہیں کالعدم تنظیمیں نہ صرف دہشت گرد گروپوں کے بیانیے کو تقویت پہنچانے میں معاون ہیں بلکہ دہشت گرد ان تنظیموں سے افرادی قوت حاصل کرتے ہیں۔ نہ تو ان کی تنظیمی قیادت اور نہ ہی حکومت کالعدم تنظیموں اور دہشت گرد گروہوں کے درمیان تعلقات کو ختم یا کمزور کر پائی ہے۔ دوسرے پہلو کا تعلق ریاستی حکمت عملی سے ہے اور حکومت ابھی تک گو مگو کی کفیت میں ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے دہشت گرد گروہوں کے خلاف حکمت عملی میں ہمیشہ ایک بنیادی نقص رہ جاتا ہے اور وہ دہشت گرد گروہوں کا کالعدم تنظیموں سے تعلق ہے۔ بعض صورتوں میں ان کی دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں اس لیے موثر نہیں ہو سکتیں کہ وہ اپنے آپریشنز کا دائرہ کالعدم تنظیموں تک وسیع نہیں کر سکتے۔ حکومت ان تنظیموں کی سٹریٹ پاور اور سیاسی اثر و رسوخ سے زیادہ ان کے پرتشدد ردعمل سے خوف زدہ رہتی ہے اور صورتحال اس وقت زیادہ گھمبیر ہو جاتی ہے جب یہ کالعدم تنظیمیں آج بھی خود کو ریاست کے لیے کارآمد اثاثوں کے طور پر پیش کرتی ہیں اور ریاست اس تاثر کو زائل کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ Los secretos del Edén Esta es una de tantas representaciones del Edén, con todos los ingredientes clásicos. Pero ¿cómo aparecen estos elementos reflejados en la Biblia? Querubines Tradicionalmente, Occidente ha representado a los querubines como bebés o angelitos gordinflones, pero éstas no son sino interpretaciones más tardías de ideas bíblicas más antiguas. En la antigua tradición del Cercano Oriente, los querubines eran criaturas compuestas, como esfinges, que acompañaban a los dioses. Actuaban como guardianes de los límites sagrados y con frecuencia se los esculpía en puertas y muros de templos. Los querubines resguardaban las puertas del Edén. En consecuencia, fueron ellos quienes impidieron que Adán y Eva volvieran al paraíso después de ser expulsados. Jardín Los académicos creen que el Génesis fue escrito en la segura mitad del primer milenio después de Cristo. Quienes lo escribieron podrían haberse inspirado en los antiguos jardines asirios, que fueron construidos por los reyes para demostrar su poder sobre la naturaleza. El libro de Ezequiel cuenta la historia de un rey que trató de ser como Dios y fue expulsado del Jardín del Edén. Quizás el Edén fue un jardín verdadero creado por un rey para honrar a su dios. Montaña sagrada No hay ninguna mención a la montaña sagrada en el Génesis. Sin embargo, el libro de Ezequiel describe a un rey que camina por una montaña sagrada de Dios en el Edén. En esta visión, la descripción del cielo comparte buena parte del lenguaje religioso que se usa para hablar de los templos. Está cubierto de joyas y lleno de piedras de fuego sobre las cuales caminan los reyes. En la tradición judía, la montaña sagrada de Dios está en Jerusalén: es el Monte Zion. Esto puede apuntar hacia la verdadera ubicación del Edén. Adán En el Génesis, Adán es descrito como el primer hombre. Sin embargo, el libro de Ezequiel habla de un rey que logró acceder al Jardín del Edén debido a su estatus. Después de que dijo que era como Dios, fue expulsado. En las civilizaciones del Cerano Oriente, los jardines sagrados eran construidos y mantenidos por los reyes. No había distinción entre religión y política, y los reyes funcionaban como el vínculo entre lo humano y lo divino. Parece que la historia del Génesis tomó elementos de tradiciones religiosas asociadas con la realeza. Quizás Adán simbolizaba al rey de la historia. El diablo No hay ninguna mención al diablo en la versión del Génesis. En la historia, es una serpiente la que le sugiere a Eva que se coma la fruta del árbol del conocimiento del bien y el mal. Interpretaciones posteriores asociaron la serpiente con Satán. De hecho, las serpientes no siempre fueron presentadas como malvadas. En la antigüedad, las serpientes eran consideradas criaturas que desafiaban la muerte y guardaban los secretos de la vida y la muerte. Moisés tenía un báculo que podía convertirse en una serpiente a una orden suya. Dios también le pidió a Moisés que hiciera una estatua sagrada de una serpiente que tenía el poder de curar a las personas mordidas por serpientes. La manzana El Génesis alude a la fruta prohibida, pero no dice cuál fruta es. Dios le dijo a Adán que podía comer cualquier cosa del jardín menos la fruta del árbol del conocimiento del bien y del mal. Luego Eva es tentada por la serpiente, se come la fruta y le da de comer a Adán. La idea de que la fruta fuera una manzana viene, quizás, de la Grecia antigua, en la cual la palabra 'manzana' significa también 'seno'. Las manzanas eran objetos eróticos y símbolos del deseo sexual. Esto relaciona la fruta metafóricamente con la sexualidad de Adán y Eva.
pakistan-53033090
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53033090
پاکستان کا آئندہ مالی سال کا بجٹ: ’عوام کی توقع تھی کہ اہم فیصلے کیے جائیں گے مگر یہ بجٹ میں موجود نہیں‘
یوں تو ہر سال ہی نئے بجٹ میں محصولاتی آمدنی میں اضافے، ادائیگیوں کے توازن میں بہتری اور بجٹ خسارے کو کم کرنے کرنے پر توجہ مرکوز رہتی ہے، مگر اس بار کورونا وائرس ایک نئے ہیڈ کے طور پر بجٹ میں سامنے آیا۔ ماہرین کہتے ہیں اس بہانے ہی سہی مگر صحت کا بجٹ کچھ بڑھایا گیا ہے۔ مگر یہ اب بھی بہت کم ہے۔
آئندہ مالی سال کے لیے پیش کیے گئے بجٹ کا حجم گزشتہ مالی سال سے تقریبا گیارہ فیصد کم ہے۔ گزشتہ برس بیاسی کھرب اڑتیس ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا تاہم آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ کی رقم اس سے تقریبا دس کھرب روپے کم ہے۔ بجٹ میں حکومت نے نئے ٹیکسز تو نہیں لگائے مگر اسی دوران حکومت آئندہ مالی سال کے لیے 27 فیصد ایف بی آر ریونیو جمع کرنے کا ٹارگٹ بھی طے کر رہی ہے جو کہ ماہرین کے مطابق عملی طور پر ممکن نہیں نظر آتا۔ ماہرین کی رائے جہاں ایک جانب حزب اختلاف نے بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے تو دوسری جانب کئی ماہرین کا بھی ماننا ہے کہ حکومت سے معیشت میں بہتری کے لیے مثبت اقدامات اور ایک ریلیف بجٹ کی جو توقع کی جا رہی تھی، اس ضمن میں کوئی بڑا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ معاشی ماہرین کے مطابق بلاواسطہ ٹیکسز میں کمی کرتے تو عوام کو کچھ ریلیف مل سکتا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہو تجزیہ کار اور معاشی امور کے ماہر محمد سہیل نے کہا کہ کئی بڑے اقدامات کی توقع کی جا رہی تھی، مگر وہ سامنے نہیں آئے۔ 'کورونا وائرس کے باعث جو معیشت پر اثر پڑا اور ہر قسم کے کاروبار متاثر ہوئے، اس وجہ سے شاید عوام کی توقع تھی کہ اہم فیصلے کیے جائیں گے۔ مگر یہ بجٹ میں موجود نہیں ہیں۔' محمد سہیل کہتے ہیں کہ 'ٹیکس جمع کرنے کا ہدف غیرحقیقی حد تک بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ معاشی صورتحال میں یہ ممکن نہیں ہو گا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو چھ ماہ بعد ایک منی بجٹ لانے کی ضرورت پڑے گی۔' تاہم وہ سرکاری اہلکاروں کی تنخواہوں اور پنشنز میں اضافہ نہ کرنے کو حکومتی اخراجات قابو میں رکھنے کی سمت میں ایک اہم قدم قرار دے رہے ہیں۔ وزیر برائے صنعت و پیداوار حماد اظہر نے جمعہ کو قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ہیلتھ سروسز کے بجٹ میں کل اضافہ تقریباً 130 فیصد کیا گیا ہے مگر کورونا وائرس کے لیے صرف ستر ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جس کو ماہرین آئندہ چند ماہ میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے نہایت کم قرار دے رہے ہیں۔' ماہرین کے مطابق حکومت نے مالی مشکلات کے شکار گھرانوں کو ریلیف فراہم کرنے کے لیے احساس پروگرام کے لیے بجٹ میں اضافہ کر کے اسے 208 ارب روپے تو کیا ہے 'لیکن 187 ارب روپے سے بڑھا کر 208 ارب کر دینا بڑا اضافہ نہیں ہے۔' ماہرین کے خیال میں حکومت کی توجہ تعمیرات اور سیاحت پر رہی ہے۔ نئے ٹیکس کا اعلان تو نہیں کیا مگر بعض شعبوں میں ٹیکس بڑھایا گیا ہے۔ حزب اختلاف کا ردعمل دوسری جانب حزب اختلاف کے رہنماؤں نے بجٹ پر شدید احتجاج کیا ہے۔ جس وقت حماد اظہر قومی اسمبلی میں بجٹ پیش کر رہے تھے، اسمبلی کا حال پوری تقریر کے دوران حکومت مخالف نعروں سے گونجتا رہا۔ اپوزیشن ممبران نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر 'آٹا چور اور چینی چور' جیسے نعرے درج تھے۔ اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اراکین اسمبلی کو خاموش رہنے کی تلقین متعدد بار کی مگر حزب اختلاف کے ممبران ڈٹے رہے اور ہال ان کے نعروں اور شور سے گونجتا رہا۔ اجلاس ملتوی ہونے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما خواجہ آصف نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو ایک پائی کا ریلیف نہیں دیا گیا۔ 'اس سے قبل تو پچھلے بجٹ میں حکومت مسلم لیگ ن پر الزام لگاتی رہی خسارے اور معاشی صورتحال کا، اور اس بجٹ گزشتہ دس سال کی حکومتوں کو رگڑ دیا ہے۔ یہ صرف اپنی کمزوریوں کو چھپا رہے ہیں۔' کچھ ایسا ہی بیان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کی جانب سے بھی سامنے آیا، اور انھوں نے کہا کہ 'موجود حکومت کورونا وائرس کے پیچھے اپنی نااہلی چھپا رہی ہے۔' مسلم لیگ ن کے رہنما محمد زبیر نے بجٹ کو 'کامیڈی' قرار دیا۔ انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی کریڈیبیلیٹی ختم ہو گئی ہے۔ وہ کہتے ہیں حکومت نے اس سے پہلے دو بار منی بجٹ دیا۔ آج یہ تمام معاشی خسارے کی ذمہ داری کورونا وائرس پر ڈال رہی ہے مگر مارچ تک تو کورونا وائرس کے اثرات پاکستانی معیشت پر نہیں پڑے تھے۔ 'حماد اظہر نے ٹیکس ریونیو میں 900 ارب کے شارٹ فال کی وجہ کورونا وائرس کو قرار دیا ہے جو کہ ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ مارچ تک تو یہ تین ٹریلین روپے اکٹھے کر چکے تھے۔ اس لحاظ سے تو انھیں 4.2 پر کلوز کرنا تھا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی کریڈیبلٹی اور ان کے اعداد و شمار پر اب کوئی اعتبار نہیں رہا، نہ ہی منصوبہ بندی کے اعداد وشمار پر اور نہ ہی ان کی کارکردگی کی حوالے سے۔' دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے بھی ایسا ہی ردعمل سامنے آیا ہے۔ شیری رحمان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیا اور کہا کہ محض اعداد و شمار کا ردوبدل کیا گیا ہے۔ 'موجودہ صورتحال میں کورونا کے علاوہ ٹڈل دل کا سامنا ہے۔ نہ فنانس کمیٹی کو آن بورڈ لیا گیا اور نہ ہی بجٹ پرکوئی بحث ہوئی، یہ کوئی بجٹ نہیں بلکہ اکاؤنٹنگ ایکسرسائز ہے۔ موجودہ حکومت نے 18 ماہ میں جتنے قرض لیے، اتنے کسی حکومت نے نہیں لیے تھے، حکومت اس وقت لوگوں کو روزگار دینے کے بجائے بیروزگار کررہی ہے۔' 'تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوگا' آئندہ مالی سال کے بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا ہے جس کی وجہ ملک میں پہلے سے جاری معاشی بحران اور کورونا کے باعث معیشت کی مزید بگڑتی صورتحال بتائی جا رہی ہے۔ معاشی ماہرین اس اقدام کو حکومتی اخراجات کم کرنے کے لیے ایک اہم قدم سمجھ رہے ہیں لیکن حزب اختلاف نے اسے حکومت کی نااہلی قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس کے بجٹ میں گریڈ 1 سے 16 کے سرکاری ملازمین کے لیے 10 فیصد اور گریڈ 17 سے 20 کے ملازمین کے لیے پانچ فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا تھا جبکہ گریڈ 21 اور 22 کے ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ملک کی مسلح افواج کے گریڈ 16 سے اوپر کے افسران نے تنخواہ میں اضافے سے رضاکارانہ طور دستبردار ہونے کا اعلان کیا تھا۔ رواں برس گذشتہ سالوں کے برعکس تنخواہوں میں ایڈہاک ریلیف بھی فراہم نہیں کیا گیا اور فی الحال تنخواہیں گذشتہ سال کے اضافے پر منجمد کی گئی ہیں۔ وفاقی سرکاری ملازمین کی جانب سے روپے کی قدر میں کمی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ گذشتہ ماہ وزارت دفاع کا لکھا گیا وہ خط بھی منظرِ عام پر آیا تھا جو وزارت نے مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے وزارت خزانہ کو لکها تھا۔ اس خط میں کہا گیا تھا کہ مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے۔ لیکن دیگر وفاقی سرکاری ملازمین کی طرح مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا گیا اور مسلح افواج میں گریڈ 16 سے 22 تک کے افسران وہی تنخواہ حاصل کر رہے ہیں جو دو سال قبل بجٹ میں طے کی گئی تھی۔ دفاعی بجٹ دفاعی بجٹ بارہ کھرب ۸۹ ارب روپے رکھا گیا ہے جو گذشتہ برس پیش کیے گئے بجٹ سے 11.8 فیصد جبکہ ریوائزڈ بجٹ سے پانچ فیصد زیادہ ہے۔ پاکستان میں بجٹ سے متعلق ایک عمومی رائے یہ ہے کہ اس کا ایک بڑا حصہ دفاع کو دیا جاتا ہے۔ تاہم گذشتہ چند برسوں کے بجٹ دستاویزات کے اعداد و شمار کے مطابق مالی سال 13-2012 میں کل بجٹ کا 17.19 فیصد دفاع کے لیے مختص کیا گیا، 14-2013 میں 15.74 فیصد، جبکہ 16-2015 میں کل بجٹ کا 16.27 فیصد دفاع کے لیے مختص کیا گیا۔ 18-2017 میں اس میں سات فیصد اضافہ ہوا جبکہ مالی سال 19-2018 میں مسلم لیگ ن نے اس میں 18 فیصد اضافے کی تجویز دی تھی۔ خیال رہے کہ دفاعی بجٹ میں سے بڑا حصہ مسلح افواج کے اہلکاروں کی تنخواہوں اور دیگر الاونسسز کے لیے مختص ہے تاہم ریٹائر ہونے والے اہلکاروں کی پنشن اس کا حصہ نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ ٹرانسپورٹ راشن، علاج معالجے اور تربیتی امورکے ساتھ ساتھ اسلحہ، بارود و دیگر ایمونیشن کے لیے رقم مختص کی جاتی ہے۔ اس میں انفراسٹرکچر کی مرمت اور نئی عمارتوں کی تعمیر کے لیے بھی رقم شامل ہے۔ وزارت دفاع کی جانب سے خط میں تجویز دی گئی کہ 2016 سے 2019 کے دوران فوجی اہلکاروں اور افسران کی تنخواہ میں عارضی اضافے یعنی ایڈہاک الاؤنس کو مستقل طور پر بنیادی تنخواہ کا حصہ بنا دیا جائے اور اس کے بعد تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ کیا جائے۔ پاکستان کی مسلح افواج کو 2016، 2017 اور 2018 کے مالیاتی بجٹ میں دس، دس فیصد کا ایڈہاک ریلیف دیا گیاتھا اور 2019-20 کے مالیاتی سال میں یہ ریلیف پانچ فیصد تھا۔ اس کے علاوہ 2018 میں المیزان ریلیف فنڈ بھی دس فیصد دیا گیا۔ اس سے قبل 2015 میں بھی مسلح افواج کے گذشتہ چند برسوں کی ایڈہاک فنڈ کو تنخواہ کا حصہ بنا کر مجموعی تنخواہ میں اضافہ کیا گیا تھا۔ 2015 کے بعد بنیادی تنخواہ میں کسی بھی بجٹ میں اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ ایڈہاک ریلیف دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن آئندہ مالی سال کے لیے یہ ریلیف نہیں دیا گیا ہے۔
040511_american_beheaded_rz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/05/040511_american_beheaded_rz
امریکی کی’گردن زدنی‘ کی وڈیو
مسلمانوں کی ایک انتہا پسند ویب سائٹ نے ایک وڈیو دکھائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عراق میں ایک امریکی کا سر تن سے جدا کیا جا رہا ہے۔
اس وڈیو میں پانچ افراد کو دکھایا گیا ہے جن کے منہ کپڑوں سے ڈھانپے ہوئے ہیں اوران میں سے ایک شخص امریکی یرغمالی کا سر ایک چاقوسے کاٹ رہا ہے۔ تاہم اس وڈیو کی اصلی ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق ابھی تک نہیں ہو سکی۔ اس سے صرف چند لمحے قبل وہ شخص جس کی گردن بظاہر کاٹی گئی یہ کہہ رہا تھا کہ وہ امریکی ہے اور اس کا تعلق ریاست فلاڈلفیا سے ہے۔ یہ گروپ جس کے بارے میں خیال ہے کہ اس کا تعلق القاعدہ سے ہے کہتا ہے کہ اس نے امریکیوں کو عراقی قیدوں پر ٹارچر کا بدلہ لینے کے لئے مارا ہے۔
regional-53629696
https://www.bbc.com/urdu/regional-53629696
کشمیر: آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ایک برس بعد کشمیری پنڈت کس حال میں ہیں؟
گذشتہ برس پانچ اگست کو انڈیا کی حکومت نے جموں و کشمیر ریاست کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو دو 'یونین ٹریٹری' جموں کشمیر اور لداخ میں تقسیم کردیا تھا۔
گزشتہ برس پانچ اگست کو انڈیا کی حکومت نے جموں و کشمیر ریاست کے خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ختم کردیا تھا اسی دن سے ریاست کے اندر اور ریاست کے باہر نقل مکانی کرنے والے کشمیری پنڈت اپنی 'گھر واپسی' کا خواب دیکھنے لگے تھے۔ انھیں ایسا لگنے لگا تھا کہ جیسے وہ وادی کشمیر کے دروازے تک پہنچ چکے ہوں۔ بس کھڑکی سے انھیں اپنے خوابوں کا کشمیر نظر بھی آنے لگا تھا۔ لیکن اب ایک برس گزر جانے کے بعد وہ ایسا محسوس کررہے ہیں جیسے ان کا ساتھ کوئی دھوکہ ہوا ہو۔ انھوں نے اپنے دل میں اپنی منزل کی جانب چلنے کا صرف ایک خواب سجایا ہوا ہے۔ نوے کی دہائی میں کشمیری پنڈتوں کو اس وقت کشمیر سے نکلنا پڑا جب وہاں علیحدگی پسندی کی تحریک میں شدت آئی۔ ان کی اکثریت جموں میں آباد تھی۔ ان پنڈتوں کا کہنا ہے کہ وہ صدیوں سے کشمیر میں رہ رہے ہیں اور یہ کشمیر ان کا گھر ہے جبکہ مقامی علیحدگی پسند انھیں اپنے لیے خطرہ قرار دیتے آ رہے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں انڈیا کی حکومت ان پنڈتوں کے ذریعے آزادی کی تحریک کو کچلنا چاہتی ہے۔ کشمیری پنڈتوں کے رہنمائی کرنے والی تنظیم 'پونن کشمیر' کے سربراہ ڈاکٹر اگنی شیکھر نے بی بی سی کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے گذشتہ برس پانچ اگست کو اتنا بڑا تاریخی فیصلہ کیا تھا لیکن ایک برس گزر جانے کے باوجود ابھی تک حکومت نے کشمیری پنڈتوں کو دوبارہ بسانے کے بارے میں کوئی عملی اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔ اگنی شیکھر کے مطابق زمینی حالات میں ابھی تک کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انھوں نے صاف کہا ہے کہ امید کی جو کھڑکی ہمارے لیے ایک برس پہلے کھلی تھی ہم آج بھی اس کے پاس کھڑے ہوکر منزل کو تک رہے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے آرٹیکل 370 کا خاتمہ: ’ہمیں انسانیت نہیں کھونی چاہیے‘ یورپی ممبران پارلیمان کا دورہ کشمیر تنازعے کا شکار کیا کشمیر پر ثالثی کی پیشکش آرٹیکل 370 کے خاتمے کی وجہ بنی؟ وہ کہتے ہیں کہ اگر پانچ اگست کا دن خوشیاں منانے کا دن ہے تو ساتھ ہی یہ ہمارے لیے تشویش کا بھی دن ہے۔ ہمارے لیے اگر یہ امیدیوں کا دن ہے تو غیر یقینی کا بھی دن ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ہم گذشتہ 30 برس کی طویل مدت سے اپنی تنظیم کے ذریعے جدوجہد کررہے تھے لیکن حکومت نے ہمیں کبھی مذاکرات کے لیے مدعو نہیں کیا اور نہ ہی ہم سے ہمارے لائحہ عمل کے بارے میں پوچھا'۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو پارلیمان میں اس بات کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ وادی کشمیر میں قتل و غارت ہوئی تھی۔ اس کے بعد کشمیر میں ہماری گھر واپسی کی راہ آسان ہوسکتی ہے۔ ’ہم کبھی ایسی پالیسی کا حصہ نہیں بنیں گے جس کا محور یہ ہو کہ حکومت نے ہمارے لیے دو کمروں والے چار ہزار فلیٹس بنا دیے ہیں اور ان کو الاٹ کردیا ہے۔ ہم اپنے گھر واپس لوٹنا چاہتے ہیں، اپنی سر زمین پر دوبارہ بسنا چاہتے ہیں لیکن ہم یہ سب اپنی شرائط پر کرنا چاہتے ہیں۔‘ ڈاکٹر اگنی شیکھر کا خیال ہے کہ مرکزی حکومت نے جب سے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کیا ہے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ حکومت کشمیری پنڈتوں کی ایک ہی مقام پر دوبارہ بسانے کے مطالبے پر کان دھرے گی۔ ڈاکٹر اگنی شیکھر کے مطابق زمینی سطح پر ابھی کچھ تبدیلی نہیں آئی ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر اور لکھاری رمیش تامیری نے بی بی سی کو بتایا کہ مرکزی حکومت نے کشمیر پنڈتوں کو دوبارہ بسانے کے لیے اور ان کے ديگر مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی پختہ اقدامات نہیں اٹھائے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کشمیری پنڈتوں کے اس مطالبے کے خلاف نہیں ہے لیکن ایک برس گزر جانے کے بعد بھی اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا گیا ہے۔ ان کا مزيد کہنا تھا کہ حکومت کو ایک تفتیشی کمیشن تشکیل دینا چاہیے جو کشمیری پنڈتوں کے قتل عام کی حقیقت کو دنیا کے سامنے لائے اور قصورواروں کو سزا دلائے۔ مرکز میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ بی جے پی کی حکومت نے ابھی تک ایسا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے جسس سے بے گھر ہونے والے کشمیریوں کے لیے بنائی گئی کالونی میں رہائش پزیر کشمیری پنڈتوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئی ہو۔ یہ کشمیری آج بھی انہي مسائل کا سامنا کررہے ہیں جو انھیں 60 سال پہلے درپیش تھے۔ ڈاکٹر تامیری کا کہنا ہے ’وادی کشمیر میں کشمیری پنڈتوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے مکانات، کھیت اور باغات کم قیمت پر فروخت کردیں۔ اس فروخت کو آج تک منسوخ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی انھیں اپنی زمین کی مناسب معاوضہ ملا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ جن شرائط پر بے روزگار کشمیری پنڈت نوجوانوں کو وزیر اعظم کے روزگار پیکیج کے تحت کام کرنے پر مجبور کیا گیا ان شرا‏ئط کو آج تک واپس نہیں لیا گیا۔ کشمیریی پنڈتوں کے لیے تعمیر کی گئی کالونی میں مقیم کشمیری پنڈتوں کے لئے بہتر علاج معالجے، صفائی ستھرائی اور روزگار کے ایسے مواقع فراہم نہیں کیے گئے جن کی مدد س وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں اور خود اپنی روزی روٹی کما سکیں۔ رمیش تامیری کا کہنا تھا کہ حکومت کشمیری پنڈتوں کے اس مطالبے کے خلاف نہیں ہے لیکن ایک برس گزر جانے کے بعد بھی اس نے اس مسئلے کا کوئی حل نہیں نکالا گیا ہے 2018 میں راکیش کول نے وادی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کی برہ پنچایت سے سرپنچ یعنی نمبردار کا انتخاب جیت کر اپنے علاقے میں کام کرنا شروع کیا تھا لیکن جون میں ایک سرپنچ کی ہلاکت کے بعد وہاں کا ماحول بدل گیا تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے راکیش کول نے کہا ’ہم نے 2018 میں نومبر کے مہینے میں اقتدار سنبھالا تھا اور تب سے آج تک حکومت کے سامنے لوگوں کے لیے ایک تو رہائش اور دوسرا سیکیورٹی کا مطالبہ کیا ہے۔ آج تک ان مطالبات پر عمل درآمد نہیں ہوا ہے۔ یہ بھی دیھکیے: آرٹیکل 370 کے خاتمے سے کیا ہو گا؟ راکیش کول کہتے ہیں کہ گذشتہ ایک برس میں ان کے لیے یہاں کچھ نہیں بدلا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اب تک ہماری شناخت کے بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں، نہ ہی لوگ ہمیں جموں کا مانتے ہیں اور نہ ہی کشمیر کا۔ ہمارے تمام حکومتی دستاویزات کی تصدیق پہلے وادی کشمیر میں اور پھر جموں میں کی جاتی ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے سے پہلے بھی یہ حالات تھے اور اس کے بعد بھی ہمارے لیے کچھ نہیں بدلا ہے۔ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے مسئلے کو اٹھاتے ہوئے راکیش کول کہتے ہیں کہ ’ہم صدیوں سے کشمیر کے باشندے ہیں۔ ہمارے آباؤ اجداد صدیوں سے کشمیر میں مقیم تھے اور آج ہمیں اپنا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے دربدر بھٹکنا پڑتا ہے۔‘ انھوں نے مرکزی حکومت سے اپیل کی کہ کشمیر پنڈتوں کو نمایاں طور پر حکومت کی طبی سکیم ’آیوشمان بھارت‘ میں شامل کیا جائے تاکہ ان کے خاندان کے بیمار افراد کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاسکے۔ 2018 میں راکیش کول نے وادی کشمیر کے ضلع اننت ناگ کی برہ پنچایت سے سرپنچ کا انتخاب جیت کر اپنے علاقے میں کام کرنا شروع کیا تھا لیکن جون میں ایک سرپنچ کی ہلاکت کے بعد وہاں کا ماحول بدل گیا تھا ایک طویل عرصے سے دلی میں فنانس سیکٹر میں کام کرنے والے راجو موجا نے بی بی سی کو بتایا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد تو ان کی وطن واپسی ممکن نہیں تھی لیکن کشمیری ہونے کی حیثیت سے ان کی جو شناخت تھی وہ بھی ان سے چھین لی گئی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ میرے پاس ایک ’سٹیٹ سبجیکٹ‘ تھا جس کی وجہ سے میرا کشمیر کے ساتھ ایک رشتہ جڑا ہوا تھا اب وہ بھی نہیں رہا۔ اب ڈومیسائل سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کے لیے ہمیں دوبارہ اپنی شناخت کی تصدیق کرانی ہو گی اور سرکاری دفاتر کے چکر لگانے پڑیں گے۔ بے گھروں کے لیے رابطہ کمیٹی کے رہنما رویندر کمار رینا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم نے حکومت کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے فیصلے کا خیرمقدم کیا تھا۔‘ لیکن رینا نے ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کے معاملے پر حکومت کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’کشمیری ہونے کی وجہ سے کیوں ہمیں بار بار اپنی شناخت ثابت کرنے پر مجبورکیا جاتا ہے؟ کشمیر کشمیری پنڈتوں سے ہے۔‘ 10 سال سے زیادہ عرصہ سے وادی کشمیر میں کام کرنے والے روبن جی سپرو نے بی بی سی کو بتایا کہ ’گذشتہ ایک برس میں حکومت کی جانب سے کیے گئے فیصلے اپنی جگہ درست ہیں لیکن بے گھر ہونے والے کشمیری پنڈت نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد وادی کشمیر میں نوکری کررہی ہے، حکومت کو ان کے مسائل کی شنوائی کرنی چائیے۔‘ روبن کا خیال ہے کہ یہ کشمیری پنڈت وادی کشمیر میں اتنے عرصے سے مقیم ہیں لیکن پھر بھی وہ دوسروں سے الگ تھلگ ہیں۔ وہاں کے مقامی افراد سے ان کے قریبی تعلقات نہیں ہیں۔ اتنے طویل عرصے سے وادی کشمیر میں مقیم ہونے کے باوجود بھی وہ اپنے گھروں سے دور انڈین حکومت کے سخت سکیورٹی والے ٹرانزٹ کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ اس وقت پورے کشمیر میں تقریباً چار ہزار بے گھر کشمیری مختلف ٹرانزٹ کیمپوں میں رہ رہے ہیں اور وہ مسلسل حکومت کے سامنے جموں میں وطن واپسی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ روبن یہ بھی کہتے ہیں کہ گذشتہ برسوں میں متعدد کشمیری پنڈت خاندانوں نے جموں سے باہر دیگر ریاستوں میں اپنے گھر بنا لیے ہیں اور اب ان کے لیے سب کچھ چھوڑ کر کشمیر واپس جانا ممکن نہیں ہے۔ سنہ 1990 میں وادی کشمیر سے نقل مکانی کے بعد سن 2010 میں ایک بار پھر انھیں اس وقت اپنا گھر چھوڑنا پڑا جب حکومت کی جانب سے دی گئی ملازمتوں کے لیے انہیں وادی کشمیر کا رخ کرنا پڑا سنہ 2010 میں وزیر اعظم کے ریلیف پیکیج کے تحت وادی میں 3000 کشمیری پنڈتوں کو ملازمت دی گئی تھی۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے جانب سے ملازمت سے متعلق پیکیج کو 'وطن واپسی' سے منسلک نہیں کرنا چاہیے۔ لولاب کے رہائشی پیارے لال پنڈیتا جو ایک طویل عرصے سے پنڈیوں کے لیے قائم کی گئی کالونی میں مقیم ہیں نے نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس عارضی کیمپ میں 40،000 کشمیری پنڈت رہتے ہیں اور اس وقت سب اپنے ڈومیسائل کے بارے میں فکرمند ہیں۔‘ لال پنڈیتا کا کہنا ہے کہ حکومت کو بے گھر افراد کی مشکلات کو دور کرنا چاہیے بجائے ان میں اضافہ کرنے کے۔ ان کا کہنا ہے کہ انھیں امید تھی کہ گذشتہ ایک سال میں ان کی زندگی میں کوئی تبدیلی آئے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ وہ کہتے ہیں کہ جن کے پاس سٹیٹ سبجیکٹ نہیں تھا ڈومیسائل سرٹیفکیٹ ان لوگوں کے لئے ضروری تھا نہ کہ ریاست کے ان مقامی رہائشیوں کے لیے جو صدیوں سے کشمیر میں مقیم تھے۔ لال پنڈیتا کا مزید کہنا تھا کہ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد اب وادی کشمیر میں صرف کشمیری پنڈتوں کی وطن واپسی کا مسئلہ بچا ہے۔
vert-cap-48033777
https://www.bbc.com/urdu/vert-cap-48033777
ہالینڈ: کیا جسم فروشی کو ایک عام پیشہ سمجھنا چاہیے؟
ایمسٹرڈیم کا ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ۔ ایسی پرپیچ گلیوں کا مرکز ہے جو قرمزی رنگ کی چمکتی کھڑکیوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان کھڑکیوں کے ساتھ بیٹھی جسم فروش خواتین وہاں سے گزرنے والے گاہکوں کو متوجہ کرتی ہیں۔
جسم فروشی کو دنیا کا سب سے قدیم پیشہ سمجھا جاتا ہے یہ نہ صرف ایک سیاحتی مقام اور ثقافتی علامت بن گیا ہے بلکہ ایک ایسی محفوظ جگہ کی مثال بھی ہے جہاں دہائیوں سے قانونی طور پر جسم فروشی کی جاتی ہے لیکن شاید جلد ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے۔ ان دنوں ولندیزی پارلیمان، ہالینڈ میں جسم فروشی کی قانونی حیثیت پر بحث کی تیاری کر رہی ہے۔ اس صنعت کو دائیں بازوں کے مسیحیوں اور بائیں بازو کی فیمینسٹس کی طرف سے مخالفت کا سامنا ہے اور ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں جسم فروشی کا کام کرنے والی خواتین کو اپنے کام کے حق کے تحفظ کے لیے دباؤ کا سامنا ہے۔ اسی بارے میں مزید پڑھیے ’جسم فروشی کے لیے بچیوں کو جوان کرنے کے لیے ہارمونز‘ سیکس اور ’شوگر ڈیڈی‘ اکیلی خواتین کو جسم فروش کیوں سمجھا جاتا ہے؟ برطانیہ: امداد میں تاخیر سے عورتیں جسم فروشی پر مجبور کیا یہ مباحثے دنیا بھر میں جسم فروشی کے کام میں بڑی تبدیلیوں کا سبب بن سکتے ہیں اور اس سے کس طرح اس کام سے جڑے لوگوں کی نوکریاں اور زندگیاں متاثر ہوں گی؟ ڈچ تبدیلیاں اگر یہ آپ کی بہن ہوتی؟ یہ نوجوانوں کی طرف سے ہالینڈ میں چلائے جانے والی مہم کے نعروں میں سے ایک ہے۔ یہ مہم جسم فروشی کے کام سے جڑے کچھ حصوں کو مجرمانہ قرار دلوانے کی کوشش ہے۔ سارہ لوس ایک مہم پر کام کر رہی ہیں جس کا نام ولندیزی زبان میں ’اک بین اونبیتالبر` یا ’میں انمول ہوں` ہے۔ وہ کہتی ہیں ’وسیع پیمانے پر کی جانے والی کوششوں کے نتیجے میں سات سال کے دوران 46000 سے زائد عوامی دستخط جمع کیے جا چکے ہیں جس نے بالآخر پارلیمانی بحث کا آغاز کروا دیا ہے۔‘ ماہرین کا کہنا ہے کہ غریب ممالک میں جسم فروشی کے خلاف قوانین کو جسم فروش خواتین کو سزائیں دینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اس کا مقصد موجودہ قوانین کو تبدیل کرنا ہے تاکہ وہ ’ناردک ماڈل‘ کی پیروی کر سکیں جس کے تحت ایسے مرد گاہکوں پر جرمانہ کیا جا سکے گا جو جسم فروش عورتوں کی خدمات حاصل کرتے ہیں۔ اس کا مقصد جسم فروشی کرنے والی عورتوں کے خلاف تشدد کو کم کرنا ہے۔ سنہ 1971 سے ہالینڈ میں دو بالغ افراد کے درمیان رقم کے عوض سیکس کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔ تاہم سارہ کے خیال میں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ جنسی آزادی کا مرکز یا علامت ہے وہ اسے #MeToo کے موجودہ دور میں دقیانوسی سمجھتی ہیں۔ اس بارے میں ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ میں کام کرنے والوں کا کیا خیال ہے؟ ایک سیکس ورکر جو رومانیہ سے آئی ہیں اور چیری کی عرفیت سے جانی جاتی ہیں دس برس سے یہاں کام کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صرف کرایہ ادا کرنے اور کچھ پیسے جمع کا ذریعہ ہے جب تک کہ ’ عام نوکری` حاصل کرکے وہ ’عام زندگی‘ گزارنا نہیں شروع کر دیتیں۔ انھوں نے بی بی سی کی اینا ہولیگان کو بتایا ’اگر پٹیشن کامیاب ہو گئی تو یہ مجھے یہاں سے باہر کی دنیا کی جانب دھکیلنے کے لیے ایک اچھا اقدام ہو گا۔‘ لیکن فوکسی نام کی ایک اور جسم فروش خاتون کا کہنا ہے کہ یہ درخواست ان کے لیے نقصان دہ ہے کیونکہ اس سے جسم فروشی کا کاروبار مزید ممنوع اور غیر واضح ہو جائے گا اور نتیجتاً اس کی قبولیت میں کمی اور نگرانی میں اضافہ ہو گا۔ ’ہمیں چھپ کر کام کرنا پڑے گا اور یوں پولیس اور محکمۂ صحت کی ہماری رسائی نہیں ہو سکے گی۔` وہ مزید کہتی ہیں ’میں یہ اپنی مرضی سے کر رہی ہوں‘ اور یہ کہ جسم فروشی سے لے کر انسانی سمگلنگ جیسے مسائل دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی موجود ہیں۔ تو کیا جسم فروشی کو قانونی بنانا عورتوں کو پیسے کمانے کی ایسی آزادی دے گا جو وہ چاہتی ہیں یا یہ ان کے لیے مشکلات کا سبب بن سکتا ہے۔ پرآبھا کوتیسوارن جو کنگز کالج لندن میں لا اینڈ سوشل جسٹس کی پروفیسر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’جسم فروشی کے خلاف قوانین کو اس شعبے سے منسلک افراد کے حقوق کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے‘ کیا جسم فروشی کے خلاف قوانین کا کوئی اثر ہوتا ہے؟ جسم فروشی سے متعلق قوانین کتنی اچھی طرح سے خواتین کی حفاظت کرتے ہیں اور صحت کی دیکھ بھال جیسے فوائد تک رسائی دیتے ہیں، یہ ہر ملک میں مختلف ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ غریب ممالک میں جسم فروشی کے خلاف قوانین کو ایسی جسم فروش خواتین کو سزائیں دینے کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اپنے ہی جسم پر کنٹرول رکھتی ہیں اور یہ قوانین بیماریوں کی روک تھام، انسانی سمگلنگ اور خواتین کے خلاف تشدد روکنے کے لیے ہمیشہ موثر ثابت نہیں ہوتے۔ پرآبھا کوتیسوارن کنگز کالج لندن میں قانون اور سماجی انصاف کی پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’جسم فروشی کے خلاف قوانین کو سیکس ورکرز کے حقوق کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‘ ’بالاخر یہ ہوتا ہے ہے کہ قانون کی پکڑ سے بچنے کے لیے سیکس ورکر کو خود پولیس کو جسمانی یا مالی رشوت دینی پڑتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو ادا کی جانے والی رقم کے بندوبست کے لیے انھیں زیادہ جسم فروشی کرنی پڑے گی۔‘ ایسے افراد جو خود کو ایبولیشیونسٹ (سیکس کے خلاف) کہتے ہیں کہ وہ زیادہ تر ایسے گاہکوں کو سزائیں دلوانا چاہتے ہیں جو سیکس کے لیے پیسے دے رہے ہیں لیکن باقی افراد کا ماننا ہے کہ اس کی توجہ ایسی خواتین کو بااختیار بنانے پر ہونی چاہیے جو پہلے ہی اس غیر محفوظ پیشے سے جڑی ہیں۔ کچھ کے خیال میں اس کے لیے بہترین طریقہ جسم فروشی کو 100 فیصد قانونی بنانا ہے۔ پریریا کہتی ہیں ’یہ بیوقوفانہ ہے کہ فیمینسٹس ان چند پیشوں کو ختم کروانا چاہتی ہیں جن میں عورتیں، مردوں کی نسبت زیادہ کما رہی ہیں‘ جسم فروشی کو قانونی بنانے کے فائدے کرسٹینا پریرا کہتی ہیں ’سیکس کے لیے جا کر رقم ادا کرنا ٹھیک ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ بیوقوفانہ ہے کہ فیمینسٹس ان چند پیشوں کو ختم کروانا چاہتی ہیں جن میں عورتیں، مردوں کی نسبت زیادہ کما رہی ہیں۔‘ پریرا، امریکی ریاست نیواڈا سے کبھی کبھار کام کرنے والی ایسی سیکس ورکر ہیں جو پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی رکھتی ہیں اور وہ سیکس انڈسٹری پر تحقیق کر رہی ہیں۔ وہ جسم فروشی کو غیر قانونی بنانے کی مخالف ہیں اور کہتی ہیں کہ انھوں نے جسم فروشی سے پیسے کما کر اچھی زندگی بنائی ہے۔ ’میں نے اتنا کما لیا ہے کہ اب میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر سکتی ہوں اور مجھے بہت کم کام کرنا پڑے گا۔ میرا مطلب ہے کیا عیش و آرام ہے۔ اسے ختم کرنے سے ہزاروں افراد کا روزگار ختم ہو جائے گا۔ ‘ پریرا کہتی ہیں ’قحبہ خانے کے بارے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ چونکہ یہ قانونی ہے، تو جب آپ وہاں ہیں آپ محفوظ ہیں۔‘ وہ نیواڈا میں قحبہ خانوں کی بات کر رہی ہیں جہاں کچھ جگہوں پر جسم فروشی قانونی ہے۔ ’اگر گاہک ہاتھ سے نکلنے کی کوشش کریں تو اس کے لیے پینک بٹن ہے۔‘ لیکن جولی بندل جو جسم فروشی کے خلاف کام کرنے والی ایک صحافی ہیں سمجھتی ہیں کہ ایسے ممالک جہاں جسم فروشی قانونی ہے وہاں زیادہ تر جسم فروشوں کا قتل دلال یا سیکس خریدنے والوں کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ وہ کہتی ہیں صحافت میں انھیں کبھی ’پینک بٹن` کی ضرورت نہیں پڑی۔ بندل اس ’نورڈک ماڈل‘ کی حمایت کرتی ہیں جس کے بارے میں آج کل ڈچ مباحثوں میں بات چیت کی جاری ہے۔ یہ ایک ایسا ماڈل ہے جو نورڈک خطے سے باہر پھیلا ہوا ہے اور اس کا مقصد جسم فروشی کو قانونی بنانا ہے لیکن یہ سیکس خریدنے والوں کو مجرم بنا سکتا ہے۔ ’ایسے اشتہارات چلائے جا رہے ہیں جن میں مردوں کو دوپہر کے کھانے کی بریک میں کھانے کے ساتھ جتنی عورتیں وہ چاہیں ان کے ساتھ برگر اور بیئر کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ یہ اشتہاری مہم کا حصہ بن چکا ہے۔ انہیں برگر میں گوشت سمجھا جاتا ہے‘ بندل کا ماننا ہے کہ ابھی تک جسم فروشی خواتین کے لیے اتنی محفوظ نہیں ہے اس لیے اسے کسی بھی ایسے دوسرے پیشے کے ساتھ نہ تو جوڑا جا سکتا ہے جو حکومتی نگرانی میں چل رہا ہوں اور نہ اس کے بارے میں بات کی جا سکتی ہے۔ وہ جرمنی میں بڑے قحبہ خانوں کے طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب تک جسم فروشوں کو استعمال کی چیز کے طور پر دیکھا جا تا رہے گا تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ وہ کہتی ہیں ’ایسے اشتہارات چلائے جا رہے ہیں جن میں مردوں کو دوپہر کے کھانے کے وقفے میں کھانے کے ساتھ جتنی عورتیں وہ چاہیں حاصل کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ یہ اشتہاری مہم کا حصہ بن چکا ہے۔ انہیں برگر میں گوشت کی مانند سمجھا جاتا ہے۔‘ بندل کا ماننا ہے کہ جسم فروشی کی جڑ صنفی تفاوت میں ہے۔ اس لیے وہ ایک ایسے ماڈل کی حمایت پر زور دیتی ہیں جس کے تحت سیکس ورکر فون اٹھا کر پولیس کو کال کر سکتی ہیں، چاہے مرد نے کوئی غلط یا پُرتشدد حرکت نہ بھی کی ہو، لیکن کرنے کا ارادہ رکھتا ہو۔ لیکن پریرا کہتی ہیں ان کا ایسا کوئی تجربہ نہیں ہے، نہ ہی کبھی کسی مرد نے ان کے ساتھ قحبہ خانے کے ضوابط توڑتے ہوئے کونڈم پہننے سے انکار کیا ہے۔ وہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور طبی جریدے دا لینسٹ کے ڈیٹا کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو دونوں اسے مکمل طور پر جرائم کی فہرست میں نہیں رکھتے۔ مثال کے طور پر 2003 اور 2008 کے درمیان رہوڈز آئی لینڈ میں جسم فروشی کو قانونی بنانے کے بعد خواتین سیکس ورکروں کے خلاف ہونے والے تشدد میں 30 فیصد تک کمی دیکھی گئی۔ پریرا کہتی ہیں ’سیکس ورکرز کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ یہ گمان کہ زیادہ خواتین اس پیشے میں شامل ہوں گی، درست نہیں اور ایسا بھی نہیں کہ جیسے یہ ایک بری چیز ہو۔‘ وہ زور دیتے ہوئے کہتی ہیں ’وہ محفوظ جنسی طریقوں اور قحبہ خانوں کے حالات بہتر بنانے کے لیے بات چیت کر سکتی ہیں، اگر وہ بااختیار ہوں تو اپنے حقوق کی خلاف ورزی پر مقدمہ بھی کر سکتی ہیں۔‘ پریریا کہتی ہیں ’جب تک مرد ہیں، سیکس کی مانگ ہوگی اور اگر بالغ عورتیں ایسا کرنے کے لیے اپنی رضامندی دیتی ہیں تو یہ ٹھیک ہے‘ جہاں تک نورڈک ماڈل کی بات ہے تو ’یہ اس غلط فہمی کی بنیاد پر چلتا ہے کہ خواتین کمرشل سیکس پر رضامند نہیں ہو سکتیں کیونکہ انھیں اس میں مزا نہیں آتا۔ کیونکہ مرد بنیادی طور پر ان کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں لیکن سیکس ورکروں کے نزدیک یہ حقیقت نہیں۔‘ وہ کہتی ہیں کہ نورڈک ماڈل ’اس جھوٹی انتہا پسندی کی فیمینسٹ داستان پر مبنی ہے جس کے مطابق ہم اپنے ’جسموں کے اندر کا حصہ کرائے پر دیتے ہیں۔ سیکس کے خلاف کمپین کرنے والے افراد جیسے اس کے بارے میں بات کرتے ہیں وہ اسے اتنا کم تر اور نامناسب ظاہر کرتا ہے جس کا تجربہ مجھے کسی گاہک کے ساتھ نہیں ہوا۔‘ جسم فروشی کے خلاف مہم چلانے والے افراد کا کہنا ہے کہ جسم فروشی کے کاروبار کے کچھ حصوں کو مجرمانہ قرار دینا گاہگ کو ذمہ دار، کام کی جگہوں پر خواتین کو محفوظ اور بااختیار بناتا ہے۔ جیسے جیسے ڈچ پارلیمان اس کے بارے میں تیاری کر رہی ہے، یہ بحث بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ پریرا کا کہنا ہے کہ سیکس کے خلاف مہم چلانے والے افراد کو زیادہ سے زیادہ جسم فروشوں سے ان کے متعلق بات کرنی چاہیے، لیکن بندل کا کہنا ہے کہ سب کا تجربہ پریرا جیسا نہیں۔ لیکن یہ بحث اس موضوع پر ضروری جانچ کرنے پر زور دیتی ہے۔ اور یہ اس بات کی بھی عکاسی کرنے پر زور دیتی ہے کہ ہم جسم فروشی کو دنیا کا سب سے قدیم پیشہ کیوں کہتے ہیں۔ پریرا کہتی ہیں ’جب تک مرد ہیں، سیکس کی مانگ ہوگی اور اگر بالغ عورتیں ایسا کرنے کے لیے اپنی رضامندی دیتی ہیں تو یہ ٹھیک ہے۔‘
061016_doping_naseem_ns
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/10/061016_doping_naseem_ns
’ٹیسٹ کی تصدیق بھی ہو چکی‘
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ڈاکٹر نسیم اشرف کا کہنا ہے کہ شعیب اختر اور محمد آصف کے ڈوپ ٹیسٹ کی تصدیق ہو چکی ہے اور یہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیئے ایک بہت بڑا دھچکا ہے۔شعیب اور آصف بے قصور: ڈاکٹر پاکستانی ٹیم پھر مشکلات کی شکارپٹھے بڑھانے کی دوااسلام آباد میں اخبار نویسوں سے بات چیت کرتے ہوئے پی سی بی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ شعیب اور آصف جیسے ’میچ وننگ‘ باؤلروں کی عدم موجودگی سے چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی فتح کے امکانات پر یقیناً برا اثر پڑے گا۔
ڈاکٹر نسیم کا کہنا تھا کہ انہیں زبانی طور بتایا گیا ہے کہ دونوں کھلاڑیوں کے نمونوں کے ٹیسٹ کے مثبت ہونے کی ملیشیائی لیبارٹری نے دوبارہ تصدیق کر دی ہے۔ اس سے قبل پی سی بی کے ڈاریکٹر (آپریشنز) سلیم الطاف نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ دونوں کھلاڑیوں کا پہلا ڈوپ ٹیسٹ پازیٹو آنے کے بعد مزید تصدیق کے لیئے دوسرے ٹیسٹ کے لیئے کہہ دیا گیا ہے اور اس دوران شعیب اور آصف معطل رہیں گے۔ آئی سی سی کے ’اینٹی ڈوپنگ‘ قواعد کی خلاف ورزی کرنے پر کسی بھی کھلاڑی کے کھیلنے پر دو سال کی پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ سلیم الطاف کا کہنا تھا ’اس حوالے سے ہمارے اپنے کوئی قوانین نہیں اور ہمیں آئی سی سی کے قواعد پر ہی عمل کرنا ہوگا‘۔ پی سی بی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ یہ (ڈوپنگ) ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے اور یہ ہماری ذمہ داری تھی کہ اس معاملے کو دنیا کے سامنے لائیں۔ ’ایسے معاملات میں غلط بیانی نہیں کی جا سکتی، اب ان کھلاڑیوں کو والدہ کی بیماری کا بہانہ بنا کر تو واپس نہیں بلوایا جا سکتا تھا‘۔ انہوں نے کہا کہ انہوں نے بتایا کہ اس معاملے کی تحقیقات کے لیئے ایک کمیٹی تشکیل دی جارہی ہے جس میں ایک ڈاکٹر، ایک وکیل اور ایک سابق ٹیسٹ کرکٹر شامل ہونگے۔ نسیم اشرف کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی کی تحقیقاتی رپورٹ آنے کے بعد ہی دونوں کھلاڑیوں پر پابندی لگانے کے بارے فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران شعیب اور آصف معطل رہیں گے لیکن بورڈ کے ساتھ ان کا سنٹرل کونٹریکٹ بحال رہے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں کھلاڑیوں نے جو دوا استعمال کی اس کا تعلق منشیات سے نہیں بلکہ قوت بڑھانے سے ہے۔ نسیم اشرف نے کہا کہ ’ ہمارے کھلاڑیوں کو اس قسم کی ادویات کے استعمال سے قبل دس مرتبہ سوچنا چاہیئے کیونکہ مثبت ڈوپ ٹیسٹ کے نتیجے میں آئی سی سی کی سزا دو سال کی پابندی ہے‘۔ آئی سی سی کے قانون کے مطابق شعیب اور آصف کے متبادل کھلاڑیوں کو اس وقت ہی ٹیم میں شامل کیا جا سکتا ہے جب ان دونوں کھلاڑیوں پر پابندی لگا دی جائے۔ پابندی کے اعلان کے بعد ہی آئی سی سی کی ٹیکنیکل کمیٹی ٹورنامنٹ سے قبل پی سی بی کی جانب سے دی جانے والی تیس کھلاڑیوں کی فہرست سے متبادل کھلاڑیوں کی شمولیت کی اجازت دے سکتی ہے۔ پاکستانی ٹیم ٹورنامنٹ میں اپنا پہلا میچ منگل کو سری لنکا کے خلاف کھیلے گی اور انضمام الحق کی غیر موجودگی اور اب ان دونوں بالروں کی پاکستان واپسی کے بعد چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کی کامیابی کے آثار معدوم ہو گئے ہیں۔
060601_pak_iran_reaction_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/06/060601_pak_iran_reaction_ra
مذاکرات مثبت پش رفت ہے: پاکستان
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران کے ساتھ کثیر الملکی بات چیت میں امریکہ کی شمولیت کے لیئے رضامندی سے ایران کا جوہری تنازعہ سفارتی طور پر حل کرنے کی طرف ایک بڑا قدم ہے۔
امریکی وزیر خارجہ کونڈولیزا رائس نے گزشتہ روز اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر ایران یورینیئم کی افزودگی روک دے تو امریکہ یورپی یونین اور ایران کے درمیان ہونے والی بات چیت میں شرکت کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ابتدا سے ہی طاقت کے استعمال کے خلاف ہے اور چاہتا ہے کہ معاملہ بات چیت کے ذریعے طے پا جائے۔ پاکستان نے زور دیا ہے کہ تمام فریق اپنے عالمی اصولوں کی پاسداری کریں اور ایران کے جوہری معاملے کا پرامن حل تلاش کرنے میں کوئی کوشش باقی نہیں چھوڑنی چاہیے۔ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ وہ جوہری پھیلاؤ کے سخت مخالف ہیں لیکن ایران کے پرامن مقاصد کے لیئے جوہری پروگرام کے حق کو تسلیم کرتے ہیں۔ ترجمان نے مزید کہا ہے کہ ایران کا پرامن مقاصد کے لیئے جوہری پروگرام عالمی جوہری ادارے کے وضح کردہ اصولوں کے ماتحت ہونا چاہیئے۔ واضح رہے کہ یورپی اتحاد ایران کے ساتھ ویانا میں جمعرات کے روز مراعات کے پیکیج کے ساتھ بات چیت شروع کرنے والا ہے۔
pakistan-54015050
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54015050
عاصم سلیم باجوہ: ’وزیر اعظم عمران خان کا معاون خصوصی برائے اطلاعات کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار‘
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کرنے والے معاونِ خصوصی برائے اطلاعات لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کا استعفیٰ قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے انھیں کام جاری رکھنے کو کہا ہے۔
وزیرِ اعظم پاکستان کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق لیفٹینٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے جمعے کو وزیر اعظم عمران خان کو اپنا استعفی پیش کیا جو وزیر اعظم نے قبول نہیں کیا۔ بیان میں بتایا گیا ہے کہ ’وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ عاصم سلیم باجوہ کی جانب سے جو ثبوت اور وضاحت پیش کی گئی ہے وہ اس سے مطمئن ہیں لہٰذا وزیر اعظم نے انھیں بطور معاون خصوصی کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے جمعرات کو نجی ٹی وی چینل کے ایک پروگرام میں اپنا عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا تھا تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر کام کرتے رہیں گے۔ جمعرات کی شب اس اعلان سے کچھ دیر پہلے انھوں نے صحافی احمد نورانی کی خبر میں کیے گئے دعوؤں کو 'غلط' اور 'جھوٹا' قرار دیتے ہوئے تفصیلی وضاحت جاری کی تھی۔ انھوں نے نجی ٹی وی چینل جیو نیوز کے پروگرام میں معاونِ خصوصی کا عہدہ چھوڑنے کے فیصلے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ وہ جمعے کی صبح اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کے سامنے رکھ دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ انھوں نے اپنی فیملی کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا ہے اور وہ مکمل توجہ سی پیک منصوبے پر مرکوز رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ’عمران اپنی حکومت کے بڑے سکینڈل کا نوٹس لیں اور قوم کو جواب دیں‘ ’غریب ملک کے مشیروں اور معاونین کی اکثریت ارب پتی ہے‘ جنرل عاصم باجوہ سیاسی ہو گئے؟ یاد رہے کہ احمد نورانی کی خبر سامنے آنے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف، مسلم لیگ (ن) کی مرکزی نائب صدر مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فرحت اللہ بابر سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی جانب سے مطالبہ سامنے آیا تھا کہ عاصم باجوہ اور عمران خان کی جانب سے اس حوالے سے جواب دیا جانا چاہیے۔ عاصم سلیم باجوہ نے جمعرات کو ٹوئٹر پر جاری کردہ چار صفحوں پر مشتمل بیان میں کہا ہے کہ ان پر الزامات عائد کیے گئے ہیں کہ انھوں نے بتاریخ 22 جون 2020 کو وفاقی حکومت میں بطور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی جو اثاثوں کی تفصیلات جمع کروائی ہیں وہ غلط ہیں کیونکہ اس میں انھوں نے بیرونِ ملک اپنی اہلیہ کی سرمایہ کاری کا تذکرہ نہیں کیا ہے اور یہ کہ ان کے بھائیوں کے امریکہ میں کاروبار کی ترقی کا تعلق پاکستانی فوج میں ان کی ترقی سے ہے، جبکہ ان کے بھائیوں اور بچوں کی کمپنیوں، کاروباروں اور جائیدادوں کا بے محل تذکرہ کر کے ان کی قیمت اور ملکیت کے بارے بے دریغ الزامات لگائے گئے ہیں۔ عاصم باجوہ کا کہنا ہے کہ ان پر یہ الزام درست نہیں کہ انھوں نے اپنی اہلیہ کے کاروبار کی تفصیلات بطور مشیرِ اطلاعات جاری کیے گئے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے اثاثوں کی تفصیلات 22 جون 2020 کو ظاہر کیں لیکن ان کی اہلیہ چند ہفتے قبل ان کے بھائیوں کے غیرملکی کاروبار سے الگ ہو چکی تھیں اور انھوں نے اپنی سرمایہ کاری یکم جون 2020 کو نکال لی تھی یوں اثاثے ظاہر کرنے کے دن وہ ان کمپنیوں میں سرمایہ کار یا حصص کی مالکہ نہیں تھیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی اہلیہ کی کاروبار سے علیحدگی کا ذکر امریکہ میں دستاویزات میں باضابطہ طور پر موجود ہے۔ واضح رہے کہ جولائی میں جاری کیے گئے اثاثہ جات کی فہرست میں عاصم باجوہ نے اپنی اہلیہ کے نام پر 'خاندانی کاروبار' میں صرف 31 لاکھ روپے کی سرمایہ کاری ظاہر کی اور اس حلف نامے کے آخر میں تصدیق کی کہ 'میری، اور میری بیوی کی اثاثہ جات کی فہرست نہ صرف مکمل اور درست ہے بلکہ میں نے کوئی چیز نہیں چھپائی۔' عاصم باجوہ نے مزید کہا کہ سنہ 2002 سے لے کر یکم جون 2020 تک یعنی اٹھارہ سال کے عرصے میں ان کی اہلیہ نے امریکہ میں اُن کے بھائیوں کے کاروبار میں کُل 19 ہزار 492 ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ سرمایہ کاری ان (عاصم باجوہ) کی بچت کردہ رقم سے کی گئی اور ان سب کا حساب موجود ہے، اور اس سرمایہ کاری میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے قواعد و ضوابط کی 'ایک مرتبہ بھی' خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ عاصم باجوہ کی جانب سے جمع کروایا گیا حلف نامہ جس میں لکھا گیا ہے کہ ان کا اور ان کی اہلیہ کی بیرونِ ملک کوئی کاروباری سرمایہ کاری نہیں سابق فوجی جنرل نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ صحافی احمد نورانی کی خبر میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ باجکو گلوبل مینیجمنٹ درحقیقت باجکو سے منسلک تمام کاروباروں کی سرپرست کمپنی ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ 'حقیقت سے پرے' ہے کیونکہ باجکو گلوبل مینیجمنٹ کسی کمپنی کی سرپرست نہی بلکہ صرف ایک مینیجمنٹ کمپنی ہے جو باجکو سے منسلک تمام کاروبار کو فیس کے بدلے 'مینیجمنٹ کی خدمات' فراہم کرتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ خبر لکھنے والے نے 'جھوٹا دعویٰ' کیا ہے کہ باجکو 99 کمپنیوں کی مالک ہے جبکہ فہرست میں کئی کمپنیوں کو 'متعدد بار' گنا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس وقت امریکہ میں 27 اور متحدہ عرب امارات میں دو فعال کمپنیاں ہیں۔ پاپا جونز کیسے خریدی گئی؟ پاپا جونز پیزا چین میں اپنے بھائیوں کی سرمایہ کاری کو تسلیم کرتے ہوئے عاصم باجوہ نے لکھا کہ سنہ 2002 سے اب تک ان کے بھائیوں نے یہ فرنچائز اور اس سے منسلک اثاثے اور زمینیں سات کروڑ ڈالر کی قیمت پر خریدیں اور 18 برس میں ان کے بھائیوں اور اہلیہ نے اپنی جیب سے اس کاروبار میں صرف 73 ہزار 950 ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جس میں سے ان کی اہلیہ کا حصہ 19 ہزار 492 ڈالر ہے، چنانچہ اس کاروبار میں ان کے پانچ بھائیوں کی سرمایہ کاری 54 ہزار 458 ڈالر رہی ہے۔ عاصم باجوہ کا دعویٰ ہے کہ اس کاروبار کے لیے تقریباً چھ کروڑ ڈالر بینکوں سے قرضوں اور دیگر مالی سہولیات کے ذریعے حاصل کیے گئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے پانچ بھائیوں اور ان کی اہلیہ کے علاوہ ان کاروباروں میں 50 دیگر سرمایہ کار بھی شامل ہیں۔ 'بیٹوں کے نام پر موجود کمپنیاں غیر فعال' اپنے بیٹوں کے کاروبار کے حوالے سے لگائے گئے الزامات پر عاصم باجوہ نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے بیٹوں کے نام پر کمپنیاں موجود ہیں تاہم انھوں نے زیادہ تر کمپنیوں کے بارے میں دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے سرے سے کبھی کوئی کاروبار کیا ہی نہیں۔ ایک کمپنی ہمالیہ پرائیوٹ لمیٹڈ کے بارے میں انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ ان کے بیٹے کے پاس کمپنی کے 50 فیصد حصص ہیں تاہم انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس 'بہت چھوٹی سی' کمپنی نے گذشتہ تین سالوں میں 'پانچ لاکھ روپے سے کم' مجموعی منافع کمایا ہے۔ عاصم باجوہ کے بیان کے مطابق ان کے ایک بیٹے موچی کورڈوائنرز نامی کمپنی کے تنہا مالک ہیں لیکن یہ گذشتہ پانچ سالوں سے خسارے میں ہے۔ ان کے مطابق ان کے بیٹوں کی کمپنیوں شائیون بلڈرز اینڈ اسٹیٹس پرائیوٹ لمیٹڈ، کرپٹون، شائیون نیچورا ایل ایل سی اور ایڈوانس مارکیٹنگ پرائیوٹ لمیٹڈ نے کبھی کوئی کاروبار نہیں کیا۔ چند ماہ قبل شائیون بلڈر نامی کمپنی کی یوٹیوب پر شائع کی جانے والی ایک ویڈیو میں عاصم باجوہ کے ایک بیٹے خود کمپنی کے کاروبار کی تفصیلات دی تھیں۔ اس بارے میں جیو ٹی وی کے پروگرام آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ میں بات کرتے ہوئے عاصم باجوہ کا کہنا تھا کہ یہ ان کے بیٹے کی ایک اور کمپنی ہے جس کے بارے میں انھوں نے اپنے بیان میں اس لیے ذکر نہیں کیا کیونکہ احمد نورانی کی خبر میں بھی اس کا ذکر نہیں تھا۔ امریکہ میں اپنے بیٹے کے گھر کے حوالے سے عاصم باجوہ نے کہا کہ ان پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے بیٹے کی کمپنی شائیون مینیجمنٹ گروپ ایل ایل سی کی ملکیت میں امریکہ میں ایک گھر ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ گھر صرف 31 ہزار ڈالر کی رقم سے ایک نیلامی کی کارروائی میں خریدا گیا اور یہ 31 ہزار ڈالر کی رقم ان کے دو بیٹوں کے 'آزادانہ ذریعہ آمدنی' کے تحت مکمل طور پر قابلِ توجیہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ 'یہ ایک چھوٹا گھر ہے۔' 'بھائیوں کی کمپنی کو سی پیک کے ٹھیکے نہیں ملے' سابق عسکری ترجمان جو اس وقت سی پیک اتھارٹی کے سربراہ بھی ہیں نے کہا کہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان کے دو بھائیوں کی کمپنی سلک لائن انٹرپرائزز پرائیوٹ لمیٹڈ کو سی پیک کے ٹھیکوں کے حصول کے لیے قائم کیا گیا ہے، تاہم انھوں نے کہا کہ اس کمپنی نے کبھی سی پیک کا کوئی ٹھیکہ حاصل نہیں کیا۔ انھوں نے کہا کہ یہ کمپنی صرف رحیم یار خان کے علاقے میں موجود صنعتوں کو افرادی قوت فراہم کرتی ہے۔ عاصم باجوہ نے مزید کہا کہ ان کے ایک بیٹے کا امریکہ میں ایک گھر ہے مگر یہ رہن کے ذریعے ایسے حاصل کیا گیا ہے کہ 80 فیصد قرضہ یا رہن غیر ادا ہی رہتا ہے۔ انھوں نے اس گھر کے بارے میں بھی کہا کہ یہ ایک 'چھوٹا گھر' ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ ان کے تمام بیٹے 18 سال سے زائد عمر کے ہیں، ان پر منحصر نہیں، امریکہ سے تعلیم یافتہ ہیں اور اعلیٰ تنخواہوں پر کام کرتے رہے ہیں۔
060611_zarqawi_revenge
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/06/060611_zarqawi_revenge
’الزرقاوی کی موت کا بدلہ لیں گے‘
عراق میں القاعدہ سے منسوب ایک بیان میں کہا گیا کہ یہ تنظیم اپنے رہنما ابو مصعب الزرقاوی کی ہلاکت کا بدلا لینے کے لیئے بڑے حملے کرے گی۔ تاہم اس بیان کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
بیان میں کہا گیا ہے یہ حملے ’دشمن کو نیند سے جگا دیں گے‘۔ تنظیم نے یہ بھی کہا ہے کہ انہوں نے اسامہ بِن لادن سے وفاداری کا اعادہ کیا ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ الزرقاوی کا جانشین نامزد نہیں کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ تنظیم کو الزرقاوی کی ’شہادت‘ نے متاثر نہیں کیا۔ اس میں کہا گیا کہ تنظیم نے اپنے آپ کو مضبوط کیا ہے اور اسے ’نئے خون‘ سے دوبارہ زندگی ملی ہے۔ امریکہ کی طرف سے اس انکشاف کے بعد کہ الزرقاوی حملے میں بچ گئے تھے ان کی ہلاکت کی وجہ کے بارے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ابھی یہ بھی واضح نہیں کہ ان کی لاش اردن میں ان کے ورثا کے حوالے کی جائے گی یا نہیں۔ دریں اثناء دو امریکی ڈاکٹروں نے الزرقاوی کی لاش کا پوسٹ مارٹم مکمل کر لیا ہے۔ امریکی فوج کے ترجمان کے مطابق فی الحال پوسم مارٹم کے نتائج عام نہیں کیے جائیں گے۔ ایک اور ترجمان نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کے دوران لاش کی حرمت کے بارے میں اسلامی روایات کا خیال رکھا گیا تھا۔
sport-54942197
https://www.bbc.com/urdu/sport-54942197
پاکستان سپر لیگ: آٹھ ماہ کی تعطل کے بعد کراچی میں پی ایس ایل کی واپسی، لاہور قلندرز کے مالک فواد رانا کی آمد اور سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے
پاکستان سپر لیگ کورونا وائرس کی وجہ سے آٹھ ماہ کے تعطل کے بعد آج سے دوبارہ شروع ہو رہی ہے۔
پی ایس ایل کی واپسی کے ساتھ لاہور قلندرز کے مالک فواد رانا کا کہنا ہے کہ وہ کراچی میں اپنی ٹیم کی حمایت کے لیے گراؤنڈ میں موجود ہوں گے۔ فواد رانا اس ٹورنامنٹ کی ایک مقبول شخصیت مانے جاتے ہیں لیکن رواں سیزن کے دوران ذاتی مصروفیات کے باعث انھیں لاہور قلندرز کے میچوں میں نہیں دیکھا جاسکا تھا۔ پی ایس ایل سیزن فائیو کا آخری مرحلہ کورونا کی وبا کے دوران ملتوی ہونے کے بعد 14 نومبر یعنی آج سے کراچی کے نیشنل سٹیڈیم میں دوبارہ شروع ہو گا۔ اس دوران کراچی کے نیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں خاموشی ہے اور شہر میں سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان سپر لیگ کے آخری مرحلے کے لیے تیاریاں مکمل پاکستان سپر لیگ: لاہور قلندرز کا چہرہ فواد رانا کہاں ہیں؟ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں شامل ہونے والے نئے چہرے کون ہیں آخری مرحلے کے چار میچوں میں آج دو میچ کھیلے جا رہے ہیں۔ پہلے میچ میں ملتان سلطانز کا مقابلہ کراچی کنگز سے ہو گا جبکہ دوسرے میچ میں پشاور زلمی کی ٹیم لاہور قلندرز سے مدِمقابل ہو گی۔ پہلے میچ کی فاتح ٹیم 17 نومبر کو ہونے والے فائنل میں جگہ بنا لے گی جبکہ شکست کھانے والی ٹیم 15 نومبر کو دوسرے میچ کی فاتح ٹیم سے مقابلہ کرے گی اور یہ میچ جیتنے والی ٹیم فائنل کھیلے گی۔ کووڈ 19 کی صورتحال کی وجہ سے ان چاروں میچوں میں شائقین کے سٹیڈیم میں داخلے پر پابندی ہو گی۔ فواد رانا: چار سال تک آخر میں آنا آسان نہیں تھا پی ایس ایل فرنچائز لاہور قلندرز کے چیئرمین فواد رانا نے تصدیق کی کہ وہ کراچی آچکے ہیں اور 14 نومبر کو میچ کے دوران نیشنل کرکٹ سٹیڈیم میں اپنی ٹیم کی حمایت کرتے نظر آئیں گے۔ گراؤنڈ میں کھیل کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ان کا رد عمل دینے اور جشن منانے کا منفرد انداز ہو یا پھر میچ ہار جانے کے بعد بھی مسکراتا ہوا چہرہ اور اس کے بعد ان کی آواز میں قلندرز کا تھیم سونگ، شائقین ان کی ہر ادا کو توجہ سے دیکھتے ہیں۔ رواں سال پی ایس ایل سے غیر حاضری پر سوشل میڈیا پر لوگوں نے انھیں کافی ’مِس کیا‘ تھا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے لاہور قلندرز کے سی ای او عاطف رانا نے بتایا تھا کہ 'فواد رانا اپنی دیگر مصروفیات‘ کی وجہ سے پہلے شامل نہیں ہوسکے تھے۔ جیو نیوز پر اپنے ایک حالیہ ایک انٹرویو میں فواد رانا کا کہنا تھا کہ گذشتہ چار سیزنز کے دوران آخری نمبر پر رہنا ’آسان نہیں تھا۔‘ ’اس مرتبہ ٹیم میں توازن ہے۔ دو، تین سال ہمارے پاس بولرز کی شدید کمی تھی، ہمارے پاس فاسٹ بولر ہی کوئی نہیں تھا۔۔۔ ہم نے اس وقت چیلنجز کا سامنا کیا اور نظام تشکیل دیا۔‘ ’پاکستان میں ٹیلنٹ ہے۔ میں اس لیے جیتنا چاہتا ہوں تاکہ ان لوگوں کو امید دوں جو کہتے تھے کہ پاکستان میں ٹیلنٹ نہیں ہے۔‘ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ میچ کے دوران جان بوجھ کر جذبات ظاہر کرتے ہیں تو ان کا جواب تھا کہ: ’کاش میں یہ سب نہ کروں۔ میرا ریفلیکس ایکشن ہوتا ہے جو کہ مجھے بعد میں احساس ہوتا ہے کہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ ’اگر آپ کو یاد ہو۔ دوسرے سیزن میں کراچی سے میچ تھا۔ پہلے سیزن میں کریس گیل ہمارے ساتھ تھا اور دوسرے میں ان کے ساتھ۔ میچ شروع ہونے سے پہلے مجھے محمد عامر اور شعیب ملک نے بتایا کہ کریس گیل نے کہا کہ جتنا سکور لاہور کرے گا، میں (اکیلا) اتنا سکور کروں گا۔‘ ’میں بہت اداس ہوا۔ پھر ہوا یہ کہ کریس گیل آؤٹ ہوگ یا۔ کریس گیل کا ایک مشہور ڈانس تھا۔ مجھے بالکل نہیں پتا تھا کہ میں وہ ڈانس کر رہا تھا۔ اس کے فوراً بعد مجھے میری اہلیہ نے کہا کہ آپ یہ کیا کر رہے تھے۔ (یہ) ریفلیکس ایکشن تھا کہ وہ آؤٹ ہوا۔‘ ’مجھے اس وقت اتنی خوشی تھی۔ میں نے اس وقت یہ پلان نہیں کیا تھا۔۔۔ لاہور کے لوگوں کا یہی مزاج ہے۔‘ اس انٹرویو میں فواد رانا کا کہنا تھا کہ وہ اپنی ٹیم کی شکست نہیں سہہ پاتے اور ’اکیلے میچ دیکھتے ہوئے بھی میں ایسا ہی کرتا ہوں۔‘ لاہور قلندرز کے مالک کی واپسی، سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے 12 نومبر کو فواد رانا نے ایک ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں وہ بتاتے ہیں کہ وہ کراچی میں اپنی ٹیم کی حمایت کے لیے پہنچ گئے ہیں۔ اس پر سوشل میڈیا صارفین نے کافی دلچسپ تبصرے کیے ہیں۔ ان کی ویڈیو پر ہی سینکڑوں صارفین نے ’ویلکم بیک رانا صاحب‘ کہہ دیا۔ ایک صارف نے پیغام پر ردعمل دیا کہ ’اب لاہور نے پھر سے ہارنا شروع کر دینا ہے۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ صرف ان کے لیے لاہور جیتے۔‘ اسی طرح ایک صارف نے لکھا کہ فواد رانا کی آمد سے ہوسکتا ہے ’لاہور کا بُرا وقت شروع ہوگیا ہو۔‘ ایک دوسری صارف نے لکھا کہ مجھے ابھی سے ان کے لیے دکھ ہو رہا ہے۔ فرحان نامی صارف نے لکھا کہ ’رانا صاحب پہنچ تو گئے ہیں، لیکن مجھے ڈر ہے کہ جتنی جلدی یہ پہنچے ہیں کہیں اتنی ہی جلدی واپس نہ جانا پڑے۔‘ محمد زین نے کہا کہ ’رانا صاحب آگئے ہیں۔ پی ایس ایل کی رنگینیاں واپس آتے ہوئے۔‘ مریم کے مطابق رانا فواد ’پی ایس ایل کی جان ہیں۔‘ 'خاموش اسٹیڈیم ، بے رنگ ماحول، سخت سکیورٹی' بی بی سی کے نامہ نگار عبدالرشید شکور بتاتے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ فائیو آٹھ ماہ کے تعطل کے بعد اپنا سفر مکمل کرنے کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن نیشنل سٹیڈیم میں سکوت طاری ہے۔ کھلاڑی موجود ہیں لیکن سٹینڈز خاموش ہیں کیونکہ چوکوں چھکوں اور وکٹیں اڑاتی ہوئی گیندوں پرداد دینے والے موجود نہیں ہیں۔ یہ نظارہ لیگ کے آخری پانچ میچوں کے دوران بھی دیکھا گیا تھا جب کووڈ 19 کی وجہ سے شائقین کے سٹیڈیم میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی تھی 'پریس باکس میں سماجی فاصلے' پی ایس ایل کے پلے آف اور فائنل کی کوریج کے لیے پاکستان کرکٹ بورڈ نے جو پروٹوکول متعین کیے ہیں ان میں پریس باکس میں سماجی فاصلے کو یقینی بنایا گیا ہے۔ میڈیا فلور پر جہاں پریس باکس اور کمنٹری باکس موجود ہیں یہاں سٹیکرز چسپاں ہیں جن پر سماجی فاصلے سے متعلق ہدایات درج ہیں اور سینیٹائزر کٹ بھی نصب ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے پی ایس ایل کی اہمیت کے پیش نظر ان تمام صحافیوں کوکوریج کا موقع فراہم کیا ہے جو اس سے رجسٹرڈ ہیں۔ یاد رہے کہ اس سال پاکستانی ٹیم کے انگلینڈ کے دورے کے موقع پر انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے صرف بارہ صحافیوں کو کوریج کی اجازت دی تھی جبکہ گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات میں ختم ہونے والی آئی پی ایل میں کسی بھی صحافی کو سٹیڈیم میں کوریج کی اجازت نہیں تھی۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے ایس او پیز کے مطابق کوئی بھی پریس کانفرنس بالمشافہ نہیں ہورہی ہے صحافیوں کو زوم کے ذریعے لنک مہیا کردیا گیا ہے اور کھلاڑی ڈریسنگ روم سے سوالوں کے جواب دے رہے ہیں۔ سٹیڈیم میں صرف محدود پیمانے پر مہمان موجود ہوں گے جن میں فرنچائز ٹیموں کے مہمان، پی ایس ایل کے کمرشل پارٹنرز اور کھلاڑیوں کی فیمیلز شامل ہیں۔ پاکستان کرکٹ بورڈ اپنے معاہدوں کی وجہ سے ان مہمانوں کو محدود تعداد میں ایڈجسٹ کررہا ہے۔ 'سکیورٹی سے رینجرز غائب' نیشنل سٹیڈیم کے اطراف ٹریفک کے بے پناہ رش کو دیکھ کر یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید ہر کوئی پی ایس ایل فائیو کے بقیہ میچوں کی طرف دیوانہ وار بھاگ رہا ہے لیکن ایسا نہیں ہے۔ ٹریفک کے اس غیرمعمولی دباؤ کا پی ایس ایل سے تعلق صرف اتنا ہے کہ نیشنل سٹیڈیم کے قریب کی سڑکوں کو بند کردیا گیا ہے جس کی وجہ ہر کوئی متبادل راستے کی تلاش میں بھٹک رہا ہے۔ اس بار پاکستان سپر لیگ میں سکیورٹی کے انتظامات اور سرگرمیوں میں فروری مارچ کے مقابلے میں زیادہ سختی نظر آرہی ہے۔ تاہم سب سے غیرمعمولی بات یہ ہے کہ اس بار سٹیڈیم کی سکیورٹی سے رینجرز کو دور کردیا گیا ہے۔ اس بارے میں باضابطہ طور پر کوئی بات کرنے کے لیے تیار نہیں لیکن اس کا تعلق آئی جی پولیس اور رینجرز والے واقعے سے بتایا جارہا ہے۔ ’ٹکٹیں مانگنے والوں سے جان چھوٹی‘ پاکستان میں مفت ٹکٹ لے کر کٹ میچز دیکھنے کا رجحان عام ہے۔ جیسے ہی کوئی انٹرنیشنل سیریز اور خاص کر پی ایس ایل کا وقت آتا ہے ٹکٹوں کی فرمائشیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتیں تاہم موجودہ صورتحال میں اب اس طرح کی فرمائشوں کا کوئی تصور نہیں۔ جن لوگوں سے ٹکٹیں مانگی جاتی ہیں سب سے زیادہ وہ خوش ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے ہماری جان چھوٹ گئی ہے ورنہ لوگوں نے فون اور میسجز کرکے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑنا تھا۔ 'ڈین جونز کی یاد' فروری مارچ میں جب پی ایس ایل ہورہی تھی تو کراچی کنگز کے ڈگ آؤٹ اور سٹریٹجک میٹنگز میں جو شخص سب سے زیادہ متحرک نظر آرہا تھا وہ اس کے کوچ ڈین جونز تھے جو کراچی کنگز کو اپنی حکمت عملی اور تجربے سے فائدہ پہنچاتے ہوئے دوسرے نمبر پر لے آئے۔ وہ 25 ستمبر کو ممبئی میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئےتھے۔ کراچی کنگز اب ان کے بغیر میدان میں اتری ہے البتہ اسے وسیم اکرم کا تجربہ حاصل ہے۔
080905_quetta_protest_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/09/080905_quetta_protest_as
خواتین کا قتل، کوئٹہ میں احتجاج
بلوچستان کے شہر نصیر آباد میں خواتین کے قتل کے واقعہ کے خلاف جمعہ کو کوئٹہ میں سول سوسائٹی سے وابستہ افراد نے بلوچستان اسمبلی کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا ہے جبکہ نصیر آباد میں جن دو خواتین کی لاشیں ملی تھیں جمعہ کو انہیں ورثا کی غیر موجودگی میں پولیس اور میونسپل کمیٹی کے حکام نے امانتاً دفن کر دیا ہے۔
کوئٹہ میں ریلی کے دوران مظاہرین نے بینرز اور قطبے اٹھا رکھے تھے جن میں لکھا تھا کہ قاتلوں کو سخت سزا دی جائے اور یہ کہ یہ غیر کے نام پر قتل نہیں بلکہ ٹارگٹ کلنگ ہے۔ اس ریلی میں غیر سرکاری تنظیموں کے عہدیداروں کے علاوہ سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد شامل تھے۔ ریلی بوائز سکاوٹس کے ہال سے روانہ ہوئی اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے مظاہرے کے بعد منتشر ہوگئی۔ اس ریلی میں شامل خواتین نے سخت موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جن مردوں نےان خواتین کو زندہ دفن کیا ہے انہیں سخت سے سخت سزا دی جائے۔ انہوں نے کہا کہ ان علاقوں میں پسماندگی کہیں زیادہ ہے، بےروزگاری ہے اور تعلیم نہیں ہے جس وجہ سے جاگیرداروں اور سرداروں کی اجارہ داری ہے۔ اس سے پہلے بوائز سکاؤٹس ہال میں سیاہ کاری اور کاروکاری کے موضوع پر ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں مقررین نے کہا ہے کہ ان علاقوں میں تعلیم عام کی جائے اور لوگوں کے روز گار کے مسائل کو حل کیا جائے۔ اس سیمینار سے پروفیسر فرخندہ اورنگزیب نے روائتی معاشرے میں غیرت کے نام پر قتل کے موضع پر لیکچر دیا اور کہا کہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے جہاں عورتوں کو اس طرح بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے وہاں دیگر انسانی اقدار کی کیا اہمیت ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے کہا کہ ’بھائی عشق کرے تو واہ واہ بہن کرے تو گالی ہے۔‘ اس سیمینار اور مظاہرے میں کم لوگ ہی اس واقعے کے خلاف کھل کر بات کر رہے تھے اکثر خواتین کی باتوں سے خوف جھلک رہا تھا۔ نصیر آباد کے علاقے بابا گوٹھ میں عمرانی قبیلے کے لوگ آباد ہیں اور اس وقت بلوچستان اسمبلی میں عمرانی قبیلے کے دو رکن منتخب ہو کر آئے ہیں جن میں ایک پاکستان پیپلز پارٹی کے پارلیمانی لیڈر صادق عمرانی اور دوسرے بابو امین عمرانی ہیں۔ اس واقعہ کے حوالے سے صادق عمرانی اور پیپلز پارٹی پر بھی تنقید کی جاتی رہی ہے لیکن انھوں نے کہا ہے کہ ان کا اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یاد رہے جولائی میں پانچ خواتین کو مبینہ طور پر سیاہ کاری کے الزام میں قتل کیا گیا تھا جن میں سے دو کی لاشیں ایک گڑھے سے مل گئی ہیں جبکہ باقی تین کی لاشوں کا علم نہیں ہے۔
world-44672112
https://www.bbc.com/urdu/world-44672112
اُلوؤں کی چوری کیوں بڑھتی جا رہی ہے؟
سکاٹ لینڈ کے لوئس جزیرے پر وہ ایک عام طوفان رات تھی۔
بلیک مارکٹ میں بھورے جنگلی الّو کی قیمت اچھی خاصی ہے صبح ہوئی تو تیز ہواؤں میں ہی وہاں کے رہائشی ڈونلڈ میکلیوڈ اپنے پالتو جانوروں کا احوال جاننے کے لیے باہر نکلے۔ یہ ڈونلڈ کا معمول تھا۔ لیکن جب وہ اپنے پرندوں کے کابک کے پاس پہنچے تو انھوں نے دیکھا کہ اس کی چھت غائب ہے۔ ڈونلڈ نے دیکھا کہ کابک کی چھت کو کسی نے اوپر سے کاٹ دیا تھا اور ان کا پالتو الّو سکریمپ بھی غائب تھا۔ کسی نے یا تو اسے چرا لیا یا پھر وہ چھت کے کٹتے ہی خود فرار ہو گیا۔ ڈونلڈ نے باز اور دوسرے پرندوں کو پالنے کی تربیت حاصل کر رکھی ہے۔ وہ اپنے پانچ سالہ پالتو الّو سکریمپ کی مدد سے ان بچوں کا دل بہلاتے تھے جو ان کے یہاں آتے تھے۔ ڈونلڈ آئل آف لوئس میں ایک 'بیڈ اور بریکفاسٹ' نامی ریستوراں چلاتے ہیں جہاں لوگ ناشتے اور کھانے کے لیے آتے ہیں اور تھوڑی دیر کے لیے وہ اپنے بچوں کو وہاں چھوڑ بھی سکتے ہیں۔ ڈونلڈ اپنے پالتو الّو سکریمپ کی چوری سے بہت رنجیدہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سکریمپ ان کے خاندان کا رکن تھا۔ اس کی غیبت سے انھیں بہت صدمہ پہنچا ہے۔ ڈونلڈ کے چڑیا خانے میں چوری عام واقعہ نہیں ہے۔ لوئس جزیرے کے کنارے ڈونلڈ کا ریستوراں رہائشی علاقے سے دور ہے۔ یہاں جرائم بہت کم ہیں۔ عام چوری تو رہنے دیں پرندوں کی چوری غیر معمولی بات ہے۔ لیکن اب اس قسم کا جرم بار بار ہو رہا ہے۔ پرندوں کو پالنے والوں کے لیے اب یہ معمول کی بات ہے۔ یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مجرم پیشہ افراد ان پرندوں کو نقد رقم کے لیے چوری کر رہے ہیں۔ نقدی سے چوری کا تعلق برطانیہ میں نایاب پالتو پرندوں کی چوری میں اضافہ دیکھا گیا ہے آج دنیا کے تقریبا تمام ممالک میں کیش لیس لین دین کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور اس دہائی کے اختتام تک کیش لیس یا غیر نقدی لین دین 726 ارب تک پہنچ جائے گا۔ اس میں سنہ 2015 سے ہر سال 10.9 فیصد کی شرح سے اضافہ ہو رہا ہے۔ انڈیا میں بھی کیش لیس لین دین پر ہی زور ہے۔ برطانیہ میں بھی نقد لین دین میں کمی واقع ہوئی ہے اور سنہ 2016 کے مقابلے میں وہاں نقد ٹرانزیکشن 15 فیصد کم ہو کر 13.1 ارب رہ گیا ہے جبکہ کارڈ سے ادائیگی میں اضافہ ہوا ہے۔ جاپان میں نقد لین دین میں سنہ2017 میں 8.5 فیصد کمی آئی ہے جبکہ چین میں سنہ 2016 کی ایک سہ ماہی میں موبائل ادائیگیوں میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ لیکن جوں جوں کارڈ، موبائل اور آن لائن ادائیگی میں اضافہ ہو رہا ہے دکانوں اور دیگر کاروباری افراد کے یہاں نقد رکھنے کے رجحان کو کم ہو رہا ہے۔ مجرموں کے لیے نقد کی یہ کمی بڑے بحران کی صورت ابھرا ہے۔ کسی بھی چور کے لیے نقد رقم سب سے اچھی چیز ہوتی ہے۔ اسے بہ آسانی لے جایا جا سکتا ہے اور خرچ کرنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ لیکن جب دنیا کے بیشتر ممالک کیش لیس کی جانب جا رہے ہیں ایسے میں مجرم اپنے فوری غیر قانونی آمدنی کے نئے طریقے تلاش کر رہے ہیں۔ پرندوں کی چوری دنیا بھر میں کیش لیس لین دین کا چلن بڑھ رہا ہے سویڈن میں گذشتہ سال نقد میں کل لین دین صرف دو فیصد ہی تھا۔ سویڈن کی 20 فیصد آبادی نے تو ایک بار بھی نقدی نہیں نکالی۔ ایسے میں وہاں کے مجرموں کے مسائل میں یقینا اضافہ ہوا۔ سنہ 1990 کی دہائیوں میں سویڈن میں جہاں اوسطاً 100 بینک ڈکیتیاں ہوتی تھیں وہ گذشتہ چار سالوں میں 30 تک آ گئیں اور سنہ 2017 میں تو صرف 11 بینک لوٹے گئے۔ اسی طرح گاڑیوں سے بھی لوٹ کے واقعات میں مسلسل کمی دیکھی جا رہی ہے۔ لیکن سویڈن میں جانوروں محفوظ نسلوں سے متعلق جرائم بڑھ رہے ہیں۔ سنہ 2016 میں اس طرح کے 156 واقعات درج کیے گئے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کا کہنا ہے کہ نایاب نسل کے الوؤں کے انڈے اور اورکڈ یعنی ثعلب مصری (ایک قسم کے پھول) کی چوری میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ انھیں کالے بازار میں فروخت کیا جاتا ہے۔ پھر وہاں سے انھیں سمگل کر کے دنیا کے دیگر ممالک، جیسے سعودی عرب، قطر یا متحدہ عرب امارات، بھیجا جاتا ہے۔ ان ممالک میں معدوم نسل کے پرندے پالنا دولت مندی کی نشانی ہے۔ سویڈن کے پولیس افسر فلپپو بیسینی کا کہنا ہے کہ کالے بازار میں ایک بھورے الو کی قیمت 11 لاکھ ڈالر تک مل جاتی ہے۔ یہ معاملہ صرف سویڈن تک ہی محدود نہیں۔ بہت سے دوسرے ممالک میں ناپید ہونے والے جاندار کی چوری اور سمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ آج برطانیہ میں صرف 40 فیصد لین دین ہی نقد میں ہوتا ہے۔ یہاں بھی معدوم نسلوں سے متعلق جرائم بڑھ رہے ہیں۔ سکریمپ جیسے الو کے لیے تو صرف 100 پاؤنڈ ہی ملیں گے لیکن خانہ بدوش مادہ باز کے چار ہزار پاؤنڈ تک مل سکتے ہیں۔ سائبریا کے سیاہ باز کی قیمت 75 ہزار ڈالر تک ہے۔ عرب ممالک میں ان پرندوں کی بہت مانگ ہے۔ اسی وجہ سے ان کی قیمتیں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور ان سے منسلک جرائم بھی۔ گلاس اییل یعنی شیشے جیسی بامی ماہی شیشے جیسی بامی مچھلیاں بہت قیمتی تصور کی جاتی ہیں ناپید ہونے کے خطرے سے دوچار بامی ماہی کی شیشے والی نسل کی بھی بہت مانگ ہے۔ ایک ٹن وزنی بامی کے لیے آپ کو 80 لاکھ پاؤنڈ یا ایک کروڑ یورو مل سکتے ہیں۔ چین میں ملایم بامی کو گرل کرکے کھانے کا چلن ہے۔ رواں سال تقریبا 100 ٹن بامی کو یورپی ممالک سے سمگل کر کے چین لایا گیا ہے۔ آج اس کا غیر قانونی کاروبار کوکین جیسا منافع بخش سودا ہے۔ حال ہی میں برطانوی پولیس نے ماہی کی سمگلنگ کرنے والے صرف ایک گروہ کی تحقیقات کی ہے تو پتہ چلا کہ پانچ سالوں میں اس نے ڈھائی کروڑ پاؤنڈ کی سمگلنگ کی۔ برطانیہ کے نیشنل وائلڈ لائف کرائم یونٹ کے افسر ایلن رابرٹس کہتے ہیں کہ جنگلی جانوروں سے جرم کی دنیا کا چہرہ مکمل طور پر بدل گیا ہے۔ آج منظم جرائم سے منسلک زیادہ منافع بخش نسلوں کی سمگلنگ کر رہے ہیں۔ البتہ اس طرح کے تمام جرائم کو نقدی کی کمی سے جوڑنا درست نہیں۔ سویڈن کے سابق پولیس افسر بیورن ایرکسن نے نقدی کو چلن میں واپس لانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ وہ انٹرپول سے بھی منسلک رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جنگلی جانوروں کی سمگلنگ میں اضافے کا تعلق براہ راست نقدی سے ہے۔ وہ کہتے ہیں: 'اگر نقد رقم نہیں ہو گی تو مجرمان کچھ اور چوری کریں گے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ نقد کی کمی سے ڈکیتیاں رکیں گی۔ شاید بینک چوری نہ ہو لیکن مجرم کسی اور جرم کا رخ کر رہے ہیں۔ نقدی کے متبادل کے طور پر دوسرے جرائم کی تلاش جاری ہے۔' کس قسم کی چیزیں چوری ہو رہی ہیں؟ پرندوں اور مچھلیوں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانا مشکل ہے۔ لہٰذا اب بڑے سٹورز میں چوری کے دوران چور قیمتی سامان پر زیادہ ہاتھ صاف کرتے ہیں۔ مثلا مہنگی جینز، ڈیزائنر ہینڈ بیگ، مہنگے ریزر اور بلیڈ، بےبی فارمولا دودھ، دانتوں کو سفید کرنے والے اور ڈٹرجنٹ پاؤڈر لوٹے جا رہے ہیں۔ اب سٹوروں میں نقد رقم کا لین دین بہت کم ہوتا ہے۔ لہٰذا مجرم قیمتی سامان کے ذریعے نقدی کی کمی پوری کرتے ہیں۔پھر انھیں بلیک مارکٹ میں فروخت کرکے رقم حاصل کی جاتی ہے۔ ایسے میں مجرموں کے لیے آئی فونز بھی اچھے اہداف ہیں۔ وہ انھیں دوسرے ممالک لے جا کر فروخت کرتے ہیں۔ سامان لوٹنا بھی آسان ہے۔ دوا کی دکان سے دواؤں کی چوری بھی آسان ہے۔ ہینڈبیگ چھیننا بھی بہت آسان کام ہے۔ بعض اوقات مجرمان قیمتی سامنا سٹور میں یہ کہہ کر واپس کرتے ہیں کہ ان کی پرچی کھو گئی ہے اور اب وہ اس کے بدلے میں نقد رقم چاہتے ہیں۔ کئی بار وہ گفٹ واؤچر کا حوالہ دے کر بھی پیسے لے جاتے ہیں۔ اب چور خواہ الو کی چوری کریں یا پھر مچھلی چرائيں یا ریزر بلیڈ، ان کا شکار ہونے والوں کو تو ایک جیسا ہی صدمہ پہنچتا ہے۔ جیسے ڈونلڈ میک لیوڈ کے سکریمپ کا جانا۔ وہ کہتے ہیں، 'سکریمپ ہمارے لیے انمول تھا۔' پولیس اب بھی اس گمشدہ الو کی تلاش میں ہے۔
pakistan-50660276
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50660276
’لاہوری‘ کے نام سے کالم لکھنے والے ظفر اقبال مرزا صحافت میں گمنام کیوں رہے؟
صحافی بننے کی کوشش کر رہے کسی بھی نوجوان کا زِم سے ٹاکرہ ہوتا، تو زِم اُسے ترغیب دیتے کہ بیٹا کسی اور پیشے میں چلے جاؤ، افسر بن جاؤ۔ لیکن اگر نوجوان کا اصرار ہوتا کہ اسے صحافی بننا ہے تو پھر زِم کہتے ’بیٹا، اپنا قلم سیدھا رکھنا۔‘
زِم پاکستان کے بہت بڑے صحافی تھے جنھیں اتنی شہرت نہیں ملی جتنی ملنی چاہیے تھی اور اس طرح کی گمنامی انھوں نے خود اختیار کی تھی۔ تاہم اپنے صحافتی کیرئیر کے ایک موقع پر زِم نے ’لاہوری‘ کے نام سے کالم لکھنا شروع کردیا اور پھر ان کا نام پورے پاکستان میں لاہوری کے نام سے گونجنے لگا۔ اپنے دوستوں کے لیے وہ زِم تھے جو کہ مخفف تھا ان کے نام کے انگریزی پہلے حروف کا، زیڈ آئی ایم، یعنی ظفر اقبال مرزا۔ لیکن وہ قارئین کے لیے ’لاہوری‘ تھے۔ اور وہ واقعی لاہور کے بیٹے تھے۔ لاہور کا اصل اندرونِ شہر ہے اور اس اندرونِ شہر کا دل موچی دروازہ ہے۔ زِم وہاں مغل نسل کے ایک متوسط آمدنی والے خاندان میں سنہ 1936 میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد ڈپٹی ڈائریکٹر انڈسٹریز تھے، نانا پولیس میں ڈی ایس پی اور ایک ماموں پولیس میں ڈی آئی جی تھے جنھیں ذوالفقار علی بھٹو نے نوکری سے برخواست کردیا تھا۔ متمول گھرانا تھا، علم کی قدردانی تھی، زِم کی تعلیم کا بھی اچھا آغاز ہوا۔ لاہور میں جب ہم ان دنوں کے اپنے صحافی دوست شعیب، عارف بھائی اور شوکت علی کے ہمراہ ان سے استفادہ کرتے تھے تو وہ ضمناً اپنی انگریزی کی بہت تعریف کرتے تھے۔ یہ بھی پڑھیے ’سچ لکھنے کی سزا ملی اور یہ معجزہ ہے کہ آج زندہ ہوں‘ ادریس صاحب جا چکے ہیں کیا انڈیا اور پاکستان میں صحافت آزاد ہے؟ ایک بار کہنے لگے کہ میرے ایک استاد نے مجھے انگریزی میں ایک مضمون لکھنے کے لیے کہا۔ ’میں نے مضمون لکھا، اس میں ایک بھی غلطی نہیں تھی۔‘ استاد جو کہ سکھ تھے، کہنے لگے کہ تو افسر بن سکدا اے۔ لیکن میں تو ان کے خلاف تھا۔‘ پنجابی میری مادری زبان اُس زمانے میں اور تین دہائیوں تک لاہور کا ایک بہترین سکول سینٹرل ماڈل سکول تھا۔ یہ ایک اردو میڈیم سکول تھا۔ زِم نے اسی سکول سے تعلیم حاصل کی۔ زِم کے دیرینہ دوست حسین نقی جو اب ان کے انتقال کے بعد بہت اداس ہو گئے ہیں، کہتے ہیں کہ زِم نے انھیں بتایا تھا کہ سکول کے زمانے میں ان کے ایک استاد نے گورمُکھی میں سوال لکھا کہ ’تہاڈّی مادری زبان کیہہ اے؟' نقی صاحب کے بقول زِم نے کہا پنجابی ہے۔ بعد میں ان کے والد نے ان کی سرزنش کی اور انھیں کہا کہ تمہاری مادری زبان اردو ہے۔ والد کو غصہ تھا لیکن پانچ بہنوں کے اکلوتے بھائی کو والد کے غیض سے بچا لیا گیا۔ سنہ 1947 سے پہلے کا یہ وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے پنجابی اپنی مادری زبان کا انتخاب اپنے مذاہب کے حوالے سے کر رہے تھے۔ پنجابی ہندو ہندی کو مادری زبان کہہ رہے تھے جبکہ مسلمان اردو کو۔ ویسے زِم کو پنجابی، اردو اور انگریزی پر مکمل عبور حاصل تھا اور اس زمانے کے لاہوری اشرافیہ کی روایت کے مطابق انھیں فارسی سے بھی شغف تھا۔ لاہوری کے نام سے لکھے گئے اپنے ایک کالم میں انھوں نے لکھا تھا کہ پنجابی شاعری میں واقعۂِ کربلا کا ذکر اس واقعہ کے چند برس بعد ہی ہونا شروع ہوگیا تھا۔ اپنے کالموں میں زِم نہ صرف تحقیق کا بہترین معیار رکھتے تھے بلکہ انگریزی زبان کی صحت کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ اپنے ایک کالم میں انھوں نے اُس وقت کی وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو کو ’وِکڈ‘ (wicked) لکھ دیا۔ بہت شور مچا اور احتجاجی مراسلوں کا تبادلہ ہوا۔ لیکن زِم نے نہایت تحمل سے وضاحت دی کہ لفظ ’وِکڈ‘ کا مطلب صرف ’بدکار یا شریر‘ نہیں ہے، اسے کسی کی تعریف کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ شاید بے نظیر بھٹو زِم کے مزاح سے محظوظ ہوئی ہوں۔ نقی صحاب کے بقول زِم صحافت کی اعلیٰ اقدار کے امین تھے، ہر ظالمانہ نظام کے خلاف وہ صحافت کی اعلیٰ اقدار پر عمل کرتے تھے۔ ’وہ بہترین صحافت کا ایک نمونہ تھے۔ سچ کے ساتھ ان کی وابستگی انتہائی گہری تھی۔ ان کے لیے صحافت عوام کو آگاہ کرنے کا نام تھا۔ انھیں مطلع کرنے کا نام تھا۔ انھیں تعلیم دینے کا نام تھا۔ انھوں نے مشکل وقت میں بھی عوام کو خبر پہنچائی۔ حکمرانوں کے درمیان تفریق نہیں کی۔‘ مرزا لاڈلا بیٹا تھا پاکستان کے بزرگ صحافی اور انسانی حقوق کے انتہائی معتبر علمبردار آئی اے رحمان نے زِم کے ساتھ ہی انگریزی روزنامہ دی پاکستان ٹائمز میں کام شروع کیا۔ زِم ریفرنس سیکشن میں تھے اور رحمان صاحب فلمی ریویو لکھا کرتے تھے۔ دونوں کی اس وقت شروع ہونے والی دوستی میں زِم کی موت بھی شگاف نہ ڈال سکی۔ ان دونوں نے پھر کئی اداروں سمیت ویوپوائنٹ میں مظہر علی خان کی قیادت میں بھی کام کیا۔ آئی اے رحمان کہتے ہیں کہ ’ظفر اقبال مرزا ایک لاڈلا بیٹا تھا۔ وہ باپ کے بے وقت انتقال کی وجہ سے بہت زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ گورنمنٹ کالج لاہور سے بی اے کر لیا تھا۔ مگر کم تعلیم کے باوجود صحافتی دنیا میں بہت بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے، دی مسلم کے ایڈیٹر رہے، لاہور میں روزنامہ ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر رہے۔ کالم لکھے اور نہ جانے کتنے اداریے لکھے۔ کرکٹ کے بڑے شوقین تھے۔‘ رحمان صاحب زِم کی شخصیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’وہ کہتے تھے کہ میں نے درویشی کرنی ہے۔ اور انھوں نے حقیقت میں دنیا داری بالکل اختیار نہیں کی۔ جن سے محبت کرتے تھے بہت کرتے تھے۔ وہ منافقت سے پاک ایک شخصیت کے مالک تھے۔ وہ شان و شوکت والی زندگی سے متنفر تھے اور جاو جلال دکھانے والے لوگوں سے ملنا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔‘ رحمان صاحب زِم کے ساتھ اپنی دوستی کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا بہت اچھا تعلق رہا۔ ’ہمارے خیالات بھی مشترک تھے۔ ان میں زندگی اور محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔‘ آج کی نسل کے زِم سے عدم آگہی پر رحمان صاحب نے کہا کہ ’یہ محسن کُش معاشرہ ہو چکا ہے جو اپنے لوگوں کو نہ جانتا ہے اور نہ مانتا ہے۔‘ کسی طاقت ور کو گھاس بھی نہیں ڈالی ہمارا زِم سے عملی طور پر زیادہ رابطہ اس زمانے زیادہ رہا جب وہ مال روڈ پر الفلاح بلڈنگ کے سامنے اس وقت روزنامہ ڈان کے لاہور بیورو میں بیٹھا کرتے تھے۔ اُس زمانے میں اس بلڈنگ کی دوسری منزل پر سیڑھیاں چڑھ کر دائیں جانب ایک برآمدہ تھا جو ڈان کے بیورو کی دروازے پر ختم ہوتا تھا۔ اسی برآمدے میں معروف وکیل نعیم بخاری کا دفتر بھی تھا جہاں زِم فارغ اوقات میں بیٹھتے تھے۔ بیورو میں داخل ہوتے ہی بائیں جانب ایک ڈیسک تھا جہاں زِم بیٹھا کرتے تھے۔ ہر وقت بہت مصروف نظر آتے تھے۔ اور حقیقت بھی یہ تھی کہ ہر آرٹیکل جو لاہور سے ٹیلیکس کے ذریعے کراچی آفس بھیجا جاتا تھا اس کی ایڈیٹنگ زِم کرتے تھے اور زِم کی ایڈیٹنگ حرفِ آخر تھی۔ ان سے فیض پانے والے اور ان سے آخرِ وقت تک دوستی نبھانے والے سینیئر صحافی، سید ممتاز احمد کہتے ہیں کہ انھوں نے انگریزی صحافت میں نئے آنے والوں کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی۔ ’ہم میں سے کئی ایک ایسے رپورٹر تھے جو اچھی انگریزی نہیں لکھ سکتے تھے۔ لیکن زِم ان کی فائل کی گئی خبروں کو اس طرح سے از سرِنو لکھا کرتے تھے کہ خبر فائل کرنے والا رپورٹر دنگ رہ جاتا تھا۔ وہ ہمیں ہر وقت کچھ نہ کچھ سکھانے کی کوشش کرتے تھے۔‘ اپنے صحافتی ہنر کے بارے میں ایک واقعہ انھوں نے بتایا کہ ایک مرتبہ رات گئے ایک خبر آئی اور اس پر اسی وقت اداریہ لکھنے کا فیصلہ کیا گیا پر اخبار اشاعت کے لیے پریس میں جانے والا تھا۔ آج کل کی طرح کمپیوٹر پر کمپوز کرنے کی سہولت نہیں تھی۔ زِم اُسی وقت کمپوزنگ روم میں گئے جہاں چھپائی کے لیے اخبارکی پلیٹیں سکے کی دھات والے حروف سے تیار کی جاتی تھیں۔ زِم نے وہیں کھڑے کھڑے اداریہ لکھوانا شروع کیا اور کمپوزر نے سکے والے حروف کے ذریعے پلیٹ بنانا شروع کی۔ زِم اخبار کی روح تھے ظفر اقبال مرزا جس اخبار میں بھی رہے وہ اس کی روح تھے لیکن ان کی بائی لائن یا اخبار کی ادارت میں ان کا نام کم ہی دیکھا گیا۔ جب انھوں نے کالم بھی شروع کیا تھا تو اسے بھی ایک قلمی نام ’لاہوری‘ سے لکھنا شروع کیا۔ اپنے صحافتی کیرئیر کے کافی عرصے کے بعد ان کا نام دی مسلم کے ایڈیٹر کے طور پر شائع ہوا۔ بعد میں جب وہ ڈان میں واپس آئے تو یہاں ان کا نام ریزیڈنٹ ایڈیٹر کے طور پر شائع ہوتا تھا۔ حسین نقی صاحب اس کی ایک وجہ ان کی درویشانہ زندگی بتاتے ہیں لیکن وہ ایک اور وجہ بھی بتاتے ہیں جسے ’سٹریٹجک اینونیمیٹی‘ یعنی ’تزویراتی گمنامی‘ کہا جاسکتا ہے۔ نقی صاحب کہتے ہیں کہ ’زِم کی تحریر میں بہت کاٹ تھی۔ حکمرانوں کو ان کی یہ کاٹ کبھی پسند نہیں آسکتی تھی۔ اس لیے زِم گمنامی میں رہ کر سخت تنقید کرتے تھے اور ہم سب انھیں اس گمنامی کی وجہ سے محفوظ رکھتے تھے۔‘ نقی صاحب بتاتے ہیں کہ پاکستان کی چند ناقابلِ فراموش سرخیاں زِم نے بنائیں۔ ان میں ایک بنگالی قوم پرست لیڈر شیخ مجیب الرحمان کے مغربی پاکستان پر مشرقی پاکستان کے وسائل لوٹنے کے الزامات کے جواب میں بھی ایک سرخی تھی جو کچھ یوں تھی: Bangla Bondhu, Mein Nay Makhan Naheen Khaya بنگلہ بوندھو، میں نے مکھن نہیں کھایا نقی صاحب بتاتے ہیں کہ جب یحییٰ خان پاکستان کے صدر تھے تو اس وقت ان کے وزیر اطلاعات نوابزادہ شیر علی خان پٹودی نے پروگریسو پیپرز جہاں بائیں بازو کے کئی ایک دانشوران کام کرتے تھے، انھیں تنگ کیے رکھا تھا۔ اس پر زِم نے سرخی لگائی: "Sher Ali Behave" (شیر علی، باز آ جاؤ) گمنامی کی وجہ حسین نقی کہتے ہیں کہ زِم کا صحافت میں آغاز 1962 سے شروع ہوا۔ پاکستان میں اپنے وقت کے بہت ہی معزز صحافی اے ٹی چوہدری مرحوم کے کہنے پر انھوں نے لکھنا شروع کیا لیکن اپنا نام شائع نہیں کرتے تھے۔ ’زِم اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے خاندان کے واحد کفیل تھے اور اُن کے گرفتار ہونے سے ان کے لیے کافی مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں، اس لیے انھوں نے مصلحت اسی میں سمجھی کہ وہ دوسروں کے ذریعے اپنا غصہ نکالیں گے۔‘ ’زِم زبان، پروڈکشن اور صحافتی اقدار کے ماہر تھے۔ ہماری ٹیم میں نجم حسین سید، جسٹس ایس اے سلام، ایریک سپرین اور خدیجہ گوہر کی طرح کئی بڑے بڑے نام تھے۔ سب زِم کو اپنی تحریروں کو بہتر بنانے کا اختیار دیتے تھے۔ نجم حسین سید کی پنجابی زبان پر کئی ناقدانہ تحریریں جو پنجاب ٹائمز اور پنجاب پنچ میں شائع ہوئی وہ زِم کی ایڈٹ کردہ تھیں، لیکن زِم کا نام ان کی حفاظت کی وجہ سے کہیں شائع نہیں کیا جاتا تھا۔‘ زِم کے اپنے کالم اُن کی زندگی ہی میں ’Last Man IN‘ نامی کتاب میں شائع ہوئے۔ نقی صاحب کہتے ہیں کہ زِم نے نہ صرف فوجی آمروں سے ٹکر لی بلکہ سویلین آمروں کے سامنے بھی آواز بلند کی۔ مشرقی پاکستان میں جو ظلم ہوا اس پر اُبل رہے تھے۔ بھٹو پر تنقید کی تو پھر ان کی معزولی کے بعد ان کی حمایت بھی کی۔‘
160722_armed_forces_businesses_navy_rh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/07/160722_armed_forces_businesses_navy_rh
فوج کا سفید پوش بھائی
گیارہ سال قبل بھی کِسی سیاستدان نے پارلیمنٹ میں یہ بیہودہ سوال اُٹھایا تھا کہ پاکستانی فوج کے کتنے کاروبار ہیں۔ اُس وقت کے وزیر دفاع مرحوم راؤ سکندر نے تحریری جواب دیا تھا کہ 55۔ اِس ہفتے پارلیمنٹ میں پھر سوال اُٹھایا گیا کہ کُل کتنے دھندے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے جواب دیا 50۔
٭ ماں سے چوری ٭ ملا منصور کی وصیت دھندہ مندہ ہونے پر پریشانی تو اپنی جگہ لیکن جو چیز اُس وقت بھی پریشان کن تھی اور اب بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں دی گئی فہرست کے مطابق پاکستان نیوی کے پاس اپنی کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں ہے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ایک خاندان کے ایک سو سے زیادہ کاروبار بھی ہیں پاکستانی افواج کا پچاس پچپن بزنس چلانا کوئی اچنبے کی بات نہیں لیکن پاکستان نیوی کے پاس اپنی ایک بھی ہاؤسنگ سکیم نہ ہونا لمحہ فکریہ ہے۔ پاکستان نیوی ایک مدبر ادارہ ہے اِس پر نہ کبھی کوئی جنگ شروع کرنے کا الزام لگا ہے نہ کوئی جنگ ہارنے کا۔ اکثر مارشل لاء بھی بغیر اِسے بتائے لگا دیے جاتے ہیں۔ جہوریت آئے یا مارشل لاء بحریہ سمندری سرحدوں کی حفاظت میں مصروف رہتی ہے۔ بحریہ پاکستانی فوج میں وہ سفید پوش بھائی ہے جو ہو سکتا ہے اپنے بھائیوں کی خوشحالی دیکھ کر دِل میں کڑھتا ہو لیکن بظاہر اُن کی مال و دولت دیکھ کر ماشا اللہ ہی کہتا ہے۔ کبھی بھی کھل کر اپنا حصہ نہیں مانگتا کہ محلے والے کیا سوچیں گے۔ اگر پارلیمنٹ میں پیش کی جانے والی فہرست پر نظر ڈالیں تو پاکستان کی بّری فوج اور فضائیہ نے آپ کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے ایسی ایسی سہولیات فراہم کر دی ہیں کہ آپ کو کسی سویلین سیٹھ کو منہ لگانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔ آپ ایک ملٹری ہسپتال میں پیدا ہو سکتے ہیں جہاں پر ملٹری میڈیکل کالج کے تربیت یافتہ ڈاکٹر مناسب معاوضے پر آپ کی ابتدائی صحت یقینی بنائیں گے۔ بچے سیریل شوق سے کھاتے ہیں تو فوجی سیریل پیش خدمت ہے۔ اِس کے لیے دودھ چاہیے ہو گا تو نُور پور کا خالص دودھ دستیاب ہے۔ چینی بھی چاہیے؟ آرمی ویلفیئرشوگر مل سے لے لیں۔ بچہ تھوڑا بڑا ہو گا تو اُسے عسکری پراجیکٹ سے جوتے اور کپڑے دلوا دیں۔ سکول بھیجنا ہے تو فضائیہ ویلفیئر ایجوکیشن سسٹم میں ڈال دیں اُس کے بعد کئی یونیورسٹیوں میں معیاری تعلیم کا بندوبست ہے۔ کاشتکاری کا رجحان ہے تو اوکاڑہ سیڈز سے بیج خریدیے، فوجی فرٹیلائزرز سے لے کر کھاد ڈالیے۔ گوشت کی ضرورت ہے تو فوجی میٹ سے خریدیے۔ باہر کھانے کا چسکا ہے تو بلیو لیگون ریسٹورنٹ آ جایے، گھر چاہیے تو ڈی ایچ اے میں پلاٹ خریدیے، عسکری سیمنٹ لیں۔ پیسے کم پڑ رہے ہیں تو عسکری بینک حاضر ہے۔ ذاتی حفاظت کے لیے اگر پولیس اور رینجرز سے اعتبار اُٹھ گیا ہے تو عسکری گارڈز یا فوجی سکیورٹی سروسز میں کسی کا اِنتخاب کر لیں۔ اور اگرچہ پارلیمنٹ میں اِس کا ذکر نہیں کیا گیا اگر کوئی چوری چکاری ہوئی ہے تو تربیت یافتہ سراغ رساں کتوں کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہیں۔ یا عسکری جنرل انشورنس سے پالیسی خریدیں اور اِن سب جھمیلوں سے نجات حاصل کریں۔ اگر آپ پاکستان کی پھلتی پھولتی معیشت کو دیکھیں تو یہ کافی چھوٹے چھوٹے دھندے ہیں۔ اصل کاروبار جائیداد کا ہے جس میں فوج نے بڑا نام کمایا ہے۔ آٹھ ڈی ایچ اے بن چکے ہیں اور جو پہلے سے بنے تھے اُن کی حدیں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔ کراچی ڈی ایچ اے کا فیز 8 اِتنا بڑا ہے کہ اِس میں پہلے ساتوں فیز سما جائیں۔ پاک فضائیہ نے اِس کاِر خیر میں دیر سے حصہ ڈالنا شروع کیا لیکن چھوٹتے ہی گوجرانوالہ میں رہائشی سکیم بنا ڈالی۔ گوجرانولہ میں فضائیہ کا کوئی بیس نہیں ہے لیکن شاہین جب آشیانہ بنانے پر آتا ہے تو اِن باتوں کی پرواہ نہیں کرتا۔ اب کراچی میں شاہینوں کے آشیانے کے نام پر لگژری فلیٹ بن رہے ہیں اور دھڑا دھڑ بِک رہے ہیں۔ اب اِس پلاٹوں اور فلیٹوں کی ریل پیل میں نیوی کے پاس کیا ہے۔ کچھ نہیں۔ بس کراچی میں دو تین بلڈنگیں جہاں دفاتر کرائے پر دے کر گزارا ہوتا ہے۔ ایک کشتیاں بنانے کی ورکشاپ، کچھ پٹرول پمپ اور شاید ایک آدھ ایل این جی ٹرمینل کا وعدہ۔ بُرا ہو ملک ریاض کا جو 1996 میں نیوی سے ایک معاہدہ کر کے اِس کا نام لے اُڑا۔ تب سے پورے ملک میں بحریہ ٹاؤن کے نام سے گھر، پلاٹ اور اُن کی فائلیں بیچ بیچ کر اربوں کما چکا ہے۔ پاکستان کی اصلی بحریہ 20 سالوں سے عدالتوں کے چکر لگا رہی ہے کہ ہمارا نام ہمیں واپس دلوایا جائے لیکن عدالتیں اُس کے ساتھ وہی کر رہی ہیں جو سفید پوشوں کے ساتھ کرتی ہیں۔ کوئی ہے جو پاکستان کی بحریہ کو اُس کا نام واپس دِلوا سکے تاکہ وہ بھی اپنے دوسرے وردی پوش افسر بھائیوں کی طرح مستقبل کی فکر سے آزاد ہو سکے۔ اب تو ایئر پورٹ سکیورٹی فورس نے بھی اپنی ہاؤسنگ سکیم بنا ڈالی۔ کیا ہمارے سفید وردی والے محافظوں کی اِتنی بھی عزت نہیں؟
160712_mohd_amir_spot_fixing_rwa
https://www.bbc.com/urdu/sport/2016/07/160712_mohd_amir_spot_fixing_rwa
’میں بات نہیں کر سکتا مگر میری گیند بولے گی‘
چھ برس قبل لارڈز کے میدان میں ٹیسٹ میچ کے دوران سپاٹ فکسنگ کے جرم میں پابندی کی سزا کاٹنے کے بعد جہاں پاکستانی فاسٹ بولر محمد عامر جمعرات کو ایک مرتبہ پھر اسی میدان میں ایکشن میں دکھائی دینے والے ہیں، وہیں ان کے ساتھ دوسرے سزا یافتہ بولر محمد آصف ناروے میں کلب کرکٹ کھیل رہے ہیں اور قومی ٹیم میں واپسی کی آس لگائے بیٹھے ہیں۔
محمد آصف نے کہا کہ ہر انسان غلطی کرتا ہے اور اسے دوسرا موقع ملنا چاہیے بی بی سی کے پروگرام ’سٹمپڈ‘ میں بات کرتے ہوئے محمد آصف کا کہنا تھا کہ انگلش موسمی حالات عامر کے لیے بہت سودمند ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ ویسی ہی کارکردگی دکھا سکتے ہے جو ماضی میں ان کا خاصا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ خود انگلش کنڈیشنز میں بولنگ کرنا پسند کرتے ہیں۔ ’میں گیند دونوں جانب گھما سکتا ہوں اور یہ ایسی کنڈیشنز ہیں کہ اگر سو رنز سے زیادہ کی شراکت ہو چکی ہو اور پھر بادل آ جائیں اور گیند گھومنے لگے تو آپ جلد ہی پانچ سے چھ وکٹیں لے سکتے ہیں۔‘ آصف ان دونوں اوسلو کے نواح میں ایک کلب کے لیے کھیل کر فٹنس برقرار رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ ستمبر میں پاکستان کے ڈومیسٹک سیزن میں حصہ لے سکیں۔ پابندی سے قبل آصف نے 23 ٹیسٹ میچوں میں 106 وکٹیں لی تھیں اور وہ عالمی درجہ بندی میں دوسرے بہترین بولر تھے۔ آصف کو امید ہے کہ وہ نومبر میں پاکستانی ٹیم کے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے دوروں کے لیے قومی ٹیم میں شمولیت کے لیے کوشش کر سکیں گے۔ پابندی سے قبل آصف نے 23 ٹیسٹ میچوں میں 106 وکٹیں لی تھیں اور وہ عالمی درجہ بندی میں دوسرے بہترین بولر تھے ناروے میں کرکٹ کھیلنے کے بارے میں آصف نے کہا کہ ’آج کل پاکستان میں بہت گرمی ہے لیکن یہاں کرکٹ کے لیے موسم اچھا ہے۔ ہرے بھرے میدان ہیں اور موسم عمدہ ہے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’نیا سیزن میرے لیے بہت اہم ہے۔ میں واپس آ کر اچھی اور عالمی معیار کی کرکٹ کھیلنا چاہتا ہوں۔ اس کے لیے مجھے محنت اور سخت تربیت کی ضرورت ہے۔ ’اس سلسلے میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔ مجھے فٹ رہنا ہے، اچھی کارکردگی دکھانی ہے اور پھر میرا مقصد ٹیم کے ساتھ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے دورے پر جانا ہو گا۔‘ ماضی کے بارے میں بات کرتے ہوئے آصف نے کہا کہ ہر انسان غلطی کرتا ہے اور اسے دوسرا موقع ملنا چاہیے۔ ’ہم نے غلطی کی اور غلطی کے بعد ہر کسی کو میدان میں اترنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ میں بہت خوش ہوں کہ کرکٹ کے میدان میں واپس آیا ہوں۔ میں بات نہیں کر سکتا مگر میری گیند بولے گی۔‘ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انھوں نے آئی سی سی کو بتا دیا ہے کہ جب بھی نوجوان کھلاڑیوں کی تربیت اور بدعنوانی کے خلاف آگاہی کے لیے انھیں میری ضرورت پڑی تو میں دستیاب ہوں گا۔
070916_sabra_shatila1_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/09/070916_sabra_shatila1_sen
انصاف میں ناکامی کی نصف صدی
سینکڑوں فلسطینیوں کا قتل عام ہوا سولہ ستمبر انیس سو بیاسی کو لبنان کی عیسائی ملیشیا نے اِن کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا جب کہ اسرائیلی فوجی اِن کیمپوں کو گھیرے میں لیے رہے لبنان کے دارالحکومت بیروت میں فلسطینی پناہ گزیں کے صبرا اور شاتیلا کیمپوں میں قتل عام کو پچیس سال پورے ہو رہے ہیں۔
سولہ ستمبر انیس سو بیاسی کو لبنان کی عیسائی ملیشیا نے اِن کیمپوں میں گھس کر سینکڑوں فلسطینیوں کا قتل عام کیا تھا جب کہ اسرائیلی فوجی اِن کیمپوں کو گھیرے میں لیے رہے۔ اس بارے میں بی بی سی کی عرب ورلڈ ریجنل ایڈیٹر، کیرن اوبرائن نے ایک مراسلے میں کہا ہے کہ: ’شاید یہ کبھی بھی معلوم نہ ہوسکے کہ پچیس برس پہلے صبرا اور شاتیلا کیمپوں میں مسلسل تین روز جاری رہنے والے اِس قتل عام میں کُل کتنے فلسطینی ہلاک ہوئے تھے۔ محتاط اندازوں کے مطابق یہ تعداد سینکڑوں میں ہے جب کہ کچھ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے کی تعداد ہزاروں میں تھی۔ اپنے لیڈر بشیر جمائل کے قتل کا بدلہ لینے کے لیے جب لبنان کی عیسائی ملیشیا صبرا اور شاتیلا کیمپوں میں گھسی تو اسرائیلی فوج نے انہیں روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ بشیر جمائیل اُس وقت لبنان میں اسرائیل کے ایک اہم وفادار تھے۔ اس قتل عام نے فلسطینی نفسیات اور لبنان اسرائیل تاریخ پر ایک ایک ایسا گھاؤ ڈالا جس کا نشان تک نہیں مٹتا۔ اسرائیل کے سابق وزیر اعظم ایرئیل شیرون اُس وقت اسرائیل کے وزیر دفاع تھے اور اُنہوں نے اِس الزام کو رد کردیا تھا کہ اسرائیلی فوجی اِس قتل عام کو روکنے میں ناکام رہے لیکن بعد میں ایرئیل شیرون کو ایک اسرائیلی تفتیش میں اس واقع کا ذاتی طور پر ذمہ دار قرار دیا گیا اور انہیں اپنے عہدے سے استعفی دینا پڑا۔ ایرئیل شیرون دو برس قبل فالج کا شکار ہونے کے بعد سے مستقل بے ہوشی کی حالت میں ہیں جب کہ لبنان میں ان کے بیشتر سیاسی سیاسی اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن صبرا اور شاتیلا پناہ گزین کیمپوں میں اِس قتل عام میں بچ رہنے والے پر عزم ہیں کہ ان ہلاکتوں کو کبھی بھی نہ بھلایا جاسکے اگرچہ انصاف کے حصول کے لیے ان کی کوششیں گزشتہ پچیس سال کے دوران زیادہ تر ناکام ہی رہی ہیں۔
pakistan-51230864
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51230864
فضائیہ ہاؤسنگ سکیم: اربوں روپے کے منصوبے میں چار سال میں صرف چار عمارتیں ہی بن پائیں
محمد حنیف تیس سال متحدہ عرب امارات اور پھر سعودی عرب میں ہوا بازی کے شعبے میں کام کرنے کے بعد جنوری 2019 میں کراچی یہ سوچ کر آئے تھے کہ اب وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ پاکستان میں رہیں گے۔
اس مقصد کے لیے انھوں نے کراچی کے مضافاتی علاقے گلشنِ معمار کے نزدیک واقع فضائیہ ہاؤسنگ سکیم (ایف ایچ ایس) کی زمین میں پچھلے چار سال سے سرمایہ بھی لگایا ہوا تھا۔ ان چار برسوں میں تین لاکھ کی ماہانہ رقم ایف ایچ ایس کے اکاؤنٹ میں جمع کرانے والے محمد حنیف نے پاکستان واپسی کے بعد جب گلشنِ معمار میں ڈریم ورلڈ ریزورٹ کے پاس اپنی زمین کا معائنہ کرنے کی غرض سے چکر لگایا تو وہ دنگ رہ گئے۔ 'میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ اب تک تو وہاں گھر بن گئے ہوں گے مگر اُدھر تو ویران زمین، بجری اور تین ٹرکوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔' مگر محمد حنیف کی حیرانی اس وقت پریشانی میں بدل گئی جب ان کی پاکستان واپسی کے ایک ماہ بعد، فروری 2019 میں ڈان اخبار میں اینٹی کرپشن سیل کی جانب سے ایک اشتہار میں 'فراڈ الرٹ' کے نام سے جاری کردہ فہرست میں 123ویں نمبر پر فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کا نام بھی شامل تھا۔ یہ بھی پڑھیے سستی ہاؤسنگ کے نام پر زمین کروڑوں کی کیسے بنی؟ بحریہ ٹاؤن سے ملنے والی رقم کہاں جائے گی؟ چین میں پانچ کروڑ گھرخالی کیوں ہیں؟ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کا آغاز کیسے ہوا؟ سنہ 2014 کے آخر میں کراچی کے مختلف علاقوں میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے بینر اور پوسٹر نظر آنا شروع ہوئے جن کو دیکھ کر کئی لوگوں نے اس سکیم میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچا۔ اِن لوگوں میں خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانی بھی شامل تھے جنھیں ٹی وی چینلز، اخبارات اور رشتہ داروں کے ذریعے اس منصوبے کے بارے میں پتا چلا۔ 16 جنوری 2015 میں کراچی سے تعلق رکھنے والی مارکیٹنگ کمپنی میکزم اور پاکستان ائیر فورس (پی اے ایف) نے مشترکہ طور پر اس پراجیکٹ کے کاغذات پر اسلام آباد میں ائیر ہیڈ کوارٹرز میں دستخط کر کے اس کا آغاز کیا۔ کراچی حیدر آباد موٹروے ایم-نائن اور ناردرن بائی پاس کے نزدیک فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے زیر انتظام منصوبہ دو فیز پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک حصہ گلشنِ معمار کے نزدیک 32 ایکڑ کی زمین پر محیط ہے جسے 'سائٹ ون' کہا گیا جبکہ دوسرا حصہ ناردرن بائی پاس کے پاس 370 ایکڑ کی زمین کی شکل میں ہے جسے ’سائٹ ٹو‘ قرار دیا گیا۔ یہ دونوں فیز کراچی کے شمالی مضافات میں شہر سے تقریباً 25 منٹ کے فاصلے پر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کو 30 ایکڑ کی اضافی زمین بھی ملی ہوئی ہے جو فضائیہ کے ترجمان کے مطابق ابھی تک استعمال نہیں ہوئی ہے۔ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم سائٹ ون کی زمین کی حدود لال رنگ سے نمایاں کی گئی ہوئی ہے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی زمینوں پر تعمیراتی کام 2015 میں شروع ہوا۔ متاثرہ خاندانوں کا کہنا ہے کہ وہ ماہانہ قسطیں جمع کراتے رہے مگر اُن کو انتظامیہ کی جانب سے ہاؤسنگ سکیم کے آگے بڑھنے کے بارے میں معلومات نہیں دی گئیں۔ پاکستان کی فضائیہ کا اس بارے میں موقف ہے کہ انھوں نے تعمیراتی کام 2019 کے شروع میں روک دیا تھا لیکن حکومتی دستاویزات اور متاثرہ خاندانوں کے بیانات پی اے ایف کے بیان سے مختلف منظر پیش کرتے ہیں۔ اس حوالے سے چند متاثرین جیسے محمد حنیف، محمد سعد* اور محمد عادل* نے چار سال تک جمع کرائی جانے والی رقوم کی تفصیلات بی بی سی سے شیئر کیں۔ متاثرہ خاندان دونوں علاقوں میں رُکے ہوئے کام کی تصاویر شواہد کے طور پر دکھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ تعمیراتی کام کافی پہلے رُک گیا تھا جس کی ہاؤسنگ سکیم سے منسلک ترجمان تردید کرتے ہیں۔ پاک فضائیہ یا میکزم، منصوبہ کا ذمہ دار کون؟ میکزم نامی کمپنی کراچی میں زمین کی خرید و فروخت کا کام کرتی ہے۔ اس کمپنی کے بارے میں زیادہ معلومات موجود نہیں ہیں لیکن ان کی ویب سائٹ کے مطابق وہ خود کو کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں زمین کی خرید و فروخت کا ایک 'اہم حصہ' ظاہر کرتے ہیں۔ میکزم کے مطابق اُن کے پاس کراچی کے مختلف علاقوں، خاص کر شہر کے مضافات میں زمینیں رکھی ہوئی تھیں جس کو انھوں نے 1998 میں خریدا تھا۔ میکزم کمپنی کے ایک سینئر افسر سے جب بات کی گئی تو انھوں نے اپنا نام نہ بتانے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ میکزم اور فضائیہ کے درمیان معاہدے میں یہ طے ہوا تھا کہ پچاس فیصد زمین فضائیہ نے شہدا اور جونئیر افسران کے لیے مختص کی تھی جبکہ پچاس فیصد شہریوں کے لیے۔ عام شہریوں سے منسلک کام میکزم کے حصے میں آیا جبکہ فضائیہ کے افسران کی زمین کا ذمہ پاکستان فضائیہ نے اٹھایا۔ اس سلسلے میں ایک پراجیکٹ مینیجنگ کمیٹی بنائی گئی جس میں پاک فضائیہ کے تین حاضر سروس افسران اور میکزم کے تین افسران کو شامل کیا گیا۔ میکزم کے افسر کے مطابق منصوبے کے بینر، پوسٹر اور اشتہارات میں فضائیہ کا نام استعمال کیا گیا جس پر میکزم نے اعتراض اس لیے نہیں کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ زمین کی فروخت میں پاکستان فضائیہ کا نام استعمال کرنا کارآمد ثابت ہوسکتا تھا، اور حقیقت میں بھی یہی ہوا۔ منصوبے کے اشتہارات کی مدد سے پانی اور بجلی کے مسائل سے تنگ کراچی کے عوام کے لیے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے نام پر شہر کے مضافات میں ایک نیا شہر بنانے کا خواب دکھایا گیا۔ گلشنِ معمار میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی زمین کے بالکل پیچھے تفریح کے غرض سے بنایا گیا ڈریم ورلڈ ریزورٹ ہے جہاں رہائشی فلیٹس کے علاوہ سوئمنگ پول تک بنائے گئے ہیں اور اس کو دیکھ کر ایسا تاثر ملتا ہے جیسے کہ یہ دبئی کے کسی علاقے میں بنایا گیا ہو۔ ان اشتہارات کو دیکھ کر متاثر ہونے والے افراد جیسے دبئی کے محمد سعد٭ اور بحرین کے محمد خالد٭ کو ایف ایچ ایس کے بارے میں بتایا گیا کہ 'منصوبے کے مکانات اور یہاں کا رہن سہن اس ریزورٹ سے بھی بہتر ہوگا۔' منصوبے کی دستاویزات کے مطابق کراچی کے ناردرن بائی پاس اور گلشنِ معمار میں 2700 کے قریب لگثری اپارٹمنٹ بننے تھے۔ لیکن ان چار برسوں میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے ترجمان اب تک صرف چار منزلیں کھڑی کرنے کا دعویٰ کر پائے ہیں۔ کیا منصوبے کے آغاز کی باقاعدہ اجازت لی گئی تھی؟ کسی بھی زمین پر تعمیراتی کام شروع کرنے سے پہلے حکومت سے اجازت لینی پڑتی ہے۔ اس اجازت کے بعد حکومت منصوبے کا بلڈنگ پلان منظور کرتی ہے اور پھر تعمیراتی کام شروع کیا جاتا ہے۔ لیکن فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی دفعہ پاکستان فضائیہ نے منصوبے کی دونوں سائٹس کی بیلٹنگ کروائی، پھر اُس پر بغیر اجازت لیے کام شروع کروا دیا۔ منصوبے میں زمین کے خریدار محمد سعد٭ کے مطابق کراچی کی پی اے ایف بیس فیصل میں سنہ 2015 میں بیلٹنگ کرائی گئی جہاں فارم خریدنے والوں کے مطابق ہزار روپے کے جاری کردہ فارم چالیس ہزار روپے میں فروخت کیے گئے۔ مگر فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی زمین کا نہ تو کوئی بلڈنگ پلان سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) سے منظور ہوا اور نہ ہی کسی قسم کا این او سی یعنی منظوری لی گئی اور بغیر باضابطہ اجازت اس پراجیکٹ پر دو سال متواتر کام چلتا رہا۔ ایس بی سی اے کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہماری طرف سے زمین کی منظوری سے متعلق تین نوٹسز 7 فروری، 13 فروری اور 14 فروری 2019 کو فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے منتظمین کو بھیجے گئے جس کا ہمیں جواب موصول نہیں ہوا۔‘ اس حوالے سے بی بی سی کے سوال پر میکزم کمپنی کے افسر نے کہا 'ہم نے جب زمین کی منظوری کے بارے میں پوچھا تو پی اے ایف کے ترجمان نے کہا کہ فوج سے منسلک اداروں کو زمین کی منظوری نہیں چاہیے ہوتی۔ انھوں نے ہمیں کہا کہ ہمارا نام ہی کافی ہے۔' البتہ پاکستان فضائیہ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت نیب کی انکوائری جاری ہے اور مقدمہ احتساب عدالت میں پیش ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ وہ کوئی بھی بیان نہیں دینا چاہتے۔ ایس بی سی اے کے ذرائع کے مطابق فروری 2019 میں نوٹس ملنے کے بعد پاکستان فضائیہ نے سندھ کے وزیرِ اعلٰی مراد علی شاہ سے بات چیت کر کے پراجیکٹ کا بلڈنگ پلان منظور کروانے کی کوشش کروائی۔ لیکن کراچی میں گذشتہ چند برسوں میں بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی اور ملیر ڈیویلپمنٹ کی گٹھ جوڑ کے نتیجے میں زمین کے قبضے کی خبریں آنے کے بعد وزیرِ اعلیٰ نے اس معاملے میں پڑنے سے انکار کردیا۔ میکزم کے ترجمان نے نوٹس ملنے کے بارے میں کہا کہ 'ہمیں یہ درخواستیں موصول ہی نہیں ہوئیں تو ہم جواب کیا دیتے۔ ہمارے ہاتھ میں اس سکیم کی باگ ڈور نہیں تھی۔ یہ خطوط پی اے ایف کو جارہے تھے۔ کیونکہ سکیم اُن کے نام پر تھی۔' فروری 2019 میں ڈان اخبار میں شائع ہونے والی فہرست میں ایف ایچ ایس کا نام دیکھ کر منصوبے میں سرمایہ لگانے والے افراد میں کھلبلی مچ گئی۔ خواہ وہ سویلین ہوں یا پھر پاکستان کی فضائیہ سے جُڑے خاندان، سب نے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم میں موجود اپنی زمین اور اس پر خرچ کی گئی رقم کی واپسی کے بارے میں جاننے کے لیے فون گھمانا شروع کردیے۔ یہ بھی پڑھیے بحریہ ٹاؤن کے خلاف تحقیقات کا باقاعدہ آغاز بحریہ ٹاؤن کی 405 ارب روپے کی پیشکش بھی مسترد ’کس قانون کے تحت بحریہ کو زمین دی گئی‘ محمد حنیف نے اس بارے میں کہا کہ 'میں نے اب تک 75 لاکھ روپے اس زمین پر خرچ کیے ہیں۔ جس بات کا شک مجھے زمین کی حالت دیکھ کر ہوا تھا وہ اشتہار پڑھ کر یقین میں بدل گیا۔' محمد حنیف کے علاوہ پچھلے چار برسوں میں شہریوں نے ایف ایچ ایس میں اپنی زمینوں کی مد میں حبیب بینک کے ذریعے تقریباً 18 ارب کی رقم جمع کروائی ہے۔ اینٹی کرپشن سیل کی فہرست کی اشاعت کے بعد میکزم نے بھی قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ شروع کیا اور مئی 2019 میں زمین کے کاغذات نہ ملنے کے حوالے سے پاکستان فضائیہ پر سندھ ہائی کورٹ میں مقدمہ درج کردیا۔ این او سی کے بغیر تعمیراتی کام کیسے شروع ہوا؟ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے تعمیراتی کام میں چین کے شانژی صوبے سے تعلق رکھنے والی چینی کمپنی شانژی فارن اکنامک ٹریڈ انڈسٹریل گروپ نے دو سال بعد منصوبہ چھوڑ دیا ان حقائق کی روشنی میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان فضائیہ نے اس سکیم جس میں وہ شہدا کے خاندانوں کے لیے ہاؤسنگ سوسائٹی تعمیر کر رہے تھے، اربوں روپے کی سرمایہ کاری ایک نجی کمپنی کے ساتھ مل کر کسی بھی قسم کی معلومات اور اجازت حاصل کیے بغیر کیسے شروع کر لی۔ واضح رہے کہ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے تعمیراتی کام میں چین کے شانژی صوبے سے تعلق رکھنے والی چینی کمپنی شانژی فارن اکنامک ٹریڈ انڈسٹریل گروپ کو بھی شامل کیا گیا تھا۔ لیکن چینی بلڈنگ کوڈ اور پاکستانی کوڈ کے مختلف ہونے کے باعث دونوں کمپنیوں نے پراجیکٹ میں شامل ہونے کے دو سال بعد مشترکہ طور پر علیحدہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کی فضائیہ اور میکزم دونوں ہی خود کو اس بات سے مکمل طور پر بےخبر ظاہر کر رہے ہیں کہ زمین کی منظوری کے بارے میں معلومات کس کے پاس تھیں۔ اس کے باوجود میکزم کے ترجمان اس بارے میں اب بھی امید لگائے بیٹھے ہیں اور کہتے ہیں کہ 'اگر فضائیہ اضافی رقم لگائے تو سکیم اب بھی چل سکتی ہے۔' مگر دوسری جانب پاکستان فضائیہ کی جانب سے تاثر دیا گیا ہے کہ اب اس پراجیکٹ کا آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ کیا پاکستان کی افواج زمین کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرسکتی ہیں؟ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے متاثرین اپنی رقم کی واپسی کے لیے احتجاج کرنے کے لیے کراچی میں پی ای ایف فیصل بیس کے سامنے متعدد بار جمع ہوئے محمد سعد٭ اور ان کے ساتھ شامل دیگر متاثرین کے خاندانوں نے جب فضائیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور اپنی اربوں روپے کی رقم واپس نکلوانے کے لیے وکیلوں سے رجوع کیا تو انھیں بتایا گیا کہ آرمی ایکٹ 1952 کے تحت فوج، فضائیہ اور بحریہ زمین میں کاروبار کی غرض سے سرمایہ نہیں لگا سکتے۔ اسی حوالے سے 5 دسمبر 2019 کو کراچی کے ایک رہائشی و سماجی کارکن محمود اختر نقوی نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے۔ درخواست کے متن کے مطابق آئین کے آرٹیکل 243، 244 اور 245 جبکہ آرمی ایکٹ 1952 اور آرمی رُولز اینڈ ریگولیشن کے تحت افواجِ پاکستان کے بری، بحری اور فضائی افواج اپنا نام ہاؤسنگ سکیم میں استعمال نہیں کرسکتے اور نہ ہی اپنا نام تجارت کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ محمود اختر نقوی نے عدالت سے استدعا کی کہ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم، ڈیفنس ہاؤسنگ سکیم، ایئر فورس ہاؤسنگ سکیم اور ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کے نام پر بنائی گئی سکیموں کی جانچ پڑتال کرتے ہوئے پابندی لگائی جائے۔ انھوں نے گزارش کی کہ افواجِ پاکستان پر کسی بھی طرح اپنا نام استعمال کرنے پر پابندی لگائی جائے تاکہ لوگوں کے اربوں روپے بچائے جاسکیں۔ واضح رہے کہ اس ہاؤسنگ سکیم کے آغاز سے لے کر اب تک پاکستان فضائیہ نے اپنا مؤقف یہی رکھا ہے کہ وہ کمرشل سرمایہ کاری کے بجائے پاک فضائیہ کے شہدا کے لیے گھر بنانا چاہتے تھے۔ منصوبے کے مستقبل کے بارے میں سوال پر پاکستان فضائیہ کے ترجمان نے کہا کہ وہ سب سے پہلے اپنے ادارے کا نام صاف کرنا چاہتے ہیں اور مزید جوابات کے لیے نیب کی انکوائری کی تکمیل تک انتظار کرنے کو کہا۔ گذشتہ سال نیب کی جانب سے نومبر 2019 میں ایک جاری کردہ پریس ریلیز میں فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے خلاف تازہ انکوائری شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ پریس ریلیز میں کہا گیا کہ فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کی غلط بیانی اور مبینہ فراڈ کی وجہ سے تقریباً 6000 افراد متاثر ہوئے ہیں جنھوں نے ان زمینوں پر 13 ارب روپے کا سرمایہ لگایا ہوا ہے۔ یہ رقم متاثرہ خاندانوں اور میکزم کی طرف سے بتائی گئی رقم (18 ارب) سے کم بتائی جارہی ہے۔ دوسری جانب میکزم کے ترجمان کا دعویٰ ہے کہ اب تک دو ارب کی رقم ان افراد کو واپس کر دی گئی ہے جن کا نام زمین کی قرعہ اندازی میں نہیں نکلا۔ یاد رہے کہ گذشتہ تین برسوں میں نیب کی طرف سے شروع کی گئی یہ تیسری 'تازہ' تفتیش ہے۔ نیب کی کارروائی میں اب تک کیا ہوا ہے؟ 28 دسمبر 2019 کو نیب نے میکزم کے مالکان، تنویر احمد اور اُن کے بیٹے بلال تنویر کو اپنی تحویل میں لے لیا جس کے بعد احتساب عدالت کی حالیہ سماعت کے دوران میکزم کے مالکان کے ریمانڈ میں مزید دس دن کی توسیع کر دی گئی۔ احتساب عدالت نے فضائیہ ہاؤسنگ سکیم کے معاملے میں ملوث دیگر افراد کو بھی بلایا مگر اب تک اس معاملے میں ہونے والی یہ واحد گرفتاریاں ہیں۔ پاکستان فضائیہ جہاں اپنا نام صاف کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے، وہیں میکزم کا الزام ہے کہ اُن کی کمپنی کو نیب کے ذریعے ہراساں کیا جارہا ہے اور اس سکیم کے نقصان کا سارا الزام بھی اُن پر لادا جارہا ہے۔ پاکستان کی فضائیہ کا کہنا ہے کہ نیب اپنی طرف سے تمام تر تفتیش جب تک مکمل نہیں کرتی وہ میکزم یا باقی الزامات کا جواب نہیں دیں گے۔ پاکستان کی فضائیہ کو نیب کی طرف سے 20 سوالوں پر مشتمل سوالنامہ بھیجا گیا ہے اور اس وقت ادارہ اس کے جوابات مرتب کرنے میں مصروف ہے۔ متاثرین کا احتجاج مگر کوئی شنوائی نہیں اس سکیم میں متاثر ہونے والے تقریباً 800 افراد محمد حنیف کے ساتھ مل کر کراچی میں پی اے ایف بیس فیصل کے سامنے کئی بار احتجاج کر چکے ہیں مگر ان مظاہروں میں صرف سویلین شامل رہے ہیں۔ محمد حنیف کو بھی اب تک مختلف ذرائع اور طریقوں سے احتجاج نہ کرنے کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔ 'کبھی کسی دوست کے ذریعے اور کبھی کسی افسر کے ذریعے منع کرتے ہیں کہ آپ کے حق میں بہتر ہے کہ بات نہ بڑھائیں۔ اب اِن کو کیا پتا کہ میری زندگی کی جمع پونجی میں نے اس زمین میں لگائی ہے۔ اس کے باوجود دھمکیوں کا سلسلہ نہیں رُک رہا ہے۔' انھوں نے کہا کہ ان کی خواہش تھی کہ ’میں ایسی جگہ گھر بناؤں جہاں پاکستان کی افواج اور فضائیہ کے لوگ ہوں، لیکن اب میں چاہتا ہوں کہ اُن کا محاسبہ ہو۔' محمد حنیف کے ہمراہ دیگر متاثرین اب عدالت کا رُخ کرنے کا سوچ رہے ہیں مگر ان میں سے چند کو انصاف کی زیادہ امید نہیں ہے۔ جن افراد کے نام کے آگے * کا نشان ہے ان کی شناخت کے لیے فرضی نام استعمال ہوئے ہیں۔
world-56121320
https://www.bbc.com/urdu/world-56121320
فرانس میں نئے قانون سے مسلمان کیوں پریشان ہیں؟ ’عربی میں بات کی تو ایک فرانسیسی خاتون چیخ کر مجھے دہشتگرد اور مہاجر کہنے لگی‘
'میں سنہ 2009 سے فرانس میں رہ رہی ہوں اور میں نے کبھی بھی نہ اجنبیت محسوس کی اور نہ ہی مجھے کسی نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن حکومت اور میڈیا کی جانب سے اس نئے قانون کے بارے میں بحث شروع ہونے کے چند روز بعد مجھے ایک انتہائی نامناسب رویے کا سامنا کرنا پڑا جو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔
‘اُس روز میں بس میں سفر کے دوران کسی سے عربی زبان میں بات کر رہی تھی کہ اچانک ایک فرانسیسی خاتون نے مجھ پر چیخنا شروع کر دیا۔ وہ مجھے دہشتگرد اور مہاجر کہہ رہی تھی اور یہ کہ میں فرانس کے بغیر کچھ نہیں ہوں۔‘ یہ کہنا تھا حفضہ علامی کا جو کہ ایک مراکشی نژاد فرانسیسی شہری ہیں اور الجزیرہ ٹی وی کے لیے کام کرتی ہیں۔ سنہ 2017 میں جب فرانس کے صدارتی انتخابات کی رپورٹنگ کے لیے میں پیرس گیا تھا تو وہاں ہماری ملاقات ہوئی تھی۔ وہ اس وقت بھی فرانس میں ثقافتی اور مذہبی تنوع کے بارے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت پر کچھ پریشان تھیں۔ لیکن اب انھیں اپنے خدشات حقیقت میں بدلتے نظر آ رہے ہیں۔ ‘میں سوچتی ہوں کہ میرے ساتھ ایسا واقعہ پیش آیا جبکہ میں تو حجاب بھی نہیں کرتی۔ تو میں تصور کر سکتی ہوں کہ سکارف یا عبایہ وغیرہ پہننے والی خواتین کو کیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دوسری جانب ایک صحافی کے طور پر کام کرنے میں مجھے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا کیونکہ فرانسیسی لوگ پڑھے لکھے اور قابل افراد کی عزت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ کسی عرب مسلمان سے ملتے ہیں تو ان کا پہلا تاثر یہ ہوتا ہے کہ یہ ایک جاہل اور غریب آدمی ہوگا۔ اس بارے میں فرانسیسی لوگوں کی سوچ کافی تنگ نظر اور طے شدہ ہے۔' یہ بھی پڑھیے فرانس میں مسلمانوں کی تاریخ اور قومی شناخت کا محافظ نظریہ ’لئی ستے‘ کیا ہے؟ فرانسیسی معاشرے میں کشیدگی، مسلمان مستقبل کے بارے میں فکرمند شدت پسندی کے خلاف فرانس کے نئے قانونی مسودے میں کیا ہے؟ حفضہ علامی مراکشی نژاد فرانسیسی شہری ہیں جو الجزیرہ ٹی وی کے لیے کام کرتی ہیں۔ فرانس کی قومی اسمبلی نے گذشتہ منگل کو ایک نئے قانون کی منظوری دے دی تھی جسے بقول فرانسیسی حکومت 'شدت پسندی' اور 'معاشرے سے الگ تھلک رہنے' کا مقابلہ کرنے والوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ اب اس قانون کو ایوانِ بالا میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس قانون کی حمایت کرنے والے فرانسیسی سیاستدانوں کا کہنا ہے اس طرح تشدد کے واقعات کی اصل وجوہات کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ قانون میں ہے کیا؟ اس قانون میں اسلام اور مسلمانوں کا نام تو نہیں لیا گیا ہے لیکن مبصرین کے خیال میں اسں کی سمت مسلمانوں کی ہی جانب ہے۔ فرانسیسی حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد سب کو فرانسیسی معاشرے کی بنیادی اقدار میں شامل کرنا ہے۔ عبادت گاہیں اور مذہبی تنظیمیں اس نئے قانون کے تحت ’عبادت گاہوں کو قوم پرستی‘ اور ’دوسرے ممالک کی حکومتوں کی حمایت‘ کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔ سب کو ملک کے سیکولر تشخص کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ خاص طور پر ایسی تنظیموں اور عبادت گاہوں کی نگرانی کو ضروری قرار دیا گیا ہے جو ’انتہا پسندانہ عقیدے کو فروغ دینے میں مصروف ہیں۔‘ اگر کسی مذہبی رہنما کے متعلق پتا چلا کہ وہ فرانسیسی اقدار کے خلاف بات کرتا ہے تو اسے معزول کیا جا سکے گا۔ اس قانون کے تحت مذہبی تنظیموں اور عبادت گاہوں کو بند کرنے کے حکومتی اختیارات کو نمایاں طور پر بڑھایا جائے گا۔ بیرون ملک جیسے ترکی، قطر یا سعودی عرب سے آنے والی مالی امداد اگر 10 ہزار یورو سے زیادہ ہوگی تو اسے ظاہر کرنا ہوگا اور کھاتوں کی جانچ پڑتال ہوگی۔ مذہبی تنظیموں کے لیے مالی شفافیت کے نئے اصول وضع کیے جائیں گے۔ فرانسیسی حکومت کی مالی معاونت حاصل کرنے کے لیے تمام مذہبی تنظیموں کو لکھ کر دینا ہوگا کہ وہ ’فرانس کی لبرل اور روشن خیال اقدار‘ کو تسلیم کرتے ہیں۔ سکول اور تعلیم اس قانون کے تحت تین سال سے زیادہ عمر کے بچوں کو گھر پر تعلیم کی اجازت کی شرائط کو سخت کر دیا جائے گا تاکہ والدین کو بچوں کو سکولوں سے دور رکھنے سے روکا جا سکے۔ جبکہ بلا اجازت قائم کیے گئے سکولوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ گھروں پر سکولنگ کی کڑی نگرانی ہوگی۔ کنوارے پن کا ٹیسٹ اور شادیاں اس قانون میں شادی سے پہلے کنوارے پن کا ٹیسٹ کروانے پر سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔ اسی طرح زبردستی کی شادیوں کو رکوانے کے لیے حکومتی اداروں کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ خاتون اور مرد کا علیحدہ علیحدہ انٹرویو کریں اور یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہیں ان کی شادی والدین کی جانب سے زبردستی تو نہیں کروائی جا رہی۔ فرانس کے قانون کے تحت بیک وقت ایک سے زیادہ شادیاں تو پہلے ہی سے ممنوع ہیں لیکن اس نئے قانون کے تحت ایسے تارکینِ وطن کو فرانس میں رہائشی اجازت نامہ نہیں مل سکے گا جن کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں۔ سیکولرازم کے اصولوں کا احترام کسی بھی شخص یا ادارے کو، جس میں نجی کمپنیاں بھی شامل ہیں جو ریاستی خدمات فراہم کر رہی ہیں، سیکولرازم کے اصولوں کا احترام اور عوامی خدمات کی غیر جانبداری کو یقینی بنانا ہوگا۔ اِسی اصول کے تحت عوامی سوئمنگ پولز میں خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ وقت مقرر کرنے پر پابندی ہوگی۔ پبلک سروس کو اِن خدمات کی خلاف ورزی پر مجبور کرنے کی کسی بھی کوشش کی سزا پانچ سال قید اور 75 ہزار یورو جرمانہ ہو سکتی ہے۔ کسی سرکاری ملازم کو مذہبی بنیادوں پر ڈرانے دھمکانے والوں کو بھی سخت سزا ہو گی۔ کسی سرکاری ملازم کی نجی معلومات شیئر کرنا اور لوگوں کو اس کے خلاف اکسانا بھی جرم ہوگا۔ فرانس میں کچھ مبصرین اور سیاستدان حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ مذہب کو نشانہ بنانے کے لیے اس قانون کا استعمال کر رہی ہے۔ لیکن وزیراعظم ژاں کیسٹکس نے کہا ہے کہ یہ قانون مذاہب کے خلاف یا خاص طور پر اسلام کے خلاف نہیں ہے۔ فرانس میں 60 لاکھ کے قریب مسلمان رہتے ہیں جن کی اکثریت کا تعلق شمالی افریقی ممالک مثلاً الجزائر، مراکش اور تیونس سے ہے، جو فرانس کی کالونیاں رہ چکے ہیں۔ فرانس میں سنہ 2015 سے اب تک مسلمان شدت پسندوں کے حملوں میں ڈھائی سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم گذشتہ برس توہین آمیز خاکوں کو سکول میں دکھانے والے استاد کے قتل کے بعد سے فرانس میں مسلمانوں کی طرف غصے کی ایک نئی لہر نے جنم لیا ہے اور مبصرین کے خیال میں یہ قانون سازی بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ ’مسلمان ہونا ایک احساس جرم بن جائے گا‘ فرانس میں رہنے والے بعض مسلمانوں کا خیال ہے کہ اس نئے قانون میں بظاہر تو کئی اچھے نکات ہیں لیکن خدشہ یہ ہے کہ اس قانون کی آڑ میں مسلمانوں کو مزید دیوار سے لگایا جائے گا۔ مسلمان فرانسیسی معاشرے میں گھلنے ملنے کے بجائے مزید دور ہو جائیں گے اور معاشرتی بیگانگی کا شکار ہوں گے۔ صحافی حفضہ علامی کہتی ہیں کہ یہ قانون مسلمانوں کو نشانہ بنائے گا جو رپبلکن اصولوں اور اقدار کے دشمن نہیں ہیں، وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ یہ قانون مسلمانوں کو ایک عام شہری کے بجائے اجنبی اور درانداز کے طور پر دیکھے گا۔ ان کے خیال میں یہ لوگوں کی شہری آزادیوں کو سلب کرے گا اور سیکولرازم کو تنگ نظری سے نافذ کرے گا۔ حفضہ کو خدشہ ہے کہ اس قانون کی وجہ سے نسل پرستانہ قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور مسلمان ہونا ایک احساس جرم بن جائے گا جس کے نتیجے میں مسلمان اپنی عبادت گاہوں میں جانے سے گریز کریں گے۔ 'مسجدوں میں جا کر عبادت کرنا اتنا سادہ عمل نہیں رہے گا۔ وہ مسلمان جو نوکریوں یا تعلیم کے لیے فرانس آنا چاہتے ہیں ان کی حوصلہ شکنی ہوگی کیونکہ فرانس میں مسلمانوں کی زندگیاں مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی ہیں۔' فرانس میں سنہ 2015 سے اب تک شدت پسندوں کے حملوں میں ڈھائی سو سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’کئی لوگ پاکستان منتقل ہو چکے ہیں یا ایسا کرنے کا سوچ رہے ہیں‘ آصفہ ہاشمی پیرس کے شمال میں ایک مضافاتی علاقے کی رہائشی ہیں۔ وہ ایک طرف تو فرانسیسی معاشرے میں تمام رنگ و نسل اور مذہبی برادریوں کو ملنے والی آزادیوں اور برابری کی تعریف کرتی ہیں لیکن انھیں اس نئے قانون پر کچھ تشویش بھی ہے۔ آصفہ ہاشمی کا کہنا ہے کہ فرانسیسی اقدار کو اپنانے کے لیے مسلمانوں پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے اور وہ کئی ایسے لوگوں کو جانتی ہیں جو اب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے لیے جس طرح کی مذہبی زندگی چاہتے ہیں اس کی آزادی فرانس میں مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ 'میرے جاننے والوں میں کئی لوگ ایسے ہیں جو یا تو پاکستان منتقل ہو چکے ہیں یا ایسا کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ اس نئے قانون کی وجہ سے لوگوں کے خوف میں مزید اضافہ ہوا ہے کہ جیسے اب ہر وقت ان کی نگرانی کی جائے گی۔' آصفہ فرانس میں ملنے والی آزادیوں کی تعریف بھی کرتی ہیں۔ 'اگر آپ قانون کا احترام کریں تو آپ کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ یہاں ہم پاکستان سے زیادہ اچھی طرح رمضان گزارتے ہیں۔ گھروں پر میلاد ہوتے ہیں، سپیکروں پر نعتیں پڑھی جاتی ہیں جن کی آوازیں گھروں سے باہر جاتی ہیں لیکن کبھی بھی محلے والوں یا حکام نے کچھ نہیں کہا۔ میرے خیال میں حکومتی سطح پر اور میڈیا میں جتنی شدت سے بات ہوتی ہے عام محلوں اور علاقوں میں صورتحال اتنی سنگین نہیں ہوتی۔' آصفہ خود ایک آفس میں کام کرتی ہیں جہاں باقی دفاتر کی طرح نقاب پہننے پر پابندی ہے۔ انھوں نے گذشتہ کچھ برسوں میں آہستہ آہستہ حالات کو تبدیل ہوتے دیکھا ہے۔ وہ حکومت کی مجبوریوں کو بھی سمجھتی ہیں۔ 'ہم تھوڑے پریشان ہیں۔ جب ہم آپس میں بات کرتے ہیں تو اس میں عام گھریلو مسائل کے علاوہ مستقبل کے خدشات پر بھی بات ہوتی ہے۔ چند لوگوں کی حرکتوں کی وجہ سے سب کو مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘ ’جس طرح کے پُرتشدد واقعات ہوئے ہیں اور معصوم لوگوں کو ہلاک کیا گیا ہے اس کے بعد حکومت کا اتنا حق تو بنتا ہے کہ وہ سکیورٹی کو سخت کرے اور ایسے واقعات کو روکنے کے لیے اقدامات کرے۔' تاہم ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی مذہب کی قابلِ احترام شخصیات کے بارے میں بھی قانون ہونا چاہیے۔ 'آزادیِ رائے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دوسروں کی دل آزاری کی جائے۔' موجودہ صورتحال کا فرانس کی تاریخ سے تعلق فرانس میں مسلمانوں نے ’اسلاموفوبیا‘ کے خلاف احتجاجی ریلیاں نکالی ہیں پیریس کے رہائشی اسد الرحمان فرانسیسی معاشرے پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وہ پولیٹیکل سائنس کے شعبے میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جن مسائل کے تدارک کے لیے یہ قانون متعارف کرایا جا رہا ہے بہت مشکل ہے کہ یہ قانون اس سلسلے میں کوئی مدد کر سکے۔ 'اگر ہم اس صورتحال کو مذہبی کے بجائے نسل کی بنیاد پر دیکھیں تو زیادہ بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔‘ 'فرانس کے مسلمانوں میں سے زیادہ تر کا تعلق شمالی افریقہ کے ممالک سے ہے جو فرانس کی کالونی رہے ہیں۔ فرانس کے ساتھ ان مسلمانوں کا ایک کلونیئل تعلق ہے جس میں بڑی پیچیدگی ہے۔ مثلاً اگر آپ الجزائر کی بات کریں تو اس نے تحریک چلائی اور فرانس سے آزادی حاصل کی۔ فرانس نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ایک بھرپور آپریشن کیا لیکن آخر کار فرانس کو الجزائر سے نکلنا پڑا اور سنہ 1962 میں الجزائر آزاد ہو گیا۔‘ ’اس کے بعد فرانس کی سکیورٹی اداروں میں جو زیادہ تر لوگ شامل کیے گئے یہ وہ فوجی تھے جنھوں نے الجزائر کے لوگوں کے خلاف آپریشن میں حصہ لیا تھا۔ ان ہی لوگوں کو فرانس میں پولیس میں بھرتی کیا گیا۔ نئے انتظامی ڈھانچے میں یہی لوگ شامل کر دیے گئے۔ تو مسلمانوں کے ساتھ ان کے کشیدہ تعلقات پہلے ہی سے موجود تھے جو مذہبی سے زیادہ نسلی تھے۔ سکیورٹی اداروں خاص طور پر پولیس میں ان لوگوں کی بڑی تعداد کی وجہ سے شمالی افریقہ سے آنے والے مسلمانوں اور اداروں کے درمیان ایک منافرت کا رشتہ بن گیا۔' اسد الرحمان کہتے ہیں کہ موجودہ کشیدہ کی وجہ صرف یہ نہیں ہے کہ چند سیاستدان کچھ وقتی فائدے حاصل کرنے کے لیے ایسے اقدامات کر رہے ہیں جن سے انھیں آنے والے انتخابات میں کامیابی مل سکے۔ ان کے مطابق اس مسئلے کی جڑیں فرانس میں بہت گہری ہیں۔ وہ کہتے ہیں 'فرانسیسی اپنی نسل کے حوالے سے بہت حساس ہیں۔ وہ اپنی شناخت، روایات اور اقدار کی بقا کے معاملے پر بہت حساس ہیں۔ اس میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے۔ مسلمان ایک ایسی اقلیت ہیں جو اپنی موجودگی کا احساس دلا رہے ہیں، جو معاشرے کی مختلف سطحوں پر نظر آنے لگے ہیں۔ اس کے علاوہ شناخت کو بچانے کا بحران صرف مسلمانوں میں نہیں ہے یہ احساس اور خوف خود فرانسیسیوں میں بھی ابھرا ہے اور حالیہ واقعات اس کا بھی اظہار ہیں۔' اسد الرحمان کے مطابق اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ’فرانسیسی اپنی اقدار اور ثقافتی شناخت کے بارے میں کسی حد تک قدامت پسند ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان برطانیہ اور امریکہ میں جس آسانی سے عوامی سطح پر اپنے آپ کو منوا لیتے ہیں وہ آسانی مسلمانوں کو فرانس میں میسر نہیں ہے۔‘ سوال یہ ہے کہ ژاں پال سارتر، روسو، والٹائر، البرٹ کامیو جیسے دانشوروں اور روشن خیالوں کے ملک میں سیکولرازم اتنا سخت گیر کیسے ہو رہا ہے۔ اسد الرحمان کہتے ہیں کہ یہ لوگ اور یہ روشن خیالی پیرس کا نظریاتی کلچر ہے۔ 'اگر آپ پیرس سے باہر نکلیں تو صورتحال مختلف ہے۔ پیرس سے باہر دیہی علاقوں اور چھوٹے شہروں میں صورتحال مختلف ہے۔ یہ وہی صورتحال ہے جس کی وجہ سے برطانیہ میں بریگزٹ ہوا۔ ان علاقوں میں بے روزگاری ہے، سہولیات کی کمی ہے اور نسبتاً لوگ اتنے خوشحال نہیں ہیں۔ اس لیے وہاں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں اور سخت گیر گروپ مضبوط ہو رہے ہیں اور ایک ثقافتی شفٹ آ رہا ہے۔' اسد الرحمان کہتے ہیں کہ اپنے اپنے ادوار میں مختلف مذاہب ترقی پسند تھے لیکن وہی مذاہب آج اپنی انھی ترقی پسند اقدار کے ساتھ قدامت پسند ہو چکے ہیں کیونکہ معاشرے تبدیل ہو چکے ہیں اور آگے نکل گئے ہیں۔ یہی معاملہ کچھ فرانس کے ساتھ نظر آ رہا ہے۔ ان کے مطابق فرانسیسی ریپبلک کی جو اقدار اٹھارویں صدی میں تھیں وہ بہت ترقی پسند تھیں لیکن آج اکیسویں صدی عالمگیریت کی صدی ہے جس میں صرف مسلمان ہی نہیں بالکہ مشرقی یورپ کے لوگ بھی فرانس میں آ رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ایک پیچیدہ اور وسیع کلچر پیدا ہو رہا ہے لیکن فرانسیسی ریاست کی اقدار اس کے ساتھ آگے نہیں بڑھ رہیں۔ ‘ 'مثال کے طور پر عورتوں کے پردہ کرنے کا مسئلہ برطانیہ یا امریکہ میں ہمیں اس طرح نہیں نظر آتا جیسے فرانس میں نظر آتا ہے کیونکہ برطانیہ، امریکہ یا دیگر مغربی ممالک نے اسے دوسرے طریقے ہینڈل کیا۔ ان ممالک نے لوگوں کی نجی زندگی میں مداخلت نہیں کی اور آزادی دی۔ لیکن فرانس میں یہ آزادی نہیں دی جا رہی۔ اگر کوئی خاتون یا مرد اپنی مذہبی علامت کو پہننا چاہتا ہے تو یہاں کا قانون اسے رد کرتا ہے۔ تو اگر آپ اپنی لبرل اقدار پر بھی سخت گیر رویہ اپنائیں گے تو یہ قدامت پرستی ہے۔' اسد الرحمان کہتے ہیں کہ اس نئے قانون کے ذریعے مسجدوں کی نگرانی کر کے سکیورٹی کی صورتحال کسی حد تک بہتر بنائی جا سکتی ہے، مسلمان برادریوں میں خواتین کو کچھ حقوق دلوائے جا سکتے ہیں لیکن جو اصل مسئلہ ہے اس کو یہ قانون حل نہیں کرتا اور وہ ہے مسلمانوں کی معاشی اور سماجی پسماندگی، جو تمام مسائل کی جڑ ہے۔ 'فرانس میں رہنے والے اکثر مسلمانوں کے لیے صورتحال ایسی ہے کہ ان کے پاس اپنی مخصوص برادری اور مذہب میں سمٹ کر رہنے کے سوا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا۔ مسلمان فرانسیسی معاشرے میں انٹیگریٹ یا گھل مل نہیں پا رہے۔ تو مجھے ڈر یہ ہے کہ اس قانون کا جو مقصد ہے کہ مسلمانوں کی معاشرے سے علیحدگی کو ختم کرنا یہ اسی کو بڑھانے کا سبب نہ بن جائے۔' اسد الرحمان کہتے ہیں کہ موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے ہمیں فرانس کی مذہبی تاریخ کو بھی دیکھنا ہو گا۔ 'فرانس میں مسیحیت اور کلیسا کا بہت استحصالی کردار تھا اور بڑی مشکل سے فرانس نے اس سے اپنی جان چھڑائی اور ریاست کو مذہب سے علیحدہ کیا۔ جس کے بعد سنہ 1905 میں انھوں نے چرچ اور ریاست کی علیحدگی کا قانون منظور کیا اور یہ طے ہوا کہ ریاست عملداری کو یقینی بنانے والے افراد اور ادارے کسی بھی طرح کی مذہبی علامات کو استعمال نہیں کر سکتے۔ موجودہ صورتحال کو اگر آپ اس تناظر میں دیکھیں گے تو بات سمجھ میں آئے گی۔' اسد الرحمان کہتے ہیں کہ کہ فرانسیسی ریاست نے وقت گزرنے کے ساتھ اس نظریے کو مزید مضبوط کیا ہے۔ ’اس میں وہ خوف بھی نظر آتا ہے کہ کہیں ہماری اقدار تبدیل نہ ہو جائیں اور دوسروں کے نظریات ہم پر حاوی نہ ہو جائیں۔ ‘ ’فرانس میں ایک فرانسیسی اسلام کی کوشش ہو رہی ہے‘ برطانیہ کی باتھ سپا یونیورسٹی کے پروفیسر افتخار ملک کہتے ہیں کہ فرانس اور یورپ کے کئی ممالک میں یہ ایک طرح کا اتفاقِ رائے ہے کہ اسلام اور خاص طور پر سیاسی اسلام کے نام پر تشدد کسی بھی وقت اور کہیں بھی ہونے کا احتمال ہے۔ اس کے علاوہ فرانس میں شدت پسندوں کے حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور فرانس کی مقامی سیاست میں انتہائی دائیں بازو اور ’سینٹرسٹ نظریات‘ کے سیاستدانوں میں اقتدار کی کشمکش جاری ہے۔ 'ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ مسلمانوں کا یہ جو نیا گروپ سامنے آیا ہے ’فرینچ کونسل آف مسلم فیتھ‘ انھوں نے فرانسیسی حکومت سے مسلسل مذاکرات کیے ہیں۔ کونسل کے لوگ بھی یہ سمجھتے ہیں کچھ اصلاحات کی ضرورت ہے۔' ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ فرانس کے مسلمان نوجوانوں میں یہ تاثر عام ہے کہ انھیں فرانسیسی معاشرے کا حصہ نہیں سمجھا جاتا۔ 'اس کی وجہ یہ ہے کہ فرانس کا معاشرہ اور فرانسیسی شناخت برطانیہ اور امریکہ کی طرح ایک کثیر الثقافتی معاشرہ اور شناخت نہیں ہے۔ میرے خیال میں فرانس میں ایک فرانسیسی اسلام کی کوشش ہو رہی ہے۔ ایسا اسلام جو اپنے آپ کو فرانسیسی اقدار میں ڈھال لے اور فرانسیسی کلچر کا آئینہ دار ہو۔‘ ڈاکٹر افتخار ملک کہتے ہیں کہ فرانس میں اسلام اور سیکولرازم کی ایک تاریخی کشمکش ہو رہی ہے جس کے نتیجے میں بہت اہم تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں۔ فرانس کی موجودہ صورتحال مستقبل میں کیا رخ اختیار کرتی ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن فی الحال وہاں رہنے والے مسلمان ایک طرح کی بے یقینی کا شکار ہیں۔ یہ نیا قانون مسلمانوں کے لیے فرانسیسی معاشرے کے دروازے کھولے گا یا مزید دریچے بند ہوں گے اس کا انحصار اقتدار کے ایوانوں میں کیے جانے والے فیصلوں پر ہو گا۔
090118_gaza_timeline
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2009/01/090118_gaza_timeline
غزہ میں جنگ، کب کیا ہوا
ستائیس دسمبراسرائیل نے غزہ ہر بھر پور ہوائی حملے شروع کر دیے۔ حملے کا جواز دیتے ہوئے اسرائیل نے کہا کہ اس کا مقصد حماس کی جانب سے راکٹوں کے حملے روکنے کے لیے حماس کے سیکورٹی کے ڈھانچے کو تباہ کرنا ہے۔ پہلے ہی دن پولیس کے تربیتی کمپاؤنڈ پر میزائیل حملوں سے ڈیڑھ سو سے زیادہ پولیس والے ہلاک ہوئے۔
اٹھائیس دسمبرحملے جاری۔ ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد دو سو اسّی زخمیوں کی تعداد سات سو کے لگ بھگ۔ حملوں میں مارے جانے والوں میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے۔ انتیس دسمبرحملوں میں تین سو سے زائد فلسطینیوں کی ہلاکت پر دنیا بھر سے فوری رد عمل اور احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ تیسں دسمبراسرائیلی فضائیہ نے حماس تنظیم کی وزارات دفاع کو نشانہ بنایا۔ اور ہوائی بمباری کے ساتھ ساتھ حماس پر دباؤ بڑھانے کی خاطر زمینی کارروائی شروع کرنے پرغور کرنا شروع کیا۔ اکتیس دسمبرغزہ پر حملوں کے خلاف قاہرہ میں عربوں کی مشترکہ حکمت عملی طے کرنے کے لیے عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا ہنگامی اجلاس ہوا۔ تاہم کوئی واضح لائحہ عمل سامنے نہیں آیا۔ دو جنوریغزہ میں فوجی کارروائی کے ساتویں روز ہلاک ہونے والوں کی تعداد چار سو سے زیادہ جن میں بچوں اور عو رتوں کی بڑی تعداد شامل۔ اسرائیل نے دھمکی دی کہ حماس کی کوئی عمارت نہیں چھوڑیں گے۔ تین جنوریبھاری توپخانے سے لیسں اسرائیل کی زمینی فوج غزہ میں داخل ہوگئی۔ غزہ کے شہریوں میں خوف و حراس شدید تر پانچ جنوریاسرائیلی وزیر خارجہ نے یورپی یونین کی جانب سے فوری فائر بندی کی اپیل مسترد کردی۔ چھ جنوریاسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر انتظام تین سکولوں پر حملہ کیا۔ حملے میں چالیس سے زائد ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر ایسے بچے اور عورتیں تھیں جنھوں نے سکولوں میں پناہ لے رکھی تھی۔اقوامِ متحدہ نے حملے کو خوفناک اور نا قابلِ قبول قرار دیا تھا۔ آٹھ جنوریخان یونس شہر کے مشرق میں واقع خوزہ کے علاقے میں اسرائیلی فوج نے مبینہ طور پر فاسفورس (گندھک) کے بم پھینکے جن میں کم از کم پچاس افراد زخمی ہو گئے ہیں۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق فاسفورس بم استعمال کرنے پر پابندی ہے۔ حماس اور اسرا ئیل نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں منظور کی جانے والی وہ قرار داد مسترد کردی جس میں فریقین سے فوری جنگ بندی اور اسرائیلی فوج سے فوری طور پر غزہ سے نکل جانے کو کہا گیا۔ نو جنوریامدادی کارکنوں کو زیتون کے علاقے سے ایسے چار بچے ملے جو گزشتہ چار دنوں سے اپنی ماں کی لاش کے قریب بیٹھے تھے۔ انھیں فلسطینی ہلال احمر نے زیتون سے برآمد کیا۔ عالمی تنظیم انٹرنیشنل کمیٹی فار ریڈ کراس کے طبی عملے نے اسے ’دہلا دینے والا منظر‘ قرار دیا۔ گیارہ جنوریاسرائیل کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا کہ گزشتہ ہفتے غزہ میں اقوامِ متحدہ کے ایک سکول پر حملہ ایک غلطی تھی۔رپورٹ میں غلطی کی وجہ سکول کے نزدیک سے ہونے والی فائرنگ بتائی گئی۔ بارہ جنوریسولہ دن کی مسلسل بمباری میں تقریباً تین سو بچوں سمیت 820 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ۔ اسرائیل نے غزہ پر پرچیاں گرائیں اور غزہ کے لوگوں کو فون کرکے فوجی کارروائی مزید تیز کرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ تیرہ جنورینیویارک میں اقوام متحدہ کے رابطہ کار برائے ہنگامی امداد جان ہومز نے کہا کہ غزہ میں ہلاک ہونے والے افراد میں چالیس فیصد سے زائد بچے اور عورتیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ غزہ میں اس وقت تشدد کی جو قیمت انسانی جانوں کی صورت میں ادا کی جا رہی ہے اس کا خیال ہی دل دھلادینے والا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون فائر بندی کی کوشوں کے لیے علاقے میں پہنچنے۔ چودہ جنوریغزہ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ اور پانچ ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ جبکہ نوے ہزار حملوں سے بچنے کے لیے گھر چھوڑ گئے۔ سترہ جنوریکابنیہ کے اجلاس کے بعد اسرائیل نے یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کردیا۔اور فائر بندی اتوار یعنی اٹھارہ جنوری کی ا لصبح سے نافذ کردی۔ اٹھارہ جنوریجواب میں حماس نے بھی ایک ہفتے کی فائربندی کااعلان کیا جس دوران اس نے اسرائیلی فوجیوں کی واپسی کی شرط رکھی۔ مرنے والوں کی تعداد تیرہ سے زیادہ ہوگئی۔
031022_bank_robbed_jr
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/10/031022_bank_robbed_jr
بینک ڈکیتی، دو ہلاک، دو زخمی
صوبۂ بلوچستان کے گاؤں ہرنائی میں بینک لوٹے جانے کی ایک واردات کے دوران گولیاں لگنے سے بینک مینیجراور ایک کھاتہ دار ہلاک اور بینک کا مخافظ اور ایک ڈاکو زخمی ہوگئے۔ زحمی ہونے والے ڈاکو کو گرفتار کرلیا گیا ہے۔
یہ واقعہ تحصیل ہرنائی کے گاؤں شاہ رگ میں پیش آیا ہے جو کوئٹہ کے مشرق میں تقریبا ڈیڑھ سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ شاہ رگ میں حبیب بینک کی ایک برانچ میں بدھ کی صبح دو نا معلوم افراد داخل ہوئے۔ ملزمان کا تیسرا ساتھی بینک کی عمارت کے باہر پہرہ دیتا رہا۔ بینک میں گھس آنے والے دونوں ڈاکوؤں نے بندوق کی نوک پر بینک کے مینیجر عبدالرازق کورقم نکالنے کا حکم دیا۔ ڈاکو رقم لے کر فرار ہونے والے تھے کہ بینک پر تعینات بینک کے ایک محافظ محمد شریف نے مزاحمت کی جس پر ڈاکوؤں نے اندھا دھند گولیاں چلانی شروع کردیں۔ گولیاں لگنے سے بینک مینیجر عبدالرازق اور ایک کھاتہ دار عبدالواحد موقع پر ہلاک ہوگئے جبکہ مزاحمت کرنے والا محافظ شریف زخمی ہوگیا اور فرار ہونے کی کوشش کرنے والا ایک ڈاکو زخمی ہو گئے۔ محکمۂ داخلہ کے ایک افسر بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا کہ پولیس نے ایک ڈاکو داد محمد کو گرفتار کرکے لوٹی ہوئی رقم بھی برآمد کر لی ہے۔ بینک کے حکام کا کہنا ہے ڈاکو لگ بھگ ڈھائی لاکھ روپے لے کر فرار ہورہے تھے۔
160319_pakistan_india_cricket_wusat_tk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/03/160319_pakistan_india_cricket_wusat_tk
’شیر اور عقاب کی کرکٹ‘
کچھ باتیں جو بھارت اور پاکستان میں رہتے ہوئے بالکل نارمل محسوس ہوتی ہیں وہی باتیں باقی دنیا کو عقل سے ماورا لگتی ہیں۔ مثلاً 1999 میں کرگل کی چوٹیوں پر لڑائی بھی چھڑی ہوئی تھی اور بھارت اور پاکستان کرکٹ ورلڈ کپ میں مانچسٹر کا میچ بھی کھیل رہے تھے۔ چھکا کوئی بھارتی کھلاڑی مارتا اور ہزاروں میل پرے چھکے کی خوشی میں ٹھائیں بھارتی توپ سے ہوتی۔ وکٹ کوئی پاکستانی کھلاڑی لیتا اور دراس کی بلندیوں پر مورچہ بند پاکستان کی ناردرن لائٹ انفنٹری کا کوئی جوشیلا اپنی جی تھری کا رخ بھارت کی طرف کر کے خوشی کا ایک برسٹ چلا دیتا۔
اگر میڈیا کی آنکھ سے آج کے میچ کو دیکھا جائے تو یہ مقابلہ کرکٹرز کے درمیان تھوڑا ہے۔ پاکستانی ٹیم شاہینوں (عقاب) پر مشتمل ہے جبکہ بھارتی ٹیم میں شیر کھیل رہے ہیں اس میچ میں بھارت کے 228 رنز کے ہدف کے جواب میں پاکستان ساڑھے پینتالیس اوورز میں صرف 180 رنز ہی بنا پایا لیکن ہار کے غم اور جیت کی خوشی میں کرگل میں اس دوران سینکڑوں گولیاں چل گئیں۔ دنیا کو تو یہ سادہ سی بات بھی گنجلک لگتی ہے کہ بھارت اور پاکستان دو طرفہ کرکٹ سیریز کھیلنے سے انکار کے لیے اگر سو بہانے کر سکتے ہیں تو پھر ورلڈ ٹی ٹوینٹی 2016 جیسے مقابلوں میں ایک دوسرے سے کھیلنے کے لئے مرے کیوں جاتے ہیں۔ کولکتہ میں بھارت اور پاکستان کا پہلا گروپ میچ تو آج ہے مگر دونوں طرف کا میڈیا پچھلے چوبیس گھنٹے سے بخار میں یوں پھنک رہا ہے گویا اس ورلڈ ٹی ٹوینٹی میں دو ہی ٹیمیں ہیں یعنی بھارت اور پاکستان اور باقی ٹیمیں بطور چیئر لیڈر شریک ہیں۔ اگر میڈیا کی آنکھ سے آج کے میچ کو دیکھا جائے تو یہ مقابلہ کرکٹرز کے درمیان تھوڑا ہے۔ پاکستانی ٹیم شاہینوں (عقاب) پر مشتمل ہے ۔جبکہ بھارتی ٹیم میں شیر کھیل رہے ہیں۔ روم کے کولوسئیم میں گلیڈی ایٹرز اور بھوکے شیروں کی لڑائی دیکھنے والے مجمعے سے لے کر کولکتہ کے ایڈن گارڈن کی 66ہزار نشستوں پر اچھل اچھل کے آسمان سر پر اٹھانے والوں تک کوئی تماشائی نہیں بدلا باقی دنیا اس منطق میں پھنسی ہے کہ عقاب کیسے شیر کو پنجوں میں پھنسا لے جائے گا اور بے پر کا شیر اڑتے عقاب کا شکار کیسے کرسکتا ہے۔مگر یہ بھارت اور پاکستان ہے بھئیا ۔ یہاں سب چلتا ہے۔اپنی عقل مت لڑاؤ۔یہاں شاہین ہار جائے تو اسے چیل اور شیر کو گیدڑ بنتے دیر نہیں لگتی۔ پاکستان ہو کہ بھارت دونوں جانب کے تماشائی کی نفسیات یہ ہے کہ بھلے کالے چور سے ہار جاؤ مگر ایک دوسرے سے نہ ہارو۔اسی نفسیات کا فضل ہے کہ ایک دن شاہد آفریدی بوم بوم ہے اور دوسرے دن وہی آفریدی شیم شیم ۔ورات کوہلی جیت جائے تو کوہلی مہاراج کی جے اور ہار جائے تو مردہ باد ۔۔۔ بس جیت چاہئے ، ہارنے والے کا کوئی سگا نہیں۔ روم کے کولوسئیم میں گلیڈی ایٹرز اور بھوکے شیروں کی لڑائی دیکھنے والے مجمعے سے لے کر کولکتہ کے ایڈن گارڈن کی 66ہزار نشستوں پر اچھل اچھل کے آسمان سر پر اٹھانے والوں تک کوئی تماشائی نہیں بدلا۔ بس دور بدلا ہے۔اور بھارت اور پاکستان کے تماشائی کا دماغ پڑھنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ تماشائی بھی کرے تو کیا کرے کہ اس کی فرسٹریشن زدہ زندگی تو ویسے ہی مسائل کے ہاتھوں ہاری ہوئی ہے اور اگر کرکٹ ٹیم بھی ہار جائے تو پیچھے بچا کیا؟ آج کے جنونی میچ کا کوئی بھی نتیجہ نکلے سب سے زیادہ خوشی پاکستانی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہوگی ۔جن سے کم ازکم اگلے اڑتالیس گھنٹے تک کوئی نہیں پوچھے گا کہ پرویز مشرف کا اب کیا ہوگا ؟ تھینک یو آفریدی ، تھینک یو راحیل شریف۔
pakistan-49879108
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49879108
قندیل بلوچ قتل کیس: وجہ نام نہاد غیرت یا کچھ اور۔۔۔؟
سوشل میڈیا سٹار قندیل بلوچ کے قتل نے پاکستان میں لوگوں کو اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کیا اور یہ واقعہ دنیا بھر کی ش ہ سرخیوں میں رہا۔ اب ان کے بھائی کو سزا ہو چکی ہے لیکن اس سانحے کے پیچھے پاکستان میں رائج وہ طر ز زندگی ہے جو قندیل جیسے لوگوں کو آزادی سے جینے نہیں دیتا۔ صحافی صنم مہر کئی برس سے قندیل کی کہانی پر کام کر رہی ہیں۔ گذشتہ جمعے پاکستان میں ایک مشہور قتل کیس تین سال بعد اپنے انجام کو پہنچا۔
سوشل میڈیا سلیبرٹی 26 سالہ قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے جولائی 2016 میں قتل کیا تھا ملک کی پہلی سوشل میڈیا سلیبرٹی 26 سالہ قندیل بلوچ کو ان کے بھائی نے جولائی 2016 میں قتل کیا تھا۔ یہ ایک نام نہاد غیرت پر کیا جانے والا قتل تھا۔ بھائی نے سوچا کہ سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ویڈیوز اور تصاویر خاندان کی بدنامی کا باعث ہیں۔ جب والدین سو رہے تھے تو اپنے گھر میں موجود بہن کو گلا گھونٹ کر مارنے کے بعد وسیم اپنے آبائی علاقے شاہ صدر دین چلے گئے جو وہاں سے دو گھنٹوں کی مسافت پر تھا اور انھوں نے وہاں جا کر چھپنے کی کوشش بھی نہیں کی۔ مزید پڑھیے قندیل بلوچ کے مقدمۂ قتل میں بھائی محمد وسیم کو عمرقید قندیل قتل کیس: مفتی عبدالقوی فرار ہونے کے بعد گرفتار خوابوں کی تلاش میں موت سے جا ملی بہت سی اطلاعات کے مطابق انھیں اگلے دن اپنے گاؤں کے مکینوں نے موٹر سائیکل پر بازار سے گزرتے دیکھا۔ وہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ انھوں نے کیا کیا ہے۔ قتل سے کچھ دن پہلے ایک اخبار میں قندیل کے پاسپورٹ کی تصویر چھپی تھی جس میں یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ قندیل کا اصل نام فوزیہ عظیم ہے۔ ان کے فالورز کو تب پتہ چلا کہ وہ پنجاب کے ایک گاؤں کے ایک کچے فرش کے گھر میں رہنے والی ہیں اور جیسا کہ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ایک امیر زمیندار کی بیٹی ہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ محمد وسیم اس مقدممۂ قتل کے مرکزی ملزم تھے اکتوبر 2016 میں قتل کے اس واقعے کی رپورٹ کرنے کے لیے جب میں شاہ صدر دین گئی تو گاؤں کے لوگوں نے مجھے کہا کہ انھوں نے جب قندیل کی شناخت کی خبر دیکھی تو انھیں بہت نفرت محسوس ہوئی۔ انھوں نے وسیم سے کہا کہ تمھاری بہن نکر میں گانے گا رہی ہے اور ڈانس کر رہی ہے اور تم اس کے کمائے ہوئے پیسے پر ایک خوشحال زندگی گزار رہے ہو۔ ’ تم میں غیرت نہیں ہے۔‘ جب قتل کے ایک روز بعد وسیم کو گرفتار کیا گیا اور پریس کانفرنس میں ان سے پوچھا گیا کہ انھوں نے اپنی بہن کو کیوں قتل کیا۔ انھوں نے صاف جواب دیا کہ قتل کی وجہ اس کا طریقہ کار تھی جس طرح وہ فیس بک پر آرہی تھی۔ اس کیس کی تحقیق کرنے والی عطیہ جعفری کہتی ہیں کہ وسیم نے اعتراف کیا تھا کہ ’اس نے ہماری زندگی مشکل بنا دی تھی اور میرے پاس اور کوئی حل نہیں تھا۔‘ اب وسیم کو 25 سال قید کی سزا ملی ہے لیکن دیگر ملزمان بشمول مفتی قوی کو بری کر دیا گیا ہے۔ جون 2016 میں قندیل نے مفتی قوی پر یہ الزام لگایا تھا کہ ہوٹل میں ملاقات کے دوران مفتی قوی کا رویہ نامناسب تھا۔ قندیل قتل کیس میں بری ہونے پر مفتی قوی نے کہا کہ ان کے حامیوں کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں یہ انصاف کی فتح کا دن ہے پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے حکومت سے تحفظ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ انھیں فون کالز اور میسجز پر دھمکیاں مل رہی ہیں۔ انھوں نے ایک مذہبی عالم کو ’بے نقاب‘ کیا جو ان کے دعوے کے مطابق منافق تھے اور اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر رہے تھے۔ جب قندیل کے قتل کی خبر آئی تو ایک ٹی وی چینل نے مفتی قوی سے ان کا ردعمل لیا۔ انھوں نے خبردار کیا کہ ’مستقبل میں آپ جب کسی مذہبی عالم کی تذلیل کریں گے تو اس عورت کی قسمت کو یاد رکھیں گے۔‘ جمعے کو مفتی قوی کو اس قتل میں ملوث ہونے کے الزام سے بری کر دیا گیا۔ جیسے ہی وہ جیل سے باہر نکلے تو ان لوگوں کی جانب سے جو یہ سمجھتے تھے کہ ان پر فرد جرم بھی عائد کیا جانا ایک بہت بڑا قدم تھا، نے ان پر پھولوں کی پتیوں نچھاور کیں۔ لیکن سوشل میڈیا پر بہت سے لوگوں نے عدالتی فیصلے پر اپنی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ صحافی مبشر زیدی نے ٹویٹ کی ’اب ثابت ہو گیا ہے کہ مولوی ہمیشہ سزا سے بچ جائے گا چاہے جرم کچھ بھی ہو۔‘ صحافی عنبر رحیم شمسی نے لکھا ’سبق یہ ہے کہ طاقتور اور با اثر لوگ کبھی بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرائے جاتے۔‘ جب میں سنہ 2016 میں مفتی قوی سے ملی وہ اس وقت مشکل میں تھے۔ ان کی جماعت تحریک انصاف نے ان کے لیے سرد مہری کا رویہ اپنا رکھا تھا۔ انھیں مذہبی کمیٹی سے بھی الگ کر دیا گیا تھا اور انھیں پریس میں مذاق کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔ پولیس تحقیقات کر رہی تھی کہ مفتی قوی نے براہ راست یا بلواسطہ اپنے حامیوں کے ذریعے قندیل کے بھائیوں کو قتل کے لیے اکسایا تو نہیں۔ جمعے کے روز عدالت کے باہر صحافیوں کے ہجوم میں مفتی قوی نے کہا ’ان کے حامیوں کی دعائیں قبول ہو گئی ہیں یہ انصاف کی فتح کا دن ہے۔‘ کیا ایک عورت کا ایک لفظ مرد کی عزت اور مرتبے کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس پر میں تین سال پہلے ان سے ملاقات پر حیران تھی لیکن اس کا جواب مجھے جمعے کے روز ملا۔۔۔ ’نہیں۔‘ مولوی قوی نے کہا کہ انھیں میرے خلاف ایک بھی گواہ نہیں ملا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ قندیل کا انداز لوگوں کو چبھتا تھا اور بلاشبہ بہت سے لوگ جو آج ان کو یاد کرتے ہیں، ان کے اسی انداز سے متاثر تھے۔ قندیل کا انداز لوگوں کو چبھتا تھا اور بہت سے لوگ جو آج ان کو یاد کرتے ہیں، ان کے اسی انداز سے متاثر تھے سنہ 2016 میں ملتان کی 25 سالہ صحافی فاطمہ نے مجھے بتایا کہ انھوں نے سوشل میڈیا پر قندیل کو فالو کرنا شروع کیا۔ وہ کہتی ہیں کہ میں نے سوئمنگ پول میں ان کی ویڈیوز دیکھیں جہاں مرد بھی موجود تھے۔ یہ ان کا ان لوگوں کو جواب تھا جو کہتے تھے کہ وہ ناشائستگی کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ وہ باغی تھیں۔‘ پاکتستان جیسے قدامت پرست معاشرے میں قندیل کی تصاویر اور ویڈیوز نامناسب تھیں۔ جیسے ہی ان کی شہرت بڑھی، ان کی پوسٹس پر لمحوں میں نفرت انگیز کمنٹس آنے شروع ہو گئے۔ ایک مرتبہ فیس بک پر کسی نے لکھا ’اگر میں نے اس عورت کو اکیلا دیکھ لیا تو میں اسے اسی جگہ قتل کر دوں گا اور اس کے حرام جسم کو چھپا دوں گا۔‘ انھوں نے ان پر تنقید کرنے والوں کو بھی الجھن میں ڈال رکھا تھا۔ وہ ایسا کیسے کر سکتی تھی جیسے وہ کر رہی تھی؟ کیسی عورت تھی جسے شرم محسوس نہیں ہوتی تھی۔ شاہ صدر دین میں میری ملاقات ایک ایسے شخص سے بھی ہوئی جو قندیل سے ہمدردی رکھتا تھا۔ انھوں نے مجھے کہا کہ ان کا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’جب میں قندیل کے بارے میں لکھوں تو مجھے اسے ’غیرت کے نام پر قتل‘ نہیں کہنا چاہیے۔‘ وہ کہتے ہیں ’یہ عورت غیرت کے نام پر قتل نہیں ہوئی۔ وہ لوگوں کی رائے کی وجہ سے قتل ہوئی۔‘جب وسیم نے قتل کیا وہ دارصل اس رائے کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ قندیل کے قتل کی خبر کے بعد ایک عورت نے ٹویٹ کیا ’قندیل بلوچ پاکستان کے لیے بدنامی تھی۔ وہ جہنم میں سزا پائے گی۔ اس کے بھائی نے ٹھیک کیا۔‘ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے اندازے کے مطابق پاکستان میں قندیل کے قتل کے بعد تقریباً 1100 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا۔ ان کے بارے میں یہ کہا گیا کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کر رہی تھیں۔ ان کے تعلقات تھے، انھوں نے اپنی مرضی سے شادی کی تھی یا شوہر سے جھگڑا تھا۔ اور ان واقعات میں ایسا بھی تھا کہ کچھ خواتین کے ایسا کرنے پر کسی کو محض شک تھا جس کی وجہ سے ان کی جان لے لی گئی۔ قندیل کے والدین کے مطابق اس نے اپنے بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جو کام کر رہی ہے اس کو چھوڑنے کے لیے انھیں بہت تھوڑا وقت درکار ہے اگر ان کی کہانی اخبار میں چھپتی بھی تھی تو وہ اندر کے کسی صفحے پر کسی چھوٹے سے پیرا گراف میں۔ لیکن لاکھوں نے قندیل کی سرکشی دیکھی تھی۔ ان کے ناقدین کے مطابق ان کا انداز انتہائی برا تھا اور اس سے بھر برا یہ کہ انھیں کوئی پروا نہیں تھی۔ مذہبی سیاسی جماعت جمعیت عمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا ’اس قسم کی عورتوں کی وجہ سے ہماری سوسائٹی میں بے شرمی اور فحاشی پھیلتی ہے۔‘ شاہ صدر دین میں اب سکون ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جب کسی کی غیرت کھو جاتی ہے تو وہ اسے کسی بھی وقت واپس حاصل کر سکتا ہے۔ قندیل کے والدین نے مجھے بتایا کہ اس نے اپنے بھائی سے وعدہ کیا تھا کہ اسے بہت تھوڑا وقت درکار ہے اس کام کو چھوڑنے کے لیے جو وہ کر رہی ہے۔ اگر وسیم نے اسے موقع دیا ہوتا تو کیا وہ ان کی غیرت واپس لوٹانے کے لیے تعریف پا سکتی؟۔ جب فیصلہ سنایا جا رہا تھا جو پہلی ٹویٹ میں نے دیکھی وہ یہ تھی: ’اس کتیا نے وہ پا لیا جو اس کی جانب آرہا تھا۔‘ معاشرتی اقدار سے روگردانی کرنے والوں کو سخت سزا دینے کی وجہ سے غیرت کے نام پر جرائم معاشرے میں مضبوطی پکڑتے جا رہے ہیں۔ جمعے کو عدالتی فیصلے نے ملزم اور ظلم کا شکار ہونے والے کے درمیان ایک لکیر کھینچی ہے۔ شاید اسی لیے ابھی ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے یہ ناکافی ہے۔ انصاف کا ایک متوازی نظام بھی موجود ہے، لوگوں کی رائے کی عدالت۔ اور وہاں یہ سوال موجود ہے: کہ اس قتل میں معاشرہ کس قدر شریک ہے۔ منصف اب بھی باہر ہیں۔
070927_nwfp_assembly
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070927_nwfp_assembly
سرحد اسمبلی بچانے پر غور
حزبِ اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے مستعفی ہونے اور سرحد اسمبلی کو دو اکتوبر کو تحلیل کرنے کے فیصلے نے صوبہ سرحد کی حد تک حکمران اتحاد کو تشویش لاحق کر دی ہے۔ حکمران مسلم (ق) فیصلہ کرے گی کہ سرحد اسمبلی کو بچانے کی خاطر وزیر اعلیٰ کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ لایا جائے یا اس معاملے کو عدالت میں لے کر جائیں۔
وفاقی وزیر برائے سیاسی امور امیر مقام کا کہنا ہے کہ وہ جعمے کو ایک اجلاس میں اپنے لائحے عمل کے بارے میں غور کریں گے۔ اس سلسلے میں سرحد مسلم لیگ (ق)، پیپلز پارٹی شیرپاؤ اور چند آزاد اراکین نے اسلام آباد میں جمعرات کی رات گئے ایک ابتدائی اجلاس میں اے پی ڈی ایم کے اعلان کے بعد کی صورتحال پر سوچ بچار کیا ہے۔ یہ اراکین اسمبلی صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کے لیے وفاقی دارالحکومت میں جمع ہیں۔ اجلاس میں عدم اعتماد کی تحریک کی صورت میں اراکین کے دستخط حاصل کرنے کے بارے میں بھی مشورہ ہوا ہے۔ تاہم قانونی جنگ لڑنے یا عدم اعتماد کیتحریک پیش کرنے کے بارے میں حتمی فیصلہ کل کیے جائیں گے۔ امیر مقام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حزب اختلاف کے اس اعلان پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس اعلان سے حزب اختلاف کی جماعتوں نے صوبہسرحد کے عوام کی توہین کی ہے۔ ’یہ غیرجمہوری اور غیر اخلاقی قدم ہے جس کی ہم بھرپور مزاحمت کریں گے۔‘ وہ پرامید دکھائی دیتے تھے کہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کے فیصلے کی صورت میں وہ مطلوبہ تعداد میں اراکین کی حامیت حاصل کر لیں گے۔’سینٹ کےانتخابات میں ہمیں اڑتالیس ووٹ ملے تھے۔‘ صدارتی انتخابات کے قریب آنے کے بعد مبصرین کے خیال میں فریقین ایک دوسرے کے خلاف انتہائی اقدامات کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
060826_iran_reactor_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/08/060826_iran_reactor_fz
ایران: بھاری پانی کے پلانٹ کا افتتاح
ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے بھاری پانی بنانے والے ایک نئے پلانٹ کا افتتاح کیا ہے جو ملک کے جنوب مغرب شہر اراک میں بنائے جانے والے جوہری ریکٹر کی ضروریات پوری کرے گا۔
خبررساں اداروں کے مطابق محمود احمدی نژاد نے اس پلانٹ کا بھی دورہ کیا جہاں مغربی ملک کو خدشہ ہے کہ ایران جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس پلانٹ میں تیار کیئے جانے والے بھاری پانی کو اُس جوہری پلانٹ کو ٹھنڈا کرنے کے لیئے استعمال کیا جائے گا جہاں پر پلوٹونیم سے ایک ذیلی چیز بنائی جائے گی جو جوہری ہتھیاروں میں استعمال کی جاسکتی ہے۔ بھاری پانی بنانے والے پلاننٹ کا افتتاح اقوام متحدہ کی طرف سے ایران کو جوہری پروگرام معطل کرنے کے لیئے دی جانے والی مہلت کے ختم ہونے کہ چند دن بعد ہی کیا گیا ہے۔ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیئے ہے۔
061006_soldiers_martial_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/10/061006_soldiers_martial_fz
’عراقی کے سر میں گولیاں ماریں‘
امریکی بحریہ کے ایک رکن نے کیلیفورنیا میں ایک فوجی عدالت میں دو ہم وطن فوجیوں کو ایک عراقی شہری کے سر میں گولی مارتے ہوئے دیکھنے کی شہادت دی ہے۔
بحریہ کے اہلکار میلسن باکوس نے کہا عراقی شہری ہاشم ابراہیم اود کو، جنہیں مغربی عراق میں ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا، امریکی میرین نے سر میں کم از کم دس گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔ میلسن باکوس کے علاوہ سات امریکی میرین فوجیوں پر عراقی شہر حامدیہ میں عراقی شہریوں کو ہلاک کرنے کے الزام میں کورٹ مارشل کیا جا رہا ہے۔ باکوس اپنے ساتھی فوجیوں کے خلاف گواہی دینے پر اس شرط پر رضامند ہو گئے تھے کہ خود ان کو الزامات سے بری کر دیا جائے گا۔
050627_gayprade_sen
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2005/06/050627_gayprade_sen
امریکی ہم جنسوں کی سالانہ پریڈ
امریکہ میں ہم جنسوں کی سالانہ ’گے پریڈ‘ کے جلوسوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی ہے۔ پینتیسویں پریڈ کے سب سے بڑے سالانہ جلوس سان فرانسسکو، نیویارک اور شکاگو میں نکلے جن میں ہزاروں گے مردوں، ہم جنسیت پسند عورتوں اور دوسرے ہم جنسیت پسند لوگوں کے ساتھ پاکستانی اور ہندوستانی گے مردوں اور عورتوں سمیت جنوبی ایشیائی گے تنظیموں کی نمائندگی بھی تھی۔
اتوار کی صبح گے پریڈ کے سب سے بڑے جلوس شہر کے گے مرکزی علاقے ہالسٹیڈ اسٹریٹ سے نکلے۔ گے شکاگو پریڈ کے اس برس ’گرانڈ مارشل‘ یا خاص مہمان مشہور اداکار اور بالاعلان گے ولسن کروز تھے جو ہم جنس نوجوانوں کے حقوق کیلیے شہرت رکھتےہیں۔ شکاگو گے پریڈ کی قیادت میں گاڑیوں کے پہلے کاروان میں شکاگو سٹی اور شکاگو ہال آف فیم یافتہ شخصیات کر رہی تھیں یہ لوگ قوس و قزح کے رنگوں والے گے جھنڈوں، بینروں اور غباروں سے سجی کنورٹیڈ (بغیر چھت والی ) کاروں پر سوار تھے جن میں جنوبی ایشیائی گے گروپ ’سنگت‘ کے صدر اور مشہور پاکستانی شاعر افتخار (افتی) نسیم بھی شامل تھے۔ افتی نسیم پہلے جنوبی ایشیائی اور پاکستانی ہیں جنہیں شکاگو شہر کی انتظامیہ نے گے حقوق کے میدان میں انکی خدمات کے اعتراف میں ’ھال ل آف فیم‘ کا اعزاز دیا ہوا ہے۔ بی بی سی اردو ڈاٹ کام سے بات چیت کرتے ہوئےافتی نسیم نے کہا کہ اس سال شکاگو کی گے پریڈ میں ہزاروں گے لوگوں کے ساتھ غیر گے لوگوں اور قدامت پسندوں کی بھی اتنی ہی تعداد موجود تھی کیونکہ لوگ امریکہ میں بش پالیسیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی مایوسی سے نجات کے لیے کوئی سرگرمی چاہتے ہیں۔ شکاگو کے ان گے اجتماع کو افتی نسیم نے ’شہر تو کہنے کو فسانے مانگے‘ سے تعبیر کیا۔ امریکہ سمیت دنیا بھر میں ’گے پریڈ‘ انیس سو انہتر میں نیویارک میں گے لوگوں کے ساتھ ہونیوالے پولیس کے اس تصادم کے بعد گے حقوق منوانے کی خوشی میں کی جاتی ہے۔ پولیس کی اس کارروائی کا آغاز گرینچ ولیج میں واقع ’اسٹون وال‘ نامی ’گے شراب خانے‘ سے ہوا تھا۔ اگر چہ اسوقت تک امریکہ میں ہم جنسوں کے حقوق کی تحریک اور ہم جنس اس طرح کھل کر سامنے نہیں آئے تھے لیکن گے آزادیوں کی تحریک کا ابتداء ہو چکی تھی۔ جس پر خوشی اور فخر کے طور پر انیس سوستر سے باقاعدہ گے پریڈ ہر سال جون کے آخری اتوار کو ہوتی ہے اور اس اتوار کو گے تہوار کے لیے مخصوص مانا جاتا ہے۔ گے پریڈ کا سب سے بڑا اجتماع سان فرانسسکو میں دیکھنے میں آیا جس میں مئر نیوسم سمیت ہزاروں کی تعداد میں گے اور غیر گے لوگوں نے شرکت کی۔ مئرگیون نیوسم گزشتہ سال سان فرانسسکو میں گے جوڑوں کو آپس میں شادیوں کے لائسنس جاری کرنے کی وجہ سے گے لوگوں میں مقبول ہیں۔ اگرچہ اب ہم جنس شادیوں کو کیلیفورنیا کی ریاستی اسمبلی نے بھی اکثریت سے مسترد کر دیا ہے۔ نیویارک شہر سے نکلنے والے گے جلوس میں میں جہاں ہیلری کلنٹن بھی شریک تھیں وہاں اس نیویارک کی گے پریڈ میں جنوبی ایشیائی گے اور لزبین مردوں اور عورتوں کی شرکت کے ساتھ ان کی نمائندگی ’ساؤتھ ایشین گے اینڈ لزبین ایسوسی ایشن‘ (سالگا) نے کی۔ بتایا جاتا ہے کہ شکاگو کی گے پریڈ میں ہزاروں سات رنگے گے جھنڈوں‘ گانوں، موسیقی، اور کئي کمپنیوں اور تنظیموں کے ہالسٹیڈ اسٹریٹ سے گزرتے فلوٹوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بھارت کے پہلو بہ پہلو سجے پرچموں تلے تنظیم سنگت کے بینر میں جنوبی ایشیائی گیز کا جلوس بھی تھا، جس میں پاکستانی اور ہندوستانی گے مردوں اور لزبین لڑکیوں نے شرکت کی۔ ہندوستانی اور پاکستانی فلمی موسیقی پر رقص کرتے لڑکے اور لڑکیاں ہزاروں دیکھنے اور شرکت کرنے والوں کی توجہ کا مرکز بنے رہے۔ اخبار ’شکاگو ٹریبیون‘ نے شہر کی گے پریڈ میں شریک ہونے والوں کی تعداد چار لاکھ بتائی ہے۔ شرکا نے ’گے شادیاں اب ہونی چاہیں‘ کی ٹی شرٹیں پہنی ہوئی تھیں۔ اس کے علاوہ جارجیا (اٹلانٹا)، ڈینور( کولوراڈو) اور کولمبس (اوھائيیو) سے بھی سالانہ گے پریڈ کے جلوسوں میلوں کی اطلاعات ملی ہیں۔ جبکہ ساں ڈیاگو کی گے پریڈ جولائي کے آخر میں ہوگی جس کیلیے سرگرم لزبین پريڈ رضاکار لارا نے بتایا کہ کرسمس کی طرح وہ پريڈ بھی اسکا بڑا تہوار ہے۔ ادھر کچھ اخباری رپورٹوں میں نیویارک اورسان فرانسسکو میں گے پريڈ کے اجتماع میں گزشتہ برسوں کی نسبت شرکاء کی تعداد کم بتائي گئي ہے جس کی وجہ ہم جنس شادیوں پر گے حقوق کی سرگرم تنظیموں کی بہت سے ریاستوں میں ناکامی بتائی جاتی ہے۔ لیکن لارا اس بات سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’گے حقوق کےلیے لڑائي امریکی میں اپنے تاریخي تسلسل میں جاری رہے گی۔‘ لارا اوہائيو میں گے پريڈ کی مثال دیتی ہے جو نسبتاً قدامت پرست ریاست ہے لیکن اسکے بڑے شہر کولمبس میں گے لوگوں کی شرکت میں اضاقہ ہوتا آ رہا ہے۔ لارا آج سے سات برس پہلے تک اپنے لزبین ہونے کا اعتراف اور اظہار نہیں کرتی تھیں لیکن آج وہ ساں ڈیاگو میں گے پریڈ کی سرگرم رضاکار بھی ہے۔
040614_kofi_annan
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/06/040614_kofi_annan
مسلم ممالک سے کوفی عنان کی اپیل
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اسلامی ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ تیس جون سے عراق میں اقتدار سنبھالنے والی عبوری انتظامیہ کی مدد کریں۔
سیکرٹری جنرل کے عراق میں خصوصی ایلچی لخدر براہیمی نے ترکی میں اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے اجلاس کےدوران ان کا بیان پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے کہا کہ عبوری انتظامیہ اپنی ذمہ داری نبھانے کی اہل ہے اور اسے کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے۔ استنبول میں او آئی سی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے تنظیم کے سیکرٹری جنرل عبدالواحد بلکعزیز، نے ایک سخت تقریر کرتےہوئے ’اسلامی ممالک کی کثیر الجہتی اور ہر طرف پھیلی ہوئی جہالت پر تنقید کی‘۔ انہوں نے کہا کہ اسلامی ممالک بے بسی کے احساس سے دبے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کئی شعبوں میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔
131005_doosra_phaloo_fz
https://www.bbc.com/urdu/india/2013/10/131005_doosra_phaloo_fz
راہل گاندھی کا سیاسی کرتب
بھارت کی سیاست میں جرائم کے عنصر کی آلائش ہمیشہ سے ایک سنگین مسئلہ رہی ہے۔ عوامی نمائندگی کا جو قانون ہے اس میں اگرچہ مجرمانہ معالات میں سزایافتہ افراد کو انتخاب کے لیے نا اہل قرار دینے کی شق شامل ہے لیکن اس میں پیچیدگی صرف اس پہلو سے پیدا ہو رہی تھی کہ جب تک کسی شخص کو سپریم کورٹ سے حتمی سزا نہیں ہو جاتی تب تک وہ شخص سزایاب نہیں مانا جائے گا۔
راہل گاندھی نے حال ہی میں ایک آرڈننس پر حکومت کی کھل کر مخالفت کی تھی بھارت کا نظام عدل دنیا کا سب سے پیچدہ اور سست رفتار عمل ہے۔ ذیلی عدالت سے کسی مقدمے کے سپریم کورٹ تک کے سفر میں اکثر کئی عشرے لگ جاتے ہیں ۔انصاف کا عمل اتنا طویل اور فرسودہ ہے کہ مجرموں کی اکثریت جرم کے ارتکاب کے بعد انصاف کے شکنجے سے بآ سانی نکل جاتی ہے ۔ قانونی نظام کی اس فرسودگی اور سیاست میں بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی بدعنوانی کے سبب ملک کی پارلمینٹ اور ریاستی اسمبلیوں میں سینکڑوں ایسے ارکان موجود ہیں جن کے خلاف مجرمانہ مقدمات زیر سماعت ہیں ۔ ان میں سے بہت سے ایسے بھی ارکان ہیں جن کے خلاف ریپ ، قتل اور اغوا جیسے سنگین جرائم کے معاملات درج ہیں ۔ گزشتہ دس جولائی کو سپریم کورٹ نے اپنے ایک اہم فیصلے میں یہ حکم دیا کہ اب ذیلی عدالت سے سزایاب ہوتے ہی سزا یافتہ شخص انتخاب لڑنے کا اہل نہیں ہو گا اور اگر سزایافتہ شخص پارلیمنٹ یا اسمبلی کا رکن ہے تو اس کی رکنیت ختم ہو جائے گی۔ ‏عدالت عظمی کے اس فیصلے سے عوام میں خوشی کی لہر دزڑ گئی۔لیکن سیاسی جماعتوں کے لیے مشکلیں پیدہ ہو گئیں ۔ کیونکہ ہر جماعت میں کئی رہنماؤں کو مجرمانہ مقدمات کا سامنا ہے ۔حکمراں جماعت اور خزب اختلاف سبھی سر جوڑ کر بیٹھ گئیں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو کالعدم کرنے کے لیے بہت سرعت کے ساتھ ایک بل تیار کیاگیا۔ لیکن اچانک بی جے پی کو یہ محسوس ہوا کہ اگر یہ قانون آ گیا تو اس سے پارٹی کے سخت دشمن لالو یادوبچ سکتے ہیں ۔ اس نے اس بل کے کچھ پہلوؤں کی مخالفت کر دی اور بل کو قائمہ کمیٹی میں بھیجنا پڑا ۔ حکمراں کانگریس نے بھی لالو کو بچانے کی کوشش میں عوامی موڈ کا اندازہ لگائے بغیر ایک آرڈیننس کی منظوری دے دی۔ اس قدم سے حکومت کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ وہ بد عنوان سیاستدانوں کو بچانے کی کوشش کر رہی ہے۔ دوسری جماعتیں جو اس آرڈینینس کی اندر ہی اندر حمایت کر رہی تھیں شدید عوامی مخالفت کے پیش نظراچانک اس کی مخالفت کرنے لگیں ۔ یہ تھا وہ پس منظر جس میں اچانک راہل گاندھی ایک پریس کانفرنس میں نمودار ہوئے اور خود اپنی ہی حکومت کے آرڈینینس کو ردی کا ٹکڑا قرار دیا ۔ حکومت نے یہ آرڈیننس ہی پارلیمنٹ میں پیش نہیں کیا بلکہ بل بھی واپس لے لیا ہے ۔ اگر یہ آرڈیننس موجود ہوتا تو لالو یادو کی رکنیت ختم نہ ہوتی اور وہ انتخاب بھی لڑ نے کے اہل ہوتے ۔اور ہائی کورٹ میں اپنا دفاع کرتے ۔ لالو کی ہی طرح ایل کے اڈوانی ، مرلی منوہر جوشی ، امیت شاہ ، جیہ للتا، کانی موڑی، دیا ندھی مارن ، کلیان سنگھ ، مایاوتی اور نہ جانے مزید کتنے سیاست دانوں کو مجرمانہ مقدمات کا سامنا ہے ۔ سیاسی رہنماؤوں کے ادارے کو جو تحفظ حاصل تھا وہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ختم ہو گیا ہے ۔ اب سیاسی رہنماؤوں کو مقدمات میں پوری طرح ذیلی عدالتوں کے رحم وکرم پر رہنا ہو گا۔ ذیلی عدالتوں کے بیشتر فیصلے ہائی کورٹ تک پہنجتے پہنچتے تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن تب تک جو نقصان ہونا ہوگا وہ ہو چکا ہوگا۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے ملک کے سیاست دانوں کی غالب اکثریت کا جرائم سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بھارت کی سیاست کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں اکثر سیاسی رہناؤں کے خلاف حکومتیں تحریک اور مظاہروں کے درمیان مقدمات درج کر لیتی ہیں ۔ بہت سے رہنما ایسے ہیں جن کے خلاف اس نوعیت کے درجنوں مقدمات درج ہیں ۔ انہیں اب سیاسی نا اہلی کے خدشات کا سامنا ہے ۔ سیاسی جماعتوں بالخصوص حزب اختلاف کی جماعتوں نے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لیے انتہائی غیر ذمے دارانہ طریقے سے ملک کے سیاسی ادارے کو بہت شدید نقصان پہنچایا ہے ۔
150807_republican_debate_winners_losers_zs
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/08/150807_republican_debate_winners_losers_zs
رپبلکن مباحثہ: کون جیتا، کون ہارا؟
امریکہ کے صدارتی انتخاب کے لیے رپبلکن پارٹی کا ٹکٹ لینے کے امیداواروں کی ٹی وی پر پہلی بحث ایک گیم شو جیسی تھی لیکن اس مقابلے کے شرکا یعنی صدارتی امیدوار بننے کے خواہشمندوں کو پہلے راؤنڈ کے بعد ہی انعام نہیں مل جاتا۔ آنے والے مہینوں میں انھیں مزید کئی امتحانوں سے گزرنا ہوگا اور فی الحال تو یہ بقا کی جنگ ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ اس بحث میں شامل دس بہترین شرکا کی کارکردگی کیسی رہی۔ ڈونلڈ ٹرمپ خیال کیا جا رہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس بحث کے دوران زیادہ ’صدراتی‘ اور ’باعزت‘ دکھائی دینے کے لیے نرم اور دھیما لہجہ اپنائیں گے۔ بہترین لمحہ: جب ان سے امیگریشن کے بارے میں سوال ہوا تو ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انھوں نے تنِ تنہا اس معاملے کو صدارتی دوڑ کا اہم مسئلہ بنا دیا ہے۔ ان کی یہ بات خاصی حد تک درست ہے۔ اس کے بعد ٹرمپ صحافیوں اور ’احمق سیاست دانوں‘ پر برستے نظر آئے۔ بدترین لمحہ: جب ٹرمپ سے ماضی میں ان کی جانب سے برطانیہ کے این ایچ ایس کی طرز کے ہیلتھ انشورنس پروگرام کی حمایت کے بارے میں پوچھا گیا تو ان کے جواب کا آغاز تھا کہ یہ نظام ’کینیڈا اور سکاٹ لینڈ جیسی جگہوں پر بے حد کامیاب رہا ہے‘ اور یہاں سے بات بگڑتی چلی گئی۔ حتمی فیصلہ: ٹرمپ سٹیج پر حاوی رہے لیکن پہلی بار انھیں کچھ ایسے سوالات کا سامنا رہا جن کا تعلق براہِ راست خود ان سے تھا۔ جیب بش جیب بش کو آغاز میں ہی دفاعی انداز اپنانے پر مجبور کر دیا گیا۔ ان کی حکمتِ عملی بظاہر یہ تھی کہ بحث سے دور رہا جائے، لیکن بعض اوقات وہ اپنے خیالات میں گم ہی دکھائی دیے۔ بہترین لمحہ: جب اسقاطِ حمل کے بارے میں ایک سوال پر ڈونلڈ ٹرمپ کے جواب کے بعد جیب بش سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ٹرمپ کو مسخرا سمجھتے ہیں، بش نے فلوریڈا کے اقتصادی ریکارڈ کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’پرامیدی پر مبنی پیغام‘ دینا چاہتے ہیں۔ بدترین لمحہ:جب بش سے عراق میں جنگ کے بارے میں سوال ہوا تو انھوں نے براک اوباما کی خارجہ پالیسی کے ناقد کا روپ دھار تو لیا لیکن اس میں انھیں بہت وقت لگا۔ حتمی فیصلہ: وہ لڑکھڑائے تو نہیں لیکن ان کی یہ کارکردگی ان کے ناقدین کا دل جیتنے میں کامیاب نہیں ہو گی۔ سکاٹ واکر کیا سکاٹ واکر اس بحث میں موجود بھی تھے؟ بسا اوقات وسکانسن سے تعلق رکھنے والے یہ یونین مخالف سیاستدان ایکشن میں نظر نہیں آئے۔ اس بحث کے دوران انھیں صرف رینڈ پال سے ہی زیادہ وقت دیا گیا۔ بہترین لمحہ: انھوں نے خارجہ پالیسی کے بارے میں کئی سوالات کا اچھے طریقے سے سامنا کیا جبکہ یہ موضوع ان کی کمزوری سمجھا جاتا ہے۔ ایک موقعے پر تو ان کا فی البدیہہ جملہ کمال تھا کہ ممکنہ طور پر روسیوں اور چینیوں کے پاس ہلیری کلنٹن کے ای میل سرور کے بارے میں امریکی کانگریس سے زیادہ معلومات ہیں۔ بدترین لمحہ: خدا کے بارے میں سوال پر ان کا جواب تھا کہ ’صرف مسیح کے خون کی وجہ سے مجھے میرے گناہوں سے نجات ملی ہے۔‘ امریکی چاہتے ہیں کہ ان کے سیاسی رہنما مذہبی ہوں لیکن انھیں ان کا کھلے عام مذہب کا پرچار پسند نہیں۔ حتمی فیصلہ: جائزوں میں واکر کے مقام نے انھیں اہم امیدوار بنا دیا ہے لیکن وہ اس بڑے سٹیج پر کچھ بجھے بجھے دکھائی دیے۔ رینڈ پال کینٹکی سے تعلق رکھنے والے اس سینیٹر اس بحث میں دیگر امیدواروں کو نشانہ بنانے کے نظریے کے ساتھ آئے اور آغاز میں ہی انھوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کی نقل بھی اتاری۔ ان کی مہم جو ایک وقت میں بہت اچھی تھی اب لڑکھڑا گئی ہے اور لگتا ہے کہ ان کا مقصد کسی نہ کسی طریقے سے چیزوں کو ہلاتے جلاتے رکھنا ہے۔ بہترین لمحہ: پال کا بہترین لمحہ شاید اس پوری بحث کا سب سے بہترین لمحہ تھا۔ قومی سلامتی اور شخصی آزادی میں توازن پر کرس کرسٹی سے بحث میں انھوں نے ثابت کیا کہ وہ اس معاملے پر بہت پرجوش ہیں۔ بدترین لمحہ: ایک ایسی جماعت میں، جہاں سب سے زیادہ مقبول چیزوں میں سے ایک اسرائیل کی حمایت ہے، پال کی جانب سے اسرائیل کو دی جانے والی امداد کے خاتمے کی تجویز کارگر نہیں ہو گی۔ حتمی فیصلہ: پال خود کو ’مختلف رپبلکن‘ کہتے ہیں اور یہ بات اس بحث میں کھل کر سامنے آئی۔ ان کا انداز جارحانہ تھا لیکن شاید قدامت پسند ووٹروں کو یہ نہیں چاہیے۔ کرس کرسٹی نیو جرسی کے گورنر کرسٹی نے کہا تھا کہ وہ سیدھی بات کریں گے اور انھوں نے مایوس نہیں کیا۔ انھوں نے رینڈ پال کے ساتھ بحث کے دوران اپنا جھگڑالو پن بھی دکھایا۔ بہترین لمحہ: حکومتی نگرانی پر کرسٹی اور پال کی زبانی جنگ میں فاتح کا انتخاب مشکل تھا۔ پال نے جہاں زیادہ جوش کا مظاہرہ کیا وہیں کرسٹی کے نظریات وہ تھے جو اس وقت رپبلکنز کی اکثریت کے ہیں۔ بدترین لمحہ: گورنر کرسٹی نے اپنی ریاست کے دفاع کا ایک بڑا موقع اس وقت ضائع کیا جب ڈونلڈ ٹرمپ نے اٹلانٹک سٹی میں کاروبار کی راہ میں حائل مشکلات کا ذکر کیا۔ حتمی فیصلہ: کرسٹی اس بحث کے دوران جم کر اپنا موقف بیان کرنے والے دکھائی دیے لیکن 2012 میں اوباما سے معانقہ شاید ان کے سارے سیاسی کریئر میں انھیں ڈراتا رہے گا۔ مائیک ہکابی ہکابی کو سماجی موضوعات پر اظہارِ خیال کا بھرپور موقع ملا جس کا انھوں نے خوب فائدہ بھی اٹھایا۔ ایونجیلیکل کنزرویٹو ہکابی کی بنیاد ہیں اور جو انھوں نے کہا اس سے وہ یقیناً خوش ہوئے ہوں گے۔ بہترین لمحہ: ہکابی کو ہی وہ امیدوار ہونا چاہیے تھا جو کرس کرسٹی کی جانب سے سوشل سکیورٹی میں اصلاحات کی مخالفت کرے۔ بدترین لمحہ: جب ان سے تیسری جنس کے فوجیوں کے بارے میں سوال ہوا تو ان کا جواب تھا کہ ’فوج کا مقصد لوگوں کو ہلاک کرنا اور چیزوں کی تباہی ہے۔‘ یہ شاید ربپلکن سامعین و ناظرین کے لیے بھی بہت سخت جواب تھا۔ حتمی فیصلہ: ان کے لہجے میں نرمی آئی ہے لیکن اس کے باوجود اب بھی جوش اور کچھ یادگار جملے باقی ہیں۔ مارکو روبیو فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے روبیو نے بحث کے دوران ابتدا سے اختتام تک اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ نہ تو بات چیت کے دوران گھبرائے اور دورانِ گفتگو ان کی چند باتیں یاد رہ جانے والی بھی تھیں لیکن ان کے لیے اہم ترین سوال یہی ہے کہ کیا وہ سب سے کم عمر امیدوار ہوتے ہوئے امریکیوں کو قائل کر سکیں گے کہ وہ صدارت کے لیے تیار ہیں؟ بہترین لمحہ: روبیو کا ایک جملہ اس ساری بحث کے دوران سب سے زیادہ پسند کیا گیا۔ انھوں نے کہا کہ خدا نے ’رپبلکن پارٹی کو کچھ بہت ہی اچھے امیدوار دیے ہیں۔ ڈیموکریٹس کو تو ایک امیدوار بھی نہیں مل رہا۔‘ بدترین لمحہ: جب اس بحث کی موڈریٹر میگن کیلی نے کہا کہ روبیو نے اسقاطِ حمل پر پابندی کے سلسلے میں ریپ یا والدین کی جانب سے جنسی زیادتی کے نتیجے میں حمل کو ختم کرنے کی رعایت کی حمایت کی تو روبیو اس سے متفق نہیں تھے جبکہ انھوں نے اس سلسلے میں سینیٹ میں ایک بل کی حمایت کی تھی۔ حتمی فیصلہ: روبیو میں بطور امیدوار بہت دم ہے اور اس بحث میں انھوں نے اس کا کچھ مظاہرہ بھی کیا۔ بین کارسن بعض اوقات یوں لگا کہ اس ریٹائرڈ نیوروسرجن کو لوگ سٹیج پر بٹھا کر بھول گئے ہیں۔ ایک موقعے پر خود بین نے کہا کہ ’مجھے یقین نہیں تھا کہ مجھے دوبارہ بات کرنے کا موقع ملے گا۔‘ بہترین لمحہ: اپنے اختتامی دلائل میں انھوں نے باقاعدہ فخریہ انداز میں کہا کہ وہ واحد امیدوار ہیں جس نے ’آپس میں جڑے بچوں کو الگ کیا ہے۔‘ بدترین لمحہ:جب ان سے نسلی تعلقات کے بارے میں سوال ہوا تو ان کا جواب تھا کہ بطور سرجن وہ جلد کی رنگت نہیں دیکھتے اور وقت آ گیا ہے کہ اس سے آگے کی بات کی جائے۔ اس بارے میں مزید بات نہ کر کے انھوں نے ڈیموکریٹ ووٹروں کو متاثر کرنے کا موقع گنوا دیا۔ حتمی فیصلہ: کارسن کے حامی ان سے وفادار ہیں اور شاید رہیں گے بھی لیکن سیاست کی دنیا میں نووارد کارسن بحث میں ٹک نہیں سکے۔ ٹیڈ کروز کروز اس بحث میں بطور ماہر مقرر کے شامل ہوئے اور وہ اپنی تقریر کے دوران سامعین سے رابطہ قائم کرنے میں کامیاب بھی رہے تاہم ان کا یہ رابطہ اپنے عروج پر نہ پہنچ سکا۔ بہترین لمحہ: کروز کا پہلا جواب بہت عمدہ تھا۔ سینیٹ میں اکثریتی جماعت کے قائد مچل میکونل سے آمنے سامنے کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر آپ کو واشنگٹن بھیجنے کے لیے کسی ایسے شخص کی تلاش ہے جو سب کے ساتھ چلے، دونوں جماعتوں کے سیاستدانوں سے اتفاق کرے، لابیئنگ کرنے والوں سے دوستی رکھے تو میں آپ کا امیدوار نہیں ہوں۔‘ بدترین لمحہ: اپنے اختتامی بیان میں انھوں نے کہا کہ وہ ’محکمۂ انصاف اور آئی آر ایس کو مذہبی آزادی کے خلاف کارروائی کا حکم‘ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حتمی فیصلہ: یہ ایک چیمپیئن مقرر کی اچھی کارکردگی تھی۔ جان کیسچ اوہایو کے گورنر کو کلیولینڈ کے سامعین کی حمایت تو حاصل تھی لیکن انھوں نے اس مجمع کو خوش ہونے کے زیادہ مواقع نہیں دیے۔ کیسچ خود کو ’ڈارک ہارس‘ سمجھتے ہیں جس میں ابھرنے کا مادہ ہے لیکن وہ ایسے امیدواروں میں سے ہیں جو اکثر مہم کے دوران گم ہو جاتے ہیں۔ بہترین لمحہ: ہم جنس پرست افراد کے حقوق کے بارے میں سوال پر کیسچ نے کہا ’میں ایک پرانے خیالات کا آدمی ہوں اور روایتی شادی پر یقین رکھتا ہوں۔‘ وہ یہ بھی کہہ گئے کہ ان کا مذہب انھیں غیرمشروط پیار کی تعلیم دیتا ہے ان لوگوں کو بھی جو ان کے خیالات سے متفق نہیں۔ بدترین لمحہ: کیسچ کی تجویز کہ میڈک ایڈ کو بھی اوباما کیئر کے تحت لے آیا جائے اور اس تجویز کے حق میں دلیل کے لیے انھوں نے بائبل کا سہارا لیا۔ کنزرویٹوز کو یہ تجویز پسند نہیں آئی اور ان کا پہلا اثر اچھا نہیں پڑا۔ حتمی فیصلہ: کیسچ کے پاس صدر بننے کے لیے درکار صلاحیت ہے لیکن وہ اس کا صحیح طریقے سے اظہار نہیں کر پائے۔
060531_balochstn_blast_uk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/05/060531_balochstn_blast_uk
بلوچستان: ریل پٹری پر دھماکہ
بلوچستان میں ڈیرہ مراد جمالی اور نوتال کے درمیان ریل کی پٹڑی کو بدھ کو اس وقت دھماکے سے اڑا دیا گیا ہے جب کراچی سے آنے والی بولان میل نے وہاں سے گزرنا تھا۔
ڈیرہ مراد جمالی کے سٹیششن ماسٹر عبداللطیف نے بتایا ہے کہ بدھ کی صبح کوئی پانچ اور چھ بجے کے درمیان جب بولان میل روانہ ہوئی تو نوتال سے ڈرائیور نے اطلاع دی کہ پٹڑی کا ٹکڑا غائب ہے۔ اس پر انجینیئرنگ ٹیم کو موقع پر بھیجا گیا تو معلوم ہوا کہ بم دھماکے سے پٹڑی کو نقصان پہنچا ہے اور کوئی چھ فٹ گیارہ انچ پٹڑی کا ٹکڑا غائب ہے۔ سٹیشن ماسٹر نے بتایا ہے کہ پٹڑی کی مرمت کا کام مکمل کر لیا گیا ہے اور اب ریل گاڑیوں کی آمدو رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ بلوچستان میں جب سے مبینہ فوجی کارروائی شروع کی گئی ہے ریلوے بجلی اور گیس کی تنصیبات پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔
040120_pak_india_bus_na
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/01/040120_pak_india_bus_na
ایل او سی بس سروس
کشمیر بس سروس بحال کرنے کے لئے پاکستان نے بھارت سے مذاکرات کی دو تاریخیں تجویز کی ہیں۔ مذاکرات میں لائن آف کنٹرول کے ذریعے سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان بس سروس اور کھوکراپر اور مناباؤ کے درمیان ٹرین سروس شروع کرنے پر غور کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان مسعود خان نے کہا ہے کہ دہلی کو جو تجویز بھیجی گئی ہے اس کے مطابق آٹھ اور نو مارچ کو دو روزہ مذاکرات کے ذریعے ریل سروس کی بحالی اور انتیس اور تیس مارچ کو کشمیر میں بس سروس کے آغاز کے امکان پر بات چیت ہوسکتی ہے۔ مسعود خان کا کہنا ہے کہ یہ مذاکرات محض تکنیکی نوعیت کے ہوں گے اور حتمی فیصلہ ماہرین کے مثبت جواب کی صورت میں بعد کےمراحل میں کیا جائے گا۔ پاکستان نے اس سے قبل یہ روایتی ریل اور بس سروس شروع کرنے سے متعلق مذاکرات کی بھارتی تجاویز قبول کرلی تھیں۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفر آباد سے سرینگر جانے والی سڑک کا نام آج بھی راولپنڈی سرینگر شاہراہ ہے حالانکہ گزشتہ پچاس سال سے یہاں سے کوئی بھی سرینگر نہیں گیا۔ ابتدائی طور پر لائن آف کنٹرول کے ذریعے بس سروس شروع کرنے کے بارے میں پاکستان کے کچھ تحفظات تھے۔ تاہم ترجمان کا کہنا ہے کہ یہ بس سروس کشمیر سے متعلق پاکستان کے موقف پر اثر انداز نہیں ہوگی۔ دریں اثناء مظفر آباد میں درجنوں افراد نے ہمالیہ کی دو تقسیم شدہ ریاستوں کے درمیان بس سروس کے حق میں مظاہرے کئے۔ یہ مظاہرے کشمیر کی آزادی کی حامی تنظیموں نے کروائے تھے۔
070413_fraud_gujranwala_aw
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/04/070413_fraud_gujranwala_aw
گوجرانوالہ: متبادل بینکنگ اور دھوکہ
گوجرانوالہ میں پولیس نے ایک شخص سبط الحسن اور اس کے دوکیشئرز اور پندرہ دیگر ملازموں کو متبادل بینکنگ کا نظام چلانے اور دھوکہ دہی کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔اس شخص پر الزام ہے کہ وہ لوگوں کو رقم دوگنی کرنے کا جھانسہ دیکر ان کی رقم ہتھیا لیتا تھا اور پولیس کے بقول اب تک اس کی مبینہ ہیرا پھیری میں ہزاروں لوگوں کے کروڑوں روپے داؤ پر لگ چکے ہیں۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس گوجرانوالہ خادم حسین بھٹی نے بی بی سی کو بتایا کہ ملزم کے مختلف ناموں کے بیس اکاؤنٹس منجمند کیے گئے ہیں جن میں کروڑوں روپے ہیں۔ خود ملزم سے نقد پونے دوکروڑ روپے برآمد ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ قیمتی جائیدادیں قبضے میں لے لی گئی ہیں۔ ملزم اور اس کے ساتھیوں سے پولیس کے علاوہ قومی احتساب بیورو یعنی نیب کے ارکان بھی تفتیش کر رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق ملزم نے دو برس قبل دھندے کا آغاز کیا اور پہلے اس نے پندرہ دن کے اندر رقم دوگنی کرنے کا وعدہ کیا اور متعدد لوگوں کی رقوم وعدے کے عین مطابق دوگنی کر کے لوٹا دیں۔ اس طرح وہ رفتہ رفتہ لوگوں کی رقوم ڈبل کر کے لوٹاتا رہا لیکن ساتھ ساتھ رقم لوٹانے کی مدت میں بتدریج اضافہ کرتا چلا گیا۔ ملزم اور اس کے کارندے جو رسید جاری کرتے تھے ان پر لکھا ہوتا تھا کہ اگر میں زندہ رہا تو فلاں تاریخ تک رقم واپس کردوں گا۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اب تک وہ وعدے کے مطابق رقم دوگنی کر کے واپس کرتا بھی رہا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس کی شہرت گوجرانوالہ، سیالکوٹ، وزیر آباد اور اردگرد کے شہروں اور قصبوں میں تیزی سے پھیلی اور لوگوں نے ایک دوسرے سے ادھار لیکر اور جائیدادیں تک فروخت کر کے رقوم ادا کیں۔ مقامی اخبارات میں بھی ملزم کے خلاف خبریں شائع ہونے لگیں جن میںاس خدشے کا اظہار کیا جاتا رہا کہ یہ ملزم کبھی بھی لوگوں کے رقوم لیکر بھاگ سکتا ہے۔ مقامی پولیس ہر بار یہ جواب دے کر ٹال دیتی رہی کہ ابھی تک کوئی شکایت کنندہ سامنے نہیں آیا۔ دوسری طرف ملزم مبینہ سرمایہ کاری کے لیے لی جانے والی کم از کم رقم بڑھاتا چلاگیا۔ اب وہ دو لاکھ پاکستانی روپوں سے کم رقم بھی وصول نہیں کرتا تھا اور اس نے واپسی کی مدت بڑھا کر تین ماہ سے زائد کردی تھی۔ ڈی آئی جی نے کہا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ اب ملزم وقت پر لوگوں کی رقم واپس کرنے سے ٹال مٹول کرنے لگا ہے اور بھاگنے کی تیاری کر رہا ہے اور اس سے پہلے کہ وہ رقم سمیٹ کر فرار ہوجاتا پولیس نے اسے اور اس کے تمام ساتھیوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ تھانہ گکھڑ منڈی میں جمعہ کی رات ڈی آئی جی آپریشن نے نیب کے افسروں کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں ملزمان کی گرفتاری کی تفصیلات بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ ملزم کو اس کے گھر سے گرفتار کیا گیا ہے اور اس کے قبضے سے مختلف بینکوں کی چیک بکس اور کمپیوٹر برآمد ہوا ہے جس میں ملزم نے لوگوں سے لی جانے والی رقوم کا حساب رکھا ہے۔ ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ ملزم ہر ماہ پچیس سے تیس کروڑ روپے وصول کرنے لگا تھا اور اس میں سے کچھ واپس کر دیتا تھا۔ ان کے اندازے کے مطابق اب ملزم نے کم ازکم تین ہزار افراد کی رقوم واپس کرنی ہیں۔ ملزموں کو لاہور سے آئی نیب کی ٹیم کے حوالے کر دیا گیا ہے جو اسے لیکر لاہور روانہ ہوگئی۔ روانگی سے قبل ملزم کی گوجرانوالہ کے اخبار نویسوں سے مختصر گفتگو ہوئی۔ ملزم نے کہا کہ ’میں نے کوئی فراڈ نہیں کیا ہے۔ میں شراکت داری کا کاروبار کر رہا تھا۔ پولیس کو مجھے گرفتار کرنے کا کوئی اختیار نہیں تھا‘۔اس نے کہا کہ جس طرح بینک رقم پر منافع دیتا ہے اسی طرح وہ بھی منافع دے رہا تھا اور فرق صرف یہ ہے کہ اس کے منافع کی شرح زیادہ ہے۔ ملزم نے کہا کہ ’پولیس اب بھی مجھے چھوڑ دے تو میں لوگوں کی پائی پائی ادا کروں گا‘۔ ڈی آئی جی نے کہا کہ لوگوں کی رقوم اب نیب واپس کرے گی۔ نیب کے ڈپٹی ڈائریکٹر حسنین شاہ نے کہا کہ ان کا ادارہ ہر ماہ مختلف سکینڈلز کا شکار ہونے والے افراد کے دو سے تین کروڑ روپے واپس دلواتا ہے اور یہ رقم بھی جلد متاثرین کو لوٹا دی جائے گی۔ نیب نے ملزم کی جائیداد بھی ضبط کر لی ہے۔ پولیس کے مطابق ملزم نے ابھی گوجرانوالہ اور اس کے ارد گرد چھ پٹرول اور سی این جی پمپ سمیت کرروڑوں کی دیگر کمرشل جائیداد کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے علاوہ ملزم نے دوبئی میں بھی جائیدادوں کی نشاندہی کی ہے۔ پولیس نے ملزم کے خلاف جو مقدمہ درج کیا ہے اس کا مدعی کوئی متاثرہ فریق نہیں ہے بلکہ خود پولیس کی جانب سے استغاثہ دیا گیا ہے۔ ملزم کی گرفتاری کی اطلاع بعض متاثرین تک بھی پہنچی اور ان کی بڑی تعداد اس کے گھر کے باہر اکٹھی ہوگئی۔ متاثرین میں چند خواتین بھی شامل ہیں جنہوں نے اپنے زیورات بیچ کر رقم ادا کی تھی۔ کئی متاثرین روتے بھی دکھائی دیے۔ چند ایک نے کہا کہ انہوں نے اپنی زندگی بھر کی پونجی ان کے حوالے کی تھی جس کی واپسی اب یقینی نہیں رہی۔
041205_iraq_violence
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/12/041205_iraq_violence
امریکی تشویش، سترہ عراقی ہلاک
عراق میں امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ مزاحمت کاروں نے اُن سترہ عراقی شہریوں کو ہلاک اور تیرہ کو زخمی کردیا ہے جو تکریت میں ایک امریکی بیس پر کام کرنے کے لئے جارہے تھے۔
ایک امریکی ترجمان کے مطابق ان بسوں پر فائرنگ کی گئی جو ایک امریکی سویلین کمپنی کے لئے کام کرنے والے عراقیوں کو لے کر جارہیں تھیں۔ تکریت کے شمال میں بیجی کے قصبے کے قریب ایک خود کش کار بم حملے ایک مقامی کمانڈر سمیت عراقی نیشنل گارڈ کے تین اہلکار ہلاک ہوگئے۔ یہ حملے عراق میں امریکہ کے سینئر فوجی کمانڈر جنرل جان ابی زید کے اُس بیان کے بعد ہوئے ہیں جس میں انہوں نے کہا تھا کہ شاید عراق کی سیکورٹی فورسز اگلے ماہ کے الیکشن میں مزاحمت کاروں کی کارروائیوں کو روکنے کی مکمل صلاحیت نہیں رکھتیں۔ جنرل ابی زید نے خبردار کیا تھا کہ عراقی ابھی تک امریکی مدد کے بغیر سیکورٹی کے انتظامات نہیں چلا سکتے۔ سنیچر کے روز بغداد اور موصل میں ہونے والے مزاحمت کاروں کے حملے میں چالیس افراد مارے گئے تھے۔
131225_pak_sl_fourthoneday_fz
https://www.bbc.com/urdu/sport/2013/12/131225_pak_sl_fourthoneday_fz
سری لنکا کا ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
ابوظہبی میں پاکستان کے خلاف چوتھے ایک روزہ بین الاقوامی میچ میں سری لنکا نے ایک مرتبہ پھر ٹاس جیتا لیکن اس مرتبہ سری لنکا نے بالنگ کے بجائِے بیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
دوسرے اور تیسرے ایک روزہ میچوں میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر پاکستان کو پہلے بینٹنگ کرنے کی دعوت دی تھی۔ دوسرے ایک روزہ میچ میں سری لنکا نے جس کی بیٹنگ کافی مضبوط اور اس کے اٹھویں اور نویں نمبر پر کھیلنے والے کھلاڑی بھی بیٹنگ کر لیتے ہیں کامیابی سے ہدف کا تعاقب کر لیا تھا لیکن تیسرے ایک روزہ میچ میں اس کو ایک بڑے فرق سے ناکامی ہوئی تھی۔ پاکستان کو پانچ ایک روزہ میچوں کی اس سیریز میں سری لنکا پر ایک کے مقابلے میں دو میچوں سے برتری حاصل ہے۔
031224_musharraf_lfo_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2003/12/031224_musharraf_lfo_ms
وردی کے بغیر مشرف؟
پاکستان کے صدر پرویز مشرف بالآخر سال دو ہزار چار کے اختتام تک فوجی عہدہ چھوڑنے پر رضامند ہو گئے ہیں اور اس سلسلے میں ان کے اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان معاہدہ طے پا گیا ہے۔
اس معاہدے کے تحت جنرل مشرف کو بطور صدر تیس دن کے اندر پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں سے اعتماد کا ووٹ لینا ہوگا۔ قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیارات اگرچہ صدر کے پاس رہیں گے تاہم ایسا کرنے کی صورت میں انہیں پندرہ دن کے اندر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجنا ہوگا اور اس کا فیصلہ تیس دن کے اندر کیا جائے گا جو حتمی اور نافذالعمل ہوگا۔ تاہم اے آر ڈی کے اتحاد میں شامل حزبِ اختلاف کی دوسری جماعتوں نے کہا ہے کہ وہ ایل ایف او کی اسمبلی اور اسمبلی سے باہر مخالفت جاری رکھیں گی اور جب بھی بن پڑا انیس سو ننانوے کے آئین کو بحال کروائیں گی۔ کیا اس حالیہ معاہدے سے پاکستان میں جمہوریت مستحکم ہوگی؟ کیا اس کے نتیجے میں پاکستان کی سیاست میں فوج کا اثرورسوخ کم کرنے میں مدد ملے گی؟ کیا ہمیشہ کی طرح اس دفعہ پھر مذہبی جماعتوں نے ہی ایک فوجی صدر کا ساتھ دے کر ان کی حکمرانی کے عرصے میں اضافہ کر دیا ہے؟ آپ کا ردِعمل؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں دجال کی سازشیں جاری ہیں۔ کشمیر جاچکا، جوہری ہتھیار جلد ہی جانے والے ہیں، پنجاب کی فوج گوادر پورٹ اور کالا باغ تعمیر کر کے دم لی گی اور اس کے بعد وہ آخری سیٹی بجا دے گی احمد عبدالرحیم، واٹرلو، کینیڈا احمد عبدالرحیم، واٹرلو، کینیڈا: ایم ایم اے نے خاصی پیش رفت کی ہے۔ تاہم دجال کی سازشیں جاری ہیں۔ کشمیر جاچکا، جوہری ہتھیار جلد ہی جانے والے ہیں، پنجاب کی فوج گوادر پورٹ (بلوچستان میں فوجی چھاؤنیوں سمیت) اور کالا باغ تعمیر کر کے دم لی گی اور اس کے بعد وہ آخری سیٹی بجا دے گی جس کا مطلب پاکستان کے ٹکڑے ہیں۔ پنجاب کی فوج غریب پنجابی مسلمانوں کے کندھے استعمال کرتے ہوئے اپنے لئے بلوچستان کی زیادہ سے زیادہ زمین پر قبضہ کرلینا چاہتی ہے۔ کمال شاہ، اسلام آباد، پاکستان: علماء کے شر سے مشرف کو بچنا چاہئے جو مفادات کی سازش کر رہے ہیں۔ عوام کے حقوق پر مجال ہے کسی نے آواز اٹھائی ہو۔ اقبال احمد، اسلام آباد، پاکستان: مشرف کو وردی نہیں اتارنی چاہئے۔ مولویوں کے منہ میں اقتدار کی بہتی رال اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ جو برا ہے وردی کا خوف اس کو اتنا ہی زیادہ ہے۔ رہی بات ملاؤں کی تو کبھی، ڈیزل کبھی پرمٹ، کبھی سینڈوچ پر بک جاتے ہیں۔ ان کے دعوے کہاں گئے کہ ایل ایف او پر بات نہیں کریں گے۔ ڈاکٹر افضال ملک، پاکستان ڈاکٹر افضال ملک، راولپنڈی، پاکستان: مشرف دورِ جدید کے خمینی ہیں جنہوں نے برائی کی جڑوں کو ملک میں پھیلنے سے سختی سے روکا۔ ان کے اقدامات پندرہ کروڑ عوام کے دل کی آواز ہیں اور ہم ملک کی بہتری کے لئے کئے گئے تمام اقدامات کی حمایت کرتے ہیں۔ رہی بات ملاؤں کی تو کبھی، ڈیزل کبھی پرمٹ، کبھی سینڈوچ پر بک جاتے ہیں۔ ان کے دعوے کہاں گئے کہ ایل ایف او پر بات نہیں کریں گے۔ اگر وہ عوام سے مخلص ہوتے تو مہنگائی کے خلاف بولتے۔ میاں، برطانیہ: میں انہیں باکل پسند نہیں کرتا، وردی یا بغیر وردی، وہ دونوں صورتوں میں آمر ہیں۔ اعجاز بلوچ، پاکستان: دراصل دائیں بازو کا اتحاد ہمیشہ فوج کے ساتھ رہا ہے۔ نورا کشتی عوام اور امریکہ کو دھوکہ دینے کا حربہ ہے۔ جمہوریت اور صوبائی خودمختاری کی لڑائی ابھی اے آر ڈی اور قوم پرست جماعتوں کو لڑنا ہوگی۔ طاہر فاروق ارائیں، پاکستان: وردی اتارنے کے بعد مجلس صدارتی عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کر دے گی پھر جو دوسرا وردی والا ہوگا لوگ اس کی طرف دیکھیں گے۔ بہتر ہوگا اگر صدر صاحب وردی نہ اتاریں۔ سلیم اعوان، ٹورانٹو: اگر متحدہ مجلس عمل اور صدر مشرف ملک سے مخلص ہیں تو حالیہ پیش رفت ایک اچھا قدم ہے۔ مسعود اعوان، لاہور: ایم ایم اے نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کی قیادت بہت ہی ذہین اور سمجھدار لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ بہت صبر آزما جدوجہد کے بعد کامیابی آخر ایم ایم اے اور جمہوریت کی ہوئی۔ جاسمین بلوچ، کراچی: میرے خیال میں جنرل صاحب کا فیصلہ پاکستان کے حق میں بہتر نہیں ہے اور جہاں تک جمہوریت کا تعلق ہے تو اس نے عوام کو دیا ہی کیا ہے۔ صدر مشرف نے جن مشکل حالات میں ملک کی بگ ڈور سنبھالی وہ قابلِ داد ہے۔ میں نہیں سمجھتی کہ ملک کی فلاح مشرف صاحب کے وردی اتارنے میں ہے۔ مذہبی انتہا پسند پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اور ملک کو طالبان نما صورت حال سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ غلام حیدر غلام حیدر، نیویارک: مذہبی انتہا پسند پاکستان کو تباہ کرنے کے درپے ہیں اور ملک کو طالبان نما صورت حال سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ میری اقوام متحدہ سے گزارش ہے کہ وہ مشرف حکومت کی مدد کرے تاکہ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔ مسعود خان، کیلیفورنیا: میری دانست میں پاکستان میں سیاست کارگر ثابت نہیں ہو گی کیونکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے پانی اور تیل کا ملاپ۔ نصیر عباسی، اسلام آباد: بلاشبہ یہ ایک بڑی پیش رفت ہے جو پاکستان میں سیاسی استحکام کے سلسلے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ماجد شاہ، کراچی: حکومت کے حوالے سے یہ ایک مثبت قدم ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ متحدہ مجلس عمل اب کیا حکمت عملی اپناتی ہے۔ اگر صدر مشرف وردی اتار دیتے ہیں تو لٹیروں کو ڈنڈا کون دکھائے گا؟ نعیم اختر نعیم اختر، کراچی: میرے خیال میں جنرل پرویز مشرف کو وردی نہیں اتارنی چاہئے کیونکہ ان سے پہلے سیاستدان ملک کو لوٹتے رہے ہیں۔ یہ لوگ اب اس ملک کو اور کتنا لوٹیں گے؟ اگر صدر مشرف وردی اتار دیتے ہیں تو ان لٹیروں کو ڈنڈا کون دکھائے گا؟ سعید احمد چشتی، پاک پتن: صدر جنرل پرویز مشرف نے ایل ایف او پر سمجھوتہ کر کے یہ تسلیم کر لیا ہے کہ ملک کی پارلیمان اعلیٰ ترین ادارہ ہے۔ محمد نشاط، نواب شاہ: میں نہیں سمجھتا کہ پاکستان میں کبھی جمہوریت آئی ہو کیونکہ یہاں صرف انتقام پرست لوگ ہی حکومت میں رہے ہیں۔ اس لئے جنرل پرویز مشرف وردی میں ہوں یا نہ ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ سممجھوتہ پاکستان کو توڑنے کی نئی بنیاد ہے۔ معظم رضا تبسم معظم رضا تبسم، اسلام آباد: یہ سممجھوتہ پاکستان کو توڑنے کی نئی بنیاد ہے کیونکہ اس سے پاکستان میں ہمیشہ کے لئے فوجی حکومت کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور عوام سے رہے سہے جمہوری حقوق بھی چھین لئے گئے ہیں۔ سردار خان، دبئی: پاکستان میں جمہوریت کی تاریخ کا وہ دن سیاہ ترین تھا جب مذہبی رہنماوں نے ایک فوجی آمر کے آگے جھک کر منتخب اسمبلی تحلیل کرنے کی راہ ہموار کر دی تھی۔ سب لوگ یہ بات جانتے ہیں کہ عدالتیں فوجی آمروں کے زیر اثر رہی ہیں۔ سید عمران، سیالکوٹ: ہم صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ ہیں۔ اللہ انہیں ہر مصیبت سے دور رکھے۔ صدر مشرف کو اس وقت تک وردی پہنے رکھنی چاہئے جب تک ملک کی سماجی اور اقتصادی حالت بہتر نہیں ہوتی۔ ماجد ماجد، کراچی: ہمارے پاس کوئی ایسا رہنما نہیں جو ملک کو مسائل سے چھٹکارا دلانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ اس لئے میرے خیال میں صدر مشرف ہی اس صورت حال میں سب سے زیادہ اہل شخصیت ہیں۔ انہیں اس وقت تک وردی پہنے رکھنی چاہئے جب تک ملک کی سماجی اور اقتصادی حالت بہتر نہیں ہوتی۔ قیصر بٹ، لاہور: ایک طرف تو مجلس والے اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف جناب صدر کی وردی اتارنے کے درپے ہیں۔ میرے خیال میں انہیں دونوں عہدے تاحیات اپنے پاس رکھنے چاہئیں اور مولوی حضرات کا زور ہمیشہ کے لئے توڑ دینا چاہئے چاہے اس کے لئے مارشل لاء ہی کیوں نہ لگانا پڑے۔ عبید ہدایت، پاکستان: صدر جنرل پرویز مشرف کو پاکستان کی یکجہتی کی خاطر ہمیشہ اپنے فوجی عہدے پر برقرار رہنا چاہئے۔ رابعہ نذیر، ناروے: صدر جنرل پرویز مشرف وردی کے بغیر ایک خواب ہیں۔ ملک مسرور، پاکستان: میرے خیال میں صدر مشرف نے اچھا فیصلہ کیا ہے جس سے جمہوریت قدرے مضبوط ہو گی۔ اس معاملے میں صدر جنرل پرویز مشرف کی وسعت نظر اور وسعت قلبی کی تعریف کرنی پڑے گی۔ ابوالحسن علی ابوالحسن علی، لاہور: یہ بہت اچھا ہوا ہے۔ اس سے پاکستان میں استحکام آئے گا اور جمہوریت کو اپنے قدم جمانے کا موقع ملے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس معاملے میں صدر جنرل پرویز مشرف کی وسعت نظر اور وسعت قلبی کی تعریف کرنی پڑے گی۔ محمد شفیق، شیخوپورہ: ملکی آئین کی پامالی اور حکومت کی برطرفی میں ملوث بعض جرنیلوں کے خلاف جب تک قانونی کارروائی نہیں ہوتی اور جب تک وہ ختم نہیں ہو جاتے اس وقت تک ملکی استحکام اور جمہوریت کا فروغ ایک خواب ہی رہے گا۔ عاصم عبداللہ خان، میانوالی: اصل میں ایل ایف او کی بجائے پاکستان کو زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر سیاستدان صحیح ہوتے تو فوج کبھی بھی نہ آتی۔ یہ لوگ خود ہی دعوت دیتے ہیں اور پھر خود ہی قابض کہتے ہیں۔ ایم یاسر مغل، راولپنڈی: صدر جنرل پرویز مشرف پاکستان کی تاریخ میں سب سے بہتر صدر ہیں۔ وہ انتہائی ذہین ہیں۔ پاکستان کا کوئی دشمن صدر مشرف کا دشمن ہے کیونکہ جنرل مشرف وردی میں سب سے بہتر ہیں۔ صدر مشرف وردی میں فلم کے ہیرو لگتے ہیں۔ ویسے بھی میری رائے میں صدر مشرف کو ایک وقت میں ایک ہی ٹوپی پہننی چاہئے نہ کہ دو یا تین۔ عمران خان مینگل عمران خان مینگل، بلوچستان: پاکستان کے عوام کا خواب ہے کہ صدر مشرف وردی کے بغیر لوگوں کے سامنے آئیں کیونکہ یوں وہ کسی فلم کے ہیرو لگتے ہیں۔ ویسے بھی میری رائے میں صدر مشرف کو ایک وقت میں ایک ہی ٹوپی پہننی چاہئے نہ کہ دو یا تین۔ ابو محسن میاں، سرگودھا، پاکستان: یہ حقیقت ہے کہ مشرف منتخب صدر نہیں ہیں۔ خود مشرف کو بھی معلوم ہے کہ ریفرنڈم بوگس تھا۔ وہ فوج کے سربراہ ہیں، صدر نہیں۔ انہیں یہ حق ہی کیسے دیا جا سکتا ہے کہ وہ صدر اور فوج کے سربراہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ عبید ہدایت، پاکستان: پاکستان کی سالمیت کے لئے جنرل مشرف کواپنا فوجی عہدہ ہرگز نہیں چھوڑنا چاہئے۔ وہ میرے ہیرو ہیں اور میرے ملک کے ستارے ہیں۔ یہ پاکستان کے لوگوں کا خواب ہے کہ پرویز مشرف ان کے سامنے بغیر وردی کے آئیں گے کیوں کہ وردی کے بغیر وہ کسی فلمی ستارے کی طرح سمارٹ لگتے ہیں۔ عمران خان مینگل، پاکستان عمران خان مینگل، بلوچستان، پاکستان: یہ پاکستان کے لوگوں کا خواب ہے کہ پرویز مشرف ان کے سامنے بغیر وردی کے آئیں گے کیوں کہ وردی کے بغیر وہ کسی فلمی ستارے کی طرح سمارٹ لگتے ہیں۔ سو جنابِ صدر، وقت ضائع نہ کیجئے اور ابھی یو نیفارم سے چھٹکارا حاصل کریں۔ میرا پیغام ہے کہ ایک وقت میں ایک ہی ہیٹ پہنیں، یہی آپ کے مفاد میں ہے۔ نعمان احمد، راولپنڈی، پاکستان: ملکی سیاست میں یہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس سے ملک میں معاشی اور سیاسی استحکام آسکتا ہے لیکن مشرف صاحب کے وردی اتارنے والے وعدے پر اعتبار کرنا دور اندیشی نہیں ہے کیونکہ کوئی ہوش مند اپنے ہاتھ تو کاٹ نہیں سکتا۔ اس معاہدے سے ان لوگوں کے خدشات اور مفروضوں کو تقویت ملی ہے جو ایم ایم اے کو فوجی ایجنسیوں کی تخلیق گردانتے ہیں۔ ایم ایم اے اپنے بہت سے ان مطالبات سے دستبردار ہوئی ہے جن کے نام پر اس نے ووٹ حاصل کئے تھے۔ ایس مفکر، بہاولپور، پاکستان: میں اس نئی پیش رفت کو ملکی مفاد کے لیے اچھا سمجھتا ہوں لیکن ایک بات یہ ہے کہ ان ملا حضرات نے کون سا ایسا تیر مار لیا ہے۔ بات تو وہیں کی وہیں ہے۔ ویسے بھی جو مولوی لاکھوں افغانیوں کا قتل کرکے صلح کر سکتے ہیں، ان کے لئے ایل ایف او کیا چیز ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ایم ایم اے عوامی بہبود کے لئے کیا کرتی ہے۔ اگر اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں تو صدر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجیں گے جس کا فیصلہ تیس دن کے اندر کیا جائے گا۔ یہ کیسا مذاق ہے، ہر وزیرِ اعظم سپریم کورٹ کے پاس جا چکا ہے لیکن کیا ہوا؟ محمد ہارون، نیو یارک، کینیڈا محمد ہارون، نیو یارک، کینیڈا: یہ تو پہلے دن سے ہی واضح تھا کہ ایم ایم اے صدر مشرف کی ’بی ٹیم‘ ہے تاکہ وہ پی پی پی اور مسلم لیگ کا ووٹ بینک تقسیم کر سکیں۔ یہ دنوں اب مل کر ’چھپن چھپائی‘ کھیل رہے ہیں۔ ایک شرمناک نقطہ یہ ہے کہ اگر اسمبلیاں توڑ دی جاتی ہیں تو صدر سپریم کورٹ کو ریفرنس بھیجیں گے جس کا فیصلہ تیس دن کے اندر کیا جائے گا۔ یہ کیسا مذاق ہے، ہر وزیرِ اعظم سپریم کورٹ کے پاس جا چکا ہے لیکن کیا ہوا؟ کیا ہمیں وہ فیصلے یاد نہیں جن کے بارے میں ہر چیف جسٹس کہتا آیا ہے کہ ’تاریخی فیلصلہ دیں گے۔‘ ناصر مہمند، پشاور، پاکستان: میں صدر مشرف سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ کسی کی شکست نہیں بلکہ پاکستان اور قوم کی فتح ہے۔ بالآخر ایم ایم اے اور حکومت کے درمیان معاہدہ طے ہوگیا۔ لیکن ایک مسئلہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کے سپیکر نے رولنگ دی تھی کہ ایل ایف او اصل آئین کا حصہ ہے۔ اب وہ کس منہ سے بہاں بیٹھیں گے اور اسی حزبِ اختلاف کا سامنا کریں گے جنہوں نے ایک دفعہ ان کی اس رولنگ کے خلاف ووٹ دیا؟ شاہد نذیر، سیالکوٹ، پاکستان: یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ہے کیونکہ پہلی دفعہ ہم نے مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کا حل نکالا ہے۔ اس میں خاص طور پر ایم ایم اے مبارک باد کی مستحق ہے انہوں نے اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیا اور دوسری جماعتوں کے برعکس اپنے ذاتی مفاد کو پسِ پشت رکھتے ہوئے صرف قانون کی بالا دستی کے لیے جدوجہد کی۔ اس سے ان کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔ احسن علی بوہری، ٹھٹھہ، پاکستان: جمہوریت زندہ باد حسن اعظم، لاہور، پاکستان: میری رائے یہ ہے کہ مشرف کو وردی نہیں اتارنی چاہئے۔ دنیا تو پاگل ہے جو جی میں آئے کہہ دیتی ہے۔ اگر صدر نے وردی اتار دی تو پاکستان برباد ہو جائے گا۔ خود ساختہ صدر کا وردی اتارنا جمہوریت کے کنویں سے آمریت کا مردہ نکالنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھیں کہ جمہوریت کے چشمے کو آمریت کی علاظت سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لئے ابھی جمہوری قوتوں کو ستر ڈول پانی اور نکالنا ہوگا۔ اشرف محمود، لاہور، پاکستان اشرف محمود، لاہور، پاکستان: خود ساختہ صدر کا وردی اتارنا جمہوریت کے کنویں سے آمریت کا مردہ نکالنے کے مترادف ہے۔ یاد رکھیں کہ جمہوریت کے چشمے کو آمریت کی علاظت سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لئے ابھی جمہوری قوتوں کو ستر ڈول پانی اور نکالنا ہوگا۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا محض وردی اتارنے سے آمریت کا آسیب غائب ہو جائے گا یا سفید کپڑوں میں ملبوس ایک نادیدہ مخلوق جمہوری نظام کا گھیراؤ کئے رکھے گی۔ ابھی وہ وقت نزدیک نظر نہیں آتا جب جمہوری نظام آمریت کی آلائشوں سے پاک فضا میں سانس لے گا اور جمہوری طاقتیں توانا ہوں گی۔ صائمہ، پاکستان: صدر کو وردی نہیں اتارنی چاہئے کیوں کہ ہمیں ایسے ہی بندے کی ضرورت ہے۔ کامران مرتضیٰ، جھنگ، پاکستان: ایم ایم اے تو بنی ہی مشرف کو تحفظ دینے کے لئے تھی۔ ایم ایم اے تھا ہی ملا ملٹری اتحادآ اس سے نہ فوج کا اثر کم ہوگا نہ جمہوریت بحال ہوگی۔ ایک بات ثابت ہوگئی ہے کہ اس ملک میں سب مولویوں سمیت ایجینسیوں سے پیسہ کھاتے ہیں۔ ایم ایم اے نے تو اپنی عوام سے دھوکہ کیا۔ انہوں نے اپنے مفادات کی خاطر ایک ایسے شخص کو بچایا جس کی مخالفت کی بنیاد پر انہوں نے عوام سے ووٹ لیا تھا۔ یہ دین یا اسلام کے نہیں صرف ’پیٹ‘ کے حامی ہیں۔ پاکستان کے دشمن یعنی بدعنوان لوگ نہیں چاہتے کہ مشرف امن سے کام کریں۔ سید شبیر حسین شاہ، پاکستان سید شبیر حسین شاہ، مانسہرہ، پاکستان: پاکستان کے دشمن یعنی بدعنوان لوگ نہیں چاہتے کہ مشرف امن سے کام کریں۔ انہیں ملک کے اندر سے خطرات کا سامنا ہے اور یہ بدعنوان لوگ انہیں گھیرے ہوئے ہیں۔ یہ لوگ سیاستدان اور بیوروکریٹس ہیں۔ صدر صاحب کو ان لوگوں سے ہوشیار رہنا چاہئے۔ محمد طاہر، سعودی عرب: یہ ایک اہم فیصلہ ہے اور اس سے جمہوریت مستحکم ہوگی۔ میں صدر مشرف کو اس فیصلے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ سید شاہ، شکاگو، امریکہ: یہ ایک اچھا قدم ہے اور امید ہے کہ صدر اپنے وعدے کا پاس کریں گے۔ یہ جمہوریت کی طرف اہم قدم ہے۔ اس کے ذریعے کسی انقلاب کی توقع تو خیر نہیں ہے لیکن کسی حد تک جمہوریت صحیح ٹریک پر آ جائے گی۔ عبداللہ علیم، ناگویا، جاپان عبداللہ علیم، ناگویا، جاپان: یہ معاہدہ ایم ایم اے کی سیاسی بصیرت کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ مولویوں نے مذاکرات کے ذریعے اپنی بات کو منوا لیا اور اسی ماحول میں جہاں پی پی پی اور مسلم لیگ نواز والے ذاتی مظالبات کے علاوہ کوئی حقیقی مطالبہ ہی نہیں کرتے۔ ایم ایم اے نے شروع دن سے ایک اصولی موقف اپنایا ایک طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد اسے منوا لیا۔ اس کے ذریعے کسی انقلاب کی توقع تو خیر نہیں ہے لیکن کسی حد تک جمہوریت صحیح ٹریک پر آ جائے گی۔ نذیر حسین، کراچی، پاکستان: صدر مشرف کے وردی اتارنے کے بعد بھی جمہوریت مستحکم نہیں ہو سکتی اور نہ ہی ملکی سیاست میں فوج کا اثرو رسوخ کم ہوگا۔ تاہم اس وقت صدر مشرف کے لئے پاکستان کا سربراہ رہنا ضروری ہے کیونکہ ان کی وجہ سے پاکستان اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مستحکم ہوا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کو عالمی سازشوں سے کیسے بچایا اور اس کا دفاع کیسے مضبوط کیا جائے۔ اس کے لئے اگر مذہبی جماعتیں فوجی صدر کا ساتھ دیتی ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ محمد رشید، کینیڈا: یہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین دن ہے۔ جمہوریت ختم ہو گئی ہے۔ ایم ایم اے کے لوگ صرف غدار ہیں اور صرف مشرف اور فوج کے ایجنٹ ہیں۔ جمہوری قوتوں پر اب یہ عظیم ذمہ داری عائد ہوگئی ہے کہ وہ فوج اور ایم ایم اے کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ عمران شاہد، بریڈفورڈ، انگلینڈ: مجلس کی قیادت مبارک باد کی مستحق ہے جنہوں نے اپنے اتحاد اور زبردست تحریک چلاکر مشرف کو وردی اتارنے پر مجبور کیا۔ اب پاکستان میں جمہوریت کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوگا۔ لیکن اس سے مجلس پر مزید ذمہ داریاں بھی عائد ہوتی ہیں کہ وہ آئندہ بھی حکومت کو دیگر قومی معاملات جیسے کہ کشمیر اور ایٹمی پالیسی وغیرہ میں قومی مفاد کے خلاف کوئی فیصلہ نہ کرنے دیں۔ لجبر خان، کینیڈا: ملا اور فوج کبھی بھی ایک دوسرے سے نہیں لڑے۔ ان کا مقصد ہمیشہ مل کر پاکستان اور خطے سے جمہوری امن پسند طاقتوں کو نکال باہر کرنا رہا ہے۔ فواد محمود، کراچی، پاکستان: یہ ایم ایم اے کی جیت ہے کہ وہ جو کہتے تھے کہ ملا رجعت پسند ہیں اور انہیں سیاست میں نہیں آنا چاہئے، اب اپنی تنگ نظری پر شرمندہ ہوں گے۔ یہ پی پی پی اور مسلم لیگ کے لئے بھی شرم کی بات ہے۔ قاضی صاحب اور ایم ایم، بہت خوب عمران محمود، نیوزی لینڈ: میرے خیال میں یہ ضروری نہیں تھا کیونکہ پاکستان پرویز مشرف کی حکمرانی میں بہت اچھا جا رہا ہے اور ایسی صورتِ حال میں علماء حضرات کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں۔ دسمبر دو ہزار چار تک عوام انتظار نہیں کر سکتی اس لئے انہیں یہ کام آج ہی کر لینا چاہئے۔ جس دن وہ وردی اتاریں گے، پاکستان ترقی کرے گا۔ جعفر بدینی، نوشکی، پاکستان جعفر بدینی، نوشکی، پاکستان: مشرف بغیر وردی کے بہت اچھے لگتے ہیں۔ دسمبر دو ہزار چار تک عوام انتظار نہیں کر سکتی اس لئے انہیں یہ کام آج ہی کر لینا چاہئے۔ جس دن وہ وردی اتاریں گے، پاکستان ترقی کرے گا۔ نعمان رضا، کراچی، پاکستان: انہیں یہ نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ان کا آرمی چیف کے عہدے پر رہنا ملک کے استحکام کے لئے ضروری ہے۔ ہمارے سیاست دانوں کو صرف طاقت کی بات سمجھ آتی ہے۔ فیصل تقی، کراچی، پاکستان: صدر کا فوجی یونیفارم میں تقریر کنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی طاقت کا جعلی اظہار کر رہے ہیں۔ کچھ دن قبل کوئٹہ میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ دائیں بازو کی طرف سے مظاہروں اور ہڑتال کی دھمکیوں سے خوف زدہ نہیں ہیں لیکن اس کے دو تین دن کے اندر ہی وہ ان کے سامنے چھک گئے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ مظاہروں کے خوف سے نہیں کیا لیکن ان الفاظ کی ادائیگی کے لئے یونیفارم کا انتخاب بذاتِ خود یہ بتاتا ہے کہ وہ اب فوجی کے طور پر ایک مضبوط صدر نہیں ہوسکتے۔ ان الفاظ کو لکھتے ہوئے میں نے خبروں میں سنا ہے کہ ان پر ایک اور خود کش حملہ ہوا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ انہیں اب ایک امریکی ٹاؤٹ کے طور پر اپنا انجام صاف نظر آرہا ہے۔ اختر نواز لاہور، پاکستان: نظام ِ مصطفیٰ کا مطالبہ کرنے والے یہ ملا فوج کے ٹاؤٹ ہیں۔ قاضی اور فضل کو ایک ایسے آدمی کے ساتھ جاکر بیٹھنے سے شرم آنی چاہئے جس نے افغانستان کو روسیوں سے بھی زیادہ تباہ کیا ہے۔ یہ ملا پاکستان اور پیغمبر کے بدترین دشمن ہیں۔ عمران جلالی، سعودی عرب: صدر مشرف کے اس اقدام سے جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوں گی اور اقتدار کے توازن میں چیک اینڈ بیلنس آئے گا۔ پاکستان کی سیاست میں پہلی بار ہمارے سیاست دانوں نے ذاتی مفاد کو بالائے طاق رکھ کر قومی مفاد کو ترجیح دی۔ وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا یا مشرف چاہیں گے۔ محمد طاہر جمیل، سعودی عرب محمد طاہر جمیل، سعودی عرب: دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے۔ وہی ہوگا جو منظورِ خدا ہوگا یا مشرف چاہیں گے۔ عبدالرزاق راجہ، دوبئی: یہ پوری پاکستانی قوم کے لئے ایک برا دن ہے کہ بدقسمتی سے پاکستان کے ان پڑھ عوام ابھی تک اچھے اور برے میں تمیز نہیں کر سکتے۔ وہ ابھی تک ان سیاستدانوں کی حمایت کر رہے ہیں جنہوں نے ملک توڑا۔ مشرف ایک سچے پاکستانی ہیں جنہوں نے ملک کو وقار اور اقتصادی استحکام دیا۔ براہِ مہربانی اپنے ملک کو بچایئے۔ سیاست دان غیر ملکی ایجینٹ ہیں جس کی واضح مثال بے نظیر ہے جس نے بھارت میں جا کر بیانات دیئے۔
sport-53569591
https://www.bbc.com/urdu/sport-53569591
پاکستان کا دورہ انگلینڈ: بیٹنگ کوچ یونس خان کی کھلاڑیوں سے کیا توقعات اور امیدیں ہیں؟
انگلینڈ کے دورے سے قبل کسی بھی غیر ملکی ٹیم کو وہاں کے موسم کے اتار چڑھاؤ کے بارے میں ضروری تاکید کی جاتی ہے کیونکہ انگلش موسم دوسرے ممالک کے مقابلے میں اپنا اثر کچھ زیادہ دکھاتا ہے۔ اسی لیے انگلینڈ کے دورے میں ٹیسٹ سیریز سے قبل مہمان ٹیم کے مختلف کاؤنٹی ٹیموں کے ساتھ ہونے والے میچز بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ ان سے مہمان ٹیموں کو مناسب تیاری کا موقع مل جاتا ہے۔
پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم بھی ان دنوں انگلینڈ کے دورے پر ہیں جہاں وہ انگلینڈ کے ساتھ ہونے والے ٹیسٹ سیریز کی تیاریوں میں مصروف ہے۔ لیکن اس بار کوئی سائیڈ میچ نہیں مل سکا کیونکہ کووڈ 19 کے سبب انگلش کاؤنٹی کرکٹ سیزن شروع نہیں ہو سکا اور انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی ٹیموں کو کاؤنٹی ٹیموں کے ساتھ میچز کھلانے سے قاصر رہا۔ اس کے نتیجے میں ویسٹ انڈیز اور پاکستان کی ٹیموں کو اپنے ہی کھلاڑیوں کے ساتھ آپس میں میچز کھیلنے پر اکتفا کرنا پڑا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ یونس خان کو بھی اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ صحیح معنوں میں سائیڈ میچز نہ ہونے سے کتنا فرق پڑتا ہے اور وہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپس میں آپ کتنا ہی کھیل لیں اس میں سنجیدگی کا عنصر موجود نہیں ہوتا۔ یہ بھی پڑھیے پاکستان بمقابلہ انگلینڈ: کیا 24 برس بعد پاکستان انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز جیت پائے گا؟ محمد رضوان: ’سرفراز کا پرستار ہوں ان کی موجودگی سے خائف نہیں‘ وقار یونس: ہم پر بھروسہ رکھیے، مایوس نہیں کریں گے یونس خان اور مصباح الحق کی جوڑی اعدادوشمار کے لحاظ سے ٹیسٹ کرکٹ میں پاکستان کی بہترین جوڑی ہے۔ ان دونوں نے 53 اننگز ایک ساتھ کھیلتے ہوئے مجموعی طور 3213 رنز بنائے ہیں جن میں 15 سنچری پارٹنرشپ شامل ہیں یونس خان نے اس حوالے سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ′جب آپ کاؤنٹی ٹیموں کے خلاف کھیلتے ہیں تو مختلف بولرز کا سامنا ہوتا ہے۔ انھیں بعض اوقات آپ کے کھیل کی خامیوں اور خوبیوں کا زیادہ اندازہ نہیں ہوتا۔ اگر میں انٹرا سکواڈ کی بات کروں تو ایک جیسے ہی کھلاڑی ہیں، انہی کو آپ بولنگ کر رہے ہوتے ہیں اور جب آپ کو اپنی خامیوں اور طاقت کا پتہ ہوتا ہے تو آپ ایکسپوز بھی جلدی ہو جاتے ہیں۔‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’انٹرا سکواڈ میچ میں بھی یہی ہوا کہ ایک ٹیم صرف ایک سو تیرہ رنز پر آؤٹ ہو گئی لیکن میں اس لیے فکرمند نہیں ہوں کیونکہ یہ کھلاڑی ایک ساتھ (آپس میں) کھیل رہے ہیں لہذا ان کی مکمل توجہ اور سنجیدگی اس طرح نہیں ہوتی جیسی کسی باقاعدہ حریف ٹیم کے خلاف ہوتی ہے مگر مجھے امید ہے کہ جیسے ہی یہ کھلاڑی انگلینڈ کے سامنے آئیں گے ان کی باڈی لینگویج اور سوچ قطعاً مختلف ہو گی۔‘ ’ہم جیتنے کے لیے انگلینڈ آئے ہیں‘ یونس خان انگلینڈ میں ٹیسٹ سیریز جیتنے کے سلسلے میں خاصے پرامید ہیں۔ ′ہم یہاں فائٹ کرنے کے لیے نہیں بلکہ جیتنے کے لیے آئے ہیں۔ کوچنگ سٹاف کی جب بھی کھلاڑیوں سے بات ہوتی ہے تو ہم انھیں یہ بالکل نہیں کہتے کہ ہمیں فائٹ بیک کرنی ہے، ہم انھیں یہی کہتے ہیں کہ ہم یہاں جیتنے کے لیے آئے ہیں کیونکہ اگر ہم فائٹ بیک کی بات کریں گے تو پھر فائٹ بیک کی ہی بات ہوتی رہے گی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’کرکٹر جتنی بھی کرکٹ کھیلتا ہے وہ اپنی سوچ کی بنیاد پر کھیلتا ہے۔‘ ’کھلاڑیوں میں ذمہ دارانہ سوچ بیدار کرنا‘ پاکستان کرکٹ ٹیم کے بیٹنگ کوچ یونس خان انگلینڈ کے دورے کے دوران کھلاڑیوں کی ٹریننگ، کوچنگ کے ساتھ ساتھ ان کے مثبت مائنڈ سیٹ پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ′میں صرف اس ایک دورے کے لیے بیٹنگ کوچ بنا ہوں لیکن میں یہ کبھی بھی نہیں کہوں گا کہ مجھے بہت کم وقت ملا۔ میری پوری کوشش ہے کہ میں کھلاڑیوں میں ایک ایسی سوچ بیدار کرنے میں کامیاب ہو جاؤں جو انھیں ان کے پورے کریئر میں کام آسکے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’میرے لیے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت جتنے بھی بیٹسمین ہیں وہ صرف اس ٹیسٹ سیریز میں نہیں بلکہ اپنے پورے کریئر میں کامیاب ہو سکیں۔ اگر یہ کھلاڑی اس سیریز میں کامیاب نہ ہو سکے تو میں برملا یہ تسلیم کروں گا کہ میں نے کوشش کی لیکن میں کامیاب نہ ہو سکا۔‘ ’بابراعظم کا موازنہ کسی سے نہیں ہونا چاہیے‘ انگلینڈ میں اب تک بابر اعظم نے سنہ 2018 کی سیریز کے دوران ایک ہی اننگز کھیلی جس میں وہ 68 رنز بنانے کے بعد زخمی ہو گئے اور بیٹنگ جاری نہ رکھ سکے یونس خان کا کہنا ہے کہ بابراعظم کی غیرمعمولی صلاحیتوں اور کارکردگی پر کسی کو بھی شک نہیں ہے وہ چاہتے ہیں کہ بابراعظم اپنی کارکردگی کو مزید بڑی پرفارمنس میں تبدیل کریں۔ ′میں بابراعظم کو یہی کہتا ہوں کہ آپ کو صرف ایک اچھا کرکٹر ہی نہیں بننا بلکہ لیجنڈری بیٹسمین اور کرکٹر بننا ہے لہذا آپ اپنی کارکردگی کو مزید ایک درجہ آگے لے جائیں، لمبی اننگز کھیلیں اور اپنی سنچری کو ڈبل سنچری میں بدلنے کی کوشش کریں۔‘ یونس خان کا کہنا ہے کہ وہ بابر اعظم کی کارکردگی کو مزید نکھارنے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’بابراعظم کا موازنہ کسی سے کرنا درست نہیں، ان کی اپنی ایک کلاس ہے۔‘ اپنا ذکر کرتے ہوئے یونس خان کا کہنا تھا کہ ’میری ایک بڑی اننگز کے بعد میرا موازنہ عظیم انضمام الحق سے کرنا شروع کر دیا گیا، میں نے اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ موازنہ نہیں ہونا چاہیے۔‘ یونس خان نہ کہا کہ ’موازنہ کر کے ہم اپنے کھلاڑیوں کو اضافی دباؤ میں مبتلا کر دیتے ہیں۔′ جادو کی چھڑی اور گالف کی کلاسز یونس خان ازراہ تفنن کہتے ہیں ′میں بولنگ کوچ وقار یونس سے جادو کی وہ چھڑی لینے کی کوشش کروں گا جس سے انھوں نے فاسٹ بولر سہیل خان کو دو منٹ میں لیٹ سوئنگ سکھا دی۔ جبکہ میں وقار یونس سے گالف بھی سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں اور وقار یونس کی گالف کلب بھی اس وقت میرے پاس ہے۔′ یونس خان کے مطابق یہ اچھی بات ہے کہ کھلاڑی اپنے کوچز کی تعریف کرتے ہیں اور ان سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’میں نے باب وولمر سے یہی سیکھا کہ وہ ایک ہی وقت میں مختلف کھلاڑیوں کو کس طرح ڈیل کرتے تھے۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ کھلاڑی مجھ سے ملیں، بیٹھیں اور اپنی زندگی کو شیئر کریں جس طرح باب وولمر کے دنوں میں ہوا کرتا تھا وہ ہماری رہنمائی کرتے تھے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘ فواد عالم سے توقعات گذشتہ چند برسوں سے ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے فواد عالم بھی پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کا حصہ ہیں۔ ان کی کارکردگی اور توقعات پر بات کرتے ہوئے بیٹنگ کوچ یونس خان کا کہنا تھا کہ ’ فواد عالم ڈومیسٹک کرکٹ میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی وجہ سے ٹیم میں شامل ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ اگر اس سیریز میں فواد عالم کو موقع ملا تو وہ ضرور اچھی کارکردگی دکھائیں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ اس دورے میں بھی میں فواد عالم کو یہی مشورہ دے رہا ہوں کہ وہ اپنی محنت کو جاری رکھیں کیونکہ ’یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ آپ محنت سے منزل حاصل کر لیتے ہیں۔‘
060521_afghan_ireland_si
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/05/060521_afghan_ireland_si
آئرلینڈ میں افغان احتجاج کا خاتمہ
جمہوریہ آئرلینڈ میں پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے دارالحکومت ڈبلن کے گرجا گھر سینٹ پیٹرک کیتھڈرل میں دھرنا دے کر بیٹھنے والے افغان پناہ گزینوں کو وہاں سے نکال لیا ہے۔
ہفتہ بھر سے چالیس کے قریب افغان پناہ گزین وہاں بھوک ہڑتال کر رہے تھے۔ لیکن سنیچر کی شام پولیس نے گرجا گھر کے عملے کو رخصت کر کے پناہ گزینوں کو حراست میں لے لیا اور بچوں کی دیکھ بال سوشل ورکروں کو سونپ دی۔ پولیس نے جمعہ کو ہی سینٹ پیٹرکس کیتھڈرل کو گھیرے میں لے لیا تھا اور افغانوں کو کہا تھا انہیں ہر صورت میں عمارت کو خالی کرنا پڑے گا۔ اس سے پہلے بھوک ہڑتال کو ختم کرانے کے لئے ہونے والی بات چیت بغیر کسی نتیجہ پر پہنچے ختم ہو گئی تھی۔ پناہ گزینوں کے لیئے کام کرنے والے کارکنوں کا کہنا ہے کہ افغانوں نے اپنی مرضی سے عمارت خالی نہیں کی البتہ انہوں نے خود کو نکالے جانے کے خلاف مزاحمت نہیں کی۔ امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ کے مطابق پولیس نے پہلے چھوٹی عمر کے پناہ گزینوں کو باہر نکالا اور بعد میں بالغ مظاہرین کو باہر نکالا گیا۔ بعض مظاہرین کو سٹریچروں پر ڈال کر وہاں سے لے جایا گیا۔
pakistan-56274234
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-56274234
شادی پر جہیز کی رسم: ’اگر میاں بیوی ایک دوسرے کو سمجھتے نہیں، تو کوئی فرنیچر، نہ گاڑی آپ کے کام آتا ہے‘
’اصل زندگی میں جہیز کو نہ کہنا اتنا آسان نہیں جتنا بہت سے لوگ سمجھتے ہیں۔‘ یہ کہنا ہے راولپنڈی کی رہائشی نازش فیض کا جنھیں اپنے سسرال والوں کی جانب سے جہیز کی صورت میں کیے جانے والے مطالبات پورے کرنے کے لیے اس حد تک جانا پڑا کہ ان کے گھر والوں کو قرض لینا پڑا لیکن رشتہ طے ہونے سے شروع ہونے والے جہیز کے مطالبات شادی کے بعد بھی نہ رک سکے اور ان کی شادی صرف چار ماہ بعد ہی ختم ہو گئی۔
ہمارے معاشرے میں ’جہیز‘ شادی بیاہ کے موقع پر ادا کی جانے والی بہت سی رسموں میں سے ایک ہے لیکن یہی ایک رسم اگر پوری نہ کی جائے تو بہت سی لڑکیوں کی یا تو شادی نہیں ہو پاتی اور اگر ہو جائے تو انھیں ذہنی اور جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ پاکستان جنوبی ایشیائی ممالک میں سرفہرست ہے جہاں جہیز نہ لانے کے وجہ سے قتل ہو جانے والی خواتین کی شرح بہت زیادہ ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ برائے خواتین نے مشہور فیشن ڈیزائنر علی ذیشان کے ساتھ مل کر جہیز کے خلاف آگاہی مہم کا آغاز کیا جس نے سوشل میڈیا پر اس رواج سے متعلق ایک بار پھر بحث چھیڑ دی۔ کچھ لوگ جہیز لینے والوں کی مذمت کرتے دکھائی دیے تو کچھ نے اسے اہم رسم قرار دیا۔ یہ بھی پڑھیے ’شوہر نے جہیز کے بدلے بیوی کا گردہ نکال لیا‘ شادی کے 60 برس بعد جہیز کی واپسی کا مطالبہ ’ہر عورت ڈیڑھ لاکھ تنخواہ والے مرد کا مطالبہ نہیں کرتی' نازش فیض نے جہیز کے مطالبات پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میرے والدین جب رشتہ طے کرنے لڑکے کے گھر گئے تو میری ساس نے میری امی کو گھر کا وہ حصہ دکھایا جہاں میں نے شادی کے بعد رہنا تھا اور کہا کہ آپ جو کچھ بھی دیں گی اپنی بیٹی کو ہی دیں گی۔‘ ’اس کے بعد انھوں نے میری امی سے مطالبہ کیا کہ شادی کے موقع پر نہ صرف انھیں اور ان کی بیٹی کو سونے کے زیورات بطور تحفہ دیے جائیں بلکہ ان کے بیٹے (میرے شوہر) کو بھی سونے کا کچھ دیا جائے۔‘ نازش سمجھتی ہیں کہ انھوں نے جہیز کے مطالبات کو نہ کہنے میں بڑی دیر کر دی لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ شادی سے قبل ہی ایسے مطالبات کو ماننے سے سختی سے انکار کر دیں نازش کا کہنا ہے کہ ان کے والد اور بھائی دونوں ہی حیثیت سے زیادہ جہیز دینے کے خلاف تھے کیونکہ ان کے خیال میں یہ رسم نہ صرف مذہبی روایات کے خلاف ہے بلکہ وہ ان کو پورا کرنے کی استطاعت بھی نہیں رکھتے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’میری امی نے کئی بار میرے سسرال والوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ہم جہیز کے مطالبات پورے کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے لیکن ہر بار ہی انھیں یہ سننے کو ملتا کہ اگر آپ نے یہی کرنا تھا تو آپ اپنے خاندان میں شادی کرتے۔‘ نازش کا کہنا تھا کہ ان کا خیال ہے کہ ان کی گھر والوں نے ان کی خوشی کے لیے جہاں تک ہو سکا وہ مطالبات پورے کیے لیکن ان کے سسرال والوں کی فرمائشوں کا سلسلہ شادی کے بعد بھی نہیں رکا۔ ’شادی کے ایک ہفتے کے بعد ہی میری ساس میرے کمرے میں آئیں اور مجھے کہنے لگیں کہ اپنا جہیز پورا کرو۔ اس کے علاوہ میرے سسرال والے میرے جہیز میں لائی گئی چیزوں کا بھی مذاق اڑاتے اور تنقید کرتے کہ میرے گھر والوں نے سستی چیزیں دیں۔‘ نازش کے مطابق ان کے سسرال والوں کی جانب سے کئے جانے والے مسلسل جہیز کے مطالبات اور طعنے ان کے اور ان کے شوہر کے درمیان آئے روز جھگڑے کی وجہ بننے لگے اور صرف چار ماہ بعد ہی ان کے شوہر نے ان کو طلاق دے دی۔ ’آپ لڑکی والے ہیں آپ مطالبات نہیں کر سکتے‘ زوباریہ جان اسلام آباد کے ایک نجی سکول میں ٹیچر ہیں اور سنہ 2015 میں ایک کھاتے پیتے گھرانے سے ان کے لیے ایک رشتہ آیا۔ ’میرے والدین کو رشتہ پسند آیا تو انھوں نے منگنی کی بات کی لیکن لڑکے والوں نے نکاح اور رخصتی پر اسرار کیا۔ ایسا نہیں تھا کہ میرے والدین نے ان سے کوئی بہت بڑا مطالبہ کر لیا انھوں نے بس یہ کہا کہ ہم ابھی منگنی کر دیتے ہیں جب آپ کا بیٹا اپنا گھر بنانے کے قابل ہو جائے گا اور اپنے پیروں پر کھڑا ہو جائے گا تو ہم رخصتی کر دیں گے۔‘ زوباریہ کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ رشتے ختم ہو جانے کے ڈر سے جہیز کو نہ نہیں کہتے ’جس پر لڑکے کی والدہ نے کہا کہ یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں آپ لڑکی والے ہیں آپ کوئی مطالبہ نہیں کر سکتے۔ ہم لڑکے والے ہیں اور مطالبہ تو ہم کریں گے۔ لڑکا کیوں اپنا گھر کرے گا؟ گھر تو آپ کی بیٹی لے کر آئے گی۔‘ زوباریہ کا کہنا ہے کہ ان کے والدین جہیز میں گھر کا مطالبہ سن کر حیران ہو گئے۔ ’اگرچہ میرے والد بھی ایک صاحب حیثیت شخص ہیں اور انھوں نے ہمیشہ ہمیں اچھا پہنایا اور کھلایا۔ اکثر لوگوں کو لگتا ہے کہ ان کے پاس پیسہ ہے تو یہ ٹرک بھر بھر کے جہیز دیں گے۔ جب میری امی نے مجھے ان کے مطالبے کے بارے میں بتایا تو میں نے سوچ لیا تھا کہ میں ایسا ہر گز نہیں ہونے دوں گی۔‘ زوباریہ کے مطابق وہ لڑکے کے گھر گئیں اور بڑی عزت سے اس رشتے کو نہ کہہ دیا۔ ’میں نے لڑکے کی والدہ کو کہا کہ آپ کو آپ کا بیٹا مبارک ہو اور ہمیں ہمارا سکون۔‘ ’جب جہیز کو نہ کہا تو میرے اپنے گھر میں بہت لڑائیاں ہوئیں‘ ثنا فہد کراچی میں رہائش پذیر ایک کاروباری خاتون ہیں اور اپنے آپ کو ان چند خوش نصیب خواتین میں شمار کرتی ہیں جنھیں رشتے کے لیے ٹرے سجا کر لوگوں کے سامنے بار بار آنا نہیں پڑا۔ ’میں اور میرے شوہر ایک دوسرے کو شادی سے پہلے ہی جانتے تھے اور ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ نہ تو میں جہیز لے کر جاؤں گی اور نہ ہی وہ کسی قسم کا جہیز قبول کریں گے۔‘ ثنا کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگ جہیز کو ایک لعنت تو کہتے ہیں لیکن پھر بڑے مزے سے یہ لعنت لے بھی لیتے ہیں۔ اس لیے وہ اور ان کے شوہر نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ کسی قسم کا جہیز قبول نہیں کریں گے۔ ثنا کے مطابق جب انھوں نے اپنے اس فیصلے کے بارے میں اپنے گھر والوں کو آگاہ کیا تو ان کے گھر والوں کی جانب سے اس کی سخت مخلفت کی گئی۔ ثنا فہد اور ان کے شوہر فہد آصف نے اپنی شادی پر جہیز لینے سے انکار کیا ’میری امی ایک روایتی سوچ رکھنے والی خاتون ہیں۔ جب انھوں نے یہ سنا کہ میں جہیز میں کچھ نہیں لے کر جانا چاہتی تو ہمارے گھر میں بہت لڑائیاں ہوئیں۔ میری والدہ کا اسرار تھا کہ اگر میں جہیز نہ لے کر گئی تو میرے سسرال والے میری عزت نہیں کریں گے۔‘ ثنا کے شوہر فہد آصف کا کہنا ہے کہ ان کے والدین کی جانب سے جہیز کا کوئی مطالبہ نہیں کیا گیا البتہ جب ان کی ساس نے ثنا پر بہت دباؤ ڈالا تو انھوں نے اپنی ساس کو بیٹھ کر سمجھایا اور یقین دلایا کہ وہ ان کی بیٹی کو بہت عزت سے رکھیں گے۔ ’میں نے جہیز میں کچھ نہیں لیا یہاں تک کہ میری کوشش تھی کہ اپنے اور ثنا کے شادی کے کپڑے اور زیورات بھی اپنی حیثیت کے مطابق خود خریدوں اور میں نے ایسا ہی کیا۔‘ ’لڑکی کوئی کھلونا نہیں جس کی قیمت لگائی جائے‘ نازش سمجھتی ہیں کہ انھوں نے جہیز کے مطالبات کو نہ کہنے میں بڑی دیر کر دی لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ لوگ شادی سے قبل ہی ایسے مطالبات کو ماننے سے سختی سے انکار کر دیں۔ ’لڑکے والوں نے تو جہیز لینا بند نہیں کرنا یہ صرف اسی صورت ہمارے معاشرے سے ختم ہو گا جب لڑکی والے اسے دینا بند کریں گے اور اس بات کا احساس کریں گے کہ لڑکی کوئی کھلونا نہیں کہ اس کی قیمت لگائی جائے۔‘ زوباریہ کا ماننا ہے کہ جہیز کی رسم کو ختم کرنے کی ذمہ داری سب سے پہلے امیر لوگوں کی ہیں۔ ’یہ رسم امیر لوگوں کی بنائی ہوئی ہے جو باآسانی اپنی بیٹی کو شادی کے موقع پر مہنگے تحائف دے دیتے ہیں لہذا یہ ذمہ داری بھی اب ان کی ہے کہ وہ اسے ختم کریں۔ جب تک امیر طبقہ اس رسم کو ختم نہیں کرتا متوسط اور نچلا طبقہ اس رسم کو جاری رکھے گا۔‘ زوباریہ کا کہنا ہے کہ اکثر لوگ رشتے ختم ہو جانے کے ڈر سے جہیز کو نہ نہیں کہتے۔ ’لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر رشتہ ختم ہو گیا تو لوگ لڑکی پر سوال اٹھائیں گے اور سوچیں گے کہ شاید لڑکی میں ہی کوئی خرابی تھی جس کی وجہ سے رشتہ ختم ہوا لیکن اب ضرورت اس عمل کی ہے کہ ہم اس متعلق بات کرنا شروع کریں۔ اس رسم پر کم از کم سوال تو اٹھانا شروع کریں تاکہ اس کا مطالبہ کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔‘ ثنا فہد کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک کامیاب شادی کے لیے دو لوگوں کا ایک دوسرے کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے۔ ’اگر دو لوگوں میں مطابقت نہیں اور وہ ایک دوسرے کو سمجھتے نہیں تو نہ ہی کوئی فرنیچر آپ کے کام آتا ہے نہ گاڑی نہ بائیک۔‘
050126_expensive_cars
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/01/050126_expensive_cars
گاڑیوں کی گرانی
پاکستان میں پینتیس فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور معاشی خود کشیاں عام ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کی خرید و فروخت اتنی بڑھ گئی ہے کہ مارکیٹ میں نئی گاڑیوں کی قلت ہے اور گاڑیاں اپنی کمپنیوں کی مقرر کردہ قیمت سے ستر ہزار روپے سے لے کر سوا لاکھ روپے زیادہ قیمت پر فروخت کی جارہی ہیں جسے عرف عام میں ’آن‘ کہا جاتا ہے۔
بکنگ کروانے سے نئی گاڑی مقررہ پوری قیمت ادا کرنے کے پانچ چھ ماہ بعد خریدنے والے کو ملتی ہے اور بعض اوقات اس سے بھی زیادہ دیر میں۔ گویا ایک شخص چھ ماہ تک اپنے چار سے چھ لاکھ روپے بلا منافع گاڑیاں بنانے والوں اور ان کے ڈیلروں کے پاس جمع رکھواتا ہے یعنی بیس ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے تک کا وہ منافع جو اسے یہ پیسے بنک میں جمع رکھنے سے مل سکتا ہے گاڑیاوں بیچنے والے لے اُڑتے ہیں۔ لاہور میں سوزوکی کار کے ڈیلرز کا کہنا ہے کار پلانٹ کسی وجہ سے بند ہے اور گاڑیاں میسر نہیں۔ شہر میں سوزوکی آلٹو ایک ہزار سی سی (اے سی اور سی این جی) کی صرف دو تین گاڑیاں مختلف شو رومز میں کھڑی ہیں جو ان کی مقررہ قیمت (پانچ لاکھ روپے) سے ستر ہزار روپے زیادہ قیمت پر میسر ہیں۔ اس سے برا حال سوزوکی مہران (آٹھ سو سی سی) کا ہے جس کی مارکیٹ میں قیمت اس کی اصل قیمت سے نوے ہزار روپے زیادہ مانگی جارہی ہے۔ سوزوکی کی ایک ہزار سی سی کلٹس پر ایک لاکھ بیس ہزار روپے آن ہے جبکہ عام طور پر زیادہ پسند نہ کی جانے والی بلینو پر نوے ہزار روپے تک آن ہے۔ چھوٹی گاڑیوں میں ٹیوٹا والوں کی کورے (ساڑھے آٹھ سو سی سی) خاصی مقبول گاڑی ہے۔ پانچ لاکھ انیس ہزار روپے مقررہ قیمت والی کورے کی قیمت مارکٹ میں اس وقت پانچ لاکھ دس ہزار روپے ہے یعنی اکینوے ہزار روپے بلیک مارکٹ پرائس۔ اسی طرح پانچ لاکھ انسٹھ ہزار روپے والی کورے کی قیمت پانچ لاکھ ساٹھ ہزار روپے ہے۔ کورے گاڑیاں بھی گنتی کی چند ایک مارکٹ میں موجود ہیں ارو خریدنے والے کے پاس رنگ چننے کا کوئی اختیار نہیں۔ کورے کے ڈیلرز سہارا کا یہ بھی کہنا ہے کہ آٹومیٹک ٹرانسمیشن والی کورے کے علاوہ کورے کے دورسے دو ماڈلز کی بنکنگ بھی اس وقت بند ہے۔ ہنڈائی کی سانترو (ایک ہزار سی سی) جو حالیہ دنوں میں خاصی مقبول ہوئی ہے وہ اپنی مقررہ قیمت (تقریبا پانچ لاکھ ساٹھ ہزار روپے) سے تقریبا نوے ۃزار روپے زیادہ قیمت پر دستیاب ہے۔ پاکستان میں جب بھی گاڑیوں کی درآمد پر ڈیوٹی کم کرنے یا ری کنڈیشنڈ گاڑیوں کی درآمد کی بات ہوتی ہے تو ایک گاڑیاں بنانے والے اور ان کے ڈیلرز اس کی مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے ملکی صنعت کو نقصان ہوگا۔ یہ لوگ میڈیا میں خبریں شائع کراتے ہیں کہ پاکستان میں کاروں کی قیمت کم ہے اور انٹرویوز میں دعوے کرتے ہیں کہ گاڑیوں کی پیداوار پڑھ گئی ہے اور اب گاہکوں کو زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اسلام آباد کے پالیسی ساز پر الزام ہے کہ وہ اب تک کاریں بنانے والوں کی حمایت کرتے آئے ہیں۔ تاہم مارکیٹ میں اصل صورتحال کیا ہے اس کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب کوئی عام شہری کار خریدنے جاتا ہے۔
060729_pm_mqm_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/07/060729_pm_mqm_sen
سندھ بحران پر کراچی مذاکرات
سندھ میں صوبائی حکومت کے بحران کے حل کے لیئے وزیراعظم شوکت عزیز جمعہ کی شام کراچی پہنچے، جہاں انہوں نے گورنر ہاؤس میں سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم ،گورنر عشرت العباد اور سٹی ناظم کراچی مصطفیٰ کمال سے مذاکرات کیئے۔
وزیر اعظم شوکت عزیز کے ساتھ اجلاس میں مسلم لیگ کے سیکریٹری جنرل مشاہد حسین، محمد علی درانی اور کچھ اور وفاقی وزیر بھی شریک تھے۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ متحدہ کے ساتھ معاملات افہام وتفہیم سے حل کیئے جائینگے جبکہ صدر مشرف یہ کہہ چکے ہیں کہ وزراء کے استعفے منظور نہیں کیئے جائینگے۔ صدر پرویز مشرف نے سندھ کے گورنر کو متحدہ کہ وزراء اور مشیروں کے استعفے منظور نہ کرنے کی ہدایت کر چکے ہیں۔ یہ استعفے رات کو ان کے حوالے کیئے گئے تھے۔ دوسری جانب اطلاعات اور نشریات کے وفاقی وزیر محمد علی درانی ایک نجی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مشرف نے گورنر سندھ کو ہدایت کی ہے کہ استعفے منظور نہ کیئے جائیں اور مسائل بات چیت کے ذریعے حل کیئے جائیں۔ درانی کے مطابق مخلوط حکومت میں اس طرح کے ایشوز پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن موجودہ حکومت کی روایت رہی ہے کہ اس نے اختلاف رائے کو برداشت کرتے ہوئے ہر قسم کے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا ہے۔ استعفے بھیجنے کا فیصلہ کراچی اور لندن میں متحدہ قیادت کے اجلاس کے دو نشستوں کے بعد کیا گیا۔
pakistan-49706164
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49706164
وسعت اللہ خان کا کالم بات سے بات: اور جوتے نے کتاب کو دھکا دے دیا
بی بی سی اردو کی ایک مختصر بصری رپورٹ میں معروف بلوچی لکھاری اور دانشور ڈاکٹر شاہ محمد مری شکوہ کر رہے ہیں کہ کوئٹہ کی مشہور جناح روڈ کبھی کتابوں کی دکانوں اور علمی و سیاسی مباحثوں کو فروغ دینے والے ریستورانوں کا مرکز ہوا کرتی تھی ۔اب وہ چائے خانے غائب ہو گئے اور ان کے باہر چکن تکہ لٹک گیا۔
بقول شاہ محمد مری کتابوں کی دکانوں کو جوتے کے کاروبار نے دھکا دے کر میز پر خود کو سجا لیا۔ کتاب اور بحث کا کلچر ٹھکانے لگا تو سچ، رواداری اور انسانی اقدار بھی رخصت ہونے لگیں۔ انھیں واپس لانا ہے تو کتابی کلچر واپس لانا ہو گا۔ پشاور صدر میں چند برس پہلے تک کتابوں کی چار دکانیں تو میں نے گنی ہیں۔ سنا ہے اب بھی ایک باقی ہے۔ دو کروڑ سے زائد آبادی کے کراچی کے کاروباری قلب صدر میں کتابوں کی 10 دکانوں کے اندر خود میں نے قدم رکھا ہے۔ اب ریگل پر صرف ایک دکان باقی ہے جس کا محاصرہ گنے کے جوس کے ٹھیلوں اور الیکٹرانکس کی دکانوں نے کر رکھا ہے۔ وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے آئین کھانستا ہوا بابا ہے عالمِ اسلام پر رونا نہیں ہنسنا سیکھیے عالمی برادری کس ایڈریس پر رہتی ہے؟ جس کتاب بین کے پاس پیسے کم ہوں اس کی رسائی ریگل کی فٹ پاتھ، فرئیر ہال کے اتوار بازار، ناظم آباد چورنگی پر ایستادہ واحد ٹھیلے اور یونیورسٹی روڈ پر ایک کھلے میدان میں غیرقانونی طور پر قائم چند کتابی کیبنوں تک ہے۔ یہاں زیادہ تر وہ پرانی کتابیں ملتی ہیں جن کے مالکوں کی اولاد، باپ کی آنکھ بند ہونے کے تیسرے دن ہی، کسی کتابی کباڑی کو فون کر دیتی ہے کہ آؤ اور سب کوڑیوں کے دام لے جاؤ۔ جس خوشحال کو پیسے کی چنتا نہ ہو اور نئی اور مہنگی کتابیں پڑھنے کا شوق بھی ہو اس کے لیے کراچی میں صرف ایک ملک گیر اشاعتی ادارے کے چند شو روم یا پھر جدید کمرشل مالز یا پنج ستارہ ہوٹل میں انگریزی کتابوں کی دو، تین دکانیں حاضر ہیں۔ وہاں ڈسکاؤنٹ نہ ملنے کی وجہ سے کنگلے کتابی کیڑوں کو گھسنے کی کم ہی جرات ہوتی ہے۔ کتابوں کو کم آمدنی والے قارئین و طلبا کے لیے بچانے کی آخری لڑائی غالباً کراچی کا اردو بازار، لاہور و اسلام آباد کے چند ناشر و کتب فروش، ایک آدھ سرکاری ادارہ اور پائریٹ پبلشرز لڑ رہے ہیں۔ مگر کب تک؟ اس حالت میں کتابی میلوں اور نمائشوں کا وقتاً فوقتاً انعقاد بھی غنیمت جانیے۔ ایسے دور میں اب ہم جیسوں کو بھی کتابی نوحہ گری اور دانشورانہ ریں ریں بند کر دینی چاہیے۔ مال وہی بکتا ہے جس کی کھپت ہو۔ اب موبائل فون، الیکٹرونک گیجٹس اور کمپیوٹر گیمز سافٹ وئیرز کی خرید و فروخت کا دور ہے۔ مباحثوں کے امین سستے چائے خانوں کے بجائے برگر و پیزا شاپس، سجی ہاؤسز، جوس اور چکن تکے کا زمانہ ہے۔ وہاں آپ بیٹھتے ہیں، کھاتے ہیں اور کھانا ختم ہوتے ہی بل ادا کر کے نکل لیتے ہیں۔ بیرے اور جگہ کے منتظر اگلے غول کی گھورتی چھیدتی نگاہیں آپ کو منٹ بھر بھی فالتو نہیں بیٹھنے دیتیں۔ ایسے میں فکری بحث کے نام پر گھنٹوں بیٹھنے کی روایت کو رونے سے کیا حاصل؟ اب روایتی چائے خانوں کی جگہ کوئٹہ پیشن ہوٹل ٹائپ انڈے پراٹھے چائے کے شبینہ ڈھابے پائے جاتے ہیں۔ وہاں ڈی پولیٹسائز نوجوان کیرم کھیلتے ہیں، باس کی برائیاں کرتے ہیں، اگنور کرنے والی لڑکیوں کے کردار کا باآوازِ بلند ایکسرے سمجھاتے ہیں، گلیارا مذاق چلتا ہے اور رات کے پچھلے پہر تھک ہار کے موٹر سائیکل کو ایڑ لگا یہ جا وہ جا۔ کیونکہ اگلے دن پھر ضروری ہجوم کا حصہ بننا ہے۔ غریب و نیم متوسط طبقے کی دسترس سے سینما کب کا نکل چکا۔ پاؤنڈ اور ڈالر کے بھاؤ نئی انگریزی کتاب کی خریداری کی لگژری بھی اشرافیہ کی گود میں جا بیٹھی۔ کیا باقی 21 کروڑ 50 لاکھ جیو جنتوؤں کو سیاسی تہذیبی شعور دینے کے لیے آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس، فواد چوہدری کے ٹویٹ، فرشی سلام میں جٹے نیوز چینلز، پارلیمانی دھما چوکڑ، اندھیرے میں تیر چلانے والے خارجہ پالیسی باز ریٹائرڈ و حاضر مبصرین اور جغرافیہ و تاریخ سے نابلد اینکرز وغیرہ کافی نہیں؟ جب ہدف قوم کے بجائے ہجوم یا ریوڑ تیار کرنا ہو تو پھر کتاب کی گنجائش نہیں بچتی۔ کتاب سوال کو جنم دیتی ہے، کتاب ذہن کھولتی ہے۔ ہمیں اب دونوں کی ہی ضرورت نہیں۔ دونوں ہی کب کے آؤٹ سورس ہو چکے۔ شہر میں کس کی خبر رکھیے، کدھر کو چلیے اتنی تنہائی تو گھر میں بھی ہے، گھر کو چلیے (نصیر ترابی)
040129_journokilled_ua
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/01/040129_journokilled_ua
ناظم کے ہاتھوں صحافی کا قتل
پاکستان میں صوبہ سرحد کے شمالی پہاڑی علاقے مانسہرہ میں پولیس کا کہنا ہے کہ ایک مقامی ناظم نے ایک صحافی کو جمعرات کی صبح مبینہ طور پر گولیاں مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ پولیس اس سلسلے میں ناظم کی تلاش کر رہی ہے البتہ اس نے اس کے بھائی اور بیٹے کو حراست میں لے لیا ہے۔
متوفی کے بھائی نے ایف آئی آر میں ناظم کے بھائی اور بیٹے کو بھی نامزد کیا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ملزم کے بھائی اور بیٹے کو گرفتار کرنے کے علاوہ آلہِ قتل کے ساتھ اس واقعے میں استعمال ہونے والی گاڑی بھی برآمد کر لی ہے۔ مانسہرہ پولیس کے مطابق یہ واقعہ جمعرات کی صبح ایبٹ آباد روڈ پر پرانے لاری اڈے کے قریب پیش آیا جب گھر لوٹ رہےایک مقامی صحافی ساجد تنولی پر مبینہ طور پر سٹی نمبر تین کے ناظم خالد جاوید نے گولی چلا دی۔ تیس بور کے پستول سے چلی تین گولیاں متوفی کو گردن، چھاتی اور پیٹ میں لگیں جس سے وہ موقع پر ہلاک ہوگیا۔ پینتیسں سالہ ساجد تنولی ایبٹ آباد سے شائع ہونے والے اردو کے ایک مقامی روزنامہ اخبار شمال کے لئے کام کرتے تھے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ متوفی نے ملزم کے خلاف مبینہ طور پر شراب کا کاروبار کرنے سے متعلق ایک خبر شائع کی تھی جوکہ قتل کی وجہ ہوسکتی ہے۔ پولیس تھانہ مانسہرہ کے اہلکار مختار کے مطابق ساجد تنولی نے دو ماہ قبل ہی صحافت شروع کی تھی۔ اس کے مطابق اس پر پہلے سے مختلف نوعیت کے دو تین مقدمے چل رہے تھے۔
regional-55885940
https://www.bbc.com/urdu/regional-55885940
کورونا وائرس: ہوائی سفر کے لیے لوگ کووڈ 19 کے ’جعلی‘ ٹیسٹ رزلٹ خرید رہے ہیں
بی بی سی کو ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ بعض مسافر ہوائی سفر پر جانے کے لیے اتنے بیتاب ہیں کہ وہ کووڈ 19 کے ٹیسٹ کے جعلی نتائج خرید رہے ہیں۔
ایک مسافر کا کہنا ہے کہ کابل میں ان کا کورونا ٹیسٹ منفی آیا تھا لیکن دبئی میں دوبارہ ٹیسٹ کیا گیا تو یہ مثبت تھا افغانستان میں یہ عمل زور پکڑ رہا ہے۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ اس میں کروڑ پتی شخصیات سے لے کر حکومتی اہلکار شامل ہیں جو جعلی دستاویزات استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن یہ مسئلہ پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ ’شروع میں یہ سنجیدہ مسئلہ تھا۔ ہر پرواز پر جانے والے 10 سے 20 افراد جعلی کووڈ 19 ٹیسٹ لے کر آتے تھے۔ پھر یہ مزید سنگین ہوتا گیا اور یہ تعداد 50 افراد تک پہنچ گئی۔ جن منزل پر پہنچ کر ان کے ٹیسٹ دوبارہ کیے جاتے تو ٹیسٹ رزلٹ مثبت آتے تھے۔‘ افغانستان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (اے سی اے اے) کے ڈائریکٹر محمد قاسم کے مطابق یہ مسئلہ اکتوبر کے اواخر میں سامنا آیا تھا۔ متحدہ عرب امارات میں لازم تھا کہ مسافر اپنی آمد پر منفی پی سی آر ٹیسٹ پیش کریں۔ 53 ممالک سے آنے والے مسافروں کو دوبارہ ٹیسٹنگ کے عمل سے گزارنے کی شرط لگائی گئی تھی۔ ان میں سے ایک ملک افغانستان تھا۔ متحدہ عرب امارات کو جلد یہ احساس ہوا کہ مسافر جعلی ٹیسٹ پیش کر رہے ہیں۔ کچھ مسافروں نے تو جان بوجھ کر کورونا کے جعلی ٹیسٹ رزلٹ ظاہر کیے تھے تاہم بعض کا کہنا تھا کہ انھوں نے ایسا بغیر جانے کیا ہے یا ان کے ساتھ کسی نے دھوکہ کیا۔ کابل ایئر پورٹ سے روزانہ قریب 12 بین الاقوامی پروازیں اڑان بھرتی ہیں کابل میں مقیم تاجر یاسین (فرضی نام) ایک ایسے کلینک پر گئے تھے جو ان کے مطابق قابل اعتماد تھا۔ انھوں نے دبئی جانے کے لیے ایک مہنگا ٹیسٹ بھی کروایا تھا۔ ’میں بہت خوش تھا کہ میرا ٹیسٹ رزلٹ منفی آیا ہے۔ میں پُراعتماد انداز میں ایئر پورٹ گیا تھا۔‘ کابل ایئرپورٹ پر تو ٹیسٹ قبول کر لیا گیا لیکن جب وہ دبئی پہنچے تو انھوں نے دوبارہ ایک کورونا ٹیسٹ کیا جو مثبت آیا (یعنی وہ کورونا سے متاثر تھے)۔ یاسین کو فوراً قرنطینہ منتقل کر دیا گیا اور ان کا کاروباری دورہ ’برباد‘ ہوگیا کیونکہ ان کے مطابق انھیں ایک جعلی کورونا ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ تھمایا گیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں یہ معلوم نہیں تھا کہ اس کلینک نے ان کا جعلی ٹیسٹ کیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق افغانستان میں جولائی 2020 کے لاک ڈاؤن کے بعد ہر ماہ اوسطاً آٹھ ہزار مسافر بیرون ملک سفر کرتے رہے یہ مسئلہ نومبر میں اتنا سنگین ہوگیا کہ کابل سے آنے والی پروازوں کو عارضی طور پر معطل کر دیا گیا۔ ہر دن اس شہر سے 12 بین الاقوامی پروازیں اڑان بھرتی تھیں۔ محمد قاسم نے کابل کے ایسے پانچ نجی ہسپتالوں کی فہرست جاری کی تھی جو کورونا کے جعلی ٹیسٹ کر رہے تھے تاہم ان تمام نے یہ الزام رد کیا ہے۔ سرکاری حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ کلینک اور مسافر جان بوجھ کر کووڈ 19 کے جعلی ٹیسٹ نتائج بنا رہے تھے کیونکہ ملک میں ٹیسٹ کروانے والے افراد کی ایک بڑی تعداد تھی، ٹیسٹ کی فیس بہت زیادہ تھی اور رشوت کے ذریعے جعلی ٹیسٹ رزلٹ باآسانی خریدے جاسکتے تھے۔ فیس بک پر افغانستان کے نائب صدر امراللہ صالح نے کہا کہ کابل میں کئی نجی لیبارٹریوں نے جعلی ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ بنائے۔ وہ کہتے ہیں کہ صحت کے معیارات کے اعتبار سے افغانستان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ انھوں نے متنبہ کیا کہ کورونا ٹیسٹ میں فراڈ کی نشاندہی کے لیے ایجنٹس متحرک ہوچکے ہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’اس جعلسازی سے افغانستان کی متزلزل معیشت کو نقصان پہنچا ہے۔ ’یہ افسوسناک ہے کہ ملک کے دو شہریوں نے، جو مشہور ہیں اور کروڑ پتی ہیں، ان لیبز سے جعلی ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ خریدے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’افغان سکیورٹی چارٹر کے کئی رضاکار یہ ٹیسٹ رشوت دے کر کروائیں گے، یہ جاننے کے لیے کہ کون سی لیبارٹری کرپٹ ہے۔‘ جلال آباد کے ایک شہری نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے کورونا ٹیسٹ کروانے کے لیے 200 روپے دیے حکومت نے اس سلسلے میں کئی نجی ٹیسٹ سینٹرز کے لائسنس معطل کیے جنھیں اب یہ اجازت نہیں کہ وہ کووڈ 19 کے ٹیسٹ کی تصدیق کریں۔ لیکن حکومت نے اس حوالے سے بی بی سی کو سرکاری اعداد و شمار نہیں دیے۔ تاہم حکام نے ایسی 25 لیبارٹریوں کے نام جاری کیے ہیں جن کے ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ کابل ایئرپورٹ پر تسلیم کیے جا رہے ہیں۔ لیکن اس سے مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ ایک لیب ٹیکنیشین، جنھوں نے یہ جعلسازی خود دیکھی ہے، کہتے ہیں کہ قانون سازوں سمیت کئی اہلکاروں نے کووڈ 19 کے ٹیسٹ اپنی غیر موجودگی میں کروا لیے ہیں اور اس کی کاپیاں لیبارٹریوں کو بھجوائی ہیں تاکہ ٹیکنیشین اس کا دستاویزی نمبر پرنٹ کر سکیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’لیبارٹریاں الگ مقاصد کے لیے ایسا کرتی ہیں، بنیادوں طور پر پیسوں کے لیے۔ ’وہ بااثر شخصیات کو خوش کرنے کے لیے بھی ایسا کرتے ہیں جو اپنے دورے سے قبل فوراً ایک منفی ٹیسٹ مانگتے ہیں یا کچھ این جی او ورکرز اپنی کمپنی سے لمبی چھٹیاں مانگنے کے لیے رشوت دے کر مثبت ٹیسٹ حاصل کرتے ہیں۔‘ اس ٹیکنیشین (جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی) نے بی بی سی کو بتایا کہ جعلی ٹیسٹ کیسے کیے جاتے ہیں۔ ’مجھے بڑے کلینکس کی کچھ برانچوں کا علم ہے جو سواب سے نمونے لینے کے بجائے اسے پانی میں ڈالتی ہیں اور مرکزی برانچ پر جائزے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ اور یہ ٹیسٹ اس طرح منفی آتا ہے۔‘ متحدہ عرب امارات آمد پر منفی کورونا ٹیسٹ دکھانا پڑتا ہے بی بی سی نے ایسے کئی افراد سے بات کی ہے جنھوں نے کورونا پی سی آر ٹیسٹ کے جعلی منفی سرٹیفیکیٹ کسی لیب، فارمیسی یا فوٹو کاپی کی دکان سے خریدے۔ ان لوگوں نے کوئی سواب ٹیسٹ نہیں کروایا اور تین ڈالر سے بھی کم رقم میں یہ جعلی ٹیسٹ حاصل کیا۔ نجی سطح پر اس کورونا ٹیسٹ کی قیمت اوسطاً 65 ڈالر ہے۔ بی بی سی نے افغان پبلک سروس کے ایک اہلکار سے بھی بات کی جس نے کہا کہ وہ 200 ڈالر میں منفی کووڈ 19 کا بندوبست کر سکتا ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیسے، تو انھوں نے کہا ’وہ آپ مجھ پر چھوڑ دیں۔‘ یہ مسئلہ صرف افغانستان تک محدود نہیں۔ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) نے کہا ہے کہ جعلی کووڈ 19 ٹیسٹ کا مسئلہ ’برازیل، بنگلہ دیش اور فرانس سمیت دنیا بھر میں ہے۔‘ برطانیہ کے اخباروں میں ایک خبر کے مطابق ایک شخص نے اعتراف کیا تھا کہ اس نے ایک منفی کووڈ 19 ٹیسٹ پر اپنا نام فوٹو شاپ کے ذریعے لگا دیا تھا تاکہ وہ بیرون ملک سفر کر سکے۔ ڈنمارک نے 22 جنوری کو پانچ روز کے لیے دبئی جانے والی پروازیں معطل کی تھیں۔ اس کی وجہ کووڈ 19 کے ٹیسٹ کی ساکھ بتائی گئی تھی۔ حکام نے کہا تھا کہ ’دبئی کے ٹیسٹ کافی نہیں‘ اور ٹرانسپورٹ کے وزیر نے اب 2 فروری تک اس پابندی کی توسیع کر دی ہے۔ فرانس میں حکام نے پیرس ایئرپورٹ سے سات افراد کو گرفتار کیا تھا جن کے پاس کووڈ 19 کے 200 جعلی ٹیسٹ ان کی ڈیجیٹل ڈیوائسز میں تھے۔ ایران کی حکومت نے بھی جعلی کووڈ 19 ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ کے الزام میں کچھ مراکز بند کیے ہیں جبکہ چلی میں ایک طبی مرکز کو بھی اسی الزام پر بند کیا گیا تھا۔ پاکستان میں اسلام آباد اور کراچی میں بی بی سی کے رپورٹرز سمجھتے ہیں کہ کچھ ایئرلائنز نے مخصوص لیبارٹریوں کی فہرست جاری کی ہے جو براہ راست ایئر لائن تک ٹیسٹ کے نتائج بھیجتی ہیں۔ وہاں کچھ مسافروں نے جعلی ٹیسٹ رزلٹ استعمال کیے تھے۔ کینیا میں مقامی حکام کا کہنا ہے کہ جعلی ٹیسٹ رزلٹ بنانے والوں کے خلاف مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔ نیپال میں بھی ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ جعلی ٹیسٹ رزلٹ خریدنے کا مسئلہ صرف افغانستان تک محدود نہیں آئی اے ٹی اے کا کہنا ہے کہ ٹیسٹ کے کاغذی سرٹیفیکیٹ کی باآسانی تحریف ہوسکتی ہے کیونکہ یہ الگ الگ فارمیٹ (شکل) اور زبان میں پائے جاتے ہیں جس سے دنیا بھر میں ’صحت سے متعلق جانچ میں مسائل ، غلطی اور جعلسازی بڑھ سکتی ہے۔‘ اس نے عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے ساتھ شراکت قائم کی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ افغانستان جیسے ممالک میں ٹیسٹ تک رسائی محدود ہے اور زیادہ سے زیادہ یومیہ پانچ ہزار ٹیسٹ کیے جاسکتے ہیں جو ’جعلی‘ دستاویزات کی بڑی وجہ ہے۔ عالمی ادارہ صحت کوشاں ہے کہ ڈیجیٹل ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ کا اجرا ممکن ہوسکے۔ اس میں بلاک چین ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔ ادارے نے کہا ہے کہ ’جعلی دستاویزات، جو خاص کر ٹیسٹ یا ویکسینیشن سرٹیفیکیٹ سے متعلق ہو، ایک مسئلہ ہے۔ ہم اس سے آگاہ ہیں اور اس سے کووڈ 19 کے علاوہ دوسری بیماریوں (کی روک تھام کے عمل) پر بھی اثر پڑتا ہے۔‘ دریں اثنا آئی اے ٹی اے مختلف حکومتوں سے بات چیت میں ’آئی اے ٹی اے ٹریول پاس‘ کی پیشکش کر رہی ہے جو مسافر اپنے موبائل فونز میں رکھ سکیں گے اور اس سے جعلسازی روکی جاسکے گی۔ آئی اے ٹی اے کا کہنا ہے کہ ’اس سے مسافروں کو ایسا پلیٹ فارم ملتا ہے جس سے وہ اپنے ٹیسٹ یا ویکسینیشن کے نتائج محفوظ جگہ پر حاصل کر سکتے ہیں، اسے وہ اپنی ڈیجیٹل شناخت سے جوڑ سکتے ہیں اور ایئر لائنز، بارڈر کنٹرول یا حکومتوں کو بھیج سکتے ہیں۔‘ افغان حکام کے مطابق وہ اس مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ محمد قاسم کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ایسا نہیں ہو رہا کیونکہ کچھ کلینکس کو اجازت نہیں کہ وہ ٹیسٹ کے نتائج جاری کریں۔ ایئرپورٹ پر اقدامات کیے گئے ہیں اور مختلف مراحل پر مسافروں کے دستاویزات چیک کیے جاتے ہیں۔ (ایئر پورٹ سے) باہر نکلنے والوں اور داخل ہونے والوں کو اپنے اصل پی سی آر ٹیسٹ دکھانے ہوتے ہیں۔‘ ’جعلی ٹیسٹ نہ صرف کلینک نے جاری کیے بلکہ کچھ ٹریول ایجنسیوں اور لیبارٹریوں نے بھی کووڈ 19 ٹیسٹ سرٹیفیکیٹ کی صورت میں ایسا ہی کیا۔ ہم اب بین الاقوامی کمپنیوں کے ساتھ اسے روکنے پر کام کر رہے ہیں۔‘ تحریر میں حافظ اللہ معروف اور علی حسینی نے اضافی رپورٹنگ کی ہے
050917_squash_ladies
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2005/09/050917_squash_ladies
اسلامی کھیلوں میں غیرمسلم کھلاڑی
پاکستان سکواش فیڈریشن نے اسلامی کھیلوں کے سکواش ٹورنامنٹ کی ذمہ داری خواتین کی اسکواش کی عالمی تنظیم کو سونپنے اور اس میں غیرمسلم کھلاڑیوں کی شرکت پر تشویش ظاہر کی ہے۔
اسلامی کھیل بائیس ستمبر سے تہران میں شروع ہورہے ہیں۔ مسلمان ممالک کے ان کھیلوں کے منتظمین نےسکواش ٹورنامنٹ کو خواتین کی سکواش کی عالمی تنظیم کے حوالے کردیا ہے جس نے اسے ایک بین الاقوامی ٹورنامنٹ کا درجہ دیتے ہوئے ساڑھے آٹھ ہزار ڈالر کی انعامی رقم مختص کردی ہے بلکہ اس کے ڈراز میں انگلینڈ، آئرلینڈ، کوریا اور جاپان کی غیرمسلم خواتین کھلاڑیوں کو بھی شامل کرلیا ہے۔ پاکستان سکواش فیڈریشن کے سیکرٹری ونگ کمانڈر ذوالفقار احمد نے بی بی سی کو بتایا کہ اس صورتحال پر انہیں تشویش ہے اور انہوں نے اس بارے میں پاکستان سپورٹس بورڈ سے رابطہ کیا ہے۔ اسلامی کھیلوں کے سکواش کے مقابلوں میں کارلاخان، مقدس اشرف اور ماریہ طور پاکستان کی نمائندگی کریں گی۔ کارلا خان ٹاپ سیڈ ہیں۔
040427_children_killed
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/04/040427_children_killed
بھارت: حادثہ، بارہ بچے ہلاک
بھارت کی ریاست مغربی بنگال میں پولیس کے مطابق ٹرین کے حادثے میں بارہ بچے ہلاک اور بیس زخمی ہو گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ بچے شدید زخمی ہیں۔
محکمۂ ریل کی ایک ترجمان کے مطابق محکمہ کو تیس بچوں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے لیکن وہ کسی ہلاکت کے بارے میں نہیں جانتے۔ یہ حادثہ کولکتہ سے دو سو اسّی میل شمال میں جلپائیگُری شہر کے پھاٹک پر پیش آیا جہاں کوئی پھاٹک والا تعینات نہیں تھا۔ ایک اطلاع کے مطابق بچے سکول بس میں سوار تھے جبکہ یہ بھی کہا گیا ہے کے بچے ٹریکٹر ٹرالی میں سکول جا رہے تھے۔ مقامی پولیس کے مطابق بس میں چالیس بچے سوار تھے۔
070127_gujrat_hostle_zs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/01/070127_gujrat_hostle_zs
چھت گرنےسے 11 طالبات ہلاک
ہندوستانی ریاست گجرات کے حکام کے مطابق لڑکیوں کے ایک سکول کے ہاسٹل کی چھت گرنے سے کم از کم گیارہ طالبات ہلاک اور چودہ زخمی ہوگئی ہیں۔
حکام کے مطابق یہ حادثہ جمعہ کو رات گئے سورت شہر کے ٹیچک پورگاؤں میں پیش آیا۔ مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ ہفتے کی دوپہر تک امدادی کارروائی مکمل ہو چکی ہے اور زخمی طالبات کو ہسپتال میں داخل کر دیا گیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی جانب سے ابتدائی اطلاعات میں کہا گیا تھا کہ کم از کم سو سے زائد طالبات اب بھی ملبے میں دبی ہوئی ہیں تاہم حکام نے اس اطلاع کو غلط قرار دیا ہے۔ حکام کے مطابق جس وقت یہ حادثہ پیش آيا اس وقت تقریباً چالیس طالبات ہاسٹل میں موجود تھیں۔ دريں اثناء حکام نے تعمیراتی ماہرین کو حادثے کی وجوہات کا پتہ لگانے کا حکم دے دیاہے۔ متاثرہ ہاسٹل غریب قبائلی طالبات کے لیے بنایا گیا تھا اور مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ ہاسٹل کی عمارت پرانی اور خستہ حالت میں تھی۔
040804_halal_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/08/040804_halal_ms
شراب، کتنی جائز؟: آپ کا ردِّ عمل
برطانیہ کی مسلم لاء کونسل نے مسلمانوں کو ایسی سافٹ ڈرنکس پینے کی اجازت دے دی ہے جن میں شراب اور سور کے گوشت کی جزوی سی مقدار پائی جاتی ہے۔
اس سے قبل ’لوکوزیڈ‘ اور ’رائبینا‘ نامی سافٹ ڈرنکس حرام قرار دی گئی تھیں۔ لوکوزیڈ میں 0.01 فیصد شراب پائی جاتی ہے جبکہ رائبینا بنانے میں پہلے ’جیلیٹن‘ کا استعمال کیا جاتا تھا جو لحم خنزیر سے بنتا ہے مگر اب رائبینا نے اس کا استعمال بند کر دیا ہے۔ کونسل کا کہنا ہے کہ یہ مقدار بہت ہی کم ہے اور اس کی وجہ سے لوکوزیڈ کو حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کونسل اس نتیجہ پر گزشتہ سالوں میں اس بارے میں ہونے والے فیصلوں کا مطالعہ کرنے کے بعد پہنچی ہے۔ تاہم مسلمان ممالک میں بھی الکحل اور ایسے کئی عناصر کا استعمال دوائیوں اور طبی معاملات میں کیا جاتا ہے اور اکثر مغربی ممالک میں شراب بیچنا بھی مسلمان دوکانداروں کی مجبوری ہوتی ہے۔ آپ کا اس کے بارے میں کیا مؤقف ہے؟ آج کے جدید عہد میں حلال اور حرام کے بارے میں آپ کا کیا نقطۂِ نظر ہے؟ کیا پاکستان میں اور دوسرے اسلامی ممالک جہاں شراب پر پابندی ہے، شراب نہیں پی جاتی؟ اگر شراب پینا گناہ ہے تو کیا اسے بیچنا جائز ہے؟ اس پابندی کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟ سمینہ، نامعلوم:یہ فیصلہ کرنے والوں کے حق میں صرف دعا کی جا سکتی ہے۔ شراب کا چھینٹہ بھی اگر کپڑے پر گر جائے تو وہ ناپاک ہو جاتا ہے، اسے پینا تو بہت دور کی بات ہے۔ بات کچھ سمجھ میں نہیں آئی صاحب۔ لگتا ہے کہ فیصلہ کرنے والے خود نشے میں تھے۔ محمد نواز، پاکستان: بالکل جائز ہے اور پینی چاہئیے۔ عرفان، پاکستان:میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ’تھوڑی سی مقدار‘ کیا ہے اس کا فیصلہ کون کرےگا۔ غلام رسول، پاکستان:میں اس بات سے بالکل متفق نہیں ہوں۔ امتیاز احمد خان،پاکستان:شراب خود اسلام میں حرام ہے۔ اس کا تعلق صرف نشے سے نہیں ہے۔ اگر حرام چیز کو حلال میں ملا دیا جائے تو بھی حرام ہو جاتی ہے۔ نوید احمد، پاکستان: اللہ نے انسان کو بنایا ہے اور زندگی گزارنے کے لیے اپنا قانون ’اسلام‘ کی شکل میں فراہم کیا ہے۔ہمیں چاہئیے کہ اپنی زندگی اسلام کے مطابق گزارنے کی کوشش کریں۔ لیکن ہم ایسے مسائل پر بحث کرتے ہیں جن کے بارے میں کسی شک کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ شراب حرام ہے اور اس پر بحث فضول ہے۔ محمد حسن، آسٹریلیا: شراب حرام ہے۔ مقدار سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مسلم لاء کونسل کے فیصلہ کی وجہ میری سمجھ میں تو نہیں آرہی ہے۔ قیامت کے دن ہم اللہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمیں لاء کونسل نے اجازت دی تھی۔ وقار الطاف، پاکستان: اسلام میں شراب کو صاف طور پر حرام قرار دیا گیا ہےاور اسے تمام برائیوں کی جڑ بتایا گیا ہے۔ اس لیے شراب حرام اور جائز سی بات ہے کہ ایک مسلمان پر اس کا بیچنا بھی حرام ہے۔ کونسل کے کہنے پر پینا صحیح نہیں ہے کیونکہ قیامت کے دن خود جواب دینا پڑےگا۔ اواطف، جاپان:اصل بات نشے کی ہے مگر ہمارے مسلمان تو لکیر کے فقیر ہی رہیں گے۔ کلیم، کینیڈا: حلال اور حرام کا فیصلہ صرف اللہ کر سکتے ہیں اور انہوں نے شراب کو حرام قرار دیا ہے۔ اس لیے اس بارے میں بحث کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ محمد فدا، کینیڈا: یہ بہت اچھی خبر ہے۔ آخرکار ہماری قوم ماضی سے باہر نکل رہی ہے۔ ت بخاری، پاکستان: قران میں نشے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ نماز نشے میں نہیں پڑھنی چاہئیے۔ تو شراب حرام کیسے ہوئی؟ شراب انسانوں کے لیے بنی ہے ملاؤں اور جانوروں کے لیے نہیں۔ محمد فحداللہ، پاکستان: ابھی زندہ ہوں تو جی لینے دو۔۔ بھری برسات میں جی لینے دو۔ نصراللہ، پاکستان:میرا تعلق متوست طبقے کے ایک خاندان سے ہے۔ میں اور میرے دوست اکثر مل کر شراب پیتے ہیں۔ ہم سب پڑھے لکھے ہیں۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان میں شراب بہت آسانی سے خریدی جا سکتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی شراب پیتے ہیں۔ میں بس یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس منافقت کو چھوڑ دینا چاہئیے اور باقائدہ ’بارز‘ کھولنے کے لیے تحریک چلانی چاہئیے۔ نوشیروان، جرمنی:اکیسویں صدی میں بھی بےوقوف مسلمان شراب کے مسائل پر بحث کر رہے ہیں! ادنان قریشی، سپین:دراصل ہم اسلام کو سمجھے ہی نہیں ہیں۔ ہم بس وہی جانتے ہیں جو ملا ہمیں بتاتے ہیں۔ اگر شراب ہر حال میں حرام ہے تو پھر اسے پاکستان میں بیچا کیوں جاتا ہے؟ اگر شراب پینا حرام ہے تو پاھر اسے بیچنا جائز کیسے ہے؟ محمود اخطر، امریکہ:ایسے مولویوں نے ہی اسلام کو اس حال پر پہنچایا ہے۔ شاکر خان، پاکستان:اللہ نے قران میں کہا ہے کہ شراب کے کچھ فوائد بھی ہیں۔ تاہم اس کے نقصانات زیادہ ہیں اور اس کے پینے سے عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ تو اس حساب سے شراب کی اتنی مقدار جس سے انسان مکمل ہوش میں رہے جائز ہونی چاہئیے۔ احمد علی، پاکستان: ہوئی مہنگی بہت ہے شراب کہ تھوڑی تھوڑی پیا کرو۔۔۔ رجیہا، پاکستان:تھوڑی شراب ہو یا زیادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ شراب شراب ہوتی ہے تھوڑی ہو یا زیادہ۔ یہ مسلمانوں کے لیے حرام ہے اور کسے حالت میں حلال نہیں ہو سکتی۔ سرمد خان، نامعلوم:اگر میں صحیح سمجھ رہا ہوں یو اس فیصلے کے مطابق کوئی بھی حرام کام اگر کم کیا جائے تو وہ حلال ہو سکتا ہے۔ میں اس فیصلے کو کیسے مان لوں؟ جناب کچھ توجہ جوانوں کے مسائل پر بھی دیں۔ ندیم احمد، پاکستان:شراب حرام ہے اور یہ اللہ کا حکم ہے جسے ماننا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ چاہے وہ 0.01 فیصد ہو یا 10 فیصد۔ اگر کھانے میں 0.01 فیصد غلازت ملا دی جائے تو کیا آپ کھائیں گے؟ رحمت اللہ شنواری، پاکستان:شراب پینے پر ہمارے رسول نے پابندی لگائی تھی کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ لوگ نشے میں اچھے برے کا فرق بھول جاتے ہیں۔ اس لیے شراب ہمارے لیے حرام ہے۔ عبداللہ، لاہور:ہر وہ چیز حرام ہے جس سے نشہ ہو تا ہے۔ تھوڑی مقدار ہو یا زیادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اظفر خان، کینیڈا:اسلامی اصول تو یہ ہے کہ جس چیز کی زیادہ مقدار پینے سے نشہ ہوجائے اس کی تھوڑی مقدار بھی حرام ہے۔ اسلام میں حلال اور حرام کا تعلق فرد کی اپنی تعبیر سے بھی ہے۔ اے مسلمان اپنے دل سے پوچھ، ملا سے نہ پوچھ۔ قیصر، پاکستان:میں اس کے حق میں نہیں ہوں کیونکہ آحر وہ ہوتی تو شراب ہی ہے۔ الیاس خان، پاکستان:شراب ہر حالت میں حرام ہے۔ یاسر ممتاز، پاکستان:زہر چاہے کم ہو یا زیادہ زہر ہی ہوتا ہے۔ جب اللہ نے قران میں شراب کو حرام قرار دیا ہے تو پھر مقدار سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ عثمان حمید، فیصل آباد:شراب کو حلال قرار دے دینا اسلام کی توہین ہے۔ راجیحہ، فیصل آباد:الکحل تھوڑی یا زیادہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور یہ مسلمان پر حرام ہے۔ وجاہت خان، کراچی:معاف کیجئے گا اگر پیشاب کا ایک قطرہ پانی میں گر جائے اور معلوم بھی ہو کہ وہ جگ میں صرف 0.01 ہے تو کیا لیوکو زیڈ کو حلال ماننے والے وہ پانی پی سکتے ہیں۔ حرام حرام ہے خواہ وہ سوفیصد ہو یا ایک فیصد۔ کاؤنسل ولوں نے یہ حلال بھی اپنے فائدے کے لئے کی ہوگی یا لیوزیڈ والوں سے پیسے کھائے ہوں گے۔ چار دن کی زندگی ہے بھائی پھر اللہ کو یہ جواب دوگے کہ ہم نے کاؤنسل والوں کے آسرے پر پی تھی؟ تنویر احمد، جہلم:میں کونسل کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا۔ پرویز مخدومی، گجرانوالہ:باامرِ مجبوری دوائی تو کھائی جا سکتی ہے مگر عام پینے کے لئے شراب خواہ کتنی ہی کم کیوں نہ ہو، حرام ہی ہوگی۔ ویسے میں ایک خلیفہ کے بارے میں یہ روایت پڑھ رہا تھا کہ ان کا کہنا تھا کہ اگر نو پیالے شراب پیو اور نشہ نہ چڑھے تو وہ حلال ہے اور اگر چڑھ جائے تو حرام ہے۔ بہرحال میرے نزدیک یہ حرام ہی ہے۔ گل منیر، برطانیہ:اتنی حلال ہے جتنی ہضم ہوجائے۔ امان اللہ مری، بینکاک:اسلامی نقطۂِ نظر سے بہتر یہ ہوگا کہ کسی ایسے عالمِ دین سے اس پر رائے لی جائے جو قرآن اور سنت پر عبور رکھتا ہو۔ ہر سخص بذاتِ حود یہ طے نہیں کر سکتا کہ کیا حرام ہے اور کیا حلال۔ اسلام میں یہ بات واضح ہے کہ آپ اپنے تمام مسائل کا حل بالترتیب ان چیزوں سے حاصل کریں، قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس۔ محمد امتیازالدین، حیدرآباد:اگر شریعت اسے حرام قرار دیتی ہے تو پھر بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ عبدالصمد، اوسلو:فوڈ اور بیوریج میکنگ کے پروسیس میں کیمیائی اور قدرتی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس دورانئے سے گزرنے کے بعد جو الکحل کی تھوڑی سی مقدار اس میں شامل ہو جاتی ہے، اسے استعمال کرنے کا تو دفاع کیا جا سکتا ہے۔ رہا اس کا بیچنا اور استعمال وغیرہ تو اسے انفرادی انتخاب پر چھوڑ دینا چاہئے۔ عثمان حمید، فیصل آباد:شراب کو حلال قرار دے دینا اسلام کی توہین ہے۔ انوار خان، کراچی:0.01 صرف فیصد پر ہم اتنا شور مچارہے ہیں۔ اس سے زیادہ نشہ تو لسّی کے ایک گلاس پر ہوجاتا ہے۔ جان رحمان خان، اردن:شراب کو اللہ نے قرآن میں حرام قرار دیا ہے لہٰذا اس کے حلال ہونے کا تو کوئی جواز ہی نہیں۔ رسول نے اسے امّ الخبائث قرار دیا۔ نشے کے عالم میں تو انسان جانور بن جاتا ہے، نہ ماں کی تمیز رہتی ہے نہ بہن کی۔ یاسر، میرپور:بیئر پینے والے کو انسانیت سے خالی کردیتی ہے۔ جسے قرآن اور رسول نے منع کیا، اس کی اجازت دینا ناممکن ہے۔ میرا خیال ہے کہ جو اسلام میں اس کی اجازت چاہتے ہیں ان کا ایمان خطرے میں ہے۔ محمد علی، برطانیہ:یہ سراسر جھوٹ ہے، میں صبح سے چار ’لوکوزیڈ‘ پی چکا ہوں، اس میں سے تو کچھ نہیں نکلا۔
080222_srilanka_australia
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2008/02/080222_srilanka_australia
آسٹریلیا سی بی سیریز کے فائنل میں
آسٹریلیا نے سری لنکا کو چوبیس رنز سے ہرا کر سی بی سیریز کے فائنل میں اپنی جگہ یقینی بنا لی ہے۔ جب بارش کی وجہ سے میچ کو روکنا پڑا اس وقت تک سری لنکا نے چار وکٹوں کے نقصان پر ستتر رنز بنا لیے تھے۔
اس سے پہلے سری لنکا کے بولر کھیل پر حاوی رہے اور مقررہ پچاس اوورز میں آسٹریلیا کی ٹیم سات وکٹوں کے نقصان پر صرف 184 رنز بنا سکی۔ سری لنکا کی طرف سے مہاروف اور مرلی دھرن نے دو دو وکٹ لیے جبکہ واس اور ملنگا کے حصے حصے ایک ایک وکٹ آئی۔ آسٹریلیا کے کپتان رکی پونٹنگ رن آؤٹ ہوئے۔ آسٹریلیا کی طرف سے سب سے زیادہ سکور مائیکل ہسے نے کیا جو 98 گیندوں پر 64 رنز بنا کر ناٹ آؤٹ رہے۔ ان کے علاوہ صرف کلارک ہی تھے جو نصف سنچری بنا سکے۔ میلبورن میں کھیلے جانے والے اس میچ میں سری لنکا نے ٹاس جیت کر آسٹریلیا کو بیٹنگ کی دعوت دی اور چون کے سکور پر اس کے چار کھلاڑی آؤٹ کر دیے۔ پہلا وکٹ 12، دوسرا 39، تیسرا 44 اور چوتھا 54 کے سکور پر گرا۔ اس کے بعد کلارک اور ہسے نے 90 رنز کی شاندار پارٹنرشپ بنائی اور سکور کو 144 رنز پر پہنچا دیا۔ تاہم اس پارٹنرشپ کے علاوہ آسٹریلیا کی طرف سے کوئی بیٹنگ پرفارمنس دیکھنے میں نہیں آئی۔
040912_pakafghan_prisoner_am
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/09/040912_pakafghan_prisoner_am
تین سو ستر پاکستانی رہا
افغانستان نے وہاں قید تقریباً تین سو ستر پاکستانیوں کو ملک واپس بھیج دیا ہے۔ ان افراد کو تقریباً تین برس قبل طالبان کے اقتدار کے خاتمے کے وقت پکڑ لیا گیا تھا۔
افغانستان پر طالبان حکومت کے خاتمے کے لیے کی گئی امریکی چڑھائی کے دوران تقریباً تین ہزار پاکستانیوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا لیکن پیش رفت کے بعد افغانستان میں محصور تمام پاکستانیوں کی رہائی مکمل ہو گئی ہے۔ ان تین سو ستر پاکستانیوں کو کابل میں واقع پلی چکری جیل سے بسوں کے ذریعے پشاور روانہ کر دیا گیا ہے جہاں حتمی رہائی کے فیصلے سے قبل حکام ان سے پوچھ گچھ کریں گے۔ ایک سفارتکار کا کہنا ہے کہ ان افراد کی رہائی کے عمل کو تین ماہ کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ ادھر پاکستان نے بھی دو سو سے زائد افغانیوں کو رہا کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ قیدیوں کی رہائی کا دو طرفہ فیصلہ افغان صدر حامد کرزئی کے دو ماہ قبل پاکستانی دورے کے دوران کیا گیا تھا۔
060220_england_practice_na
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/02/060220_england_practice_na
وارم اپ میچ انگلینڈ نےجیت لیا
بھارت میں یکم مارچ سے شروع ہونے والے انگلینڈ انڈیا ٹیسٹ میچ سے قبل دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے پریکٹس ٹیسٹ میچ میں انگلینڈ نے کرکٹ کلب آف انڈیا کو شکست سے دوچار کردیا۔
انگلینڈ کی جیت کا سہرا ٹیم کے بالرز کے سر جاتا ہے۔ انگلینڈ کے بلیک ویل نے میچ میں چھ وکٹیں لیں اور ساتھ ہی بیٹنگ کے دوران قیمتی رنز بھی سکور کیئے۔ انگلینڈ نے پہلی اور دوسری اننگز میں 299 اور 265 کا سکور کیا جبکہ کرکٹ کلب آف انڈیا نے 251 اور 75 رن بنائے اور نتیجتاً انگلینڈ نے یہ میچ 238 رن سے جیت لیا۔ تین روزہ ٹیسٹ میچ میں دوسری اننگز میں انگلینڈ نے محض ستائیس اوورز میں مخالف ٹیم کو 75 کے سکور پر آؤٹ کردیا۔ کرکٹ کلب آف انڈیا کی وکٹیں سائمن جونز، سٹیو ہارمیسن اور ایئن بلیک ویل نے لیں۔ دوسری اننگز میں انگلینڈ کا سکور 265 تک پہنچانے میں بھی بلیک ویل کا کردار اہم رہا اور انہوں نے 59 رن بنائے جبکہ سب سے زیادہ سکور مارکس ٹریسکوتھیک نے 88 رنز بنا کر کیا۔ ٹیم کو اپنے بالرز کی جانب سے کافی سہارا رہا تاہم بیٹنگ سائیڈ کے لیے ابھی بھی ٹیم کافی خدشات کا شکار ہے۔ بھارت اور انگلینڈ کے درمیان پہلا ٹیسٹ میچ یکم مارچ سے کھیلا جائے گا۔
131128_ashfaq_parevez_kayani_army_tk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/11/131128_ashfaq_parevez_kayani_army_tk
جنرل اشفاق پرویز کیانی کی قیادت کے چھ برس
پاکستانی فوج کے سبک دوش ہونے والے جنرل اشفاق پرویز کیانی نے چھ سالوں تک دنیا کے منظم ترین افواج میں سے ایک کی قیادت کی۔ چونکہ وہ سنہ 2006سے کئی اہم ترین عہدوں پر رہے اور شدت پسندی کے خلاف پاکستان میں جنگ کا سب سے زیادہ تجربہ رکھتے ہیں اس لیے توقع کی جا رہی ہے کہ حکومت ان کے اسی تجربے سے کسی نئی حیثیت میں استفادہ حاصل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
جنرل کیانی نے اپنے دور میں میڈیا سے بہت کم بات کی ’میرا دور ختم ہو رہا ہے، اب دوسروں کی باری ہے‘ خاموش جنرل پیپلز پارٹی کی سابق اور مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت ان کی جمہوریت کی مضبوطی اور سیاستدانوں کو ان کا تھوڑا بہت جائز مقام دینے کے لیے جنرل کیانی کی ممنون رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ جنرل کیانی کی میڈیا سے دوری بھی رہی۔ عوامی سطح پر اس ’خاموش‘ جنرل نے متنازع معاملات پر میڈیا میں بیانات کی بجائے مل بیٹھ کر حل کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔ پاکستانی تاریخ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی شاید وہ واحد فوجی سربراہ رہے ہیں جنھوں نے کم گوئی کو اپنی پالیسی کا کلیدی حصہ بنائے رکھا۔ ان کے چھ برسوں میں یہ ذاتی پالیسی ادارے کی پالیسی بھی بن گئی۔ انٹرویو تو دور کی بات صحافیوں سے ’غیر رسمی‘ گفتگو سے بھی وہ پرہیز کرتے رہے۔ مجھے یاد ہے کہ گیاری سیکٹر میں ان سے جب صحافیوں نے گفتگو کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے سادگی سے یہ کہتے ہوئے صاف انکار کر دیا کہ انھوں نے ’چند دن پہلے اسی قسم کے دورے میں میڈیا سے بات کر کے اپنا چھ ماہ کا کوٹا پورا کر لیا ہے۔‘ ماضی میں ہر قومی فیصلے میں پیش پیش فوج کا اپنا موقف اب کہیں تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتا۔ اطہر عباس اور وحید ارشد جیسے ترجمانوں کے نام صحافیوں کے دماغوں میں نقش ہیں۔ لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ آج کے ترجمان کا نام دماغ کے کسی کونے سے کرید کر نکالنا پڑتا ہے کہ وہ باجوہ صاحب ہیں، عاصم صاحب ہیں یا سلیم صاحب۔ اس کی وجہ ان کی بھی میڈیا سے دوری ہے۔ فوج اور حکومت میں رسہ کشی وزیرِ اعظم نواز شریف نے جی ایچ کیو کے دورے میں فوج کے کردار کی تعریف کرتے ہوئے کہا تھا کہ فوج کے غازی اور شہید ہمارے محسن ہیں اس خاموشی کا مقصد تو سیاسی و فوجی قیادت کو ایک پیج پر دکھانا ہے جیسے کہ سیاچن پر دیے گئے ان کے اس بیان سے محسوس ہوتا ہے کہ یہ سیاسی حکومتوں کے لیے ہے کہ وہ فیصلے کریں، فوج ان پر محض عمل درآمد کرے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’سب کو معلوم ہے کہ فوج سیاچن میں کیوں ہے۔ سنہ 1984 میں بھارتی فوج نے یہاں قبضہ کیا تھا اس کے جواب میں فوج یہاں آ کر بیٹھی ہے۔ فوج کا کام ہے ملک کا دفاع، فیصلے سیاسی حکومت نے کرنے ہیں۔‘ لیکن پس منظر میں فوجی و سیاسی رسہ کشی چھپانے سے بھی نہیں چھپتی۔ اس بابت کیری لوگر بل پر سیاسی قیادت سے اختلاف کھل کر سامنے آیا تھا۔ کیا اب ہر فیصلہ سیاسی قیادت کرتی ہے؟ بی بی سی کے صحافی الیاس خان کہتے ہیں کہ ’نئے فوجی سربراہ کی تقرری میں نواز شریف کی چھاپ واضح طور پر دکھائی دیتی ہے، لیکن ظاہر ہے بہت سے معاملات میں فوج کی رائے اب بھی وزن رکھتی ہے۔‘ فوج، جسے آج بھی ’مقدس گائے‘ تصور کیا جاتا ہے، پر سب سے زیادہ تنقید جنرل کیانی کے دور میں ہی ہوئی۔ میمو سکینڈل، ریمنڈ ڈیوس اور ایبٹ آباد واقعے نے تو جیسے اسے ہلا کر رکھ دیا۔ سیاسی رہنماؤں نے تو مصلحت کے تحت کچھ نہ کہا لیکن کہا جاتا ہے کہ فوج کے اندر کافی غم و غصہ پیدا ہوا۔ اس کی ایک مثال بریگیڈیئر علی خان کے کورٹ مارشل کا واقعہ ہے۔ انھیں سزا تو حزب التحریر سے مبینہ روابط کی بنیاد پر دی گئی لیکن کہا جاتا ہے کہ وہ اندرونی دباؤ کا بھی شاخسانہ تھا۔ یہ یہی دباؤ تھا جس نے جنرل کیانی کو اکتوبر میں اپنی ریٹائرمنٹ کا غیرمعمولی باضابطہ اعلان کرنے پر مجبور کیا۔ فوج اور عوام میں تاثر ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی پر فوج کی بےخبری کے باعث جنرل کیانی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا فوج کے اندر جنرل کیانی کے چھ برسوں کو کیسے دیکھا گیا؟ اس بابت فوجی تجزیہ نگار بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمود شاہ کہتے ہیں کہ جنرل کیانی کو سب سے زیادہ پڑھے لکھے جنرل کے طور یاد کیا جائے گا۔ ’وہ جتنے نظریے میں مضبوط تھے، اتنے ہی اسے عملی جامہ پہنانے کے بھی ماہر تھے۔‘ ایک اور سابق فوجی جنرل طلعت مسعود کہتے ہیں کہ ’جنرل کیانی کے دور میں فوج کا خارجہ و سکیورٹی پالیسی میں اثر و رسوخ کم نہیں ہوا ہے۔ لیکن مجموعی طور پر جنرل کیانی کا دور جمہوریت مخالف نہیں تھا۔‘ ان کے خاندان پر بدعنوانی کے کئی الزام لگے لیکن ثابت ایک بھی نہیں ہوا۔ اسلام آباد کے گلی کوچے میں عام آدمی نے ملک کے سب سے طاقتور سمجھے جانی والی شخصیت جنرل کیانی کو کیسا پایا؟ اس بابت ملا جلا ردعمل سامنے آیا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے فوج کو اس کی اصل جگہ یعنی سیاسی قیادت کے پس منظر میں لے آئے ہیں۔ اب کوئی بھی جنرل جمہوریت کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ البتہ کئی ان پر ایبٹ آباد واقعے کی وجہ سے کڑی تنقید بھی کرتے ہیں۔ ان پر فوجی صلاحیت کی وجہ سے بھی سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ پالیسیاں دس اکتوبر 2009 کو بری فوج کے ہیڈ کوارٹر پر شدت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں 11 فوجی اور نو شدت پسند ہلاک ہوگئے تھے جنرل کیانی کی دہشت گردی سے نمٹنے کی پالیسی کبھی فوجی کارروائی تو کبھی مقامی لشکروں کی مدد اور کبھی امن معاہدوں پر مبنی رہی۔ اس بابت ماسوائے شمالی وزیرستان تمام قبائلی علاقوں سے شدت پسندوں کو بےدخل تو کیا لیکن عسکری کارروائیوں کی حد تک وہ آج بھی ماضی سے زیادہ فعال تصور کیے جاتے ہیں۔ ان کے دور میں فوج پر جتنے بڑے اور ہولناک حملے ہوئے ان کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ لیکن ایک چیز جس پر فوج ان کی شکرگزار ہوگی وہ ان کی فوجیوں کی تریبت اور فلاح پر توجہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل کیانی اور ان کے حامیوں کی خواہش بظاہر آئندہ برس افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلا تک رہنے کی تھی لیکن اندرونی دباؤ نے انھیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی میں کمی پر بھی جنرل کیانی مصر رہے کہ کشمیر جیسے مسائل کے حل تک بہتری کی کوئی گنجائش نہیں۔ نئے فوجی سربراہ کے لیے جنرل کیانی یقیناً کوئی آسان ذمے داریاں چھوڑ کر نہیں جا رہے ہیں۔ پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر بہتری کے لیے کوشش اب نئے فوجی سربراہ کو ہی کرنا ہوں گی۔
world-52690343
https://www.bbc.com/urdu/world-52690343
کورونا وائرس سے کیا روسی صدر کی سیاسی قوت کو بھی صدمہ پہنچا ہے؟
کورونا وائرس کے باعث روسی صدر ولادیمیر پوتن کے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوتا نظر آ رہا ہے۔ پیر کے روز صدر پوتن نے پورے ملک میں لاکھوں مزدوروں کو فیکٹریوں اور تعمیراتی مقامات پر کام کرنے کے لیے بھیج دیا اور اس کے ساتھ ہی انھوں نے چھ ہفتوں سے جاری مکمل لاک ڈاؤن کے خاتمے کا اعلان بھی کر دیا۔
دیگر پابندیوں کو کیسے اور کب ختم کرنا ہے اس کا فیصلہ علاقائی رہنماؤں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب پورے ملک اور خاص طور پر ماسکو میں وائرس کے انفیکشن کی شرح بہت زیادہ ہے۔ لیکن جمعرات کو پوتن اپنی حکومت سے کہہ رہے تھے کہ زندگی معمول پر آرہی ہے۔ انھوں نے کہا کہ حکومت کو اب کورونا وائرس کو چھوڑ کر دوسری ترجیحات پر توجہ دینی چاہیے۔ اعلیٰ قیادت کا پیغام واضح ہے: روس کے صدر چاہتے ہیں کہ ملک کورونا سے نکل کر آگے بڑھے۔ کورونا نے روس کے خفیہ جوہری شہروں کو کیسے متاثر کیا کورونا وائرس: بیلاروس میں وبا کے خطرے کے باوجود وکٹری پریڈ،روس میں منسوخ کورونا وائرس سے امریکہ کو معیشت میں ’بہتری کی امید‘ کیا وبا کے دوران ولادیمیر پوتن کی روس پر گرفت کمزور پڑ رہی ہے؟ اتنی جلد بازی کیوں؟ چیٹم ہاؤس کے سیاسی تجزیہ کار نکولائی پیٹروف کا کہنا ہے 'میرے خیال سے اپنی فعال سیاسی زندگی میں پہلی بار پوتن کو ایک ایسے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا ہے جو ان کے کنٹرول سے باہر ہے۔ اس مسئلے کی وجہ سے ان کے تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔' اس موسم بہار میں عام لوگوں کو آئین کی ایک ترمیم کے لیے ووٹ ڈالنا تھا۔ اس ترمیم کے توسط سے پوتن کو مزید دو بار اقتدار میں رہنے کی ’اجازت مل جاتی۔‘ لوگوں نے رواں ہفتے سے ماسکو میں کام کرنا شروع کیا ہے لیکن بہت سے لوگ اب بھی گھروں تک محدود ہیں اس کے بجائے 67 سالہ پوتن کو ماسکو سے باہر اپنی رہائش گاہ میں رہنے پر اس وقت مجبور ہونا پڑا جب وہ اپنی ’ایکشن مین‘ کی شبیہ کو برقرار رکھنے کی کوشش میں ہزمت سوٹ پہن کر کورونا وائرس کے ایک ہسپتال کا دورہ کیا اور وہ انفیکشن سے بال بال بچے تھے۔ جس ڈاکٹر نے انھیں ہسپتال کا دورہ کروایا تھا وہ بعد میں وائرس سے متاثر پائے گئے۔ خود سے تنہائی میں جانے کی صورت میں صدر پوتن ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ایک بڑی سکرین پر کام کاج کرنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کی مقبولیت کی درجہ بندی 59 فیصد کے ساتھ اب تک کی سب سے کم سطح پر آگئی ہے۔ اس کے علاوہ لمبی فون کالز کے دوران وہ چڑچڑاتے اور بور ہوتے دیکھے گئے ہیں۔ نیکولائی پیٹروف کا کہنا ہے کہ ’پوتن اپنے منصوبوں کو ہر صورت پورا کرنا چاہتے ہیں۔‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ آئینی اصلاحات کے لیے ووٹ کرانا چاہتے ہیں، اور اس کے لیے سرکاری ٹی وی اور بڑے بڑے بل بورڈز کے ذریعے بڑے پیمانے پر تشہیر کی جا رہی ہے۔ صدر پوتن اور چیف فزیشین ڈینس پروتسینکو ایک ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے کیا کووڈ 19 واقعی ہار گیا ہے؟ جس دن ولادیمیر پوتن نے باضابطہ طور پر لاک ڈاؤن کے خاتمے کا اعلان کیا اسی دن روس میں کورونا وائرس کے کیسز میں سب سے زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ اس کے بعد سے ہر روز سرکاری اعداد و شمار میں معمولی سی کمی نظر آ رہی ہے تاہم ملک میں وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد ڈھائی لاکھ سے زیادہ ہے اور وہ دنیا میں سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کے قریب پہنچ گیا ہے۔ لیکن یہاں سیاستدانوں نے دوسرے اعدادوشمار پر زور دیا ہے یعنی ہلاکتیں ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ پارلیمنٹ کے سپیکر ویاسشلاو وولیدین نے بدھ کے روز کہا ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں صحت کی دیکھ بھال کا معیار امریکہ سے بہتر ہے۔‘ انھوں نے یہ بات بدھ کے روز اس وقت کہی جب اسی دن روس میں کورونا وائرس سے مرنے والوں کی کل تعداد 2212 رپورٹ کی گئی تھی۔ روسی صدر پوتن ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے میٹنگ کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا: 'ہمیں اپنے ڈاکٹروں اور اپنے صدر کا شکریہ ادا کرنا چاہیے جو جان بچانے کے لیے دن رات کوشاں ہیں۔' ان کی اس بات کی اراکین پارلیمنٹ نے حمایت کی۔ روس میں کورونا کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد پر مسلسل شک و شبہ کیا جاتا رہا ہے اور ایسے اشارے ملے ہیں کہ روس ہلاکتوں کی تعداد کو چھپا رہا ہے۔ لیکن حکام نے اس کی تردید کی ہے اور اس طرح کے بیانات کو 'فیک نیوز' قرار دیا ہے۔ کورونا انفیکشن کی وجہ سے ہونے والی اموات کا اندازہ لگانے کے لیے بہت زیادہ اموات کے اعدادوشمار بہت اہم ہیں کیونکہ اس میں وہ لوگ شامل ہیں جن کے کورونا کے ٹیسٹ نہیں کیے گئے اور وہ لوگ بھی شامل ہیں جن کا ہسپتال کے باہر انتقال ہوا۔ ماسکو میں اپریل میں ہونے والی اموات تقریباً 1700 تھیں جو کہ لندن اور دوسرے شہروں کے مقابلے میں کم ہیں۔ ماسکو کے محکمہ صحت نے واضح کیا ہے کہ کورونا کے تقریباً 60 فیصد مشتبہ واقعات میں موت کی وجہ کچھ اور تھی جیسے ہارٹ اٹیک یا دیگر بیماری۔ اور یہ حقیقت پوسٹمارٹم رپورٹ سے بھی عیاں ہے۔ انتظامیہ کسی بھی چیز کو چھپانے سے انکار کرتی رہی ہے۔ گذشتہ ماہن ماسکو میں ہسپتال کے پاس ایمبولینسز کی بھیڑ نظر آئی ہم نے اس سے کیا سبق سیکھا؟ روس کے پاس کرونا کے انفیکشن سے نمٹنے کی تیاری کے لیے کافی وقت تھا۔ اب ایک دن میں 40 ہزار سے زیادہ افراد کے ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ جلد ہی کیسز کی پہچان اور انھیں فوری طبی سہولیات فراہم کرانا بھی مددگار ثابت ہو رہا ہے اور اس سے بہت ساری اموات کو بھی روکا گيا ہے۔ یورپ کے کئی مملک میں تو ہلاکتوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ مردہ گھروں میں بھی لاش رکھنے کے لیے جگہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید ثقافتی تنوع بھی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن طویل عرصے تک سماجی دوری اختیار کر کے میٹنگز کرتے رہے اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھیں آئی سی یو میں داخل ہونا پڑا۔ جبکہ ولادی میر پوتن کے ترجمان ڈبل نمونیا کی وجہ سے ہسپتال میں داخل ہونے سے قبل تین دن تک بخار سے لڑتے رہے۔ ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے دیمتری پیسکوف نے بتایا کہ وہ اپنے کام کے دوران تمام احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود کیسے بیمار ہو گئے جبکہ کریملن میں ایک کاغذ بھی کسی کے حوالے کیے جانے سے پہلے اسے ڈس-انفیکٹ کیا جاتا ہے۔ پیسکوف نے بتایا کہ وہ تقریباً ایک ماہ سے صدر پوتن سے براہ راست رابطے میں نہیں تھے۔ دیمتری پیسکوف کو گذشتہ ماہ ہسپتال میں داخل کرایا گیا ذمہ داری نبھانا یہ واضح نہیں ہے کہ روسی رہنما کب یہ فیصلہ کریں گے کہ کریملن واپس جانا محفوظ ہے۔ بہت سے لوگ ابھی بھی گھر سے کام کر رہے ہیں اور کورونا انفیکشن کی وجہ سے عائد پابندیاں بھی نافذ العمل ہیں۔ اب یہ میئر پر منحصر ہے کہ وہاں پابندیاں ختم کی جائیں گی لیکن سرگئی سوبیانین لوگوں کو روزانہ باہر ٹہلنے کی اجازت دینے سے بھی انکار کرتے رہے ہیں۔ جمعرات کو انھوں نے کہا کہ یہ اب تک کا سب سے مشکل فیصلہ ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس کی قیمت 'لوگوں کی صحت اور زندگی' ہے۔ روس میں بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ وبا کی ابتدا کے بعد سے بے روزگاری کے بارے میں سرکاری اعداد و شمار دگنے ہو چکے ہیں۔ آزاد پولنگ فرم لیواڈا نے اپنی رائے شماری میں بتایا کہ چار میں سے ایک شخص اپنی ملازمت سے محروم ہو چکا ہے یا پھر اسے ملازمت سے محروم ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ ایک تہائی لوگوں کی تنخواہ میں کٹوتی ہوئی ہے یا ان کے کام کے اوقات کم کر دیے گئے ہیں۔ اب بھی وائرس ماسکو کے باہر پھیل رہا ہے تاہم تازہ کیسز میں قدر کمی دیکھی جا رہی ہے روس کے عوام زیادہ بچت نہیں کرتے اور لاک ڈاؤن میں حکومتی مدد محدود ہے لہذا پابندیوں میں نرمی لانے پر دباؤ مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی امور کی ماہر للیہ شیوسووا کا کہنا ہے کہ 'روسی رہنما جانتے ہیں کہ 'نو ورک نو منی' کی پالیسی گر جائے گی اوراس سے انتشار پھیل جائے گا۔ لہذا انھوں نے وبا کے دور میں سخت قوانین نافذ کیے جب ہم انفیکشن کے ٹاپ ملک بننے سے دور تھے۔‘ ایخو موسکی ریڈیو سٹیشن کے لیے اپنے بلاگ میں انھوں نے لکھا: 'انھیں کورونا وائرس پر فتح چاہیے تھی اور وہ بھی بہت جلد!‘ لیکن وائرس اب بھی روسی علاقوں میں کریملن کی سیاسی خواہشات سے بے خبر پھیل رہا ہے۔ اور روس کے مضبوط رہنما کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کو روک پانا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں نیکولائی پیٹروف کہا کہنا ہے کہ 'اگر چہ اپنی خواہش کے مطابق وہ آئینی ووٹ حاصل کر بھی لیتے ہیں تو بھی اس سے یہ حقیقت نہیں بدلے گی کہ پوتن اب نسبتا بہت کمزور ہو چکے ہیں۔'
050216_mush_natwar_meet_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/02/050216_mush_natwar_meet_nj
پاک بھارت وزراء خارجہ ملاقات
بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ نے پاکستانی صدر جنرل پریز مشرف سے ملاقات کی ہے جس کے بعد دونوں ممالک کے وزراء خارجہ کے درمیان باضابطہ مذاکرات دفتر خارجہ اسلام آبادمیں شروع ہو گئے ہیں۔
ان مذاکرات میں مظفرآباد - سری نگر بس سروس اور ایران- پاکستان-بھارت گیس پائپ لائن معاہدے ہونے کا قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ مذاکرات کے بعد دونوں ممالک کی وزرا خارجہ ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب بھی کریں گے۔ بھارتی وزیر خارجہ جو منگل کو تین روزہ سرکاری دورے پر پاکستان پہنچے ہیں پاکستانی قیادت سے دو طرفہ تعلقات اور دونوں ممالک میں جاری مذاکرات کے حوالے سے بات چیت کریں گے۔ سفارتی حلقے بھارتی وزیر خارجہ نٹور سنگھ کے اس دورہ کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں اور ان کی صدر جنرل پرویز مشرف سے ملاقات کے بعد کہا جا رہا ہے کہ اس دورے میں دونوں ممالک کے دوران جاری مذاکرات اور اعتماد کی بحالی کے لئے اقدامات میں خاصی پیش رفت ہونے کا امکان ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ پاکستانی وزیر اعظم شوکت عزیز سے بھی ملاقات کریں گے۔
050131_shaukat_sttmnt
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/01/050131_shaukat_sttmnt
بھارت کو تجاویز دیں گے:شوکت
وزیراعظم شوکت عزیز نے کہا ہے کہ بنگلہ دیش میں اگلے ہفتے بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں وہ دونوں ممالک کے درمیان اعتماد پیدا کرنے کے لیے کئی تجاویز پیش کریں گے۔
برطانوی اخبار فائنانشل ٹائمز کے ساتھ ایک انٹرویو میں وزیر اعظم نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ ان تجاویز سے کشمیر سمیت بھارت اور پاکستان کے درمیان تمام مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایران، بھارت اور پاکستان کے درمیان گیس پائپ لائن بچھانے، اور دونوں ممالک کے بینکوں کے درمیان تعاون جیسے اقدامات سے تعلقات میں بہتری ہو سکتی ہے۔ اخبار نے وزیراعظم شوکت عزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’ہم بہت سے امکانات کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔‘ گزشتہ ہفتے ورلڈ اکنامک فورم کے موقع پر وزیراعظم شوکت عزیز نے بنیادی موضوع سے ہٹ کر یہ کہا تھا کہ دونوں ممالک کو توانائی کی ضرورت ہے اس لیے انہیں پائپ لائن کے ذریعے ملانے سے باہمی اعتماد کی کمی بھی دور ہو جائے گی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سنہ دو ہزار چار کا بیشتر حصہ مذاکرات کرتے گزرا۔ دسمبر میں دونوں ممالک کے وزراء خارجہ نے متعدد امور پر تبادلۂ خیال کیا۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تجارت اور آمد و رفت کے میدان میں تعلقات بہتر ہوئے ہیں البتہ کشمیر کے مسئلے پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو پائی۔
040209_arif_tota_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/02/040209_arif_tota_fz
طوطا بھونکتا ہے، کتا صاحب ہے
کیا کتے، طوطے، بکرے اور انسان میں کوئی مماثلت ہے۔ آسان جواب ہے کہ سب بولتے ہیں۔ مگر اپنی اپنی بولیاں۔ شائد کبھی کبھار یہ بولیاں آپس میں گڈ مڈ بھی ہو جاتی ہوں اور انسان میں میں کرتا ہو شائد ’بھونکتا‘ بھی ہو یا پھر خود ہی بکرا، مرغا یا طوطا بن جاتا ہو لیکن کبھی بھی کسی نے کسی طوطے کو بھونکتے ہوئے نہیں سنا ہو گا۔ میں نے سنا ہے۔ اس کی تفصیل ذرا بعد میں۔
پہلے کچھ میری بولی سن لیں۔ گزشتہ دنوں یوں لگتا تھا جیسے ہر چیز کچھ عرصہ کے لیےجانور بن گئی تھی۔ سڑک سڑک گلی گلی بکرے، موبائل فون پر خوبصورت بکرے کے مقابلے کے پیغامات اور جیتنے والے کو ایک لاکھ روپے انعام کی نوید، اخباروں اور جرائد میں برڈ فلو اور کیبل ٹی وی چینل پر شہر کی مقبول تکہ شاپس کے اشتہارات جس میں فضلِ حق عرف پھجا سری پائے کا اشتہار سرِ فہرست ہےآ اس اشتہار میں لاہور کے ناظم میاں عامر محمود کو پھجے کی دوکان پر انہیں مبارکباد دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اسی طرح مرغے بھی پیچھے نہ رہے۔ گو کہ برڈ فلو کی وجہ سے چند ایک نے ان سے ہاتھ کھینچ لیا تھا لیکن اس پاک دھرتی کے تنو مند جوانوں کی ایک بڑی تعداد کو بھلا کوئی برڈ کیسے ڈرا سکتا ہے۔ لوگوں نے اس کے بھی طریقے نکال لیے۔ قصائی نے کہا ’صاحب اب میں چھری دھو کر ذبح کرتا ہوں‘ اور ایک نانی نے ٹوٹکا نکالا کہ ’مرغی میں زیادہ لہسن ڈال دو سب فلو مر جائے گا‘۔ سب مر گیا۔ بس نقصان ہوا تو بیچارے ان شادی والوں کا جن کا آدھے سے زیادہ مرغ مہمانوں کے منہ سے بچ گیا اور انہیں اگلے چند روز صبح شام مرغ قورمے پر ہی گزارا کرنا پڑا۔ لیکن ان کے ساتھ ساتھ ایک اور اشتہار بھی آیا کہ راجگڑھ کے رہائشی کسی صاحب کا بولنے والا ’را طوطا‘ کھو گیا ہے اور جو بھی اسے ڈھونڈ کر لائے گا اسے 2500 روپے انعام دیا جائے گا۔ میرے دوست اشعر نے مجھے بتایا کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ راجگڑھ سے را طوطے کے لاپتہ ہونے کا اشتہار آیا ہے اس سے پہلے بھی یہ آچکا ہے بلکہ اس پہ انہوں نے ایک مضمون بھی لکھ دیا تھا کہ ’تمہیں را طوطے کی پڑی ہوئی ہے۔ راجگڑھ سے تو پتہ نہیں کون کون سے ’سپیشی‘ غائب ہو گئی‘۔ ان کا اشارہ میری اور میرے جیسے چند اور راجگڑھ سے اڑنے والے دوستوں کی طرف تھا۔ لیکن پھر بھی پاکستان میں ’میں میں، ٹیں ٹیں، اور بھونکنے کی آوازیں پیچھا نہیں چھوڑتی۔ آپکو اکثر لگتا ہے کہ ہر کوئی میں میں کر رہا ہے اور صرف آپ بھونک رہے ہیں۔ اسکے کے الٹ بہت کم ہی ہوتا ہے۔ ذرا خوشحال علاقوں میں چلے جائے تو ہر کوئی ٹیں ٹیں کرتا اور ایک مرتبہ پھر آپ بھونکتے ہوئے ہی نظر آتے ہیں۔ (برائے مہربانی بھونکنے کا کوئی غلط مطلب نہ لیجیئے۔ اسے ویسے ہی ہمیشہ سے بدنام کیا جا رہا ہے۔) بھونکنے سے وہ واقعہ بھی سن لیں جسکا اشارہ میں نے اوپر دیا ہے۔ گزشتہ دنوں مجھے سمندری جانے کا اتفاق ہوا۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں امریکہ میں بسنے والے سب سے امیر پاکستانی کا گھر ہے۔ خیر وہاں میں ایک گھر میں گیا جو کہ چڑیا گھر کے کافی قریب تھا۔ کہنے کا مطلب ہے کہ وہاں بھینسوں اور بکروں کے علاوہ مور، کبوتر، کتے، بلیاں، مرغیاں اور طوطے بھی دکھائی دیے۔ اور یہ سب کوئی عام جانور نہیں تھے۔ مثلاً کتے کہ متعلق پتہ چلا کہ اس کی قیمت سوزوکی کی مہران کار سے دوگنی ہے، یعنی کہ چھ سات لاکھ، اسی طرح طوطا اور مور بھی تھے۔ خیر جو بات انہونی تھی وہ یہ تھی کہ طوطا بالکل بلٹیریئر کتے کی طرح بھونکتا تھا۔ جب بھی وہ کسی بلی یا انجان فرد کو دیکھتا تو بھونکنا شروع کر دیتا۔ گھر والوں نے بتایا کہ جب کتے اپنے واڑوں میں بندھے ہوتے ہیں تو یہ طوطا گھر کی بڑی حفاظت کرتا ہے۔ بعد میں صاحب صاحب کی سدا بلند ہوئی۔ میں بھی احتراماً اٹھ کھڑا ہوا۔ تھوڑی دیر کے بعد صاحب آئے تو لیکن چار ٹانگوں پر چل کر۔ صاحب ان کے دیو ہیقل کتے کا نام تھا جس کے اپنے بھی دو ملازم تھے۔ صاحب صاحب ہے۔ میری آج کی بولی بس اتنی ہے۔
130519_book_review_aaj_rh
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/05/130519_book_review_aaj_rh
آج 74: دو ناول نگار دو شاعر
نام کتاب: کتابی سلسلہ آج 74
ترتیب: اجمل کمال صفحات: 350 قیمت: 380 روپے ناشر: آج کی کتابیں، 316 مدینہ سٹی مال، عبداللہ ہارون روڈ، صدر کراچی 74400 [email protected] کتابی سلسلہ آج کی 74ویں کتاب میں طاہر بن جلون کے نئے ناول کا ترجمہ ہے۔ افضال احمد سید کی سات تحریریں ہیں، عذرا عباس کی 26 نظمیں ہیں اور فرانسیسی نژاد ژولیاں کا اردو لکھا گیا چوتھا ناول شائع ہوئے ہیں۔ طاہر بن جلون 1944میں مراکش، فاس (فیض) میں پیدا ہوئے۔ طاہر فلسفہ پڑھاتے تھے لیکن جب مراکش میں عربی نافذ کی گئی توانھوں نے ترک وطن کو ترجیح دی۔ اب وہ پیرس میں رہتے ہیں اور فرانسیسی میں لکھتے ہیں۔ انھیں فرانسیسی زبان کی مین سٹریم کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن ان کی شناخت ایک ’افریقی عرب‘ فرانسیسی کی ہے۔ فکشن، نان فکشن اور شاعری پر مشتمل ان کی کتابوں کی لمبی فہرست ہے۔ ان کے ناول نہ صرف انگریزی میں بلکہ دنیا کی بیشتر زبانوں میں ترجمہ ہو چکے ہیں۔ اردو میں یہ ان کا دوسرا ناول ہے جسے محمد عمر میمن نے’رخصت‘ کے نام سے ترجمہ کیا ہے۔ اس سے پہلے عمر میمن ان کا ناول ’کرپشن‘ کے نام سے ترجمہ کر چکے ہیں جو آج ہی کی 69ویں کتاب میں شائع ہوا تھا۔ طاہر کا یہ ناول ناانصافی اور تشدد میں مبتلا ملک کے ان لوگوں کے بارے میں ہے جو ملک کو چھوڑ کر کسی ترقی یافتہ ملک میں جا بسنے والوں کی تگ ودو میں انحطاط اور زوال کا شکار ہو رہے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ اس ناول کو پڑھتے ہوئے آپ کو اپنے ہی ملک کی بہت سی باتیں یاد آئیں اور یہ بھی خیال آئے کہ جو کچھ دکھائی دیتا ہے اس کے نیچے مراکش کا شہر طنجہ ایک نئی اخلاقیات کو شکل نہ دے رہا ہو۔ عمر میمن کے اس ترجمے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ جملوں کو انگریزی ترجمے سے بہت قریب رکھنے پر یقین رکھتے ہیں اور یہ بات کہیں کہیں نثر کی بےساختگی کو متاثر کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ اس کتاب میں افضال احمد سید کی سات تحریریں ہیں۔ افضال اردو شاعری ہی کے نہیں اردو ادب کے بھی چند اہم ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔ وہ شاعری کے حوالے سے زیادہ معروف ہیں اور ان کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ لیکن انھوں نے نثر اور ترجمے میں بھی انتہائی اہم کام کیے ہیں۔ موجودہ کتاب میں شامل ان کی سات تحریریں، ناظم حکمت کے ساتھ ساڑھے تین سال، اورحان کمال کی کتاب کا تعارف ہے، کمال نے یہ مدت ناظم حکمت کے ساتھ جیل میں گذاری۔ شاعرلرپارک، استنبول کے ایک ایسے پارک کے بارے میں ہے جو دس شاعروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ پھر دو تحریریں، نوبل انعام یافتہ اورحان پامک کے ’میوزیم آف انوسنس‘ کے حوالے سے ہیں۔ اس کے بعد، ’معمارِ اعظم کا کاسۂ سر‘، ’جو سرِ نخلِ صبوبر ہے، لحد کس کی ہے‘ اور ’آئینہ ساز‘۔ انھیں آپ دو حکایتوں کے درمیان ایک نظم سمجھ لیں۔ افضال احمد سید کا انداز نہ صرف شاعری میں جداگانہ بلکہ نثر میں بھی تقلید پر متحرک کرنے کی جارحانہ قوت رکھتا ہے۔ مجھے نہیں علم کہ ان کی اتنی تخلیقات آخری بار کب اور کہاں ایک ساتھ شائع ہوئی تھیں لیکن ان سب کو ایک ساتھ پڑھنا بہت سے قارئین کے لیے یقیناً لطف سے خالی نہیں ہوگا۔ آج کی اِس کتاب میں عذرا عباس کی چھبیس نظمیں ہیں۔ عذرا عباس بھی اردو کی جانی پہچانی شاعرہ ہیں اور انھیں اردو کی وہ شاعرہ بھی کہا جاتا ہے، جن کی نظموں نے نثری شاعری کے بارے میں شعری بحث کو اعتبار سے متعارف کرایا۔ ان کی شاعری کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے بچپن کی یادداشتیں، کہانیاں اور ایک ناول شائع کیا ہے۔ ان کی نظموں میں ایک ایسا غیر معمولی پن ہوتا ہے جو پڑھنے والے کو حیرت سے دوچار کرتا ہے۔ لیکن موجودہ کتاب میں شامل نظموں میں ایسی نظمیں بھی ہیں جو جاری تشدد اور عدم تحفظ کو مصور کرتی ہیں۔ لیکن صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ یہ نظمیں تشد د اور عدم تحفظ کو دکھانے پر ہی رک جاتی ہوں، ان میں تشدد اور عدم تحفظ کی ایک نئی مابعدالطبیعیات بھی تشکیل پاتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ لوگ جو عذرا عباس کو پچھلے چالیس سال سے پڑھتے آ رہے ہیں ان کے لیے تو ان نظموں کی ایک ساتھ اشاعت یقیناً دلچسپی کی حامل ہو گی لیکن وہ لوگ جو ان کی یہ نظمیں پہلی بار پڑھیں گے ضرور یہ محسوس کریں گے اب بہت سے لکھنے والوں میں ان کے انداز اور اسلوب کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ آج کی اس اشاعت میں شامل ایک اور خاص تخلیق ژولیاں کا ناول ہے۔ ژولیاں، فرانسیسی نژاد ژولیاں کولومو (Julien Columean) کا قلمی نام ہے۔ وہ اس نام سے اردو ہی میں نہیں پنجابی میں بھی لکھتے ہیں۔ ژولیاں 1972 میں فرانس کے علاقے پروانس میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی زبان ’پرووانسال‘ کے علاوہ فرانسیسی میں بھی لکھا۔ ہندوستان میں اپنے آٹھ برس کے قیام کے دوران انھوں نے ہندی اور اردو سیکھی۔ ادھر پچھلے سات برس سے وہ پاکستان میں مقیم ہیں۔ وہ انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس سے وابستہ ہیں۔ اردو میں انھوں نے پہلا ناول ساغر صدیقی کے بارے میں لکھا جو 2010 میں شائع ہوا تھا۔ اس کے علاوہ انھوں نے ایک ناول زلزلہ کے نام سے لکھا جس کا ایک حصہ کتابی سلسلہ ’دنیا زاد‘ میں شائع ہوا۔ اس کے بعد انھوں نے تیسرا ناول ’میرا جی کے لیے‘ کے نام سے لکھا جو آج ہی کی 71ویں کتاب میں شائع ہوا۔ ساغر صدیقی کی طرح میرا جی کے بارے میں ناول میں بھی ان کی نجی اور تخلیقی زندگی کو بنیاد بنایا گیا لیکن فکشن میں ظاہر ہے سب حقیقت نہیں ہوتا۔ ہوتا بھی ہے تو اس کی حیثیت تاریخی حقائق کی نہیں متبادل تصورِ حقیقت کی ہوتی ہے۔ جس کا مقصد حقیقت تک رسائی کی کوشش ہوتا ہے۔ ژولیاں کا موجودہ ناول ’میر جعفری شہید‘ یقینی طور پر مختلف النوع ہے اور ایسے کردار کو سامنے لاتا ہے جو ذاکر ہےاور اپنی اُس زندگی کو خود بیان کر رہا ہے، جو کشاکش اور تناؤ سے بھری ہے۔ لیکن یہ کشاکش اور تناؤ کبھی بھی اس کی روح کا حصہ نہیں بن پاتا ، اگر چہ وہ اپنے حقائق کو اپنی مسلکی اصطلاحات کے تناظر میں ہی دیکھتا ہے۔ اس ناول میں روح تک عدم رسائی کی کشاکش کسی بھی طرح اُس کشاکش سے کم نہیں جس میں طاہر بن جلون کے کردار گذرتے ہیں۔ دونوں کے کردار ایک ہی طرح کی آگ میں جل رہے ہیں لیکن یہ آگ لگی اور اور طرح سے ہے۔ اتفاق ہے کہ ژولیاں اور طاہر دونوں جلاوطن فرانسیسی۔ ایک فرانس کے اندر افریقی عرب ہے تو ایک پاکستان میں فرانسیسی نژاد
080607_clinton_obama
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2008/06/080607_clinton_obama
صدارت کی دوڑ سے علیحدگی عنقریب
ہیلری کلنٹن امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کی مہم سے دستبرداری کا باقاعدہ اعلان کرنے والی ہیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ وہ بارک اوبامہ کی حمایت کے اعلان کے علاوہ اپنی انتخابی مشینری کی خدمات بھی ان کے لیے پیش کریں گی۔
دریں اثناء قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ اوبامہ نائب صدر کے لیے اپنے ساتھ کس امیدوار کا انتخات کریں گے۔ اوبامہ واشنگٹن کی اس تقریب میں شامل نہیں ہوں گے جس میں کلنٹن صدارتی مہم سے علیحدگی کا اعلان کرنے جا رہی ہیں۔ تاہم ان دونوں کے درمیان جمعرات کو ایک ملاقات ہو چکی ہے۔ ہیلری کلنٹن نے جمعہ کا دن خاموشی سے گزارا جبکہ اوبامہ شکاگو میں تھے جہاں امریکہ کی طرف سے شہر کا نام سن دو ہزار سولہ کی اولمپک کے لیے شارٹ لسٹ کیے جانے پر تقاریب منعقد ہو رہی تھیں۔ اوبامہ بغیر اعلان کے اچانک ان تقاریب میں شرکت کے لیے شکاگو پہنچ گئے۔ ہیلری کلنٹن کی طرف سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کا امیدوار منتخب کروانے کے لیے بھرپور کوشش کریں گی لیکن وہ نائب صدارت کے لیے امیدوار نہیں ہیں۔
050108_suicide_attempt_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/01/050108_suicide_attempt_fz
بھوک سے تنگ ماں اور بچوں کا قتل
پاکستانی کے صوبہ پنجاب کے شہر رحیم یار خان میں غُربت کے ہاتھوں تنگ آکر ایک عورت نے اپنے تین بچوں کو زہر پِلا کر خود بھی خود کشُی کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں اُس کے دو بچے ہلاک ہوگۓ ہیں ۔
پولیس حُکام کے مطابق پروین کا شوہر جعفر علی مختلف جرائم کی پاداش میں اِن دنِوں رحیم یار خان کی ضِلعی جیل میں قید ہے ۔جبکہ جعفر کے والد علی شیر نے بھی اُسے جائیداد سے عاق کر رکھا ہے ۔ پروین اپنے تین کم سن بچوں کے ساتھ اپنے میکے میں رہ رہی تھیں ۔ سنیچر کے روز پروین اپنے شوہر سے مُلاقات کے لیۓ جیل گئی جہاں اُس نے مالی پریشانیوں کا ذکر کیا تو مُبینہ طور پر جعفر علی نے اُسے ڈانٹ پِلا دی ۔ اِس صورتحال سے دلبرداشتہ ہوکر پروین نے گھر آکر اپنے تینوں بچوں کو زہر دینے کے بعد خود بھی پی لیا ۔ زہر خورانی کی وجہ سے دس سالہ مہ وش اور آٹھ سالہ اِبرار ہلاک ہو گۓ جبکہ پروین اور پانچ سالہ سِدرہ کو تشویشناک حالت میں رحیم یار خان کے شیخ زید ہسپتال میں داخل کرایا گیا ہے ۔ رحیم یار خان کے تھانہ اے ڈویژن نے پروین کے خلاف قتل اور اقدام ِ خودکُشی کے دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا ہے ۔
051028_neelam_valeey_wusat
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051028_neelam_valeey_wusat
آخر کتنے پہنچ پائیں گے
یہ زلزلہ صرف انسانوں کے لئے موت نہیں لایا۔اس نے پہاڑوں کی عزت بھی مٹی میں ملادی ہے۔ اگر یہ منظر دیکھنا ہو کہ کس طرح ایک پہاڑ کی پوری کھال زلزلے کی کند چھری سے اتاری گئی تو اسکے لئے بہترین جگہ مظفر آباد ہے جہاں شہر کے بالمقابل پہاڑ کے کوئی دومیل کے ٹکڑے کی پوری اوپری سطح غائب ہے۔ آٹھ اکتوبر کی صبح اس بھورے پہاڑ پر سینکڑوں درخت اور بہت سی بستیاں تھی لیکن اب یہ سفید اور سرمئی رنگ کے پسے ہوئے پتھروں کے بلند ڈھیر کی طرح ہے جو مسلسل لینڈ سلائڈنگ کے سبب اپنے ہی قدموں میں بہنے والے دریائے جہلم میں اور نیلم ویلی کو جانے والی سڑک پر ملبے کی صورت گرتا رہتا ہے۔
جس جھٹکے نے پہاڑ کا یہ حال کردیا اس نے اس پہاڑ کے پیچھے موجود طویل نیلم ویلی اور اسکے مکینوں کا کیا کیا ہوگا۔اس کی ہی نبض لینے میں مظفرآباد سے نیلم ویلی جانے والی سڑک کے کوئی پانچویں کیلومیٹر تک گیا۔ آگے راستہ بند ہے اور اس کھلے ہوئے حصے پر بھی اوپر سے مسلسل تھوڑی تھوڑی مقدار میں پتھر گر رہے تھے جو ایک بلڈوزر سمیٹ سمیٹ کر دریا میں گرا رہا تھا۔ جیسے ہی راستہ قدرے صاف ہوا عورتوں، بچوں اور مردوں کا ایک گروہ بھاگتا ہوا لینڈ سلائڈ کے اس جانب آگیا جہاں میری وین اور اسکے پیچھے دو تین جیپیں راستہ کھلنے کی منتظر تھیں۔ ان میں سے جتنے لوگ وین میں سما سکتے تھے بٹھا لیےگئے تاکہ انہیں کسی ریلیف کیمپ تک پہنچا دیا جائےاور باقی پیدل چلتے رہے۔ زرا دور جا کر وین روکنی پڑی کیونکہ یہ لوگ مظفر آباد کا بھیڑ بھاڑ والا علاقہ شروع ہونے سے پہلے پہلےاپنی بپتا سنانا چاہ رہے تھے۔ اشفاق میر کے کزن شفقت نے بتایا کہ مسدہ گاؤں کی آبادی تقریباً ساڑھے چارسو تھی۔ان میں سے ایک سو چارمرگئے اور ساٹھ زخمی ہوئے جن میں سے بیس کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد منتقل کیا گیا، باقیوں کا گاؤں میں ایک میڈیکل ٹیم علاج کررہی ہے۔ یہ ٹیم بھی ہیلی کاپٹر سے لائی گئی۔ شفقت کے بقول گاؤں میں کم لوگ ایسے ہیں جن کے پاس سردیوں کے کپڑے نہ ہوں۔ مسئلہ چھت اور خوراک کا ہے۔ کیونکہ کھانے پینے کا جو تھوڑا بہت سامان گھروں میں ہوتا ہے وہ ملبے تلے یا تو دب گیا یا خراب ہوگیا۔اسی لئے آج صبح تین کنبے اس گاؤں سے نکل کر خیموں اور خوراک کی تلاش میں مظفرآباد کی طرف نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ انکے ساتھ آئے ہوئے ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ ہیلی کاپٹروں نے کوئی درجن بھر ٹینٹ گرائے لیکن کچھ کھائیوں میں گر گئے اور پانچ چھ لوگوں کے ہاتھ آئے۔ جبکہ اوپر سے گرایا جانے والا راشن تقریباً ضائع ہوجاتا ہے۔ اشفاق میر نے اپنے ساتھی کی بات کاٹتے ہوئے کہا کہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ چونکہ سامان کم ہے اور ضرورت مند زیادہ اس لئے ہو یہ رہا ہے کہ جس کے کھیت یا زمین پر ہیلی کاپٹر سے جتنا سامان گرا وہ سب اسکا ہے اوروہ ساتھ والے خالی ہاتھ مسلمان بھائی کے لئے سوچتا بھی نہیں ہے کہ اسے بھی کچھ دے دے۔ اشفاق کے ساتھ کھڑے پیدل قافلے میں شامل ایک اور شخص نے بتایا کہ اسکے گاؤں میں ٹینٹوں کی چھینا جھپٹی کے دوران ایک شخص مر بھی چکا ہے اور لوگ اسکا الزام ساتھ والے گاؤں کے لوگوں پر ڈال رہے ہیں۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ گاؤں کے قریب موجود فوجی یونٹ لوگوں کو سامان دے تو رہا ہے لیکن متاثرین کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ فوجی ترتیب وار سامان دے رہے ہیں۔ ہم وہ بدقسمت ہیں کہ ہمارا نمبر اب تک نہیں آیا۔ روزانہ لائن میں لگتے ہیں۔ کبھی وہ کہتے ہیں کہ کل ملے گا کبھی کہتے ہیں ختم ہوگیا۔اس لئے تنگ آ کر ہم نے مظفر آباد پیدل آنے کا فیصلہ کیا۔ ایک ادھیڑ عمر آدمی نے کہا کہ میرا چچا مرا اور اسکی بیوی اور ایک بیٹا زخمی پڑا ہے۔ میں اپنے پوتے کو دھنی کیمپ تک لے کر آیا۔ فوجیوں سے اسکے لئے بسکٹ کا صرف ایک پیکٹ ملا۔گاؤں میں ہم یہ سنتے ہیں کہ مظفر آباد میں بہت مال آیا ہے۔ جب گاؤں سے کوئی شہر پہنچ جاتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ ہماری ٹیم سروے کے لئے آپ کے علاقے میں گئی ہے اس سے پرچی بنوا کر لائیں۔ اب ہم نہ ادھر کے ہیں نہ ادھر کے۔ بس فٹبال بنے ہوئے ہیں۔ ایک اور شخص لیاقت حسین نے بتایا کہ وہ پانڈی پجور کا رہائشی ہے اور تین روز میں یہاں تک پہنچا ہے۔ پانڈی پجور کے علاقے میں پندرہ ہزار سے زائد لوگ ہیں۔ وہاں ابھی تک کچھ لاشیں ملبے میں پڑی ہیں۔ایک تہائی آبادی ہلاک یا زخمی ہوئی ہے۔ اسکے گھر کے چھ افراد مرے ہیں اور صرف وہ، اسکی بیوی اور دو بہنیں زندہ بچے ہیں۔ وہ ان کو پیچھے چھوڑ کر ایک ٹینٹ اور خوراک کی امید پر مظفر آباد آیا ہے تاکہ سردی نہ مار ڈالے۔ اسی ہجوم میں شازیہ اور اسکا باپ مبارک شاہ بھی موجود تھا۔ مبارک شاہ نیوی کا ریٹائرڈ ڈرائیور ہے۔ شازیہ نے بتایا کہ جس گاؤں سے وہ آ رہے ہیں وہ اسکا سسرال ہے اور یہاں سے کوئی بارہ گھنٹے کی مسافت پرہے۔اسکا ایک بچہ ملبے میں آ کر دب گیا۔ شوہر ویگن کی کنڈکٹری کرتا ہے۔ زلزلے سے پہلے وہ ویگن لے کر اٹھمقام تک گیا تھا تب سے کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اب وہ اپنے والد کے ساتھ گڑھی حبیب اللہ جارہی ہے۔ اسکا والد اسے لینے اسی طرح کل پیدل گاؤں پہنچا تھااور کچھ گھنٹے رکنے کے بعد ہم دوبارہ یہاں تک تقریباً بارہ گھنٹے میں پہنچے ہیں۔ میں نے شازیہ کے والد مبارک شاہ سے بات کرنے کی کوشش کی۔مگر روزے اور چلنے کی تھکن نے انکے الفاظ چھین لیے اور وہ رو پڑے۔۔۔۔میری بیٹی کا اب کچھ نہیں بچا۔۔۔۔واپس لے جا رہا ہوں۔میں نے ان سے کہا آپ بیٹھے رہئے۔مانسہرہ واپسی پر آپ کو گڑھی حبیب اللہ چھوڑ دیں گے۔ مگر باقی لوگ وین میں دوبارہ بیٹھنے کو تیار نہیں تھے کیونکہ اس دوران انہیں پیچھے پیدل چلنے والے رشتے دار یا ساتھی دکھائی پڑ گئے تھے۔ کچھ نے بچوں کو کندھوں پر بٹھا رکھا تھا۔ ذرا بڑے بچے انگلی پکڑے چل رہے تھے۔ یہ لوگ جو آج کٹی ہوئی نیلم ویلی سے دس بیس تیس کی تعداد میں تین تین چار چار کنبوں کی صورت مظفر آباد تک پاپیادہ آ نے کی کوشش کررہے ہیں۔ برف گرنے سے پہلے پہلے اگر ان تک ٹینٹ اور خوراک نہ پہنچی تو پھر یہ ہزاروں کی تعداد میں برفانی پہاڑیاں عبور کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن ان میں سے آخرکتنے مظفر آباد کی دہلیز تک پہنچ پائیں گے۔
040603_arifjackson
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/06/040603_arifjackson
جیکسن پولیس سےتو بچ گئے
مارچ میں گلوکار مائیکل جیکسن پر بچوں سے جنسی زیادتی کے جو تازہ الزامات عائد کئے گئے تھے، پولیس کو ان کے ضمن میں کوئی شہادتیں میّسر نہیں آئیں چنانچہ پولیس نے تفتیش روک کر کیس داخلِ دفتر کر دیا ہے۔
البتہ سانتا باربرا میں گلوکار پر چلنے والا اسی نوعیت کا ایک اور مقدمہ اس فیصلے سے متاثر نہیں ہوگا۔ لاس اینجلیس پولیس کا کہنا ہے کہ دو ماہ تک پوری تفتیش کرنے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مائیکل جیکسن پر لگائے گئے جنسی چھیڑ چھاڑ کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ دورانِ تفتیش الزام لگانے والے لڑکے سے بھی پولیس نے تفصیلی پوچھ گچھ کی لیکن کوئی الزام ثابت نہ ہو سکا۔ اس دوران میں مائیکل جیکسن کی طرف سے ان کے تیس لاکھ ڈالر زرِضمانت میں کمی کے لئے جو درخواست دی گئی ہے، استغاثہ نے یہ کہہ کر اسکی مخالفت کی ہے کہ ایسا کرنے سے مائیکل جیکسن کے ملک سے فرار ہونے کی راہ ہموار ہو جائے گی۔
070910_ajmer_incident
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/09/070910_ajmer_incident
اجمیر: پنچایت کے حکم پر برہنگی
ہندوستان کی ریاست راجستھان کے اجمیر ضلع کے ایک گاؤں میں پنچایت نے قتل اور جنسی زیادتی کے ایک معاملے میں مشتبہ شخص کی شناخت کے لیے لوگوں کے کپڑے اتار کر دیکھے گئے۔
پنچایت نے کئی سو افراد کے کپڑے اتارے اور یہ پتہ لگانے کی کوشش کی ان میں سے تو کوئی اس معاملے میں شامل نہیں ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ وہ کپڑے اتارنے کے اس واقعہ کا پتہ لگانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اجمیر کے کوراج گاؤ‎ں میں سنیچر کی رات ایک شادی شدہ عورت کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے رحمی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ گا‎ؤں میں پیر کے روز پنچایت بیٹھی اور پھر گاؤں کے ایک ایک آدمی کے کپڑے اتار کر جانچ کی گئی۔ گاؤں کے ایک شخص تارا سبت نے بی بی سی کو بتایا گاؤں کے مردوں نے اپنی مرضی سے اپنا بدن دکھایا تاکہ کسی پر شک نہ کیا جائے۔ راجستھان میں پنچایت کے اس طرح کے حکم کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے چتوڑگڑھ ضلع میں چوری کے ایک واقعے میں بے گناہی ثابت کرنے کے لیے لوگوں کو گرم تیل میں ہاتھ ڈالنے کے لیے کہا گيا تھا۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں ایسی پنچایتوں پر پابندی لگانے کا مطالبہ کرتی آ رہی ہیں۔
060529_amir_support_na
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2006/05/060529_amir_support_na
ہم عامر خان کے ساتھ ہیں: بالی وڈ
’عامر خان نے جو کچھ کہا ہے وہ بالکل صحیح ہے اور پوری فلم انڈسٹری ان کے ساتھ ہے‘، ان خیالات کا اظہار پیر کی شام فلم اینڈ ٹیلی ویژن پروڈیوسرز گلڈ آف انڈیا، موشن پکچرز اینڈ ٹیلی ویژن انڈسٹری ، بالی وڈ ستارے اور جونیئر آرٹسٹوں کی یونین نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کیا۔
پروڈیوسرز گلڈ آف انڈیا کے صدر امیت کھنہ کا کہنا تھا ’ذرائع ابلاغ میں خبریں آرہی تھیں کہ فلم انڈسٹری کی جانب سے کوئی مشترکہ رد عمل ظاہر نہیں کیا جارہا ہے اس لیئے آج ہم یہاں آئے ہیں ویسے ہم سب شروع سے عامر کے ساتھ تھے۔ عامر نے نرمدا ڈیم سے منسلک بیان، دستور ہند میں اظہار کی آزادی کے حق کے تحت دیا۔ انہوں نے ریاست گجرات یا وہاں کے عوام کے خلاف کچھ نہیں کہا وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ صرف اجڑے لوگوں کی آباد کاری چاہتے ہیں اور یہی سب انڈیا کی عدالت عالیہ نے بھی کہا مگر اس کے باوجود عامر کی فلم ’فنا‘ پر پابندی عائد کرنا کہاں تک جائز ہے ؟‘ انہیں خیالات کا اظہار موشن پکچرز اینڈ ٹیلی ویژن ایسوسی ایشن کے صدر پہلاج نہلانی نے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ’اگر ایک ہفتہ یعنی جمعہ تک گجرات میں فلم فنا کی نمائش نہیں کی جاتی تو پھر فلم انڈسٹری ایک لائحہ عمل تیار کرے گی جو شاید گجرات حکومت کے خلاف ہو‘۔ یش چوپڑہ سمیت فلم انڈسٹری کی کوئی بھی شخصیت کھل کر گجرات حکومت کے خلاف کہنے کو تیار نہیں تھی۔ بالی وڈ اسٹار انیل کپور نے الٹا ذرائع ابلاغ سے کہا کہ ’آپ اپنے اندر جھانک کو پوچھیئے کہ جو ہورہا ہے وہ صحیح ہے یا غلط ہے‘۔ البتہ انہوں نے ایک بات صاف لفظوں میں کہہ دی کہ ’حکومت گجرات اظہار کی آزادی اور جمہوریت کا گلا گھونٹ رہی ہے‘۔ شومین سبھاش گھئی نے افسوس ظاہر کیا کہ ’ایک معمولی بات کو اتنا بڑا سیاسی وجوہات کی بنا پر بنایا جارہا ہے ۔لوگ اپنی سیاسی دکان چمکانے کی کوشش کررہے ہیں جسے اب روکا جانا چاہیئے‘۔ اداکار رضا مراد نے عامر کو ایک باہمت اور ایماندار شخص کہا ’جس نے گجرات کے زلزلہ میں پچیس لاکھ روپے دیئے تھے اور اب بھی انہوں نے نرمدا ڈیم سے متاثر ہونے والی ریاستوں کو پانچ پانچ لاکھ روپے کے چیک دئے ہیں جو شاید بہت کم لوگ کرتے ہیں‘۔ ہدایت کار کنال کوہلی کا کہنا تھا کہ ’گجرات سے نوجوان ممبئی میں فلم فنا دیکھنے پہنچ رہے ہیں ۔ فلم فنا کی جعلی سی ڈی ممبئی اور گجرات پہنچ چکی ہے اور فلم انڈسٹری کو اس سے کروڑوں کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے‘۔
150514_sino_india_relations_sq
https://www.bbc.com/urdu/regional/2015/05/150514_sino_india_relations_sq
’معاشی شیر‘ سے بھارت کی توقعات
بھارتی وزیِرِاعظم نریندر مودی ایک ایسے وقت چین پہنچے ہیں جب ان کے میزبان ایشیا کے نقشے کو بدلنے کے ایک بہت بڑے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بڑی تندھی سے مصروف ہیں۔
چینی فوجی دستوں نے حال ہی میں ماسکو میں ایک مارچ میں بھی حصہ لیاہے چینی وزیرِ خارجہ اس منصوبے کو ایک ’چینی گردباد‘ سے تعبیر کرتے ہیں جس نے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جبکہ صدر شی جنگ پنگ اس حوالے سے ’چینی دورِ نو‘ کے خواب کی باتیں کر رہے ہیں۔ چین کے ان بڑے خوابوں کو بیجنگ میں جن سادہ الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے وہ ہیں ’خطے کے ممالک کے درمیان مکمل ربط‘۔ یعنی چین سرمایہ کاری، تجارت، سفارت کاری اور مالیات کو استعمال کرتے ہوئے ایشیا میں ذرائع آمدو رفت اور اداروں کا ایک ایسا جال بچھانا چاہتا ہے جس میں ہر ایک پالسیی ہر آنے والے منصوبے کو اس طرح تقویت دے کہ پورا خطہ چین کی باہوں میں سمٹ آئے۔ صدر شی کہتے ہیں چین ایک ’پرامن، ملسنار اور مہذب شیر‘ ہے۔ لیکن کون بےقوف ایسا ہوگا جو شیر کے پنجرے میں اتر جائے اور اس کے ہاتھ میں کوئی ہتھیار بھی نہ ہو۔‘ جس امتحان کا سامنا بھارتی وزیرِاعظم کو ہے وہ اس سے مختلف نہیں جس کا سامنا چین کے دیگر ہمسائیوں کو ہے، یعنی ایک سلجھے ہوئے شیر کے ساتھ بیٹھ کر مشترکہ مفادات پر کام کرنا لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی یاد رکھنا کہ اگر شیر غصے میں آ گیا تو پھر کیا ہوگا۔ اس یقین کے ساتھ کہ اب چین کی ترقی کا راستہ کوئی نہیں روک سکتا، صدر شی اور ان کے رفقاء اس خارجہ پالسیی کو ترک کر چکے ہیں جس پر چینی حکومت گذشتہ تین دھائیوں سے عمل پیرا تھی، یعنی ’چُپ چاپ اچھے وقت کا انتظار کرو اور اپنی صلاحیتوں کو دنیا سے چُھپائے رکھو۔‘ چینی رہنما جس ’چینی بگولے‘ کی بات کر رہے ہیں اس کی بنیاد چار ٹریلین ڈالر کی وہ خطیر رقم ہے جو چین نے فارن ایکسچینج کی مد میں کما رکھی ہے۔ حال ہی میں وجود میں آنے والا ’ایشیئن انفراسٹرکچر بینک‘ اور چین کی سربراہی میں بننے والے دیگر مالیاتی ادارے آئندہ برسوں میں سبک رفتار ریل گاڑیوں، ایندھن کی پائپ لائینوں، سڑکوں، بندرگاہوں اور صنعتی پارکوں پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔ بھارت کی خواہش ہوگی کہ وہ چین کی سرمائے اور منصوبوں کی تعمیر میں اُس کی مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ دی ایشئن انفراسٹرکچر بینک 24 اکتوبر سنہ 2014 کو ایشیا کے 21 ممالک نے ایک ایسی یادداشت پر دستخط کر دیے تھے جس کے تحت چین کی سربراہی میں ایک بینک بنایا جائے گا جس کا صدر دفتر بیجنگ میں ہوگا۔ بھارت کی خواہش ہوگی کہ وہ چین کی سرمائے اور منصوبوں کی تعمیر میں اُس کی مہارت سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ توقع ہے کہ اس بینک کی تکمیل سنہ 2015 کے آخر تک ہو جائےگی اور یہ ادارہ ایشیا میں ایسے منصوبوں کے لیے سرمایہ فراہم کرے گا جن کے تحت نئی سڑکیں، بندرگاہیں، ریل کی پٹریاں اور ذرائع آمد ورفت کے دیگر وسائل تعمیر کیے جائے گے۔ 15 اپریل 2015 تک اس بینک کی بانی رکنیت کے لیے 57 درخواستیں موصول ہو چکی ہیں جن میں 37 ایشیا سے آئیں جبکہ 20 ممالک ایسے ہیں جو خطے سے باہر ہیں۔ خطے سے باہر سے آنے والی درخواستوں میں آسٹریا، برازیل، ڈنمارک، مصر، فرانس، جرمنی، آئس لینڈ، اٹلی، لگسمبرگ، مالٹا، ہالینڈ، ناروے، پولینڈ، پرتگال، جنوبی افریقہ، سپین، سویڈن اور برطانیہ شامل ہیں۔ ہنی مون ختم گذشتہ ستمبر میں صدر شی جب انڈیا گئے تھے تو اس وقت مسٹر مودی کو اقتدار سنبھالے صرف چار ماہ ہوئے تھے۔ اس لیے دونوں کی اس وقت کی ملاقات اور گپ شپ کو ایک نئے رشتے کا ہنی مون کہنا غلط نہ ہوگا۔ اس ہنی مون میں دونوں نے معاشی تعاون کے کئی منصوبوں کا اعلان کیا جن میں چین کی جانب سے 20 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری بھی شامل تھی۔ آٹھ ماہ گزرنے کے بعد اگر دیکھا جائے تو ان منصوبوں پر پیشرفت سست رہی ہے۔ چینی سرمایہ کاروں کو شکایت ہے کہ اس تاخیر کی وجہ بھارت کا سرخ فیتہ ہے جبکہ بھارتی برآمدکندگان کہتے ہیں کہ چین کا درآمدات کا نظام رکاٹوں کا شکار ہے۔ اگرچہ بھارت کی شرح نمو میں اضافہ ہو رہا اور چین کی شرح نمو کم ہوتی جا رہی ہے، لیکن بھارت کی معیشت کا حجم چینی معیشت سے بہت ہی کم ہے اور بھارت ان کئی ممالک میں سے ایک ہے جو اپنے ہاں چینی سرمایہ کاری کے لیے آپس میں مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسٹر مودی بھارت کی تیز معاشی ترقی کی نوید سناتے رہے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو بھارت کی جانب متوجہ کرنے کے لیے ’میک اِن انڈیا‘ کا نعرہ بھی لگاتے رہے، لیکن چینی سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں زمینی حقائق میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ لیکن دوسری جانب ’چینی گردباد‘ تھمنے کا نام نہیں لے رہا اور دن بدن طاقتور ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کے شمال میں ’شاہراہِ ریشم کی معاشی راہداری‘ کے منصوبے کے تحت چین کے پاس ذرائع آمدورفت، تجارت اورسٹریٹیجک اثاثوں کا ایک ایسا جال بنانے کا منصوبہ ہے جس کا سلسلہ وسطی ایشیائی ممالک تک پھیلا ہوگا۔ دوسری جانب بھارت کے جنوب میں چین کا منصوبہ یہ ہے کہ وہ اپنی ’ساحلی شاہراہِ ریشم‘ کو بحرِہند کے دوسرے کنارے تک لے جائے گا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سری لنکا، مالدیپ اور سیشیلز میں چین بہت زیادہ سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اسی طرح وہ نیپال اور بھوٹان میں بھی سرمایہ کاری کر رہا ہے جو روایتی طور پر بھارت کے حلقۂ اثر میں رہے ہیں۔ چینی وزیرِ خارجہ اس منصوبے کو ایک ’چینی گردباد‘ سے تعبیر کرتے ہیں اس کے علاوہ چینی صدر گزشتہ ماہ پاکستان کا دورہ بھی کر چکے ہیں جہاں انھوں نے سڑکوں، ریلوے اور توانائی کے منصبوں میں 40 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک کے درمیان ایک ایسی سٹریٹیجک شراکت داری کی نوید بھی سنائی جو بدلتے موسموں سے متاثر نہیں ہوگی۔ اسی لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ بھارت میں سکیورٹی کے تجزیہ کار شکایت کر رہے ہیں بھارت کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔کون تنگ کر رہا یہ گھیرا؟ لیکن بھارت بھی دفاعی حکمت عملی کا بڑا کھیل کھیل رہا ہے۔ چین آنے سے بہت پہلے مسٹر مودی جاپان کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ اس پر چین کے ایک سرکاری اخبار نے تمتلا کر لکھا تھا کہ ’جاپانی رہنما مسٹر مودی سے مل کر یقیناً خوش ہوں گے کہ اب دونوں مملک اکٹھے ہو کر چین کو لگام ڈالیں گے۔‘ ’لیکن مودی کی نظر صرف جاپانی ٹیکنالوجی اور جاپانی سرمایہ کاری پر ہے۔ بھارت اور جاپان اس شادی شدہ جوڑے کی مانند ہیں جو سوتا تو ایک بستر پر ہے لیکن دونوں کے خواب ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔‘ جاپان کے دورے کے چار ماہ بعد مسٹر مودی نے امریکی صدر براک اوباما کو دعوت دی کہ وہ بھارت کے یومِ جمہوریہ کی تقریبات میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کریں۔ اس موقع پر دونوں رہنماؤں نے ایک مشترکہ بیان میں ’ایشیائی بحرالکاہل اور بحیرہ ہند میں دفاعی مقاصد‘ کے منصوبے کا اعلان کیا جس میں چین کے بارے میں ایسی سطریں شامل تھیں جن کا تعلق ان سمندروں میں سکیورٹی کی اہمیت اور ساؤتھ چائنا کے پانیوں میں آزادانہ آمدو رفت کی ضمانت سے تھا۔ اس کے علاوہ اس بیان میں یہ بھی شامل تھا کہ تمام فریق ان پانیوں میں ’طاقت کے استعمال اور اس قسم کی دھمکی‘ سے گریز کریں گے۔ اور یہی وہ بات ہے جو مسٹر مودی کے لیے سب سے بڑا مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ خطے میں چین کی دفاعی حکمت عملی کا محور یہ ہے کہ یہاں کس طرح امریکی اثر ورسوخ کو کمزور کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے چین اپنی معاشی طاقت کو کیسے بروئے کار لا سکتا ہے۔ پچھلے سال صدر شی نے کہا تھا کہ ’یہ حق ایشیا کے لوگوں کا ہے کہ وہ ایشیا کے معاملات کو کیسے چلانا چاہتے ہیں۔‘ جب تک امریکہ چین کے ساتھ لین دین جاری رکھتا ہے اور چین مغربی بحرالکاہل میں امریکہ کی موجودگی پر اعتراض نہیں کرتا، اس وقت تک بھارت اور خطے کی دوسری طاقتیں چین اور امریکہ دونوں سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ معاشی تعاون کے لیے یہ ممالک چین کے ساتھ تعلقات بنا سکتے ہیں اور سکیورٹی کے لیے امریکہ سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ لیکن اگر امریکہ اور چین کُھلے بندوں ایک دوسرے سے مقابلہ بازی پر اتر آتے ہیں تو خطے کے ہر ملک کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جائے گا کہ وہ چین کا ساتھ دے یا امریکہ کا۔ تاریخ سے جڑے تنازعات جن ہمسائیوں کے ساتھ چین کے سرحدی نوعیت کے تنازعات نہیں ہیں وہ تو ان خدشات کو ذہن سے نکال سکتے ہیں لیکن بھارت ایسا نہیں کر سکتا۔ لداخ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں متنازع علاقہ ہے بیجنگ اور دہلی کے درمیان گذشتہ ایک دہائی میں سرحدوں کے تنازع کو حل کرنے کے مذاکرات کے اٹھارہ دور ہو چکے ہیں لیکن وہ کسی حل پر پہنچنے میں ناکام رہے اور اسی تنازع کی وجہ سے ان کے درمیان سنہ 1962 میں جنگ بھی ہوئی تھی۔ لداخ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں متنازع علاقہ ہے اور گزشتہ سال ستمبر میں بھی صدر شی کے دورہ بھارت سے پہلے اس علاقے میں چینی فوج کے گھس آنے سے کشیدگی پیدا ہو گئی تھی۔ اچھی بات یہ ہے کہ اب یہ معاملہ بھڑکتے ہوئے الاؤ سے سمٹ کر ایک چنگاری بن گیا ہے۔ جاپان، فلپائن اور ویتنام سے سرحدوں کے اختلاف پر چین کی سخت گیر پالیسی کے برعکس بھارت کے ساتھ سرحدی تنازع پر اس کا لہجہ بہت نرم ہے اور اسے چین نے تاریخ پر چھوڑ دیا ہے۔ کم از کم فی الحال چین اس معاملے پر ایک ایسے ہمسائے کے ساتھ جس سے تعلقات تعاون اور مسابقت میں تیزی سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں، لچکدار رویہ اختیار کیے ہوئے نظر آتا ہے۔ چین کے وزیر اعظم لی کی یانگ نے کہا تھا کہ بھارت اور چین کی کل آبادی دنیا کی ایک تہائی آبادی کے برابر ہے اور’جب ہم بات کریں گے تو پوری دنیا سنے گی۔‘ اس ہفتے ہونے والے سربراہ اجلاس میں دونوں رہنما نہ صرف یک زبان ہو کر ’یوگا‘ اور ’تھائی چی، کے فوائد گنوائیں گے بلکہ دونوں اپنی قدیم تہذیب اور بدھ مت کی مشترکہ وراثت کے گُن بھی گائیں گے۔ لیکن جب یہ گرمجوشی ٹھنڈی پڑ جائے گی اور جام سے جام ٹکرائے جا چکے ہوں گے تو ایشیا کے ان دو ملکوں کے سامنے یہ سوال کھڑا ہوگا کہ آیا وہ مستقبل کا تعین کرنے والے اہم معاملات پر بھی یک زبان ہو سکتے ہیں؟
060609_zarqavi_pk_coverage_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/06/060609_zarqavi_pk_coverage_zs
’شہید، ہلاک یا جاں بحق‘
عراق کے شدت پسند رہنما ابومصعب الزرقاوی کی امریکی فوج کے ہاتھوں فضائی حملے میں ہلاکت کی خبر پاکستانی اخبارات نے نمایاں طور پر شہ سرخیوں میں تو شائع کی ہے تاہم کچھ اخبارات نے انہیں’شہید‘ قرار دیا ہے تو کچھ نے قتل ، ہلاک اور جاں بحق کے الفاظ استعمال کیئے ہیں۔
اردو روزنامہ نوائے وقت نے الزرقاوی کو اپنی شہ سرخی میں شہید قرار دیا ہے جبکہ اِسی گروپ کے انگریزی اخبار ’دی نیشن، نے انہیں’ کِلڈ‘ یا ہلاک لکھا ہے۔ انگریزی روزنامہ ڈان، دی نیوز، ڈیلی ٹائمز، فرنٹیئر پوسٹ، سٹیٹسمین، دی پوسٹ اور پاکستان آبزرور سمیت بیشتر اخبارات نے ابومصعب الزرقاوی کو اپنی شہ سرخیوں میں ہلاک لکھا ہے۔ اردو روزنامہ جنگ، خبریں اور ایکسپریس نے الزرقاوی کو اپنی شہ سرخیوں میں جاں بحق لکھا ہے جبکہ روزنامہ دن اور بعض دیگر اخبارات نے لکھا ہے کہ الزرقاوی ہلاک ہوگئے۔ پاکستانی اخبارات نے الزرقاوی کے موت کی خبر کے ساتھ ساتھ ان کی مختلف تصاویر اور ان کا سوانحی خاکہ بھی شائع کیا ہے۔ الزرقاوی کی ہلاکت کو جہاں اخبارات نے نمایاں کوریج دی ہے وہاں الیکٹرانک میڈیا میں بھی اس کو خاصی کوریج دی گئی اور ان کے بارے میں خصوصی پروگرام اور ان کے پرانے انٹرویو بھی نشر کیئےگئے۔ عراق کے شدت پسند رہنما ابو مصعب الزرقاوی کی ہلاکت کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے اپنے رد عمل میں کہا تھا کہ ’الزرقاوی کی ہلاکت دہشت گردی کے خلاف جدوجہد میں ایک بڑی پیش رفت ہے‘۔ تاہم اس سلسلے میں تاحال پاکستان کی مذہبی اور کالعدم قرار دی گئی شدت پسند جماعتوں کے رہنماؤں کا کوئی ردِعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
040508_sasser_arrest_as
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2004/05/040508_sasser_arrest_as
سیسر کا ’خالق‘ گرفتار
جرمنی میں پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے ایک شخص کو گرفتار کیا ہے جس نے بعد میں یہ تسلیم کیا کہ گزشتہ ہفتے دنیا بھر کے کمپیوٹروں کو خراب کرنے والا وائرس اس نے بنایا تھا۔
پولیس کے مطابق جمعہ کو گرفتار کئے گئے اٹھارہ سالہ نوجوان کا تعلق جرمنی کے شہر روٹنبرگ سے ہے جو لوئر سیکسونی میں ہے۔ اس کے متعلق اور کوئی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔ سیسر وائرس مائیکروسافٹ کے سسٹم پر حملہ کرتا ہے اور کمپیوٹر کو بار بار بند کر دیتا ہے۔ دنیا بھر میں متعدد کاروباری ادارے اور دفاتر سیسر وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں امریکہ، یورپ اور ایشیا کے بینک، یورپی اتحاد کا صدر دفتر اور تائیوان کا ایک پوسٹ آفس بھی شامل ہے۔ اس بات کی تحقیقات ہو رہی ہیں کہ جرمن نوجوان اکیلا کام کر رہا تھا یا وہ کسی نیٹ ورک کا حصہ تھا۔
080823_cycle_blast
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/08/080823_cycle_blast
سائیکل بم سے ایس پی زخمی
کراچی میں پولیس لائین کے باہر ایک سائیکل بم دھماکے میں ایک پولیس افسر سمیت دو افراد زخمی ہوگئے ہیں۔ یہ دھماکہ شاہراہ فیصل پر صدر پولیس تھانے کے عقب میں واقع پولیس لائن کے باہر ہوا اور اِس کے نتیجے میں سڑک میں ڈیڑھ فٹ گڑھا پڑ گیا ہے۔
بم کے ٹکڑے لگنے کی وجہ سے ایک کوسٹر بس اور کار کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ٹاؤن پولیس افسر ڈاکٹر امیر شیخ نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ بم ایک سائیکل میں نصب تھا۔ انہوں نے کہا کہ صبح ساڑھے گیارہ بجے کے قریب ٹاؤن پولیس افسر راجہ عمر خطاب جیسے ہی یہاں سے گزرے تو دھماکہ ہوا اور نتیجے میں راجہ عمر اور ایک راہ گیر شاہد علی زخمی ہوگئے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ راجہ عمر ٹارگٹ تھے، ہوسکتا ہے ملزمان نے پولیس کی گاڑی دیکھ کر اسے نشانہ بنایا ہوا۔ ڈاکٹر امیر شیخ کے مطابق جب بھی کسی دہشت گرد گروہ نے کوئی کارروائی کی ہے تو اس طرح سائیکل میں بم نصب نہیں کیا گیا۔ وہ اپنی کارروائیوں میں سنجیدہ ہوتے ہیں۔ کراچی میں ماضی قریب میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا دھماکہ ہے جس میں بم سائیکل میں نصب کیا گیا ہے، پولیس اس کے بھی تحقیقات کر رہی ہے کہ یہ ٹائم بم تھا یا ریموٹ کنٹرول ۔ زخمی پولیس افسر راجہ عمر کو آغا خان اور راہ گیر کو جناح ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ راجہ عمر نے فرقہ وارنہ دہشت گردی کی واقعات کی تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں۔
130529_kph_assembly_session_rwa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/05/130529_kph_assembly_session_rwa
کیا یہ بھی کانِ نمک میں نمک ہو جائیں گے؟
پلاسٹک کی چپل پہننے کی وجہ ان کے پاؤں پر لگا زخم تھا یا ان کی عاجزانہ طبیعت لیکن ایک بات تو سب کو معلوم تھی کہ خیبر پختونخوا اسمبلی کا رکن بننے والے ایک رکن جتنے کم پیسے خرچ کر کے اسمبلی کی نشست جیتے ہیں اس سے زیادہ رقم تو ایک خاتون رکن نے پہلے اجلاس میں شرکت کے لیے اپنے سنگار اور تیاری پر ہی لگا دیے تھے۔
یہ دونوں چیزیں یعنی تحریکِ انصاف کے نو منتخب رکن اسمبلی کی پلاسٹک کی چپل اور اس خاتون کا میک اپ اور مہنگا لباس بار بار لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہا تھا۔ ایک جانب صوبے میں تحریک انصاف کی حکومت بننے کے عمل کا پہلا دن اور دوسری جانب وزیرستان میں ہونے والا ڈرون حملہ، اسمبلی کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر ایوان میں گیلریوں میں موجود ہر کسی کے لب پر ایک ہی سوال تھا کیا کہ ڈرون حملوں کی مخالفت اورامن و امان کی بہتری کے نام پر ووٹ لینے والوں کا امتحان پہلے ہی روز شروع ہو گیا ہے؟ یہ سوال کرنے والے اس کا جواب بھی خود ہی دے رہے تھے کہ مرکز میں حکومت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف سے ان دونوں کاموں کی توقع نہ رکھی جائے اوراگر وہ صرف صوبے میں کرپشن سے پاک یعنی صاف اور شفاف حکومت کے قیام میں ہی کامیاب ہوگئے تویہ ان کا وہ کارنامہ ہوگا اور یہی وہ عمل ہوگا جس پر عام لوگ ان کے بڑے وعدوں کے پورا نہ ہونے پرانہیں معاف کرنے پر تیار ہو جائیں گے۔ توقع تو یہی کی جا رہی تھی کہ تحریک انصاف کو اپنے ایجنڈے کے نفاذ کے لیے جو ایک صوبہ مل چکا ہے وہ اس کو پا کر کافی جوش میں ہوگی اور پہلے دن اس کی مرکزی قیادت کے کچھ لوگ ضرور خیبرپختونخوا اسمبلی میں موجود ہوں گے لیکن وہاں تو کوئی بھی نہیں آیا۔ تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکن اور منتخب اراکین کے رشتے دار صبح سے ہی اسمبلی کی گیلریوں پر قابض تھے جو وہاں بننے والی اپنی تصویروں کوفیس بک اور انٹرنیٹ کی دیگر سائٹس پر اپ لوڈ کر رہے تھے اور اس کام وہ اکیلے نہیں تھے بلکہ کافی نامی گرامی منتخب اراکین اور ان کے رشتے دار بھی اس میں شریک تھے۔ خیبر پختونخوا اسمبلی کے اس اجلاس کا ایک اور منظر بھی کافی دلکش تھا جب حاضری رجسٹرمیں دستخط کرنے جانے والے اراکین تحریک انصاف کے نامزد وزیراعلی اور سپیکر اسمبلی سے ہاتھ ملانے کی ’سعادت‘ حاصل کرتے جا رہے تھے جنہیں کچہ عرصہ قبل تک وہ خود یا ان کی جماعتیں کبھی سنجیدہ جماعت کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار ہی نہ تھے۔ متوسط اورغریب طبقے کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تحریک انصاف کے کاندھے پر سوار ہو کر اسمبلیوں میں تو پہنچ گئی لیکن اس تعداد کودیکھتے ہوئے ایک اور بات بھی محسوس ہو رہی تھی کہ تحریک انصاف کی موجودہ منتخب ٹیم میں ناتجربہ کاروں کی بہتات پارٹی کی نمائندہ اکثریت ہے یا کچھ نوجوان دوستوں کی بیٹھک۔ صوبے کی نئی حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف بہت سے غریبوں کو لے کر اسمبلی میں آئی ہے لیکن اتنی سادگی کے ساتھ اس اسمبلی میں پہنچنے والے یہ پہلے لوگ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی غریب افراد منتخب ہو کر اسمبلی میں آتے رہے ہیں۔ سنہ 2002 میں اسی ہال میں دینی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل یعنی ایم ایم اے کی ٹکٹ پر منتخب ہونے والے سادہ اور غریب ارکان منتخب ہو کر آئے تھے کہ اسمبلیوں میں امیروں کو دیکھنے کے عادی افراد نے ان کو دیکھ کر منہ میں انگلیاں داب لی تھیں کہ یہ کون آ گیا؟۔ یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ کچھ عرصے بعد ہی وہ غریب، غریب نہ رہے اور ان کی مالی حالت بدل گئی، ان میں سے کچھ اب دوبارہ اسی اسمبلی میں آئے ہیں لیکن وہ سنہ 2002 کی طرح سائیکلوں، رکشوں اور تانگوں پر نہیں اپنی گاڑیوں میں آئے تھے۔ کہنے والوں کا کہنا تھا کہ لوگ نمک کی کان میں نمک کا حصہ بن جانے والوں پر توجہ نہیں دیتے اور ان میں ایسا کیا ہے کہ ان کو دیکھا جائے کیونکہ یہ اراکین اب اپنی سابقہ کلاس کے لوگوں کی بات کرنے کی بجائے ان کاموں پر توجہ دیتے ہیں جن کا براہ راست فائدہ عام آدمی کو نہیں ملتا۔
world-39155577
https://www.bbc.com/urdu/world-39155577
سعودی عرب میں سابقہ بیوی سے ٹریفک جرمانوں کے ذریعے بدلہ
سعودی عرب میں حکام نے ایک خاتون کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر کیے گئے 80 ہزار ڈالر جرمانے کی ادائیگی کے نوٹس واپس لے لیے ہیں۔
سعودی ہائی ویز کے حکام نے اب یہ جرمانے سعودی خاتون کے سابق شوہر کو منتقل کر دیے ہیں۔ سعودی عرب میں ’تبدیلی کی لہر‘ ’سعودی خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی سے معیشت متاثر ہو رہی ہے‘ العربیہ کے مطابق طلاق ہونے کے بعد اس شخص نے بدلہ لینے کے لیے سابقہ بیوی کے نام پر رجسٹرڈ گاڑی لی اور جدہ میں ٹریفک قوانین کی 375 بار خلاف ورزی کی۔ اپنی بیوی کی جانب سے طلاق لینے کے لیے درخواست دائر کیے جانے کے فوری بعد اس نے یہ کام کیا۔ خاتون کو جب جرمانے کی مد میں ایک بڑی رقم ادا کرنے کا نوٹس ملا تو حیران رہ گئیں کیونکہ انھوں نے گاڑی چلائی تک نہیں تھی۔ اس پر خاتون نے متعلقہ حکام کو صورتحال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ وہ جرمانہ اس کے سابق شوہر کو منتقل کر دیں۔
050305_train_accident_ra
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/03/050305_train_accident_ra
حادثہ، پانچ ہلاک، درجنوں زخمی
لاہور سے نارووال جانے ولی ٹرین کی ایک بوگی الٹنے سے کم از کم پانچ مسافر ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ پانچ زخمیوں کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔
یہ مسافرٹرین لاہور کے ریلوے سٹیشن سے شام ساڑھے پانچ بجے روانہ ہوئی۔ایک گھنٹے بعد ہی ریلوے حکام کو اطلاع ملی کہ لاہور سے کوئی اکیس کلومیٹر کے فاصلے پر ریلوے سٹیشن کوٹ مول چند اور ریلوے سٹیشن رام پورہ کے درمیان کسی جگہ ٹرین کی آخری بوگی پٹٹری سے اتر کر الٹ گئی۔ حکام نے پانچ افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے لیکن کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ زخمیوں کو لاہور کے میو ہسپتال داخل کرا دیا گیا ہے۔ابھی تک یہ نہیں معلوم ہوسکا کہ اس حادثے کی وجوہات تکنیکی ہیں یا پھر یہ کوئی تخریب کاری ہے۔
pakistan-55843102
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-55843102
ثروت گیلانی کے ’فیمنزم‘ سے متعلق بیان پر بحث: کیا فیمنزم کا مطلب مردوں سے نفرت کرنا ہے؟
دنیا بھر میں خواتین کے لیے ذاتی، سماجی، سیاسی اور معاشی برابری کے نعرے کے ساتھ مختلف سیاسی اور سماجی نظریات اور تحریکوں کے لیے ایک مشترکہ لفظ ’فیمنزم‘ ہے لیکن پاکستان میں اس لفظ کا مترادف ہے ’بھڑوں کا چھتہ‘۔۔۔ جو یہاں کسی نے چھیڑا وہاں تنقید، طعنے اور گالی کی بھنبھناہٹ شروع۔۔۔
ویب سیریز چڑیل سمیت کئی ڈراموں اور فلموں سے شہرت پانے والی پاکستانی اداکارہ ثروت گیلانی نے میزبان اور اداکارہ میرا سیٹھی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں بہت سی متنازعہ باتوں کے بیچ یہ بھی کہا کہ وہ ’فیمنسٹ‘ نہیں ہیں لیکن وہ مرد اور عورت کی برابری پر یقین رکھتی ہیں۔ میزبان میرا سیٹھی اس کلپ میں انھیں یہی سمجھاتی نظر آئیں کہ یہی تو ’فیمنزم‘ ہے۔ لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کسی معروف فنکار نے کسی انٹرویو میں اس لفظ سے دامن چھڑایا ہو، گو بات مرد اور عورت کی برابری کی ہی کہی ہو لیکن یہ ماننے سے انکار ہی کیا کہ وہ ’فیمنسٹ‘ ہیں یا شاید اس لفظ سے وہ آشنائی اور واقفیت نہیں پیدا ہو سکی کہ بلا تکلف اس کا نام لیں۔ پاکست کی معروف شخصیات کا خود کو فیمنسٹ کہلوانے میں ہچکچاہٹ پر بات کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں میرا سیٹھی نے کہا کہ وہ اپنی بہت سی خواتین ساتھیوں سے کیمرا پر اس بارے میں سوال پوچھ چکی ہیں۔ انھوں نے کہا ’وجہ شاید خوف ہے، اپنے مداحوں کو کھو دینے کا خوف لیکن ان کی ایک بڑی تعداد نے اس لفظ سے جڑی منفی تشریح کو اپنا لیا ہے۔‘ اس ضمن میں انھوں نے عروہ حسین، عائشہ عمر اور عثمان خالد بٹ کی تعریف بھی کی کہ انھوں نے فیمنزم کا جم کر دفاع کیا۔ یہ بھی پڑھیے یہ ’فیمنسٹ‘ اصل میں کیسی ہوتی ہیں؟ کراچی کی خاتون کو بالآخر بائیک چلانے کا لائسنس مل ہی گیا ’پاکستان میں خواتین کے حقوق میں کوئی بہتری نہیں‘ لیکن جب ثروت گیلانی میزبان میرا سیٹھی کی بات نہیں سمجھیں تو یہ ذمہ داری سوشل میڈیا نے اٹھا لی۔ ٹوئٹر پر پیسٹری نامی ایک اکاؤنٹ سے کہا گیا: ’وجوہات بہت سی ہیں مگر ایک بڑی وجہ اس بارے میں درست معلومات نہ ہونا ہے، لوگوں کو علم ہی نہیں کہ اس کا مطلب اسلام دشمن، بے راہ روی کی حامی، مردوں پر حکومت کرنے والی، رشتوں سے بیزار خاتون نہیں ہوتا، یہ کچھ اور ہے۔‘ ایک اور صارف نے لکھا: ’مسئلہ اس معاشرے میں زندہ رہنا ہے جہاں فیمنسٹ، لبرل یا سیکولر کی تعریف کا مطلب کفر اور بے حیائی سے جوڑا جاتا ہے۔ اس لیے منافقت کرتے ہوئے اندر سے تو فیمنسٹ رہنا چاہتے ہیں لیکن کھل کر کہنے سے ڈرتے ہیں۔‘ ثروت گیلانی نے اس انٹرویو کے متعلق بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خواتین کو طاقتور بنانے اور مردوں اور عورتوں کے لیے برابری کی بنیاد پر مواقعوں کی فراہمی کی حامی ہیں۔ ’لیکن میں اس چلن کا حصہ نہیں بننا چاہتی جس کے تحت کہا جائے کہ چلو ہم بھی کہیں کہ ہمیں مردوں سے نفرت ہے اور ان کی برائی کرنے لگیں۔ میرا خیال ہے بہت سے مرد بھی خواتین کو مضبوط بنانے اور ان کی حوصلہ افزائی میں کردار ادا کرتے ہیں اور ہمیں ان کا کردار فراموش نہیں کرنا چاہیے۔‘ فیمنزم کو مردوں سے نفرت اور ان پر حکمرانی کے شوق سے کیوں جوڑا جاتا ہے؟ اداکارہ ثروت گیلانی کے میرا سیٹھی سے انٹرویو کے بعد سوشل میڈیا پر صارفین کی ایک بڑی تعداد نے ان کا دفاع بھی کیا۔ ان کا خیال یہی ہے کہ ’فیمنزم مردوں سے نفرت اور ان پر حکومت کرنے کی سوچ کا نام ہے‘ جس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔ اسی بارے میں مختلف عمر اور طبقے کے افراد سے میں نے پوچھا کہ انھوں نے فیمنزم کے متعلق کیسی تشریحات سن رکھی ہیں۔ چنیدہ جواب کچھ یوں تھے: ’یہ جنسی طور پر نا آسودہ خواتین کی ’فرسٹریشن‘ ہے‘ ’یہ بدصورت عورتوں کا توجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے‘ ’یہ امیر عورتوں کا چونچلا ہے، غریب عورت کا مسئلہ نہیں‘ ’کچھ مرد اور عورتیں یہ سب مغربی ممالک کے ویزے کے لیے کرتے ہیں‘ اس لفظ سے منفی مفہوم کیوں جوڑے جاتے ہیں؟ بی بی سی نے پاکستان میں جینڈر سٹڈیز کی استاد فرزانہ باری سے اسی بارے میں بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ تعلیم، ادب اور رواج کے ذریعے پدرشاہی خیالات اور نظریات کی ترویج کی جاتی ہے۔ وہ کہتی ہیں ’بہت سے مرد جانتے ہیں کہ عورت کو برابری کے حقوق دینے سے ان سے بہت سی مراعات چھن جائیں گی جو انھوں نے صدیوں سے اپنا حق سمجھ کر استعمال کی ہیں۔ اس لیے وہ عورت کے حق کی آواز کو سازش قرار دے کر اسے دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی پسند کے منفی مفہوم اس لفظ سے جوڑ لیتے ہیں۔ ’پدرشاہی معاشرے میں مرد کے رائج کردہ نظریات اور خیالات اس کے زیر اثر رہنے والی عورتیں بھی اپنا لیتی ہیں۔ بنیادی مسئلہ خود تحقیق نہ کرنے کا ہے۔‘ فرزانہ باری کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر تحقیق کی جائے تو علم ہو گا کہ فیمنزم کے کئی ’برانڈز‘ ہیں اور سب برانڈز اس بات پر متفق ہیں کہ مرد اور عورت میں عدم مساوات فطری نہیں بلکہ سماجی رویوں کی بدولت ہے اور اسے بدلا جا سکتا ہے۔ یہی اصل مقصد ہے جسے ایک سازش کے تحت مبہم بنا دیا گیا ہے۔‘
151129_dgkhan_operation_hk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/11/151129_dgkhan_operation_hk
ڈیرہ غازی خان میں آپریشن ’چار دہشت گرد ہلاک، دو فرار‘
پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان میں پولیس نے محکمہ انسدادِ دہشت گردی کے ساتھ ملکر کی جانے والی ایک کارروائی میں کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے چار دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ دو دہشت گرد فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔
اتوار کی شب ضلع ڈیرہ غازی خان کے تھانہ گدائی کی حدود میں وڈور روڈ پر دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع ملنے پر کارروائی کی گئی ڈی جی خان میں ایم این اے کے کیمپ پر خودکش حملہ وزیرِ داخلہ کے ڈیرے پر حملہ سرکاری ٹی وی کے مطابق اتوار کی شب ضلع ڈیرہ غازی خان کے تھانہ گدائی کی حدود میں وڈور روڈ پر دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع ملنے پر کارروائی کی گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کارروائی میں دو طرفہ فائرنگ کے نتیجے میں چار دہشت گرد ہلاک ہوئے اور دو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ فرار دہشت گردوں میں کالعدم تنظیم کا کمانڈر شعیب چیمہ شامل ہے۔ خیال رہے کہ گذشتہ ماہ حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے ممبر قومی اسمبلی سردار امجد فاروق کھوسہ کے دفتر میں ہونے والے دھماکے میں خودکش حملہ آور سمیت آٹھ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ ڈیرہ غازی خان میں دہشت گردی کے بڑے واقعات پیش آچکے ہیں جن میں اہل تشیع کی مجلس، دربار سخی سرور اور سردار ذوالفقار کھوسہ کے گھر کے سامنے ایف سی کی چوکی کو نشانہ بنایا گیا۔
pakistan-53217065
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-53217065
کراچی: پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملہ، چار حملہ آوروں سمیت سات ہلاک، کالعدم بلوچستان لبریشن آرمی نے ذمہ داری قبول کر لی
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں واقع بازارِ حصص، پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت پر پیر کو شدت پسندوں کے حملے میں چاروں حملہ آوروں سمیت کم از کم سات افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔
نامہ نگار کے مطابق کراچی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی جانب سے فائرنگ اور دستی بم کے حملے میں داخلی دروازے پر ڈیوٹی پر موجود کراچی پولیس کا ایک سب انسپکٹر اور سٹاک ایکسچینج کے دو محافظ ہلاک ہوئے کالعدم شدت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی سے منسلک ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ مجید بریگیڈ کے ارکان نے اس کارروائی میں حصہ لیا۔ کراچی سے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق یہ واقعہ صبح دس بجے کے قریب پیش آیا اور ابتدائی معلومات کے مطابق حملہ آور پارکنگ کے راستے عمارت کے احاطے میں داخل ہوئے اور انھوں نے دستی بم پھینک کر رسائی حاصل کی۔ یہ بھی پڑھیے سٹاک مارکیٹ حملہ: ہلاک ہونے والے سکیورٹی گارڈ افتخار واحد جنھیں دو دن بعد ریٹائر ہونا تھا کراچی: پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملہ، تصاویر میں بلوچستان لبریشن آرمی کب اور کیسے وجود میں آئی رینجرز پر حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی سندھو دیش ریولیشنری آرمی کون ہے؟ نامہ نگار کے مطابق کراچی پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کی جانب سے فائرنگ اور دستی بم کے حملے میں داخلی دروازے پر ڈیوٹی پر موجود کراچی پولیس کا ایک سب انسپکٹر اور سٹاک ایکسچینج کے دو محافظ ہلاک ہوئے۔ ترجمان کے مطابق پولیس اور شدت پسندوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں چاروں حملہ آوروں کو ہلاک کر دیا گیا جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں تین پولیس اہلکار، دو سکیورٹی گارڈ اور سٹاک ایکسچینج کے ملازم سمیت دو شہری زخمی بھی ہوئے ہیں۔ اس سے قبل ایک بیان میں پولیس کے ترجمان کی جانب سے اس واقعے میں ہلاکتوں کی تعداد دس بتائی گئی تھی۔ پولیس سرجن ڈاکٹر قرار عباسی کے مطابق ان کے پاس اب تک سات لاشیں آئی ہیں جن میں چار حملہ آور، دو سکیورٹی گارڈ اور ایک پولیس اہلکار کی لاش شامل ہیں۔ پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس موجود جدید اسلحہ، دستی بم اور دیگر اشیا کو بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے۔ پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری اس واقعے کے بعد عمارت کے باہر موجود رہی اور کراچی پولیس کے ترجمان کے مطابق علاقے کو کلیئر کرنے کے لیے پاکستان سٹاک ایکسچینج کی عمارت اور اطراف کی بھی تلاشی لی گئی ہے۔ سندھ کے ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے بی بی سی کو بتایا کہ حملہ آور ایک سِلور رنگ کی کرولا گاڑی میں آئے اور انھیں پولیس کی جانب سے باہر گیٹ پر روکا گیا جہاں فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ دو حملہ آور گیٹ کے باہر مارے گئے جبکہ دو اندر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تاہم انھیں بھی مار دیا گیا ہے۔ پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس موجود جدید اسلحہ، دستی بم اور دیگر اشیا کو بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ حملہ آور مرکزی عمارت میں داخل نہیں ہوسکے اور ان سے دستی بم، دھماکہ خیز مواد اور دیگر اسلحہ برآمد ہوئے۔ سٹاک ایکسچینج کے ایم ڈی فرخ خان نے بھی جیو ٹی وی کو بتایا کہ حملہ آور عمارت کے اندر داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہوئے اور سٹاک ایکسچینج کے احاطے میں ہی داخل ہو پائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹریڈنگ فلور پر کاروباری سرگرمیاں متاثر نہیں ہوئی۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے واقعے کی تفصیلی انکوائری رپورٹ طلب کی ہے۔ 'یہ حملہ چینی قونصلیٹ پر حملے سے مماثلت رکھتا ہے' محکمہ انسدادِ دہشت گردی سندھ (سی ٹی ڈی) کے انچارج راجہ عمر خطاب نے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج کے حملے کی مماثلت کسی حد تک سنہ 2018 میں چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے سے ہے۔ انھوں نے کہا کہ آج کے حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی متعلقہ اداروں کی جانب سے کلیئر تھی اور حملہ آوروں میں سے ایک سلمان نامی شخص کے نام پر رجسٹر تھی۔ انھوں نے کہا کہ سلمان نامی حملہ آور کا تعلق بلوچستان کے ضلع کیچ سے ہے۔ راجہ عمر خطاب نے کہا کہ چینی قونصلیٹ پر ہونے والے حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی بھی چوری شدہ نہیں بلکہ کلیئر تھی۔ انھوں نے کہا کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ 'دہشت گردوں کے پاس کافی فنڈز' موجود ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ مارکیٹ سے گاڑیاں خرید کر استعمال کرتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں کے قبضے سے بارود نہیں ملا ہے تاہم ان کے پاس سے اسلحہ، گرینیڈ، لانچر، کلاشنکوف اور کھانے پینے کی چیزیں ملی ہیں۔ راجہ عمر خطاب نے کہا کہ وہ حملہ آوروں کی فوری شناخت ظاہر نہیں کر سکتے۔ ’ایک حملہ آور کی شناخت ظاہر کر دی گئی ہے۔ ایک حملہ آور کا نام سلمان ہے، باقیوں کی تفصیلات بھی جلد بتا دیں گے۔‘ سی ٹی ڈی کے سربراہ عمر خطاب جائے وقوعہ کا معائنہ کرتے ہوئے حملے میں 'دشمن اداروں' کی مدد شامل، ڈی جی رینجرز کا دعویٰ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جنرل عمر احمد بخاری نے پاکستان سٹاک ایکسچینج پر حملے کے بعد کہا ہے یہ دہشت گرد حملہ کسی دشمن غیر ملکی ایجنسی کی مدد کے بغیر نہیں ہو سکتا جس میں ان کے مطابق انڈیا کی خفیہ ایجنسی ’را‘ سرِفہرست ہے۔ کراچی پولیس کے سربراہ اے آئی جی غلام نبی میمن کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ دشمن غیر ملکی ایجنسیوں بالخصوص را کی اس حوالے سے بے چینی کا ہمیں ادراک ہے۔ میجر جنرل بخاری نے کہا کہ پچھلے کئی سالوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے مشترکہ آپریشن کی وجہ سے دہشتگردوں کی کارروائیوں کا دائرہ سکڑ گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں اس حوالے سے پوری طرح ادراک ہے کہ بچی کھچی سلیپر سیلز، مددگاروں اور سہولت کاروں کو جمع کیا جائے جن میں ایم کیو ایم لندن، بی ایل اے اور بلوچستان میں دیگر گمراہ لوگوں کو جمع کر کے صوبے کا امن خراب کیا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ آج کے واقعات کا تعلق 10 جون کو سندھ میں رینجرز پر ہونے والے حملوں سے جوڑنا غلط نہیں ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی جی رینجرز نے کہا کہ وہ آج کے واقعے کو انٹیلیجنس کی ناکامی نہیں قرار دیں گے۔ اے آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے اس موقع پر کہا کہ کراچی میں چینی قونصل خانے پر حملے سے اب تک کے دوران دہشتگردوں نے کئی مرتبہ حملوں کی کوششیں کیں اور ان میں سے لوگ پکڑے بھی گئے۔ غلام نبی میمن نے کہا کہ انٹیلیجنس اداروں کی جانب سے اس بات کی نشاندہی کی گئی تھی کہ سٹاک ایکسچینج پر حملہ کیا جا سکتا ہے، اس لیے سیکیورٹی ادارے پہلے سے آج کے حملے کے لیے تیار تھے۔ ڈی جی رینجرز نے کہا کہ چاروں دہشتگرد اس عزم کے ساتھ آئے تھے کہ سٹاک ایکسچینج کے اندر نہ صرف لوگوں کو نشانہ بنانے، بلکہ یرغمال بنانے کے لیے بھی آئے تھے۔ میجر جنرل بخاری نے کہا کہ یہ بات ان دہشتگردوں کے پاس سے برآمد ہونے والے سامان کی بنا پر کہی جا سکتی ہے جن میں کلاشنکوف، گرینیڈ اور کھانے پینے کا سامان شامل ہے۔ ڈی جی رینجرز کا کہنا ہے کہ پاکستان سٹاک ایکسچینج پاکستانی معیشت کی علامت ہے اور یہاں حملہ کرنے کا مقصد سرمایہ کاروں کو خوفزدہ کرنا اور پاکستان کا تاثر دنیا بھر میں غیر محفوظ ملک کے طور پر پیش کرنا شامل تھا۔ پاکستان کی وال سٹریٹ کراچی سٹاک ایکسچینج کا دفتر کراچی کے 'وال سٹریٹ' آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے اور اس کے ساتھ سٹیٹ بینک پاکستان، پولیس ہیڈ کوارٹر اور کئی دیگر بینکس اور میڈیا ہاؤسز کے دفاتر ہیں۔ سندھ رینجرز کا مرکزی دفتر بھی ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس عمارت میں روزانہ کئی سو افراد کاروبار اور روزگار کے سلسلے میں آتے ہیں۔ بلوچ لبریشن آرمی کے جس مجید بریگیڈ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے اسے مجید بلوچ نامی شدت پسند کے نام پر تشکیل دیا گیا جس نے 1970 کی دہائی میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو پر دستی بم سے حملے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہی بریگیڈ ہے جس نے گذشتہ برس گوادر میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ بلوچستان لبریشن آرمی کی جانب سے گذشتہ ماہ کے دوران بلوچستان میں سکیورٹی اہلکاروں پر تین حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی گئی تھی۔ اس کالعدم شدت پسند تنظیم کی جانب سے ماضی میں جن حملوں کی ذمہ داری قبول کی جاتی رہی ہے، ان میں سے کچھ درج ذیل ہیں:
040817_mountaineer_death_uk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/08/040817_mountaineer_death_uk
ایک کوہ پیما پاکستان میں ہلاک
پاکستان کے شمالی علاقوں میں پولیس کا کہنا ہے کہ پہاڑی تودے کی زد میں آ کر ایک ہسپانوں کوہ پیما ہلاک جبکہ اس کے دو ساتھی زخمی ہوگئے۔
شمالی علاقہ جات کے صدر مقام گلگت میں پولیس کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ نامی یہ انتیس سالہ کوہ پیما جو چھ رکنی ہسپانیوں کوہ پیما ٹیم کا رکن تھا۔ سنیچر کو اس وقت ہلاک ہو گیا جب سولہ ہزار فٹ کی بلندی پر ایک پہاڑی تودہ ان پر آ گرا۔ اس حادثے میں ان کے دو ساتھی زخمی بھی ہو گئے۔ متاثرین کو فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سکردو لایا گیا جہاں زخمیوں کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ ایک اور ہسپانیوں کوہ پیما گزشتہ ماہ گشابرم سر کرتے ہوئے ہلاک ہوا تھا۔
140506_old_age_well_being_zis
https://www.bbc.com/urdu/science/2014/05/140506_old_age_well_being_zis
کیا ہم سب 95 سالہ ایتھلیٹ بن سکتے ہیں؟
کیا ہم سب 95 سالہ ایتھلیٹ بن سکتے ہیں؟
پچانوے سالہ اولگا کوٹیلکو اب تک 750 طلائی تمغے جیت چکی ہیں امیر ملکوں میں لوگوں کی عمروں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آیا طویل عمر اچھی چیز ہے بھی یا نہیں؟ جب ان سے 60 سال چھوٹے لوگ لمبی چھلانگیں لگا رہے ہوں اور نیزے پھینک رہے ہوں تو 95 سالہ اولگا کوٹیلکو کا الگ تھلگ بیٹھنا سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن پانچ فٹ اونچی یہ کینیڈین خاتون الگ تھلگ بیٹھنے کی بجائے میدان کے وسط میں کھیلوں کی سرگرمیوں میں شامل ہونے کو ترجیح دیتی ہیں۔ اسی برس انھوں نے ورلڈ ماسٹرز ایتھلیٹکس چیمپیئن شپ میں تیز دوڑ، ہائی جمپ، لانگ جمپ اور ٹرپل جمپ کے مقابلوں میں حصہ لے کر معمر ترین ایتھلیٹ کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ ان کے پاس اس طرح کے 30 ریکارڈ ہیں اور وہ اب تک 750 طلائی تمغے جیت چکی ہیں۔ تاہم اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو غیرمعمولی انسان نہیں بلکہ ایک عام خاتون سمجھتی ہیں۔ جب ان سے ان کے راز کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ کہتی ہیں کہ میرا کوئی راز نہیں ہے: ’میرا خیال ہے کہ عمر صرف ایک ہندسہ ہے۔ سالگرہوں کی بجائے آپ کا زندگی گزارنے کا طریقہ فرق پیدا کرتا ہے۔ آپ کا رویہ سب سے اہم چیز ہے۔‘ تو پھر کیا ہم سب نوے سالہ ایتھلیٹ بن سکتے ہیں، یا پھر ہمارے مقدر میں بڑھاپا، معذروری اور تنزل ہی لکھا ہے؟ امیر ملکوں میں رہنے والوں کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ برطانیہ کی نیوکاسل یونیورسٹی میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق ہر گزرنے والے 24 گھنٹوں میں ان ملکوں کے باشندوں کی زندگیوں میں پانچ گھنٹوں کا اضافہ ہو رہا ہے، یعنی ہر سال میں دو مہینے، یا ہر عشرے میں کم از کم دو سال۔ اس کی بڑی وجہ طبی سائنس کی ترقی اور بہتر سہولیات کی فراہمی ہے۔ 1980 کے عشرے کے بعد سے برطانیہ میں سو سال سے زیادہ عمر والے افراد کی تعداد میں چار گنا اضافہ ہو چکا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر چوتھا برطانوی اپنی سوویں سالگرہ منانے کی امید رکھ سکتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ عمر کوئی ناقابلِ عبور رکاوٹ نہیں ہے۔ اگر اولگا کے جین انھیں اس عمر میں بھی چست رکھے ہوئے ہیں تو ہم بھی اپنے جینز کے غلام نہیں ہیں۔ تازہ تحقیقات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں پیدائش کے وقت جو جین ورثے میں ملتے ہیں اور ہماری طول عمری میں صرف ایک چوتھائی کردار ادا کرتے ہیں۔ یعنی ہم اچھا طرزِ زندگی اپنا کر زیادہ لمبا عرصہ جی سکتے ہیں۔ اس اچھے طرزِ زندگی کا ایک جانا پہچانا پہلو تو اچھی خوراک اور باقاعدہ ورزش ہے، لیکن اس کے علاوہ کچھ اور نسبتاً کم معروف چیزیں بھی ہیں جو لوگوں کو بڑھاپے میں بھی اچھی زندگی گزارنے میں مدد دیتی ہیں۔ نیوکاسل یونیورسٹی کے ڈاکٹر لِن کورنر کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہونا ناگزیر ہے، لیکن اس کے ساتھ زوال آنا لازمی نہیں ہے۔ ’سچ تو یہ ہے کہ عمر کے مسئلے کا کوئی واحد جواب نہیں ہے۔ یہ زندگی گزارنے کے طریقوں، ورزش اور اچھی خوراک کا مجموعہ ہے۔‘ سائنس دانوں کو توقع ہے کہ وہ جاپان کا مشاہدہ کر کے طولِ عمر کے بارے میں مزید سراغ پا سکتے ہیں۔ جاپان میں دنیا کے سب سے زیادہ معمر افراد رہتے ہیں اس لیے اس ملک کو صحت مندانہ زندگی کا ماڈل تصور کیا جاتا ہے۔ پروفیسر کورنر کہتے ہیں: ’غالباً اس کی وجہ یہ کہ جاپانی خوراک میں مچھلی اور سبزیوں کی بہتات ہوتی ہے، وہ یوگا اور دوسری ورزشیں کرتے ہیں اور مغربی ممالک کی نسبت کم سگریٹ اور شراب پیتے ہیں۔‘ لیکن ان چیزوں کے علاوہ طویل عمری کے لیے کئی چیزیں بھی کام کرتی ہیں۔ ایسٹن یونیورسٹی کی ڈاکٹر کیرل ہالینڈ کہتی ہیں کہ حالیہ برسوں میں ایک حیران کن بات سامنے آئی ہے کہ دوستوں کے ساتھ وقت گزارنا بھی عمر میں اضافے کا باعث بنتا ہے۔ اس کے علاوہ ادھیڑ عمری میں نئی دوستیاں بنانے سے بڑھاپے میں پیدا ہونے والی کمزوری کے خلاف مدافعت پیدا ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ہالینڈ کہتی ہیں: ’طویل عمری پر ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ آپ کے 50 تا 60 برس کی عمر میں جتنے زیادہ دوست ہوں گے، بعد کی زندگی میں آپ اتنی ہی کم تنہائی کا شکار ہوں گے۔‘ برطانیہ میں اسی موضوع پر ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ سماجی تنہائی کے شکار افراد کی عمریں ایسے لوگوں کے مقابلے پر کم ہوتی ہیں جو دوستوں اور رشتے داروں میں گھرے ہوئے ہوں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر آپ کے آپ کے اردگرد دوست اور عزیز موجود ہیں تو وہ آپ کی صحت کا خیال رکھتے ہیں اور اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہو تو ڈاکٹر سے مشورہ کرنے یا ہسپتال تک پہنچانے میں مدد دیتے ہیں۔ لیکن یونیورسٹی کالج لندن کے پروفیسر اینڈریو سٹیپ ٹو ایسی تحقیق کا حصہ رہے ہیں جس میں یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ انسانی جسم کی حیاتیات اور تنہائی میں ایسا تعلق بھی ہے جو اب تک پورے طور پر نہیں سمجھا گیا۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ڈپریشن سے بچنے کے لیے خاندان کے افراد کے ساتھ گزارے گئے وقت کے مقابلے پر دوستوں کے ساتھ گزارا گیا وقت زیادہ اہم ہے۔ جیسا کہ اولگا کے مثال سے واضح ہوتا ہے، مثبت سوچ بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ییل یونیورسٹی کے ڈاکٹر بیکا لیو نے دریافت کیا کہ کہ مثبت خیالات رکھنے والے افراد زیادہ لمبی عمر پاتے ہیں۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی یادداشت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے۔ لیکن ایڈنبرا یونیورسٹی کے پروفیسر ایئن ڈیئری کہتے ہیں کہ یہ بات درست نہیں ہے۔ یادداشت کی بعض اقسام وقت کے ساتھ بہتر ہوتی جاتی ہیں، مثلاً معلوماتِ عامہ اور ذخیرۂ الفاظ۔ پروفیسر ڈیئری کہتے ہیں: ’عمومی طور پر بڑھاپے میں آپ کو نوجوانوں سے زیادہ معلومات ہوں گی، صرف یہ ہے کہ آپ نئی معلومات اتنی جلدی حاصل نہیں کر سکتے۔‘ اور ڈاکٹر کورنر کہتے ہیں کہ ضروری نہیں کہ بڑھاپا بیماری اور معذوری ہی لے کر آئے۔ برطانیہ میں کی جانے والی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ معمر افراد کی اکثریت خوش و خرم اور خودمختار زندگی گزار رہی ہے۔ نیوکاسل یونیورسٹی نے 85 سالہ افراد کا ایک سروے کیا جن کی اکثریت نے کہا کہ ان کی صحت ’عمدہ سے لے کر زبردست‘ ہے۔ حالانکہ ان میں سے کئی کو تین تین بیماریاں لاحق تھیں اور وہ دن میں دس مختلف ادویات لے رہے تھے۔ فلاحی ادارے ’ایج یوکے‘ کے پروفیسر جیمز گڈوِن کہتے ہیں: ’اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھاپے کے بارے میں ہمارے خیالات بدل رہے ہیں۔ 85 سال سے بڑی عمر کے لوگ ہمیں بتا رہے ہیں کہ دائمی بیماریوں کے باوجود وہ اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے ساتھ ہیں اور اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔‘ حتیٰ کہ برطانیہ کے سرکاری اعداد و شمار بھی بتاتے ہیں کہ ہم 65 تا 80 سال کی زندگی میں سب سے زیادہ خوش رہتے ہیں۔ لیکن اولگا کو ان کا دسویں عشرہ بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر پا رہا۔ ان کا کہنا ہے: ’اس کی کوئی حد نہیں ہے۔ کون کہتا ہے کہ آپ کو ایک جگہ پہنچ کر رک جانا چاہیے؟ میں اس وقت تک چلنا جاری رکھوں گی جب تک گر نہیں پڑتی۔ یہی میرے سفر کا انجام ہو گا۔‘
sport-54291111
https://www.bbc.com/urdu/sport-54291111
کھیلوں کی دنیا میں غلط شناخت کے چند دلچسپ اور مزاحیہ واقعات، دوسرے کے نام پر مزے بھی اور پریشانی بھی
صرف چہروں سے ہی دھوکہ نہیں ہوتا بلکہ ایک جیسے نام بھی غلط فہمی کا سبب بن جاتے ہیں۔
انڈتین کرکٹ ٹیم کے 2004 میں دورہ پاکستان کے موقع پر لی گئی تصویر جہاں کلدیپ لعل درمیان میں نیلی شرٹ میں موجود ہیں سپورٹس کے صحافیوں کے ساتھ ایسے کئی دلچسپ اتفاقات ہوچکے ہیں جن میں سے چند بی بی سی اردو کے قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں۔ کلدیپ صاحب، لیکن کون سے والے؟ یہ سنہ 2004 کی بات ہے جب انڈیا کے سینئیر سپورٹس صحافی کلدیپ لعل ملتان کے گیسٹ ہاؤس سے ہالیڈے ان ہوٹل جانے کے لیے باہر نکلے جہاں پاکستان اور بھارت کی کرکٹ ٹیموں کے کپتانوں کی پریس کانفرنس ہونے والی تھی۔ گیسٹ ہاؤس کے باہر سکیورٹی اہلکاروں نے ان سے کہا کہ سر! آپ پیدل نہ جائیں بلکہ گاڑی استعمال کر لیں تو انھوں نے ان اہلکاروں سے کہا کہ ٹیم ہوٹل بالکل سامنے ہے لیکن اہلکاروں کا اصرار تھا کہ وہ پیدل نہ جائیں۔ یہ بھی پڑھیے وہ بلے باز جنھیں چھکا مارنا کبھی پسند نہ تھا کرنسی نوٹ اور سکوں پر کھلاڑیوں کے چہرے لارڈز میوزیم میں پڑی گیند اور چڑیا کا پاکستان سے کیا تعلق؟ کلدیپ لعل ان بھارتی صحافیوں میں شامل تھے جو انڈین ٹیم کے تاریخی دورہ پاکستان میں ٹیم کے ہمراہ کوریج کے لیے آئے ہوئے تھے ۔ کلدیپ لعل نے سوچا کہ ملتان چونکہ کراچی اور لاہور کے مقابلے میں چھوٹا شہر ہے لہذا یہاں سکیورٹی زیادہ ہو سکتی ہے اس لیے انھیں اس طرح کی ہدایت دی جارہی ہے کہ آپ کہیں بھی جائیں تو سکیورٹی حکام کو بتا کر جائیں ۔ کلدیپ لعل کے لیے پاکستان نئی جگہ نہیں تھی وہ اس سے قبل بھی پاک بھارت کرکٹ سیریز اور ہاکی ورلڈ کپ کی کوریج کے لیے بھی پاکستان آ چکے تھے تاہم اگلے پانچ دنوں میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ان پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ آج طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود کلدیپ لعل وہ واقعات یاد کرتے ہیں تو خود بھی قہقہے لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ 'پریس کانفرنس کے اگلے دن دونوں ٹیموں کی ملتان کرکٹ سٹیڈیم میں پریکٹس تھی۔ میں نے رینٹ اے کار حاصل کر رکھی تھی۔ اسی گیسٹ ہاؤس میں میرے ساتھ میرے دو پاکستانی صحافی دوست بھی ٹھہرے ہوئے تھے۔ ہم تینوں جیسے ہی سٹیڈیم جانے کے لیے کار میں بیٹھنے لگے تو ایک پولیس موبائل آ گئی اور کہا گیا کہ یہ آپ کے ساتھ جائے گی۔ اس پولیس موبائل کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں ڈیوٹی پر مامور خواتین سپاہی تھیں جو رائفلوں سے لیس تھیں۔' کلدیپ لعل بتاتے ہیں: 'پولیس موبائل سائرن بجاتی ہوئی اسٹیڈیم کی طرف رواں تھی اور پیچھے ہماری گاڑی تھی۔ آدھے گھنٹے کا راستہ صرف پندرہ منٹ میں طے ہوگیا۔ اسی طرح واپسی ہوگئی۔ اگلے پانچ دن تک یہی صورتحال رہی کہ ٹیسٹ میچ میں جانا اور کام ختم کر کے گیسٹ ہاؤس واپس آنا اسی پولیس موبائل کی سکیورٹی کے ساتھ ہوتا رہا اور مجھے بالکل سمجھ میں نہ آیا کہ یہ کیا ماجرا ہے کیونکہ انڈیا کے دوسرے صحافی بھی ملتان میں موجود تھے لیکن ان کے لیے اس طرح کا کوئی پروٹوکول نہیں تھا۔ انڈین صحافیوں اور کرکٹرز کو جب یہ پتہ چلا تو وہ کہتے تھے کہ بڑے مزے آرہے ہیں۔' کلدیپ لعل کہتے ہیں کہ اس حیران کن پروٹوکول کا راز اُس وقت کھلا جب وہ گیسٹ ہاؤس سے چیک آؤٹ کر رہے تھے تو ملتان پولیس کے ایک افسر ان سے ملنے آئے۔ 'پولیس افسر مجھ سے بڑے تپاک سے ملے اور کہنے لگے کلدیپ جی! آپ کو یہاں کسی قسم کی پریشانی تو نہیں ہوئی۔ پھر کہنے لگے میں آپ کے مضامین بڑے شوق سے پڑھتا ہوں۔ میں نے سوچا کہ میری اے ایف پی کی خبریں دنیا بھر میں جاتی ہیں وہ انھی کی بات کر رہے ہونگے لیکن جب پولیس افسر نے کہا کہ آپ کے سیاسی مضامین اور تجزیے بہت اچھے ہوتے ہیں اور آپ نے ہمارے وزرائے اعظم کے بھی بہت عمدہ انٹرویوز کیے ہیں۔ میں نے ان سے کہا کہ آپ کو غلط فہمی ہوگئی ہے جس پر وہ بولے نہیں جی، کلدیپ نائر کو کون نہیں جانتا۔ اب مجھے سمجھ میں آگیا کہ پچھلے چھ دنوں میں مجھے جو پروٹوکول دیا گیا تھا اس کا سبب کیا تھا۔ حقیقت معلوم ہونے پر وہ پولیس افسر کو بھی یکدم جھٹکا لگا وہ یقیناً شرمندہ ہوگئے تھے لیکن انھوں نے اسے ظاہر نہیں ہونے دیا تھا۔' برصغیر کے دو عظیم سپنرز بھارتی کرکٹ ٹیم کے 2004 کے اسی دورۂ پاکستان میں ایک اور بھارتی صحافی ہرپال سنگھ بیدی کے ساتھ بھی ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا جسے انھوں نے بی بی سی اردو کے ساتھ شئیر کیا۔ ہرپال سنگھ بیدی معروف سپنر بشن سنگھ بیدی کے ہمراہ 'ملتان ٹیسٹ کے دوران میری ملاقات پاکستان کے سابق لیگ سپنر اور کپتان انتخاب عالم سے ہوئی ان سے خوب گپ شپ رہی۔ اگلے دن ایک صاحب پریس باکس میں آئے اور مجھے ایک اخبار دیتے ہوئے کہا کہ بیدی صاحب آپ کی تصویر شائع ہوئی ہے اور یہ کہہ کر وہ ہنسنے لگے۔ میں نے پوچھا کہ خیر تو ہے؟ انھوں نے پوچھا کہ آپ کو اردو آتی ہے میں نے جواب دیا تھوڑی بہت پڑھ لیتا ہوں تو انھوں نے کہا کہ آپ تصویر کا کیپشن پڑھیں۔ جب میں نے پڑھا تو ہنسی ضبط کرنا مشکل ہوگئی کیونکہ اس میں لکھا ہوا تھا 'برصغیر کے دو عظیم سپنرز انتخاب عالم اور بشن سنگھ بیدی۔' ہرپال سنگھ بیدی کہتے ہیں کہ جس رپورٹر نے یہ تصویر اپنے اخبار کو بھیجی تھی اس نے بعد میں مجھ سے معذرت کی کہ میں نے ڈیسک والوں کو صرف بیدی نام بتایا تھا جس پر میں نے کہا کہ اس طرح کی غلطیاں ہوتی رہتی ہیں۔ ہرپال سنگھ بیدی کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ ایسے کئی واقعات ہو چکے ہیں جب لوگوں نے انھیں بشن سنگھ بیدی سمجھ لیا۔ وہ بشن سنگھ بیدی کو یہ واقعات جب بھی بتاتے تو وہ اپنے مخصوص انداز میں ہنستے ہوئے کہتے تھے کہ تم میرے نام پر بڑے مزے لے رہے ہو۔ ہرپال سنگھ بیدی کہتے ہیں 'میں 1986ء میں دیگر انڈین صحافیوں کے ساتھ کویت اور دبئی میں ایک ٹورنامنٹ کی کوریج کے لیے گیا تھا۔ جب کویت پہنچے تو ہوائی اڈے پر ایک شخص میرے پاس آیا اور کہا کہ بیدی صاحب آپ میرے ساتھ چلیں آپ کو ایک پارٹی میں شرکت کرنی ہے۔ اس نے مجھے پروٹوکول دیتے ہوئے مرسڈیز میں بٹھادیا۔ زندگی میں پہلی بار مرسڈیز میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ ابھی کار زیادہ دور نہیں گئی تھی کہ اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بیدی صاحب آپ نے ریٹائرمنٹ لینے میں اتنی جلدی کیوں کی ؟ آپ ابھی بھی کھیل سکتے تھے؟ میں حیران تھا کہ یہ کس ریٹائرمنٹ کی بات کررہا ہے لیکن مجھے سمجھ میں آ گئی بات کہ ہوا کیا ہے۔ میں نے اس شخص سے کہا کہ میرا خیال ہے آپ مجھے بشن سنگھ بیدی سمجھ رہے ہیں میں ہرپال سنگھ بیدی ہوں۔ یہ سننا تھا کہ اس شخص کا رویہ میرے ساتھ بالکل تبدیل ہوگیا اور اس کے بعد اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔ مجھے راستے ہی سے واپس میرے ہوٹل پہنچانے کے بجائے وہ مجھے اس ہوٹل میں لےگیا جہاں کسی پارٹی میں بشن سنگھ بیدی کو شرکت کرنی تھی وہاں پہنچ کر اس نے اپنے ڈرائیور سے کہا کہ ان صاحب کو ان کے ہوٹل لے جاؤ ۔ ہرپال سنگھ بیدی کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ پیش آنے والا سب سے دلچسپ واقعہ وہ ہے جب وہ انگلینڈ میں لندن کے لارڈز کرکٹ گراؤنڈ کے باہر سینئیر صحافی پردیپ میگزین کے ساتھ ایک بار میں بیٹھے تھے اور گفتگو جاری تھی کہ بار کے مالک کے کانوں میں پردیپ میگزین کی آواز جارہی تھی بیدی، بیدی۔ 'یہ سننا تھا کہ اس بار کے مالک نے اپنے بیٹے سے بیٹ اور گیند منگوالی اور میرے پاس آ کر کہنے لگا کہ آپ باہر گلی میں تشریف لے آئیں۔ میرے لیے اعزاز کی بات ہوگی کہ بیدی صاحب مجھے گیند کرائیں۔ یہ بھی پڑھیے کرکٹ کے جڑواں بھائی: ٹاس سے فیصلہ ہوا کہ کون فاسٹ بولر بنے گا سپاٹ فکسنگ سکینڈل کے 10 سال: دنیا کو دھوکہ دینے والی تین ’نو بالز‘ پردیپ میگزین نے مجھ سے کہا کہ یہاں سے نکل چلو کوئی گڑبڑ ہونے والی ہے۔ میں اس قدر نروس ہوگیا تھا کہ میں نے اسے بولنگ کی لیکن میری گیند اس تک نہیں پہنچی اور میں شرمندہ ہوگیا۔ اس موقع پر پردیپ میگزین کی ہنسی نہیں رک رہی تھی۔ انھوں نے اس شخص سے کہا کہ آپ انھیں بشن سنگھ بیدی سمجھ رہے ہیں لیکن یہ وہ نہیں ہیں ۔ اس سے قبل کہ اس شخض کا ردعمل سامنے آتا ہم دونوں فوراً وہاں سے نکل گئے۔' ’پُتر تُسی مینوں اجیت پال سمجھ رئے سی؟‘ اسی طرح سنہ 2004 میں پاک بھارت ہاکی سیریز کے موقع پر چار سابق انڈین اولمپیئنز بھی مہمانوں کے طور پاکستان آئے تھے جن میں 1975ء کا عالمی کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان اجیت پال سنگھ بھی شامل تھے۔ اُس وقت پاکستانی خبر رساں ادارے اے پی پی سے منسلک سینئیر صحافی احسان قریشی نے اجیت پال سنگھ کے انٹرویو کا ارادہ ظاہر کیا اور ان سے ہوٹل کی لابی میں انٹرویو کا وقت طے کر لیا۔ انٹرویو شروع ہوا اور پہلے دو تین سوالات کے جواب انھیں ملتے رہے لیکن ایک سوال پر انٹرویو دینے والے صاحب چونکے اور احسان قریشی سے کہنے لگے ''پتر ُتسی مینوں اجیت پال سنگھ سمجھ رہے سی۔ میں اجیت پال سنگھ نہیں۔' احسان قریشی حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا ؟ اس سوال کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا ہے کہ اجیت پال سنگھ کی جگہ دوسرے ایک اور سکھ برادری کے شخص تھے اور کسی تعارف کے بغیر ان کا انٹرویو کیسے شروع ہوگیا تھا۔
pakistan-50533739
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-50533739
آمنہ مفتی کا کالم اڑیں گے پرزے: اب کیوں نکالا؟
’پیارے بچو! پھر یوں ہوا کہ عمرو عیار نے اپنی زنبیل سے سفوف عیاری نکال کر پہرے داروں کو سنگھایا۔ سب کے سب جہاں تھے وہیں کے وہیں بت بن کر ساکت ہو گئے۔ عمرو نے زنبیل سے روغن عیاری نکالا، اپنے اور شہزادے کے منہ پہ ملا، جس سے شہزادہ ایک قریب المرگ بوڑھے میں اور عمرو ایک ادھیڑ عمر طبیب میں تبدیل ہو گیا۔
تب عمرو، قید خانے کے پہرے داروں، مہتمم محلات، بادشاہ اور وزیر اعظم کی ناک کے عین نیچے سے قیدی شہزادے کو لے کر باہر نکل گیا۔ سب کی آنکھوں کی پتلیاں تو جنبش کرتی تھیں مگر طلسم کے اثر سے مجال نہ تھی کہ ایک انگلی بھی ہلا سکیں۔ قید خانے سے نکل کر عمرو نے پہلوان کا شکریہ ادا کیا جو اپنی فوج لے کر قلعے کا محاصرہ کئے ہوئے تھا۔ شہزادے کے آزاد ہوتے ہی پہلوان نے اپنا محاصرہ اٹھایا اور جس بستی سے آیا تھا اسی کی طرف نکل گیا، مگر جاتے جاتے وہ اپنے ساتھ وہ طوطا لیتا گیا جس میں قلعے کے دیو کی جان تھی۔ آمنہ مفتی کے دیگر کالم پڑھیے سیاست کا عہد کنٹینر! خلائی مخلوق سے ڈرتے ہو! چاند چڑھے گا تو دنیا دیکھے گی! اگر آج رام جی ہوتے! دھرنے کا موسم آ گیا! قید سے چھوٹ کر شہزادہ سیدھا اپنے محل میں پہنچا اور اپنے گھر والوں سے مل کر خدا کا شکر بجا لایا۔ سب نے عمرو کی بہت خاطر داری کی اور اسے مہمان رکھنے پہ اصرار کیا مگر وہ نہ مانا اور بھاگم بھاگ قلعے میں پہنچا۔ قلعے والوں کو بت بنے دو روز گزر چکے تھے۔ عمرو نے سفوف عیاری پھونکا تو سب سے پہلے قلعے کے دیو کو چھینک آئی۔ اسے چھینک آئی تو سب طلسم ٹوٹ گیا اور بادشاہ سمیت سب لوگ ہوش میں آ گئے۔ عمرو عیار، سلیمانی چادر اوڑھ کے وہیں پھر رہا تھا۔ سب لوگ تلملاتے، دانت کچکچاتے ایک دوسرے پہ شہزادے کے فرار کے الزام لگاتے، برا بھلا کہہ رہے تھے۔ کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں تھا کہ اس کی وجہ سے شہزادہ ایسے آہنی حصاروں سے جن کہ باہر ساحروں کی ایک فوج پہرہ دیتی تھی یوں نکل گیا جیسے مکھن سے بال۔ عمرو عیار نے چونکہ سلیمانی چادر اوڑھ رکھی تھی اس لیے وہ تو سب کو دیکھ رہا تھا مگر کوئی اسے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ ان کی باتیں سن سن کے عمرو ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوا جاتا تھا اور چاہتا تھا کہ جلد از جلد لشکر میں لوٹ کے یہ خبر سنائے۔‘ یہ داستان امیر حمزہ نہیں جو آج سے صدیوں پہلے لکھی گئی۔ یہ تو وہ طلسم ہوش ربا ہے جسے ہم نے سانس روکے، بت بنے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ہم خود ہی ناظر تھے، خود ہی تماشا۔ ویسے دیکھنے والوں نے بھی خوب دیکھا اور داد دی۔ مسلم لیگ ن کے قائد اور سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف جو کہ پچھلے برس سے جیل میں تھے، مولانا کے دھرنے کے اعلان ہی کے دنوں میں سخت بیمار پڑ گئے۔ ظاہر ہے کہ وہ حکومت ہی کی تحویل میں تھے۔ سرکاری ہسپتال ہی میں ان کا علاج ہوا، سرکاری میڈیکل بورڈ ہی نے ان کی صحت کے بارے میں رپورٹ بنائی۔ مزید تصدیق صوبائی وزیر صحت محترمہ یاسمین راشد نے کی۔ عدالت نے ضمانت منظور کی، ای سی ایل سے ان کا نام نکالا گیا اور میاں نواز شریف کو علاج کے لیے ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ یہ سب حکومت پاکستان نے کیا۔ کیوں کیا؟ رحم آ گیا؟ کیا ایک مجرم کو یوں ضمانت دے کر فٹا فٹ ملک سے باہر بھیجنے کے لیے فقط رحم دل ہونا ہی ضروری ہے؟ قاعدے، قانون، پاکستان کا مشہور زمانہ لال فیتہ، طویل عدالتی طریقہ کار، سب پہ کون سی الو کی لکڑی پھر گئی؟ کیا میاں نواز شریف مجرم تھے؟ مجرم تھے تو اتنے با اختیار کیسے تھے؟ اور اگر اتنے با اختیار تھے تو ڈیڑھ، پونے دو سال پہلے ’مجھے کیوں نکالا‘ کی دہائی کیوں دے رہے تھے؟ اور اگر ان کے ہاتھ اتنے ہی لمبے تھے تو الیکشن کے نتائج اپنی مرضی کے مطابق کیوں نہ موڑ لیے؟ اور اگر انھیں جیل جانے سے اتنا ہی نفور تھا تو سال پہلے جیل جانے کو واپس ہی کیوں آئے تھے؟ میاں نواز شریف کے ملک سے چلے جانے کے بعد وزیر اعظم بہت خفا ہوئے اور اب تک خفا ہو رہے ہیں۔ چونکہ سادہ اور سچے سیدھے آدمی ہیں اس لیے روز اول سے فرائیڈین سلپ کے تحت دل کی بات کہہ جاتے ہیں۔ میاں نواز شریف کی ضمانت، ای سی ایل سے نام نکالنے اور باہر چلے جانے پہ وہ جس خفگی کا اظہار کر رہے ہیں وہ ان کی طرف سے واضح اعتراف ہے کہ یہ نظام خود بخود چل رہا ہے۔ بقول میر تقی میر، یاں کے سفید و سیاہ میں ہم کو دخل جو ہے سو اتنا ہے رات کو رو رو صبح کیا، یا دن کو جوں توں شام کیا خیر، یہ تو جو ہوا سو ہوا، عوام کو ایک بات ہزارویں بار سمجھ آ گئی اور وہ یہ کہ نہ یہ دھرنا ان کے لیے تھا اور نہ یہ حکومت انھیں ریلیف دے گی۔ اس ملک کا نظام انگریز جاتے جاتے ایسا بنا گیا تھا کہ اب یہ پہیہ ایسے ہی گھومتا رہے گا۔ فوج، عدلیہ، مقننہ، نوکر شاہی، تعلیمی نظام، سب وہی ہے جو ہمارے استحصال کے لیے بنایا گیا تھا۔ یہ کرسیاں، یہ رینک، یہ گریڈز، یہ ادارے، یہ محکمے، ان سب میں ایک جادوئی تاثیر ہے۔ جو بھی ان کرسیوں پہ بیٹھے گا اس کے سر پہ عقل چوس چڑھ جائے گا۔ جو بھی ان فائلوں کو ہاتھ لگائے گا وہ انسان سے بدل کر نوکر شاہی نظام کا پرزہ بن جائے گا۔ ایڑی کو زمین پہ مارنے والا اس گمان میں مبتلا ہو جائے گا کہ وہ زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور پہاڑوں کی ہمسری کر سکتا ہے۔ یہ ہمارا نہیں اس نظام کا قصور ہے۔ یہ نظام جس کی ہر چول، ہر پرزہ، زنگ آلودہ ہے اور چلتے ہوئے ایسی چرخ چوں کرتا ہے کہ آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے مگر کم بخت چلے جا رہا ہے، ایک سا چلے جا رہا ہے۔ گھڑم گھڑم گھاوں گھاوں کرتا۔ تبدیلی کا نعرہ سن کے بہت سے لوگ دوڑے تھے مگر افسوس، تبدیلی والے بھی اسی نظام کا حصہ بن گئے۔ ابھی نئے ہیں چلا رہے ہیں، اپنا مذاق خود ہی بنوا رہے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ الو کی لکڑی کس نے پھیری اور معاملات کیسے چلے۔ عوام احمق بنے، ایک دوسرے کا منہ تک رہے ہیں اور کچھ لوگ کھسیا کھسیا کر کھمبا نوچ رہے ہیں۔ اس ساری مارا ماری میں سب یہ بھول گئے ہیں کہ پہلوان جاتے جاتے وہ طوطا اپنے ساتھ لے گیا ہے جس میں دیو کی جان ہے۔ لگتا تو یہ ہی ہے کہ پہلوان بھی چونکہ اسی نظام کا پرزہ ہے چنانچہ طوطے کو جگر کا ماس کھلا کے ہتھیلی کا پھپھولا بنا کے رکھے گا اور زیادہ دام ملے تو واپس کر دے گا یا کہیں بھی بیچ ڈالے گا۔ یہ تو ایک منطقی انجام ہے لیکن دل کے اندر کہیں یہ خواہش ہے کہ پہلوان اس طوطے کی گردن مروڑ دے اور شہر کی فصیلوں پہ دیو کا جو سایہ ہے آخر کار شہر اس سے پاک ہو جائے۔ مگر اس طلسم کے اندر پنہاں دوسرا طلسم ایک دیو کے مرنے پہ اس سے زیادہ مضبوط دوسرا دیو تو پیدا نہیں کر لے گا؟ ایسا ہے تو یہ دیو کیا برا؟ انگریزی کہاوت ہے ’وہ عفریت جسے تم جانتے ہو اس عفریت سے کجا بہتر ہے جسے تم نہیں جانتے۔‘
world-56058569
https://www.bbc.com/urdu/world-56058569
ڈونلڈ ٹرمپ کی مواخذے میں بریت: امریکی سینیٹ کے فیصلے کے دوررس اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟
سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ چھ جنوری کو کیپٹل ہل پر ہنگامہ آرائی اور ہجوم کو بغاوت پر اکسانے کے الزام پر مواخذے کے مقدمے سے بری ہو گئے ہیں۔
امریکی ایوان نمائندگان میں سات ریبپلکن سینٹرز سمیت 57 سینیٹرز نے انھیں سزا دینے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 43 سینیٹرز نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا امریکی سینیٹ ان پر الزامات ثابت کرنے اور ان کے خلاف مواخذے کی کارروائی کرنے میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ امریکی ایوان نمائندگان میں سات ریبپلکن سینیٹرز سمیت 57 سینیٹرز نے انھیں سزا دینے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 43 سینیٹرز نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ صدر ٹرمپ کو سزا دلوانے کے لیے کل 67 ووٹوں کی ضرورت تھی تاہم دس ووٹوں کی کمی سے انھیں الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔ اپنی بریت کے بعد، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے اس مقدمے کی مذمت کی اور کہا کہ ' یہ تاریخ کی سب سے بڑی الزام تراشی ہے۔' واضح رہے کہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کا دوسرا مقدمہ تھا۔ اگر انھیں سزا مل جاتی تو امریکی سینیٹ انھیں دوبارہ صدارتی انتخاب لڑنے سے روکنے کے لیے ووٹ دے سکتی تھی۔ یہ بھی پڑھیے صدر ٹرمپ کی اپنی پارٹی کے اراکین مواخذے کی تحریک کے حامی، آگے کیا ہو گا؟ سابق صدر ٹرمپ کے دوسرے مواخذے کی کارروائی کا ممکنہ نتیجہ کیا ہو سکتا ہے؟ مظاہرین کو ’بغاوت پر اُکسانے‘ پر صدر ٹرمپ کے خلاف مواخذے کی منظوری شمالی امریکہ کے نامہ نگار انتھونی زورچر کا تجزیہ امریکہ کے سینیٹ میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی محض پانچ روز بعد ختم ہوگئی۔ اکثر ماہرین نے یہ پیشگوئی کہ تھی کہ یہ فیصلہ سابق صدر ٹرمپ کے حق میں آئے گا اور ان پر کیپیٹل ہِل مظاہرین کو گذشتہ ماہ تشدد پر اکسانے کا الزام ثابت نہیں ہوگا۔ اور ہوا بھی کچھ ایسا ہی۔ امریکی تاریخ میں چار مرتبہ مواخذے کی کارروائی ہوئی ہے۔ یہ ان میں سے سب سے مختصر کارروائی رہی ہے۔ شاید اس کارروائی کو مکمل ہونے میں اتنا وقت نہیں لگا لیکن اس کے اثرات دیر پا ہوسکتے ہیں۔ سابق صدر کے خلاف اس مقدمے نے ایک مثال قائم کی ہے۔ ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا تھا۔ آئندہ سیاسی مقابلوں کے لیے میدان سج چکا ہے۔ ہم جائزہ لے سکتے ہیں کہ اس فیصلے سے کسے فائدہ ہوا اور کسے نقصان۔ ڈونلڈ ٹرمپ ایک مرتبہ پھر اپنے رپبلکن دوستوں کی وجہ سے ٹرمپ سینیٹ میں بری ہوئے۔ جماعت کے اکثر اراکین ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ سات ربپلکن رہنماؤں سمیت 57 سینیٹرز نے انھیں سزا دینے کے حق میں ووٹ دیا جبکہ 43 سینیٹرز نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ صدر ٹرمپ کو سزا دلوانے کے لیے کُل 67 ووٹوں (دو تہائی اکثریت) کی ضرورت تھی تاہم دس ووٹوں کی کمی سے انھیں الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ٹرمپ کی فتح ہے۔ وہ سنہ 2024 میں دوبارہ صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں، اگر وہ چاہیں۔ انھیں اب بھی لوگوں کی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ اور ایوان نمائندگان دونوں میں رپبلکن اراکین نے مواخذے کی کارروائی کی مخالفت کی ہے۔ ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینے والے رپبلکنز کو سخت تنقید اور بعض جگہ تحریری نوٹس جاری کیے گئے ہیں۔ ایک بیان میں سابق صدرنے اس فیصلے پر خوشی کا اظہار کیا، ڈیموکریٹ جماعت پر تنقید کی اور کہا کہ یہ ان کی سیاسی تحریک کی ابتدا ہے۔ لیکن ٹرمپ اور ان کی تحریک کو مواخذے کی کارروائی کے دوران انھیں نقصان بھی پہنچا۔ استغاثہ نے نئی ویڈیوز چلائیں جن میں 'میک امریکہ گریٹ اگین' والی ٹوپیاں اور ٹرمپ کے جھنڈے تھامے لوگ کیپیٹل ہِل پر دھاوا بول رہے ہیں۔ یہ تصاویر ہمیشہ کے لیے ٹرمپ سے جوڑی جائیں گی۔ ان کی ہر ریلی کے دوران لوگ ان فسادات کو یاد کریں گے۔ رپبلکن جماعت میں شاید انھیں اس کا زیادہ نقصان نہ ہو لیکن آزاد ووٹر اور اعتدال پسند افراد یہ سب بھولنے والے نہیں۔ سینیٹ کے رپبلکنز ایک سال قبل صرف یوٹاہ کے رپبلکن سینیٹر مِٹ رومنی نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ لیکن مواخذے کی اس کارروائی میں ٹرمپ کے خلاف چھ رپبلکن سینیٹرز نے ووٹ دیے۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں۔ ان میں سے تین سینیٹرز سوزن کالنز، بین سیس اور بِل کیسیڈی دوبارہ منتخب ہوچکے ہیں اور اگلے چھ سال تک انھیں ووٹرز کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان میں سے دو سینیٹر عنقریب ریٹائر ہونے والے ہیں۔ یہاں یہ بات نمایاں رہی کہ رپبلکن سینیٹرز کو کن مسائل کا سامنا ہے۔ ٹرمپ کے خلاف ووٹ سے ان کے ووٹر ناراض ہوسکتے ہیں جو یہ سمجھیں گے کہ سینیٹرز نے ٹرمپ کو دھوکہ دیا۔ ایسی ریاستیں جہاں رپبلکن پارٹی کی حمایت زیادہ ہے وہاں انتخابات میں کسی ساتھی رپبلکن امیدوار سے مقاملہ ڈیموکریٹ پارٹی سے زیادہ بڑا خطرا ہے۔ کڑے مقابلے والی ریاستوں فلوریڈا، وسکانسن اور آئیووا میں آئندہ سال رپبلکن سینیٹرز کو دوبارہ منتخب ہونا ہوگا۔ عام انتخاب کے دوران ان کے ڈیموکریٹ حریف سینیٹ میں ان کے ٹرمپ مخالف ووٹ کو استعمال کر سکتے ہیں۔ ہم ابھی سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کس طرح کے اشتہارات چلائے جائیں گے جن میں کیپیٹل ہل حملے کی ویڈیو دکھائی جائے گی۔ لیکن ٹرمپ کے اگلے قدم پر کافی کچھ منحصر ہے۔ کیا وہ دوبارہ امریکی سیاست میں آئیں گے، مواخذے کی کارروائیوں سے متعلق کیا اگلے انتخاب میں وہ اپنے حمایتیوں اور ناقدین سے مخاطب ہوں گے؟ ہم سوچ سکتے ہیں کہ ان میں سے کس چیز کے زیادہ امکانات ہیں۔ مِچ میکونل ووٹ ڈالنے سے قبل ہر رپبلکن سینیٹر نے سیاسی طور پر حساب کتاب کیا ہوگا۔ انھوں نے دیکھا ہوگا کہ عام انتخاب کے لیے اپنے ووٹرز کی سنی جائے یا رپبلکن پارٹی کی۔ سینیٹ میں ایک واقعہ کافی ڈرامائی رہا۔ کینٹکی کے رپبلکن سینیٹر میچ میکونل نےچھ جنوری کے واقعے کے بعد سے ٹرمپ پر کافی تنقید کی ہے۔ مقدمے کی کارروائی تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا فیصلہ کریں گے۔ سنیچر کو انھوں نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ ٹرمپ کو بری کرنے کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔ سینیٹ کے فیصلے کے بعد انھوں نے وضاحت کی کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ انھوں نے ٹرمپ کے رویے کی مذمت کی اور کہا کہ ٹرمپ نے اپنی 'ذمہ داریوں سے ذلت آمیز غفلت' دکھائی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ 'صدر ٹرمپ اس دن کے واقعات کو اکسانے کے لیے ظاہری اور اخلاقی طور پر ذمہ دار ہیں۔' تاہم انھوں نے ٹرمپ کو ان الزامات سے بری کیا کیونکہ ان کے مطابق سابق صدر کے خلاف مواخذے کی کارروائی نہیں ہوسکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر ایسا ممکن ہے تو کانگریس کسی بھی عام شہری کا مواخذہ منظور کر کے انھیں سرکاری عہدے پر تعینات ہونے سے روک سکتا ہے۔ میکونل کے ناقدین یہ کہیں گے کہ انھوں نے اصولی موقف کی جگہ درمیانی راستہ چنا ہے۔ لیکن ان کے اس ووٹ اور موقف کی بنا پر انھیں سینیٹ میں رپبلکنز کی اکثریت تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکے گی۔ کانگریس میں کسی رہنما کے لیے یہ صورتحال خطرناک ہوسکتی ہے۔ میکونل اپنے محفوظ راستے پر چل رہے ہیں لیکن یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ آیا ان کے ساتھی رپبلکن ان کے ووٹ سے مطمئن ہوتے ہیں یا ان کے الفاظ سے غیر مطمئن۔ ڈیموکریٹس رواں ہفتے سینیٹ میں مواخذے کی کارروائی کے دوران ایوان کے اراکین کو خاصی توجہ ملی ہے۔ نو رکنی ٹیم نے مقدمے کے پانچ روز کے دوران چھ جنوری سے متعلق کئی ویڈیوز دکھائیں اور نقشے کے ذریعے یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ کیسے کیپیٹل ہل میں مشتعل افراد داخل ہوئے اور وہ نائب صدر مائیک پینس کے قریب پہنچ چکے تھے۔ لیڈ مینیجر جیمی ریسکن کو یاد رکھا جائے گا جب انھوں نے اپنی 24 سالہ بیٹی سے ہونے والی گفتگو کا تذکرہ کیا۔ اس وقت انھیں عمارت سے نکالا جا رہا تھا۔ انھوں نے اپنی تقاریر کے دوران ایک جھلک اپنے ماضی کی دکھائی جب وہ امریکی یونیورسٹی میں آئینی قانون کے پروفیسر ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح جو نگوس اور سٹیسی پلیسکن نے بھی اپنے اپنے دلائل پیش کیے۔ جو بائیڈن موجود صدر کی جانب سے اس مواخذے کی کارروائی پر حکمت عملی سادہ تھی: ان معاملات کو اپنے سے دور رکھنا۔ وائٹ ہاؤس کے اہلکاروں کے مطابق وہ اس کارروائی کا غور سے مشاہدہ نہیں کر رہے تھے اور ہر سماعت کے دوران وہ کورونا وائرس سے متعلق کسی ضروری تقریب میں شریک رہے۔ انھوں نے کیپیٹل ہل کی ویڈیو پر ضرور بیان دیا۔ یہ وہ تصاویر تھیں جنھیں چینلز پر بار بار چلایا جا رہا تھا۔ بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہے کہ نئے صدر کی سیاسی حکمت عملی کورونا وائرس سے خلاف ہونے والی کامیابی، معاشی استحکام اور امریکہ کے دوسرے مسائل کے حل پر منحصر ہے۔ وہ اس لیے ٹرمپ کے مواخذے کی کارروائی کو اپنے مستقبل کے لیے اہم نہیں سمجھتے۔ نئے قوانین کی راہ میں یہ مقدمہ زیادہ رکاوٹوں کا باعث نہیں بنا اور بائیڈن کی پیشرفت جاری ہے۔ سینیٹ نے صرف تین روز گنوائے۔ کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے نئے مجوزہ قانون کو پیش کرنے کے لیے تاخیر ضرور ہوئی۔ اس پر گذشتہ ہفتے سے کام کیا جا رہا تھا۔ مقدمے کے اختتام کے ساتھ سینیٹ بائیڈن انتظامیہ کی جانب سے اٹارنی جنرل اور دیگر تعیناتیوں کی منظوری دے سکے گا۔ بائیڈن اور ان کی ٹیم اس پیشرفت سے خوش ہوگی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ڈیموکریٹ جماعت کے حامی یہ سمجھیں کہ بائیڈن کی زیادہ توجہ انتظامی امور پر ہونے کی وجہ سے ٹرمپ کا مکمل احتساب نہیں ہوسکا۔ مثال کے طور پر تیز رفتار ٹرائل کی وجہ سے گواہان کو نہیں بلایا جاسکا جس کی سیاسی قیمت دینا پڑ سکتی ہے۔ آئندہ سیاسی مقابلوں کے لیے بائیڈن کو ڈیموکریٹ پارٹی میں اتحاد لانا ہوگا۔ اگر مواخذے سے متعلق اب کوئی دوسری رائے ابھرتی ہے تو اس سے پارٹی تقسیم ہوسکتی ہے۔ ٹرمپ کے وکلا ٹرمپ کی وکلا کی ٹیم کے سربراہ بروس کاسٹر ٹرمپ کی وکلا کی ٹیم کے سربراہ بروس کاسٹر اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ 'بدنام ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا؟' انھوں نے ابتدا میں ایسی دلائل پیش کیے جن سے شاید کچھ رپبلکن سینیٹرز نے ٹرمپ کے خلاف ووٹ دینا درست سمجھا۔ یہ کہا جانے لگا کہ ٹرمپ ان کے دلائل سے خوش نہیں۔ اس کے بعد کاسٹر غائب ہوگئے اور انھیں مائیکل وان ڈیر وین نے بدلا جو ماضی میں ہتک عزت کے مقدمات بھی لڑ چکے ہیں۔ انھوں نے سابق صدر کی اپوزیشن پر تنقید کو قانونی زبان میں پیش کیا اور اس حوالے سے انھوں نے بہتر دلائل دیے۔ سینیٹر برنی سینڈرز کے سوال پر بھی ان کے جواب نے کافی ڈیموکریٹس کو ناخوش کیا۔ انھوں نے اپنی کارکردگی سے طویل مقدمے کے امکانات ہو کم کیا اور اس کارروائی کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ وکلا کا کامیابی کا انحصار ان کی شکست یا فتح پر ہوتا ہے۔ ادھر ٹرمپ کے وکلا نے اپنے کلائنٹ کو کامیابی سے بچا لیا ہے۔ سنیچر کو کیا ہوا؟ ٹرمپ کے خلاف مواخذے کے مقدمے کی کارروائی میں ووٹنگ کے عمل کے بعد کانگریس میں ریپبلکن کے سنیئر رکن سینیٹر مچ میک کونل کا کہنا تھا کہ 'مسٹر ٹرمپ کیپیٹل پر حملے کے لیے 'ذمہ دار' تھے۔' انھوں نے اسے ایک'شرمناک اور رسوائی والی پامالی' قرار دیا ۔ اس سے قبل انھوں نے ان کی سزا کے خلاف یہ کہتے ہوئے ووٹ دیا تھا کہ یہ غیر آئینی ہے اور ٹرمپ اب صدر نہیں رہے ہیں۔ میک کونل صدر ٹرمپ کے 20 جنوری کو عہدہ چھوڑنے کے تک ان کے مقدمے کی سماعت میں تاخیر کرنے میں معاون تھے۔ تاہم انھوں نے خبردار کیا تھا کہ ٹرمپ کو تاحال عدالت میں قصور وار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ' وہ ابھی بھی کسی چیز سے بچے نہیں ہیں، ہمارے ملک میں انصاف و عدالت کا نظام موجود ہے۔ ہماری ملک میں دیوانی مقدمات کا نظام ہے اور سابقہ صدور اس میں سے کسی کے لیے جوابدہ ہونے سے مستثیٰ نہیں ہیں۔' اپنے اختتامی بیانات میں، ڈیموکریٹک ایوان نمائندگان کے سینیٹ کے ذریعہ اس عمل کی نگرانی کے لیے مقرر قانون سازوں نے متنبہ کیا ہے کہ مسٹر ٹرمپ کو بری کردینا خطرناک ہوگا۔ نمائندہ جو نیگوس کا کہنا تھا کہ ' اس سے زیادہ خراب صورتحال نہیں ہو سکتی کیونکہ سخت اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ چھ جنوری کو جو ہوا وہ دوبارہ بھی ہوسکتا ہے۔' نمائندے میڈیلین ڈین نے کہا ،'تاریخ نے ہمیں ڈھونڈ لیا ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ آپ دوسری طرح سے کیوں نہیں دیکھتے ہیں۔' تاہم ، مسٹر ٹرمپ کے وکیل مائیکل وین ڈیر وین نے مواخذے کی کارروائی کو 'شو ٹرائل' قرار دیا اور کہا کہ ڈیموکریٹس مسٹر ٹرمپ کا مواخذہ کرنے کے لیے'جنونی' تھے۔ انھوں نے کہا کہ 'یہ مواخذہ شروع سے آخر تک ایک فضول ڈرامہ رہا ہے۔یہ سارا تماشہ حزب اختلاف کی پارٹیکی طرف سے مسٹر ٹرمپ کے خلاف دیرینہ سیاسی انتقامی جدوجہد کے سوا کچھ نہیں رہا۔' مسٹر ٹرمپ نے خود کہا کہ 'کوئی بھی صدر اس سے پہلے کبھی اس سے نہیں گزرا' اور یہ کہ 'امریکہ کو دوبارہ عظیم بنانے کی تحریک ابھی شروع ہوئی ہے۔' امریکی سینیٹ نے گواہوں کو کیوں نہیں سنا؟ سینیٹرز نے ابتدا میں ذاتی گواہی کے حق میں ووٹ دیا تھا، جس سے سنیچر کو ممکنہ فیصلے میں تاخیر ہو سکتی تھی۔ لیکن کسی بھی قسم کی تاخیر سے بچنے کے لیے ہنگامی مشاورت کے بعد انھوں نے اپنے فیصلے کو تبدیل کر کے صرف تحریری بیانات داخل کروانے کا کہا۔ فیصلے میں یہ تبدیلی سابق امریکی صدر اور ایک اعلیٰ ریپبلکن عہدیدار کیون میک کارتھی کے درمیان ہنگامہ آرائی کے دوران ہونے والی فون کال پر مباحثے کے بعد ہوا۔ امریکی ایوان نمائندگان کی ایک ریپبلکن رکن، جیم ہیریرا بیوٹلر کا کہنا تھا کہ مسٹر میک کارتھی نے اس دن انھیں اس فون کال کے بارے میں بتایا تھا۔ انھوں نے کہا کہ مسٹر میک کارتھی نے سابق صدر ٹرمپ کو ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو روکنے کی التجا کی تھی ، لیکن صدر نے غلط طور پر بائیں بازو کے کارکنوں کو مورد الزام ٹھہرایا ہے جنھیں 'اینٹیفا' کہا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'مسٹر میک کارتھی نے اس کی تردید کی اور صدر کو بتایا کہ یہ ٹرمپ کے حامی ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ' میک کارتھی کے مطابق اس وقت ہی صدر (ٹرمپ) نے کہا: 'ٹھیک ہے ، کیون ، میرا خیال ہے کہ یہ لوگ آپ کی نسبت انتخابات سے زیادہ پریشان ہیں۔' اس کی بجائے ، کانگریسی خاتون رکن کے بیان کو تحریری ثبوت کے طور پر جمع کیا گیا۔
060423_hamas_osama_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/04/060423_hamas_osama_sen
’حماس القاعدہ سے بالکل مختلف ہے‘
فلسطین کی حماس حکومت نے خود کو اسامہ بن لادن کی اس تنقید سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے جو ان کے اس نئے ٹیپ کے ذریعے مغربی ملکوں پر کی گئی۔ عربی ٹیلی ویزن الجزیرہ نے اس ٹیپ کو اسامہ بن لادن کا قرار دے کر نشر کیا ہے۔
حماس کے ترجمان سمیع ابو ظہوری نے کہا ہے کہ حماس حکومت مغربی ملکوں سے اچھے تعلقات چاہتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’حماس کا القاعدہ کے نظریے سے باکل مختلف ہے‘۔ تاہم اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ بعض مغربی ملکوں کی پالیسیاں کشیدگی کو ہوا دینے والی ہیں۔ اسامہ بن لادن نے اس ٹیپ کے دریعے جاری کیے جانے والے پیغام میں کہا ہے کہ امریکہ کے بعد یورپی برادری کی طرف سے حماس کی مالی امداد روکنے سے ثابت ہو گیا ہے کہ امریکہ اور یورپ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں برابر کےشریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حماس کے فنڈ روکنے سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ یہودیوں اور عیسائیوں کی صلیبی جنگ جاری ہے۔ القاعدہ کے رہنما کو نیا ٹیپ تین ماہ کے بعد جاری ہوا ہے اس سے قبل انیس جنوری کو ان کا ایک ٹیپ نشر کیا گیا تھا۔ اس نئے پیغام میں انہوں نے کہا کہ مغرب کے لوگ اور حکومتیں اس یہودی صلیبی جنگ کے یکساں طور پر ذمہ دار ہیں۔
040512_sadr_fights_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/05/040512_sadr_fights_rza
جنگ جاری رہے گی: مقتدی الصدر
مقتدی الصدر نے عہد کیا ہے کہ وہ عراق میں امریکی فوج کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے تاہم انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر شیعہ رہنماؤں نے انہیں ملیشیا ختم کرنے کا کہا تو وہ ایسا کر دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ عراق سے چلا جائے گا تو اس سے امن بحال ہوگا لیکن اگر امریکی عراق میں قیام کریں گے تو اس سے دہشت گردی بڑھے گی۔ اپریل میں امریکی فوج کے خلاف علمِ بغاوت بلند کرنے کے بعد یہ مقتدی الصدر کی پہلی اخباری کانفرنس تھی۔ ادھر نجف میں شیعہ رہنماؤں کے درمیان مذاکرات جاری ہیں تاکہ مقتدی الصدر کی جانب سے شروع کی گئی مزاحمت کو ختم کیا جا سکے۔ مقتدی الصدر نے نجف میں تعطل ختم کرنے کے لئے مشروط صلح کی پیشکش کی ہے لیکن کربلا کی صورتِ حال پر ان کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی جہاں گزشتہ دو روز سے شدید لڑائی ہو رہی ہے۔
world-52703165
https://www.bbc.com/urdu/world-52703165
کورونا وائرس: تائیوان ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے رواں اجلاس میں شرکت کیوں نہیں کر سکے گا؟
کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے بعد صحت کے شعبے کے اعلی حکام عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے آج سے شروع ہونے اجلاس میں شرکت کر رہے ہیں۔
اس ورچوئل اجلاس میں یہ طے کیا جائے گا کہ دنیا کو اس بحران سے کیسے نمٹنا چاہیے۔ رواں برس کے اجلاس میں ڈبلیو ایچ او کی جوڈیشل کمیٹی اُن ممالک کو مدعو نہیں کر رہی ہے جہاں کے حکام اپنے عوام کو کورونا وائرس سے بچانے میں کامیاب رہے ہیں۔ دنیا بھر میں تائیوان کی کوششوں کو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو تیزی سے روکنے کے لیے سراہا جا رہا ہے۔ لیکن تائیوان کا کہنا ہے کہ اسے اپنے تجربات دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم ملنا چاہیے۔ لیکن تائیوان کو اپنا علاقہ کہنے والے چین نے سنہ 2016 کے بعد سے تائیوان کی اس اجلاس میں موجودگی پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران امریکہ، یورپی یونین، جاپان اور بہت سے دوسرے ممالک نے آج سے شروع ہونے والی اس میٹنگ میں تائیوان کو ایک سامع کی حیثیت سے شامل کیے جانے کے مطالبے کی حمایت کی ہے۔ چین کو فی الوقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کا ذریعہ بننے اور ابتدائی سطح پر غلط اقدامات کی وجہ سے تنقید کا سامنا ہے۔ لیکن اس کے باوجود چین نے اس مطالبے کی سخت مخالفت کی ہے۔ وہ پانچ وبائیں جنھوں نے دنیا بدل کر رکھ دی کووڈ 19 کے مردوں اور عورتوں پر اثرات مختلف کیوں؟ لاک ڈاؤن کے دوران اپنائی گئی عادتیں کیا قائم رہیں گی؟ کووِڈ 19 کس طرح سفارتی تنازعات میں اضافہ کر رہا ہے کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ تائیوان سے متعلق جاری تنازع بہت قدیم ہے۔ لیکن ڈیوڈسن کالج کی پروفیسر اور تائیوان پر تحقیق کرنے والی شیلی ریگرز کا کہنا ہے کہ اس موقع پر کچھ ممالک میں ’صبر کم‘ ہوتا نظر آ رہا ہے کیونکہ چین کی جانب سے کیا جانے والا اعتراض ’عالمی بحران کے وقت بہت ہی فرضی اور نظریاتی‘ لگ رہا ہے۔ تائیوان کی موجودگی باعثِ تنازع کیوں ہے؟ سائی اینگ وین رواں سال تائیوان کی دوبارہ صدر منتخب ہوئی ہیں تائیوان سنہ 1949 سے آزاد ہے۔ سنہ 1949 میں جب کمیونسٹ پارٹی نے چینی حکومت کا تختہ پلٹ دیا تھا تو اس وقت کی عبوری حکومت نے جزیرے میں جا کر حکومت تشکیل کی تھی۔ چینی حکومت اپنی ’ون چائنا‘ پالیسی کے تحت اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ تائیوان قانونی طور پر اس کے دائرہ اختیار میں آتا ہے اور ایک دن اسے چینی حکومت کے ماتحت لایا جائے گا اور اگر اس کے لیے طاقت کے استعمال کی ضرورت ہوئی تو ایسا کیا جائے گا۔ تائیوان کی موجودہ حکومت خود مختاری کی حامی ہے اور جب سے سائی اینگ وین کی ڈیمو کریٹک پروگریسیو پارٹی نے اقتدار سنبھالا ہے چین کے ساتھ تائیوان کے تعلقات مزید خراب ہو گئے ہیں۔ تائیوان کی اپنی فوج ہے اور کچھ ممالک اسے بطور ریاست دیکھتے ہیں۔ چین، تائیوان اور منگولیا کو امور کے ذمہ دار امریکی وزارت دفاع کے سابق عہدیدار ڈریو تھامسن کا کہنا ہے کہ ’چین اس مسئلے کے بارے میں واضح ہے۔ اس کا عوامی صحت کے موضوع سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اس کا سیدھا تعلق تاپیئي اور اینگ وین کے چین سے رشتوں پر ہے کیونکہ چین تائیوان کی خود مختاری کا منکر ہے۔‘ تائیوان کے ساتھ چین کے تعلقات تائیوان اس سے قبل عالمی ادارہ صحت کے اجلاس میں شرکت کرتا رہا ہے چین کے دباؤ میں 15 ممالک نے تائیوان کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات ختم کردیے ہیں۔ لیکن تائیوان نے بین الاقوامی سطح پر قانونی حیثیت حاصل کرنے کے لیے انتھک محنت کی ہے اور اس نے عالمی سطح پر ڈبلیو ایچ او جیسی کثیر جہتی تنظیم اور دیگر ممالک میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے۔ لیکن ایسا نہیں ہے کہ تائیوان ہمیشہ ہی باہر رہا ہو۔ تائیوان کی سابقہ حکومت، جس کے چین کے ساتھ بہتر تعلقات تھے، کو عالمی ادارہ صحت میں ’چینی تائپے‘ کے نام سے آبزرور کا درجہ حاصل تھا۔ لیکن سنہ 2017 کے بعد سے جب سائی اینگ وین اقتدار میں آئے اس کے بعد سے اسے وہاں مدعو نہیں کیا گيا۔ اس کے بعد سے ہر سال تائیوان نے عالمی ادارہ صحت کے رکن ممالک سے بات کی ہے اور اجلاس میں شامل ہونے کی کوشش کی ہے اور رواں برس تائیوان کی حمایت میں آنے والی آوازیں واضح اور بلند ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے قبل دوسرے ممالک یہ خیال کرتے تھے کہ تائیوان کی خاطر چین کو ناراض نہیں کیا جا سکتا لیکن یہ حساب کووڈ 19 کے بعد بدل گیا ہے۔ پروفیسر شیلی ریگرز کا کہنا ہے کہ ’اب یہ صرف تائیوان کے لوگوں کی صحت کی بات نہیں ہے۔ یہ ہمارے ممالک میں ہمارے لوگوں کی صحت کی بات ہے۔ تو کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اسے ایسے ہی جانے دیں؟‘ کووڈ نے حالات کیسے بدلے؟ تائیوان کو کورونا وائرس سے نمٹنے میں قابل ستائش کامیابی ملی ہے۔ تائیوان کی دو کروڑ 30 لاکھ آبادی میں کورونا کے صرف 440 متاثرین سامنے آئے ہیں اور فقط سات افراد اس وبا سے ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کے لیے تائیوان حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات، جیسا کہ سرحدوں پر کنٹرول، غیر ملکی شہریوں کی آمدورفت پر پابندی اور تائیوان واپس آنے والوں کے لیے لازمی قرنطینہ، کو سراہا جا رہا ہے۔ اس کامیابی نے تائیوان کو دنیا کی صحت کے معاملے میں فیصلہ کرنے والے ممالک میں شامل ہونے کا ایک نیا موقع اور ایک اہم وجہ فراہم کی ہے۔ آٹھ مئی کو امریکی کانگریس کی خارجہ امور کی کمیٹی نے تقریبا 60 ممالک کو ایک خط تحریر کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ ’یہ یقینی بنانا کہ تمام ممالک عالمی سطح پر صحت اور حفاظت کو سیاست سے بالاتر رکھیں کبھی بھی اتنا اہم نہیں تھا (جتنا اب ہے)۔‘ اس خط میں کہا گیا ہے کہ چین کی ڈرانے دھمکانے والی حکمت عملیوں سے بین الاقوامی سطح پر کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے کی جانے والی کوششوں میں تائیوان کے کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو کم کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں تائیوان کو ورلڈ ہیلتھ اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کا موقع فراہم کیا جانا چاہیے۔ اس کے متعلق کئی بڑی طاقتوں نے اپنا ردعمل دیا ہے۔ ان میں یورپی یونین، جاپان، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ شامل ہیں۔ تاہم کسی نے بھی ’ون چائنا‘ پالیسی کو ترک کرنے کی بات نہیں کی ہے اور یہی وہ پالیسی ہے جس نے تائیوان کو اس صورتحال سے دوچار کر رکھا ہے۔ امریکہ حمایت کرتا رہا ہے تائیوان نے کورونا وائرس کے معاملات کو دنیا کے ساتھ شفافیت سے شیئر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ماسک وغیرہ دے کر دوسرے ممالک کی مدد بھی کی ہے۔ یہاں تک کہ ان ممالک کو بھی امداد فراہم کی ہے جو تائیوان کو بطور ملک تسلیم نہیں کرتے ہیں۔ تائیوان کو ان اقدامات پر پذیرائی ملی ہے۔ امریکہ ایک طویل عرصے سے تائیوان کی حمایت کر رہا ہے۔ ایسے میں تائیوان کو عالمی ادارہ صحت میں شامل کرنے کے لیے کورونا وائرس ایک نیا بہانہ ہو سکتا ہے۔ چین تائیوان دفاعی اور خارجہ پالیسی کے موضوعات کے ماہر اور پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر الیگزینڈر ہوانگ کا کہنا ہے کہ چین اور تائیوان کے مابین تنازع کے بارے میں جو ممالک واضح رائے نہیں رکھتے تھے اب وہ بھی اس پر بات کریں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان ممالک نے گذشتہ ایک ہفتہ کے دوران امریکہ اور چین کے تعلقات کو بگڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ لیکن وہ عالمی وبائی مرض کے بعد کیا ہو گا اور چین کی جانب سے مکمل معلومات نہ دینے جیسے شبہات سے بھی پریشان ہیں۔ سنگاپور کی لی کوآں یے سکول آف پبلک پالیسی کے پروفیسر ڈرائیو تھامپسن کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں چین کے بارے میں رویہ منفی ہو گیا ہے۔ اور یہ چین کی جانب سے اپنی پالیسیوں پر دباؤ ڈالنے کا نتیجہ ہے۔‘ چینی رد عمل کیا ہے؟ چین نے ہمیشہ اس طرح کی سرگرمیوں کو اپنے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔ لیکن اس بار چین نے جارحیت اور دھمکیوں میں اضافہ کیا ہے اور عالمی ادارہ صحت میں تائیوان کی موجودگی کو اس کی خود مختاری کے ساتھ منسلک کر کے دیکھ رہا ہے۔ چینی سرکاری میڈیا ’شن ہوا‘ میں شائع ہونے والے ایک مضموں میں بطور خاص امریکہ کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس مضمون میں لکھا ہے کہ ’دنیا میں صرف ایک چین ہے۔ پیپلز ریپبلک آف چائنا کی حکومت پورے چین کی نمائندگی کرتی ہے اور تائیوان چین کا ایک ناقابل تقسیم حصہ ہے۔‘ اس مضمون میں امریکہ کو کورونا وائرس کے معاملے پر سیاست کرنے سے باز رہنے کے لیے بھی کہا گیا ہے۔ قوم پرست کہے جانے والے اخبار گلوبل ٹائمز نے ایک اداریہ شائع کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس صورتحال میں چین طاقت کا استعمال کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے جو ایک متوقع خطرہ ہے۔ اداریے میں کہا گیا ہے کہ ’اس سے صرف ایک ہی نتیجہ اخذ ہو سکتا ہے کہ چینی حکومت غیر پُرامن طریقے سے تائیوان کے معاملے کو ہمیشہ کے لیے سلجھا کر اس فضول کھیل کو ختم کرنے پر غور کر سکتی ہے۔‘ چین کی دھمکیاں 180 کلومیٹر آبنائے تائیوان چین اور تائیوان کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے اس وبا سے پہلے ہی دونوں ممالک کو الگ کرنے والی 180 کلومیٹر وسیع تائیوان آبنائے میں فوجی موجودگی میں اضافہ دیکھا گیا تھا۔ لیکن طاقت کا مظاہرہ اب دھمکی میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہوانگ کا کہنا ہے کہ ’چین نے گذشتہ تین مہینوں میں بمبار طیاروں، جاسوس طیاروں اور لڑاکا طیاروں نے جتنی مشقیں کی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں کی تھیں۔‘ جب بھی بات دوسرے ممالک کی ہوئی ہے تو چین نے دھمکیاں ہی دی ہیں۔ لیکن جب نیوزی لینڈ نے ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں تائیوان کی شمولیت کی حمایت کی تو چین نے غصے سے کہا کہ اس سے دوطرفہ تعلقات خراب ہو سکتے ہیں۔ نیوزی لینڈ کے وزیر خارجہ ونسٹن پیٹرز نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ’ہمیں اپنے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔ اور ایک سچی دوستی کی بنیاد برابری پر ہوتی ہے۔ اس دوستی میں مختلف رائے ہونے کی صلاحیت ہونی چاہیے۔‘ پروفیسر ہوانگ کا کہنا ہے کہ گذشتہ چند برسوں میں چین کے خارجہ تعلقات میں زیادہ قوم پرستی، اپنی شناخت کا تحفظ اور کسی بھی قسم کی تنقید کو برداشت نہ کرنا نظر آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اس وبا کے تعلق سے چین پر جو بیرونی دنیا کی تنقید ہو رہی ہے اس کے تعلق سے چین زیادہ حساس ہو گیا ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ چین اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنے کی اچھی پوزیشن میں ہے۔‘ کیا عالمی ادارہ صحت تائیوان کو مدعو کرسکتا ہے؟ عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ تائیوان کی رکنیت کا انحصار کُلی طور پر رکن ممالک پر ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے تائیوان کے محکمہ صحت سے وابستہ عہدیداروں سے بات کی ہے اور معلومات کا تبادلہ جاری ہے۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا کہ ڈائریکٹر جنرل نے حال ہی میں تائیوان کو دعوت دی تھی لیکن عالمی ادارہ صحت کے پرنسپل لیگل دفتر سے تعلق رکھنے والے اسٹیوین سولومن نے کہا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل اسی وقت کسی کو مدعو کرتے ہیں جب یہ واضح ہو کہ ممبر ممالک اس کی حمایت کرتے ہیں، اور یہ حمایت ابھی تک واضح نہیں ہے۔ لیکن ریگرز کا کہنا ہے کہ تائیوان پہلے بھی اس میٹنگ میں شریک ہو سکتا تھا جیسا کہ فلسطین کے علاقوں اور ویٹیکن کو آبزرور کا درجہ حاصل ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ایک ایسے ملک کے بارے میں بات کر رہے ہیں جو صرف ایک وجہ سے باہر ہے۔‘ اس دو روزہ اجلاس سے بالاتر ہو کر دیکھیں تو اس وبا نے عالمی سطح پر تائیوان کی شرکت کے سوال کو نئی معنویت دی ہے۔ جب تک تائیوان کی حیثیت واضح نہیں ہوتی اس وقت تک یہ ممکن ہے کہ خودمختاری کا معاملہ چین کے ساتھ جاری تنازعات میں بالواسطہ میدان جنگ کا کردار ادا کرتا رہے گا اور یہ وائرس کے خاتمے کے بعد بھی جاری رہے گا۔
entertainment-55347391
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-55347391
ڈرامہ جلن کا اختتام سوشل میڈیا پر موضوع بحث: ’سالی سالی ہوتی ہے اور گھر والی گھر والی ہوتی ہے‘
'آئی ول مِس نشا‘ ، ’مجھے نشا بہت یاد آئے گی‘۔ یہ ردعمل پاکستانی سوشل میڈیا پر ناپسندیدہ ترین کرداروں میں سے ایک کے لیے تھا۔
پاکستانی معاشرے کے لیے انتہائی بولڈ اور متنازغ موضوع پر مبنی کہانی کی وجہ سے ڈرامہ 'جلن' سوشل میڈیا پر مسلسل زیر بحث رہا۔ کبھی اسے معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیا گیا تو کبھی اسے نوجوانوں کو خراب کرنے اور رشتوں کے تقدس کی دھجیاں بکھیرنے جیسے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ ڈرامے کے آغاز پر ناظرین کو لگا یہ دو بہنوں میں قربانی دینے اور جلن سے لے کر ناجائز فرمائشیں کرنے جیسی کوئی کہانی ہوگی لیکن جوں ہی ایک سالی کا بہنوئی کی دولت اور شان و شوکت دیکھ کر اسے اپنی جھوٹی محبت کا یقین دلا کر بہن کو طلاق دلوانے والا موڑ آیا تو کئی ناظرین کے لیے بات گویا پانی سر سے گزرنے کی حد تک آ گئی۔ یہ بھی پڑھیے کیا پاکستانی ٹی وی ڈرامہ فحش اور غیراخلاقی ہو گیا ہے؟ جنھوں نے ’ثبات‘ ڈرامہ نہیں دیکھا ’کیا وہ واقعی پاکستانی ہیں؟‘ ہوا کچھ یوں کے سوشل میڈیا پر اس کے خلاف گرما گرم مباحثے ہوئے اور نوبت پیمرا میں شکایت اور پابندی تک آ گئی۔ گو کہ کچھ مناظر سنسر کیے جانے کے بعد یہ ڈرامہ دوبارہ نشر بھی ہوا اور اختتام پذیر بھی ہو گیا۔ گذشتہ رات اس ڈرامے کے شائقین کا دکھ دوہرا تھا۔ ایک تو یہ کہ وہ اس ڈرامے کے کرداروں خصوصاً ’مرکزی کردار نشا' کو بہت مس کریں گے اور دوسرا یہ کہ انہیں یہ اختتام پسند نہیں آیا۔ برے کرداروں کے لیے سزائیں غیر حقیقی گو کہ یہ پہلی بار نہیں ہوا کے کسی ڈرامے کا اختتام ناظرین کے من پسند طریقے سے نہ ہوا ہو لیکن اب کی بار شائقین یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ صرف ڈرامے کو ختم کرنے کے لیے برے کرداروں کو سزائیں دینا ٹھیک نہیں کیونکہ حقیقی دنیا میں ایسا نہیں ہوتا۔ ایسی ہی ایک صارف یارش کا کہنا تھا ’منفی کرداروں کو آخر میں پاگل کر دیا جاتا ہے، یہ کیا بکواس ہے ٹرینڈ ہے۔ مشکل سے کبھی حقیقی زندگی میں ایسا سنا ہو گا کہ اپنے برے کاموں کی وجہ سے کوئی پاگل ہو گیا۔‘ ان کا یہ ردِ عمل ڈرامے میں مرکزی کردار نشا کو اپنی بہن کی روح نظر آنے پر چیخنے چلانے کے بعد اندھا دھند گاڑی چلا کر حادثے کا شکار ہونے والے مناظر پر تھا۔ لیکن ایک اور صارف حفیظہ نے ان کی تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ نشا 'پاگل نہیں ہوئی تھی یہ شروع دن سے ایک نفسیاتی مسئلہ ہے۔ نشا خود غرض تھی جو محبت نہیں کرتی تھی۔ وہ اپنی بہن مینو سے حسد کرتی تھی۔ ' ایک صارف نمرہ کے لیے ڈرامے کا ایک ڈائیلاگ معلوماتی ثابت ہوا 'ایک بات کا انکشاف ہو گیا، ٹھنڈے ہاتھ والے لوگ واقعی بے وفا ہوتے ہیں۔' وہیں کچھ صارفیں کو ڈرامے کا اختتام دکھی کر گیا۔ کچھ کو ڈرامے میں بے وفائی کرنے والے اسفند کی موت کی وجہ ان کی مینو سے محبت نظر آئی۔ اگرچہ اسفند نے پچھتاوے کا شکار ہو کر خود کشی کی تاہم زینب خان کے بقول 'کیا المناک اختتام تھا۔ سچی محبت کرنے والے مر بھی جاتے ہیں۔' صائمہ خان نامی صارف کا کہنا تھا ’ٹیم جلن کو ڈرامے کی کامیابی مبارک ہو۔ آپ لوگوں نے ہر ہفتے ہمیں جکڑے رکھا ۔ تقریباً پوری کاسٹ کی جانب سے لاجواب کارکردگی دکھائی گئی جن میں قابل ذکر منال خان، اماد عرفانی شامل ہیں۔' ایک صارف مس ملک ان لوگوں میں شامل ہیں جو اس اختتام سے مطمئن ہیں انھوں نے نشا کی تصاویر کے ساتھ ٹویٹ کیا کہ 'برائی کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ ' ایک صارف حمزہ بھٹہ کا کہنا تھا 'آج جلن کی قسط نے مجھے بہت متاثر کیا۔ آج کے ڈائیلاگ بہت طاقتور تھے۔ میں متاثر ہوا ' گناہ بڑے ہوں تو موت بھی آسانی سے نہیں ملتی۔' اسی طرح ایک صارف حبیبہ نے ایک اور ڈائیلاگ شیئر کیا جو اس ڈرامے کے آخری منظر میں شامل تھا 'کچھ لوگوں کی سزا اس دنیا میں ہی شروع ہو جاتی ہے' اور ان کے بقول 'یہ ایک جملہ پورا پیغام سمجھا جاتا ہے۔' یہ وہ واحد ڈائیلاگ ہے جس کے بارے میں ڈرامے کے ہدایت کار عابس رضا کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ جملہ خود لکھا۔ ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ڈرامے کے مصنف سے خصوصی درخواست کر کے یہ ڈائیلاگ ڈرامے کا حصہ بنایا۔ سزا مرنے سے زیادہ اذیت ناک بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عابس رضا کا کہنا تھا ان کے خیال میں 'کسی بھی بُرے کردار کے لیے مر جانا زیادہ آسان ہے لیکن سزاؤں کے ساتھ جیتے رہنا زیادہ اذیت ناک ہے۔‘ نشا کے کردار کے اختتام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'نشا اس ڈرامے کے آخر میں پاگل نہیں ہوئی تھی بلکہ وہ تو شروع سے ہی جنونی تھی، وہ ایک نفسیاتی مریضہ تھی، اس لیے جنونی کو ڈرامے میں اور پاگل نہیں کیا جا سکتا۔' جہاں تک نشا کے آخری منظر میں بوکھلاہٹ کا شکار ہونے کا تعلق تھا اس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایک لڑکی جو جیتنا ہی جانتی تھی اور وہ صرف پا رہی تھی اب اسے لگ رہا تھا کہ وہ اپنے واحد وکٹم سے ہار رہی تھی، اسے یہ وہم ہو رہا تھا کہ اس سے ہارنے والی اس کی بہن اب جیت رہی ہے۔ تو وہ بوکھلا رہی تھی۔' ایک دوسرے اہم کردار اسفند کے انجام کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ سزائیں ایک دم نہیں دی گئیں بلکہ یہ سب بتدریج ہوا۔ 'جیسا کہ اسفند نے نشا کے چھوڑ کر جانے کے بعد پہلے غصے، پھر مینو سے بے وفائی کے پچھتاوے اور پھر شرمندگی کا سفر طے کیا جس کے بعد اس نے خود کشی کی۔' ہدایت کار عابس رضا نے اس کہاوت پر بھی اعتراض کیا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ 'سالی آدھی گھر والی ہوتی ہے۔' حقیقی دنیا اور ڈراموں کے لیے اخلاقیات کا فرق جلن ڈرامے کے ہدایت کار عابس رضا کا کہنا تھا کہ ڈرامے کا مقصد تھا کہ یہ بتایا جائے کہ وہ تمام ممنوع چیزیں جن میں حسد، نشہ، غیبت شامل ہیں ان کے نتائج معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں اور ہمیں کسی بھی معاشرے میں ایک باعزت کردار ادا کرنا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ 'ڈرامے میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ خود غرضی جیسی برائیوں کے نتائج برے ہوتے ہیں اور ایسا کرنے والے بدلحاظ ہو جاتے ہیں۔' ڈرامے میں سالی اور بہنوئی کے افیئر کا متنازع موضوع دکھانے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے انھیں ملا جلا ردعمل ملا، تاہم انھوں نے تسلیم کیا کہ وہ اتنے شدید ردعمل کی توقع نہیں کر رہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ 'جب میں یہ ڈرامہ بنا رہا تھا تو میرے لیے یہ ایک چیلنج تھا کیونکہ یہ کوئی نیا موضوع نہیں تھا اور پہلے سے دکھائے جانے والے موضوع کو مجھے دوبارہ بنانا تھا۔' انھوں نے اس ایک کہاوت پر بھی اعتراض کیا جس میں کہا جاتا ہے کہ 'سالی آدھی گھر والی ہوتی ہے۔' ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں جو حدود ہیں انہیں پوری طرح سے تسلیم کیا جانا چاہیے اور ڈرامے کے حوالے سے لاگو اخلاقیات کو عام زندگی میں بھی اپنایا جانا چاہیے۔' ان کا کہنا تھا کہ 'سالی سالی ہوتی ہے اور گھر والی گھر والی ہوتی ہے اس لیے ان حدود کو تسلیم کیا جانا چاہیے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ انھیں ایک اور بات پر لوگوں کا کافی ردعمل دیکھنا پڑا جس میں ایک منظر میں نشا ابارشن کروا کر آتی ہے۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ نشا کا کردار کبھی سچ نہیں بولتا تھا اس لیے اس منظر کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اس کا کردار ’بچہ نہیں چاہتا‘ اور ممکن ہے کہ وہ جھوٹ بول رہی ہو لیکن ناظرین اس کی جزئیات میں چلے گئے کہ ایک لڑکی ابارشن کروانے کے بعد ایسے کیسے ٹھیک ٹھاک چل کر آ سکتی ہے۔ ان کے خیال میں ہمارے ناظرین کو ہر چیز کو ڈائیلاگ کے ذریعے تفصیل سے سمجھائے جانے کی عادت پڑ گئی ہے اس لیے وہ بچوں کی پرورش جیسے اہم موضوع پر زیادہ بحث کرتے دکھائی نہیں دیے حالانکہ یہ بھی ان کے ڈرامے کا ایک اہم موضوع تھا۔ زیادہ تر نئے اداکاروں کے ساتھ کام کرنے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نوجوان اداکاروں میں محنت کرنے کی لگن زیادہ ہوتی اس لیے تمام نئے اداکاروں نے ان کی ہدایت کاری کو سمجھتے ہوئے اپنی بھرپور محنت سے کرداروں کو نبھایا۔ کہانی سامنے آنے سے پہلے ہی پابندی کا فیصلہ کیا گیا اس سے پہلے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس ڈرامے کی مرکزی کردار ادا کرنے والی منال خان کو شائقین کی جانب سے نفرت بھرا رد عمل بھی پسند آیا۔ کیونکہ ان کے بقول ان کی نظر میں یہ نفرت ان کے کردار کے لیے ہے ان کے لیے نہیں۔ چونکہ یہ ڈرامہ کہانی کے ایک پہلو کی وجہ سے تنازع کا شکار بھی ہوا اور یہاں تک کہ پیمرا نے اس پر نوٹس جاری کرتے ہوئے اس پر پابندی تک لگا دی تھی۔ اس حوالےسے وضاحت دیتے ہوئے منال خان کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ڈرامے میں دکھائے گئے موضوع میں 'یہ معاملہ سالی اور بہنوئی کا نہیں تھا لوگوں نے اسے بنا دیا ہے۔ حالانکہ یہ کہانی ایسی لڑکی کی ہے جسے سب کچھ چاہیے۔' پیمرا کی جانب سے پابندی کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب ڈرامے کی کہانی اب کھل کر سامنے نہیں آئی تھی۔ منال خان کے خیال میں 'شائیقین کے ہاتھ میں پابندی کا فیصلہ نہیں ہونا چاہیے انھیں صرف یہ اختیار ہونا چاہیے کہ وہ دیکھیں یا نہ دیکھیں۔'
060828_usarmy_iraq_rs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/08/060828_usarmy_iraq_rs
عراق: پانچ امریکی فوجی ہلاک
امریکی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ عراق میں دو مختلف بم دھماکوں میں پانچ امریکی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔
ایک فوجی بیان میں کہا گیا ہے کہ بغداد کے شمال میں ایک سڑک پر نصب بم پھٹنے سے فوجی گاڑی میں سوار چار امریکی فوج ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ پانچویں فوجی کی ہلاکت بغداد کے مغربی حصے میں اتوار کی شام سڑک کے قریب نصب بم پھٹنے سے ہوئی۔ مارچ دو ہزار تین میں عراق پر امریکی اتحادی فوج کے قبضے کے بعد سے اب تک چھبیس سو سے زائد امریکی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔
031025_four_murdered_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/10/031025_four_murdered_fz
شکر گڑھ میں چار افراد قتل
جمعہ کی شب آپس کی دشمنی کے نتیجہ میں ضلع نارووال کے قصبے شکر گڑھ کے نواح میں دو گروہوں کی لڑائی میں مسلم لیگ(ق) کے ایک مقامی رہنما سمیت چار افراد قتل ہوگۓ ہیں۔
شکر گڑھ تھانے کے محرر کے مطابق یہ واقعہ جمعہ کی رات آٹھ بجے کے قریب شکرگڑھ سے پانچ کلومیٹر دور نواحی گاؤں خانیووال میں پیش آیا جہاں دو گروہوں کی فائرنگ سے چار افراد قتل ہوگۓ۔ پولیس کے مطابق دونوں گروہوں نے اس واقعہ کی الگ الگ ایف آئی آر درج کرائی ہے۔ قتل ہونے والوں میں محمد اسلم ولد محمد افضل قوم گجر سکنہ گمتالہ اور احسان الہی ولد فقیر سائیں قوم گجر سکنہ بیرووال کا تعلق ایک گروہ سے ہے اور کاشف ولد محمد نصیب قوم گجر سکنہ بیرووال اور عبداللہ سکنہ بیرووال سکنہ بیرووال کا تعلق دوسرے گروہ سے ہے۔ پولیس کے مطابق ایک گروہ کے افراد سڑک سے گزر رہے تھے کہ گھات میں بیٹھے دوسرے گروہ کے افراد نے فائرنگ کرکے ان کے دو آدمی ہلاک کردیے اور جوابی فائرنگ سے حملہ آور افراد کے دو آدمی بھی ہلاک ہوگۓ۔ مقتولیں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرواکے انھیں ورثا کے حوالے کردیاگیا ہے۔
regional-52649691
https://www.bbc.com/urdu/regional-52649691
کورونا وائرس: چین کے دفاع پر مامور سخت لہجے والے سفارتکاروں کی فوج
ایک دور تھا جب چینی ریاست کاری محتاط اور پوشیدہ ہوا کرتی تھی۔
شاید اس 'وولف واریئر' کی اچھی مثال چینی وزارت خارجہ کے نوجوان ترجمان ژاؤ لی جیان ہیں سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے اپنی تحریر ’ڈپلومیسی‘ میں لکھا تھا کہ ’بیجنگ کی سفارتکاری اتنی نازک اور بالواسطہ تھی کہ یہ بڑی حد تک واشنگٹن میں ہمارے سروں سے گزر جاتی تھی۔‘ مغرب کی حکومتیں چین کے پالیسی ساز ادارے پولٹ بیورو سے آنے والے مبہم بیانات کو سمجھنے کے لیے چینی امور کے ماہرین کی خدمات حاصل کیا کرتی تھیں۔ چین کے سابق رہنما ڈینگ ژاؤپنگ کی سربراہی میں ملک کی واضع حکمت عملی ’اپنی صلاحیت کو چھپانا اور وقت لینا‘ تھی۔ لیکن اب ایسا بالکل نہیں ہے۔ چین نے سوشل میڈیا کی دنیا میں واضح طور پر زیادہ متحرک رہنے والے سفارتکاروں کو بھیجا ہے جو وقت آنے پر بغیر آنکھ جھپکے ہر سوال کا جواب دے سکتے ہیں۔ اب ان کا مقصد کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے چینی اقدامات کا دفاع کرنا ہے اور ایسے عناصر کو جواب دینا ہے جو بیجنگ کے مؤقف پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے کورونا وائرس: امریکہ اور چین کیوں ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرا رہے ہیں؟ کورونا وائرس: امریکہ اور چین کی جنگ کی باتیں کیوں ہو رہی ہیں؟ ٹرمپلومیسی: امریکہ کی چین کے لیے نئی حکمتِ عملی کے پیچھے کیا ہے؟ امریکہ کا چین پر وائرس پھیلانے کا الزام اور چینی میڈیا کا جواب کورونا وائرس نے امریکہ کو کیسے بے نقاب کیا؟ لہذا انھوں نے دنیا بھر میں پھیلے اپنے سفارتخانوں سے ٹویٹس اور پوسٹس کی برسات کر دی ہے۔ اور وہ برابری کی سطح پر طنز کرنے یا جارحانہ انداز اپنانے میں ذرا بھی پیچھے نہیں ہیں۔ یہ ان کی تکنیک کا نیا پن ہے کہ انھیں ایکشن فلموں کی بنیاد پر ’وولف واریئرز‘ سفارتکار کہا جاتا ہے۔ ’وولف واریئر‘ اور ’وولف واریئر ٹو‘ انتہائی مقبول فلمیں ہیں جن میں چینی خصوصی فورسز امریکہ کے زیرِ قیادت فورسز اور دوسروں سے مدمقابل ہوتی ہیں۔ یہ فورسز پرتشدد اور انتہائی قوم پرست ہوتی ہیں۔ ایک ناقد نے انھیں ’چینی خصوصیات والا ریمبو‘ بھی کہا ہے۔ ایک تشہیری پوسٹر میں ایک مرکزی کردار کو اپنی درمیانی انگلی اٹھائے دکھایا گیا ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے کہ ’جو بھی چین کو ٹھیس پہنچائے گا، چاہے وہ کتنا ہی دور کیوں نہ ہو، اسے ختم کر دیا جائے گا۔‘ چینی کمیونسٹ پارٹی کے اخبار گلوبل ٹائمز نے اپنے ایک حالیہ اداریے میں کہا ہے کہ عوام ’اب کسی نرم سفارتی لہجے سے مطمئن نہیں ہوتے۔‘ اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ مغرب کے لیے چین کی نئی ’وولف واریئر‘ سفارتکاری ایک چیلنج ہے۔ ایک نئی قسم کی زبان شاید اس ’وولف واریئر‘ کی اچھی مثال چینی وزارت خارجہ کے نوجوان ترجمان ژاؤ لی جیان ہیں۔ وہی وہ عہدیدار ہیں جنھوں نے بغیر کسی شواہد کے کہا تھا کہ ’یہ بہت حد تک ممکن ہے کہ کورونا وائرس کو امریکہ چینی شہر ووہان لایا تھا۔‘ ٹوئٹر پر چھ لاکھ سے زیادہ لوگ انھیں فالو کرتے ہیں اور وہ تقریباً ہر گھنٹے اس بڑی تعداد کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ چین کی تشہیر اور اس کے دفاع میں کیے جانے والے پیغامات کو ٹویٹ اور ری ٹویٹ کرتے رہتے ہیں۔ یقیناً دنیا میں کہیں کے بھی سفارت کاروں کو یہی کام کرنا چاہیے۔ ان کا کام ہی یہی ہے کہ وہ اپنے ملک کے قومی مفاد کو فروغ دیں۔ لیکن شاید ہی کوئی سفارت کار ایسی زبان استعمال کرتا ہو جو غیر سفارتی ہو۔ انڈیا میں چینی سفارت خانے کی مثال لے لیں۔ جب چین سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس وائرس کو پھیلانے پر معاوضہ ادا کرے تو سفارت خانے کی جانب سے اسے ’مضحکہ خیز اور حیران کن بکواس‘ قرار دیا گیا۔ نیدرلینڈز میں چین کے سفیر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر ’نسل پرست رویے سے بھرپور‘ ہونے کا الزام لگایا۔ صدر ٹرمپ کی جانب سے وائرس سے بچنے کے طریقوں پر کافی ردعمل سامنے آیا۔ بیجنگ میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے چیف ترجمان نے ٹویٹ کیا ’مسٹر صدر درست ہیں۔ کچھ لوگوں کو ڈس انفیکٹینٹ کا ٹیکہ لگانے کی ضرورت ہے یا کم سے کم انھیں اس سے کلی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح وہ بات کرتے وقت وائرس، جھوٹ اور نفرت نہیں پھیلائیں گے۔‘ لندن میں چین کے ’وولف واریئر‘ ما ہوئی ہیں جو سفارت خانے کی شخصیت نمبر تین ہیں۔ ان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ کا نام 'وار ہورس' یعنی جنگ کا گھوڑا ہے۔ انھوں نے ٹویٹ کیا 'کچھ امریکی رہنما اتنا گِر گئے ہیں کہ انھوں نے جھوٹ بولنا، غلط معلومات دینا، الزام تراشی کرنا اور (دوسروں کو) بدنام کرنا شروع کر دیا ہے۔ یہ بات انتہائی قابل حقارت ہے لیکن ہمیں پستی کی جانب لگی اس دوڑ میں اپنے معیار نہیں گرانے چاہییں۔ انھیں اخلاقیات، دیانتداری کی زیادہ پرواہ نہیں ہے لیکن ہمیں قدر ہے۔ ہم ان کی حماقتوں کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔‘ ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ سوشل میڈیا پر ہونے والی رام نوک جھوک لگے۔ لیکن چین کے لیے یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ جرمن مارشل فنڈ (جی ایم ایف) نامی تھنک ٹینک کی ایک تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ گذشتہ سال کے دوران چین کے سرکاری ٹوئٹر اکاؤنٹس میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ ٹویٹس میں چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ جی ایم ایف کی سینئر رکن کرسٹین برزینا نے کہا ’یہ اس سے بہت مختلف ہے جس کی توقع ہم چین سے کرتے ہیں۔ 'ماضی میں چین کی پالیسی عوامی سطح پر ملک کی مثبت تصویر دکھانا رہی ہے۔ دوستی کی جانب حوصلہ افزائی دیکھی گئی ہے۔ مختلف سرکاری پالیسیوں کو چیلنج کرنے کے بجائے خوبصورت پانڈا کی ویڈیوز زیادہ عام رہی ہیں۔ لہذا یہ واقعی ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔‘ اور یہ واضح طور پر چین کے حکام کی طرف سے ایک پالیسی ہے۔ وہ اپنی مہم پر کی توجہ ’ماسک ڈپلومیسی‘ کہلائی جانے والی پالیسی پر مرکوز رکھ سکتے یعنی دنیا بھر میں حفاظتی طبی کٹ کا عطیہ اور فروخت پر۔ اس سے چین کے نرم رویے کی شبیہ کو فروغ ملا کیوںکہ دوسرے ممالک اس وبا سے نمٹنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ لیکن اس طرح کی خیر سگالی کی کوششیں جو اس کی ’ہیلتھ سِلک روڈ‘ کے ذریعے بھی کی گئی تھیں، انھیں بظاہر ’وولف واریئرز‘ کی جارحیت سے نقصان پہنچ رہا ہے۔ ناراض سفیر آسٹریلیا میں چین کے سفیر چینگ جینگے اپنے میزبانوں کے سات جھگڑے میں مصروف ہیں۔ جب آسٹریلوی حکومت نے وائرس کے نقطہ آغاز کے بارے میں آزاد بین الاقوامی تحقیقات کی حمایت کی تو مسٹر چینگ نے اشارہ کیا کہ چین آسٹریلوی سامان کا بائیکاٹ کرسکتا ہے۔ انھوں نے آسٹریلوی فنانشل ریویو کو بتایا ’شاید عام لوگ یہ بھی کہیں گے کہ ہم آسٹریلیا کی شراب کیوں پیئیں یا یہاں کی گائے کا گوشت کیوں کھا‏ئیں؟' آسٹریلیا کے وزرا نے ان پر ’معاشی جبر' کی دھمکی دینے کا الزام عائد کیا۔ محکمہ برائے امور خارجہ اور تجارت کے عہدیداروں نے سفیر سے مطالبہ کیا وہ اس بیان کی وضاحت کریں۔ انھوں نے اس کا جواب سفارتخانے کی ویب سائٹ پر گفتگو کی تفصیل شائع کرتے ہوئے دیا جس میں انھوں نے آسٹریلیا سے مطالبہ کیا کہ ’سیاسی کھیل‘ بند کیا جائے۔ آسٹریلیا چین کو بڑے پیمانے پر وائن برآمد کرتا ہے لیکن یہ بدل سکتا ہے چین نے رواں ہفتے چند آسٹریلوی گوشت کے کارخانوں پر درآمدی پابندی عائد کی اور آسٹریلوی ’جو‘ پر پابندی ل‍گانے کی دھمکی دی۔ پیرس میں چین کے سفیر لو شائے کو وزارت خارجہ نے چینی سفارتخانے کی ویب سائٹ پر تبصرے کی وضاحت کرنے کے لیے طلب کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ’فرانس نے اپنے بوڑھوں کو کووڈ 19 کے دوران کیئر ہومز میں مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے‘۔ چینی سفارتی عملے کے خلاف شاید افریقی ممالک میں سب سے زیادہ سخت رد عمل سامنے آیا ہے جہاں نائجیریا، کینیا، یوگنڈا، گھانا اور افریقی یونین میں متعدد چینی سفیروں کو حالیہ ہفتوں میں افریقیوں کے ساتھ نسل پرستانہ اور امتیازی سلوک کی وضاحت کے لیے طلب کیا گیا تھا۔ نائجیریا کے ایوانِ نمائندگان کے سپیکر نے چینی سفیر کے ساتھ اپنے احتجاج کی ویڈیو بھی جاری کی۔ فارن افیئرز میگزین کے ایک مضمون میں سابق آسٹریلوی وزیر اعظم کیون رڈ نے کہا ہے کہ چین اپنی نئی حکمت عملی کی قیمت ادا کر رہا ہے۔ "Whatever China's new generation of 'wolf-warrior' diplomats may report back to Beijing, the reality is that China's standing has taken a huge hit (the irony is that these wolf-warriors are adding to this damage, not ameliorating it). وہ کہتے ہیں ’چین کے 'وولف واریئر' سفارت کاروں کی نئی نسل بیجنگ کو جو بھی اطلاعات دے رہی ہے، اس سے قطع نظر حقیقت یہ ہے کہ چین کے مؤقف کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ’اس وائرس کے پھیلاؤ پر چین مخالف رد عمل میں اکثر نسل پرستانہ الزامات لگائے گئے ہیں اور یہ انڈیا، ایران اور انڈونیشیا جیسے مختلف ممالک میں سامنے آیا ہے۔ چینی سافٹ پاور کے پارہ پارہ ہونے کا خطرہ نظر آ رہا ہے۔‘ خطرہ یہ ہے کہ چین کے سفارتی رویے سے مغرب میں رویے مزید سخت ہوسکتے ہیں اور مغربی ممالک بیجنگ پر کم اعتماد دکھائیں گے اور اس کے ساتھ کم دوستی پر تیار ہوں گے۔ امریکہ کے صدارتی انتخابات میں چین پہلے ہی ایک مسئلہ بن چکا ہے جہاں دونوں امیدواروں میں بظاہر یہ مقابلہ ہے کہ چین کے ساتھ زیادہ سخت رویہ کون اپناتا ہے۔ برطانیہ میں کنزرویٹو اراکین پارلیمان چینی پالیسی پر زیادہ سے زیادہ جانچ پڑتال کے لیے منظم ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا چین اور مغرب کے مابین یہ سفارتی تناؤ مزید سنگین تصادم کی طرف جائے گا؟ یہ معاملہ اس صرد اس لیہ اہم نہیں کہ یہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوں گے بلکہ اس وقت دنیا کو آپسی تعاون کی اشد ضرورت ہے۔ کم مدت میں کووڈ 19 ویکسین کی تحقیق، جانچ، پیداوار اور تقسیم کے لیے چین سمیت بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہوگی۔ اور طویل مدتی سطح پر زیادہ تر تجزیہ کار یہ توقع کرتے ہیں کہ عالمی معیشت کی بحالی کے لیے کسی نہ کسی طرح کی عالمی طور پر اجتماعی اقدامات کی ضرورت ہے۔ لیکن اس کے امکانات کم ہی نظر آ رہے ہیں۔ واشنگٹن میں سینٹر برائے سٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل سٹڈیز میں ’چائنا پاور پراجیکٹ‘ کی ڈائریکٹر بونی گلیسر نے کہا ہے کہ ’اگر امریکہ اور چین نے عالمی وبائی امراض سے لڑنے میں مل کر کام کرنے کے لیے اپنے اختلافات ختم نہ کیے تو یقیناً یہ مشکل ہوگا کہ وہ اپنی معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کا راستہ تلاش کریں گے۔‘ کچھ پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ وبا کے بعد مغرب کو سٹریٹجک معملات میں چین پر انحصار کو کم کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی تعاون کے لیے ایک نیا فریم ورک تلاش کرنا پڑے گا۔ اور چین کی 'وولف واریئر' سفارتکاری کو دیکھتے ہوئے ایسا کرنا آسان نہیں ہوگا۔
040302_ashura_debate_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/03/040302_ashura_debate_yourviews
یوم عاشور پر ہونیوالے دھماکے
یوم عاشور پر کربلا میں ہونیوالے دھماکوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ کربلا کے علاوہ بغداد شہر کے ان مقامات پر بھی کئی دھماکے ہونے کی اطلاع ملی ہے جہاں شیعہ مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ ادھر پاکستان کے جنوب مغربی شہر کوئٹہ میں عاشورۂ محرم کے دن شیعہ مسلمانوں پر فائرنگ سے کئی عزادار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے ہیں۔
یوم عاشور پر ہونیوالے ان دھماکوں پر آپ کا کیا ردعمل ہے؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں۔ نسرین زیدی، پاکستان: میں یومِ عاشور پر ہونیوالے ان حملوں کی سخت مزمت کرتی ہوں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ امن نہیں چاہتے اور قوم کا امن تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ نہ تو وہ مسلمان ہیں اور نہ ہی انسان۔ وہ اسلام کو دنیا میں بدنام کرنے کا موقع فراہم کررہے ہیں۔ عابد علی، کراچی: امریکہ کی یہ ہٹ دھرمی ہے کہ اس نے عراق پر حملہ کیا اور وہ کسی بھی طرح عراق میں امن نہیں چاہتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرلی جائے کہ امریکہ عراق پر اپنی حکومت چلانا چاہتا ہے۔ جہاں تک القاعدہ کی بات ہے تو وہ ایک امن پسند تنظیم ہے جو اس طرح مسلمانوں کا قتل نہیں کرسکتی۔ سید مقصود رشید، یو اے ای: امریکہ اور برطانیہ نے جو عراق میں بلاجواز گھس پیٹھ کی اور وہاں امن قائم کرنے میں ناکامی ہوئی، اس سے توجہ ہٹانے کے لئے یہ سب ڈرامہ کھیلا گیا۔ افسوس کہ کتنے ہی معصوم لوگ امریکہ کے گھسنے کے بعد مارے گئے۔ راہول سچدیو، بلوچستان: میں ایک پاکستانی، غیرمسلم ہونے کی حیثیت سے اس طرح کے ظالمانہ، وحشیانہ حملے کی سخت مزمت کرتا ہوں۔ اللہ ہمیں انسانیت کی راہ پر چلنے کی توفیق عطا کرے اور شہید ہونے والے بھائیوں کو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ آصف علی، علمدار روڈ، کوئٹہ: اہل تشیع کی مسلسل ہلاکتوں سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ملک کی حکومت ناکام ہوئی ہے۔ یہ دہشت گردوں سے نمٹنے میں ناکام ہورہی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حکومت ہی ملوث ہو۔ غلام تقی، لڑکانہ، سندھ: یہ ایک بہت ہی المناک واقعہ ہے، دونوں ملکوں میں اور اس بہت بڑے دن پر، اور میں یہ بتاتا چلوں کہ شیعہ وہ قوم ہے جو دین اول سے قربانیاں دیتے آرہی ہیں اور یہ قوم شروع سے مظلوم ہے اور آخر تک رہے گی۔ فرح سعود عباسی، امریکہ: یہ کام کسی انسان کا نہیں۔ اللہ ایسے لوگوں پر عذاب نازل کرے اور حکومتِ پاکستان انہیں جلد از جلد پکڑکر سخت ترین سزا دے۔ یہ کسی معافی کے لائق نہیں ہیں۔ نثار علی جعفری، وِٹبی، کینیڈا: میں عراق اور کوئٹہ میں ہونیوالے حملوں کی شدید مزمت کرتا ہوں۔ مشرف اور جمالی کی حکومت انہیں روکنے میں ناکام رہی ہے۔ محمود اکرم، پاکستان: کوئٹہ میں ہونیوالا حملہ جنرل ضیاءالحق کی دور کی خارجہ پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ ارشد صابر، سیالکوٹ: یہ مسلم ملکوں کی عادت ہوگئی ہے کہ اپنے مسائل کی ذمہ داری امریکہ جیسے دوسرے ملکوں پر تھوپ دیتے ہیں۔ اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے لیکن یہ ممالک صرف اپنے فرقوں کو خوش کرنے کے لئے ایسا کرتے ہیں۔ نعیم درانی، کوئٹہ: عراق اور کوئٹہ میں یہ جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں امریکہ کا مفاد شامل ہے۔ اس قسم کی دہشت گردی کے خلاف اقدامات ہونے چاہئیں۔ عراق میں جو کچھ ہوا اس میں امریکہ کا ہاتھ ہے تاکہ وہ اپنا مفاد حاصل کرسکے۔ خواجہ اصغر سعید، جدہ: یہ سب اسلئے ہوا کیونکہ کچھ اسلام مخالف طاقتیں مختلف فرقوں میں تفریق پیدا کرنا چاہتی ہیں اور اسلامی ملکوں میں ترقی ناکام بنانا چاہتی ہیں۔ نثار حسین، کراچی: افغانستان اور عراق امریکہ کے قابو میں نہیں رہے۔ اپنی خفگی مٹانے کے لئے اور میڈیا کو نئی خبریں دینے کے لئے امریکہ نے پاکستان اور عراق میں فسادات کروائی ہے۔ محمد یسین، سعودی عرب: کسی بھی مسلمان، شیعہ یا سنی، کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ کربلا اور کوئٹہ کے واقعات میں کسی تیسرے ملک کا ہاتھ ہے۔ محمد سلطان جمالی، جیک آباد، پاکستان: بڑا افسوس ہے کہ عاشورۂ محرم کے روز اس قسم کا افسوسناک واقعہ ہوا ہے۔ جبکہ سیکیورٹی کے انتظامات بھی عام دنوں کی نسبت سخت ہوتے ہیں پھر بھی اس قسم کے واقعات کا جنم لینا ہی بہت ہی خطرناک بات ہے، وہ بھی کوئٹہ جیسے حساس علاقے میں، حکومت کو ذمہ دار عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرنی چاہئے اور لوگوں کو اس خوف سے نجات دلانا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ ہم مسلمانوں کو اتحاد اور امن و بھائی چارے سے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ شعبان علی، پاکستان: یہ اسلام اور کے دشمن ہیں جو اس طرح کے واقعات کرتے ہیں۔ ڈاؤن وِتھ امریکہ، ڈائن وِتھ القاعدہ۔ عمران جعفری، بہاولپور: یہ کوئی نئی بات ہے؟ یہ سب امریکہ اور اسرائیل کا کام ہے۔ شیعہ اور سنی کو لڑانا پاکستان میں کچھ حد تک سپہ صحابہ کا کام ہوسکتا ہے۔ اللہ ہر مسلمان کو خوش رکھے۔ غالب حسین، پشاور: کوئٹہ میں جو کچھ ہوا وہ ہماری ان پالیسیوں کا نتیجہ ہے جو ہم نے دو عشروں سے جاری رکھیں تھیں۔ نوازش رضا، کراچی: جب تک فتویٰ سازی کے وہ مراکز بند نہیں ہونگے جو اپنے علاوہ کسی کو انسان اور مسلمان نہیں سمجھتے اور بے گناہ انسانوں کے قتل کے فتوے دیتے رہے ہیں، اس وقت تک قتل عام کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ جعفر، لاہور: یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔۔۔۔ ضیاء، حیدرآباد: محرم پر ہونے والا یہ واقعہ حکومت اور انتظامیہ کی سراسر نااہلی کا ثبوت ہے۔ اس واقعے کے مجرموں کو گرفتار کرکے سرعام پھانسی دی جائے۔ یہ خونِ ناحق ہے اس کا عذاب بھی ضرور آئےگا۔ قتل تو شیع یا سنی، کسی کا بھی ہو، ظلم ہوتا اور قدرت ہم سے اس کا حساب لے گی۔ سید رضا احمد، دوبئی: ہم مسلمانوں کو آپس میں مل جل کر رہنا چاہئے اور محبت کی فضا قائم رہنا چاہئے۔ اگر عراق کی تاریخ دیکھیں تو صدام حسین جیسے شخص کے دور میں بھی مذہبی منافرت پھیلانے والی بات نہیں ہوئی۔ ثقلین تقوی، کراچی: یہ کتنی عجیب بات ہے کہ یہ دونوں واقعات ان ممالک میں رونما ہوئے ہیں جہاں امریکیوں کا کنٹرول ہے۔ آخر امریکہ اور برطانیہ مسلمانوں کو اتنا بیوقوف کیوں سمجھ رہے ہیں؟ ہارون رشید، سیالکوٹ: یہ صرف اور صرف ہم مسلمانوں کے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ عمران محسن، جاپان: آج کوئی سنی ہے، اور کوئی شیعہ۔ ہم لوگ فرقہ پرستی میں گم ہوکر اپنے اصل مقاصد سے دور ہوگئے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ہم سب پہلے مسلمان ہیں اور انسان ہیں۔ جو لوگ بھی اس وحشیانہ طریقے سے مسلمانوں کو قتل کررہے ہیں وہ مسلمانوں کے دشمن اور انسانیت کے مجرم ہیں۔ عامر رفیع، رومانیہ: محرم امن کا مہینہ ہے۔ جس نے بھی یہ حملہ کیا وہ حقیقت میں مسلمان نہیں ہے۔ یہ مسلم امہ کی یکجہتی کو توڑنے کے لئے ایک بربریت ہے۔ عماد محسن، پاکستان: یہ سب حیوانیت ہے، ایسا کرنیوالوں کا شمار انسانیت میں نہیں کرنا چاہئے۔ یہ کھلم کھلا دہشت گردی ہے جس کی مخالفت اور ہر شیعہ اور سنی مسلمان کو کرنی چاہئے۔ حکومت جلد از جلد ان عناصر کو سخت ترین سزا دے جو اس حیوانیت کے ذمے دار ہیں۔ ولید خالد، ربوہ، پاکستان: یہ سب کچھ امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ نے کروایا ہے، وہ دنیا میں امن نہیں چاہتے ہیں۔ ندیم سید، جاپان: سب سے پہلے تو یہ سوچنا چاہئے کہ ابھی ملک میں امن و امان نہیں ہے، پھر معاشی بحران، پھر اغیار کا تسلط، پھر چاروں پر سے مختلف قسم کے حملوں کے خطرات، ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان علماء حضرات کو عقل کیوں نہیں ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کو ایک جگہ پر جمع کرتے ہیں؟ نعیم خان، پاکستان: میرا خیال ہے کہ یہ افغانستان میں موجود انڈین کیمپ میں ٹرینِنگ کرنیوالوں نے کیا ہے۔ اصغر خان، برلِن: یہ سب باطل کی چال ہے اور مسلمانوں کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ حکومت کو فوری طور پر ایکشن لینا چاہئے اور یورپی یونین سے مدد لینی چاہئے، بالخصوص اٹیلیجنس معاملات میں۔ وقار حیدر، سید گجر خان، پاکستان: یہ مقابلہ قیامت تک رہے گا۔ شاہ رخ بلوچ، لاہور: مسلم امہ کے لئے یہ ایک بڑا المیہ ہے۔ قابض فوجیں عراق میں امن قائم کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ مصدق جلال، دوبئی: یہ امریکہ ہے جو دنیا کو یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ عراق کو امریکہ کی ضرورت ہے۔ تاکہ وہ عراقی تیل کا فائدہ اٹھاسکے۔ غلام عباس، خان پور، پنجاب: یہ حملے کھلی دہشت گردی ہیں اور ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا چاہئے۔ جاوید اختر، کابل: کربلا اور کوئٹہ میں ان حملوں کی خبر سن کر میں شرمندہ ہوں۔ حیدر خان، سِڈنی: میں ایک مسلمان ہونے کے ناطے یہ ضرور کہوں گا کہ جس نے بھی یہ کیا ہے وہ تو مسلمان ہے ہی نہیں۔ میں پاکستان کی حکومت سے پرزور اپیل کروں گا انہیں پکڑکر پھانسی دیدے۔ سید رِضوی، پاکستان: تمام مومنیں ان حملوں پر اداس ہیں۔ محمد یوسف اقبال، دوبئی:دنیا میں کتنی ہی قومیں آباد ہیں، بہت سی نسلوں کے لوگ ہیں۔ مگر کیا ہم سے رسوا اور بدنام ہے کوئی؟ اس وقت مسلمانوں کی جو حالت ہے اس کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ بھی نہیں ہیں۔ مسلمان ہی مسلمان کو رسوا کررہا ہے تو پھر دوسرے کیوں نہ کریں؟ سید مصطفیٰ ہزارہ، دوبئی: جس نے بھی حملہ کیا، خدا ان کو غرق کرے، وہ مسلمان نہیں۔۔۔ آفتاب حسین، شارجہ: ہمیں تو سب سے پہلے ہمارے والدین نے انسانیت کا درس دیا تھا۔ کیا ان قاتلوں کو ان کے والدین نے انسانیت کا درس نہیں دیا؟ ممتاز شاہ، سرگودھہ: پاکستان اور عراق میں دھماکے افسوسناک ہیں۔ عراقی غیرملکیوں کے قبضے میں ہیں اور اس طرح کے حملے میرے لئے تعجب کی بات نہیں ہیں، میں ان کی امید کررہا تھا۔ اگر اس طرح کے حملے نہ ہوں تو امریکہ پر عراق چھوڑنے کے لئے دباؤ نہیں ہوگا۔ سجاد ظفر، مظفرگڑھ، پنجاب: یہ حملے سنی انتہا پسندوں نے کیے ہیں جو عشروں سے ایسے حملے پاکستان، افغانستان اور عراق میں کرتے رہے ہیں۔ محمد رانا، کراچی: یہ سب کچھ امریکی فورسز اور ان کے اتحادیوں کی غیرذمہ داریوں کا نتیجہ ہے۔ کامل، امریکہ: حکومتِ پاکستان اندرونی طور پر طالبان سے بہت ڈرتی ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے کوئٹہ میں اسلحہ دیکر حملہ آوروں کو مکانوں پر کھڑا کیا تاکہ جلوس پر آزادانہ فائرنگ کرسکیں۔ ابرار قریشی: میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عراق اور پاکستان میں ہونیوالے ان حملوں میں امریکہ کا ہاتھ تھا۔ چونکہ یہ حملے عراق میں امریکہ کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ عراق چھوڑنا چاہتا ہے۔ عراق اور پاکستان میں یہ حملے دہشت گردی کی ایک شکل ہیں۔ سید حسن، دوبئی: اس طرح کے حملے عوام کو مختلف گروہوں میں تقسیم کردیتے ہیں اور ملک و قوم کو کمزور بنادیتے ہیں۔ سید طاہر حسین زیدی، دوبئی: میرے لئے یہ حملے نہایت ہی افسوسناک ہیں۔ میرے خیال میں ماتمی جلوس سڑکوں پر نہیں نکالنا چاہئے۔ عبادت امام بارگاہ میں کی جانی چاہئے۔ باسط علی، لندن: امامِ وقت امام مہدی (ع) کا ظہور نزدیک ہورہا ہے۔ شمش کھوکھر وحید، امریکہ: یہ کوئی نئی بات نہیں ہے:لڑاؤ اور حکومت کرو کا اصول برطانیہ نے وسیع پیمانے پر استعمال کیا ہے۔ بدقسمتی سے اب امریکہ کررہا ہے۔ لئیق احمد، بہار، انڈیا: جس نے بھی یہ حملہ کیا ہے عراق اور پاکستان میں وہ انسان نہیں حیوان سے بھی برا ہے۔ نجم منیر، کراچی: کوئٹہ میں جو بم دھماکے ہوئے ہیں ان کے پیچھے انہی تنظیموں کا ہاتھ ہے جن کے خلاف حکومت وانا میں آپریشن کررہی ہے۔ یہ حادثہ انہی لوگوں کا ردعمل ہے اور جو کچھ بھی عراق میں ہورہا ہے اس کے پیچھے صرف اور صرف امریکہ کا ہاتھ ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ سنی اور شیعہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ لڑیں۔ فیصل چاندیو، حیدرآباد، پاکستان: خون تو خون ہے جب کسی بےگناہ یا مظلوم کا بہا ہے تو عذاب آیا ہے یا انقلاب۔ سید مدثر شاہ، ملتان: کوئٹہ میں جو کچھ بھی وہ تمام مسلمانوں کے لئے شرمندگی کی بات ہے۔ امجد نقوی، لاہور: ہم ان حملوں کی شدید مزمت کرتے ہیں جو کوئٹہ میں پیش آئے۔ یہ کھلم کھلا دہشت گردی ہے۔ کوئٹہ کی انتظامیہ کو پہلے سے ہی آگاہ کیا گیا تھا تو پھر بھی حفاظتی انتظامات میں ناکامی کیوں؟ سید شاداب، کینیڈا: آج باطل حق کے مقابلے میں خوف زدہ ہے، آج حق کا بول بالا ہورہا ہے اور باطل کا منہ کالا ہورہا ہے، اور آج باطل چھوپ کر وار کررہا ہے۔ نومیر ریاض، لاہور: ایک پاکستانی مسلم ہونے کے ناطے میں ان حملوں کی شدید مزمت کرتا ہوں۔ میں حکومتِ پاکستان سے اپیل کرتا ہوں کہ ذمہ دار لوگوں کو کٹہرے میں کھڑا کرے۔ ساحل عامر: ہم مسلمانوں کو شرمندہ ہونا چاہئے۔ ہم ایک دوسرے کو ہلاک کررہے ہیں۔ ظفر خان، مانٹریال: کسی ایجنسی یا ملک پر الزام لگانے کے بجائے خود ٹھیک ہونے اور اتحاد بین المسلمین کی ضرورت کو یقینی بنائیں۔ سنی بھائی شیعہ بھائیوں کی عزاداری و ماتم پر اعتراض نہ کریں اور شیعہ بھائی اپنی مجالس میں خلفائے راشدین کے بارے میں غلط باتیں نہ کریں۔ محمد حبیب، کرناٹک، انڈیا: یہ سب کچھ غلط ہورہا ہے۔ ارشد اقبال، پاکستان: جو شخص بھی اس طرح کے دھماکے کراتا ہے وہ مسلمان نہیں ہے۔ اگر وہ اسے جہاد سمجھتا ہے تو وہ غلط ہے۔ خضر سرگنہ، کینیڈا: اسلامی اتحاد کے لئے یہ سب سے بڑا نقصان ہے۔ اس طرح کے افسوسناک واقعات کے ذمہ دار اسلامی امہ کے خلاف کام کررہے ہیں۔ رانا قریشی، امریکہ: یہ سب کچھ امریکہ کروارہا ہے۔ عفت صدیقی چودھری، پاکستان: کبھی کبھی اس طرح کے واقعات پڑھ کر خود پر شرمندگی ہوتی ہے کہ ہم کیا تھے اور اب کیا بننے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور کون یہ فیصلہ کرے گا کہ کون کون شہید ہے اور کون نہیں۔ سنی اور شیعہ تو بہت بعد میں، کیا ہم انسان بھی ہیں؟ عمر مختار، لاہور: یہ اصل بنیاد پرستی ہے۔ اور مسلمان قوم کو سب سے زیادہ خطرہ اسی سے ہے۔ میں اس کی شدید مزمت کرتا ہوں۔ عابد علی، کراچی: میں کوئٹہ کے دھماکوں کی پرزور مزمت کرتا ہوں۔ محبوب احمد، سوات، پاکستان: یہ حملے بزدلانہ کارروائی ہیں اور جس کسی نے بھی یہ بزدلانہ قدم اٹھایا ہے وہ یقینا دہشت گرد ہے۔ قادر جان، چمن، پاکستان: میں ان حملوں کی شدید مذمت کرتا ہوں جو کوئٹہ میں پیش آئے۔ مسلمان کی حیثیت سے ہم ایک دوسرے کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فرقہ وارانہ تشدد نہیں، دہشت گردی کا واقعہ ہے۔ محمد حسین، پاکستان: لگتا ہے کہ یہ حکومت نے کرایا ہے۔ اسد علی، ناروے: ہم افغان رفیوجی کوئٹہ اور کربلا میں ہونے والے حملوں کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ ہم یورپی حکومتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالیں تاکہ ان دہشت گردوں کو گرفتار کیا جاسکے۔ عادل محمد، نارِچ، برطانیہ: میرے خیال میں کوئٹہ کے واقعات کی سنی علماء مذمت کریں۔ ذوالفقار علی شاہ، کوئٹہ: ایک مسلمان کی حیثیت سے بہت دکھ ہو رہا ہے مجھے سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ ہم دنیا کو کیا بتانا چاہتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو سوائے رسوائی کہ اور کیا دے رہے ہیں؟ ہمیں اللہ ہدایت کرے۔ عطاء القدوس طاہر، ٹورانٹو: اسلام امن کا مذہب ہے اور جس میں امن نہیں وہ مسلم نہیں۔ مذہبی نفرت کے بنا پر قتل، پاکستان کی بہت پرانی تاریخ ہے۔ یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر مسلمان ہی کیوں اللہ کی غذب کا شکار ہیں۔ محمد جواد: جن لوگوں نے یہ دھماکے کیے وہ مسلمان نہیں۔ یوم عاشور تمام مسلمانوں کے لئے صدمے کا دن ہے، چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ۔ فرحان آرائین، ڈلاس، امریکہ: میں ایک سنی مسلمان ہوں لیکن جو کوئی بھی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے، چاہ وہ سنی ہو یا شیعہ ہو، کسی دوسرے مسلمان کا قتل نہیں کرسکتا۔ وقار خان، جھنگ: میرے خیال میں ان حملوں کے ذمہ دار لوگوں کو معاف نہیں کیا جانا چاہئے۔ کریم اللہ سفی، کوئٹہ: حکومت اصل قاتلوں کو گرفتار کرکے کیفرکردار تک پہنچا دے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس نے ایک انسان کا قتل کیا، گویا کہ اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔ عطا حسین، اسلام آباد: یہ واقعات بہت افسوسناک ہیں اور مجھ جیسے فرد کو یہ سوچنے پر مجبور کررہے ہیں کہ اگر ہمارا مذہب امن کی بات کرتا ہے تو مسلمان یہ غلطیاں کیوں کررہے ہیں؟ مہدی خان، پاکستان: یہ کام جس نے بھی کیا ہے، انتہائی غلط ہے۔ اس کے لئے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ کتنے گھر اجڑ گئے، کتنے بچے یتیم ہوگئے ہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے، آمین! شوکت محمود علوی، سعودی عرب: ایسا نہیں ہونا چاہئے۔ مذبِ اسلام خون بہانے کی اجازت نہیں دیتا۔ ہوسکتا ہے امریکی فوج اپنے رہنے کے جواز کے لئے یہ کررہی ہو۔۔۔ غلام عباس، کراچی: کوئٹہ اور کربلا میں ہونے والے واقعات انہی لوگوں نے کیے ہیں جو شیعہ لوگوں کو ہلاک کرتے ہیں۔ طلعت جعفری، ایتھنز، یونان: صدام حسین شیعہ اکثریت پر ظلم کرتے رہے لیکن عراق میں فرقہ واریت کی فضا نہیں ہے۔ عراق میں ہونیوالے بم دھماکے امریکی سازش ہیں۔ امریکہ عراق میں رکے رہنے کا جواز پیدا کررہا ہے۔ عمران مرزا، کویت: یہ مسلمانوں کو لڑوانے کی سازش ہے۔ شیعہ حضرات بھی ہمارے بھائی ہیں۔ لیاقت اورکزئی، کوہات: ان حملوں میں جو لوگ ذمہ دار ہیں ان کا کوئی مذہب نہیں ہے۔ ہم مسلمان یقین کرتے ہیں کہ آخرت میں انہیں سزا ضرور ملے گی۔ تمام سیکیورٹی انتظامات کے باوجود یہ حملے کیسے ممکن ہوئے؟ سیفی ظہیر، ابوظہبی: یہ امریکی ایجنسیوں نے کیا ہے تاکہ مسلمانوں کے دونوں فرقوں کو لڑایا جاسکے۔
regional-52786628
https://www.bbc.com/urdu/regional-52786628
عید الفطر: اس بار ’پریم چند کا حامد‘ کیوں عیدگاہ نہیں جائے گا؟
اس بار حامد عیدگاہ نہیں جائے گا، نہ ہی اپنے کسی چاہنے والے کے لیے کوئی تحفہ خریدے گا، جیسے کہ پریم چند کی کتاب عید گاہ میں اس نے دادی کے لیے چمٹا خریدا تھا۔
حامد کے پاس تو غربت کی وجہ سے نئے کپڑے نہیں تھے لیکن اس بار حامد جیسے لاکھوں مسلمان بچوں نے ’اس عید نئے کپڑے نہیں‘ اور ’پیسوں کو ضرورت مندوں کو زکوۃ‘ کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ رمضان اور عید کو ’قانونی دائروں میں رہ کر منانے‘، ’ذمہ دار شہری ہونے کا فرض نبھانے‘، سوشل ڈسٹینسنگ، لاک ڈاون وغیرہ کے پیش نظر ماہ مبارک کے دوران پڑھی جانے والی خصوصی ’نمازوں کو گھر پر ادا کرنے‘، افطار کی دعوتوں سے بچنے اور عالمی وبا کے دوران ’انسانیت کی حفاظت کے ذمہ داری نبھانے‘ جیسی باتیں تقریباً ایک ماہ پہلے روزوں کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھیں۔ انڈیا میں ماہ رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی ذاتی پیغامات، واٹس ایپ گروپس اور سوشل میڈیا پر یہ بات ہونے لگی کہ اس بار عید کی خریداری نہ کر کے کسی ضرورت مند خاندان کے لیے کھانے پینے کی اشیا کا انتظام کیا جائے، کسی بچے کی سکول فیس ادا کی جائے، کسی کے گھر کا کرایہ بھرا جائے اور رمضان کے صحیح معنی کو نبھایا جائے۔ سرکردہ صحافی رامشرن جوشی ان باتوں کو مسلم معاشرے میں ’نئی صبح کی شروعات‘ کے طور پر دیکھتے ہیں تو سیاسی تجزیہ کار بھارت بھوشن کا خیال ہے کہ یہ ’مسلم معاشرے میں ہونے والی تبدیلی کے عمل کا حصہ ہے جس کی شروعات شہریت کے قانون کے خلاف مظاہروں سے ہوئی تھی۔‘ یہیں انسانی حقوق کے کارکن سلطان خان کے مطابق اسے برادری میں ابھرنے والی نئی قیادت کی چھاپ کے طور پر بھی دیکھا جا سکتا ہے جو نئی سوچ کو ایک نئی روشنی میں پیش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ بھی پڑھیے انڈیا میں کورونا سے پہلی موت کی پراسرار کہانی ’کورونا سے جان کو خطرہ لیکن متنازع قوانین سے وجود کو خطرہ‘ کورونا وائرس: وہ مسلمان جو ہندوؤں کی آخری رسومات ادا کرتا ہے انڈیا میں مذہب کی بنیاد پر کورونا کے مریضوں میں تفریق کی شکایات الزامات اور مقدمات کے بعد کیا تبلیغی جماعت اب مسیحا کہلائے گی؟ رمضان شروع ہونے تک کورونا وائرس سے ممکنہ طور پر ہونے والی تباہی کا اندازہ ہو گیا تھا اور کئی وفاقی وزرا، کئی ریاستی حکومتوں اور میڈیا کے ایک حصے نے تبلیغی جماعت کے کیس کو فرقہ وارانہ رنگ دینا شروع کر دیا تھا۔ چوبیس مارچ کو اچانک ہونے والے لاک ڈاون کے اعلان اور اس کے بعد سڑکوں پر اپنے گھروں کی اور جانے کی کوشش کرتے مزدوروں کے سیلاب کے درمیان دلی میں مقیم تبلیغی جماعت کے صدر دفتر میں ہونے والے ایک مذہبی اجتماع کا معاملہ سامنے آیا تھا جس کے بعد کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی پوری ذمہ داری تبلیغی جماعت کے سر ڈالی جانے لگی۔ کچھ عناصر نے اسے ’مسلم جان بوجھ کر کورونا پھیلا رہے ہیں‘ جیسا موڑ دینے کی بھی پوری کوشش کی۔ مصنفہ رخشندہ جلیل کہتی ہیں کہ مسلم معاشرے کا سب سے بڑا طبقہ، جس میں پڑھے لکھے نوجوان بھی شامل ہے، اس طرح کے الزامات سے بےحد صدمے میں ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ برادری کے کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ عید کی خریداری اس لیے بھی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اس سے بازاروں میں بھیڑ لگے گی اور وائرس کے پھیلاؤ کی ذمہ داری پھر سے ان پر تھوپی جائے گی۔ سوشل میڈیا پر پیغامات کئی واٹس ایپ گروپس میں ایسے پیغامات گردش کر رہے ہیں کہ حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے خریداری اور عیدی دینے کی رسم پر قابو رکھیں ورنہ ’سوشل ڈسٹینسنگ عید کی شاپنگ کی نذر ہو جائے گی‘۔ اس کے علاوہ ’مسلم خواتین کو نہیں ملک کی فکر، چاہتی ہیں کورونا پھیلانا‘ جیسی سرخیوں کے ساتھ ٹی وی چینل تیار بیٹھے ہیں۔ اسی طرح بعض پیغامات میں تو ٹی وی اینکرز کے ناموں کے ساتھ بتایا گیا ہے کون سا اینکر اس معاملے پر کون سی ہیڈ لائن چلا سکتا ہے۔ دلی کے بھجن پورا علاقے میں رہنے والے ای جی ملک کہتے ہیں کہ ان کے پاس ایک پیغام کہیں سے فارورڈ ہو کر آیا تھا: ’یوں بھی فسادات اور موجودہ حالات کے دوران ان میں جوش وخروش سے تہوار منانے کی خواہش نہیں ہے۔‘ شیشے کا کاروبار کرنے والے ای جی ملک نے اپنے بیٹے کو بھی عید کی شاپنگ نہ کرنے کی تاکید کی ہے اور ارادہ ہے کہ اس سے بچنے والے پانچ ہزار روپے وہ علی گڑھ میں اپنے گاؤں جا کر ضرورت مندوں میں تقسیم کر دیں گے۔ مسلم معاشرے اور سیاست کو قریب سے دیکھنے والے مصنف رشید کدوائی کہتے ہیں کہ ’نو ٹو عید شاپنگ‘ جیسی مہم تو بابری مسجد گرائے جانے کے بعد بھی نہیں چلی تھی اور جامع مسجد کے احمد بخاری اور چند دیگر مذہبی رہنماوں نے جب بابری مسجد اور عید کو جوڑنے کی کوشش کی تھی تو جانے مانے عالم علی میاں نے اس سے صاف انکار کر دیا تھا۔ ذمہ داریوں کا مہینہ رشید کدوائی کہتے ہیں رمضان ’ذمہ داریوں کا مہینہ ہے‘ جس کے دوران تمام صحت مند مسلمانوں سے روزہ رکھنے، خاص عبادت کرنے اور اس کے ذریعے اپنی کردار کو بہتر بنانے کا حکم ہے اور اسی حکم کو اللہ کی رضا کے مطابق پورا کر لینے کو عید کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس میں نئے کپڑے بنوانے یا سویّاں کھانے کی کوئی قید نہیں، یہ سب صرف رسمیں ہیں۔ لیکن اس بار نو_ٹو_عید_شاپنگ کے بارے میں جو اپیلیں جاری ہو رہی ہیں ان میں رمضان میں کسی کی مدد کرنے اور اور ماہ مبارک کو اس کے صحیح معنی میں منانے کی بات ہو رہی ہے۔ رمضان شروع ہونے سے لگ بھگ ایک ہفتہ پہلے اسلام کے الگ الگ فرقوں: شعیہ، سنی، اہل حدیث وغیرہ سے تعلق رکھنے والے رہنماوں نے مشترکہ طور پر ایک تفصیلی اپیل جاری کی جس میں معاشرے اور ملک کی طرف ذمہ داریوں کی بات کی گئی تھی۔ اپیل میں کہا گیا کہ مسلمان سحری اور افطار گھر پر ہی کھائیں، نماز کے لیے مسجد نہ جائیں، بنا ضرورت باہر نہ نکلیں، نہ ہی کسی طرح کی دعوتوں کا انتظام کریں اور رشتہ داروں، پڑوسیوں اور ضرورت مندوں کی مدد کریں۔ اس کے بعد آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے ترجمان خلیل الرحمان سجاد نومانی کی طرف سے ایک ویڈیو اپیل جاری کی گئی جسے آئی آئی ٹی اور انجینئیرنگ سے منسلک کچھ افراد نے ایک مختصر فلم کی شکل دے دی ہے۔ ان کے مطابق اس کا مقصد ’قوم میں بیداری پیدا کرنا اور دوسرے مذاہب میں اسلام کی بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔‘ تبدیلی کی آواز بھارت بھوشن کے مطابق علماوں کے نظریے میں آئی تبدیلی کے پیچھے قیادت میں آئی تبدیلی ہے۔ "جو شہریت کے نئے قانون کے خلاف مہم کے وقت پرانی قیادت کے ہاتھوں سے نکل کر نئے ابھرنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے۔‘ اور پرانی قیادت شاید اس وجہ سے بدلنے کے لیے مجبور ہو گئی ہے۔ بھارت بھوشن کہتے ہیں کہ شہریت کے قانون کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں، جنہیں وہ ’مسلم سیاست کا سیکیولرائزنگ لمحہ‘ کہتے ہیں، شامل نوجوانوں نے روایتی مذہبی رہنماوں اور سیاسی جماعتوں کی طرف سے تھوپے گئے لیڈروں کو پاس تک نہیں بھٹکنے دیا۔ حالانکہ ایسا کرنے سے کوئی ایک چہرہ لیڈر بن کر سامنے نہیں آیا لیکن اسے قیادت کے جمہوری ہونے کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ تاہم لکھنو کے مشہور مذہبی ادارے فرنگی محل سے منسلک نعیم الرحمان صدیقی اس بات سے اتفاق نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ چیزوں کو اس طرح ’سیاہ اور سفید‘ کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ نعیم الرحمان صدیقی کہتے ہیں: ’علما بھی ان حالات سے بےخبر نہیں کہ شراب کی دکانوں پر لگی بھیڑ اور وہاں نہ ہونے کے برابر سوشل ڈسٹینسنگ پر کوئی میڈیا یا حکام ہنگامہ کھڑا نہیں کرتے، لیکن بات جب مسلمانوں کی آتی ہے تو ہر طرف سے سوال کھڑے ہونے لگتے ہیں۔‘ رخشندہ جلیل مسلمانوں میں پیدا ہونے والی اس بیداری کو اہم سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اس میں مزید کام کی ضرورت ہے کیونکہ تمام کوششوں کے بعد بھی علی گڑھ کے جمال پورا بازار میں عید کی خریداری کرنے والوں کا رش لگ گیا تھا۔ لاک ڈاون کے اعلان کے بعد مسلمان رہنماوں نے نماز جمعہ کو باجماعت ادا نہ کرنے اور مسجدوں میں نہ جانے کی جو اپیل کی تھی اسے بھی کئی لوگوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ دلی کے قریب واقع نوئیڈا میں چھت پر باجماعت نماز ادا کرنے پر پولیس نے کچھ لوگوں کو گرفتار بھی کیا۔ لمحہ فکریہ حالانکہ برادری کے ایک حصے میں یہ پریشانی بھی ہے کہ لاک ڈاون کے دوران حکومت کی طرف سے نافذ کیے گئے اقدامات اور مسلمانوں کے اپنے فیصلے، جیسے کہ نماز کا باجماعت نہ ہونا، یا نماز جمعہ مساجد میں نہ ادا کرنا، کہیں حکومت کی طرف سے ہمیشہ کے لیے نافد نہ ہو جائیں۔ نماز، روزہ اور عید سے ہٹ کر بھی اس دوران مسلمانوں کی طرف سے اقدامات سامنے آئے جن میں پونے کی ایک مسجد کو قرنطینہ مرکز بنانے کی پیشکش، کورونا وائرس کی وجہ سے ہلاک ہونے والے کئی ہندوؤں کی مسلمانوں کے ہاتھوں آخری رسومات ادا ہونا اور لاک ڈاون سے پریشان لوگوں کی معاشی مدد کرنا شامل ہیں۔ جماعت اسلامی کی طلبا تنظیم سٹوڈنٹ اسلامک آرگانائیزیشن کے جنرل سیکرٹری سید اظہرالدین لاکھوں بے گھر مزدوروں اور غریب روزہ داروں کی معاشی مدد کرنے کا دعوی کرتے ہیں تو کیمبرج میں ریسرچ سکالر ممتاز نیّر کہتے ہیں کہ انہوں نے اور ان کے دوستوں نے بہار سے لے کر مہاراشٹر تک لوگوں میں راشن کٹ بانٹے ہیں۔ بھوپال میں مقیم سماجی کارکن عاصمہ خان کہتی ہیں کہ ضرورت مندوں کی مدد کا جذبہ نوجوان مسلمانوں میں اچانک پیدا نہیں ہوا ہے اور یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے لیکن شاید پہلے نیکی کر دریا میں ڈال والی بات تھی اور اب شاید سوشل میڈیا کی وجہ سے یہ باتین سامنے آ رہی ہیںَ۔ رام شرن جوشی کا خیال ہے کہ مسلمان برادری میں اٹھنے والے یہ چھوٹے چھوٹے مثبت قدم، جن میں انڈین شہری ہونے کا احساس بہت گہرا ہے، کس اور جائیں گے، یہ بات آنے والے دنوں میں ملک کی سیاست اور اس سے پیدا ہونے والے حالات طے کرے گی لیکن فی الحال جو ہو رہا ہے اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔
040320_ijaz_diary
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/03/040320_ijaz_diary
پارلیمان یا بحث مباحثے کا کلب
آئینی ترامیم پر اختلافات کے باعث ایک سال تک ہنگامہ آرائی کا شکار رہنے والی پاکستان کی پارلیمنٹ کی گاڑی اب چلتی ہوئی دکھائی تو دیتی ہے لیکن قانون سازی کا فقدان اور غیر معیاری بحث دیکھ کرخیال ہوتا ہے کہ گریجویٹ ارکان پر مشتمل یہ قومی اسمبلی ماضی کے تجربہ کار لیکن نسبتاً کم پڑھے لکھے اراکین کی اسمبلیوں سے بھی گئی گذری ہے۔
جس کی مثال ان دنوں صدر جنرل پرویز مشرف کے پارلیمینٹ سے کردہ سالانہ خطاب پر جاری بحث ہے جس میں اراکین کی تقاریر میں شعلہ بیانی تو ہے لیکن کوئی ٹھوس تجاویز اورسفارشات پیش نہیں کی جاتیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ صرف بحث برائے بحث ہو رہی ہے۔ گریجویٹ قومی اسمبلی میں ستّر کے لگ بھگ نئی خاتون ارکان ہوں یا پھِر نوجوان لیکن ابھی تک بول بالا تو پرانے ارکان کا ہی ہے چاہے وہ محمود خان اچکزئی ہوں، نوید قمرہوں، خواجہ آصف ہوں یا لیاقت بلوچ اور حافظ حسین احمد یا پھر شیخ رشید اور شیر افگن۔ صدارتی خطاب پر کئی روز سے قومی اسمبلی میں جاری بحث کے دوران حکومتی ارکان حسب معمول صدر کی تعریف کرتے نہیں تھکتے جبکہ حزب اختلاف والے بڑھ چڑھ کر تنقید کر رہے ہیں جیسا کہ انکو حکومت کا ہر کام برا ہی لگتا ہے ۔ ایک سال کی ہنگامہ آرائی، چپقلش، کوششوں اورانتظار کے بعد جمالی حکومت متحدہ مجلس عمل کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کے نتیجے میں سترہویں آئینی ترمیم کا بل پارلیمان سے منظور کروا کے آئینی بحران سے تو نکل گئی لیکن اس کے نتیجے میں وہ ایک نئی مشکل میں پھنسی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ق) کے اندر اور انکی حلیف جماعتوں سےوزارتوں کے جھگڑے ہوں یا بعض وزراء کے قلمدانوں کی تبدیلی کے معاملات، ان سے بھی پارلیمان کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ جیسا کہ گذشتہ کئی دنوں سے ایم کیو ایم کاپارلیمینٹ سے پر اسرار طور پر غائب رہنے کا معاملہ ہے۔ بظاہر تو ایم کیو ایم والے قومی اسمبلی سے اپنے غیر اعلانیہ بائیکاٹ کی وجہ اندرونی معاملات بتاتے ہیں لیکن انکے حلقوں میں اب یہ بات چھپی بھی نہیں رہی کہ انکے حکومت سے اختلافات کی اصل وجہ وفاقی کابینہ میں کم سے کم دو وزارتیں لینا اور قومی سلامتی کونسل کے قیام کیلئے کابینہ کے منظور کردہ بل کے متن میں تبدیلی کراناہے۔ جرنیلی فرمائش پر تمام مسلم لیگی دھڑوں کے ادغام کا معاملہ بھی ابھی چل ہی رہا ہے اور اس معاملے پر مختلف دھڑوں میں اختلاف رائے بھی کوئی چھپی ہوئی بات نہیں رہی۔ ساتھ میں ایم کیو ایم کے حکومت سے اختلافات کو سیاسی حلقے خاصی اہمیت دے رہے ہیں۔ عام تاثر یہی ہے کہ کابینہ میں توسیع میں تاخیراور حکومتی اعلان کے با وجود ابھی تک متنازعہ قومی سلامتی کا بِل پیش کرنے میں دیر کا سبب بھی حکومتی اتحادیوں کے درمیان پائےجانے والے غیر اعلانیہ اختلافات ہی ہیں۔ آج کل نہ تو حکومت کے پاس نئی قانون سازی کیلئے کوئی مواد ہے نہ ہی اسکے حامی اراکین کے پاس صدر مشرف کے دفاع کے علاوہ کہنے کو کوئی بات۔ حزب اختلاف کا حال بھی اس زیادہ مختلف نہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے عام انتخابات میں تو اکاسی نشستیں جیتی تھیں لیکن ’فوجی ضمیر‘ کی آوازپر لبیک کر کے حکومتی گاڑی میں انکے ارکان اسمبلی سوار ہوتے گئے اور انکی تعداد اب ساٹھ سے بھی کم رہ گئی ہے۔ تاہم بعض ارکان اس کی ایک وجہ پارٹی قیادت کا بحران بھی بتاتے ہیں۔ پارٹی کے ترجمان نےخفیہ ایجنسیوں پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگاتے ہوئے کہا کہ اب انہوں نے نیا طریقہ واردات ایجاد کیا ہے جس کے تحت پیپلز پارٹی کے پرانے اور قربانیاں دینے والے ارکان پر دباؤ بڑھانا شروع کیا ہے تاکہ انکو توڑا جا سکے۔ اس سے حکومت یہ تاثر قائم کرنا چاہتی ہے کہ پی پی قیادت اتنی بری ہے کہ اب وفادار لوگ بھی انہیں چھوڑ رہے ہیں تا کہ کارکن میں مزیدمایوسی پھیلے۔ چند دنوں کی ہی بات ہے کہ جب پی پی پی کے رحیم یار خان سے رکن اسمبلی ظفر اقبال وڑائچ نے پارٹی چھوڑ نے کا اعلان کرتے ہوئے اسمبلی اجلاس کے دوران ہی استعفیٰ سپیکر کو تھمادیا تھا اور دوسرے روز لا ہور میں پریس کانفرنس کی جس میں آدھے درجن سے زائد ارکان پنجاب اسمبلی اور ناظمین نے بھی استعفے کا اعلان کیا۔ پی پی پی کی خود ساختہ جلاوطن رہنما بینظیر بھٹو کی جماعت کا مستقبل میں کیا ہوگا یہ تو آنے والے ایام میں ہی واضع ہو سکےگا۔ متحدہ مجلس عمل کو سترہویں ترمیم کے بعد سے ’دوستانہ حزب اختلاف‘ کے نام سے پکارا جانے لگا ہے۔ ایسی صورتحال میں سیاسی مبصرین بھی پارلیمان کومحض بھڑاس نکالنے کا فورم ہی قرار دیتے ہیں۔ البتہ حکومت اور حزب اختلاف کے بیشتر اراکین بظاہر اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ جب تمام اہم فیصلے ایوان صدر میں ہو رہے ہوں تو پارلیمان کی حیثیت بحث مباحثے کے کلب سے زیادہ کیا ہوسکتی ہے۔
040213_frenchsikh_nj
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/02/040213_frenchsikh_nj
فرانس سے سکھوں کی ناراضی
بھارتی سکھ فرانسیسی وزیرِ خارجہ ڈومینک دی وللےپن کے خلاف مظاہرے کی تیاری کر رہے ہیں جوجمعہ کو بھارت کے دورے پر جارہے ہیں۔ سکھ برادری فرانسیسی سکولوں میں پگڑی اور دوسری مذہبی علامتوں پر پابندی کے مجوزہ قانون سے نا خوش ہیں۔
سکھوں کے ایک پانچ رکنی وفد نے فرانسیسی سفارت کار سے ملاقات کرکے انہیں ایک پٹیشن دی کہ اس قانون کو واپس لیا جائے۔ اس پٹیشن پر دنیا بھر سے ایک لاکھ سکھوں کے دستخط لئے گئے تھے۔ عالمی پنجابی تنظیم کے صدر وکرم جیت سنگھ شہانے نے کہا کہ فرانسیسی پارلیمان کی جانب سے منظور ہونے والے اس قانون کے تحت سکھ طالب علموں کو اسکولوں میں پگڑی پہنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ فرانس میں تقریباً سات ہزار سکھوں کے ساتھ مسلمانوں نے بھی اس بل کے خلاف احتجاج کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ انہوں نے فرانسیسی حکومت کے سامنے اس حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی کہ پگڑی مذہبی علامت نہیں بلکہ سکھوں کی طرزِ زندگی کا اہم حصہ ہے۔ انہوں نے شکایت کی کہ اس پابندی پر عمل انکے لئے اپنا مذہب چھوڑنے کے مترادف ہے۔ وکرم جیت شہانے نے کہا انہیں امید ہے کہ حکومتِ فرانس اپنے فیصلے پر دوبارہ غور کریگی۔انہوں نے فرانسیسی وزیرِخارجہ کے ساتھ ملاقات کی خواہش بھی ظاہر کی۔ بھارت میں سکھوں کا سیاسی گروپ قومی اکالی دل حکومتِ فرانس کے خلاف مظاہرہ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ مسٹر وللےپن جمعہ کے روز بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور وزیرِ خارجہ یشونت سنہا سے ملاقات کریں گے۔