id
stringlengths
8
69
url
stringlengths
33
111
title
stringlengths
0
173
summary
stringlengths
1
1.1k
text
stringlengths
110
51.6k
070927_sc_hearing
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070927_sc_hearing
’آئین میں فوج حکومت کی تابع‘
ایڈووکیٹ اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ پاکستان میں فوجی مداخلت کی وجہ سے تین مرتبہ آئین بنائے گئے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے مطابق کوئی بھی آرمی افسر سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا۔ یہ ریمارکس انہوں نے صدر کے دو عہدے رکھنے، سترہویں آئینی ترمیم اور صدر کی طرف سے وردی میں آئندہ ہونے والے صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے خلاف دائر کی گئی درخواستوں پر بطور عدالتی معاون کے کہی۔
اس پر بینچ میں شامل جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ آرمی چیف ملک کے صدر بھی ہیں اور فوج کے سپریم کمانڈر بھی ہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ صدر چونکہ وفاق کی علامت ہوتا ہے اس لیے اُس کو فوج کا سپریم کمانڈر قرار دیا جاتا ہے جس طرح برطانیہ میں ملکہ برطانیہ فوج کی سپریم کمانڈر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر وردی میں رہ کر آئندہ صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لے سکتے۔انہوں نے کہا کہ ایک آرمی چیف کو الیکشن لڑنے کے لیے آئین کی دفعہ دو سو تنتالیس اور دو سو چوالیس کے تحت جو رکاوٹیں ہیں ان کو دور کرنا ہوگا اور اس ضمن میں آئین میں ترمیم کرنا ہوگی۔ اعتزاز احسن نےکہا کہ آئین کے مطابق ایک فوجی جب کمیشن حاصل کرتا ہے تو وہ حلف اُٹھاتا ہے کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہیں لےگا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف وردی میں اس لیے الیکشن لڑ رہے ہیں کیونکہ انہیں خطرہ ہے کہ اگر وہ چیف آف دی آرمی سٹاف نہ رہے تو وہ الیکشن ہار جائیں گے۔ انہوں نے شریف الدین پیرزادہ کے بیان کا حوالہ دیا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پرویز مشرف صدارتی انتخاب میں کامیابی کی صورت میں آرمی چیف کا عہدہ چھوڑ دیں گے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ یہ بیان ایک ایسی مثال کی طرح ہے کہ ایک غیر مسلم شخص عہدہ صدارت کے لیے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کروائے کہ صدر منتخب ہونے کے بعد وہ مسلمان ہوجائیں گے۔ واضح رہے کہ پاکستان میں عہدہ صدارت کے لیے امیدوار کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے کہا اس طرح جج صاحبان بھی اپنا عہدہ رکھتے ہوئے صدر کا الیکشن لڑسکتے ہیں جس پر رانا بھگوان داس نے کہا کہ انہیں صدر کا الیکشن لڑنے کا کوئی شوق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل پرویز مشرف آئین کی دفعہ تریسٹھ کلاز ون کی سب کلاز او کے تحت صدر منتخب نہیں ہوسکتے۔ انہوں نے کہا کہ آئین کی دفعہ تریسٹھ ون ڈی جنرل مشرف پر بھی پوری طرح لاگو ہے اور ان کے بطور صدر کاغذات نامزدگی مسترد ہونے چاہیں۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ پندرہ نومبر کے بعد جنرل مشرف صدر کا عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ جنہیں عدالت نے ان درخواستوں میں معاون کے طور پر بلایا تھا نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ صدر کا عہدہ مستثنی ہوتا ہے اور ان کے کاغذات نامزدگی کو چیلنج نہیں کیاجا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف کے الیکشن میں حصہ لینے سے بنیادی انسانی حقوق متاثر نہیں ہوتے اور نہ ہی ان پر نااہلی کے بارے میں آئین کی دفعہ تریسٹھ ون ڈی کا اطلاق ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ صدر کا مواخذہ کرسکتی ہے اور انہیں انتخابات میں حصہ لینے سے روک سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان درخواستوں میں جو نکات اُٹھائے گئے ہیں ان پر فیصلے قاضی حسین احمد اور پاکستان لائرز فورم کی درخواستوں میں آچکے ہیں۔ جس پر جسٹس رانا بھگوان داس نے کہا کہ عدالت ان نکات کا جائزہ لے سکتی ہے۔ عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا کہ فیصلوں کا جائزہ تو لیا جا سکتا ہے لیکن ان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے دو عہدے رکھنے اور سترہویں آئینی ترمیم کو پارلیمنٹ نے پاس کیا ہے۔ ان کے دلائل جاری تھے کہ عدالت نے ان درخواستوں کی سماعت جمعہ کے روز تک ملتوی کردی۔ ان درخواستوں پر فیصلہ جمعہ کے روز متوقع ہے۔
world-44585691
https://www.bbc.com/urdu/world-44585691
جب خاتون پولیس اہلکار نے بچپن میں ریپ کرنے والے کو جیل پہنچایا
وہ نو سالہ لڑکی بہت باتونی تھی۔ اس کے پاس بہت سی گڑیا تھی اور وہ اپنی سہیلی کے ساتھ 'گھروندے' کا کھیل کھیلتی تھی۔
وہ تنہائی اور جنگل کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتا تھا اسے سائیکلنگ کا بہت شوق تھا۔ اس کے گھر ایک ٹی وی تھا۔ جبکہ اس فوٹوگرافر کی عمر 39 سال تھی۔ وہ شادی شدہ تھا۔ فطرت سے اسے خاص لگاؤ تھا۔ وہ خوب سیر سپاٹے کرتا تھا۔ اور اپنے سفر کے قصوں سے عوام کا اعتماد بہ آسانی حاصل کر لیتا تھا۔ تباتا (تبدیل شدہ نام) کی اس فوٹو گرافر سے پہلی ملاقات سنہ 2002 کے موسم گرما میں ہوئی تھی۔ وہ تباتا کے والدین کا دوست تھا۔ اس نے دو سال تک تباتا کا ریپ کیا۔ آخری بار ریپ کرنے کے 12 سال بعد دونوں کا ایک بار پھر سامنا ہوا۔ اس بار تباتا کے ہاتھوں میں بندوق تھی۔ اس نے فوٹوگرافر کا بازو زور سے پکڑ کر اسے ہتھکڑیاں پہنائیں اور اسے جیل لے گئی۔ اس نے اسے قید کر کے راحت کی ایک لمبی سانس لی جیسے اس نے کوئی طویل سلسلہ ختم کر دیا ہو۔ تباتا اب 26 سال کی پولیس افسر ہیں اور جنوبی برازیل کے صوبہ سانتا کیٹرینا صوبے میں تعینات ہیں۔ 21 دسمبر سنہ 2016 کا وہ دن ان کے ذہن میں تازہ ہے۔ تباتا نے اس آدمی کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیا جس نے ان کا کئی بار جنسی استحصال کیا تھا۔ یہ بھی پڑھیے انڈیا: دس سالہ بچی کا ریپ، بچی کے ماموں مجرم قرار ’اسقاطِ حمل کی گولیوں کی آن لائن تلاش میں دوگنا اضافہ‘ آٹھ سالہ بچی کے ریپ اور قتل نے کشمیر کو ہلا کر رکھ دیا پہلی بار کسی صحافی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بی بی سی کو اپنی کہانی سنائی۔ تباتا نے کہا کہ انھوں نے اس بارے میں زبان کھولنے کا اس لیے فیصلہ کیا ہے تاکہ دوسری خواتین کو بھی ترغیب مل سکے۔ کیمپنگ کے ساتھ جسنی استحصال شروع ہوا جب فوٹوگرافر کی تباتا کے والد سے شناسائی ہوئی اس وقت تباتا نو سال کی تھیں اور فوٹوگرافر جلد ہی ان کے خاندان کے ساتھ گھل مل گیا۔ موسم گرما میں دونوں خاندانوں نے دریا کے کنارے ساتھ کیمپنگ کا منصوبہ بنایا اور ہر ہفتے کیمپنگ کا دورہ شروع ہو گيا۔ تباتا اس اچھے وقت کو یاد کرتی ہیں جب وہ دریا میں خوب مزے کیا کرتی تھی۔ دونوں خاندان کار سے جایا کرتے تھے، جنگلوں کے ناہموار راستوں سے گزرتے ہوئے فطرت سے لطف اندوز ہوتے تھے اور کھلے آسمان کے نیچے ٹھنڈی ہوا میں سوتے تھے۔ کیمپنگ کے چند ہفتوں کے دوران فوٹوگرافر نے تباتا کا جنسی استحصال شروع کر دیا۔ انھوں نے بتایا کہ 'میرے ساتھ جو ہو رہا تھا وہ مجھے پریشان کر رہا تھا لیکن اس وقت میں یہ نہیں جانتی تھی کہ یہ جرم ہے۔‘ 'میں نے اس وقت اپنے والدین کو کچھ نہیں بتایا، لیکن آج میں سوچتی ہوں کہ میں نے ایسا کیوں کیا۔' کہیں والد اس کا قتل نہ کر دیں! وہ فوٹوگرافر تباتا کو زور سے پکڑ لیتا تھا تباتا کی ایک آٹھ سالہ سوتیلی بہن بھی تھی لیکن وہ ان کے ساتھ کیپنگ کے لیے نہیں جاتی تھی۔ 'وہ میرے باپ کے زیادہ قریب نہیں تھی کیونکہ وہ سوتیلی بیٹی تھی۔ وہ گھر پر رہ کر ہی ٹی وی دیکھتی یا پڑھائی کرتی تھی۔' تباتا کے مطابق فوٹو گرافر نے ان کے کمزور ہونے، کیمپ کی تنہائی اور درختوں کے درمیان اندھیرے کا فائدہ اٹھایا۔ وہ بتاتی ہیں: 'ایک بار کیمپنگ کے دوران پانی لینے گئی تھی تو راستے میں اس نے میرا استحصال کیا۔ میں بمشکل ہاتھ چھڑا کر وہاں سے بھاگی۔ میرے والدین نے پوچھا کہ تم اس سے پہلے کیوں آ گئی؟ انھوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کا قابل اعتماد دوست ان کی اپنی بیٹی کے ساتھ ایسا کرسکتا ہے۔' جب استحصال کے واقعات مسلسل ہونے لگے تو تباتا کی برداشت سے باہر ہو گيا۔ وہ اپنے والد کو سب کچھ بتانا چاہتی تھی۔ تباتا نے بتایا: 'میرے والد ہمیشہ تناؤ میں رہتے تھے اور مجھے ڈر تھا کہ میرے سچ بتانے پر کہیں وہ اس فوٹوگرافر کو قتل نہ کر دیں۔ پھر انھیں جیل ہو جاتی۔ ہزاروں باتیں ذہن میں آ رہی تھیں۔ ایک خوف یہ بھی تھا کہ میرے والدین مجھ پر یقین کریں گے یا نہیں۔' 'ماں کو بتانا چاہتی تھی ، لیکن' فوٹوگرافر اکثر ان کے گھر تباتا کو تنہائی میں پانے کے لیے آنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ تباتا کی بہن پڑھنے میں مصروف رہتی ہے اور اس کی ماں رات کو کام کرتی ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کب اس کے والد رات میں فٹبال کھیلتے ہیں اور وہ اس وقت کا فائدہ اٹھاتا اور تباتا کا جنسی استحصال کرتا۔ 'وہ کہتا تھا، 'بس تھوڑا سا، بس تھوڑا سا'۔ وہ کبھی مجھے مارتا نہیں تھا، وہ مجھے زور سے پکڑ لیتا تھا۔' وہ ڈھائی سال تک تباتا کا جنسی استحصال کرتا رہا۔ تباتا کہتی ہیں کہ انھیں 11 سال کی عمر تک یہ سمجھ آنے لگا کہ وہ ان کے ساتھ جنسی جرم کررہا ہے۔ وہ اس کی مخالفت کرنے لگی۔ چیخنے لگی لگی لیکن اس کا کوئی حاصل نہیں تھا۔ ایک دن وہ اپنی ماں کو سب کچھ بتانے کے لیے تیار تھی کہ اس پتہ چلا کہ اس کی والدہ نفسیاتی مریض ہے۔ پھر تباتا نے انھیں کچھ نہ بتانے کا فیصلہ کیا۔ سوتیلی بہن کو بتایا عدالت میں فوٹوگرافر کو مجرم قرار دیا گیا اور سات سال کی سزا سنائی گئی اس وقت تباتا کو ایک چونکانے والی خبر ملی کہ اس کے والد کا فوٹوگرافر کی اہلیہ کے ساتھ افیئر چل رہا ہے۔ جب اس بات کا پتہ دونوں خاندانوں کو چل گيا تو دوستی ختم ہو گئی اور تباتا کے استحصال کا سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ تباتا نے اپنی سہیلی کو سب کچھ بتا دیا اور اس سے رازداری کا قول لے لیا۔ وہ ایک مشکل وقت تھا۔ تباتا کو اپنی جسمانی اور ذہنی طور پر بیمار ماں کو سنبھالنا تھا۔ وہ اپنی بہن سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ دونوں کے اچھے تعلقات نہیں تھے۔ لیکن ماں کی بیماری دونوں بہنوں کو قریب لے آئی۔ تباتا نے اپنی بہن کو سنہ 2006 میں اس کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کیا۔ تباتا نے کہا: 'جب میں نے اپنی بہن کو سب کچھ بتایا تو، وہ بہت زیادہ رونے لگی۔ اس نے والد کو فورا فون کیا۔ میرے والد دو سال قبل میری والدہ سے طلاق لے چکے۔ ایسے میں ان کو کچھ بتانا میرے گھر والوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوتا۔' تباتا برسوں تک اس دردناک یادوں کو بھلانے کی کوششیں کرتی رہی لیکن وہ ان کے دماغ سے نہیں نکل سکی۔ مزید متاثرین ان بری یادوں سے پریشان ہو کر انھوں نے اپنے سکول کے دوستوں کو سب کچھ بتانے کا فیصلہ کیا۔ سنہ 2008 میں جب وہ 16 سال کی تھیں تو اس کی ایک دوست نے اس کی ماں کو سب کچھ بتا دیا۔ سوئے اتفاق اس لڑکی کی ماں فوٹوگرافر کو جانتی تھی۔ اس کی ماں نے تباتا کو ملاقات کی غرض سے بلایا۔ 'انھوں نے مجھے بتایا کہ وہ بہت سی دوسری لڑکیوں کو جانتی ہیں جنھیں فوٹو گرافر نے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے۔ میرا خیال تھا کہ اس نے صرف میرے ساتھ ایسا کیا ہے لیکن اس نے تو بہت سی لڑکیوں کی زندگی برباد کی تھی۔' جنسی زیادتی کے سات سال بعد تباتا نے پولیس میں شکایت درج کی۔ پولیس نے تحقیقات تو کی لیکن جلد ہی کیس بند کر دیا۔' تباتا ایک وکیل سے ملی۔ لیکن انھوں نے اس معاملے کو لینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ اس میں کوئی جان نہیں ہے۔ انھوں نے کہا، 'کیس پرانا ہے اور میرے پاس ثبوت نہیں ہیں۔' تباتا اس دن خوب روئی اور انھیں یوں محسوس ہوا کہ مجرم کو اب کبھی سزا نہ ہو سکے گی۔ کچھ عرصے بعد کسی نے انھیں بتایا کہ ایک کاروباری شخص کی نو سالہ بیٹی کا بھی اسی فوٹو گرافر نے جنسی استحصال کیا ہے۔ تباتا اس کی ماں سے مدد لینے پہنچی۔ بالآخر تباتا نے اپنے مجرم کو خود پکڑ کر جیل پہنچایا میں نے انھیں عدالت میں گواہی دینے کے لیے کہا۔ اس کے بعد تباتا دوبارہ وکیل کے پاس گئی۔ جج نے یہ تسلیم کیا کہ مجرم کا بچوں کے جنسی استحصال کا ریکارڈ رہا ہے۔ ایک سال بعد سنہ 2013 میں عدالت میں پہلی سماعت ہوئی۔ عدالت میں سماعت کے دوران فوٹو گرافر نے ان الزامات سے انکار کیا۔ انھوں نے کہا کہ تباتا انقامی طور پر ان پر الزام لگا رہی ہے کیونکہ اس کے والد کا ان کی بیوی کے ساتھ تعلق تھا۔ لیکن عدالت نے فوٹو گرافر کو مجرم قرار دیا اور سات سال کی سزا سنائی۔ 24 سال کی عمر تک تباتا نے سول پولیس اکیڈمی کا کورس مکمل کیا اور ایک پولیس اہلکار بن گئیں۔ 22 دسمبر سنہ 2016 کو وہ آٹھ دس پولیس اہلکاروں کی اپنی ٹیم کے ساتھ فوٹوگرافر کو گرفتار کرنے پہنچیں۔ وہ دریا کے کنارے ایک فارم ہاؤس میں چھپا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی مشکلوں نے اسے پولیس اہلکار بننے کا حوصلہ دیا اور وہ تمام ریپسٹوں کو سلاخوں کے پیچھے پہنچانا چاہتی تھیں۔ ایک سال بعد اسے جیل میں اس کے اچھے برتاؤ کے سبب چھوڑ دیا گيا اور اس سے تباتا کو اطمینان نہیں۔ تباتا کہ خیال ہے کہ ان کی کہانی دوسروں کے لیے ایک انتباہ ہے اور وہ تمام ماؤں سے کہیں گی کہ اپنے بچوں سے بات کریں اور انھیں یہ احساس دلائیں کہ وہ ان پر بھروسہ کرتی ہیں۔
regional-55443648
https://www.bbc.com/urdu/regional-55443648
ظہیر الدین بابر: پے در پے ناکامیوں نے پہلے مغل بادشاہ کو ہندوستان کا رُخ کرنے اور وہاں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھنے کا حوصلہ دیا
انگریزی کے معروف ناول نگار ای ایم فوسٹر لکھتے ہیں کہ جدید سیاسی فلسلفے کے موجد میکیاویلی نے شاید بابر کے بارے میں نہیں سنا تھا کیونکہ اگر سنا ہوتا تو ’دی پرنس‘ نامی کتاب لکھنے کے بجائے ان (بابر) کی زندگی کے بارے میں لکھنے میں اُن کی دلچسپی زیادہ ہوتی کیونکہ وہ ایک ایسا کردار تھے جو نہ صرف کامیاب تھے بلکہ جمالیاتی حس اور فنکارانہ خوبیوں سے بھی سرشار تھے۔
مغل سلطنت کے بانی ظہیر الدین محمد بابر (1530-1483) کو جہاں عظیم فاتح کے طور پر دیکھا اور بیان کیا جاتا ہے وہیں کئی حلقوں میں انھیں ایک بڑا فنکار اور عظیم ادیب بھی مانا جاتا ہے۔ بابر سے متعلق ماہر تاریخ دان سٹیفن ڈیل نے لکھا ہے کہ یہ طے کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ بابر بحیثیت ایک بادشاہ زیادہ اہمیت کے حامل ہیں یا پھر بحیثیت شاعر و ادیب وہ زیادہ قابل قدر ہیں۔ آج کے انڈیا میں اکثریتی ہندو طبقے کے ایک خاص نظریہ کے حامل افراد میں بابر کو حملہ آور، لٹیرا، غاصب، ہندو دشمن، ظالم و جابر بادشاہ بھی سمجھا جاتا ہے۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں بلکہ انڈیا کی برسراقتدار جماعت صرف بابر ہی نہیں مغلیہ سلطنت سے منسوب ہر چیز کے خلاف نظر آتی ہے۔ آج سے تقریباً پانچ سو برس قبل بابر نے ایک ایسی سلطنت کی بنیاد رکھی جو اپنے آپ میں بینظیر ہے۔ انھوں نے سنہ 1526 میں پانی پت کی پہلی جنگ میں ابراہیم لودھی کو شکست فاش دے کر ہندوستان میں ایک ایسی سلطنت قائم کی جس کے قبضے میں اپنے عروج کے زمانے میں دنیا کی ایک چوتھائی سے زیادہ دولت تھی اور جس کا رقبہ تقریبا پورے برصغیر بشمول افغانستان پر محیط تھا۔ یہ بھی پڑھیے مغل حرم سے منسلک عیش و نشاط کے تصور کو بدلنے والی شہزادی ایک سکھ گرو کی برسی پر مغل بادشاہ اورنگزیب کا چرچا کیوں؟ بادشاہ اورنگزیب اور ان کے بارے میں پھیلی ’غلط فہمیاں‘ لیکن بابر کی زندگی جہد مسلسل سے تعبیر ہے۔ آج کی دنیا کے لیے بابر کا سب سے بڑا تعارف ان کی اپنی سوانح حیات ہے۔ ان کی اس تصنیف کو آج ’بابر نامہ‘ یا ’تزک بابری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ دہلی کی سینٹرل یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ تاریخ کی سربراہ نشاط منظر کہتی ہیں کہ بابر کی زندگی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایک حصہ ماروانہر کے علاقے میں دریائے سیحوں (سیر دریا) اور دریائے جیحوں (آمو دریا) کے درمیان وسط ایشیا میں تسلط کی جدوجہد پر محیط ہے اور دوسرا دور بہت مختصر ہے لیکن انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ محض چار سال میں انھوں نے ہندوستان کی ایک عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی جو تقریبا تین سو سال تک چلتی رہی۔ بابر کی آبائی سلطنت فرغنہ کا علاقہ آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک سٹڈیز میں ساؤتھ ایشین اسلام کے فیلو معین احمد نظامی نے بی بی سی کو بتایا کہ تیموری اور چنگیزی نسل سے تعلق رکھنے والے بابر نے اپنے والد عمر شیخ مرزا سے ایک چھوٹی سی ریاست ’فرغنہ‘ ورثے میں پائی تھی جس کی پڑوسی ریاستوں پر ان کے رشتہ داروں کی عملداری تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’یہاں تک کہ انھیں اپنے وطن کو بھی گنوانا پڑ گیا اور اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ صحرا نوردی اور مہم جوئی میں گزارا۔ اپنے وطن کو دوبارہ حاصل کرنے کی ان کی کوششیں ناکامیوں کا شکار ہوتی رہیں، یہاں تک کہ حالات نے انھیں ہندوستان کی جانب رُخ کرنے پر مجبور کیا۔‘ بابر نے اپنی سوانح عمری میں اس وقت کی اپنی پے در پے ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: 'جتنے دن تاشقند میں رہا اتنے دن میں نے بے حد تنگی اور مصیبت اٹھائی۔ نہ ملک قبضے میں تھا اور نا اس کے ملنے کی امید تھی۔ نوکر چاکر اکثر چلے گئے تھے، جو کچھ پاس رہ گئے تھے وہ مفلسی کے سبب میرے ساتھ پھر نہ سکتے تھے۔۔۔‘ وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’آخر ایسی سرگردانی اور اس بے گھر ہونے سے میں تنگ آ گیا اور زندگی سے بیزار ہو گيا۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایسی سختی کے جینے سے بہتر ہے کہ جدھر سینگ سمائیں ادھر چلا جاؤں۔ ایسا چھپ جاؤں کہ کسی کی نظر نہ پڑے۔ لوگوں کے سامنے ایسی ذلت و بد حالی سے رہنے سے بہتر ہے کہ جہاں تک ممکن ہو دور نکل جاؤں، جہاں مجھے کوئی نہ پہچانے، یہ سوچ کر خطا (شمالی چین) جانے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ مجھے بچپن سے ملک خطا کی سیر کا شوق تھا مگر سلطنت اور تعلقات کے سبب نہ جا سکتا تھا۔‘ معین احمد نظامی نے بتایا کہ انھوں نے اس طرح کی چیزیں دوسری جگہ بھی لکھی ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہے ’کیا اب بھی کچھ دیکھنا رہ گیا ہے، اب کون سی قسمت کی ستم ظریفی اور ظلم و ستم دیکھنا رہ گیا ہے۔‘ ایک شعر میں انھوں نے اپنی کیفیت کا اظہار کیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ’نا تو اب میرے پاس دوست و احباب ہیں نہ ملک و مال ہے، مجھے ایک پل کا بھی قرار نہیں۔ یہاں آنے کا فیصلہ میرا تھا لیکن اب میں واپس بھی نہیں جا سکتا۔‘ بابر کے اسی ہیجان انگیز اور تلاطم خیز حالات کی تصویر کشی ڈاکٹر پریمقل قادروف نے اپنی سوانحی ناول ’ظہیر الدین بابر‘ میں کی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں کہ ’بابر دم لینے کے لیے ذرا رکا لیکن اس نے اپنی بات جاری رکھی۔۔۔ سب کچھ فانی ہے۔ بڑی بڑی سلطنتیں تک اپنے بانیوں کے دنیا سے اٹھتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی ہیں۔ لیکن شعرا کا کلام صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔‘ انھوں نے اپنا ایک شعر کبھی جمشید بادشاہ کے ذکر کے بعد ایک جگہ پتھر پر کندہ کرا دیا تھا جو اب تاجکستان کے ایک میوزیم میں ہے۔ وہ ان کے حالات کی ترجمانی کرتا ہے۔ گرفتیم عالم بہ مردی و زور ولیکن نہ بردیم با خود بہ گور اس کا ترجمہ کچھ یوں ہے کہ دنیا پر طاقت اور ہمت سے قبضہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن خود اپنے آپ کو دفن تک نہیں کیا جا سکتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھے۔ بابر میں کسی پہاڑی چشمے کی سی قوت تھی جو سنگلاخ زمین کو چیر کر بلندی سے اس قوت کے ساتھ نکلتا کہ ساری زمین کو سیراب کرتا۔ چنانچہ پریمقل قادروف نے ایک جگہ اس کیفیت کا بیان اس طرح کیا ہے۔ ’اس وقت بابر کو طاقتور چشمے کا نظارہ بہت محظوظ کر رہا تھا۔۔۔ بابر نے سوچا اس چشمے میں پانی پیریخ گلیشیر سے آتا ہو گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ پانی کو پیریخ سے نیچے آنے اور پھر آسمان پائے لاؤ پہاڑ کی چوٹی تک چڑھنے کے لیے دونوں پہاڑوں کے درمیان واقع گھاٹیوں کی گہرائیوں سے کہیں زیادہ گہرائی تک جانا پڑتا تھا۔ پانی کے چشمے کو اس کے لیے اتنی قوت آخر کہاں سے مل رہی تھی؟۔۔۔ بابر کو ایسے چشمے سے خود اپنی زندگی کا موازنہ بہت موزوں اور اچھا لگا۔ وہ خود بھی تو ٹوٹ کر گرنے والی چٹان کے نیچے آ گیا تھا۔‘ بابر کی ہندوستان آمد اور جنگ کا منظر بابر ہندوستان کی جانب بابر کی توجہ ہندوستان کی جانب کیونکر مبذول ہوئی اس کی مختلف توجہیات پیش کی جا سکتی ہیں لیکن پروفیسر نشاط منظر کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی جانب ان کی توجہ بہت معقول تھی کیونکہ کابل میں محصول لگانے کے لیے صرف ایک چیز تھی اور حکومت کے انتظام و انصرام کے لیے دولت کی انتہائی ضرورت تھی اس لیے بابر کے پاس ہندوستان کی جانب رخ کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا چارہ نہیں رہ گیا تھا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ دریائے سندھ کو عبور کرنے سے قبل وہ پہلے بھی کئی مرتبہ ہندوستان کے مغربی حصے پر حملہ آور ہو چکے تھے اور وہاں سے مال غنیمت حاصل کر کے واپس کابل چلے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ بابر اپنی سوانح حیات کی ابتدا جس انداز سے کرتے ہیں کسی بارہ سال کے لڑکے سے اس قسم کی ہمت اور اول العزمی کی امید نہیں کی جا سکتی۔ لیکن بابر کے خون میں حکمرانی کے ساتھ بہادری شامل تھی۔ نشاط منظر کہتی ہیں کہ انھیں قسمت اور ضرورت دونوں ادھر کھینچ لائے تھے ورنہ ان کی ابتدائی ساری کوششیں شمال کی جانب وسط ایشیا میں اپنے باپ دادا کی سلطنت کو مستحکم کرنے اور ایک عظیم سلطنت قائم کرنے پر مبنی تھی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بحث کا علیحدہ موضوع ہے کہ آیا رانا سانگا یا دولت خان لودھی نے انھیں دہلی کی سلطنت پر حملہ کرنے کی دعوت دی یا نہیں لیکن یہ بات طے ہے کہ آج کے جمہوری اقدار سے ہم سلطانی کے دور کی پرکھ نہیں کر سکتے۔ اس زمانے میں جو جس جگہ جاتا اور فاتح ہوتا تو اسے وہاں کے عوام و خواص دونوں قبول کرتے ناکہ اسے حملہ آور سمجھتے۔ بابر کی سنہ 1528 میں گوالیر کے سیر کی منظر کشی لیکن بابر کے ہندوستان کے خواب کے بارے میں ایل ایف رش بروک نے اپنی کتاب ’ظہیر الدین محمد بابر‘ میں لکھا ہے کہ سب سے تھک ہار کر بابر نے دیخ کات نامی گاؤں میں رہنے کا فیصلہ کر لیا۔ ’اُس نے پرخلوص طریقے پر خود کو ماحول کے مطابق ڈھال لیا۔ اپنے تمام دعووں کو ترک کر دیا اور محض ایک سادہ مہمان کی طرح گاؤں کے مقدم (سردار) کے گھر رہنے لگا۔ یہاں ایک ایسا سابقہ پڑا جس کے متعلق قسمت نے یہ طے کر دیا تھا کہ جس سے بابر کی آئندہ کی زندگی کی تشکیل پر ایک اعلی ترین اثر پڑے گا۔ مقدم کی عمر ستر یا اسی برس ہو گی مگر ان کی والدہ 111 سال کی تھیں اور وہ بقید حیات تھیں۔۔۔ اس بوڑھی خاتون کے کچھ رشتہ دار تیمور بیگ کے لشکر کے ساتھ ہندوستان گئے تھے۔ یہ بات ان کے ذہن میں تھی اور وہ اس کا قصہ سنایا کرتی تھیں۔‘ ’انھوں نے بابر کے بزرگوں کے کارناموں کی جو کہانیاں سنائيں انھوں نے نوعمر شہزادے کے تخیلات میں ایک جوش و ہیجان پیدا کر دیا اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہو سکتا کہ اس وقت سے ہی ہندوستان میں تیمور کی فتوحات کو تازہ کرنے کا خواب اس کے ذہن کے پس منظر میں مسلسل قائم رہا۔‘ جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں اسسٹنٹ پروفیسر رحما جاوید راشد کا کہنا ہے کہ یہ تو سب کو معلوم ہے کہ بابر والد کی جانب سے تیمور خاندان کی پانچویں پشت میں سے تھے جبکہ والدہ کی جانب سے وہ عظیم فاتح چنگیز خان کی 14ویں پشت میں سے تھے۔ اس طرح ایشیا کے دو عظیم فاتحین کا خون بابر میں شامل تھا جو انھیں دوسرے علاقائی فرمانرواؤں پر فوقیت دیتا تھا۔ تعلیم و تربیت بابر کی پیدائش فرغنہ کے دارالحکومت اندجان میں ہوئی اور وہیں ان کی تعلیم و تربیت ہوئی۔ پروفیسر نشاط منظر بتاتی ہیں کہ اگرچہ ان کے جد امجد چنگیز خان اور تیمور لنگ دونوں پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن انھیں اس کا بخوبی احساس تھا کہ بغیر تعلیم کے جہاں بانی مشکل امر ہے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے بچوں کا اعلی تعلیم دلوائی۔ بابر کی تعلیم بھی اسلامی روایت کے مطابق چار سال اور چار دن کی عمر میں شروع کی گئی۔ انھوں نے مزید بتایا کہ چنگیز خان کی اولاد کو تعلیم دینے والے لوگ اویغور قوم سے تعلق رکھتے تھے جو آج چین کے سنکیانگ صوبے میں گو کہ پریشان حال ہے لیکن قرون وسطیٰ ممیں وہ سب سے زیادہ پڑھے لکھے سمجھے جاتے تھے۔ اسی طرح تیمور بیگ نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے چغتائی ترکوں کی خدمات حاصل کی تھی جو کہ اپنے زمانے کے بہت پڑھے لکھے سمجھے جاتے تھے اور جنھوں نے عربی اور فارسی کے تسلط کے باوجود اپنی زبان کو ادبی حیثیت عطا کی تھی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں صدر شعبہ تاریخ پروفیسر نشاط منظر میں نے جب ان سے پوچھا کہ کم عمری میں بادشاہ بننے اور اس قدر جنگی مہمات اور دربدری میں انھیں علم و ہنر کے میدان میں کیونکر یہ مرتبہ حاصل ہے تو انھوں نے کہا کہ بابر جہاں بھی گئے ان کے ساتھ ان کے استاد بھی جاتے تھے اور وہ ہر طرح کے لوگوں سے ملنا جلنا پسند کرتے تھے اور علی شیر نوائی جیسے شاعر کی تو انھوں نے خاص طور پر سرپرستی کی تھی۔ انھوں نے کہا کہ بابر نے اپنے بارے میں جس کھلے انداز میں بیان کیا ہے وہ کسی دوسرے بادشاہ کے بارے میں نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی شادی، محبت، شراب نوشی، صحرا نوردی، توبہ اور اپنی دلی کیفیت تک ہر بات کا ذکر کیا ہے۔ سٹیفن ڈیل نے اپنی کتاب ’گارڈن آف ایٹ پیراڈائز‘ یعنی ’باغ ہشت بہشت‘ میں بابر کی نثر کو ’الہامی‘ قرار دیا ہے اور اس کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ اس قدر براہ راست ہے جس طرح آج 500 سال بعد لکھنے کا طرز عام ہے یا جس طرح لکھنے کی آج بھی ترغیب دی جاتی ہے۔ انھوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ انھوں نے اس کے متعلق کس طرح اپنے بیٹے ہمایوں کی اصلاح کی تھی اور لکھا تھا کہ ’تمہاری تحریر میں موضوع گم ہو جاتا ہے‘ اس لیے براہ راست لکھنے کی تلقین کی تھی۔ اردو کے معروف شاعر غالب نے تقریبا تین سو سال بعد اردو میں جو طریقہ تحریر ایجاد کیا اور جس پر انھیں فخر بھی تھا اس طرح کی صاف و سادہ نثر بابر نے ان سے پہلے اپنے جانشینوں کے لیے لکھ چھوڑی تھی۔ بابر نامہ پڑھنے سے پتا چلتا ہے کہ ان کی پہلی شادی ان کی چچا زاد بہن عائشہ سے ہوئی تھی جس سے ایک بیٹی پیدا ہوئی جو 40 دن بھی زندہ نہیں رہ سکی لیکن بابر کو ان کی اپنی بیگم سے کوئی الفت نہ تھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ ’اُردو بازار میں ایک لڑکا تھا ۔ بابری نام جس میں ہم نامی کی بھی ایک مناسبت تھی۔ انھی دنوں مجھے اس کے ساتھ عجیب سا لگاؤ پیدا ہو گيا۔‘ اس پری وش پہ کیا ہوا شیدا بلکہ اپنی خودی بھی کھو بیٹھا ان کا ایک فارسی شعر یہ ہے: ہیچ کس چوں من خراب و عاشق و رسوا مباد ہیچ محبوب چو ت وبے رحم و بے پروا مباد ’مگر حال یہ تھا کہ کبھی بابری میرے سامنے آ جاتا تو مارے شرم کے میں نگاہ بھر کر اس کی طرف نہ دیکھ سکتا تھا۔ چہ جائے کہ اس سے مل سکوں اور باتیں کر سکوں۔ اضطراب دل کی یہ کیفیت تھی کہ اس کے آنے کا شکریہ تک ادا نہ کر سکتا تھا۔ یہ تو کہاں کہ نہ آنے کا گلہ زبان پر لا سکتا تھا اور زبردستی بلانے کی مجال ہی کس کو تھی۔۔۔‘ شوم شرمندہ ہر گہ یار خودرا در نظر بینم رفیقاں سوۓ من بینندو من سوۓ دیگر بینم 'یہ بیت بالکل میرے حسب حال تھی۔ ان دنوں میں عشق و محبت کا ایسا زور اور جوانی و جنون کا انتہا غلبہ ہوا کہ کبھی کبھی ننگے سر ننگے پاؤن محلوں، باغوں اور باغیچوں میں ٹہلا کرتا تھا۔ نہ اپنے اور بیگانے کی طرف التفات تھی نہ اپنی اور دوسرے کی پروا۔‘ ویسے بابر کی محبوت ترین اہلیہ ماہم بيگم تھیں جن کے بطن سے ہمایوں پیدا ہوئے تھے جبکہ گلبدن بیگم اور ہندال و عسکری اور کامران دوسری بیویوں سے پیدا ہوئے تھے۔ بابر شراب نوشی کے بعد گھوڑے پر سوار واپس آتے ہوئے۔ یہ تصویر سنہ 1519 کی کابل کی ہے شراب نوشی بابر کا ایک شعر بہت جگہ نظر آتا ہے: نو روز و نو بہار و مے و دلبرے خوش است بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ’نو روز ہے، نئی بہار ہے، مے ہے، خوبصورت محبوب ہے، بابر بس عیش و مستی ہی میں لگا رہ کہ دنیا دوبارہ نہیں ہے۔‘ پروفیسر نشاط منظر کہتی ہیں کہ بابر نے 21 سال تک زاہدانہ زندگی گزاری لیکن پھر انھیں ارباب نشاط کے ساتھ شراب کی محفلیں راس آنے لگیں۔ چنانچہ ان کی محفلوں میں شراب نوش خواتین کا بھی ذکر ہے اور بابر نے اس کے ذکر کو چھپانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ وہ اپنے والد کے بارے میں بھی لکھتے ہیں کہ انھیں شراب کی عادت تھی اور معجون بھی کھانے لگے تھے جبکہ ہمایوں کے بارے میں تو مشہور ہی ہے کہ انھیں افیم کھانے کی لت تھی۔ نشاط منظر بتاتی ہیں کہ بابر نے جب شراب سے توبہ کی تو وہ ان کی حکمت عملی تھی۔ ان کے سامنے انڈیا کا سب سے بڑا جنگجو رانا سانگا تھا جو اس سے پہلے کبھی کسی جنگ میں شکست سے دوچار نہیں ہوا تھا۔ بابر کی فوج پانی پت کی لڑائی کے بعد نصف رہ گئی تھی اور جنگ کے دوران ایک ایسا مرحلہ آیا جب بابر کو شکست سامنے نظر آ رہی تھی تو اس نے پہلے ایک شعلہ بیان تقریر کی اور پھر توبہ کی۔ بعض علما کا خیال ہے کہ بابر کی اس سچی توبہ کے سبب اللہ نے مغلوں کو ہندوستان میں تین سو سال کی سلطنت عطا کر دی۔ لیکن جامعہ ملیہ اسلامیہ میں تاریخ کے استاد پروفیسر رضوان قیصر کا کہنا ہے کہ یہ بابر کے عمل کی مذہبی توضیح تو ہو سکتی ہے لیکن اس کی تاریخی حیثیت نہیں کیونکہ اسے کسی طرح ثابت نہیں کیا جا سکتا البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ بابر نے جنگ جیتنے کے لیے مذہبی جوش و خروش بیدار کرنے کا استعمال ضرور کیا تھا۔ اس سے قبل جب بابر نے اپنے آبائی وطن فرغنہ کی بازیابی کے لیے ایران کے بادشاہ سے حمایت حاصل کی تھی اور خود کو شیعہ کہا تھا تو اس وقت کے وہاں کے ایک بڑے عالم نے بابر کو بہت برا بھلا کہا تھا اور اس کی مخالفت پر اتر آئے تھے۔ پروفیسر نشاط نے یہ بھی کہا کہ بابر نے بہت جگہ اپنے دشمن مسلم حکمرانوں کے لیے بھی ’کافر‘ کا لفظ استعمال کیا اور انھیں لعنت و ملامت کا نشانہ بنایا ہے۔ بہر حال بابر نے اپنی اس توبہ کا ذکر اس طرح کیا ہے: ’میں نے کابل سے شراب منگائی تھی اور بابا دوست سوجی اونٹوں کی تین قطاروں پر شراب کے مٹکے بھر کر لے آیا۔ اسی درمیان محمد شریف نجومی نے یہ بات پھیلا دی کہ اس وقت مریخ ستارہ مغرب میں ہے اور یہ بات منحوس ہے اس لیے شکست ہو گی۔ اس بات نے میری فوج کے دل ہلا دیے۔۔۔‘ ’جمادی الثانی کی 23ویں تاریخ تھی منگل کا دن تھا یکایک خیال آیا کہ کیوں نہ شراب سے توبہ کر لوں۔ یہ ارادہ کر کے میں نے شراب سے توبہ کر لی۔ شراب کے سب سونے چاندی کے برتنوں کو توڑ دیا۔ اور جتنی شراب اس وقت چھاؤنی میں موجود تھی سب کی سب پھنکوا دی۔ شراب کے برتنوں سے جو سونا چاندی ملا اسے فقیروں میں تقسیم کر دیا۔ میرے اس کام میں میرے ساتھی عس نے بھی ساتھ دیا۔‘ ’میری توبہ کی خبر سن کر میرے ساتھی امرا میں تین اشخاص نے اسی رات توبہ کر لی۔ بابا دوست چونکہ اونٹوں کی کئی قطارون پر شراب کے بے شمار مٹکے لاد کر کابل سے لایا آیا تھا اور یہ شراب بہت تھی اس لیے اسے پھنکوانے کے بجائے اس میں نمک شامل کر دیا تاکہ سرکہ کی شکل اختیار کر لے۔ جس جگہ میں نے شراب سے توبہ کی اور شراب گڑھوں میں انڈیلی وہاں توبہ کی یادگار کے طور پر ایک پتھر نصب کرایا اور ایک عمارت تعمیر کرائی۔۔۔‘ 'میں نے یہ ارادہ بھی کیا تھا کہ اگر اللہ تعالی رانا سانگا پر فتح بخشیں گے تو میں اپنی سلطنت میں ہر قسم کے محصول معاف کر دوں گا۔ میں نے اس معافی کا اعلان کرنا ضروری سمحھا اور محرروں کو حکم دیا کہ اس مضمون کے فرمان جاری کریں اور دور دور اس کی شہرت دی جائے۔۔۔ 'فوج میں دشمن کی زیادہ تعداد کی وجہ سے بددلی پھیل گئی تھی اس لیے میں نے پوری فوج کو ایک جگہ جمع کرکے تقریر کی: 'جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے مرنا ہے۔ زندگی خدا کے ہاتھ میں اس لیے موت سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ مجھ سے تم لوگ اللہ کے نام پر قسم کھاؤ کہ موت کو سامنے دیکھ کر منھ نہیں موڑوگے اور جب تک جان باقی ہے لڑائی جاری رکھو گے۔' میری تقریر کا بہت اثر ہوا۔ اس سے فوج میں جوش بھر گیا، لڑائی جم کر ہوئی اور آخر میری فتح ہوئی۔ یہ فتح 1527 میں ہوئی۔‘ بابر ہیرات میں حسین بیقرہ کے مدرسے میں اپنی خواتین رشتہ داروں سے ملاقات کے لیے پہنچے بابر اور ان کے رشتہ دار بابر کو پانی پت کی جنگ کے بعد جو مال و دولت ہاتھ لگتے ہیں اسے وہ اپنے رشتہ داروں اور امرا میں دل کھول کر تقسیم کرتے ہیں۔ اس کا ذکر بابر نے بھی کیا ہے اور ان کی بیٹی گلبدن بانو نے بھی اپنی تصنیف ’ہمایوں نامہ‘ میں اس کا مفصل ذکر کیا ہے۔ پروفیسر نشاط منظر اور ڈاکٹر رحما جاوید نے بی بی سی کو بتایا کہ بابر کی شخصیت کی خاص بات ان کا خواتین کے ساتھ تعلق تھا۔ انھوں نے بتایا کہ خواتین ان کے مشوروں میں شامل ہوتی تھیں۔ ان کی والدہ تو ان کے ساتھ تھیں ہی نانی بھی سمرقند سے اندجان پہنچ جاتی تھیں۔ خالاؤں، چچیوں، بہنوں اور پھوپھیوں کا انھوں نے بطور خاص اپنی سوانح میں ذکر کیا ہے۔ بابر کی سوانح میں جتنی خواتین کا ذکر ہے اتنی خواتین کا نام بعد کی پوری مغلیہ سلطنت میں سننے میں نہیں آتا ہے۔ اس کے متعلق پروفیسر نشاط منظر نے کہا کہ اکبر بادشاہ سے پہلے تک مغلوں میں ترکوں اور بيگوں کے رواج غالب تھے جس کی وجہ سے خواتین کی موجودگی ہر جگہ نظر آتی ہے۔ چنانچہ بابر اپنی دو پھوپھیوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو مردوں کی طرح پگڑی باندھتی تھیں۔ گھوڑے پر سوار ہوتی تھیں اور تلوار لے کر چلتی تھیں۔ یوں تو تلوار چلانا اور بہادری ان میں عام تھی لیکن وہ دربار اور مجالس میں عام طور پر شرکت کرتی تھیں۔ محض شادی بیاہ تک ان کا دائرہ کار محدود نہیں تھا۔ پرفیسر نشاط کہتی ہیں کہ اکبر کے زمانے میں مغلوں کا انڈینائزیشن شروع ہوا اور اس کے بعد خواتین منظر سے پس منظر میں گم ہوتی گئیں چنانچہ بعد میں ہم جب جہانگیر کی بغاوت کے معاملے میں صلح کرانے میں جنھیں پیش پیش دیکھتے ہیں وہ جہانگیر کی پھوپھیاں اور دادیاں ہیں اور ان کی اصلی ماں جن کے پیٹ سے وہ پیدا ہوئے وہ کہیں نظر نہیں آتیں، البتہ فلموں میں ان کے کردار کو خوب بڑھا چڑھا کر دکھایا گیا ہے کیونکہ یہ فکشن پر منبی ہے۔‘ بابر باغ کی تعمیر کراتے ہوئے بابر کی شخصیت میں روا داری بابر پر ہندوستان میں حملہ آور ہونے اور منادر توڑنے، ہندوؤں کو بزور شمیر مسلمان بنانے کے الزامات لگائے جاتے ہیں جبکہ ان کے پوتے جلال الدین محمد اکبر کو ’صلح کل‘ کہا جاتا ہے اور مذہبی رواداری انھیں کا حصہ تصور کی جاتی ہے۔ لیکن دہلی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں اسسٹنٹ پروفیسر سیف الدین احمد کا کہنا ہے کہ ’مورخ اور سیاسی ماہرین نے اکثر بادشاہ اکبر اور اشوک کو ایک مضبوط حکمراں کی نظر سے دیکھا اور اس کی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ یہ دونوں شخصیات ہندوستان کی طویل تاریخ میں سلطنت سازی کے نباض مانے جاتے ہیں جبکہ بادشاہ بابر ایودھیا میں مندر توڑ کر مسجد کی تعمیر کرنے کے لیے بدنام ہے۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’بابر کا وصیت نامہ جو اس نے اپنے بیٹے اور جانشین ہمایوں کے لیے تخلیق کیا تھا، وہ اس سیاسی نظریے کی عمدہ مثال ہے جس کا ارتقا خراسان میں ہوا۔ بابر نے کئی ایسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا ہے جسے آج کی سیاسی جماعتیں بالکل نظر انداز کر دیتی ہیں، یا اسے خاطر میں لانے میں کوتاہی برتتی ہیں۔ بابر کو ہندوستان میں بہت عرصے رہنے کا موقع نہیں ملا لیکن اپنی فطری ذہانت سے اس نے جلد ہی یہاں کی خصوصیت اختیار کر لیں اور اس نے ہمایون کے لیے جو وصیت لکھی اس سے اس کی انصاف پسندی اور مدبرانہ قابلیت کا پتہ چلتا ہے۔‘ بابر نے لکھا: 'فرزند من، اول یہ کہ مذہب کے نام پر سیاست مت کرو، کہ تم مذہبی تعصب کو اپنے دل میں ہرگز جگہ نہ دو اور لوگوں کے مذہبی جذبات اور مذہبی رسوم کا خیال رکھتے ہوئے سب لوگوں کے ساتھ پورا انصاف کرنا۔‘ سیف الدین احمد نے کہا کہ بابر کا یہی نظریہ تو آج سیکولرزم کہلاتا ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ بابر نے قومی تعلقات کے نظریے میں کشیدگی نہ پیدا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھا: ’گو کشی سے بالخصوص پرہیز کرو تاکہ اس سے تمھیں لوگوں کے دل میں جگہ ملے اور اس طرح وہ احسان اور شکریہ کی زنجیر سے تمہارے مطیع ہو جائیں۔‘ سیف الدین احمد کے مطابق بابر نے تیسری بات یہ کہی کہ 'تمہیں کسی قوم کی عبادت گاہ مسمار نہیں کرنا چاہیے اور ہمیشہ پورا انصاف کرنا تاکہ بادشاہ اور رعایا کے تعلقات دوستانہ ہون اور ملک میں امن و امان ہو۔‘ چوتھی بات یہ کہی کہ ’اسلام کی اشاعت ظلم و ستم کی تلوار کے مقابلے میں لطف و احسان کی تلوار سے بہتر ہو گی۔‘ اس کے علاوہ بابر نے شیعہ سنی اختلافات کو نظر انداز کرنے کا مشورہ دیا اور ذات پات کے نام پر عوام کے اندر رسہ کشی سے گریز کرنے کو کہا نہیں تو اس سے ملک کی یکجہتی کو نقصان ہو گا اور حکمران جلد ہی اپنے اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ سیف الدین کے مطابق بابر نے یہ بھی کہا کہ ’اپنی رعایا کی مختلف خصوصیات کو سال کے مختلف موسم کی طرح سمجھو تاکہ حکومت اور عوام مختلف بیماریوں اور کمزوریوں سے بچ سکیں۔‘ پروفیسر نشاط منظر نے بتایا کہ حقیقت یہ ہے کہ بابر کا دل ہندوستان کی طرح کشادہ تھا اور وہ جہد مسلسل میں یقین رکھتا تھا۔ اس کی فطرت میں دلچسپی اور ہندوستان میں باغات کی تعمیر نے ایک نئے عہد کا آغاز کیا ہے جس کی معراج ہمیں جہانگیر کے باغوں اور شاہجہاں کی تعمیرات میں نظر آتا ہے۔ بابر کی زندگی میں مذہب کا بہت دخل تھا اور وہ بہت سے لوگوں کے بارے میں بیان کرنے کے دوران اس بات کا ذکر کرنا نہیں بھولتا کہ وہ نمازی تھا یا یہ کہ اس نے فلاں نماز کے وقت سفر شروع کیا اور فلاں نماز وہاں پڑھی۔ کابل میں بابر کا مقبرہ اگر چہ وہ نجومیوں اور ستارہ شناسوں سے احوال دریافت کرتے تھے لیکن توہم پرستی سے دور تھے۔ چنانچہ کابل کے اپنے بیان میں بابر نے لکھا ہے کہ ’یہاں کے بزرگوں میں ایک ملا عبدالرحمان تھے۔ یہ عالم تھے اور ہر وقت پڑھتے رہتے تھے۔ ان کا اسی حال میں انتقال ہوا۔۔۔ لوگوں کا بیان ہے کہ غزنی میں ایک مزار ہے اگر اس پر درود پڑھو تو وہ ہلنے لگتا ہے۔ میں نے اس کو جا کر دیکھا تو قبر ہلتی ہوئی معلوم ہوئی۔ معلوم کیا تو پتا چلا کہ وہاں کے مجاوروں کی چالاکی ہے۔ قبر کے اوپر ایک جال سا بنایا ہے جب وہ جال پر چلتے ہیں تو وہ ہلتی ہے۔ اور اس کے ہلنے سے قبر بھی ہلتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ میں نے اس جال کو اکھڑوا دیا اور گنبد بنوا دیا۔‘ بابرنامہ میں اس قسم کے دوسرے واقعات بھی ملتے ہیں لیکن بابر کی موت اپنے آپ میں ایک بہت روحانی واقعہ ہے۔ گلبدن بانو نے اسے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے کہ کس طرح ہمایوں کی حالت خراب ہوتی جا رہی تھی تو بابر نے ان کی چارپائی کے گرد چکر کاٹے اور نذر مانی۔ وہ لکھتی ہیں کہ ہمارے یہاں ایسا ہوتا تھا لیکن بابا جانم نے تو اپنی جان کے بدلے ہمایوں کی جان مانگ لی تھی چنانچہ یہ ہوا کہ ہمایوں اچھے ہوتے گئے اور بابر علیل اور اسی حالت میں 26 دسمبر 1530 کو ایک عظیم فاتح نے دنیا کو الوداع کہا اور اپنے پیچھے بے شمار سوالات چھوڑ گیا۔
040523_india_cabinet
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/05/040523_india_cabinet
بھارت کی نئی کابینہ
بھارت کے نئے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے اپنی کابینہ کے عہدوں کا اعلان کر دیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق نٹور سنگھ بھارت کے نئے وزیر خارجہ ہوں گے۔ امریکہ میں ہارورڈ یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ پی چِدنمبرم وزیر خزانہ اور کانگریس پارٹی کے اعلیٰ رہنما پراناب مُکھرجی ملک کے نئے وزیر دفاع ہوں گے۔
031117_pak_prayer_asar_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/captions/story/2003/11/031117_pak_prayer_asar_ms
وہ ایک سجدہ: عنوان تجویز کریں
رمضان کا مہینہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے مقدس مہینہ ہے۔ اس مہینے جہاں بڑوں کا ایک ہجوم مساجد میں امڈ آتا ہے وہاں بہت سے بچے بھی ان کے ہمراہ دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تصویر پاکستان میں ایک امام بارگاہ میں عصر کی نماز کے دوران کھینچی گئی۔ اس منظر کےلئے عنوان تجویز کیجئے۔
اپنی عنوانات آپ اردو، انگریزی یا رومن اردو میں بھیج سکتے ہیں۔ علی زیدی، امریکہ پہلے فوٹو عمرگل خٹک، لاہور، پاکستان ایک انار، سو بیمار محمد ثاقب احمد، بہار، پاکستان میں سجدے میں گرا ہوں، میرے مالک اٹھالے علی رضا علوی، اسلام آباد، پاکستان اوئی اللہ میں تو پھنس گیا۔ علی ارباز خان، اسلام آباد، پاکستان آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں طارق ناداں گر گیا سجدے میں جب وقتِ قیام آیا۔ عرفان اسلم، کینیڈا صرف ’ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے‘۔ شیخ خرم شہزاد، فرینکفرٹ، جرمنی وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے۔ ابرار، بالٹی مور، امریکہ متذبذب پھول عمران منیر، سعودی عرب اے خدا اے خدا سعادت احمد، پشاور، پاکستان میں کیا کروں نعمان احمد، راولپنڈی کینٹ بے نمازی ہوں جھکا جاتا نہیں۔ اگلے ڈرامے میں پھر ملیں گے نسیم رانا، پاکستان ہن ایتھے کیہہ دسیئے علی ارباز، اسلام آباد
regional-50833156
https://www.bbc.com/urdu/regional-50833156
مرد جو خواتین کے خلاف تشدد روکنے کے لیے رہنمائی کر رہے ہیں
18 سالہ اومکار اکثر اپنا غصہ اپنی چھوٹی بہن ریتو پر نکالتے تھے۔ لیکن اب اس کی والدہ کانتا کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بہن سے صبر و تحمل کے ساتھ بات کرتے ہیں ہیں اور اسے مناسب احترام دیتے ہیں۔
اپنے والدین کے ساتھ اوم کار اوم کار اب گھریلو کاموں میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ کانتا کا کہنا ہے کہ 'جب کوئی گھر میں آتا ہے تو اوم کار چائے بناتے ہیں۔ وہ گھر کے دوسرے کام جیسے صاف صفائی بھی کرتے ہیں۔ وہ اپنے محلے کے باقی لڑکوں سے بہت مختلف برتاؤ کرتے ہیں۔ ان کا سلوک بہت اچھا ہے۔' اوم کار پُونے کے اُن پانچ ہزار سے زیادہ لڑکوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ایکشن فار ایکوئلیٹی (اے ایف ای) یعنی مساوات پر عمل کے پروگرام میں شرکت کی ہے۔ اس پروگرام کا آغاز سنہ 2011 میں ایک فلاحی تنظیم ایکوئل کمیونٹی فاؤنڈیشن (ای سی ایف) نے کیا تھا۔ اس پروگرام کا مقصد نوجوان لڑکوں کی جانب سے خواتین پر ہونے والے تشدد کو روکنا ہے۔ ای سی ایف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کرسٹینا فرٹاڈو کا کہنا ہے کہ 'صنفی مساوات کے لیے لڑنا دریا کے تیز بہاؤ سے مقابلہ کرنے کے مترادف ہے۔ ہم ایک طویل عرصے سے خواتین کو بتاتے آرہے ہیں کہ ان کا اپنے حقوق کے لیے لڑنا بے حد ضروری ہے۔ ہم نے بہت سی خواتین کو تشدد اور ذلت کے موذی چکر سے نکالنے میں کامیابی بھی حاصل کی ہے۔' یہ بھی پڑھیے انڈیا کی عورتیں جنھوں نے شراب پر پابندی لگوائی ’ہمیشہ سے شراب پی رہے ہیں، مرے نہیں‘ لیکن کرسٹینا یہ بھی کہتی ہیں کہ 'جب آپ صرف خواتین پر توجہ مرکوز کرکے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے معاشرے کی وسیع تیز بہاؤ والی سوچ پر فرق نہیں پڑتا کیونکہ بالآخر تعلیم یافتہ اور بااختیار خواتین بھی انہی مردوں کے ساتھ رہیں گی جو تشدد اور ذلت آمیز سلوک کرتے ہیں۔' لیکن اے ایف ای کے تحت 13 سے 17 سال کی عمر کے لڑکے 43 ہفتوں کے ایک کورس میں شریک ہوتے ہیں۔ جس میں انھیں خواتین کے ساتھ مار پیٹ اور تشدد نہ کرنا اور صنف کی بنیاد پر تعصب نہ برتنا سکھایا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے آس پاس کی خواتین اور لڑکیوں کے ساتھ یکساں اور اچھا سلوک کریں۔ خواتین کے خلاف تشدد کے اعدادو شمار کیا بتاتے ہیں؟ اقوام متحدہ کے مطابق خواتین کے خلاف تشدد پوری دنیا میں ایک خوفناک مرض ہے۔ بہت سے تجربات میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ دنیا کی 70 فیصد خواتین کو اپنے قریبی ساتھیوں کے ہاتھوں پرتشدد سلوک کا سامنا کرنا پڑا ہے، اب چاہے وہ جسمانی ہو یا جنسی۔ دنیا بھر میں روزانہ 137 خواتین اپنے قریبی ساتھی یا کنبہ کے فرد کے ہاتھوں ہلاک ہوتی ہیں۔ انڈیا میں خواتین پر تشدد کی سب سے بڑی مثال دسمبر سنہ 2012 میں دہلی میں دیکھی گئی تھی جب چلتی بس میں ایک 23 سالہ نوجوان لڑکی کو اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس کے بعد خواتین پر تشدد کے خلاف وسیع پیمانے پر تحریک چل پڑی تھی۔ ایسے واقعات کے پیش نظر ایکشن فار ایکوئلیٹی جیسے پروگراموں کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ پونے جیسے قدامت پسند شہر میں صنفی مساوات پر اس زمینی سطح کا پروگرام شروع کرنا ندی کے خلاف تیرنے کے مترادف ہے جبکہ اس میں لڑکوں کو اس طرح کے پروگراموں کا مرکز بنانا اور بھی مشکل امر ہے۔ جنسی استحصال کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش اومکار جیس کم آمدنی والے روایتی برادریوں میں لڑکیاں اور لڑکے دونوں پرانے رسم و رواج کے پابند ہیں جہاں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ گھریلو کام خواتین کا فرض ہے۔ انھیں یہ تعلیم دی جاتی ہے کہ مرد خواتین کو زبانی، جسمانی یا جنسی استحصال کرنے کے لیے آزاد ہیں ہیں کسی قسم کا خمیازہ برداشت نہیں کرنا پڑے گا۔ تاہم اے ایف ای پروگرام چلانے والے وہ افراد ہیں جو نوعمروں کے لیے مثالی ہوتے ہیں جن کے نقش قدم پر یہ نوجوان چلتے ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو عمر کے دو عشرے کو عبور کرچکے ہیں۔ ای سی ایف کے اس پروگرام میں شامل ہونے کی شرط یہ ہے کہ ہر نوجوان کو 60 فیصد کلاسز میں شرکت کرنی ہوتی ہے اور ایک کمیونٹی پروگرام 'ایکشن پروجیکٹ' میں شامل ہونا ہوتا ہے۔ ایسے پروگرام میں حصہ لینے والے 80 فیصد نوجوان پاس ہوتے ہیں۔ سنہ 2014 میں 18 سالہ اکشے نے بطور رضا کار اے ایف ای پروگرام میں شمولیت اختیار کی لیکن بعد میں وہ خود اس میں تعلیم حاصل کرنے لگے۔ بعد میں اس نے اپنے دو بھائیوں کو بھی اس پروگرام کا ایک حصہ بنایا۔ جب سے اس نے اس پروگرام میں تعلیم مکمل کی ہے وہ اپنے پڑوس کے لڑکوں کے لیے ایک ماڈل بن گیا ہے۔ اومکار کی ماں کی طرح اکشے کی والدہ سوجاتا کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے بیٹے میں ہونے والی تبدیلی کو واضح طور پر محسوس کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں: 'انھوں نے گھر کی ذمہ داریوں کو بانٹنا شروع کردیا ہے۔ ان کے بھائی بھی سمجھدار ہوگئے ہیں۔ گذشتہ ماہ میں انھوں نے گھر کے تمام کام انجام دیے۔ مجھے کچھ کرنے کا موقع نہیں ملا۔' اکشے اور اومکار کے پڑوس میں بہت سارے نوعمر لڑکے 14-15 سال کی عمر میں شراب نوشی شروع کردیتے ہیں۔ جب وہ بالغ ہوجائیں تب تک وہ شراب کے عادی ہوچکے ہوتے ہیں۔ ہندوستان کے غریب طبقات میں شراب نوشی ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔ جو لوگ باقاعدگی سے شراب پیتے ہیں وہ اکثر اپنی بیویوں یا دوسری لڑکیوں کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا خواتین اور لڑکیوں پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ شرابی نوجوانوں اور لڑکوں کے فحش تبصروں کی وجہ سے لڑکیاں گھر سے باہر نکل کر کھیل کود نہیں سکتی ہیں۔ جبکہ دوسری طرف گھریلو خواتین اکثر ان بد سلوکیوں کے بارے میں نہ تو پولیس کو شکایت کرتی ہیں اور نہ ہی وہ خود اس کا مقابلہ کرسکتی ہیں۔ کیونکہ انھیں خوف ہے کہ یا تو افسران ان کی باتوں پر یقین نہیں کریں گے یا وہ صرف ان پر الزام لگائیں گے۔ لیکن اومکار اور اکشے اس پروگرام کی وجہ سے خواتین پر جنسی تشدد یا خواتین کے ساتھ بد سلوکی کے بارے میں بہت بیدار ہیں۔ جب بھی وہ کسی عورت یا لڑکی کو اپنے آس پاس برا سلوک کرتے ہوئے دیکھتے ہیں تو وہ علاقے کے سربراہوں یا پولیس سے شکایت کرتے ہیں۔ اومکار نے محسوس کیا ہے کہ اب نوعمر لڑکیوں کو ان پر بھروسہ ہے۔ ای سی ایف کے تجربے کی وجہ سے وہ جانتے ہیں کہ اومکار ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں اور وہ انھیں غیر محفوظ محسوس نہیں ہونے دیتے۔ معاشرے کو بدلنے کی کوشش اکشے اپنے ارد گرد اگر خواتین کے ساتھ برا سلوک ہوتے دیکھتے ہیں تو وہ اسے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اکشے نے ہمیں ایک واقعہ سنایا کہ کس طرح ایک شخص نے نشے میں اپنی بیوی سے جھگڑا کیا پھر اس کی پٹائی کرنا شروع کردی۔ اکشے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس شخص کے گھر گیا اور اسے وہاں سے کھینچ کر باہر لایا۔ پھر اس نے خاتون سے پولیس کو مطلع کرنے کو کہا۔ اکشے کی مداخلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ شخص شراب کے نشے سے چھٹکارا پانے کے لیے ایک مرکز گیا۔ اس نے اپنے پینے کو واضح طور پر کم کیا ہے اور اس کے پرتشدد رویے میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ اکشے نے کہا: 'میں سوچتا تھا کہ لڑکیاں کمزور ہیں، شاید اسی وجہ سے وہ گھر سے نکلنے سے خوفزدہ ہیں۔ لیکن اب میں سمجھ گیا ہوں کہ وہ مردوں کے برے سلوک سے بچنے کے لیے گھر سے نہیں نکلتی ہیں۔ اس کے بعد سے میں نے ان کا احترام کرنا شروع کر دیا۔ اومکار اپنے تجربے کو علاقے کے دوسرے لڑکوں کے ساتھ شیئر کر رہے ہیں۔ وہ دوسرے ساتھی کی مدد سے 10 لڑکوں کو صنفی مساوات اور خواتین کے لیے احترام کرنے کی تربیت دے رہے ہیں۔ اومکار کا کہنا ہے کہ لڑکیوں فقرے نہیں کسنا چاہیے، گھریلو کاموں میں ان کی مدد کریں اور اگر وہ کسی کو عورت کے ساتھ بد سلوکی کرتے ہوئے دیکھیں تو اس کے بارے میں شکایت کریں۔ کیا خواتین کا ذہن مردوں سے مختلف ہے؟ ای سی ایف کی پروگرام کی ایسوسی ایٹ سہاسنی مکھرجی کا کہنا ہے کہ 'ہم لڑکوں کو آگے بڑھنے کی ترغیب دینا چاہتے ہیں۔ ہم ان کی ہر طرح سے مدد کریں گے۔' تاہم کئی بار لڑکے اس طرح کے اسباق کو اتنی سنجیدگی سے لیتے ہیں کہ وہ اپنی بہنوں کو یہ بھی بتاتے ہیں کہ انھیں لباس کس طرح پہننا ہے اور لباس کس طرح نہیں۔ جبکہ انھیں اسی پریشانی پر قابو پانے کی تربیت دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ای سی ایف پروگرام کے آغاز میں لڑکوں کو بتایا جاتا ہے کہ وہ صرف اس وقت مدد کریں جب تک لڑکیاں مدد مانگیں یا وہ واقعی کسی مشکل صورتحال میں ہوں۔ لڑکوں کو یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ہر کام خود کرنے کی بجائے انھیں حکام کو رپورٹ کرنے کا متبادل زیادہ آزمائیں۔ اکشے نے ایسا ہی ایک واقعہ سنایا۔ جب ان کا ایک پڑوسی بہت کم عمر لڑکی سے شادی کرنے کا ارادہ کر رہا تھا تو انھوں نے خود مداخلت کرنے کے بجائے قانونی حکام کو آگاہ کیا جو آئے اور پڑوسی کو کم عمر لڑکی سے شادی کرنے سے روکا۔ اگر ای سی ایف مقامی سطح پر صنفی مساوات کے لیے کام کر رہا ہے تو برازیل کا پرومونڈو نامی ایک تنظیم پوری دنیا میں ایسے پروگرام چلا رہی ہے۔ ہومینس یا ہومبریس پرومونڈو کی بنیاد سنہ 1997 میں برازیل میں رکھی گئی تھی۔ اب اس کا صدر دفتر امریکہ کے دارالحکومت واشنگٹن میں ہے۔ پروموڈو کے پروگرام کا نام پروگرام-ایچ ہے۔ اور ایچ کا مطلب پرتگالی ہومینس یا ہسپانوی زبان میں ہومبریس یعنی مرد ہوتا ہے۔ اس کا مقصد شہری بستیوں میں خواتین کے خلاف بد سلوکی کو روکنا ہے۔ اس پروگرام میں دس سے 24 سال کی عمر کے لڑکوں کو صنفی مساوات اور خواتین سے اچھے سلوک کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔ پروگرام سے وابستہ افراد چار ماہ تک ہر ہفتے ملتے ہیں۔ اس میں صرف 12 افراد کے چھوٹے چھوٹے گروپ رکھے گئے ہیں۔ ای سی ایف کی طرح یہاں بھی نوجوان کو صنفی مساوات کا سبق سکھاتے ہیں۔ پروگرام میں شامل افراد کو خواتین کے خلاف تشدد، ان کی جنسی آزادی اور جنسی مساوات کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ انھیں گھر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹانے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ایک جائزے کے مطابق خواتین ایسی سرگرمیوں میں مردوں کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ وقت گزارتی ہیں جس سے انھیں کوئی آمدنی نہیں ہوتی ہے۔ ان میں اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا، گھریلو کم کرنا شامل ہے۔ پرومونڈو کی ایک رپورٹ کے مطابق لڑکیوں کو کھیلنے کے مواقع کم ہیں۔ کیونکہ ان کا 40 فیصد وقت ایسے کاموں میں جاتا ہے جن کے پیسے بھی انھیں نہیں ملتے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انھیں کھیلنے، آرام کرنے یا مطالعے کا شاذ و نادر ہی وقت مل پاتا ہے۔ خواتین اور مردوں کے فرق کو ماپنے کے لیے پروموڈو نے ایک پیمانہ تیار کیا جس کا نام ہے جینڈر ایکوئلیٹی مین جس کے تحت محفوظ جنسی تعلقات، گھریلو تشدد، خاندانی منصوبہ بندی اور خواتین کے بارے میں رویوں کی پیمائش کی جاتی ہے۔ ایتھوپیا میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ پرومونڈو کے اس پروگرام میں شامل ہونے کے بعد سے مردوں سے خواتین پر تشدد کے واقعات میں 20 فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ تاہم زمین سطح پر ان پروگراموں کو کافی چیلنجز درپیش ہیں کیوں کہ عورتوں کو مساوی طور پر نہ دیکھنے کا خیال ہمارے معاشرے میں گہرا پیوست ہے۔ افریقی ملک کانگو جمہوریہ میں پرمونڈو کے پروگرام میں شریک مردوں نے گھریلو کام کرنا شروع کیا۔ لیکن وہ اس چیز کو اپنے ساتھیوں سے چھپاتے ہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کا مذاق اڑایا جائے گا۔ پرومونڈو اور ای سی ایف کے پروگرام کے دوران یہ دیکھا گیا کہ لڑکوں کے رویے کو بہتر بنانا آسان ہے۔ لیکن معاشرے میں اس کا نفاذ بہت مشکل ہے۔ کیونکہ خواتین کے بارے میں سوچ تبدیل کرنے کی سخت مخالفت ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیے پرومونڈو اور ای سی ایف دونوں اپنے پروگراموں میں تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ جہاں کلاس روم میں لڑکوں کو پڑھانے کے بعد معاشرتی سطح پر بھی اس پروگرام کو نافذ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ پرومونڈو سکولوں اور ہسپتالوں کے ذریعے صنفی مساوات کو فروغ دینے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔ 'سرفروشی کی تمنا' کا نعرہ لگانے والی لڑکیاں ہی تبدیلی لائیں گی۔ پرومونڈو کے نائب صدر جیوانا لورو نے کہا: 'اگرچہ ہم نوجوانوں کی سوچ اور طرز عمل کو تبدیل بھی کردیں تو بھی انھیں اسی معاشرے میں رہنا ہے جہاں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔' لیکن ایسے پروگراموں میں شامل ہونے کے بعد لڑکے خود بھی اپنے ارد گرد تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ وہ معاشرتی سطح پر خواتین کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک سے نمٹنے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے پروگراموں میں معاشرے کی ضرورت کے مطابق تبدیلیاں لا کر اسے وسیع تر بنایا جاسکتا ہے۔
070118_balochistan_explosion_nj
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/01/070118_balochistan_explosion_nj
بلوچستان :دھماکہ ریل کی پٹری تباہ
بلوچستان کے شہر ڈیرہ مراد جمالی کے قریب ریل کی پٹڑی کو دھماکے سے تباہ کر دیا گیا ہے جس سے ریل گاڑیوں کی آمدو رفت متاثر ہوئی ہے۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا ہے کہ اس دھماکے سے ریل کی پٹڑی کا تین فٹ ٹکڑا اڑ گیا ہے۔ اس دھماکے کے بعد کوئٹہ اور ملک کے دیگر علاقوں کے درمیان ریل گاڑیوں کی آمدو رفت متاثر ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ ڈیرہ بگٹی سے مسلح قبائلیوں کے ترجمان نے دعوی کیا ہے کہ پیش بوگی کے مقام پر بجلی کے تین کھمبوں کو نقصان پہنچایا گیا ہے لیکن سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ یاد رہے گزشتہ روز حب اور مستونگ سے دھماکوں کی اطلاعات موصول ہوئی تھیں۔
151211_trump_chances_sq
https://www.bbc.com/urdu/world/2015/12/151211_trump_chances_sq
کیا ڈونلڈ ٹرمپ واقعی صدر بن سکتے ہیں؟
اپنے متنازعہ بیانات پر دیگر ریپبلکن امیدواروں کی جانب سے شدید تنقید کے باوجود ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ ابھی تک امریکی صدارت کے امیداروں میں سب سے آگے نظر آ رہے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت 25 فیصد پر رکی ہوئی نہیں ہے کیا ڈونلڈ ٹرمپ انتخابی جائزوں میں نظر آنے والی اس حمایت کو ریپلکن پارٹی کی جانب سے نامزدگی کے لیے درکار ووٹوں میں تبدیل کر سکتے ہیں اور آیا وہ واقعی امریکہ کے صدر بن سکتے ہیں؟ ریپبلکن پارٹی کے ارکان کی جانب سے رائے شماری کا باقاعدہ آغاز ریاست لووا سے یکم فروری کو ہوگا، جس کے بعد ریاست نیو ہیمشائر اور اس کے بعد باقی تمام ریاستیں یکے بعد دیگرے ڈیموکرٹک پارٹی کے مد مقابل اپنی جماعت کے امیدوار کا فیصلہ کریں گے۔ ہم نے امریکی سیاست کے کچھ ماہرین سے پوچھا کہ ان کے خیال میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امکانات کیا ہیں۔ نارمن اورنسٹین، محقق، امریکن اینٹرپرائیز انسٹیٹیوٹ ٹرمپ نامزد تو ہو سکتے ہیں لیکن صدر نہیں بن سکتے۔ اگرچہ سیاسی پنڈت ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے جیتنے کے کوئی امکانات نہیں ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اس دوڑ میں دیر تک رہیں گے اور اس بات کے امکانات بھی موجود ہیں کہ وہ ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی کی دوڑ جیت جائیں۔ یہ رائے دیتے ہوئے ہمیں ذرا محتاط رہنا ہوگا کیونکہ ابھی امریکی صدارت کی دوڑ شروع ہوئے بہت کم عرصہ ہوا ہے اور کچھ جائزوں سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی حمایت کرنے والے رائے دہندگان نے اس سے پہلے کبھی ابتدائی مراحل یا پرائمریز میں اپنی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ لیکن دوسری جانب دیکھا جائے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت 25 فیصد پر رکی ہوئی نہیں ہے، اور اگر یہ حمایت 25 فیصد پر رکی رہتی ہے تب بھی وہ کئی پرائمریز جیت سکتے ہیں جسے وہ ایک انتخابی لہر کے طور پر اپنے حق میں استعمال کر سکتے ہیں۔ انھیں ابھی تک زیادہ رقم لگانے کی ضرورت نہیں پڑی ہے، تاہم انھوں نے ابتدائی ریاستوں میں اپنا انتخابی ڈھانچہ ضرور کھڑا کر لیا ہے۔ آنے والے دنوں میں اگر یورپ یا امریکہ میں پیرس یا کیلیفورنیا جیسے دہشتگردی کے واقعے کے امکانات جتنے زیادہ ہوں گے، اسی قدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطیبانہ بیانات کو تقویت ملے گی اور اُن قدامت پسند رائے دہندگان میں ان کی مقبولت میں اضافہ ہوگا جو پہلے ہی خاصے برھم دکھائی دیتے ہیں۔ کئی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹیڈ کروز کو اس دوڑ سے باہر نہ سمجھا جائے اس کے علاوہ ہمیں یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہیے کہ ان دنوں مختلف ریڈیو سٹیشنوں سے منسلک اور انٹرنیٹ پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والے تجزیہ کاروں نے ملک میں ایک ایسی فضا بنا رکھی ہے جس میں اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت میں بہت کچھ کہا جا رہا ہے جس کا نشانہ ریپبلکن رہنما بھی ہیں اور خود صدر اوباما بھی۔ ان تجزیہ کاروں پر خاصا پیسہ لگایا جا رہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ ٹرمپ امریکہ کے صداتی انتخابات جیت جائیں لیکن یہ ناممکنات میں سے بھی نہیں ہے۔ رابرٹ شلیزنجر، ایڈیٹر، یو ایس نیوز ٹرمپ نہ تو نامزد ہو سکتے ہیں اور نہ ہی صدر بن سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں میرے پاس کئی دلائل موجود ہیں، جن میں سے پہلی بات امریکی انتخابات کی تاریخ ہے۔ آج تک امریکہ میں کسی جماعت نے کسی ایسے شخص کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد نہیں کیا ہے جو تجربے سے اتنا عاری ہو جتنا ڈونلڈ ٹرمپ ہیں۔ آج تک صرف پانچ ایسے افراد گزرے ہیں جو صدر بننے سے پہلے کسی بڑے عہدے پر فائز نہیں تھے اور ان پانچ میں سے تین ایسے تھے جو فوجی جرنیل تھے اور دوسرے دو وہ تھے جو کسی دوسرے بڑے عہدے پر فائز تو نہیں تھے لیکن صدارتی کابینہ میں ضرور رہ چکے تھے۔ اگر آپ ماضی قریب پر نظر دوڑائیں تو آپ کو دکھائی دےگا کہ انتخابی جائزے کتنے غلط ثابت ہو سکتے ہیں۔ آٹھ سال پہلے آج کے دن ہر جائزے میں یہی کہا جا رہا تھا کہ نیویارک کے سابق میئر رُوڈی جولیانی صدر بن جائیں گے، لیکن جو شخص نامزدگی کی دوڑ جیتا وہ سینیٹر جان مکین تھے جو جائزوں میں چوتھے نمبر تھے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مسٹر ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کے ایسے رائے دہنگان میں مقبول ہو چکے ہیں جو امریکی معیشت، تارکین وطن کی آمد اور دہشتگردی کے خلاف جاری پراپیگنڈے سے متاثر ہیں۔ اس کے علاوہ مسٹر ٹرمپ کو یہ برتری بھی حاصل ہے کہ وہ ہر وقت خبروں میں رہتے ہیں، لیکن میرا خیال ہے کہ نامزدگی کے آخری مراحل سے بہت پہلے ہی مسٹر ٹرمپ منظر سے غائب ہو جائیں گے۔ فروما ہاروپ، معروف کالم نگار ٹرمپ نامزد ہو سکتے ہیں لیکن صدر نہیں بن سکتے۔ آٹھ سال پہلے کہا جا رہا تھا کہ نیویارک کے سابق میئر رُوڈی جولیانی صدر بن جائیں گے ڈونلڈ ٹرمپ کا صدارتی دوڑ میں شامل ہونا شروع شروع میں تو محض ایک کھیل ہی دکھائی دیتا تھا۔ ان کے غیر سنجیدہ بیانات سے ہر کسی کو یہی لگتا تھا کہ وہ کوئی سنجیدہ امیدوار نہیں ہیں اور ان کا واحد مقصد صدارتی نامزدگی کی دوڑ کو خراب کرنا تھا۔ لیکن آج ہم وہاں کھڑے ہیں جہاں دنیا بھر میں لوگ ٹرمپ کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں لیکن دوسری جانب اپنے ان حماتیوں میں ٹرمپ کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑا جن کی اکثریت کا تعلق امریکہ کے کھاتے پیتے لوگوں سے ہے۔ تو کیا ٹرمپ ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی کا انتخاب جیت سکتے ہیں؟ یہ شکوک تو اب ختم ہو گئے ہیں کہ مسٹر ٹرمپ سنجیدہ امیداور نہیں ہیں۔ اسی طرح اس بات کے امکانات بھی اب ختم ہو گئے ہیں کہ ریپبلکن پارٹی کے کرتا دھرتا افراد ٹرمپ کو بالکل نظر انداز کر کے اپنا وزن کسی زیادہ سنجیدہ امیدوار کے حق میں ڈال سکتے ہیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ مسٹر ٹرمپ ریبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار بن سکتے ہیں۔ لیکن یہ بات کہنا غلط ہے کہ وہ امریکہ کے صدر بھی بن سکتے ہیں۔ ایسا بالکل نہیں ہو سکتا کیونکہ ایک طویل عرصے سے تمام جائزوں میں یہ بات مسلسل سامنے آ رہی ہے کہ ڈیموکریٹک پارٹی کی ہلیری کلنٹن مسٹر ٹرمپ سمیت ریپبلکن پارٹی کے تمام امیدواروں سے آگے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا حالیہ بیان اتنا بے تکا تھا کہ اب خود ریپبلکن پارٹی کے کئی ارکان نے کھلم کھلا یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ وہ ہلیری کلنٹن کے حق میں ووٹ ڈالنے کا سوچ رہے ہیں۔ ایک نئے جائزے کے مطابق ریپبلکن پارٹی کے ایک تہائی ارکان کا کہنا ہے کہ وہ مسٹر ٹرمپ کی باتیں سن کر پریشان ہیں اور انھیں فکر ہے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ امریکہ کے اگلے صدر مسٹر ٹرمپ نہیں ہوں گے۔ یہی بات کافی پریشان کن ہے کہ وہ اس دوڑ میں یہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ کائل کونڈیک، یونیورسٹی آف ورجینیا نامزدگی کے امکانات کم ہیں اور صدارت کا کوئی امکان نہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کی نامزدگی کے ابتدائی مرحلے میں ڈونلڈ ٹرمپ کے سب سے آگے رہنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ بے تُکے اور متنازعہ بیانات دینے کے باوجود ان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ ان بیانات سے ٹرمپ کو بہت نقصان پہنچا ہے۔ ٹرمپ کے نسل پرستانہ بیانات اور خطابت کے بعد ریبپلکن پارٹی کے اندر کئی رہنما اس بات کے قائل ہو گئے ہیں کہ عام انتخابات میں ہلیری کلنٹن جیسی مضبوط امیدوار کے مقابلے میں ٹرمپ کو لانا ریبلپکن پارٹی کے لیے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ تمام ابتدائی مراحل میں فیصلہ ووٹوں کے تناسب کے لحاظ سے کیا جائے گا امریکی صدارتی انتخابات میں پرائمریز کا مرحلہ ایک طویل مرحلہ ہوتا ہے جو فروری میں شروع ہوتا ہے اور جولائی میں پارٹی کے کنوینشن تک جاری رہتا ہے، اس لیے ریپبلکن پارٹی کے دیگر امیدوار اتنی دیر تک انتظار نہیں کریں گے۔ اگر مسٹر ٹرمپ کے خیال میں پرائمریز کے دوران تین گھنٹے تک سٹیج پر کھڑے ہو کر اپنی پارٹی کے دیگر صدارتی امیدواروں کی تقریروں کا سامنا کرنا مشکل ہے، تو انھیں سوچنا چاہیے کہ آخری مراحل میں ان کا حال کیا ہوگا۔ قومی سطح پر ٹرمپ خاصے غیر مقبول ہیں اور اس بات کا تصور مشکل ہے کہ وہ اس غیر مقبولیت کو مقبولیت میں کیسے تبدیل کریں گے۔ آئندہ صدارتی انتخابات کے حوالے سے ایک سوال مسلسل پوچھا جا رہا ہے اور وہ سوال یہ ہےکہ آیا ہیلری کلنٹن غیرسفید فام ووٹروں میں یہ جذبہ ابھار پائیں گی کہ وہ لوگ انتخابات کے دن باہر نکلیں اور اپنا ووٹ ڈالیں۔ اگر ریپبلکن پارٹی کی جانب سے مسٹر ٹرمپ پارٹی کے حتمی امیدوار ثابت ہوتے ہیں تو ہیلری کلنٹن کے لیے یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی کیونکہ اس صورت میں غیرسفید فام لوگ مسٹر ٹرمپ کے جیت جانے کے خوف سے باہر نکلیں گے اور ہیلری کے حق میں ووٹ ڈالیں گے۔ ربیکا ڈین، شعبہ سیاسیات، یونیورسٹی آف ٹیکسس ممکن تو ہے لیکن اس بات کے امکانات کم ہی ہیں کہ مسٹر ٹرمپ امریکہ کے صدر بن جائیں۔ اگرچہ مسٹر ٹرمپ ذرائع ابلاغ اور سیاست بازی سے بیزار لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، لیکن نامزدگی کا مرحلہ ابھی بہت دور ہے۔ نامزدگی کا انتخاب جیتنے کے لیے انھیں 2,470 میں سے 1,236 نمائندگان کی حمایت ضروری ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نمائندگان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مسٹر ٹرمپ کے لیے ضروری ہے کہ وہ پرائمریز کے مرحلے میں زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کریں۔ لیکن اس مرتبہ ریپبلکن پارٹی کی نیشنل کمیٹی نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ 15 مارچ سے پہلے کے مرحلے میں ہر ریاست کے امیدوار کا انتخاب متناسب نمائندگی کی بنیاد پر کیا جائے گا۔ 15 مارچ سے پہلے کئی ریاستوں میں پرائمریز کا مرحلہ مکمل ہو جائے گا اور خاص طور پر ریاست لووا اور نیو ہیمشائر کے نتائج قومی سطح پر اثر انداز ہوں گے۔ چونکہ ان تمام ابتدائی مراحل میں فیصلہ ووٹوں کے تناسب کے لحاظ سے کیا جائے گا، اس لیے اس بات کے امکانات زیادہ ہیں کہ مسٹر ٹرمپ اس دوڑ میں اپنے مد مقابل امیدواروں، مسٹر کروز، مارکو روبیو اور بین کارسن، سے ابتدائی مرحلے میں ہی مار کھا جائیں۔ اس لیے میرا خیال یہی کہ مسٹر ٹرمپ کے لیے اپنے متنازعہ بیانات پر تنقید اور متناسب نمائندگی کی پابندی کے مراحل سے کامیابی سے گزر کر حتمی نامزدگی تک پہنچا اتنا آسان نہیں ہوگا۔
151030_imran_khan_unfit_atk
https://www.bbc.com/urdu/sport/2015/10/151030_imran_khan_unfit_atk
فاسٹ بولر عمران خان ان فٹ ہو کر تیسرے ٹیسٹ سے باہر
پاکستانی کرکٹ ٹیم کے فاسٹ بولر عمران خان ان فٹ ہو کر انگلینڈ کے خلاف اتوار کے روز سے شارجہ میں شروع ہونے والے تیسرے ٹیسٹ میچ سے باہر ہوگئے ہیں۔
عمران خان نے ابوظہبی ٹیسٹ میں دو اور دبئی ٹیسٹ میں چار وکٹیں حاصل کی تھیں انگلش بولر مارک وڈ زخمی ہو کر تیسرے ٹیسٹ سے باہر جمعے کے روز شارجہ کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستانی ٹیم کی پریکٹس کے دوران گیند عمران خان کے دائیں ہاتھ پر لگی جس سے وہ بولنگ کرتے ہیں، جس کے بعد انھیں اسپتال لے جایا گیا۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے مینیجر انتخاب عالم کے مطابق عمران خان اس پوزیشن میں نہیں کہ تیسرا ٹیسٹ کھیل سکیں۔ توقع یہی ہے کہ ان کی جگہ فاسٹ بولر راحت علی کو پاکستانی ٹیم میں شامل کیا جائے گا۔ عمران خان نے ابوظہبی ٹیسٹ میں دو اور دبئی ٹیسٹ میں چار وکٹیں حاصل کی تھیں۔ وہ سات ٹیسٹ میچوں میں 20 وکٹیں حاصل کر چکے ہیں جس میں ان کی بہترین بولنگ 58 رنز کے عوض پانچ وکٹیں ہے۔
070208_turkey_georgia
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/02/070208_turkey_georgia
شاہراہ ریشم کی ایک اور کڑی
آذربائجان ، جارجیا اور ترکی کے رہنماؤں نے اپنے اپنے ملکوں کو جوڑنے والی ایک ریلوے لائن تعمیر کرنے کے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔
یہ ریلوے لائن آذری دارالحکومت باکو سے چل کے جارجیا کے شہر تبلسی سے ہوتی ہوئی مشرقی ترکی کے شہر کرس تک جائے گی۔ تبلسی میں ایک تقریب کے موقع پر جارجیا کے صدر نے کہا کہ یہ ریلوے لائن اس پرانی شاہراع ریشم کی جدید شکل ہوگی جو بحیرہ روم کے علاقے کو ایشیا سے جوڑتی تھی۔ ریلوے پر کام جون سے شروع ہونے والا ہے۔
050326_professor_killed_ny
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/03/050326_professor_killed_ny
داؤد کالج کے پرنسپل قتل
کراچی میں مسلح افراد نے داؤد کالج آف انجنئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے پرنسپل پروفیسر سلیم چودھری کو فائرنگ کر کے ہلا ک کر دیا ہے۔
ایک اعلیٰ پولیس افسر نے بتایا کہ تین نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے پروفیسر سلیم کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ گاڑی میں کالج سے گھر جا رہے تھے۔ انہیں لیاقت نیشنل ہسپتال لے جایا گیا تاہم ڈاکٹروں نے ان کی موت کی تصدیق کر دی۔ ان کی عمر تریپن برس تھی۔ اس واقعہ کے بارے میں مزید تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔پروفیسر سلیم کے قتل کی وجہ بھی ملعوم نہیں ہوسکی۔ جمشید ٹاؤن تھانے کے ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ جمعہ کو صوبے میں تعطیل تھی اور کالج بند تھا۔ کراچی میں کئی مذہبی علماء، سیاسی رہنما اور تعلیم و تدریس کے شعبے سے منسلک لوگ قتل کیے جا چکے ہیں۔
sport-49248264
https://www.bbc.com/urdu/sport-49248264
دروغے والا کا ارسلان صدیقی، ویڈیو گیم ’ٹیکن کا پاکستانی بادشاہ‘
’ایسا اس سے پہلے ٹیکن مقابلوں کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا کہ کوئی کھلاڑی پاکستان جیسے انجان ملک سے اٹھ کر آئے اور کورین، جاپانی، یورپی اور شمالی امریکی کھلاڑیوں پر چھا جائے۔ آج کی کہانی یہ ہے کہ ارسلان کو کوئی نہیں روک سکتا۔‘
یہ الفاظ امریکہ کے شہر لاس ویگاس میں ہونے والے اِیوو 2019 کے فائنل میچ کے دوران ایک کمنٹیٹر کے ہیں جو لاہور کے علاقے دروغے والے سے تعلق رکھنے والے ارسلان صدیقی کو ’ٹیکن گوڈ‘ کے نام سے جانے جانے والے ’ہولی نی‘ کو چاروں شانے چت کرتے دیکھ رہے ہیں۔ پچھلے ایک سال میں ٹیکن کی دنیا ’ارسلان ایش‘ کو واقعی نہیں روک پائی۔ ان کی کہانی اتنی ہی افسانوی ہے جتنی ان کرداروں کی ہے جن کی مدد سے وہ اپنے مخالفوں کو مات دیتے ہیں۔ ارسلان نے بچپن میں اپنے ساتھیوں کی طرح اپنے محلے میں ’ٹوکن والی گیم‘ کھیلی، اور پھر مختلف شہروں میں جا کر ٹورنامنٹ بھی جیتے۔ لیکن ای سپورٹس پاکستان کے بانی حسنین کہتے ہیں کہ ارسلان کی کامیابیوں کی وجہ ان کی انتھک محنت ہے۔ حسنین نے کہا کہ ’اگر آپ ان کو کبھی کھیلتے دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہ اتنے کامیاب کیوں ہیں۔ ارسلان کو میں نے 16 گھنٹے لگاتار کھیلتے دیکھا ہے، یہ لڑکا تھکتا نہیں ہے۔‘ حالانکہ والدین عام طور پر وہاں کے ماحول کی وجہ سے ٹیکن کے سینٹرز پر نہیں بھیجتے لیکن ارسلان کے والدین نے مشکلات میں بھی ان کا بہت ساتھ دیا شاید یہی وجہ ہے کہ ارسلان نے ایوو جیتنے کا سہرا ’اپنی ماں کی دعاؤں کے سر رکھا۔‘ دروغے والا سے لاس ویگاس تک ارسلان نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے کہا ’ایوو جیتنا کسی بھی ای سپورٹس کے کھلاڑی کا خواب ہوتا ہے کیونکہ یہ ای سپورٹس کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے۔ آپ کے کریئر کی سب بڑی کامیابی ہی یہی ہوتی ہے کہ آپ ایوو جیتیں۔ یہ میرے لیے بہت معنی رکھتا ہے۔‘ اس فتح کی اہمیت کا اندازہ ارسلان کی ڈرامائی کہانی سے لگایا جا سکتا ہے جن کے لیے ایک سال پہلے تک پاکستان سے باہر نکلنا بھی مشکل تھا۔ گذشتہ برس متحدہ عرب امارات میں ایک گیمر محمد البنا نے ایک ایسی کمپنی کھولنے کا فیصلہ کیا جو اس خطے کے بہترین کھلاڑیوں کی مالی معاونت کرے تاکہ وہ دنیا بھر کہ مقابلوں میں شرکت کر سکیں۔ ’ارسلان کو میں نے 16 گھنٹے لگاتار کھیلتے دیکھا ہے، یہ لڑکا تھکتا نہیں ہے۔‘ البنا نے ارسلان کو گذشتہ برس ابو ظہبی میں ایک ٹورنامنٹ میں بلایا جہاں اتفاق سے اس وقت کے ایوو چمپیئن ہولی نی بھی موجود تھے۔ ارسلان نے انھیں دونوں مرتبہ ہرا کر ای سپورٹس کی دنیا میں تہلکہ مچا دیا۔ البنا نے کہا ’میں خود بھی ایک گیمر ہوں اور میں نے ارسلان کی ویڈیوز دیکھ رکھی تھی اس لیے میں نے اس کو سپانسر کرنے کا سوچا کیوں کے ارسلان میں بہت ٹیلنٹ تھا۔‘ ارسلان کو ’ٹیکن کا گمنام خدا‘ کہا جانے لگا اور اس طرح ال بنا کا ان پر اعتماد بھی بحال ہو گیا۔ ٹیکن کی دنیا میں اگلا بڑا مقابلہ جاپان میں ہونے والا ایوو جاپان تھا۔ ’مجھے پاکستان کا ٹکٹ کروا دیں‘ جاپان کا یہ مقابلہ شاید ارسلان کے کریئر کا سب سے کٹھن اور اعصاب شکن مقابلہ تھا۔ اس کی وجہ اس ٹورنامنٹ میں شرکت کرنے والے بہترین کھلاڑی نہیں تھے بلکہ ان کے پاکستانی ہونے کے باعث ویزا کے مسائل تھے۔ ارسلان نے ایوو جاپان سے قبل دو دن مختلف ہوائی اڈوں پر در بدر ہوتے بسر کیے۔ ان مقابلوں میں وی سلیش کی ٹیم میں موجود گیمر وقاص علی کہتے ہیں کہ ارسلان کی قوت ارادی کے بارے میں انھیں اس دن پتا چلا۔ انھوں نے کہا کہ ’ایک موقع پر تو وہ کال کے دوران رو پڑا، اور کہنے لگا کے مجھے پاکستان کا ٹکٹ کروا دیں۔‘ ارسلان ٹورنامنٹ شروع ہونے سے چند گھنٹے قبل پہنچے۔ وقاص نے بتایا کہ ’ارسلان بہت تھک چکا تھا، اس کی آنکھوں کے نیچے حلقے پڑ چکے تھے اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ یہ اس حالت میں کیسے مقابلہ کر سکے گا۔‘ لیکن ارسلان نے ایک ایک کر کے تمام کھلاڑیوں کو مات دی اور ٹورنامنٹ اپنے نام کیا۔ وقاص نے کہا کہ ’میں نے اس جیسا کھلاڑی پہلے کبھی نہیں دیکھا، اتنی ہمت اور جرات کا مظاہرہ شاید ہی کوئی کر سکتا۔‘ ان کے سپانسر محمد البنا کہتے ہیں کہ انھیں ارسلان سے اتنی اچھی کارکردگی کی امید نہیں تھی۔ ارسلان کی وجہ سے لوگوں کو پتا چلا ہے کہ پاکستان میں ٹیکن کے حوالے سے کتنا ٹیلنٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس نے مجھے بھی حیرت میں مبتلا کیا جب اس نے دنیا کے دو مشکل ترین ٹورنامنٹ جیت لیے۔ ’میں بہت مطمئن ہوں اور جتنا میں نے سوچا تھا اس سے بہت زیادہ مجھے ملا ہے۔‘ ’ایوو ای سپورٹس کا ورلڈ کپ‘ سیالکوٹ کے رہائشی اور گیمر فرقان بشارت نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ جس طرح کرکٹ کا ورلڈ کپ ہوتا ہے ویسے ای سپورٹس کے لیے ایوو اس کا سب سے بڑا ٹورنامنٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اس میں بہت سخت مقابلے ہوتے ہیں اور یہ گیمرز کا خواب ہوتا ہے کہ وہ جیت پائیں، اتنا مشکل ہوتا ہے جیتنا۔‘ اس سال ٹیکن کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی نے ایک سال میں ایوو کے دونوں مقابلے جیتے ہیں۔ یہ منفرد اعزاز ارسلان کے پاس آیا اور انھوں نے ٹیکن کی تاریخ کے پہلے فاتح ہیں جنھوں نے دونوں مقابلوں میں پہلی مرتبہ شرکت کی اور مقابلے اپنے نام کیے۔ لاس ویگاس میں ہونے والے ایوو مقابلے میں نو مختلف گیمز میں 1500 کھلاڑیوں نے شرکت کی اور یہ تین دنوں پر محیط تھا۔ ٹیکن کے کھیل میں کھلاڑی افسانوی کرداروں کی مدد سے لڑائی کرتے ہیں۔ ارسلان عام طور پر ٹیکن کی افسانوی کردار کزومی سے کھیلتے ہیں جبکہ فائنل میچ میں ان کے مقابل کھلاڑی ہولی نی ٹیکن کردار کزویا سے کھیلے۔ اتفاق سے کزومی اور کزویا کا افسانوی رشتہ ماں اور بیٹے کا ہے۔ ارسلان کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے ہولی نی کو پچھلے ایک سال میں کبھی جیتنے نہیں دیا۔ ارسلان نے بچپن میں اپنے ساتھیوں کی طرح اپنے محلے میں 'ٹوکن والی گیم' کھیلی، اور پھر مختلف شہروں میں جا کر ٹورنامنٹ بھی جیتے ایوو فائنل میں کیا ہوا یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری ہے کہ اتنے بڑے مقابلے میں ٹیکن ایک انتہائی مشکل کھیل بن جاتا ہے۔ فرقان کہتے ہیں کہ ’تھری ڈی‘ موومنٹ کی وجہ سے یہ گیم انتہائی کٹھن ہو جاتی ہے کیونکہ اگر آپ ایک غلطی بھی کرتے ہیں تو آپ پورا راؤنڈ ہار سکتے ہیں۔ فائنل سے پہلے ارسلان ’ونر بریکٹ‘ میں تھے یعنی پورے ٹورنانمنٹ میں انھیں ایک بھی میچ میں شکست کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ جبکہ دوسری جانب ہولی نی ارسلان کے ہاتھوں شکست کے بعد ’لوزر بریکٹ‘ میں آ گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہولی نی کو ٹورنامنٹ جیتنے کے لیے ارسلان کو دو مرتبہ ہرانا تھا لیکن وہ پہلے میچ میں ہی ہار گئے۔ ایک میچ میں پانچ سیٹ اور ایک سیٹ میں پانچ راؤنڈ ہوتے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ارسلان نے عمدہ کھیل پیش کیا۔ پہلے تین سیٹس کے بعد 2-1 سے ناکامی کے بعد نی نے کردار بدلنے کا سوچا اور کزویا کی جگہ ڈیول جن کے ذریعے ارسلان کی کزومی کا مقابلہ کرنے کی ٹھانی۔ یہ اپنے طور پر ارسلان کے لیے ایک نفسیاتی فتح تھی۔ کمنٹیٹر بھی ارسلان کی کارگردگی سے متاثر نظر آئے۔ انھوں نے کہا کہ ’ارسلان کی ذہانت متاثر کن ہے۔ وہ ہر موقع پراپنے مخالفوں سے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔ ارسلان کو کوئی بھی روک نہیں سکا۔‘ 'ارسلان کی ذہانت متاثر کن ہے۔ وہ ہر موقع پراپنے مخالفوں سے ایک قدم آگے ہوتا ہے۔ ارسلان کو کوئی بھی روک نہیں سکا۔' پاکستان میں ٹیکن کی مقبولیت پاکستان میں پہلے ہی ٹیکن ایک مقبول کھیل ہے اور لوگ اب ٹیکن کے میچ براہِ راست دکھانے میں بھی شوق رکھتے ہیں اور نوجوان خاص کر اسے تفریح کے طور پر کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ارسلان کی پچھلے ایک برس کی فتوحات کی بنا پر پاکستان کو عالمی طور پر مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ پچھلے ماہ جاپانی کھلاڑی کرو کرو نے پاکستان آ کر پاکستانی انداز سیکھنے اور کھلاڑیوں کے ساتھ پریکٹس کرنے کا اعلان کیا۔ ای سپورٹس پاکستان کے شریک بانی حسنین کہتے ہیں کہ ارسلان کی وجہ سے لوگوں کو پتا چلا ہے کہ پاکستان میں ٹیکن کے حوالے سے کتنا ٹیلنٹ ہے۔ انھوں نے کہا کہ ارسلان نے جتنی آسانی سے یہ ٹورنامنٹ جیتا ہے اس سے گیمنگ کمپنیوں کی توجہ پاکستان کی جانب مرکوز ہوئی ہے۔ ارسلان خود کہتے ہیں کہ ’اس جیت سے پاکستان میں ای سپورٹس پر بہت اچھا اثر پڑے گا کیونکہ بہت سارے سپانسر پاکستان میں کھلاڑیوں کو سپانسر کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔‘ انہوں نے پاکستان میں موجود ٹیکن اور دوسری ای سپورٹس کے دیوانوں کے والدین کو پیغام دیا کہ آپ اپنی اولاد کی پڑھائی پر اتنا پیسا خرچ کرتے ہیں تو اگر کوئی ای سپورٹس میں اچھا ہے تو اسے بھی ایک موقع ضرور ملنا چاہیے۔‘
031022_pak_india_new_measures_ms
https://www.bbc.com/urdu/forum/story/2003/10/031022_pak_india_new_measures_ms
بھارت کی امن تجاویز، آپ کی رائے
بھارت کے وزیرِ خارجہ یشونت سنہا نے پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لئے نئی تجاویز کا اعلان کیا ہے۔ ان تجاویز میں دونوں ملکوں کے درمیان کرکٹ کے تعلقات کی بحالی، دونوں ملکوں کے درمیان مزید بسیں، راجستھان اور سندھ میں سڑک اور ریل کا رابطہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت سری نگر اور پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد کے درمیان بس سروس اور حتیٰ کہ کراچی اور ممبئی کے درمیان فیری سروس شروع کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔
تاہم انہوں نے اس میں کہیں بھی پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے امکان پر کچھ نہیں کہا جس کا اصرار پاکستان کرتا آیا ہے۔ نہ ہی پاکستان نے اس پر کسی ردِّعمل کا اظہار کیا ہے۔ اس سے قبل بھارتی حکومت نے کشمیر میں سرگرم شدت پسند تنظیم کے رہنماؤں کے ساتھ مذاکرات پر بھی رضامندی کا اظہار کیا تھا تاہم بھارتی وزیرِ خارجہ نے اس بات پر زور دیا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ آپ کے خیال میں کیا پاکستان کو ان تجـاویز کا خیر مقدم کرنا چاہئے؟ کیا بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر پر مذاکرات شروع کئے بغیر ان تجاویز کے مطابق تعلقات کی بحالی ہونی چاہئے؟ ----------------- یہ فورم اب بندہوچکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں------------------ انڈیا ہمارا دشمن ہے۔ اور اسرائیل اور امریکہ ہمیں ڈرارہے ہیں۔ قلندر فیصل قلندر فیصل، پاکستان انڈیا ہمارا دشمن ہے۔ اور اسرائیل اور امریکہ ہمیں ڈرارہے ہیں۔ ہمیں ایک بہادر قوم کی طرح اس کا مقابلہ کرنا چاہئے۔ اور ہمیں ’نظریۂ پاکستان‘ پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہئے۔ پاکستان اور بھارت کے موجودہ مسائل بٹوارے کی وجہ سے ہے۔ خائستہ خان خائستہ خان، کیلی فورنیا حقیقت میں بھارت اور پاکستان کو سرحد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ انہیں ایک ساتھ رہنا چاہئے۔ موجودہ مسائل بٹوارے کی وجہ سے ہے۔ جب دونوں ملک ہزاروں سال سے ایک ساتھ رہتے رہے تھے، تو اب کیوں نہیں؟ حماد احمد، جرمنی سب سے پہلے کشمیر۔ عتیق زمان، ٹیکسس یہ انڈیا کی ایک اور سفارتی کوشش ہے تاکہ کشمیر میں بین الاقوامی سرحد کی تصدیق ہوجائے۔ اگر آپ کشمیر میں سرحد کھولتے ہیں تو پھر آپ کو ایک بین الاقوامی چیک پوسٹ بھی بنانا ہوگا جس سے اس بات کی تصدیق ہوجائے گی کہ کشمیر انڈیا کا حصہ ہے۔ اور میں ایک پاکستانی کی حیثیت سے کہ سکتا ہوں کہ پاکستان اسے قبول نہیں کرے گا۔ انڈیا ہمارا کچھ نہیں کرسکتا۔ ایم ظہیر شریفی ایم ظہیر شریفی، جرمنی میری طرف سے پورا انکار ہے۔ انڈیا ہمارا کچھ نہیں کرسکتا۔ اویس محمد، جرمنی میرے خیال میں انڈیا مخلص نہیں ہے۔ دو یا تین دن تک سامنے آجائے گا کہ اس بات کے پیچھے کیا ہے۔ پہلے تو انڈیا اور پاکستان اپنی افواج کشمیر کے دونوں حصوں سے واپس بلالیں اور اس کے بعد کشمیری عوام کو ایک کھلے ماحول میں اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے رائے دہندگی کا موقع دیں۔ میں بھی کشمیری ہوں لیکن یہ صرف میری رائے نہیں ہے بلکہ تمام کشمیریوں کی ہے۔ اے یو رحمان راجہ، اسٹاک ہوم اے یو رحمان راجہ، اسٹاک ہوم میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہتر تجاویز ہیں لیکن دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی بھی ضرورت ہے اور کشمیری عوام کی رائے کا احترام بھی کرنا چاہئے۔ پہلے تو انڈیا اور پاکستان اپنی افواج کشمیر کے دونوں حصوں سے واپس بلالیں اور اس کے بعد کشمیری عوام کو ایک کھلے ماحول میں اپنے مستقبل کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے رائے دہندگی کا موقع دیں۔ میں بھی کشمیری ہوں لیکن یہ صرف میری رائے نہیں ہے بلکہ تمام کشمیریوں کی ہے۔ عبدالسمیع میمن، میرپورخاص آپ نے پوچھا ہے کہ کیا انڈیا اور پاکستان رابطہ بحال کریں، میں کہتا ہوں کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لئے کہ امریکہ کے اسلحے کون خریدے گا؟ اسرائیل کے اسلحے کون خریدے گا؟ رانا محمد ناصر خان، نیوزی لینڈ جس طرح ندی کے دو دھارے کبھی نہیں ملتے اسی طرح پاکستان اور انڈیا کبھی نہیں مل سکتے۔ عبدالرزاق راجہ، دبئی میرے خیال میں پاکستان پہلے سے ہی ان تجاویز کے حق میں تھا۔ اگرچہ ان میں کشمیر کے بارے میں کچھ بھی نہیں ہے، پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو مثبت طور پر جواب دینا چاہئے۔ اس سے دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال ہوگا۔ اویس سید، محتدہ عرب امارات میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو یہ تجاویز منظور کرلینی چاہئے۔ اس لئے کہ کشمیر دونوں ملکوں کا خود کا پیدا کیا ہوا مسئلہ ہے۔ احمر خان، پاکستان کچھ بھی ہوجائے، جتنی بھی ٹرین سروِس شروع ہوجائے، کرکٹ دوبارہ شروع ہوجائے، مگر مسئلہ وہیں اٹک جائے گا۔ اور مسئلہ ہے کشمیر کا۔ فاطمہ شاہین، جرمنی اچھی تجاویز ہیں۔ دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع ملے گا۔ اور دونوں ممالک میں خوشحالی آئے گی۔ آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل ہمیں۔ ہم دو ملک ہی اچھے لگتے ہیں۔ بات باتوں سے نہیں بنتی بلکہ خلوص بنیادی چیز ہے۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو حل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو مثبت جواب دینا چاہئے۔ عبدالغفور چودھری، بحرین عبدالغفور چودھری، بحرین ’آپ کی نظروں نے سمجھا پیار کے قابل ہمیں۔‘ ہم دو ملک ہی اچھے لگتے ہیں۔ بات باتوں سے نہیں بنتی بلکہ خلوص بنیادی چیز ہے۔ دنیا کا کوئی مسئلہ ایسا نہیں جو حل نہیں ہوسکتا۔ پاکستان کو مثبت جواب دینا چاہئے۔ شاہد سومرو، جرمنی میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو ان تجاویز کا جزوی طور پر خیرمقدم کرنا چاہئے۔ مکمل تعلقات کی بحالی کشمیر پر مذاکرات سے منسلک ہونا چاہئے۔ شاہنواز نصیر، کوپین ہیگین، ڈنمارک میرا خیال ہے کہ یہ ایک مثبت قدم ہے۔ لیکن مسئلہ پھر وہیں پہ آکے اٹکا ہے کہ کشمیر پر بات ہو یا نہ ہو۔ بنیادی مسئلہ کشمیر ہی ہے۔ انڈیا ایک بڑا ملک ہے۔ اسے بڑکپن کا مظاہرہ کرنا ہوگا، کشمیر کے معاملے میں اور اسے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان ایک الگ ملک ہے، نہ کہ انڈیا کا حصہ۔ کمال احمد منصور، فیصل آباد جس طرح کینسر والے مریض کو تسلیاں دیکر اس کے کینسر کو ختم نہیں کیا جاسکتا، بالکل اسی طرح انڈیا چھوٹی چھوٹی تجاویز سے پاک۔انڈیا تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ جب تک کینس (کشمیر) والے مسئلے کا حل نہیں ہوتا۔۔۔ محمد شعیب ملِک، سرگودھا ہم بھارت سےتعلقات بہتر کرنا چاہتے ہیں لیکن بھارت امن کے لئے خلوص سے کام نہیں کررہا ہے۔ اگر ہم کہتے ہیں کہ کشمیر اصلی مسئلہ ہے تو بھارت ہماری اور بین الاقوامی برادری کی آنکھ میں دھول جھونکنا چاہتا ہے۔ سب سے پہلے کشمیر، پھر بعد میں کچھ۔۔۔۔ انڈیا نے یہ اعلان کرکے خصوصا سندھ کے اردو بولنے والوں کا دل جیت لیا ہے ۔ خصوصا کھوکھراپار کا راستہ کھلنا یاہاں کے عوام کے لئے ایک خواب کی مانند ہے۔ اللہ کرے کہ ہماری گورنمنٹ بھی اس دیرینہ مطالبے پر اپنا مثبت ردعمل ظاہر کرے۔ سید خالد حسین جعفری، حیدرآباد سید خالد حسین جعفری، حیدرآباد انڈیا نے یہ اعلان کرکے خصوصا سندھ کے اردو بولنے والوں کا دل جیت لیا ہے ۔ خصوصا کھوکھراپار کا راستہ کھلنا یاہاں کے عوام کے لئے ایک خواب کی مانند ہے۔ اللہ کرے کہ ہماری گورنمنٹ بھی اس دیرینہ مطالبے پر اپنا مثبت ردعمل ظاہر کرے۔ اور مصلحت پسندی سے کام نہ لے۔ ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہے کہ ایک اعلان ہوتا ہے اور پھر بات وہیں میرے پاکستانی گورنمٹن سے التجا ہے کہ خدارا اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور فی الفور کھوکھرا پار کا راستہ کھولا جائے۔ محمد افضال عباسی، مالدیپ یہ مثبت سمت میں ایک شروعات بھی نہیں ہے۔ در حقیقت انڈیا اصلی مسئلے سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔ اسی لئے اس طرح کی تجاویز آرہی ہیں، اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ہر وہ تعلقات جو انڈیا شروع کرنا چاہتا ہے خود اسی نے بند کیا تھا۔ ڈاکٹر امیرحمزہ، یوکرائین اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اگر پاکستان یہ ساری باتیں مان جائے تو پھر انڈیا اپنی زبان سے مکر نہیں جائے گا، ماضی کی طرح۔ اگر کوئی اس بات کی ضمانت دینے کو تیار ہے تو یہ ایک خوش آئند اور مثبت قدم ہوگا۔ غیاث انجم، ایبٹ آباد میرے خیال میں یہ بات چیت ہونی چاہئے اور پاکستان کو انڈیا کی اس پیشکش کو بلاتاخیر قبول کرنا چاہئے کیونکہ ان تجاویز کا اثر براہ راست عوام پر پڑےگا اور اسی مین دونوں ممالک کی بہتری ہے۔ شیر اکبر حسن، کویت جب تک اصل مسئلہ موجود ہے اسے حل کیے بغیر کچھ کرنا اپنے آپ کو دھوکہ دینے والی بات ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ پاکستان کے حکمراں اسے کشمیر اور سلامتی کے مسئلے سے جوڑ کر سبوتاژ کر دیں گے۔ ناظم سید محمد، پاکستان ناظم سید محمد، پاکستان پاکستان میں بھارتی وزیر کی پیش کش کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے حضوصاً آپس میں بچھڑے ہوئے خاندانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ پاکستان کے حکمراں اسے کشمیر اور سلامتی کے مسئلے سے جوڑ کر سبوتاژ کر دیں گے۔ ٹیپو کامران، کینیڈا پاکستان کو بھارت کو مثبت جواب دینا چاہئے۔ وہاج احمد، کراچی، پاکستان جہاں تک امن کا سوال ہے وہ تو کشمیر کے حل ہونے تک نہیں قائم ہو سکتا۔ اگر ہم بھارتی تجاویز مان لیتے ہیں تو کیا بھروسہ کہ کل وہ کچھ جھوٹے گواہ یا ثبوت بنا کر دنیا کو یہ دکھائے کہ دیکھئے ان راستوں کے ذریعے پاکستان دراندازی کر رہا ہے اور یہ کہ ہم نے بہت کوشش کی مگر یہ امن قائم کرنا ہی نہیں چاہتا۔ یہ سب باتیں لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کےلئے ہیں اس لئے ان کا کوئی فائدہ نہیں۔ محمد فاروق، اومان یہ پاکستان کے ساتھ دھوکہ ہے۔ علی خان بنگش، پشاور، پاکستان یہ بہت اچھا قدم ہے اور پھر کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں ہے۔ بھارت اپنا دفاع مضبوط بنا رہا ہے، ٹال مٹول کر رہا ہے اور دنیا کی نظروں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ ڈاکٹر نصیر احمد طاہر، پاکستان ڈاکٹر نصیر احمد طاہر، پاکستان بھارت اپنا دفاع مضبوط بنا رہا ہے، ٹال مٹول کر رہا ہے اور دنیا کی نظروں کو دھوکہ دے رہا ہے۔ ایک تیر میں تین شکار محسن، نیو یارک، امریکہ سوچ سمجھ کر اور اپنے مفادات کو مدِّ نظر رکھ کر تجویز قبول کرلینی چاہئے کیوں کہ سب سے پہلے پاکستان۔ عمران صدیقی، کراچی، پاکستان بھارت پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے میں کبھی بھی مخلص نہیں رہا۔ اس کے بیانات روز بدلتے رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کی حالیہ کانفرنس کی وجہ سے اسے لگ رہا ہے کہ پاکستان مسلمانوں کو متحد کرنے والا ہے اس لئے وہ پاکستان کی توجہ اس مقصد سے ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ فوج کو ڈر ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ ختم ہو گیا تو ان کے وجود کا کوئی جواز نہیں بچے گا۔ تصور حسین، نیویارک، امریکہ تصور حسین، نیویارک، امریکہ پاکستان اور بھارت جلد ہی ایک ملک ہوں گے کیونکہ ہماری تاریخ ایک ہے۔ بھارت میں پاکستان سے زیادہ مسلمان بستے ہیں اور میرا خیال ہے کہ دونوں ممالک میں ریفرنڈم کروانا چاہئے کہ آیا دونوں ملکوں کے عوام مل کر رہنا چاہتے ہیں یا نہیں۔ پاکستان کی فوج کشمیر کی صورتِ حال کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہے۔ سب سے پہلے تو پاکستان میں جمہوریت بحال ہونی چاہئے کیونکہ فوج کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمی یا مذاکرات میں حصہ لینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ پھر ہمیں بھارت کے ساتھ کسی سیاسی تصفیے کی بات کرنا چاہیے کیونکہ فوج کو ڈر ہے کہ اگر کشمیر کا مسئلہ ختم ہو گیا تو ان کے وجود کا کوئی جواز نہیں بچے گا۔ محمد نشاط، پاکستان بھارت کی طرف سے یہ ایک اچھا قدم ہے اور بالکل یہ درست تجاویز ہیں۔ پاکستان کو ان سب تجاویز کا خیرمقدم کرنا چاہئے۔ عامر خان، نیو کیلیڈونیہ چلو یہ بھی کر کے دیکھ لیں۔ کشمیر بھارت کے لئے زمین اور پاکستان کے لئے پانی کا مسئلہ ہے دونوں اب بھرم قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ اے کاش کہ ایسا ہو جائے۔ محمد رضا، قطر پاکستان کو بھارت کی پیش کش قبول کرنی چاہئے۔ یہ مسائل کے حل کی طرف ایک بہتر قدم ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کم ہوگی اور دل ودماغ بدلنے میں مددگار ثابت ہوگی۔ خالد شاہین، ورسمولڈ، جرمنی تجاویز اچھی ہیں۔ ان پر عمل درآمد سے دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کو بہتر سمجھ سکیں گے، میل جول بڑھے گا، محبت اور ہمدردی کے جذبات پھیلیں پھولیں گے۔ کسی اور مسئلے پر بات نہیں ہو سکتی سوائے کشمیر کے۔ مختار نقوی، فلوریڈا، امریکہ مختار نقوی، فلوریڈا، امریکہ بھارتی تجاویز میں کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ ان کا تعلق اس مرکزی مسئلے سے نہیں ہے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان پچھلے چھپن برسوں سے وجہِ تنازعہ ہے۔ ایک مضحکہ خیز پیش کش بھارت میں بیس پاکستانی بچوں کے علاج کی ہے۔ پاکستان کو مکمل طور پر یہ تمام تجاویز رد کر دینی چاہئیں۔ کسی اور مسئلے پر بات نہیں ہو سکتی سوائے کشمیر کے۔ احمد پنوار، ابوظہبی انڈوپاک ایک ساتھ اچھا لگتا ہے۔ میں تو چاہتا ہوں کہ پاکستان اور انڈیا کا ایک نام ہونا چاہئے: انڈوپاک۔ منظر انصاری، کینیڈا بالکل پاکستان کو یہ تجویز اچھی طرح پاکستان کے تحفظ اور دوستی کے معیار پر چیک کرکے قبول کرلینا چاہئے۔ جب دلوں میں کھوٹ ہو تو کوئی کام کیسے ہوسکتا ہے؟ جب تک یہ دونوں ملک مخلص نہیں ہونگے، مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ علینا علی، انگلینڈ علینا علی، انگلینڈ جب دلوں میں کھوٹ ہو تو کوئی کام کیسے ہوسکتا ہے؟ جب تک یہ دونوں ملک مخلص نہیں ہونگے، مسئلہ حل نہیں ہوسکتا۔ جہاں حکومت سطح اور عوامی سطح پر دونوں میں ایک دوسرے ملک کے خلاف اتنی زیادہ نفرت ہو، تو کوئی بھی مسئلہ اتنی آسانی سے حل نہیں ہوسکتا۔ خالد سلیم، پتوکی، پاکستان ہاں، دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم کرنے کے لئے ضروری ہے۔ طارق فاروق، ماڈل ٹاؤن، لاہور پاکستان اور انڈیا ایک ندی کے دو کنارے ہیں۔ یہ چاہیں جتنی بھی کوشش کرلیں کبھی بھی سب سے بڑے کشمیر مسئلے پر متفق نہیں ہونگے۔ الیکس، آئیوا، امریکہ دونوں ملکوں کے درمیان کسی فیری، بس، ریل یا فضائی تعلقات کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم نہیں چاہتے ہیں کہ بھارتی ہمارے ملک میں آئیں۔ ہمیں ان کی ضرورت نہیں، انہیں ہماری ضرورت ہے۔ امن کی جانب ہر پیش قدمی کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ دونوں ممالک تعلقات کی بہتری میں کتنے مخلص ہیں۔ ہارون کھوکر، لیڈز، انگلینڈ ہارون کھوکر، لیڈز، انگلینڈ امن کی جانب ہر پیش قدمی کا خیرمقدم کیا جانا چاہئے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ دونوں ممالک تعلقات کی بہتری میں کتنے مخلص ہیں۔ دونوں ملک جو پیسہ ہتھیار خریدنے پر صرف کررہے ہیں وہ ہسپتال، اسکول اور کالجوں کی تعمیر کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ عامر ہاشمی، گجرانوالہ میرے خیال میں یہ کام ہونا چاہئے کیونکہ اس طرح دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے نزدیک آنے کا موقع ملے گا۔ اور جب دونوں ملک قریب آئیں گے تو دوسرے مسئلے بھی حل ہوسکیں گے۔
pakistan-49092826
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-49092826
خیبر پختونخوا: قبائلی علاقوں کے انتخابات میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح پر سوالات
پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں انتخابات کے دوران ڈالے گئے ووٹوں کی شرح کے مطابق کم سے کم دو حلقے ایسے ہیں جہاں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 10 فیصد سے کم ہے لیکن الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وہاں ووٹ ڈالنے کی شرح کہیں زیادہ بتائی گئی ہے۔
قبائلی علاقوں میں مردوں کے ووٹ ڈالنے کی شرح نکالنے کے لیے فارمولا کچھ اور ہے جبکہ خواتین کے ووٹ ڈالنے کا تناسب مختلف طریقے سے نکالا گیا ہے۔ شمالی وزیرستان کے حلقہ پی کے 112 میں مردوں کے کل ووٹوں کی تعداد 1,17811 ہے اور یہاں کل ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 31,910 ہے۔ شرح کے تعین کے لیے عام طور پر جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اس کے تحت ڈالے گئے ووٹ کو کل ووٹوں سے تقسیم کر کے 100 سے ضرب دی جاتی ہے اور اس حساب سے یہ شرح 27 فیصد سے کچھ زیادہ بنتی ہے۔ یہ بھی پڑھیے ’بیشتر خواتین کو معلوم نہیں تھا کہ ووٹ کیسے ڈالا جاتا ہے‘ قبائلی علاقوں مں انتخابات: تحریک انصاف کو سبقت صوبائی انتخابات: قبائلی عوام کا مستقبل کیا ہوگا؟ ’قبائلیوں کو بھی سہولت گھر کی دہلیز پر ملنی چاہیے‘ اب اسی حلقے میں خواتین کے کل ووٹوں کی تعداد 61,313 ہے اور یہاں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد 4,470 ہے اس کے لیے اگر مردوں والا فارمولا استعمال کیا جائے تو جواب 3.7 آئے گا لیکن الیکن کمیشن کی ویب سائٹ پر یہ 03.12 لکھا گیا ہے۔ اب یہ حساب کتاب میں کچھ غلطی ہوئی ہے یا دانستہ طور پر ایسا کیا گیا ہے اس بارے میں الیکشن کمیشن سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔ بی بی سی نے الیکشن کمیشن پشاور اور اسلام آباد کے ترجمانوں کو پیغامات بھی بھیجے لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اسی طرح ضلع خیبر کے حلقہ پی کے 107 میں خواتین کے کل ووٹوں کی تعداد 92,450 ہے جبکہ یہاں کل 6,498 ووٹ ڈالے گئے۔ اس اعتبار سے ووٹ ڈالے جانے کی شرح سات فیصد بنتی ہے لیکن الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ پر جو فارمولا استعمال کیا گیا اس میں یہ شرح 17 فیصد سے زیادہ بتائی گئی ہے۔ الیکشن کمیشن کے قانون کے تحت جس حلقے میں خواتین کے ووٹ ڈالے جانے کی شرح دس فیصد سے کم ہو گی وہاں پولنگ دوبارہ ہو گی۔ اس کے برعکس الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے قبائلی علاقوں میں انتخابات میں تمام حلقوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ووٹ ڈالنے کا مجموعی تناسب 4۔26 رہا جس میں مردوں کے ووٹ ڈالنے کی شرح 4۔31 جبکہ خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 6۔18 رہی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پی کے 109 کرم کے رجسٹرڈ ووٹوں میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح 5۔44 رہی جو کہ سنہ 2018 میں کے عام انتخابات میں چترال میں خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح سے کہیں زیادہ ہے۔ اب اگر ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد دیکھی جائے تو اس کے تحت یہ تناسب 6۔40 ہی رہ جاتا ہے جو قبائلی علاقوں میں خواتین کی شرح کے حوالے سے کافی حد تک بہتر ہے۔
070504_climate_change_uk
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2007/05/070504_climate_change_uk
’ماحول کے بچاؤ کیلیے معاہدہ ہوگیا‘
تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں اقوام متحدہ کی ماحولیات و موسمی تبدیلی سے متعلق ایک اہم کانفرنس میں عالمی حدت سے نمٹنے کے لیے کئی اقدامات پر اتفاق ہوا ہے۔گلوبل وارمنگ: لائف سٹائل بدلنا ہوگااس حوالے سے چین کے تحفظات پر طویل بحث بھی کی گئی۔ متنازعہ مسائل میں کیوٹو پروٹوکول کی زبان، آلودگی کم کرنے کی لاگت اور جوہری توانائی شامل تھے۔
موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل (آئی پی پی سی) کے اس سال کے اندازوں کا تیسرا حصہ آلودگی کم کرنے اور معاشی مسائل پر قابو پانے کے طریقے ڈھونڈتا نظر آرہا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر رپورٹ جمعہ کو جاری ہونا ہے۔ جنوبی افریقہ کے مندوب پیٹر لوکی نے خبر رساں ادارے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا ’سب طے ہوگیا ہے ۔۔۔۔ اور پیغام یہ ہے کہ ہمیں اب کچھ کرنا ہے‘۔ مندوبین کے مطابق چین نے بار بار کوشش کی کہ کانفرنس کے مسودے میں بعض جگہ لب و لہجے کو ذرا نرم کیا جائے۔ اس کی کوشش رہی کہ ایسے تمام حوالوں کو مسودے سے خارج کر دیا جائے جس سے اس کے قلیل المیعاد معاشی مفادات کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہو۔ آئی پی سی سی رواں سال کے دوران پہلے ہی دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی کی سائنس اور اس کےا ثرات کے دو اور پہلوؤں پر جائزہ رپورٹس دے چکا ہے۔ کانفرنس کی رپورٹ میں ماحول میں گرین ہاؤس گیسز کو محدود کرنے کی معاشی لاگت کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ بی بی سی کے ماحولیات کے نامہ نگار رچرڈ بلیک کے مطابق گرین ہاؤس گیسز کو کاربن ڈائی اکسائیڈ کے فی ملین 650 حصوں (پی پی ایم) کے برابر محدود کرنے سے دنیا کی کل مجموعی پیداوار (جی ڈی پی) 0.2 فیصد کم ہو جائے گی۔ نامہ نگار کے مطابق گرین ہاؤس گیسز کو اگر 550 پی پی ایم تک محدود کرنے کی سعی کی گئی تو دنیا کی جی ڈی پی 0.6 فیصد کم ہوجائے گی۔ گرین ہاؤس گیسز کا موجودہ ماحولیاتی حجم 425 پی پی ایم ہے اور بہت سے ماحولیاتی آئی پی سی سی کے مطابق گرین ہاؤس گیسز کے حجم کو اس سطح تک محدود رکھنے کی لاگت دنیا کی 3 فیصد جی ڈی پی کے برابر ہو سکتی ہے۔ کیلیفورنیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر سٹیفن شنیڈر کا کہنا ہے کہ گرین ہاؤس گیسز کے حجم کو 450 پی پی ایم تک محدود رکھنا اب نا ممکن ہے۔ ان کے مطابق تاہم انہیں 450 سے 550 پی پی ایم کے درمیان رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے وگرنہ درجہ حرارت میں دو سے تین درجے اضافے سے ساحلی علاقوں پر مسائل، پہاڑی گلیشیئرز کے غائب ہونے اور برف کی چادروں کے پگھلاؤ کا خطرہ رہے گا۔
140302_baat_se_baat_susat_tk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/03/140302_baat_se_baat_susat_tk
بندر سے استرا کون چھینے؟
جرمن ماہِرِ عمرانیات میکس ویبر کے مطابق کسی بھی ریاست کا وجود مضبوطی سے صرف اس وقت تک قائم رہ سکتا ہے جب طاقت کے استعمال کا اختیار صرف اور صرف اس کے پاس رہے اور ریاست کی حدود میں موجود نسلی، لسانی اور نظریاتی گروہوں کی اکثریت اس سے برضا و رغبت وفادار رہے اور اپنے انفرادی و اجتماعی وجود کے تحفظ کے لیے ریاست سے ہٹ کر کسی اور جانب نہ دیکھے۔
یوں سمجھ لیجیے کہ جس طرح ایک میان میں دو تلواریں یا ایک خاتون کے دو شوہر نہیں ہوتے اسی طرح ایک ریاست کے بنیادی اختیار کے دو جائز مالک نہیں ہو سکتے۔ کسی ایک کو ماننا یا جانا پڑے گا۔ بصورتِ دیگر تشدد اپنی زبان، اختیار، دائرہ، ثقافت اور لفظیات ساتھ لائے گا اور سب سے اپنی مرضی کی املا لکھوائے گا۔ جس طرح انسان بیمار و صحت یاب ہوتا ہے اسی طرح ریاستیں بھی بیمار و صحت مند ہوتی ہیں۔ انسان بیماری کی بروقت تشخیص یا علاج نہ کرے تو ناکارہ، مفلوج یا مرحوم ہوسکتا ہے۔ یہی کلیہ انسانوں کی بنائی ریاست پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ جیسے انسان کو سر درد، بخار، نزلہ، کھانسی، ٹی بی، ایڈز اور کینسر وغیرہ لاحق ہوجاتا ہے، اسی طرح کوئی بھی اچھی بھلی ریاست کسی بیرونی وائرس، اندرونی جرثومے، ناانصافی کے بخار، اقتصادی کھانسی، نظریاتی ٹی بی، شدت پسندی کی ایڈز اور غربت کے کینسر میں مبتلا ہوسکتی ہے۔ جیسے کوئی انسان اپنی بیماری ٹالتا رہتا ہے، کوئی آدھا علاج کروا کے اکتا جاتا ہے، کوئی دوا ہوتے ہوئے بھی وقت پر دوا لینا بھول جاتا ہے، کوئی مکمل علاج پر یقین رکھتا ہے، بالکل یہی کچھ ریاستیں بھی اپنے ساتھ کرتی ہیں۔ بس ایک فرق ہے۔ انسان کو اپنا ڈاکٹر خود بننے کے بجائے کسی معقول طبی ماہر سے مشورہ لینا چاہیے۔ مگر ریاست وہ مریض ہے جو اپنی تشخیص و علاج بیرونی معالج کے مقابلے میں زیادہ بہتر انداز میں کر سکتی ہے۔ جیسے برطانیہ نے آئی آر اے کے معاملے میں اپنا علاج خود کیا۔ جیسے کینیڈا نے کوبیک کے علیحدگی بخار کو کم کرنے کے لیے ریفرینڈم کی گولیوں کا سہارا لیا۔ جیسے چیکو سلواکیہ کی ریاست نے خود ہی کامیاب سرجری کر کے چیک اور سلوواک کے جڑے ہوئے سروں کو بخوبی علیحدہ کر لیا۔ جیسے سوویت یونین نے ایک دن تمام بچوں کو بٹھا کر حساب کتاب کیا، ریاستی ترکہ تقسیم کیا اور پھر سرد جنگ کے سورج کی برف پگھل گئی۔ جیسے اہلِ لبنان کو 15 برس کی سر پھٹول کے بعد احساس ہوا کہ باہمی مرہم پٹی نہ کی گئی تو پورے جسم میں خانہ جنگ زہر پھیل جائے گا اور پھر کوئی بیرونی سرجن آ کر اپنے حساب سے چیر پھاڑ کردے گا۔ جیسے فلسطین کو بنیادی علاج فراہم کرنے کے بجائے نسلی قرنطینہ میں مسلسل منافقانہ ادویات پر رکھا جا رہا ہے۔ جیسے شام نے اپنا گلا کاٹنے کی کوشش کی مگر اسے آپریشن تھیٹر میں لے جانے کے بجائے اس پر جھگڑا ہے کہ یہ دم درود سے ٹھیک ہوگا، اس کے لیے سفارتی سرجری بہتر رہے گی یا کسی معقول اسپیشلسٹ کے میّسر آنے تک اسے ویسے ہی عالمی خیراتی ہسپتال کی سیڑھیوں پر تڑپنے دیا جائے۔ جیسے سری لنکا کی ٹائیگر زدہ ریاست، جنوبی امریکہ کی کوکین زدہ ریاست کولمبیا اور شائننگ پاتھ نامی مارکسسٹ طالبان کی ڈسی ریاست پیرو بیس برس تک سردرد کی گولیاں کھا کر اس نتیجے پر پہنچی کہ میجر سرجری کے بغیر بات نہیں بنے گی۔ جیسے بھکاری صومالیہ نہ تو اپنا علاج کر پایا اور نہ کوئی ڈھنگ کا بیرونی معالج میسر آیا اور وہ بے حس آپریشن ٹیبل پر خود مرگیا۔ اب صومالیہ کی بچی لاش کو دوبارہ مغربی آکسیجن ٹینٹ میں رکھ کے اس میں سانس پھونکنے کی مشق ہورہی ہے۔ جس طرح کچھ لا وارث مریض نوآموز ڈاکٹروں کی مشق کے کام آجاتے ہیں اسی طرح بعض ریاستوں کو بھی لاوارث سمجھ کے ان پر ہر طرح کا نوسیکھیا اپنے کچے پکے ہاتھ پختہ کرتا ہے۔ جیسے ہر ایرا غیرا چھٹ بھئیا عطائی پچھلے 35 برس سے افغانستان کے ساتھ کر رہا ہے۔ بعض مریض خود ترسی کے نفسیاتی نشے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح بعض ریاستیں بھی اپنے بلیڈ سے خود کو زخم لگا کے خود لذتی میں مبتلا ہوجاتی ہیں۔ پاکستانی ریاست نے بہت سال پہلے کچھ اپنوں اور پھر غیروں کی طبیعت صاف کرنے کے لیے اپنے دوستوں کی مدد سے شدت پسندی کے فرینچائز استرے تیار کیے اور جوش میں ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تیار کر لیے اور پھر یہ استرے اپنے ہاتھ کے سدھائے بندروں میں بانٹ دیے۔ جب ریاست نے انہیں دوبارہ پنجرے میں بند کرنا چاہا تو انہوں نے دانت نکوس دیے۔ اب ریاست آگے آگے ہے اور اضافی استرے سیدھے کیے خوخیاتے بندر پیچھے پیچھے۔ بندروں سے استرے واپس لینا تو بہت دور کی بات ہے۔ ریاست کو یہ تک سجھائی نہیں دے رہا کہ وہ کس پیڑ پر چڑھے اور کس شاخ سے جھول جائے اور پھر نیچے کیسے اترے اور کہاں اترے ۔۔۔۔۔
070925_judges_vs_general_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070925_judges_vs_general_fz
جنرل بمقابلہ جج: نتیجہ حیران کن ہوسکتا ہے
پاکستان میں صدارتی انتخابات کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں ہیں اور پیپلز پارٹی کے علاوہ حزب مخالف کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سے انتخاب کے بائیکاٹ اور انتیس ستمبر کو قومی و صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد وکلا کی جانب سے ریٹائرڈ جج کو جرنیل کے مقابلے میں صدارتی امیدوار نامزد کرنے سے دلچسپ صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر منیر اے ملک اور ان کے رفقاء کی جانب سے جسٹس وجیہہ الدین کو جنرل پرویز مشرف کے مقابلے میں انتخاب لڑانے کے اعلان پر ملا جلا رد عمل ظاہر کیا جا رہا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ بار کے وکلا کےایک سرکردہ رہنما احسن بھون اور پیپلز پارٹی کے سینیٹر عبدالطیف کھوسہ سمیت بعض وکلاء کھلم کھلا جسٹس وجیہہ الدین کی نامزدگی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ جبکہ منیر اے ملک ہوں یا جسٹس (ر) طارق محمود وہ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسا کرنا لازمی ہے۔ تجزیہ کار ایاز امیر بھی کہتے ہیں کہ جو وکلا کی حکمت عملی ہے اس کے مطابق وہ اپنا پتہ درست کھیل رہے ہیں اور مستقبل قریب میں جو مقدمہ بازی ہوگی اس میں انہیں فائدہ ہوگا۔ جبکہ وزیر اطلاعات محمد علی درانی سمیت حکومت کے کچھ وزیر کافی خوش ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ وکلاء نے صدارتی انتخابات میں حصہ لےکر اس کی قانونی حیثیت تسلیم کرلی ہے۔ اس بارے میں تجزیہ کار نسیم زہرہ کا موقف بھی وزیر اطلاعات سےملتا جلتا ہے اور وہ بھی کہتی ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ ایک طرف وکلا نے سسٹم میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور دوسرا یہ کہ وکیلوں نے صدارتی انتخاب میں حصہ لے کر اُسے ایک لحاظ سے جائز قرار دیا ہے۔ مسلم لیگ نواز کے سرکردہ رہنما سید ظفر علی شاہ کہتے ہیں کہ جب حزب مخالف نے مستعفی ہونے کافیصلہ کیا ہے ایسے میں وکلا کی نامزدگی سیاسی جماعتوں کے لیے ایک نیک شگون ہے۔ جب ان سے پوچھا کہ ان کی نظر میں اگر وکلاء نے درست فیصلہ کیا ہے تو وہ مستعفی ہونے کے بجائے ووٹنگ میں حصہ کیوں نہیں لیتے تو انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا اب مشکل ہے۔ موجودہ حالات میں حزب مخالف اور وکیلوں کی حکمت عملی کے متعلق لاہور یونیورسٹی آف مئنیجمینٹ سائنسز کے شعبہ سیاسیات کے سربراہ ڈاکٹر رسول بخش رئیس بھی ان کی حامی نظر آتے ہیں۔ ’وکلاء کے امیدوار کے اعلان کے پس پردہ مجھے کوئی خرابی نظر نہیں آتی بلکہ گزشتہ چھ ماہ سے سول سوسائٹی کی تنظیمیں سیاسی جماعتوں سے علیحدہ رہ کر جدوجہد کرتی رہی ہیں اور یہ قدم بھی اس سلسلے کی کڑی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ اگر مولانا فضل الرحمٰن صوبہ سرحد اسمبلی توڑنے کے لیے رضامند ہوجائیں تو پھر صدارتی انتخاب کا کالج متنازعہ بن سکتا ہے اور ایسے میں اگر جنرل پرویز مشرف زور زبردستی کی بنا پر منتخب بھی ہوتے ہیں تو اس کی مقامی یا عالمی سطح پر کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ لیکن رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’مجھے ایسا ہوتے دکھائی نہیں دیتا کیونکہ مولانا فضل الرحمٰن کی بھی حکومت سے بات چیت چل رہی ہے۔‘ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ابھی تک عدلیہ نے بعض مقدمات میں کچھ آزاد فیصلے دیے ہیں لیکن عدلیہ آج بھی بطور ایک مکمل آزدا ادارہ نہیں بن پائی۔ موجودہ صورتحال میں حکومت اور حزب مخالف کے کچھ نمائندوں اور بعض تجزیہ کاروں کی رائے اپنی جگہ لیکن اب بھی کچھ سیاسی تبصرہ کار کہتے ہیں کہ موجودہ حالات میں جب حکمران مسلم لیگ انتشار کا شکار ہے، متعدد اراکین صدر کو ووٹ نہ دینے کا اعلان کرچکے ہیں اور صدارتی انتخاب کی ووٹنگ بھی خفیہ ہوگی تو ایسے میں اگر اپوزیشن ووٹنگ میں حصہ لے تو کوئی سرپرائیز ملنے کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
43279542
https://www.bbc.com/urdu/43279542
قائدِ اعظم نے بھی کونا پکڑ لیا
کہانی کچھ یوں ہے کہ خیبر ایجنسی کا ایک ٹرک ڈرائیور ڈیورنڈ لائن کے آرپار منشیات کے کاروبار سے منسلک تھا کہ بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا اور افغانستان میں سوویت یونین گھس آیا۔ سی آئی اے کو حاجت ہوئی مجاہدین کو اسلحہ پہنچانے کی۔ لہذا واقفانِ علاقہ سمگلرز کی بن آئی۔ ہمارے ہیرو نے افغان مجاہدین کو اسلحہ پہنچایا اور واپسی پر خالی ٹرکوں میں منشیات لانے لگا۔
ایک عرصے تک قائدِ اعظم کی تصویر کرنسی نوٹ کے عین درمیان میں ہوا کرتی تھی اتنی منشیات کہ اسی کی دہائی میں بلجیئم میں اس کی ساڑھے چھ ٹن حشیش پکڑی گئی۔ یوں اس جنگ میں پارٹنر ہو کر ہمارا ہیرو بھی ارب پتی ہوگیا اور اس نے لنڈی کوتل میں ایک محل بنا لیا۔ جب پیسے آئے تو سیاست کو بھی جی للچایا۔ اور پھر ہمارا ہیرو سمگلنگ کے کئی پرچے کٹنے کے باوجود انیس سو نوے میں نواز شریف کے اسلامی جمہوری اتحاد کے حمایت یافتہ امیدوار کے طور پر فاٹا سے قومی اسمبلی کا ممبر بن گیا اور مئی انیس سو بانوے میں افغانستان میں صلح جوئی کے لیے قبائلی عمائدین کے سرکاری وفد میں بھی شامل ہوا۔ جب انیس سو ترانوے میں وزیرِ اعظم نواز شریف کی صدر غلام اسحاق سے کھٹ پٹ اور پہلا ’مجھے کیوں نکالا‘ ہو گیا تو ہمارے ہیرو نے پیپلز پارٹی کا دامن پکڑ کے اگلے عام انتخابات کے لیے کاغذاتِ نامزدگی داخل کیے مگر کاغذات مسترد ہو گئے۔ وسعت اللہ خان کے دیگر کالم پڑھیے ’میں نے کیا سعودیوں کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟‘ گالی ہی تہذیب ہے اپنے بچے کی آخری اطلاع کا انتظار مت کیجیے اس دوران ہمارے ہیرو نے منشیات کی سمگلنگ کے بین الاقوامی مقدمات میں مطلوب ہونے کے سبب امریکہ کو رضاکارانہ گرفتاری دے دی اور ساڑھے تین برس جیل میں گزار کر انیس سو ننانوے میں اسلام آباد پہنچا۔ اینٹی نارکوٹکس فورس نے اسے کچھ عرصے کراچی جیل میں رکھا اور پھر رہائی کے چند برس بعد ہمارے ہیرو کا انتقال ہوگیا۔ اس کا ایک قول نوے کی دہائی کے اخبارات میں بڑی چمک دمک سے شائع ہوا ’میں چاہوں تو اسمبلی خرید لوں‘۔ ہمارے ہیرو کا نام ہے حاجی ایوب آفریدی۔ ڈیرہ اسماعیل خان والے گلزار فیملی کے فلاحی و خیراتی کاموں سے اچھے سے واقف ہیں۔ خدا نے پراپرٹی، لینڈ ڈویلپنگ، سرمایہ کاری اور گیس ڈسٹری بیوشن وغیرہ کے کام میں خاصی برکت ڈالی اور اثر و رسوخ بھی دو چند ہوا۔ گلزار احمد خان کا طبعی جھکاؤ پیپلز پارٹی کی جانب رہا۔ بی بی جب بھی حزبِ اختلاف میں ہوتیں اور لاہور آتیں تو ان کا قیام گلزار ہاؤس میں رہتا۔ 1994 میں گلزار احمد خان اور پھر ان کے صاحبزادے وقار احمد خان اور پھر عمار احمد خان سینیٹر بنے۔ دو ہزار تین میں جب گلزار احمد خان دوسری بار سینیٹر بنے تو خیبر پختون خواہ اسمبلی سے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار تھے۔ گلزار احمد خان کے بھائی مختار احمد خان بھی سینیٹر رہے۔ اور پھر سینیٹر بننا ایک آرٹ ہو گیا۔ پی ٹی آئی کے چوہدری محمد سرور چوالیس ووٹ لے کر سینیٹر منتخب ہوئے ہیں کیا یہ آرٹ نہیں کہ پنجاب اسمبلی میں سینیٹر بننے کے لیے چالیس سے زیادہ ووٹ درکار ہوں۔ تحریکِ انصاف کے اسمبلی میں تیس ارکان ہوں اور اس کے امیدوار چوہدری محمد سرور چوالیس ووٹ لے کر سینیٹر بن جائیں اور اس چمتکاری پر عمران خان سے مبارک باد بھی وصول کریں اور پھر عمران خان یہ بیان بھی دیں کہ ’آصف زرداری نے خیبر پختون خواہ اسمبلی کے ارکان کو خریدنے کے لیے نیلام گھر کھول دیا‘۔ کیا یہی ہے جمہوریت۔ شاید اسی لیے خان صاحب نے سینیٹ انتخابات میں بطور رکنِ قومی اسمبلی اپنا ووٹ بھی جیب سے نہیں نکالا اور ضائع ہونے سے بچا لیا۔ آرٹ تو یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے خیبر پختون خواہ اسمبلی میں چھ ارکان ہوں۔ اس اعتبار سے ایک سینیٹر کا منتخب ہونا بھی ناممکن ہو۔ پھر بھی زرداری جادوگر اس ناممکنیت میں سے دو سینیٹ نشستیں اڑا لے جائے اور عمران خان اپنی ہی پارٹی کے بیس سے پچیس ارکان کے ووٹ پر ڈاکہ پڑتا دیکھتے رہ جائیں۔ خود خان صاحب کے حمایت یافتہ امیدوار مولانا سمیع الحق کو تحریکِ انصاف کے صرف تین ارکان نے اپنے ووٹ کے قابل سمجھا۔ تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے! کیا یہ پولٹیکل انجینئرنگ کی معراج نہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں مسلم لیگ ن سب سے بڑی جماعت ہونے کے باوجود اپنا ایک بھی سینیٹر منتخب نہ کروا سکی۔ کیا یہ کمالِ فن نہیں کہ سندھ اسمبلی میں چالیس نشستیں ہوتے ہوئے ایم کیو ایم کو بھی سینیٹ کی ایک سیٹ ملے اور نو نشستوں والی مسلم لیگ فنکشنل بھی ایک سینیٹر بنوا لے۔ آئین سازوں نے سینیٹ اس لیے تشکیل دی تھی کہ قومی اسمبلی میں کوئی ایک جماعت یا صوبہ عددی اکثریت کی بنا پر اگر وفاق پر فیصلے مسلط کرنے کی کوشش کرے تو مساوی وفاقی نمائندگی والی سینیٹ اس عددی بلڈوزر کو روک سکے۔ یہاں تو سینیٹ ہی زر کے بلڈوزر تلے آگئی۔ ایک عرصے تک قائدِ اعظم کی تصویر کرنسی نوٹ کے عین درمیان میں ہوا کرتی تھی۔ مگر سال بہ سال کرپشن کا معیار دیکھ کر قائدِ اعظم کی تصویر بھی درمیان سے کھسکتے کھسکتے نوٹ کے کونے کی طرف جا رہی ہے۔ زرا دھیان رکھیے گا، اگلے الیکشن تک کہیں قائدِ اعظم نوٹ سے فرار ہی نہ ہو جائیں۔
061008_rebakidairy_sen
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2006/10/061008_rebakidairy_sen
قدرتی آفات اور ٹیکنالوجی سے مدد
گزشتہ سال آٹھ اکتوبر کو آنے والے زلزلہ نے جہاں انسانی زندگی کی بے ثباتی اور قدوتی آفات سے نمٹنےمیں انتظامیہ کی بے بسی کو روز روشن کی طرح عیاں کیا وہیں اس واقع کے توسط سے انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کا ایک خصوصی روپ بھی سامنے آیا۔ یعنی انفارمیشن ٹیکنولوجی کا امدادی سرگرمیوں کے حوالے سے معاون ثابت ہونا۔
اس کے علاوہ جہاں دنیا بھر سے زلزلہ زدگان کے لیے مالی امداد بھیجی گئی وہیں سری لنکا نے آئی ٹی کے حوالے سے تکنیکی مدد کا انتظام بھی کیا۔ دسمبر دو ہزار چار میں سر لنکا اور اس کےاعتراف کے ساحلی علاقوں میں سونامی کی تباہ کاریوں کے بعد تعمیر نو کا کام کر نے والوں میں ربط قائم کر نے اور بحالی کے کام میں مدد کے لیے ’صاحانہ‘ (SAHANA) سافٹ ویر بنایا گیا تھا۔ صاحانہ (جس کے معنی سنہالہ زبان میں ’امداد‘ یا ’ریلیف‘ کے ہیں) ویب پر کام کرنے والا ایک اوپن سورس سافٹ ویر پروگرام ہے۔ صاحانہ کے ذریعہ قدرتی آفات کی وجہ سے لا پتہ افراد کی تفصیلات، امدادی تنظیموں، رضاکاروں اور انتظامیہ کے درمیان رابطہ قائم اور برقرار رکھنے، امدادی سامان اور امدادی کیمپوں کے اندراج وغیرہ جیسے کاموں کے لیے متعلقہ معلومات ایک جگہ جمع کر نے اور انٹرنیٹ کے ذریعے ان معلومات کی ترسیل کا کام کیا جاسکتا ہے۔ اوپن سورس سافٹ ویر پروگرام ہونے کی وجہ سے اس کی ترسیل مفت کی جاتی ہے اور چونکہ اس کا کوڈ ’اوپن‘ یا ’کھلا‘ ہوتا ہے اس لیے اس پروگرام میں ضرورت کے مطابق مناسب تبدیلیاں بھی کی جاسکتی ہیں۔ صحانہ پاکستان سے وابستہ آئی بی ایم کے آئی ٹی کے ماہر رضوان عباسی نے اپنا تجربہ کچھ یوں بتایا ’آٹھ اکتوبر کو آنے والا زلزلہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا اس لیے یہاں لوگوں کو تجربہ نہیں تھا کہ آئی ٹی کو کس طرح امدادی کارروائیوں کے لیے استعمال کرنا ہے۔ مختلف تنظیمیں اپنے اپنے طور پر کام کر رہی تھیں لیکن کسی کو یہ نہیں معلوم تھا کہ سب کو کس طرح ایک ساتھ لے کر چلنا ہے۔ صحانہ بنیادی طور پر ایک ڈ‎زاسٹر منیجمنٹ فریم ورک ہے جس کی افادیت سونامی کے بعد واضح ہو چکی تھی۔ اس لیے اسے یہاں پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مگر زلزلہ کے بعد کی صورتحال سونامی کی واقعہ سے مختلف تھی مثلا زلزلہ کے بعد زخمیوں کی ایک بہت بڑی تعداد تھی اور یہاں جغرافیائی صورتِحال بھی مختلف تھی۔ سونامی میں ساحلی پٹی تھی مگر یہاں کا متاثرہ علاقہ پہاڑوں، پتھریلی زمین اور دشوارگزار علاقوں پر مشتمل تھا۔ اس لیے یہ سافٹ ویر مقامی ضروریات کے تقاضوں کے مطابق نہیں تھا۔ لہٰذا نادرہ نے اس سافٹ ویر کے اوپن سورس ہونے کے پہلو سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس میں کچھ اضافی جزو شامل کیے جن میں جیوگرافیکل انفارمیشن سسٹم (جی آئی ایس) اور نقشے و‏غیرہ شامل ہیں‘۔ زلزلہ کے بعد بحالی کے اقدامات کے حوالے سے آئی ٹی کے افادیت کونہ صرف مقامی سطح پر آزمایا گیا ہے بلکہ اسے بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا ہے۔ اس کی ایک مثال ریسرچ انفارمیشن سسٹم فار ارتھ کوئکس پاکستان (رائیز پاک) کی صورت میں موجود ہے۔ رائیز پاک کی ویب سائٹ پر زلزلہ سے متاثرہ چار ہزار دیہاتوں کی زلزلہ سے پہلے کی آبادی اور جغرافیائی معلومات، نقصانات، امداد اور رسائی کی صورتحال کو یکجا کیا گیا ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کی تیار کردہ اس ویب سائٹ پر یہ تمام معلومات نہ صرف تلاش کی جاسکتی ہیں بلکہ فون، ایس ایم ایس، فیکس، ای میل اور ویب فورم کے ذریعےاس اعداد شمار کو اپڈیٹ کرنے کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ امدادی سرگرمیوں اور نقصانات کے اعدادوشمار جمع کرنے اور ان معلومات کی مناسب ترسیل کے علاوہ آئی ٹی کا کردار ٹیلی میڈیسن کے حوالے سے بھی قابل ذکر ہے۔ ٹیلی میڈیسن کیا ہے اور آئی ٹی اور صحت کے حوالہ سے اس کی کیا اہمیت ہے اس پر بات کسی اور وقت ہوگی۔ زلزلہ سے متاثرہ دور افتادہ علاقوں میں ٹیلی میڈیسن یونٹس کے ذریعے کس طرح طبی امداد فراہم کی گئی اس کا احوال ٹیلی میڈیسن کے منصوبہ سے منسلک ٹی ایچ کے ایس ٹیکنالوجی گروپ کے چیف آپریٹنگ آفیسر اظہر رضوی نے کچھ یوں بیان کیا ’ٹیلی میڈسن کے بنیادی یونٹ میں ایک لیپ ٹاپ، مقامی طور پر تیار کردہ ٹیلی میڈیسن سافٹ ویر، ڈیجیٹل کیمرہ اور سکینر فراہم کیا گیا تھا۔ جب مریض طبی امداد کے لیے آتے تھے تو ڈیجٹل کیمرہ کی مدد سے اس کے جسم کے متاثرہ حصہ کی تصاویر اور مرض کی تمام علامتیں اس سافٹ ویر پر محفوظ کر لی جاتی تھیں۔ پھر یہ تفصیلات سیٹیلائیٹ انٹرنیٹ کے ذریعے راول پنڈی میڈیکل کالج اور ہولی فیملی ہسپتال بھیجی جاتی تھیں۔ یہاں پر موجود طبی ماہرین اس ڈیٹا کا معائنہ کر کے اس سافٹ ویر اور انٹرنیٹ کے ذریعے تشخیص اور ادویات تجویز کر تے تھے۔ اس طرح مریض کو طویل سفر طے کیے بغیر ماہر ڈاکٹروں سے علاج کی سہولت مہیا کی گئی اور جن مریضوں کو شہر میں لا کر علاج کی ضرورت تھی ان کی نشاندہی کر نے میں بھی آسانی ہوگئ‘۔ یہ تو تھیں آئی ٹی کے حوالے زلزلہ کے امدادی سرگرمیوں کی چند مثالیں۔ قدرتی آفات انسان کے دائرہ اختیار سے بے شک باہر ہیں مگر سائنس اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے بحالی اور تعمیر نو کے کام میں خاطر خواہ معاونت حاصل کی جاسکتی ہے۔
140410_multan_hrcp_fz
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2014/04/140410_multan_hrcp_fz
توہین مذہب کے مقدمے میں کمرہ عدالت میں وکلا کو دھمکیاں
پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس کمیش آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے ملتان کی سینٹرل جیل کے اندر کمرہ عدالت میں تضحیک مذہب کے ملزم کے وکیل کو دی جانے والی دھمکیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ جن افراد نے دھمکیاں دی تھیں ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائِے اور وکیل صفائی کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
ایچ آر سی پی کا خیال ہے کہ محض متعصب افراد کی ہی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ ملزم کو قانونی نمائندگی نہ ملے جمعرات کو جاری ہونے والے ایک بیان میں کمیش نے مطالبہ کیا کہ مذکورہ مقدمے میں وکیل کو دھمکیاں دینے والے تینوں افراد کے خلاف بلا تاخیر قانونی کارروائی کی جائے اور وکیل صفائی کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے موثر اقدامات کیے جائیں۔ واقعے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہا گیا کہ سکیورٹی خدشات کی بنا پر تضحیک مذہب کے ملزم جنید حفیظ کے خلاف مقدمے میں سماعت ملتان سینٹرل جیل میں ہو رہی تھی۔ ملزم کے وکیل راشد رحمان اور اللہ داد مقدے کی سماعت کے دوران جج کے سامنے پیش ہوئے اور جب وہ ملزم کی بریت کے لیے دلائل دے رہے تو تین افراد نے جج کی موجودگی میں راشد رحمان ایڈوکیٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’آپ اگلی مرتبہ عدالت نہیں آ سکیں گے کیونکہ آپ اب مزید زندہ نہیں سکیں گے۔‘ ایڈوکیٹ رحمان نے جج کو توجہ دھمکی کی جانب دلائی تاہم اطلاع کے مطابق جج صاحب نے مبینہ طور خاموشی اختیار کیے رکھی۔ ایچ آر سی پی نے کہا کہ تضحیک مذہب کے ملزم کو وکیل حاصل کرنے اور اس کی خدمات جاری رکھنے کے حوالے سے جو مشکلات درپیش ہوتی ہیں ان سے ہر فرد آگاہ ہے۔ ایچ آر سی پی کا خیال ہے کہ محض متعصب افراد کی ہی یہ خواہش ہو سکتی ہے کہ ملزم کو قانونی نمائندگی نہ ملے۔ انھوں نے کہا کہ کہ اگر یہ شرمناک کھیل جاری رہا تو ایچ آر سی پی یہ نتیجہ اخذ کرنے پو مجبور ہوگا کہ ملزم کو قانونی نمائندگی حاصل کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اور یہ کہ ٹرائل جاری رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
040714_euoro_footbal_sen
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/07/040714_euoro_footbal_sen
بیکھم کی ناکامی فٹبال کی نیلامی
یورو کپ فٹ بال مقابلے میں استعمال ہونے والی اس گیند کی نیلامی شروع ہو گئی ہے جسے انگلینڈ کے مایہ ناز فٹ بالر ڈیوڈ بیکھم پرتگال کے خلاف پینلٹی کک کے ذریعے گول میں بتدیل نہیں کر سکے تھے۔
واضع رہے کہ کوارٹر فائنل کا یہ میچ ایکسٹرا ٹائم کے بعد بھی جب دو دو گول سے برابری کے باعث فیصلہ کن نہیں ہو سکا تھا تو دونوں ٹیموں کو پینلٹی شوٹ آؤٹ کا موقع دیا گیا۔ انگلینڈ کی جانب سے کپتان ڈیوڈ بیکھم نے پہلا کک لیا لیکن گیند دائیں جانب گول پوسٹ کے انتہائی اوپر سے تماشائیوں کے درمیان جا گری۔ دلچسپ بات یہ ہوئی کہ جس تماشائی کے ہاتھ یہ گیند آئی وہ اسے لے کر اسٹیڈیم سے رفو چکر ہو گیا۔ اب اسی تماشائی نے ویب سائٹ پر اس تاریخی گیند کی نیلامی کے لیے پیش کی ہے۔ قابل ذکر بات ہے یہ کہ پہلی ہی بولی ساتھ ملین پاؤنڈ کی آئی ہے۔ اس میچ میں انگلینڈ کو شکست دیکر پرنگال سیمی فائنل میں داخل ہو گیا تھا۔
science-52659500
https://www.bbc.com/urdu/science-52659500
فیس بک: مواد پر پابندی کی درخواستوں میں پاکستان دوسرے نمبر پر
سماجی رابطوں کی سب سے بڑی ویب سائٹ فیس بک نے اپنی شش ماہی شفافیت رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جس نے فیس بک سے مواد پر پابندی لگانے کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں بھیجیں۔
رپورٹ کے مطابق جولائی 2019 سے دسمبر 2019 میں فیس بک کی جانب سے دنیا بھر میں ان کے پلیٹ فارمز یعنی فیس بک اور انسٹاگرام پر موجود مواد پر پابندی لگانے کی 82615 درخواستیں موصول ہوئیں۔ موصول ہونے والی درخواستوں میں سے 2900 درخواستوں کے ساتھ سروس سر فہرست، 2270 درخواستوں کے ساتھ پاکستان دوسرے نمبر پر اور 2219 درخواستوں کے ساتھ میکسیکو تیسرے نمبر پر رہا۔ مواد پر پابندی کے حوالے سے فیس بک کی جانب سے جاری کردہ وضاحت کے مطابق کہا گیا کہ 'جب ہم کسی ملک سے موصول ہونے والی درخواست پر کارروائی کرتے ہیں تو وہ مقامی قانون پر مبنی مواد پر پابندی عائد کے بارے میں ہوتا ہے۔ ایسے مواد پر پابندی لگائی جاتی ہے جو اس ملک یا خطے میں غیر قانونی ہوتی ہے۔ لیکن اگر کسی مخصوص مواد پر متعدد ممالک میں پابندی ہے تو ہم اپنی رپورٹ میں ہر ملک کی پابندی کو آزادانہ طور پر شمار کرتے ہیں۔' اسی حوالے سے مزید پڑھیے کیا فیس بک کی ریگولیشن ممکن ہے؟ فیس بک نے تین ارب جعلی اکاؤنٹس بند کر دیے وہ ہزار کون تھے؟ فیس بک سے معلومات کی درخواست ’فیس بک روہنگیا کے خلاف نفرت پھیلانے میں بے لگام‘ فیس بُک نے’آئی ایس پی آر سے وابستہ اکاؤنٹ بند کر دیے‘ 'پاکستان میں مواد پر پابندی کے لیے فیس بک کو سب سے زیادہ دخواستیں حکومت نے دی' اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں فیس بک اور انسٹاگرام کے مواد کو ہٹانے کے لیے حکومت کی جانب سے 2019 میں سب سے زیادہ درخواستیں دائر کی گئیں۔ یاد رہے حکومت سے مراد وہ تمام ادارے ہیں جو حکومت پاکستان کے ماتحت کام کرتے ہیں جیسا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے)، اور قانون نافذ کرنے والے ادارے وغیرہ۔ سنہ 2013 میں پہلی بار حکومت نے فیس بک کی انتظامیہ کو مواد ہٹانے یعنی انھیں حذف کرنے کے لیے درخواستیں بھیجیں اور جولائی سے دسمبر 2013 تک ان درخواستوں کی تعداد 162 تھی۔ اس کے بعد سنہ 2014 میں یہ تعداد بڑھ کر 1854، سنہ 2015 میں صرف چھ، سنہ 2016 میں 31، سنہ 2017 میں 478 ، سنہ 2018 میں 6400 اور سنہ 2019 میں یہ تعداد اچانک سے بڑھ کر 8000 تک پہنچ گئی جو کہ اب تک پچھلی حکومتوں کی بہ نسبت سب سے زیادہ ہیں۔ فیس بک نے پاکستان کے مقامی قانون کی خلاف ورزی کرنے والے مواد کی درخواستوں پر عمل کیا اور کہا کہ ہم نے مواد پی ٹی اے (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی) کے کہنے پر ہٹایا۔ ہٹائے جانا والے مواد میں کیا کیا شامل تھا؟ فیس بک انتظامیہ کا موقف ہے کہ جب بھی ہمیں کوئی ایسی شکایت موصول ہوتی ہے تو ہم پہلے شائع ہونے والے مواد کا جائزہ لیتے ہیں اور اگر وہ کسی بھی ملک کے قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہو تو اس کے خلاف کاروائی کرتے ہیں۔ 2019 میں حکومت پاکستان کی درخواست پر پاکستان میں سب سے زیادہ فیس بک اور انسٹا گرام سے ایسی پوسٹ ، تصاویر، پروفائل اور دیگر مواد ہٹایا گیا جس میں مبینہ طور پر توہین رسالت ، عدلیہ مخالف مواد، پولیو کے خلاف مہم، اور ملک کی بدنامی اور علیحدگی پسندی سے متعلق مواد شامل تھا۔ فیس بک انتظامیہ کے مطابق جنوری 2019 سے جون 2019 میں انھیں قانونی طور پر موصول ہونے والی فیس بک اور انسٹاگرام صارفین کے خلاف شکایات میں سے 52 فیصد درخواستوں کی تعمیل کی تھی جبکہ جولائی 2019 سے دسمبر 2019 میں مواد ہٹانے کے حوالے سے موصول ہونے والی درخواستوں میں سے 44 فیصد شکایات پر عمل کیا گیا۔ فیس بک کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں قانون نافذ کرنے والے حکام درخوست دینے کا قانونی طریقہ کار اپنائے بغیر بھی درخواستیں دے سکتے ہیں۔ حالات کی بنیاد پر فیس بک رضاکارانہ طور پر قانون نافذ کرنے والے حکام کے کہنے پر ان درخواستوں پر کارروائی کرتے ہیں کہ کہیں اس معاملے میں کسی کو جسمانی نقصان یا موت کا خطرہ ہو۔ 'پاکستان میں پابندی لگائی جانے والے مواد میں دو اہم کیس' جنوری 2019 میں فیس بک کو پی ٹی اے کی جانب سے باضابطہ طور پر ایک درخواست موصول ہوئی جس میں کہا گیا کہ الیکٹرانک جرائم کی روک تھام ایکٹ (پی ای سی اے) کے سیکشن 37 کے تحت فیس بک کی دو ایسی پوسٹیں موجود ہیں جس میں غیر قانونی اور فحش مواد موجود ہے۔ اس شکایات پر فیس بک نے تبصرہ کیا کہ ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ مواد نہ صرف ہمارے کمیونٹی معیارات کی خلاف ورزی ہے بلکہ پاکستان کے قانون کی بھی خلاف ورزی ہے اس لیے ہم نے اس مواد پر پابندی لگا دی۔ فیس بک کی شفافیت رپورٹ کے مطابق دسمبر 2017 میں فیس بک کو پی ٹی اے کی جانب سے درخواست موصول ہوئی کہ مبینہ طورپر توہین رسالت کرنے والی 23 ایسی پوسٹ، فیس بک پیچ اور پروفائیلز موجود ہیں جو پاکستانی قانون کے خلاف ہیں۔ فیس بک نے کہا کہ جب اس مواد کا جائزہ لیا گیا تو 23 میں سے پانچ ایسے آئٹم تھے جنھوں نے فیس بک کمیونٹی معیارات کی خلاف ورزی کی تھی جبکہ پی ٹی اے کی رپورٹ کی بنیاد پر پاکستان میں تین آئٹمز تک رسائی کو بھی محدود کردیا۔ فیس بک کو موصول ہونے والی شکایات کا عالمی جائزہ فیس بک کی شفافیت رپورٹ کے مطابق انتظامیہ کو کمیونٹی معیارات کی خلاف ورزی کے حوالے سے دنیا بھر سے فیس بک اور انسٹاگرام صارفین کی جانب سے موصول ہونے والی شکایات کی بڑی تعداد موصول ہوئی۔ تاہم جن میں صرف اسی مواد پر پابندی لگائی گئی جو واقعی ہی کمیونٹی معیارات کے خلاف ہیں۔ 2019 کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری سے مارچ کے مہینے کے دوران فیس بک نے تقریبا دو کڑور ساڑھے چالیس لاکھ شکایات پر کارروائی کی گئی جس میں سے ہٹائے جانے والے تقریبا 3 لاکھ چھپن ہزار مواد کو دوبارہ لگا دیا گیا تھا۔ جبکہ اپریل سے جون تک کے اعداد و شمار کے مطابق تقریبا دو کڑور اسی لاکھ شکایات کے خلاف کاروائی کی گئی جس میں سے تقریبا نو لاکھ پچپن ہزار ہٹائے جانے والے مواد کو دوبارہ لگا دیا گیا تھا۔ جولائی سے ستمبر میں فیس بک انتظامیہ نے کاروائی کرتے ہوئے تقریبا تین کڑور تیس لاکھ شکایات پر عمل درآمد کیا اور مواد پر پابندی عائد کی ۔ جبکہ تقریبا 81 لاکھ پندرہ ہزار شکایات صارفین کی اپیل کے بعد اس مواد کو واپس لگا دیا گیا۔ اسی طرح اکتوبر سے دسمبر کے مہینے میں تقریبا تین کڑور نوے لاکھ درخواستوں پر انتظامیہ کی جانب سے کاروائی کی گئی اور تقریبا چھ لاکھ پینسٹھ ہزار صارفین کا ہٹایا جانے والا مواد واپس لگا دیا گیا۔ اس سال یعنی 2020 کے پہلے تین مہینوں جنوری سے مارچ تک فیس بک انتظامیہ نے دنیا بھر سے موصول ہونے والی شکایات میں 3 کڑور 95 لاکھ شکایات پر کاروائی کی اور صارفین کی اپیل کا جائزہ لینے کے بعد چھ لاکھ تیرہ ہزار صارفین کا مواد واپس لگا دیا گیا ہے۔ انٹرنیٹ کی بندشیں کئی ممالک میں انٹرنیٹ بند ہونے سے فیس بک اور انسٹاگرام کی سہولیات متاثر ہوئیں۔ فیس بک شفافیت رپورٹ کے مطابق 2019 میں تقريبا 20 ممالک نے اپنے ملک کے بیشتر حصوں میں انٹرنیٹ کی سہولیات معطل کیں۔ فیس بک انتظامیہ کے مطابق انٹرنیٹ میں رکاوٹیں اور پابندیاں جان بوجھ کر لگائی جاتی ہیں تاکہ لوگوں تک انٹرنیٹ یا مخصوص ویب سائٹوں اور ایپس تک رسائی کی صلاحیت کو محدود کیا جا سکے۔ تاہم ایسی رکاوٹیں لوگوں کو اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ اشتراک اور بات چیت کرنے سے روکتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ روکاوٹ اور کاروبار میں بھی مشکلات کا باعث بنتی ہیں۔ جبکہ ہم دنیا بھر میں اپنی خدمات کی دستیابی پر باقاعدگی سے نگرانی کرتے ہیں اور علاقوں کی شناخت کرنے کے بعد عارضی طور پر انٹرنیٹ میں حائل رکاوٹوں کی اطلاع دیتے ہیں جو فیس بک کی مصنوعات کی دستیابی کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ فیس بک کے اعدادو شمار کے مطابق بھارت دنیا میں سرفہرست ہے جس نے سال 2019 میں انٹرنیٹ پر سب سے زیادہ پابندیاں اور بندشیں لگائیں۔ فیس بک کے مطابق رواں سال بھارت کی جانب سے تقریباً 45 ہفتے سے زیادہ عرصے تک انٹرنیٹ کی سہولت کو بند رکھا اور کئی علاقوں خصوصا بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انٹرنیٹ سہولت متاثر ہونے سے صارفین فیس بک تک رسائی حاصل نہیں کرسکے۔ 2018 میں بھی دنیا بھر میں بھارت پہلے نمبر پر تھا اور 87 ہفتے سے زیادہ تک انٹرنیٹ کے استعمال میں روکاوٹیں اور بندشیں لگائیں تھیں۔ سری لنکا میں ہونے والے تشدد کے واقعات پر فیس بک کی معذرت فیس بک نے اس کے علاوہ ایک اور تحقیقاتی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کا پلیٹ فارم 2018 میں سری لنکا میں مختلف گروپس کی جانب سے بدسلوکی اور جان لیوا تشدد کو جنم دینے میں مدد گار ثابت ہوا ہے۔ کمپنی نے سری لنکا سے متعلق اس رپورٹ کے جواب میں کہا 'ہمیں اپنے پلیٹ فارم کا غلط استعمال ہونے پر افسوس ہے' فیس بک نے مزید کہا کہ: 'ہم انسانی حقوق پر پڑنے والے اثرات کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے لیے معذرت خواہ ہیں۔'" فیس بک نے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے مزید کہا کہ پلیٹ فارم نے ان مسائل کے حل اور بہتر نگرانی کے لیے مقامی زبان میں مہارت کھنے والے افراد کی خدمات حاصل کی ہیں اور ساتھ ساتھ ایسی ٹیکنالوجی ک بھی کا استعمال کیا جا رہا ہے جو نفرت آمیز مواد کا خود بخود پتہ لگاتا ہے اور اس مواد کو پھیلنے سے روکتا ہے۔ پلیٹ فارم نے مزید کہا کہ وہ مقامی سول سوسائٹی گروپوں کے ساتھ تعلقات کو اپنے ساتھ گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
030906_taiwan_demos_rza
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2003/09/030906_taiwan_demos_rza
’ہمیں آزاد کر دیں‘
تائیوان کے دارالحکومت تیپائی میں ہفتے کو پچاس ہزار سے زیادہ افراد سڑکوں پر نکل آئے اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ جس جزیرے میں وہ رہتے ہیں اس کا سرکاری نام جمہوریۂ چین سے تبدیل کر کے تائیوان کر دیا جائے۔
مظاہرین چاہتے ہیں کہ ان کا جزیرۂ رہائش چین سے آزاد ہو جائے اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک جزیرے کا نام تبدیل نہیں کیا جائے گا وہ بطور ایک آزاد ملک کے کبھی بھی بین الاقوامی حیثیت حاصل کرنے کی امید بھی نہیں کر سکیں گے۔ چین کا کہنا ہے کہ تائیوان جس کی اب اپنی حکومت ہے، اسی کا ایک ٹوٹا ہوا صوبہ ہے اور چین نے دھمکی دی ہے کہ اگر تائیوان نے آزادی کی بات کی تو وہ طاقت کے بل بوتے پر اس جزیرے پر اپنا کنٹرول حاصل کر لے گا۔ اس ہفتے کے اوائل میں چین نے اس بات پر سخت تلخی دکھائی تھی کہ تائیوان کے لوگوں کو خصوصی پاسپورٹ جاری کیے گئے ہیں جن پر تائیوان کا نام بطور ملک کے درج ہے۔ بی بی سی کے نامہ نگار کرس ہوگ نے اپنے مراسلے میں بتایا ہے کہ ہفتے کو تیپائی میں ہونے والا مظاہرہ چین کے لیے ایک اور اشتعال انگیز بات کہلائے گی۔ اس مظاہرے میں تائیوان کے سابق صدر لی تینگ نے بھی جن کی عمر اسی برس ہے، شرکت کی اور ان کا مقصد تائیوان کے سرکاری نام میں تبدیلی کے مطالبے کی حمایت کرنا تھا۔
140913_doosra_pehlu_rk
https://www.bbc.com/urdu/regional/2014/09/140913_doosra_pehlu_rk
ہندو مذہب اپنی رواداری کھو رہا ہے
ان دنوں اتر پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ریاستی قیادت اور اس کی اتحادی تنظیمون نے مسلمانوں کے خلاف شدید مہم چلا رکھی ہے۔ بی جے پی کے متعدد اعلیٰ رہنما جگہ جگہ نفرت انگیز تقریریں کر رہے ہیں۔ عموماً ان تقریروں میں یہ بتایا جاتا ہے کہ کئی عرب ممالک بھارتی مسلمانوں کے توسط سے ہندوؤں کو مسلمان بنانے کے لیے پیسے بھیج رہے ہیں اور مسلمان اس سازش میں شریک ہے۔
معروف دانشور اور سماجی کارکن ہرش میندر نے نفرت کی تحریک کو 12 برس قبل گجرات میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے اداروں کے خلاف چلائی گئی تحریک سے موازنہ کیا ہے نفرت کی اس تحریک میں سب سے شدید نشانے پر وہ لوگ ہیں جو اپنے مذہب سے باہر شادیاں کر رہے ہیں۔ اس میں ہندوؤں کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی لڑکیوں کو مسلمانوں کے قریب نہ آنے دیں ورنہ وہ بقول ان کے ’لو جہاد'‘ کی سازش کا شکار ہو سکتی ہیں۔ مدیھہ پردیش میں بی بے پی کی ایک رکنِ اسمبلی نے تو یہاں تک دعویٰ کیا ہے کہ کئی روز تک چلنے والے نو راتر کے تہوار کے بعد بقول ان کے ہر برس چارلاکھ سے زیادہ ہندو لڑکیاں ’لو جہاد‘ کی سازش کے تحت مذہب اسلام اختیارکر لیتی ہیں۔ انھوں نے ہندوؤں پر زور دیا ہے کہ وہ اس تہوار کے دوران خاص طورپر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے ڈانڈیا رقص کی تقریبوں میں مسلم نوجوانوں کو داخل نہ ہونے دیں۔ اسی طرح کی قدرے چھوٹے پیمانے پر پرچار اور تبلیغ مدھیہ پردیش، راجستھان اور کئی دوسری ریاستوں میں بھی چل رہی ہے۔ تقریریں ہو رہی ہیں، سوشل میڈیا پر پیغامات بھیجے جا رہے ہیں اور پمفلٹ تقسیم کیے جا رہے ہیں۔ ہر جگہ پیغام یہی ہے کہ مسلمانوں کو قریب مت آنے دو۔ انھیں ہندوؤں کے تیج تہواروں میں شریک مت ہونے دو اور ان سے کسی طرح کا سماجی رابطہ نہ رکھو۔ اسی طرح کی تحریک ایک عشرے قبل گجرات میں چلائی گئی تھی جب نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔ یہ تحریک آر ایس ایس اور وشو ہندو پریشد جیسی تنطیمیں چلا رہی تھیں اور انھیں بظاہر حکومت کی سرپرستی حاصل نہیں تھی لیکن اس وقت مودی کی خاموشی ان تنطیموں کے لیے آسانیاں پیدا کر رہی تھی۔ وزیر اعلیٰ کے طور پر مودی کی توجہ ترقیاتی پہلوؤں پر مرکوز رہی اور رفتہ رفتہ ریاست میں یہ تنظیمیں بہت محدود ہو کر رہ گئیں اور وہ نریندر مودی کو اپنا مخالف سمجھنے لگیں۔ گذشتہ مئی کے انتخابات میں اپنے زور پر تن تنہا اقتدار میں آنے کے بعد یہ ہندو تنظیمیں پوری شدت سے سرگرم ہو گئی ہیں۔ بی بے پی کے اندر بھی بہت بڑی تعداد ایسے رہنماوؤں کی ہے جو ایک طویل عرصے سے بھارت کو ایک ہندو مذہبی ریاست میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس وقت اتر پردیش اور شمالی ہندوستان میں نفرت کی جو لہر پیدا کی جارہی ہے اسے راج موہن گاندھی نے سنہ 1947 کی تقسیم کے وقت کی نفرتوں کی فضا سے تعبیر کیا ہے۔ معروف دانشور اور سماجی کارکن ہرش میندر نے نفرت کی تحریک کو 12 برس قبل گجرات میں عیسائیوں اور مسلمانوں کے اداروں کے خلاف چلائی گئی تحریک سے موازنہ کیا ہے۔ اس صورتِحال پر وزیرِاعظم مودی کی خاموشی پر اسرار بنتی جا رہی ہے۔ مودی کے ان حامیوں میں بھی بے چینی پیدا ہو رہی ہے جنھون نے بی جے پی کو ترقی کے ایجنڈے کے لیے منتخب کیا اور جو نفرت کی سیاست میں یقین نہیں رکھتے۔ بھارت گجرات نہیں ہے۔ یہ پورا ملک ہے، یہاں خاموشی کی نہیں واضح طور پر یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ بھارت ایک سیکولر جمہوری ملک ہے اور یہاں مذہبی تعصب، تفریق اور عدم رواداری کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بھارت کے ممتاز ماہر قانون فالی ایس ناریمن نے اقلیتی کمیشن کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہندو مذہب اپنی روایتی رواداری اور رحم دلی کھوتا جا رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ بہت سے ہندو یہ سوجنے لگے ہیں کہ وہ اقتدار میں اپنے مذہب کی وجہ سے آئے ہیں۔ بقول ان کے بدقسمتی یہ ہے کہ اقتدار کی اعلیٰ سطح پر جو لوگ فائز ہیں وہ اس تصور کو چیلنج نہیں کر رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ہندو مذہب تمام بھارتی مذاہب میں روایتی طور پر سب سے زیادہ روادار رہا ہے۔ لیکن نفرت انگیز تقریروں اور متعصبانہ بیانات سے جس طرح کی مذہبی کشیدگی پیدا ہو رہی ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہندو مذہب کی رواداری کی روایت اس وقت شدید دباؤ سے گزر رہی ہے۔
science-49041782
https://www.bbc.com/urdu/science-49041782
ہمارے آرام، سونے، سیکس کرنے اور دربار سجانے کی جگہ: ’بستر‘ سے جڑے 13 حقائق
ایک طویل سفر کے بعد اپنے بستر پر آرام کرنے سے زیادہ مزا اور کہیں نہیں آسکتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہم سوتے ہیں، مطالعہ کرتے ہیں مباشرت کرتے ہیں اور کبھی کبھار کچھ کھانا بھی تناول کرتے ہیں۔ یہ جگہ آپ کے سماجی مقام کا بھی تعین کرتی ہے۔ اور بعض اوقات یہ آپ کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بھی ہوتی ہے۔ اور ہم میں سے کئی ایک جب بڑے ہوتے ہیں یا اپنے نئے گھر میں منتقل ہوتے ہیں تو سب سے پہلے ایک پلنگ خریدتے ہیں۔
کیا آپ کے ذہن میں آپ کا کوئی آئیڈیل بستر ہے؟ اس لیے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یہ پلنگ کا تصور کہاں سے آیا ہے؟ اور کیا یہ بظاہر ایک عام سی شے ہماری زندگی کے اتار چڑھاؤ کو بیان کرسکتی ہے؟ بی بی سی کی ’اوریجنل‘ سیریز کے سلسلے میں اس بات کو سمجھنے کے لیے کہ بستر کس طرح ہماری زندگیوں کا تعین کرتا ہے، ہماری جنسی زندگی کو متاثر کرتا ہے اور ہمارے سماجی رویوں میں تبدیلی لاتا ہے، نامہ نگار کیٹی برینڈ نے ماہرِ اعصابی نظام پروفیسر رسل فوسٹر، تاریخ دان گریگ جینر اور جدید دور کی تاریخ کی ماہر پروفیسر ساشا ہینڈلی سے بات چیت کی اور ایسے 13 حقائق جمع کیے جو ہمارے پلنگ، بستر اور ہماری جنسی، سماجی اور سیاسی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں یا اس کا مظہر ہوتے ہیں۔ یہ بھی پڑھیے ’نیند کے مقبول نسخے آپ کی صحت متاثر کر رہے ہیں‘ دن کی روشنی اور رات کی نیند میں کیا تعلق ہے؟ انسان کو ایک دن میں کتنے گھنٹے سونا چاہیے؟ 1- گدّوں کا استعمال 77 ہزار برس سے کیا جا رہا ہے غاروں میں زمین پر سونا آرام دہ نہیں ہوتا تھا اس لیے انسانوں نے اپنے ہاتھوں سے نرم گدّے تیار کیے زمین پر سونے کے متبادل کے طور پر گدّوں کے استعمال کے ثبوت 77 ہزار برس پرانے عرصے یعنی پتھر کے زمانے سے ملتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کے غاروں میں لوگ گدّوں پر سوتے تھے جنھیں وہ خود تیار کرتے تھے۔ غار آرام دہ نہیں ہوتے تھے۔ مزید یہ کہ زمین سے ذرا بلند سطح پر سونے کی جگہ بنانے سے وہ زمین پر رینگنے والے کیڑے مکڑوں سے بھی محفوظ رہتے تھے۔ پروفیسر گریگ جینر کہتے ہیں چونکہ یہ لوگ اپنا کھانا بھی وہیں بیٹھ کر کھاتے تھے اس لیے ان کے بستر بھی کچھ چکنے سے محسوس ہونے لگتے تھے اس لیے وہ انھی پر آگ بھی جلا لیا کرتے تھے۔ 2- قدیم ترین بستر پتھروں کے ڈھیر پر بنائے جاتے تھے پروفیسر جینر کہتے ہیں کہ آج کل کے جدید ترکی میں چتل ہویوُک کے مقام پر دس ہزار برس پہلے پتھروں کے جدید دور میں پتھروں کے ایک ڈھیر پر زمین سے اونچا بنایا گیا پہلا بستر ملا ہے۔ اسی طرح شمالی سکاٹ لینڈ میں جزائر کے سلسلے اورکنی کے ایک قصبے سکارا برے میں بھی چھ ہزار برس پرانے پتھروں کے ڈھیر پر بنے بستر ملے ہیں۔ پروفیسر جینر کے مطابق، اس دور کے باشندے پتھروں کی سلوں کی ایک تہہ بناتے تھے پھر اس پر ایک اور پھر سب سے اوپر ایک گدّہ بچھاتے تھے جس پر وہ سوتے تھے۔ اس طرح بلند کیے ہوئے پتھروں کے ڈھیر پر بنائے گئے یہ پلیٹ فارم انسانی تاریح کے قدیم ترین پلنگ تھے۔ 3- قدیم مصریوں کے پلنگوں کے پایوں پر کشیدہ کاری ہوتی تھی قدیم مصر کے امراء نے اپنے بستروں کے نیچے پائے یا ٹانگیں لگانا شروع کیے پروفیسر جینر کہتے ہیں کہ قدیم مصر کے امراء نے اپنے بستروں کو ایک پلنگ کی صورت دی اور اس میں پائے لگائے۔ عموماً لکڑی کے بنائے گئے ان پاؤں پر بہت ہی خوبصورت طرز کی کندہ کاری کی جاتی تھی، نچلے حصے میں کسی جانور کے پاؤں کی شکل ہوتی تھی۔ لیکن آج کل کے جدید پلنگوں کے برعکس، قدیم دور کے پلنگ ہموار سطح کے نہیں ہوتے تھے۔ اس کے بجائے یہ درمیان میں ذرا سے گہرے ہوتے تھے یا سرہانے کی جانب جھکے ہوئے ہوتے تھے۔ ’اس کا مطلب یہ ہے کہ ان پلنگوں کی جانب پاؤں رکھنے کی بھی جگہ بنائی جاتی تھی تاکہ سوتے ہوئے نیچے سرک نہ جائے یا گر نہ پڑے۔‘ 4- مشرق میں اونچے پلنگ کا مطلب اعلیٰ سماجی حیثیت نہیں جاپان میں اب بھی کسی کی سماجی حیثیت کچھ بھی ہو وہ اپنا بستر فرش پر ہی لگاتے ہیں مغرب میں اور چین میں بھی فرش سے بلند پلنگوں یا بستروں کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ آپ کی سماجی حیثیت بھی کافی بلند ہے۔ لیکن بعض خطوں میں اس کے برعکس تھا۔ جاپان میں روایتی قسم کے تتامی گدّے، جو آج بھی مقبول ہیں، فرش سے بہت ہی کم اونچے ہوتے ہیں۔ اور قزاقستان کے کچھ علاقوں میں ’فرش پر بچھانے اور پھر انھیں تہہ کیے جانے والے گدوں پر سونے کا رواج اب بھی ایک معمول ہے۔‘ ان گدّوں کو ’توشک‘ کہا جاتا ہے۔ پروفیسر گریک جینر کے مطابق، اُسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ رواتی طور پر خانہ بدوشی کی زندگی بسر کرتے تھے اور انھیں اپنے بستروں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا پڑتا تھا، یہ روایت آج تک برقرار ہے۔ 5- رومن اور یونانی لوگ اپنے بستروں پر کھانا بھی کھاتے تھے رومن اور یونانی اپنے بستروں پر کھانا بھی کھاتے تھے۔ رومن اور یونانی تہذیبوں میں بستروں کے مختلف قسم کے استعمال ہوتے تھے۔ ان پر سویا جاتا تھا، لیکن ان کو کھانا کھانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ لوگ ان بستروں پر ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے تھے۔ جب ان کا دل چاہتا تو سامنے رکھی میز سے وہ کھانے کی کوئی شہ مثلاً انگور کے خوشے یا کسی خوراک کا ایک نوالہ اٹھا لیتے۔ لہٰذا آئندہ اب آپ کا دل بستر پر بیٹھے ہوئے کھانا کھانے کو چاہے تو برا محسوس کرنے کی ضرورت نہیں ہے، آپ صرف روم کے امیر امراء کی نقل کر رہے ہوں گے۔ مزید پڑھیے نیند کی کمی سے زیادہ بھوک کیوں لگتی ہے 'نیند سے اہم باتیں یاد رکھنے میں مدد ملتی ہے' نیند کی کمی سے دماغ کیسے متاثر ہوتا ہے؟ 6- قرونِ وسطیٰ کے بڑے بڑے پلنگ تو خاندان سمیت مہمانوں کے لیے بھی جگہ رکھتے تھے قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں امراء کے بہت ہی بڑے بڑے پلنگ ہوا کرتے تھے۔ قرونِ وسطیٰ کے یورپ میں عوام کی اکثریت غربت میں رہتی تھی اور وہ اس وقت بھی گھاس پھوس کے بنے گدّوں پر سوتے تھے۔ لیکن اسی یورپ میں امراء نے اپنے لیے بڑے بڑے شاہانے طرز کے پلنگ بنانے شروع کردیے۔ پروفیسر گریک جینر کہتے ہیں کہ وہ تو بہت ہی بڑا پلنگ ہوتا تھا جس کی سب سے بڑی مثال برطانیہ کی ملکہ الزبیتھ اول کا شاہانہ پلنگ تھا۔ یہ پلنگ ’اتنے وسیع ہوا کرتے تھے کہ شاید اس میں آپ فٹ بال کی پوری ٹیم کو سلا سکتے تھے۔‘ ’اگرچہ یہ بہت ہی مضبوط ہوتے تھے لیکن ان کو الگ کرنے کے لیے تیار کیا جاتا تاکہ اگر انھیں کہیں اور لے جانا پڑے تو اس کے حصے با آسانی جدا کیا جا سکے۔ اور امرا جب دیہات میں اپنی جاگیروں پر جائیں تو ان پلنگوں کو اپنے ہمراہ لے جائیں۔ 7- ’کس کے سونا‘ سے مراد یہ ہوتی تھی کہ آپ کا پلنگ کیسا بنا ہوا ہے انڈیا جیسے ملک میں پلاسٹک کے بان سے جو پلنگ بنایا جاتا ہے اُسی چارپائی کہا جاتا ہے اس قسم کے پرانے پلنگوں کا ڈھانچہ عموماً لکڑی سے بنایا جاتا تھا۔ پروفیسر گریک کے مطابق ’ان کے درمیان میں کھیتوں کے بھوسے سے تیار کیا گیا بان استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ بان کی رسی ڈھیلی ہو جاتی تھی اور پھر اسے کسا جاتا تھا تاکہ رات کو آرام دہ نیند آسکے۔ اور یہیں سے یہ محاورہ 'کس کے سونا' بنا۔' 8- پلنگ کے ارد گرد چار ستون سے سماجی حیثیت ظاہر کی جاتی ہے چار ستونوں والا پلنگ سماجی حیثیت دکھانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے چودھویں اور پندھرویں صدی میں چار ستونوں والے پلنگ کے رواج کی ابتدا ہوئی۔ ان بستروں کے اوپر ایک چھتری بنی ہوتی ہے۔ گریک کہتے ہیں کہ اس کا اس زمانے میں اٹلی میں بہت رواج تھا۔ اس کے ستونوں پر شفاف قسم کے پردے ٹنگے ہوتے تھے، بہت سارے تکیے رکھے ہوتے تھے جن کی وجہ سے یہ ایک تماشگاہ کا منظر پیش کرتا تھا۔ یہ خوبصورت پلنگ اس کے مالک کی مالی حیثیت کو ظاہر کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہوتا تھا اور وہ اس لیے نہیں کہ اس پلنگ کو سجانے کے لیے نوکروں کی ایک فوج درکار تھی۔ 9- پلنگ سیاسی سرگرمیوں کا بھی مرکز ہوتے تھے سویڈن کے محل ڈورٹنگوم کا یہ کوئی معمولی نوعیت کا بستر نہیں ہے پروفیسر ساشا ہینڈلی کہتی ہیں کہ 15ویں اور 16ویں صدی کے ادوار شاہی پلنگوں کے زمانے کہے جاسکتے ہیں۔ پروفیسر ساشا جدید تاریخ کے شروع کے دور اور اس زمانے کی نیند پر گہری نظر رکھتی ہیں جو کہ پندھرویں صدی سے لے کر اٹھارویں صدی تک محیط ہے۔ پروفیسر ساشا کہتی ہیں کہ اس دور کے دو یورپی بادشاہوں نے درباروں میں مخصوص شان و شوکت والی شاہی ثقافت کو فروغ دیا، ایک تو فرانس کے لوئی چہاردھم نے ورسائے میں، اور دوسرے انگلینڈ کے چارلز دوئم تھے جنھوں نے سترویں صدی کے آخر میں اس ثقافت کی سرپرستی کی۔ اس زمانے کی بروق کہلانے والی طمطراق سیاسی ثقافت کی بنیاد اس فلسفے پر قائم ہوئی تھی کہ بادشاہ کو خدا نے حقِ حکمرانی عطا کیا ہے یعنی وہ ظلِّ الٰہی ہے۔ اسی سے یہ نظریہ بنا کہ ریاست کی تمام طاقت کا مظہر بادشاہ ہے۔ لہٰذا یہ تصور ابھرا کہ آپ جتنے بادشاہ یا ملکہ یا اس سے منسوب اشیاء یا ان کے حواریوں کے قریب ہیں آپ خدا کی نظر میں اتنے ہی مقرب اور منظورِ نظر ہیں۔ ساشا کے مطابق، ’ان کے لیے پلنگ سیاسی زندگی کا مرکز ہے، وہ اُسے ایک ایسے سٹیج کی طرح استعمال کریں گے جس پر یا جس کے ارد گرد، تمام رسومات و آداب بجا لائے جائیں گے اور جہاں یہ بھی ظاہر ہوگا کہ بادشاہ یا ملکہ کس ملک کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ ورسائے میں پسندیدہ ریاستوں کے حکمرانوں کو بادشاہ کی رہائش کے اُس حصے تک آنے کی دعوت دی جاتی تھی جہاں وہ نیند کے بعد جاگتا تھا اور جہاں وہ اپنا لباس بدلا کرتا تھا۔ 10- بد شگونی دور کرنے کے لیے بچوں کے جھولوں پر چاقو لٹکانا شمالی امریکہ کے قدیم باشندوں میں بچوں کے جھولوں پر بدشگونی یا نظرِ بد سے بچانے کے لیے کوئی پر یا کوئی اور شہ ٹانگ دی جاتی تھی۔ آج کل ایسی ٹوٹکے دنیا کے کئی حصوں میں بہت مقبول ہورہے ہیں۔ مسیحیوں کا ماننا تھا کہ جب وہ سو رہے ہوتے ہیں تو ان پر کسی شیطانی طاقت کا حملہ ہوسکتا ہے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ رات کی سیاہی میں شیطانی طاقتیں اپنے عروج پر ہوتی ہیں۔ انجیل میں ایسے کئی واقعات کا ذکر ہے کہ لوگوں کو رات میں سوتے ہوئے قتل کردیا گیا۔ اس کے نتیجے میں سونے سے پہلے کی کئی رسومات نے جنم لیا۔ رات کے وقت سونے سے پہلے کی دعا کے علاوہ جو کہ اس زمانے میں ایک معمول تھی، لوگ کوئی نہ کوئی تعویذ یا قیمتی پتھر کا بنا زیور اپنے پاس رکھتے تھے کیونکہ وہ سوچتے تھے کہ اِس سے ان کی زندگی محفوظ ہو جائے گی۔ کچھ لوگ بھیڑیے کے دانت کو دھاگے سے باندھ کر گلے میں پہنتے تھے اور نقصانات سے آگاہ ہونے کے باوجود بھی بچوں کے جھولوں پر چاقو ٹانگ دیا کرتے تھے۔ دھات کو کسی بھی مافوق الفطری خطرے کا توڑ سمجھا جاتا تھا۔ یہ بھی پڑھیے اچھی نیند کے چھ نسخے انسان کو ایک دن میں کتنے گھنٹے سونا چاہیے؟ ’ادھوری نیند دفتر میں لڑائی اور خراب رویے کا سبب‘ 11- بہترین پلنگوں کو خاندانی ورثہ کے طور پر چھوڑا جاتا تھا انگریزی ادب کے معروف ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئیر نے اپنے دوسرے بہترین پلنگ کو اپنی بیوی کے لیے ترکے کے طور چھوڑا تھا۔ جدید دور کے اوائل میں، لوگ اپنے پلنگوں اور بستروں پر ناقابلِ یقین حد تک رقم اور دیگر وسائل خرچ کرتے تھے۔ انگریزی ادب کے معروف ڈرامہ نگار ولیم شیکسپئیر نے اپنی وصیت میں اپنے دوسرے بہترین پلنگ کو اپنی بیوی کے لیے ترکے کے طور چھوڑا تھا۔ شاید یآپ کے تصور سے بھی زیادہ یہ ترکہ قیمتی ہو۔ اس وقت ایک پلنگ کو اگلی نسل کے لیے ترکے کے طور پر چھوڑنا اپنی بیوی کے لیے چھوڑنے سے زیادہ اہم سمجھا جاتا تھا۔ اور اگر آپ کسی ’زبرست قسم کے پلنگ‘ کے بارے میں سوچ رہے ہیں تو اسے گھر کے کسی کمرے میں نمایاں جگہ پر رکھا جاتا تھا جو عموماً گھر کی نچلی منزل پر ہوتا تھا۔ اس بات کا انحصار آپ کی سماجی حیثیت پر ہوتا تھا کہ آپ کے بستر پر گدّے کی ایک تہہ ہوگی یا اس پر چھ تہیں ہوں گیں۔ اور پھر ان پر غلاف، بستر کی چادریں وغیرہ اس پلنگ کی مالیت کا تیسرا حصہ بنیں گے۔ شاید کوئی اس قسم کے مہنگے پلنگ جیسے ترکے کی نمائش کا موقعہ ضائع نہ کرے اور اسی کے ذریعے گھر میں آنے والوں کو اپنی حیثیت کا تعارف بھی کرایا جاتا تھا کہ صاحبِ خانہ کتنے شاندار انداز میں اپنے بستر پر رات کو سوتا ہے۔ 12- ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں لوہے کے پلنگوں کو بیماریوں سے مزاحمت کے لیے متعارف کرایا گیا لوہے کے پلنگوں کو بیماریوں سے بچنے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ انیسویں صدی تک یورپ اور ان کے زیرِ نگیں نو آبادیوں میں لکڑی کے پلنگ استعمال ہوتے تھے۔ سنہ 1860 کے لگ بھگ لوگوں کو جراثیم کے وجود اور ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں سے آگاہی ہوئی۔ لکڑی کے بنے پلنگوں جن میں کھٹمل، جوئیں اور دیگر کیڑے مکوڑے ہوا کرتے تھے، ان کو لوہے کے بنے پلنگوں سے بدل دیا گیا۔ لوہے کے بنے نئے پلنگوں کو صاف رکھنا زیادہ آسان سمجھا جاتا تھا۔ پھر اسی دوران گدّوں کی نوعیت میں بھی ایک تبدیلی آئی، انھیں نرم اور ہموار رکھنے کے لیے ان کے اندر لوہے کا جال یا لوہے کے سپرنگ رکھے جانے لگے۔ 13-وکٹورین دور ہی میں بچوں کے کمرے بنانے کا رواج شروع ہوا برطانیہ میں انیسویں صدی میں والدین نے یہ سوچنا شروع کیا کہ بچوں کے سونا کا الگ سے کمرہ ہونا چاہئیے۔ تاریخی طور پر ایک خاندان اکھٹا ایک ہی کمرے میں اور ایک ہی بڑے پلنگ پر سوتا تھا۔ لیکن برطانیہ میں وکٹورین زمانے میں یعنی انیسویں صدی میں لوگوں نے اس خیال پر غور کرنا شروع کردیا کہ گھر کے افراد الگ الگ کمروں میں سویا کریں۔ اس زمانے کے صحتِ عامہ کے ماہرین نے لکھا کہ بچوں کو والدین سے الگ علحیدہ کمروں میں سُلانا چاہئیے تاکہ بڑے لوگ بچوں کے معصومانہ بچپن یا نوجوانی کی توانائی کو مسل نہ دیں۔ نوٹ: یہ تحریر پہلی بار بی بی سی اردو پر 30 جولائی 2019 کو شائع کی گئی تھی۔
080103_mehsud_jets
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/01/080103_mehsud_jets
محسود میں جیٹ طیاروں کی بمباری
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان میں محسود قبائل کے علاقے میں جیٹ طیاروں نے تین مقامات پر بمباری کی ہے جس کے نتیجے میں کافی جانی نقصان کا خدشہ ہے۔ کاروائی کے بعد طیارے واپس لوٹ گئے ہیں۔
مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ جمعرات کو دوپہر دو بجے کے قریب جیٹ طیاروں نے محسود قبائل کے علاقے میں تین مشکوک مقامات کو نشانہ بنایا جس میں کافی جانی نقصان کا خدشہ ہے۔ علاقے میں انتظامیہ کی عدم موجودگی کی وجہ سے فوری طور پر ہلاکتوں کی تعداد معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ جن علاقوں میں بمباری کی گئی اس میں ایمرراغزائی؛ شک توئی ور سراروغہ شامل ہیں۔ پچھلے ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی کی چئیرپرسن بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام حکومت نے بیت اللہ محسود پر لگایا ہے لیکن بیت اللہ محسود نے اس الزام کی سختی سے تردید کی تھی۔
041014_amphibian_crisis_as
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2004/10/041014_amphibian_crisis_as
مینڈک کو خطرہ ہے
سانئسدانوں کے ایک بین الاقوامی پینل نے خبردار کیا ہے کہ دنیا کے بے شمار ایمفیبینز یعنی وہ جانور جو پانی اور خشکی دونوں پر رہتے ہیں جیسا کہ مینڈک وغیرہ، ختم ہوتے جا رہے ہیں۔جریدے سائنس کے ایک مضمون کے مطابق ان جانوروں کی چھ ہزار کے قریب قسمیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ 1980 سے لے کر اب تک 122 کے قریب ایمفیبینز کی قسمیں شاید ختم بھی ہو چکی ہیں اور جو باقی ہیں انہیں بہت خطرہ ہے۔ یہ نتائج ایمفیبینز کے سب سے بڑے سروے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ سروے میں کہا گیا ہے کہ بیماری، ماحول اور جگہ کی تبدیلی، ماحولیاتی آلودگی، اور غذا کے لیے ان جانوروں کا شکار ایمفیبینز کی نسل میں کمی کی اہم وجوہات ہیں۔ بی بی سی کے ماحولیات کے نامہ نگار کا کہنا ہے کہ اس قسم کے جانور ماحولیاتی تبدیلی کو سب سے زیادہ محسوس کرتے ہیں اور ان سے یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ آنے والے سالوں میں دیگر حیات کو کیا مسائل درپیش ہو سکتے ہیں۔
040720_tamil_comission_si
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2004/07/040720_tamil_comission_si
تامل ناڈو: آتشزدگی پر انکوائری کمشن
ہندوستان کی ریاست تامل ناڈو میں گزشتہ ہفتے سکول میں آتشزدگی کے واقعہ کی تحقیقات کرنے کے لیے ایک سابق ہائی کورٹ جج کی زیر صدارت انکوائری کمشن قائم کیا گیا ہے۔
اس حادثے میں نوے نوعمر بچے جل کر ہلاک ہو گئے تھے۔ کمشن آتشزدگی کے اس واقعہ کی وجوہات کا جائزہ لے گا اور آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام کے لیے اپنی سفارشات دے گا۔ کمشن کے دیگر ارکان میں خاتون سوشل ورکر، سیفٹی ایکسپرٹ، چائلڈ سائیکالوجسٹ اور بلڈنگ کے شعبے کے چیف انجنیئر شامل ہیں۔ دوسرے طرف جہاں کمبکونم کے تمام لوگ ابھی تک نوے بچوں کی موت کے صدمے سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں وہیں پولیس گرفتار شدہ اساتذہ سے پوچھ گچھ کر رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ شری کرشنا سکول کے تیرہ اساتذہ سے کئی گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی ہے۔ ہندوستان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے صدر وینکائیا نائیڈو اور مرکزی رہنما ایل کے اڈوانی منگل کو کمبکونم کا دورہ کریں گے۔
031109_iraqussoldiers_ua
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2003/11/031109_iraqussoldiers_ua
تین مزید امریکی فوجی ہلاک
عراق میں امریکی حکام نے کہا ہے کہ گزشتہ رات سڑک کے کنارے نصب ایک باری سرنگ کی زد میں آکر ایک امریکی فوجی ہلاک جبکہ ایک زخمی ہوگیا ہے۔
اس سے قبل سنیچر کے روز فلوجہ کے قصبہ میں دو امریکی فوجیوں کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ادھر اتوار کے دن بصرہ میں ایک برطانوی فوجی اس وقت زخمی ہوگیا جب اس کی گاڑی سڑک پر ہونے والے ایک دھماکہ کے نتیجہ میں تباہ ہوگئی۔ خیال ہے کہ یہ دھماکہ ریموٹ کنٹرول سے کیا گیا تھا۔ ماہ رمضان کے آغاز سے عراق میں غیر ملکی، بالخصوص امریکی فوجیوں کے خلاف حملوں میں شدت آگئی ہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ کے دو ہیلی کاپٹر مار گرائے گئے ہیں جن میں مجموعی طور پر بائیس امریکی فوجی مارے گئے ہیں۔ جبکہ دیگر حملوں میں ہلاک ہونے والی امریکی فوجیوں کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔
world-52702097
https://www.bbc.com/urdu/world-52702097
’میری اہلیہ نے مجھے دس سال تک جنسی ہوس کا نشانہ بنایا‘
گھریلو تشدد کے زیادہ تر واقعات کی شکایات خواتین کی جانب سے آتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک تہائی خواتین اپنی زندگی میں جسمانی یا جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
اس کے مقابلے میں شاذ و نادر ہی ایسا واقعہ سننے کو ملتا ہے جس میں کسی مرد پر جسمانی یا جنسی حملہ کیا گیا ہوتا ہے۔ مردوں کے ساتھ گھریلو تشدد کے واقعات اور ان کے بارے میں بات کرنا معاشرے میں معیوب سمجھا جاتا ہے اور اس کے شکار مردوں کو اکثر اپنی مشکلات اکیلے ہی جھیلنی پڑتی ہیں۔ یوکرین سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی سے اپنی کہانی سنائی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم نے چند ماہرین سے بھی اس موضوع پر بات کی کہ اگر کسی مرد کے ساتھ ایسا ہو رہا ہو تو وہ کیا کرے۔ پہلا واقعہ مجھے نہیں معلوم میرے دوستوں کو اس بات کا شک ہوا تھا یا نہیں۔ باہر سے دیکھنے میں تو ہر چیز اچھی لگ رہی تھی۔ مسکراتے چہرے، دوست احباب، بہت سارا پیسہ، خوشیاں اور پر اعتمادی۔ ہم نے تو آدھی دنیا کا سفر بھی ساتھ کیا تھا۔ جب ہم سفر کر رہے ہوتے تھے تو مجھے اس سے ڈر محسوس نہیں ہوتا تھا۔ وہ مجھے دوسروں کے سامنے تکلیف نہیں دیتی تھی۔ مگر سب سے ضروری تھا کہ میں اس کے ساتھ اکیلے ہونے سے خود کو بچاؤں۔ مجھے اتنے طویل عرصے کے بعد اب جا کر احساس ہوا ہے کہ میری سابقہ بیوی نے مجھے دس سال تک ریپ کیا۔ میری زندگی میں پہلی عورت ارا ہی تھی۔ ہم دونوں کی ملاقات اس وقت ہوئی جب ہم 20، 22 برس کے تھے۔ اس نے ہی میری طرف محبت کا پیغام بھیجا تھا۔ میرے والدین نے کہا تھا کہ تم اگر کسی کے ساتھ تعلق قائم کرو گے تو تمہیں گھر چھوڑنا ہوگا۔ اس کا مطلب تھا کہ اگر میں کسی کے ساتھ ہوتا ہوں تو مجھے اپنے خاندان سے دور ہونا پڑے گا اور اپنے سر سے چھت کھونی پڑے گی۔ گویا ایک دن کے اندر میں اپنا سب کچھ کھو دوں گا۔ یہ میرے لیے بہت پریشان کن بات تھی۔ میں کسی کے ساتھ صرف اسی وقت تعلق قائم کر سکتا تھا جب میں مالی طور پر الگ رہنے کے قابل ہو جاؤں۔ احساسِ کمتری اس سے بھی بڑھ کر مسئلہ تھا کہ میری ماں کو میری جسمانی ہیت پر شرمندگی تھی اور اس کی وجہ سے میں سخت احساس کمتری کا شکار تھا۔ میں نے پہلی بار جنسی تعلق ارا کے ساتھ ہی قائم کیا اور میں ایسا کرنا چاہتا تھا۔ لیکن وہ میرے لیے باعث تسکین نہیں تھا بلکہ جارحانہ اور تکلیف دہ تھا۔ جب ہم نے پہلی بار ہم بستری کی تو وہ پانچ گھنٹہ تک جاری رہا اور اس کے ختم ہونے پر میرے پورے جسم میں تکلیف تھی۔ سیکس کا مقصد ہوتا ہے تسکین حاصل کرنا لیکن میرے لیے ایسا کبھی نہیں ہوا۔ مجھے کوئی تجربہ بھی نہیں تھا اور مجھے لگا کہ یہ بس ایسے ہی ہوتا ہے تو میں نے بھی منع بھی نہیں کیا۔ لیکن پھر ایک وقت آیا جب میں نے منع کرنا شروع کیا، مگر وہ پھر بھی نہیں رکی۔ یہ وہ موقع تھا جب ہمارا تعلق ریپ میں بدل گیا۔ قید مجھے ایک بار کام کے سلسلے میں بیرون ملک جانا تھا۔ مجھے ارا کو کھونے کا خوف تھا تو میں نے اس سے کہا کہ میرے ساتھ چلو۔ میں نے تو یہ بھی کہا کہ ہم شادی کر لیتے ہیں۔ اس نے شروع میں تو منع کیا لیکن پھر میرے ساتھ چلنے پر راضی ہو گئی۔ اس وقت سارا معاملہ شروع ہوا۔ میں تھکن سے چور تھا اور آرام کرنا چاہتا تھا لیکن اس نے سیکس کا مطالبہ کیا۔ میں ایک بار راضی ہوا، دو بار ۔۔۔ وہ کہتی 'مجھے اور چاہیے۔ مجھے اور طلب ہے، تمہیں کرنا ہوگا، میں کب سے انتظار کر رہی ہوں۔' میں اس کو جواب میں کہتا کہ نہیں میں نہیں کر سکتا، مجھے آرام کرنا ہے، میں تھک گیا ہوں۔' اس پر وہ مجھے مارتی اور میں اسے روکنے سے قاصر تھا۔ وہ میری جلد کو اپنے ناخن سے رگڑتی جب تک کے اس سے خون نہ نکل آتا۔ وہ مجھے مکے مارتی تھی، لیکن وہ کبھی میرے چہرے پر نشان نہیں چھوڑتی تھی۔ وہ صرف وہاں پر تشدد کرتی جو کپڑوں سے چھپ سکتا تھا۔ میں اسے روک نہیں سکا کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ ایک عورت کو مارنا جارحیت ہے اور غلط ہے۔ میرے والدین نے میری ایسی تربیت نہیں کی تھی۔ میں خود کو کمزور محسوس کر رہا تھا اور اس کے چنگل سے نکلنے میں ناکام تھا۔ اس کو وہ سب مل رہا تھا جس کی اسے خواہش تھی اور وہ ہمیشہ مجھ پر حاوی ہوتی تھی۔ میں نے کوشش کی کہ اپنے لیے ہوٹل میں الگ کمرہ لوں لیکن میں وہاں کی مقامی زبان نہیں سمجھ سکتا تھا اور پھر میں پھنس گیا۔ میں کام مکمل ہونے کے بعد ہوٹل جاتے ہوئے خوفزدہ ہوتا تھا اور میں شاپنگ مال میں گھومتا رہتا جب کہ تک وہ بند نہ ہو جائیں۔ اس کے بعد میں شہر میں آوارہ گردی کرتا۔ وہ خزاں کا موسم تھا اور ٹھنڈ بڑھ رہی تھی اور بارش بھی ہو رہی تھی اور میں اپنے ساتھ گرم کپڑے بھی نہیں لایا تھا۔ ان تمام چیزوں کی وجہ سے پھر مجھے مثانے کی نالی میں انفیکشن ہو گیا اور بخار۔ لیکن اس کے باوجود ارا نہیں رکی۔ مجھے وہ سب کرنا تھا جو اس کا مطالبہ تھا۔ ہفتے کے آخری دن سب سے تکلیف دو ہوتے تھے۔ وہ ہفتے کے روز صبح شروع کرتی اور اتوار کی رات تک کرتی رہتی۔ میں نے گن گن کر دن گزارے کہ کب میں یوکرین لوٹوں گا۔ میں سمجھا کہ شاید اس سے ہمارا رشتہ ختم ہو جائے گا لیکن میں غلط تھا۔ میں نے چھوڑنے کی کوشش کی لیکن ہار گیا میں اپنے والدین کے ساتھ رہنے واپس چلا گیا اور ایرا کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں رکھنے چاہتا تھا، اس کے ساتھ رہنا تو دور کی بات تھی۔ لیکن میری سارے بندھن توڑ کر آزاد ہوجانے کی کوششیں کئی سال تک چلتی رہی۔ ہم لڑتے، میں اپنا فون بند کر دیتا اور اسے ہر جگہ بلاک کردیتا۔ میں چھپ جاتا لیکن وہ آکر بند دروازے کے دوسری طرف بیٹھ جاتی۔ وہ مجھے فون کرتی اور وعدہ کرتی کہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اور میں ہر بار اس کے پاس واپس آجاتا۔ مجھے تنہا ہونے سے بہت ڈر لگتا تھا۔ میں نے شروع میں اسے چھوڑنے کی بہت کوشش کی، پھر کم، اور بالآخر میں نے کوشش کرنا بھی چھوڑ دیا۔ اس نے اصرار کیا کہ ہم شادی کر لیں، اور ہم نے شادی کر لی، حالانکہ میں اب یہ نہیں چاہتا۔ ایرا سب سے پر شک کرتی تھی: میرے دوست، میرے خاندان۔ میں جہاں بھی جاتا مجھے ہمیشہ اسے فون کرنا پڑتا۔ 'مجھے ان کانفرنسز میں کیوں شرکت کرنا ہے؟' 'مجھے دوستوں سے کیوں ملنا ہے؟ مجھے ہر وقت اس کی پہنچ میں رہنا تھا۔ وہ میرے بغیر کہیں نہیں جاسکتی تھی۔ میں اس کے لیے کوئی کھیل تھا کہ مجھے ہر وقت اس کی تفریح کا سامان کرنا ہے۔ ایرا کے پاس نوکری نہیں تھی، میں ہم دونوں کے لیے کماتا، کھانا پکاتا اور صفائی کرتا۔ ہم نے ایک بہت بڑا اپارٹمنٹ کرایہ پر لیا جس میں دو باتھ روم تھے۔ مجھے مین باتھ روم استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا اور مجھے 'مہمان' والا باتھ روم استعمال کرنا پڑتا تھا۔ ہر صبح مجھے نو یا 10 بجے تک اس کے اٹھنے تک انتظار کرنا پڑتا ورنہ میں اس کی نیند میں خلل ڈالنے کا مرتکب ہو جاتا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ ہمیں مختلف کمروں میں سونا چاہیے اور میرے کمرے میں کوئی تالا نہیں ہو۔ میں کبھی تنہا نہیں ہوسکتا تھا۔ جب بھی مجھ سے 'کوئی غلطی' ہو جاتی تو مجھ پر چیختی اور مجھے مارتی پیٹتی۔ اور ایسا روزانہ یا کم از کم دو دن میں ایک بار تو ضرور ہوتا تھا۔ جو کچھ بھی ہوتا وہ اس کے لیے مجھے مورد الزام ٹھہراتی۔ میں سنتا رہتا کہ اسے کس طرح کے مرد کی ضرورت ہے، اسے کیا اور کس طرح کرنا چاہیے۔ میں لاچار تھا اور وہ جو بھی کہتی وہ کرتا تاکہ اس کے غصے سے بچا رہوں کیونکہ وہ کبھی بھی پھوٹ پڑتا تھا۔ مجھے سیڑھیوں سے نیچے جاکر کار میں بیٹھ کر اپنا رونا یاد ہے۔ وہ وہاں سے گزری اور اس نے مجھے دیکھ لیا۔ جب میں گھر واپس آیا تو اسے میرے لیے بہت افسوس ہے لیکن وہ خود کو روک نہیں سکی تھی۔ لہذا اگلے دن سب کچھ دوبارہ سے شروع ہوجاتا۔ اس سے قطع نظر کہ میں نے کیا کیا اور کتنا خوفزدہ محسوس کیا کچھ بھی نہیں بدلا۔ میں بھی کامل نہیں ہوں۔ اس سب سے بچنے کے لیےمیں دن میں 10، 12، 14 گھنٹے کام کرتا تھا یہاں تک کہ سنیچر اور اتوار کو بھی کام کرتا۔ یہ آسان تھا کیونکہ کچھ لوگ پیتے ہیں اور کچھ کام کرتے ہیں۔ تشدد کا نشانہ بننے والے اپنا استحصال کرنے والے کو کیوں نہیں چھوڑتے؟ لا اسٹراڈا-یوکرین نیشنل ہاٹ لائن ڈپارٹمنٹ کی سربراہ الایونا کرایوولیاک اور صنفی بنیاد پر پیدا ہونے والے تشدد کی روک تھام اور ان کے تدارک سے متعلق اقوام متحدہ کے پاپولیشن فنڈ کی مشیر اولینا کوچیومروسوکا نے مندرجہ بالا اور دیگر وجوہات کا ذکر کیا ہے 'میں نے بات کرنا شروع کی اور بس نہیں کیا' جب آپ اس طرح کی صورتحال میں ہوتے ہیں تو آپ کو احساس نہیں ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ آپ کو راستہ نظر نہیں آتا ہے اور آپ کسی کی نہیں سنتے ہیں۔ آپ یہ تک نہیں سوچتے کہ آپ کے فرار ہونے کا راستہ ہے، یہ بالکل مایوسی ہے۔ میں نے وہ کام کیے جو میں نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے اس کی عادت پڑ گئی تھی۔ میں ہمیشہ سب کا احسان مند رہا اور کبھی بھی خود کا نہیں ہو سکا۔ میں اپنے دادا دادی نانا نانی اور والدین کا فرمانبردار رہا میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ آپ کو رشتے کی خاطر سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ اور اس لیے میں نے اپنے مفادات اور خود کو بھی قربان کر دیا۔ اس وقت میرے لیے یہ معمول کی بات تھی۔ اور پھر سب کچھ اور بھی خراب ہوتا گیا۔ ابتدا میں ہی مجھے یہ پسند نہیں تھا لیکن بالآخر تعلقات کے آخری تین چار سالوں کے بعد سیکس کے خیال سے مجھے خوف کے دورے آنے لگتے۔ یہ اسی وقت ہوتا جب کبھی مجھے پکڑ لیتی اور زبردستی کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔ جب میں گھبراتا تو میں اسے پیچھے دھکیل دیتا، چھپ جاتا، بھاگتا، گھر سے بھاگ جاتا، یا کم از کم کمرے سے تو بھاگ ہی جاتا تھا۔ ایرا نے کہنا تھا کہ میری وجہ سے ہم میں سیکس کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اس لیے ہر ایک دو سال بد وہ مجھے ماہر جنسی امراض کے پاس لے جاتی۔ جب بھی میں کہتا کہ مجھے یہ چیز پسند نہیں اور میں اسے (سیکس کو) بالکل پسند نہیں کرتا تو مجھے کہا جاتا کہ میں ہی ساری پریشانی ہوں۔ میں زیادتی اور ریپ پر خاموش رہا۔ اور ایرا کے لیے ڈاکٹروں کے یہاں جانا اس کی بات کے ثبوت تھے۔ میں نے طلاق سے کچھ پہلے اس کے متعلق[تشدد کے بارے میں] بات کی۔ میں نے بات شروع کی تو رک ہی نہیں پا رہا تھا۔ 'مجھے کس طرح مدد اور چھٹکارا ملا' یہ خزاں کا موسم تھا۔ میں تقریباً دو ہفتوں تک کھانسی 39 -40 ڈگری بخار میں بستر پر پڑا رہا۔ اس دوران کسی نے بھی مجھ سے ملاقات نہیں کی۔ اس وقت میں نے محسوس کیا کہ میری زندگی بیکار ہے اور اگر میں مر بھی جاؤں تو کسی کو پتا نہیں چلے گا۔ یہ بصیرت افروز لمحہ تھا: خوف، ناگواری اور ناقابل یقین حد تک خود پر ترس آ رہا تھا۔ میں کسی کو بتانا چاہ رہا تھا لیکن میں نہیں جانتا تھا کہ کسے بتاؤں اور کیسے بتاؤں۔ ایک بار میں اپنے والدین کے گھر اس وقت گیا تھا جب وہ وہاں نہیں تھے، صرف تنہائی کے لیے وہاں گیا۔ میں انٹرنیٹ پر سرفنگ کر رہا تھا اور ایک چیٹ میں شامل ہوگیا جو کسی اشتہار کی ونڈو سے نکل آيا تھا۔ وہاں سب کچھ بے نام تھا۔ جیسے آپ کو کوئی وجود ہی نہ ہو۔ یہ پہلا موقع تھا جب میں نے کبھی میرے ساتھ جو کچھ ہورہا تھا اس کے بارے میں کچھ کہا تھا۔ میں یہ بھی نہیں جانتا تھا کہ وہ زیادتی ہے لیکن پھر میں نے زیادہ سے زیادہ 'نہیں' کہنا شروع کیا۔ جب بھی مجھے اپنے اندر قوت کی ضرورت محسوس ہوتی تو میں ان دنوں کو یاد کرتا جب میں بیمار تھا۔ آخر کار مجھے ایک فیملی تھراپسٹ ملا جس نے میری مدد کی۔ اس دوران مجھے اور ایرا دونوں کو بات کرنے کا موقع دیا جاتا اور اسے مجھے بیچ میں ٹوکنے سے باز رکھا جاتا۔ اسی دوران پہلی بار میں نے زیادتی کی بات کی۔ وہ اس قدر غصے میں تھی کہ وہ چیخ پڑی کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ بہر حال اس کے فورا بعد اس نے طلاق کی تجویز دی۔ مجھے نہیں لگتا کہ وہ یہ چاہتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ اس کی مجھے خاموش کرنے کی ایک کوشش تھی۔ میں جانتا تھا کہ مجھے دوسرا موقع نہیں ملے گا اور میں راضی ہوگیا۔ ایک دفتر میں قطار تھی لہذا ہم دوسرے دفتر گئے۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ مجھے کر گزرنا جب تک کہ میرے پاس موقع ہے۔ اور ہم نے وہ حاصل کیا۔ جب میں نے ایک ماہ بعد طلاق کے کاغذات اٹھائے تو وہ میری زندگی کا سب سے خوشگوار دن تھا۔ طلاق کے ایک دن بعد میں اس پر چیخ پڑا تھا: 'تم میرا ریپ کر رہی تھی!' اس نے کہا: 'میں تمہار ریپ کر رہی تھی تو کیا ہوا؟' مجھے اس کا جواب اس وقت نہیں ملا اور آج تک نہیں پتا ہے۔ ایک طرح سے اس نے اعتراف کیا کہ اس نے کیا تھا لیکن اس کو اس نے ہنسی میں اڑا دیا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ واپس چلا گیا، نوکری چھوڑ دی اور کچھ ہفتوں تک گھر میں ہی رہا۔ مجھے ڈر تھا کہ وہ باہر کہیں میری تلاش کر رہی ہے۔ پھر ایک دن وہ آئی اور اس نے دروازہ کھٹکھٹانا، اس پر لات مارنا اور چیخنا شروع کر دیا۔ ماں نے کہا کہ وہ ڈر گئی تھیں۔ میں نے خود پر ہی مسکرایا اور کہا: 'ماں، آپ سوچ بھی نہیں سکتیں۔۔۔' یہ سمجھنا ضروری ہے: یہ آپ کو مار ڈالتا ہے میں نے شواہد جمع نہیں کیے اور کسی کو نہیں بتایا۔ میں شاید اپنے والدین کو بتا سکتا تھا لیکن بچپن سے ہی میں جانتا تھا کہ وہ کوئی راز رکھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ میں اپنے ساتھ ہونے والی چیزوں کے بارے میں اپنے دوستوں سے کس طرح بات کروں۔ میں امدادی گروپس کی تلاش میں تھا لیکن یوکرین میں وہ صرف خواتین کے لیے ہیں۔ آخر میں مجھے سان فرانسسکو سے تعلق رکھنے والے مردوں کو باہمی تعاون فراہم کرنے والا ایک آن لائن گروپ ملا۔ میں یوکرین میں جس پہلے ماہر نفسیات سے ملا اس نے میرا مذاق اڑایا: 'یہ اس طرح نہیں ہوتا - وہ لڑکی ہے اور تم لڑکے ہو۔' لہذا میں نے چھ ماہرین کو تبدیل کیا اور اب آخر کار مجھے مدد مل رہی ہے۔ آٹھ مہینے لگے اس سے پہلے کہ میں کسی کو اپنا ہاتھ پکڑنے دوں۔ مرد نفسیاتی مدد کیسے حاصل کرتے ہیں؟ سماجی کارکن میکس لیون نے بتایا کہ یوکرین میں فادرز کلب کی برادری میں نفسیاتی مدد کے گروپ قائم کیے گئے تھے لیکن یہ پہل زیادہ دیر تک جاری نہیں رہ سکی۔ ان کے مطابق مرد ماہر نفسیات کے پاس جانے کو تیار نہیں تھے۔ لا اسٹراڈا یوکرین سے تعلق رکھنے والی الایونا کرییوولیاک کا کہنا ہے کہ مردوں نے اسی وقت مدد کے لیے کال کرنا شروع کیا جب لا اسٹراڈا ہاٹ لائن نے چوبیس گھنٹے کام کرنا شروع کیا۔ روایتی کاروباری اوقات میں مرد کال نہیں کر سکتے تھے۔ لیکن اب بھی مرد بنیادی طور پر گمنامی چاہتے ہیں اور وہ عوامی اداروں جیسے عدالتوں یا قانون نافذ کرنے والے اداروں میں اپنے حقوق کا دفاع کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ بحران کی ماہر نفسیات اور سیکولوجسٹ یولیا کلائمینکو کہتی ہیں کہ مرد متاثرین کے لیے بدسلوکی سے نفسیاتی طور پر نکلنے کا عمل طویل ہوسکتا ہے۔ بہر طور معاشرہ 'لڑکے نہیں روتے' یا 'مرد جسمانی طور پر مضبوط ہیں' جیسے جملے سے مدد نہیں کرتا۔ جنسی، نفسیاتی یا جسمانی زیادتی کا شکار مرد معاشرے کے لیے غیر معمولی لگتا ہے۔ مز کلائمینکو کے مطابق پیچیدہ صدمے میں مبتلا مؤکلوں کو ان کی صنف یا عمر سے قطع نظر زیادہ عرصے تک کے لیے ان کے 'اوسان بحال کیے جانے' کی ضرورت ہے۔ میں نے اسے عدالت لے جانے پر غور کیا۔ لیکن وکیلوں کا کہنا تھا کہ اس میں تدارک کے طور پر روک تھام کا حکم ملنے کا امکان ہے۔ لیکن مجھے اب اس کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک لمبے عرصے سے میں صرف یہ چاہتا تھا کہ وہ اس کا اعتراف کرے اور معافی مانگے۔ میں ابھی بھی کام پر نہیں جاتا ہوں اور میرے لیے ہر صبح بستر سے باہر نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ میرے پاس جینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں اتنے سال کیا کرتا رہا۔ میں بس یہ جانتا ہوں کہ میرا کبھی رشتہ نہیں ہوگا اور کبھی اولاد نہیں ہوگی۔ میں نے خود سے ہار مان لی ہے۔ لیکن لعنت ہو کہ میں اتنے عرصے تک خاموش رہا اور اس کی وجہ سے اس طرح کی گڑبڑ ہوئی! ہوسکتا ہے کہ ابھی اسی طرح کی صورتحال میں کوئی شخص پھنسا اور وہ میری کہانی پڑھے۔ اس کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ: یہ ختم نہیں ہوگا، کچھ بھی ٹھیک نہیں ہوگا، یہ ایک حقیقی گندگی ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگی اور یہ آپ کی جان لے لے گی۔ اگر آپ اسے سمجھ لیتے ہیں، تو کم از کم آپ کے پاس اب بھی ایک موقع ہے۔
050126_oscar_list_videos
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/01/050126_oscar_list_videos
اس سال کا آسکر کس کے نام؟
لیجئیے سال کا وہ وقت پھر آگیا جب شو بِز کی دنیا میں ذرا ہلچل سی پیدا ہوتی ہے اور قیاس آرائیوں میں شدت آتی ہے۔ جی ہاں اس سال کے آسکر ایوارڈز کے لئے نامزدگیوں کی فہرست سامنے آگئی ہے اور اب فلم بینوں میں یہ بحث گرم ہے کہ اس برس سٹیج سے کس اداکار یا ہدایتکار کا نام پکارا جائے گا اور کون بس اپنی نشست پر ہی بیٹھا رہ جائے گا۔
اس سال کی نامزد فلموں کے ویڈیو کلپ آپ کی سہولت کے لئے ہر فلم کے مختصر بیانیئے کے ساتھ موجود ہیں۔ مارٹن سکورسیزی کی ہدایت کردہ یہ فلم 1920 سے لے کر 1940 تک کے عرصے میں ایک پائلٹ کی زندگی اور اس میں رونما ہونے والے دلچسپ واقعات پر مبنی ہے۔ پائلٹ کا کردار ٹائیٹینک سے مشہور ہونے والے اداکار لیونارڈو ڈی کاپریو نے ادا کیا ہے۔ یہ ہے کہانی دو تیس برس سے زیادہ عمر کے دو مردوں کی جو اپنی پہچان کے سفر پر کیلی فورنیا کے وائین کے باغیچوں تک جا پہنچتے ہیں۔ دونوں کردار اداکار پال گیاماتی اور تھامس ہیڈن نے ادا کئے ہیں۔ ایک ایسی نوجوان لڑکی کی کہانی جو ایک پروفیشنل باکسر بننا چاہتی ہے اور اِس پر ہمت سفر پر اسے کئی موڑ پر دھوکا اور کئی مصیبتیں جھیلنا پڑتی ہیں۔ ہیلری سوینک اور کلین ایسٹ وُڈ نے بنیادی کردار ادا کئے ہیں۔ یہ ہے کہانی مشہور ناول نگار جے ایم بیری کی کہ وہ کس طرح بِن باپ کے بچوں کے خاندان سے مل کر اپنا مشہور ناول „پیٹر پین‘ لکھنے کے لئے متاثر ہوگئے۔جانی ڈیپ اور کیٹ ونسلٹ فلم کے بنیادی اداکار ہیں۔ آزاد ذرائع یا ہالی وڈ کے معمول کے ذرائع سے ہٹ کر بنائے جانے والی یہ فلم مشہور جیز گلوکار رے چارلس کی زندگی پر مبنی ہے جس میں مرکزی کردار جیمی فوکس نے ادا کیا ہے۔
040214_filipinos_kiss_record_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/02/040214_filipinos_kiss_record_fz
بوسہ کرنے کا عالمی ریکارڈ ٹوٹ گیا
منیلا میں ’یوم محبت‘ یعنی ’ویلنٹائنز ڈّے‘ پر پانچ ہزار ایک سو بائیس افراد نے بیک وقت ہم بوسہ ہو کر چلی میں کچھ دن قبل بنایا جانے والا عالمی ریکارڈ توڑ دیا ہے۔
منیلا میں پانچ ہزار ایک سو بائیس جوڑے سمندر کے کنارے رات کے بارہ بجے اکھٹے ہوئے اور عین بارہ بچے انہوں نے بوسہ و کنار شروع کیا اور یوں کچھ دن قبل چلّی کے شہر سانتیاگو میں چار ہزار چار سو پینتالیس افراد کے بیک وقت ہم بوسہ ہونےکا ریکارڈ توڑ دیا۔ یہ نظارہ کرنے والے لوگوں نے تالیاں بجا کر ان جوڑوں کو داد دی جو شادی کے بندھن سے یا تو حال ہی میں وابستہ ہوئے تھے یا وابستہ ہونے والے تھے۔ منیلا کے میئر اور ان کی بیوی نے ان جوڑوں سے ان کے ساتھ اس اجتماعی بوسے میں شریک ہونے کی اپیل کی تھی۔ منیلا کے میئر نے کہا کہ زندگی کی پریشانیوں کو بھلا کر ان کے ساتھ اس بوسہ میں شریک ہوں۔ بوسے میں شریک ہونے والا ایک جوڑے نے کہا کہ فلپائن کے لوگوں کے لیے مئی میں ہونے والے انتخابات کی وجہ سے پائی جانے والی سیاسی کشمکش سے ہر آدمی فرار چاہتا ہے۔ اس بوسہ کے بعد منتظمیں نے آتشبازی کا اہتمام کر رکھا تھا جس سے اس تقریب کو چار چاند لگ گئے۔
world-54557796
https://www.bbc.com/urdu/world-54557796
اردوغان کا ترکی: ٹرمپ دور میں امریکہ کی عالمی سطح پر پسپائی سے انقرہ کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟
ایک ایسے وقت جب ترکی خطے میں اپنے حلقہ اثر کو بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے، ترکی میں امریکی صدارتی انتخاب میں بہت دلچسپی لی جا رہی ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے عالمی رتبے میں کمی کو ترکی اپنے لیے ایک نادر موقع تصور کر رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ترک صدر طیب اردوغان کے مابین ایک قریبی تعلق ہے امریکہ ٹرمپ دور حکومت میں اپنے روایتی کردار سے پیچھے ہٹا ہے، جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا ہے جسے پُر کرنے کے لیے کئی ممالک کوشش کر رہے ہیں۔ دیگر کئی ریاستوں کی طرح ترکی بھی اپنے قرب و جوار میں اپنی عسکری طاقت کی دھاک بیٹھانے میں مصروف ہے۔ ترک حکام نے انقرہ کے اقدامات کو سراہا ہے جنھیں وہ ایک عظیم طاقت کے طور پر ترکی کے تاریخی کردار کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ترک صدر رجب طیب اردوغان نے رواں ماہ تین اکتوبر کو کہا تھا کہ ’جوں جوں ترکی ترقی کرتا ہے اس کی طاقت میں اضافہ ہوتا ہے اور وہ عالمی سطح پر اپنے حقوق کا تحفظ کر سکتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم شام ،لیبیا اور بحیرۂ روم سے لے کر کوہ قاف تک اپنے دوستوں اور مظلوم بھائیوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔‘ لیکن ترکی ہی واحد ایسا ملک نہیں ہے جو واحد عالمی طاقت کے کمزرو ہونے سے پیدا ہونے والی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے کوشاں ہے۔ یہ بھی پڑھیے کیا ترکی سلطنت عثمانیہ کی تاریخ دہرانے کی کوشش کر رہا ہے؟ اگر دوسری جنگِ عظیم کے بعد بننے والا ’ورلڈ آرڈر‘ بدل گیا تو کیا ہوگا؟ ترکی یونان کشیدگی: فرانس کا بحیرہ روم میں رفال طیارے اور بحری جنگی جہاز بھیجنے کا اعلان آنے والے برسوں میں دنیا میں بہت اچھاڑ پچھاڑ نظر آئے گئی کیونکہ دنیا کی کئی ریاستیں اس بدلتی ہوئی صورتحال میں اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے پیش قدمی کرتی نظر آتی ہیں۔ ٹرمپ اردوغان تعلقات امریکی صدر ٹرمپ اور ترک صدر اردوغان کے قریبی تعلق کی بنیاد وسیع تزویراتی حکمت عملی ہے۔ ترکی نیٹو اتحاد کا حصہ دوسرے ممالک سے اپنے اختلاف کے لیے ہمیشہ صدر ٹرمپ کا سہارا لیتا رہا ہے۔ جب ترکی نے روس سے ایس 400 میزائل خریدے تو امریکی کانگریس ترکی پر پابندیاں عائد کرنا چاہتی تھی لیکن صدر ٹرمپ نے ترکی کو بچایا۔ جرمن مارشل فنڈ کے ترکی ڈائریکٹر اوزگورن حسارچکلی کے مطابق دونوں ممالک میں خراب ہوتے تعلقات میں صرف صدر ٹرمپ ہی واشنگٹن میں ترکی کے واحد دوست ہے۔ صدر اردوغان نے ستمبر 2019 میں کہا تھا کہ ’ہم اپنے پیارے دوست ٹرمپ کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اس صورتحال سے نکل رہے ہیں۔‘ ترکی کے ذرائع ابلاغ نے ڈیموکریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کے اس عہد کی مذمت کی ہے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ ترکی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف سخت موقف اپنائیں گے۔ جو بائیڈن نے رواں سال اگست میں کہا تھا کہ ’ہم (اردوغان) کے حوالے ایک مختلف رویہ اپنائیں گے۔ جو بائیڈن کا بیان واضح کرتا ہے کہ وہ ترکی کی حزب اختلاف کی قیادت کی حمایت کریں گے۔‘ جو بائیڈن کے اس بیان کی وجہ سے ترکی کے کئی ماہرین ٹرمپ کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں۔ ترک حکومت کے حامی اخبار صبا کے کالم نگار محمت برلاس 17 اگست کے اپنے کالم میں لکھتے ہیں: ’مجھے ٹرمپ کی کمزوریوں کا علم ہے، لیکن اگر ہمیں کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو صدر ٹرمپ کا جیتنا ہمارے مفاد میں ہے۔‘ ترکی کا سرکاری میڈیا امریکہ کے صدارتی انتخابات میں بہت دلچسپی لے رہا ہے امریکہ کی پسپائی انقرہ کے صدر ٹرمپ کے ساتھ دوستانہ مراسم صرف دو طرفہ معاملات تک محدود نہیں ہیں۔ ترکی کی طرف سے اپنے عالمی رتبہ بڑھانے کی کوششوں اور صدر ٹرمپ کی طرف سے امریکہ کو عالمی معاملات سے الگ کرنے کی پالیسی کا آپس میں ایک تعلق بنتا ہے۔ ترکی کی پیش قدمی اور امریکہ کی پسپائی کا ایک مظاہرہ اکتوبر 2019 میں شام میں دیکھا گیا تھا۔ ترکی کی شامی کردوں کے خلاف فوجی کارروائی نے ایسے خدشات کو جنم دیا تھا کہ خطے میں موجود امریکی اور ترکی فوجیوں کی مڈبھیڑ ہو سکتی ہے۔ شامی کرد جو امریکی فوجوں کے ہمراہ نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے خلاف لڑ رہے تھے، وہ صدر ٹرمپ اور صدر اردوغان کی ٹیلیفون پر بات چیت کے بعد اس علاقے سے نکل گئے جس پر ترکی کو اعتراض تھا۔ اس کے بعد ترکی، روس اور شام حکومت کے حمایت یافتہ گروپوں نے شمالی شام کے علاقوں کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ انقرہ اور واشنگٹن کئی معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ ترکی کی خواہش ہے کہ وہ لیبیا میں اپنے مخالفین کے خلاف امریکی اثرو رسوخ کو استعمال کرے۔ انقرہ میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے دوسرے دور میں عالمی سطح پر امریکہ کی تنہائی میں اضافہ ہو گا اس میں ترکی کے لیے خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے مواقعے پیدا ہوں گے۔ ترکی کی خواہش ترک حکومت کے حامی ایک عرصے سے ترکی کے عالمی رتبے کو بڑھانے کی خواہش کو امریکہ کی دنیا سے پسپائی کے تعلق سے جوڑتے ہیں۔ سنہ 2016 میں صدر ٹرمپ کے منتخب ہونے سے پہلے ترکی کے صدارتی کمیونیکیشن ڈائریکٹر فریتن آلتن نے کہا تھا کہ صدر ٹرمپ کا امریکہ کی توسیع پسندانہ پالیسیوں کے خاتمے کا عہد مواقعے پیدا کر سکتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی صدارت کے چار سال مکمل ہونے پر ترک حکومت سے جڑے سیٹا تھنک ٹینک کے ڈائریکٹر برہان الدین دوران نے کہا: ’خطے سے امریکہ کی جزوی واپسی سے خلیج سے لیبیا اور شمالی افریقہ سے یورپ تک طاقت کا ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔‘ صبا اخبار کے کالم نگار حسن بصری یالسین نے دعویٰ کیا ہے کہ ترکی خطے کے سب سے طاقتور ملک کے طور پر ابھر رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں پرانے ڈھانچوں کا توازن بگڑ رہا ہے۔ حسن بصری یالسین نے 18 جون کو لکھا: ’دنیا بدل چکی ہے، ترکی بدل چکا ہے، امریکہ کے گرد گھومنے والی نوے کی دہائی ختم ہو چکی ہے۔‘ وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ اب مزید کچھ کرنے کا خواہشمند نہیں ہے، جوں جوں امریکہ کمزور ہو رہا ہے، ترکی ابھر کر سامنے آ رہا ہے۔ نیوز ویب سائٹ ہیبرترک کے کالم نگار چیتنر چیتن لکھتے ہیں: ’ترکی کی اپنے روایتی دوستوں سے دوری دراصل خول کے ٹوٹنے اور خوف کی دیوار کو توڑنے کا عمل ہے۔‘ یانی شفق اخبار کے ایڈیر ان چیف ابراہیم کارگل لکھتے ہیں: ’آج ترکی خطے کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے، جو بیسویں صدی کی صورتحال کو تبدیل کر رہی ہے۔‘ ترکی میں حکومت مخالف آوازیں بھی بدلتی ہوئی صورتحال کو محسوس کر رہی ہیں۔ میڈی سکوپ نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹر ان چیف روزن چاکر لکھتے ہیں :’دنیا افراتفری کے دور میں داخل ہو چکی ہے کیونکہ امریکی غلبے کے اختتام پر جمہوری اور بائیں بازور کا متبادل سامنے نہیں آیا ہے۔‘ ماہر تعلیم الہان اوزگل نے بارہ اکتوبر کو خبردار کیا ہے کہ جنگ عظیم کے بعد قائم ہونے والے لبرل دور کا خاتمہ ہو رہا ہے اور دنیا ایک بار پھر آمرانہ دور کی طرف بڑھ رہی ہے۔ ادلیب کا شمار بھی ایسی جگہوں میں ہوتا ہے جہاں ترکی نے فوجی مداخلت کی ہے علاقائی حریف ترکی ہی وہ واحد ملک نہیں ہے جو امریکہ کے پیچھے ہٹنے سے پیدا ہونے والے خلا کو پر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مشرقی بحیرۂ روم کے خطے میں طاقت کی کشمکش جاری ہے، جہاں کئی ممالک جن میں فرانس، روس، مصر، اسرائیل، یونان اور متحدہ عرب امارات اپنا حلقہ اثر وسیع کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کے ترکی سے کئی معاملات پر اختلافات پائے جاتے ہیں۔ عرب سپرنگ کی تحریک کے بعد مشرق وسطیٰ میں پیدا ہونے والی صورتحال میں ترکی، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات، لیبیا میں متحارب گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں۔ فرانس کے صدر ایمنیوئل میکخواں بھی مشرق وسطیٰ میں اپنا حلقہ اثر پڑھانےکے لیے تگ و دو کر رہے ہیں اور حال میں ان کے لبنان اور عراق کے دوروں کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ تاریخ دان والٹر برویر اوسٹیلز نے ہفنگٹن پوسٹ کے فرانسیسی ایڈیشن کو بتایا کہ ’ اب جب کہ امریکہ بحیرۂ روم میں اپنا مرکزی کردار مزید نہیں نبھانہ چاہ رہا ایسے میں فرانس بحیرۂ روم کے خطے کا محافظ بننا چاہتا ہے۔‘ ترکی نے فرانس کی کوششوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں 'نوآبادیاتی' اور 'جابرانہ' قرار دیا ہے۔ امریکی انتخابات کے بعد کی صورتحال امریکی انتخابات کے بعد بھی عالمی سیاست میں پنجہ آزمائی جاری رہے گی جس سے دنیا میں عدم استحکام جنم لے سکتا ہے۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ دوسری بار انتخابات میں کامیاب ہوں یا جو بائیڈن وائٹ ہاؤس پہنچ جائیں خطے میں مقابلہ کی فضا جاری رہے گی۔ ترکی کی میڈیا سکوپ نامی نیوز ویب سائٹ کے کالم نگار روسن چاکر لکھتے ہیں: ’بائیڈن شاید امریکہ کو پرانی ڈگر پر لے جانے کی کوشش کریں اور امریکہ عالمی اداروں میں اپنے کردار کو بڑھانے کی کوشش کرے، لیکن ٹرمپ کے ہارنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ ٹرمپ ایک نتیجہ ہیں، وجہ نہیں۔‘ وہ لکھتے ہیں: ’امریکہ کا عالمی غلبہ ختم ہو رہا ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ صدر ٹرمپ کے وائٹ ہاؤس میں رہنے یا جانے سے کوئی فرق پڑنے والا ہے۔‘ ترکی کی امنگیں بھی ٹرمپ کے دور حکومت تک محدود نہیں ہیں۔ ترکی ایک عرصے سے اپنے دفاع پر اضافی اخراجات کر رہا ہے اور ملک میں قوم پرستی کے جذبات کو ابھارا گیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دور میں ترکی کے لیے میدان وسیع ہو گیا ہے جہاں وہ اپنے حلقہ اثر کو بڑھا سکتا ہے۔ وائٹ ہاؤس میں کوئی بھی آئے، ٹرمپ یا بائیڈن، اردوغان کی سربراہی میں ترکی اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتا رہے گا۔
regional-52604338
https://www.bbc.com/urdu/regional-52604338
1857 کی ’جنگِ آزادی‘: جب دلی نے موت کو رقصاں دیکھا
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مشت غبار ہوں
آج کے دور میں ایک عام آدمی کے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہیں آ سکتی کہ ان اشعار کے خالق آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے سنہ 1857 میں انگریزوں کے خلاف لڑی جانے والی آزادی کی پہلی جنگ میں ہندوستانیوں کی قیادت کی ہو گی۔ 11 مئی سنہ 1857 کو پیر تھا اور رمضان کی 16 تاریخ۔ صبح سات بجے مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر ندی کنارے لال قلعے کے تصویر خانے میں اشراق کی نماز پڑھ رہے تھے۔ اسی وقت انھیں جمنا پار ٹول ہاؤس سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ انھوں نے اس کی وجہ جاننے کے لیے فوراً اپنا ہرکارہ وہاں بھیجا اور وزیراعظم حکیم احسان اللہ خان اور قلعے کی حفاظت کے ذمہ دار کیپٹن ڈگلس کو بھی طلب کر لیا۔ یہ بھی پڑھیے بہادر شاہ ظفر دلوں پر آج بھی حکمران میانمار: مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کے عرس کی تقریبات ہندوؤں کا دل جیتنے کے لیے ہولی کھیلنے والے انگریز افسر ہرکارے نے آ کر بتایا کہ انگریزی فوج کی وردی میں ملبوس کچھ ہندوستانی سواروں نے برہنہ تلواروں کے ساتھ دریائے جمنا کا پل عبور کیا تھا اور انھوں نے دریا کے مشرقی کنارے پر واقع ٹول ہاؤس کو لوٹنے کے بعد آگ لگا دی تھی۔ یہ سن کر بادشاہ نے شہر اور قلعے کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دے دیا۔ شام چار بجے ان باغیوں کے رہنما نے بادشاہ کو پیغام بھجوایا کہ وہ ان سے ملنا چاہتے ہیں۔ یہ باغی دیوان خاص کے احاطے میں جمع ہو گئے اور اپنی بندوقوں اور پستولوں سے ہوائی فائرنگ کرنے لگے۔ ’باغی بادشاہ کی آشیرباد کے خواہشمند تھے‘ دلی میں اس زمانے کے بڑے رئیس عبدالطیف نے 11 مئی کے اپنے روزنامچے میں لکھا: ’بادشاہ کی مثال وہی تھی جو شطرنج کی بساط پر شہ دیے جانے کے بعد بادشاہ کی ہوتی ہے۔‘ بہت دیر چپ رہنے کے بعد بہادر شاہ ظفر نے کہا کہ ’میرے جیسے بزرگ آدمی کی اتنی بےعزتی کیوں کی جا رہی ہے، اس شور کی وجہ کیا ہے؟ ہماری زندگی کا سورج پہلے ہی اپنی شام تک پہنچ چکا ہے۔ یہ ہماری زندگی کے آخری دن ہیں۔ اس وقت ہم صرف تنہائی چاہتے ہیں۔‘ بعد میں چارلس میٹکاف نے اپنی کتاب ’ٹو نیشنز نیریٹو‘ میں لکھا: ’حکیم احسان اللہ خان نے سپاہیوں سے کہا آپ انگریزوں کے لیے کام کرتے رہے ہیں اور مقررہ تنخواہ کے عادی ہیں۔ بادشاہ کے پاس کوئی خزانہ نہیں ہے۔ وہ کہاں سے آپ کو تنخواہ دیں گے؟‘ ’سپاہیوں نے جواب دیا کہ ہم سارے ملک کا پیسہ آپ کے خزانے میں لے آئیں گے۔ بہادر شاہ ظفر نے کہا کہ میرے پاس نہ تو فوجی ہے، نہ ہتھیار اور نہ ہی پیسہ، تو انھوں نے کہا ہمیں صرف آپ کی حمایت چاہیے۔ ہم آپ کے لیے سب کچھ لے آئیں گے۔‘ چارلس لکھتے ہیں ’بہادر شاہ ظفر تھوڑی دیر تک خاموش رہے۔ فوری فیصلہ نہ کر پانا ان کی شخصیت کا سب سے بڑا نقص تھا لیکن اس دن بہادر شاہ ظفر نے فیصلہ کرنے میں دیر نہیں کی اور ہاں کر دی۔ ’وہ ایک کرسی پر بیٹھے اور سبھی سپاہیوں نے باری باری ان کے سامنے آ کر سر جھکایا اور انھوں نے ان کے سر پر اپنا ہاتھ رکھا۔ سپاہیوں نے قلعے کے کمروں پر قبضہ کر لیا اور کچھ نے تو دیوان عام میں اپنے بستر لگا دیے۔‘ چاندی کا تخت اور نئے سکے بادشاہ نہ تو اتنے بڑے لشکر کو قابو میں رکھ سکتے تھے اور نہ ہی ان کا انتظام کر سکتے تھے لہٰذا وہ خود لشکر کے قابو میں آ گئے۔ اگلے دن بادشاہ نے اپنا شاہی لباس زیبِ تان کیا۔ چاندی کے تخت پر رونق افروز ہوئے۔ بادشاہ کے نام پر سکے جاری کیے گئے پھر پھر ایک بڑی توپ داغے جانے کی آواز سنائی دی۔ انگریزوں کے خلاف بغاوت کیسے اور کیوں شروع ہوئی اس سب کی شروعات 10 مئی 1857 کو میرٹھ میں اس وقت ہوئی تھی جب بنگال لانسر کے سپاہیوں نے بغاوت کر کے دلی کی جانب کوچ کیا تھا۔ سنہ 1857 کے واقعات پر انتہائی اہم تحقیق کرنے والی معروف تاریخ دان رعنا صفوی بتاتی ہیں: ’ایسی بندوقیں آئی تھیں جس کے کارتوسوں کو منہ سے کاٹ کر بندوق میں بھرنا پڑتا تھا۔ اس زمانے میں یہ کہا جا رہا تھا کہ اس کے اندر گائے کی اور خنزیر کی چربی ہے لہٰذا جو مسلمان تھے وہ بھی ان کو چھونے سے کترا رہے تھے اور ہندو بھی ان کو چھونے سے کترا رہے تھے۔‘ رعنا صفوی کے مطابق ’اس کے علاوہ بھی اسباب تھے کہ انھیں سمندر پار لڑائی کے لیے بھیجا جا رہا ہے۔ تو برہمنوں کا یہ عقیدہ ہے کہ پانی یعنی سمندر پار کر لیا تو ان کی ذات ختم ہو جاتی ہے۔ ان کی ترقی بھی صرف ایک حد تک ہوتی تھی۔ ہندوستانی سپاہی صوبے دار سے آگے نہیں جا سکتے تھے۔ اس طرح کی ان کی بہت ساری شکایتیں تھیں۔‘ کچھ لوگوں نے اسے غدر کہا تو کچھ نے جنگ آزادی کا نام دیا۔ دلی والوں نے باغیوں کا خیرمقدم نہیں کیا ابتدا میں دلی والوں نے ہاتھ پھیلا کر ان باغیوں کا خیر مقدم نہیں کیا بلکہ کچھ حلقوں یہاں تک کہ بہادر شاہ کے قریبی لوگوں نے بھی ان کی مخالفت کی تھی۔ کہا گیا کہ ان باغیوں نے بھی شہنشاہ کا احترام نہیں کیا اور اس معاملے میں دربار کے قوانین کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھا۔ درباریوں کو اعتراض تھا کہ وہ دربار میں داخل ہونے سے پہلے اپنے جوتے نہیں اتارتے اور شہنشاہ کے سامنے ہتھیار لے کر جاتے تھے۔ مشہور تاریخ دان اور کتاب ’بسیج 1857: وائسز آف دہلی‘ کے مصنف محبوب فاروقی بتاتے ہیں کہ ’دلی والے ناراض تھے لیکن اس سے ہم ایسا کوئی نتیجہ نہیں نکال سکتے کہ دلی والے انگریزوں کے خلاف لڑائی لڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ’بات یہ ہے کہ انگریزوں کے خلاف لڑائی ہر آدمی اپنے حساب سے لڑنا چاہے گا۔ کوئی یہ نہیں چاہے گا کہ انگریزوں کے خلاف لڑائی میں آپ کے گھر کے اوپر 40 سپاہی آ کر بیٹھ جائیں۔‘ ’جب ہم آزادی کی لڑائی مہاتما گاندھی یا کانگریس پارٹی کے ساتھ لڑ رہے تھے، بھگت سنگھ کے ساتھ لڑ رہے تھے تو بھی ہندوستان میں ہزاروں لاکھوں ایسے لوگ تھے جو یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کے گھر پر کوئی آنچ آئے یا پولیس ان کے گھر پر آ جائے۔ یہی بات سنہ 1857 پر بھی صادق آتی ہے۔‘ انتشار کے باوجود انتظام برقرار تھا کہا جاتا ہے کہ ان واقعات نے دلی والوں کی زندگی میں بہت ہی اتھل پتھل مچا دی لیکن محبوب فاروقی کا خیال ہے کہ تمام تر انتشار کے باوجود نظام پہلے ہی کی طرح قائم تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’1857 کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بہت افرا تفری تھی، بہت بدنظمی تھی، کوئی تنظیم نہیں تھی، کوئی کنٹرول نہیں تھا، کوئی ڈھانچہ نہیں تھا لیکن میں اپنی کتاب میں یہ بات کہنے کی کوشش کر رہا ہوں کہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ ’ظاہر سی بات ہے کہ ڈیڑھ لاکھ شہریوں کے درمیان اگر 70 یا 80 ہزار فوجی آ جائيں گے تو کچھ نہ کچھ افرا تفری تو پھیلے گی۔ اگر آج دلی کی جتنی آبادی ہے اس میں 30 لاکھ فوجی آ کر بیٹھ جائیں تو شہر کا کیا حال ہو گا۔‘ ان کے مطابق ’اس کے باوجود جو بہت ہی حیرت انگیز اور عجیب و غریب چیز ہے کہ اگر کمانڈر ان چیف کوتوال سے کہہ رہا ہے کہ چار سپاہی جو ڈیوٹی پر نہیں گئے تھے ان کو پکڑ لاؤ اور چار سپاہی پکڑ لیے جاتے ہیں اور وہ آ جاتے ہیں اور معافی مانگتے ہیں تو میرا خیال ہے کہ یہ اچھا نظم و ضبط ہے۔ ‘ ’آپ کو محاذ پر چار سو چارپائیاں چاہییں اور وہ آپ کو مل رہی ہیں تو یہ فراہمی کا ایک طریقہ ہے۔ یہ آسمان سے تو نہیں اتر رہیں، کسی نے کہا، کوئی گیا، کوئی لے کر آیا اور فورا ہی اس کا پیسہ دیا گیا۔ یہ تو ایک مثال ہے کہ لڑائی صرف سپاہی نہیں لڑتے ہیں۔ لڑائی جب آپ لڑتے ہیں تو آج کے زمانے میں بھی اگر آپ کو ٹاٹ کی بوریاں چاہییں، آپ کو پانی چاہیے، قلی چاہیے، مزدور چاہیے تو وہ سب ایک سپاہی کے ساتھ چار مزدور ہوتے ہیں تو وہ سب کہاں سے آ رہے تھے؟' 56 برطانوی مارے گئے 12 مئی کی صبح دلی انگریزوں سے پوری طرح خالی ہو چکی تھی لیکن چند انگریز خواتین نے قلعے کے باورچی خانے کے پاس کچھ کمروں میں پناہ لے رکھی تھی۔ باغیوں نے بادشاہ کی مخالفت کے باوجود ان سب کو قتل کر دیا۔ رعنا صفوی کہتی ہیں ’11 اور 12 کو جب انھوں نے حملہ کیا اور انگریزوں پر وار کیا تو اس وقت کافی انگریز تو شہر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور کافیوں کو انھوں نے مارا بھی۔ کچھ عورتوں نے قلعے میں آ کر پناہ لی۔ وہیں پر انھوں نے دشمنی میں 56 لوگوں کو مار ڈالا۔ ان میں زیادہ تر عورتیں اور بچے تھے جبکہ ان میں ایک دو مرد بھی تھے۔‘ ان کے مطابق ’بہادر شاہ ظفر کے خلاف جب مقدمہ چلا تو ان کے خلاف سب سے بڑا الزام یہی تھا کہ انھیں آپ نے مروایا۔ حالانکہ ظہیر دہلوی کی کتاب اگر پڑھیے تو پتہ چلتا ہے کہ اس وقت 1857 کے غدر کے وقت قلعے میں موجود عینی شاہدین تھے وہ بتاتے ہیں کہ بادشاہ نے بہت کہا تھا کہ یہ کسی بھی مذہب میں نہیں لکھا ہے کہ تم معصوموں کو مارو۔‘ انگریزوں کی واپسی اور سزائیں کچھ دنوں کے بعد ہی بغاوت کرنے والوں کے قدم اکھڑنے لگے اور دلی سے بھاگ نکلنے والے انگریزوں نے واپسی کی۔ انبالہ سے آنے والے فوجیوں نے بازی پلٹ دی اور انگریز ایک بار پھر دلی میں داخل ہو گئے۔ 10 مئی 1857 کو دو باغیوں کو پھانسی دی جارہی ہے اور پھر شروع ہوا سزاؤں کا سلسلہ۔ اس وقت کے ایک برطانوی سپاہی، 19 سالہ ایڈورڈ وائبرڈ نے اپنے چچا گورڈن کو ایک خط میں لکھا تھا ’میں نے اس سے پہلے بھیانک مناظر دیکھے ہیں ، لیکن کل میں نے جو کچھ دیکھا ہے، میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ میں پھر کبھی ایسا منظر نہیں دیکھوں۔‘ ’خواتین کو چھوڑ دیا گیا، لیکن اپنے شوہروں اور بیٹوں کی موت کے بعد ، ان کی چیخیں اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہیں۔ مجھے ان پر ترس نہیں آیا لیکن جب میری آنکھوں کے سامنے معمر افراد کو جمع کر کے مار دیا گیا تو یہ میں مجھ پر اثرانداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔‘ محبوب فاروقی کہتے ہیں ’سنہ 1857 میں بہر حال افراتفری تھی اور کیوں نہ ہو کہ آپ اس بڑے پیمانے پر ایک ورلڈ پاور اور سپر پاور کے ساتھ لڑائی کر رہے ہیں تو ہم یہ امید نہیں کر سکتے کہ شہر میں جو کچھ جیسا تھا چلتا رہے گا۔ ظاہر سی بات ہے شہر میں شدید دہشت کا ماحول تھا، شک کا ماحول تھا، لڑائی چل رہی تھی تو اس قسم کا ماحول تو ہو گا۔‘ تاہم ان کے مطابق ’1857 کی بغاوت کے بعد جس طرح سے شہر اور شہریوں کو جبر کا نشانہ بنایا گیا اور جو انگریزوں نے کیا اس کی بھی مثال نہیں ملتی۔ ’دلی کے تمام شہریوں کو چھ مہینے تک شہر کے باہر رکھا گیا اور دلی والوں نے چھ مہینے تک سردی اور برسات میں کھلے آسمان تلے گزارے جبکہ محلوں کے محلے لوٹ لیے گئے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’مرزا غالب بھی اسی دلی میں تھے۔ دیکھیں کہ وہ اس سب سے کتنے دہشت زدہ ہوئے کہ انھوں نے 1857 کے بعد سے اپنی زندگی کے باقی 12 برسوں میں کل 11 غزلیں کہی ہیں۔ یعنی ایک سال کی ایک غزل بھی نہیں بنتی ہے۔ تو شاعر مرزا غالب اور فنکار مرزا غالب یا جو وہ پوری کھیپ تھی 1857 کے بعد ختم ہو گئی۔‘ سنہ 1857 کے بعد سے ہندوستانی کبھی اس اعتماد کے ساتھ نہ انگریزوں سے مل پائے نہ بات کر پائے جو اس سے قبل ان میں موجود تھی۔ 1857 کی لڑائی ہندوستانی کی آخری لڑائی تھی جو وہ اپنی شرائط پر لڑ رہے تھے۔ اس کا مطلب اپنے ہتھیاروں پر نہیں بلکہ اپنی ذہنی شرائط پر، اپنی نفسیاتی شرائط پر۔‘ بادشاہ نے ہتھیار ڈال دیے انگریز دلی میں داخل ہوئے تو بہادر شاہ ظفر لال قلعے کے عقب سے اپنی پالکی میں بیٹھ کر پہلے حضرت نظام الدین کے مزار پر گئے اور پھر وہاں سے ہمایوں کے مقبرے پر جہاں پر 18 ستمبر 1857 کو کیپٹن ولیم ہاجسن نے انھیں گرفتار کیا۔ بعد میں سی پی ساؤنڈرس کو تحریر کردہ خط میں انھوں نے اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا: ’بادشاہ، مرزا الٰہی بخش اور مولوی کے ساتھ ایک پالکی پر باہر آئے۔ ان کے پیچھے بیگم اپنے بیٹے مرزا جوان بخت اور والد مرزا قلی خان کے ساتھ باہر نکلیں۔ پھر پالکیاں رک گئیں اور بادشاہ نے پیغام بھجوایا کہ وہ میرے منہ سے سننا چاہتے ہیں کہ ان کی جان بخش دی جائے گی۔‘ ’میں اپنے گھوڑے سے اترا اور میں نے بادشاہ اور ان کی بیگم کو یقین دلایا کہ ہم آپ کی زندگی کی ضمانت دیتے ہیں بشرطیکہ کہ آپ کو بچانے کی کوئی کوشش نہ کی جائے۔ میں نے ان سے یہ بھی کہا کہ ان کی بےعزتی نہیں کی جائے گی اور ان کے وقار کو برقرار رکھا جائے گا۔‘ بہادر شاہ ظفر کی جان تو بخش دی گئی لیکن ان کے تین بیٹوں خضر سلطان، مرزا مغل اور ابوبکر کو ہتھیار ڈالنے کے باوجود گولی مار دی گئی۔ ولیم ہڈسن نے اپنی بہن کو ایک خط میں لکھا ’میں فطرتاً بےرحم نہیں ہوں لیکن مجھے ان تین بدبختوں سے چھٹکارا پا کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے۔‘ جب بادشاہ قیدی بنا بادشاہ کو لال قلعے کی ایک کوٹھڑی میں ایک معمولی قیدی کی طرح رکھا گیا۔ سر جارج کیمبل اپنی کتاب ’میموائرز آف مائی انڈین کریئر‘ میں لکھتے ہیں کہ ’بادشاہ کو ایسے رکھا گیا جیسے کسی جانور کو پنجرے میں رکھتے ہیں۔‘ بہادر شاہ ظفر کی نگرانی کے لیے تعینات لیفٹننٹ چارلس گریفتھ نے اپنی کتاب ’سیج آف دہلی‘ میں لکھا: ’ایک عام سی چار پائی پر مغل بادشاہ کا آخری نمائندہ بیٹھا ہوا تھا۔ ان کی لمبی سفید داڑھی تھی جو ان کے پیٹ تک آ رہی تھی۔ انھوں نے سفید رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اور اسی رنگ کا صافہ باندھ رکھا تھا۔ ان کے پیچھے دو اردلی کھڑے ہوئے تھے جو مور کے پنکھ سے بنے پنکھے سے ان پر پنکھا جھل رہے تھے۔ ان کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا، ان کی آنکھیں زمین پر ہی گڑی ہوئی تھیں۔‘ ان کے مطابق ’بادشاہ سے تین فٹ دور ایک دوسری چارپائی پر ایک برطانوی افسر بیٹھا ہوا تھا۔ ان کے دونوں طرف سنگینیں لیے انگریز سنتری کھڑے تھے جنھیں حکم تھا کہ اگر بادشاہ کو بچانے کی کوشش کی جائے تو وہ فوراً اسے مار ڈالیں۔‘ بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی اس حد تک بےعزتی کی گئی کہ انگریزوں کے گروہ کے گروہ انھیں دیکھنے آتے تھے کہ مغل بادشاہ دیکھنے میں کیسے لگتے ہیں۔ محمود فاروقی کہتے ہیں: ’بہادر شاہ ظفر کو قید کرنے کے بعد سے لال قلعے کی ایک کوٹھڑی میں رکھا گیا تھا جہاں انگریز سیاح آ کر جس طرح آپ لال قلعے کو آج دیکھنے جاتے ہیں اسی طرح وہ ان کی کوٹھری میں جا کر انھیں دیکھتے تھے کہ یہ ہیں بہادر شاہ ظفر۔ ’جس آدمی کا، جس بادشاہ ہندوستان کا دلی میں ہی یہ حال تھا تو ظاہر سی بات ہے کہ انھوں نے اپنی موت کی حسرت میں ہی باقی سال گزارے۔ یہاں سے انھیں رنگون بھیجا گیا اور اسی کے آس پاس رنگون کے بادشاہ کو مہاراشٹر لایا گیا۔‘ ’یہ انگریزوں کی دنیا بھر میں حکومت تھی کہ بادشاہوں کی تجارت ادھر سے ادھر ہو رہی تھی۔ بہادر شاہ کے آخری ایام افسوس ناک اور دردناک ہیں۔ یہی وہ صورتحال تھی جس میں انھوں نے کہا: ’کتنا ہے بدنصیب ظفر دفن کے لیے دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں‘ ’ان پر جو کچھ گزرنا تھی میرا خیال ہے کہ سنہ 57 کے دوران اور اس کے بعد ان پر گزر چکی تھی۔ اس سے برا کیا ہو گا کہ تیموریہ جانشین اور بادشاہ ہندوستان کو آپ نے ایک کوٹھڑی میں رکھا ہوا ہے اور انگریز عورتیں اور بچے آ رہے ہیں ان کو دیکھنے کے لیے کہ اچھا یہ تھا بہادر شاہ!‘ بہادر شاہ ظفر نے اپنے آخری ایام رنگون میں کسمپرسی کی حالت میں گزارے بادشاہ کی موت سات نومبر 1862 کو رنگون کے ایک جیل نما گھر میں کچھ برطانوی فوجی ایک 87 سالہ شخص کی لاش کو احاطے میں کھودی گئی قبر میں دفنانے کے لیے لے کر چلے۔ جنازے میں مرنے والے کے دو بیٹے اور ایک مولوی شامل تھے۔ کسی خاتون کو جنازے میں شرکت کی اجازت نہ تھی۔ بازار میں کچھ لوگوں کو اس کی بھنک پڑی تو انھوں نے جنازے میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن مسلح سپاہیوں نے انھیں قریب بھی نہیں پھٹکنے دیا۔ دفنانے سے قبل فوجیوں نے قبر میں چونا ڈال دیا تاکہ لاش جلد از جلد گل کر مٹی میں مل جائے۔ ایک ہفتے بعد برطانوی کمشنر ایچ این ڈیویز نے لندن بھیجی گئی رپورٹ میں لکھا ’اس کے بعد میں بقیہ شاہی قیدیوں کی خبر لینے ان کی رہائش گاہ پر گیا۔ سب ٹھیک ٹھاک ہیں اور کسی پر اس بوڑھے کی موت کا اثر دکھائی نہیں دیا۔ ان کی موت گلے میں فالج کی وجہ سے ہوئی۔ ’تدفین کی صبح پانچ بجے ان کا انتقال ہوا۔ ان کی قبر کے چاروں طرف بانس کی باڑ لگائی جا چکی ہے۔ جب تک یہ باڑ ختم ہو گی تب تک وہاں گھاس اس زمین کو ڈھانپ چکی ہو گی اور کسی کو علم نہیں ہو گا کہ مغلوں کا آخری بادشاہ یہاں دفن ہے‘۔ ۔
041025_kamran_wicketkeeper
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2004/10/041025_kamran_wicketkeeper
معین خان کراچی ٹیسٹ سے باہر
سری لنکا کے خلاف جمعرات سے کراچی میں ہونے والے دوسرے کرکٹ ٹیسٹ کے لیے وکٹ کیپر کامران اکمل کو معین خان کی جگہ پاکستانی ٹیم میں شامل کرلیا گیا ہے۔
فیصل آباد ٹیسٹ میں201 رنز کی شکست کے بعد کپتان انضمام الحق نے وکٹ کیپر معین خان کی کارکردگی پر عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے نئے وکٹ کیپر کو موقع دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ بائیس سالہ کامران اکمل پاکستان کی طرف سے چھ ٹیسٹ اور بارہ ون ڈے کھیل چکے ہیں۔ چیف سلیکٹر وسیم باری نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ وکٹ کیپر کامران اکمل کو پاکستان کے پندرہ رکنی اسکواڈ میں معین خان کی جگہ شامل کرلیا گیا ہے۔ وسیم باری کی توجہ ٹیم میں پہلے سے شامل وکٹ کیپر ڈوالقرنین کی طرف دلائی گئی تو انہوں نے کہا کہ کامران اکمل کو ٹیم انتظامیہ کی درخواست پر ٹیم میں شامل کیا گیا ہے۔
regional-57277799
https://www.bbc.com/urdu/regional-57277799
کووڈ 19: کورونا وائرس کے چینی لیب سے نکلنے کا نظریہ دوبارہ کیوں مقبول ہونے لگا ہے؟
ڈیڑھ برس قبل چین کے شہر ووہان میں کووڈ کی اولین دریافت کے بعد ابھی تک اس سوال کا حتمی جواب نہیں ملا ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی اس بیماری کی شروعات کیسے ہوئی تھی۔
عالمی ادارہ صحت کی ٹیم نے فروری میں ڈبلیو آئی وی کا دورہ کیا لیکن حالیہ ہفتوں میں اس دعوے کو دوبارہ سنجیدگی سے لیا جا رہا ہے جس کے مطابق کہا جاتا ہے کہ یہ کورونا وائرس ایک چینی لیب سے نکلا ہے۔ ماہرین نے اب تک اسے سازشی مفروضہ کہتے ہوئے مسترد کیا ہے کیونکہ اس کے کوئی شواہد دستیاب نہیں ہو پائے ہیں۔ اب نئے امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ اُن کی حکومت فوری طور پر تحقیقات کا آغاز کر رہی ہے جو اس وبا کے آغاز کے حوالے سے اس مفروضے (چینی لیب سے اس کی ابتدا) کی جانچ بھی کرے گی۔ تو اب تک ہم وائرس کے شروع ہونے کے حوالے سے کیا کیا جانتے ہیں؟ یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بحث کیوں ضروری ہے؟ کورونا وائرس کے متعلق مزید پڑھیے آخر کورونا وائرس شروع کہاں سے ہوا؟ ووہان: اس شہر میں جوابات کی تلاش جہاں سے کورونا وبا کا آغاز ہوا کووڈ-19: کیا اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ وائرس لیبارٹری سے نکلا؟ لیب لیک کا نظریہ ہے کیا؟ اس نظریے کے تحت اس شک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ کورونا وائرس ووہان میں قائم ایک لیب سے یا تو غلطی سے یا جان بوجھ کر نکلا۔ اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ووہان شہر میں چین کی ایک اہم تجربہ گاہ اور تحقیقی مرکز ہے اور ووہان انسٹٹیوٹ آف وائرولوجی (ڈبلیو آئی وی) میں چمگادڑوں سے ملنے والے مختلف نوعیت کے کورونا وائرس پر تحقیق کئی سالوں سے جاری ہے۔ یہ مرکز اس مارکیٹ سے محض چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جہاں سے کورونا وائرس کے سب سے پہلے متاثرین کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وائرس اس مرکز سے نکل کر اس مارکیٹ میں پھیلا ہے۔ ووہان کے نزدیک مارکیٹ دوسری جانب ماہرین کی واضح اکثریت اس بات پر یقین کرتی ہے کہ یہ ایک قدرتی طور پر پیدا ہونے والا ایک وائرس ہے جو کہ جنگلی جانوروں یا جنگلات سے آیا ہے نہ کہ اسے مصنوعی طور پر کسی تجربہ گاہ میں بنایا گیا ہے۔ اس متنازع نظریے کا سب سے پہلے آغاز وبا کی شروعات کے ساتھ ہی ہوا تھا اور اس کو پھیلانے والوں میں سے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پیش پیش تھے۔ کئی نے تو اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ یہ وائرس بطور حیاتیاتی ہتھیار بنایا گیا تھا۔ شروع شروع میں میڈیا، ماہرین اور سیاستدانوں نے اس خیال کو مسترد کر دیا تاہم چند لوگ پھر بھی مُصر تھے کہ اس پر تحقیق ہونی چاہیے۔ لیکن اب حالیہ چند روز میں یہ خیال دوبارہ سے منظر عام پر آ گیا ہے۔ یہ نظریہ اب دوبارہ کیوں مقبول ہوتا جا رہا ہے؟ اس نظریے کے شروع ہونے کی وجہ بنی ہے ایک خفیہ امریکی انٹیلیجنس رپورٹ جس میں کہا گیا ہے کہ ووہان کی تجربہ گاہ کے تین محققین کا نومبر 2019 میں ایک ایسی بیماری کا علاج کیا گیا تھا جو کہ کووڈ 19 سے ملتی جلتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے صدر ٹرمپ کے حکم سے شروع ہونے والی امریکی محکمہ خارجہ کی اس تفتیش کو بند کر دیا تھا۔ چند روز قبل صدر بائیڈن کے چیف میڈیکل مشیر ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے امریکی سینیٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ ’اس دعوے میں بالکل حقیقت ہو سکتی ہے اور میں مکمل تفتیش کرنے کے حق میں ہوں۔‘ امریکی صدر جو بائیڈن نے 90 دن میں کووڈ کے آغاز کے بارے میں تحقیقی رپورٹ طلب کی ہے امریکی صدر جو بائیڈن نے 90 دن میں کووڈ کے آغاز کے بارے میں تحقیقی رپورٹ طلب کی ہے جس میں یہ معلوم کیا جائے کہ 'آیا یہ وائرس کسی متاثرہ جانور سے انسان میں منتقل ہوا یا پھر وہ کسی تجربہ گاہ سے حادثاتی طور پر نکل گیا۔' منگل کو سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اخبار نیویارک پوسٹ کو بھیجی گئی اپنی ایک ای میل میں وائرس کی شروعات کے بارے میں دوبارہ پیدا ہونے والی دلچسپی پر کریڈٹ لینے کی کوشش کی اور کہا کہ ’میرے لیے تو یہ بات پہلے سے ہی واضح تھی لیکن ہمیشہ کی طرح مجھے تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اب سب کہہ رہے ہیں کہ وہ ٹھیک تھا۔‘ سائنسدانوں کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟ اس معاملے پر ابھی بھی گرما گرم بحث چل رہی ہے۔ توقع تھی کہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے وائرس کے آغاز پر کی گئی تحقیق سے اس سوال کا جواب مل جائے گا لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ سے جوابات کے بجائے مزید سوالات پیدا ہو گئے۔ اس سال کے شروع میں عالمی ادارہ صحت کے نامزد کردہ سائنسدانوں کی ٹیم نے ووہان کا دورہ کیا تاکہ وہ تفتیش کر سکیں کہ وائرس کا آغاز کہاں سے اور کیسے ہوا تھا۔ چین میں 12 دن گزارنے اور ڈبلیو آئی وی کا دورہ کرنے کے بعد اس ٹیم نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ لیب لیک نظریے کے ’سچ ہونے کا امکان انتہائی کم‘ ہے۔ لیکن اس ٹیم کی رپورٹ سامنے آنے کے بعد کئی نے اس کے نتائج پر سوالات اٹھائے ہیں۔ معروف سائنسدانوں کے ایک گروپ نے عالمی ادارہ صحت پر تنقید کی کہ انھوں نے اس نظریے کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور سینکڑوں صفحات پر مبنی اس رپورٹ میں اس نظریے کا ذکر محض چند صفحات میں کر کے اسے نظر انداز کیا۔ ووہان انسٹٹیوٹ آف وائرلوجی مؤقر جریدے ’سائنس‘ میں مشترکہ طور پر لکھے گئے اس مضمون میں سائنسدانوں نے کہا کہ 'ہمیں اس وائرس کے قدرتی طور پر یا تجربہ گاہ سے نکلنے کے خیال کو سنجیدگی سے لینا ہوگا تاوقتیکہ ہمارے پاس معقول تعداد میں ڈیٹا نہ آ جائے۔' اور اب ماہرین میں اس بات پر اتفاق بڑھ رہا ہے کہ لیب لیک تھیوری پر زیادہ غور کرنا ہوگا۔ حتی کہ عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ادھانوم نے نے بھی نئے سرے سے تفتیش کا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ 'تمام تر خیالات اور خدشات پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔' ڈاکٹر انتھونی فاؤچی نے بھی اب کہا ہے کہ وہ وائرس کے قدرتی طور پر بننے کے خیال سے 'مکمل طور پر اتفاق نہیں کرتے'۔ یہ ان کے گذشتہ برس کے نکتہ نظر کے برعکس ہے جب انھوں نے کہا تھا کہ حد درجہ امکان یہی ہے کہ کووڈ کا وائرس جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوا ہے۔ چین کا اس بارے میں کیا کہنا ہے؟ چین نے حسب توقع وائرس کے لیب سے نکلنے کے خدشات کو ملک کے خلاف بدنامی کی مہم قرار دیا ہے اور کہا کہ بہت ممکن ہے کہ یہ وائرس دوسرے ممالک سے درآمد کیے جانے والے کھانے کے سامان کے ساتھ چین میں آیا ہے۔ چینی حکومت کی جانب سے کوشش کی گئی ہے کہ وہ اس خیال کا پرچار کریں کہ وائرس چین میں مشرق بعید کے علاقوں سے جمے ہوئے گوشت کی صورت میں پہنچا ہے۔ پھر اس کے علاوہ چینی حکومت ملک کے ممتاز وائرولوجسٹ کے ایک مقالے کا حوالہ دیتی ہے جس کے لیے انھوں نے ایک غیر استعمال شدہ کان میں پائے جانے والے چمگادڑوں سے لیے گئے نمونوں کی مدد لی۔ چینی بیٹ وومن کے نام سے مقبول پروفیسر شی ژینگ لی ڈبلیو آئی وی میں محقق ہیں اور انھوں نے گذشتہ ہفتے ایک رپورٹ شائع کی جس میں انھوں نے بتایا کہ ان کی ٹیم نے سنہ 2015 میں چین کی ایک کان میں پائے جانے والی چمگادڑوں سے کم از کم آٹھ مختلف قسم کے کورونا وائرس کی شناخت کی تھی۔ اس مقالے میں کہا گیا کہ پینگولن ممالیے میں پائے جانے والے کورونا وائرس انسانوں کے لیے زیادہ خطرناک ہیں بہ نسبت ان کورونا وائرس کے جو ان کی ٹیم نے چمگادڑوں میں دریافت کیے تھے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے امریکی حکومت اور مغربی میڈیا پر افواہیں پھیلانے کا الزام عائد کیا ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کے زیر انتظام چلنے والے گلوبل ٹائمز اخبار کے ایک اداریے میں کہا گیا کہ 'امریکہ میں وائرس کے آغاز کے بارے میں عوامی رائے خوف کا شکار ہو گئی ہے۔' وائرس کے آغاز کے بارے میں کیا کوئی اورنظریہ ہے؟ جی ہاں۔ اور اس نظریے کو 'قدرتی آغاز' کا نظریہ کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ وائرس جانوروں سے انسانوں میں قدرتی طور پر منتقل ہوا ہے اور اس کے لیے کسی تجربہ گاہ یا کسی سائنسدان کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔ اس نظریے کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس چمگادڑوں سے انسانوں میں منتقل ہوا اور اس کے لیے بیچ میں ایک اور جانور کا استعمال ہوا ہے۔ گذشتہ برس پیش کیے جانے والے اس نظریے کو عالمی ادارہ صحت نے بھی تسلیم کرتے ہوئے اس کی حمایت کی اور کہا کہ 'یہ بہت ممکن ہے کہ کووڈ انسانوں تک کسی ایک بیچ میں پائے جانے والے جانور سے منتقل ہوا ہے۔' شروع شروع میں اس خیال کو بڑے پیمانے پر فوراً تسلیم کر لیا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سائنسدانوں کو چمگادڑوں یا کسی بھی اور جانور میں ایسے وائرس نہیں ملے ہیں جو کووڈ 19 وائرس کی ساخت سے مطابقت رکھتے ہوں اور اسی وجہ سے اس نظریے پر سوالیہ نشان لگ گئے ہیں۔ وائرس کہاں سے آیا، کیسے آیا اور یہ سوال اتنی اہمیت کا حامل کیوں ہے؟ ایک ایسی وبا جس نے ڈیڑھ سال میں دنیا بھر میں 35 لاکھ جانیں نگل لی ہیں، سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ مستقبل میں اس نوعیت کی وبا کو روکنے کے لیے یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ یہ وائرس کیسے اور کہاں سے آیا۔ اگر وائرس کے قدرتی طور پر پیدا ہونے کا نظریہ صحیح ثابت ہوتا ہے تو وہ مستقبل میں کھیتی باڑی اور جنگلی جانوروں کے ساتھ منسلک کاروبار کو متاثر کر سکتی ہے۔ لیکن دوسری جانب اگر لیب لیب کا نظریہ صحیح ثابت ہوتی ہے تو یہ سائنسی تحقیق اور بین الاقوامی تجارت پر اثر انداز ہو سکتا ہے۔ اور اگر لیک کا نظریہ درست ثابت ہوتا ہے تو یہ شاید چین کی ساکھ کو بھی متاثر کرے۔ چین پر پہلے ہی شکوک کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس نے وبا کے آغاز میں اہم معلومات چھپائی تھیں اور اس الزام کی وجہ سے امریکی اور چین کے تعلقات میں مزید کشیدگی بڑھ گئی تھی۔ واشنگٹن ڈی سی میں قائم تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل سے منسلک جیمی میٹزل لیب لیک کے نظریے پر پوری طرح یقین رکھتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ چین نے پہلے دن سے حقیقت چھپائی ہے۔ لیکن دوسری جانب کئی لوگ چین کو مورد الزام ٹھہرانے میں جلد بازی کرنے سے منع کرتے ہیں۔ سنگاپور کے نیشنل یونی ورسٹی ہسپتال سے منسلک پروفیسر ڈیل فشر کا کہنا ہے کہ 'ہمیں نہ صرف تحمل سے کام لینا ہوگا بلکہ سفارتی آداب بھی ملحوظ خاطر رکھنے ہوں گے۔ ہم یہ تحقیق چین کی مدد کے بغیر نہیں کر سکتے اور ایسا ماحول نہیں قائم کر سکتے جس میں صرف چین پر الزام لگائے جائیں۔'
051014_battal_adnan
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/10/051014_battal_adnan
بٹل بھی مسمار ہو گیا
زلزلے کے ساتویں روز مانسہرہ سے پچاس کلومیٹر دور شاہراہ ریشم پر واقع ایک قصبہ بٹل پہنچنے پر معلوم ہوا کہ وہاں ہرچیز مسمار ہو چکی ہے۔ یہاں سکول گرنے سے چالیس بچے ہلاک ہوئے۔
بٹل میں ایک شخص نے بتایا کہ اس نے زلزلے سے چھ روز کے بعد اپنی بہن کی لاش ملبے سے نکالی ہے۔ ایک اور شخص نے بتایا کہ اس نے اپنی بچی کو ایک روز قبل ملبے سے نکالا ہے جبکہ دوسری بچی کے بارے میں اسے کچھ معلوم نہیں جو زلزلے کے وقت کھیلنے کے لیے گھر سے باہر تھی۔ بٹل میں امدادی سامان تقسیم ہو رہا تھا اور فوج کی درجنوں گاڑیاں وہاں جاتے ہوئے دیکھی گئیں اور یوں لگتا تھا کہ زلزلے کے سات روز بعد فوج بالآخر متحرک ہو گئی ہے۔
070407_pranab_accident_nj
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2007/04/070407_pranab_accident_nj
پرنب مکھرجی حادثے میں زخمی
بھارت کے وزیر خارجہ پرنب مکھرجی مشرقی بنگال میں سڑک کےایک حادثے میں زخمی ہو گئے۔ ان کے سر پر چوٹ لگی ہے۔ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ان کی حالت نازک ہے۔
سنیچر کو مرشد آباد سے کولکتہ واپس آتے ہوئے ان کی کار ایک ٹرک سے ٹکرا گئی تھی۔ کولکتہ سے بی بی سی کے نامہ نگار سبیر بھومک کا کہنا ہے کہ یہ حادثہ بیتھوا ڈاوری کے نزدیک ہوا ہے اور انہیں کولکتہ کےمقامی اسپتال لیجایا گیا ہے۔لیکن سر میں چوٹ لگنے کے سبب انہیں شکتی نگر ضلع ہسپتال میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
pakistan-51556901
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51556901
جسٹس فائز عیسیٰ صدارتی ریفرنس: ’اٹارنی جنرل اپنے دعوے کا ثبوت دیں یا تحریری معافی مانگیں‘
سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کی صدارتی ریفرنس کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان کو حکم دیا ہے کہ وہ عدالت کے دس رکنی بینچ کے ارکان کے بارے میں منگل کو دوران سماعت کیے گئے اپنے دعوے کے ثبوت فراہم کریں اور اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو انھیں عدالت سے تحریری معافی مانگنی ہو گی۔
منگل کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل انور منصور خان نے بینچ کے کسی رکن کا نام لیے بغیرایک متنازع بیان دیا تھا جس پر بینچ میں موجود کچھ ججز نے اعتراض اُٹھایا تو انھوں نے اپنا یہ بیان واپس لے لیا تھا۔ دس رکنی بینچ میں موجود جسٹس مقبول باقر نے میڈیا کے نمائندوں سے کہا تھا کہ وہ اس دعوے کو رپورٹ نہ کریں تاہم بدھ کو ریفرنس پر سماعت کے دوران عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ اگر اٹارنی جنرل آئندہ سماعت تک اپنے اس دعوے سے متعلق شواہد فراہم کرنے میں ناکام رہے تو پھر وہ عدالت سے تحریری طور پر معافی مانگیں گے۔ یہ بھی پڑھیے ’ابھی ہم آپ کو کھیلنے کے لیے آسان اوور دے رہے ہیں‘ ’ایف بی آر جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سے تعاون کرے‘ عدالت نے اٹارنی جنرل کو یہ بھی حکم دیا ہے کہ وہ ججز کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے بارے میں بنائے گئے قوانین سے متعلق بھی عدالت کو مطمئن کریں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں صدارتی ریفرنس کی کاروائی روکنے سے متعلق درخواستوں کی سماعت کی۔ بدھ کو ان درخواستوں کی سماعت تاخیر سے شروع ہوئی اور عدالت میں موجود تمام ججوں کے چہرے پر سنجیدگی سے ایسا لگتا تھا کہ وہ اٹارنی جنرل کے گذشتہ روز لگائے گئے الزامات سے خوش نہیں ہیں۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بیرون ملک اپنے بیوی بچوں کے نام جائیدادوں کو تسلیم کیا ہے اور اُنھوں نے ان جائیدادوں کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کر کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی ہے۔ بینچ میں موجود جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ اگر فرض کریں کہ جسٹس قاضی فائز عسیٰ نے اپنے اثاثوں میں ان جائیدادوں کو ظاہر کر دیا ہوتا تو کیا پھر بھی سپریم کورٹ کے جج کے خلاف صدارتی ریفرنس دائر کر دیا جاتا، جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ اگر ایسا ہوتا تو پھر ریفرنس دائر نہیں ہو سکتا تھا۔ جسٹس فیصل عرب نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا درخواست گزار کی طرف سے انکم ٹیکس کے محکمے کی طرف سے جاری کیے گئے نوٹس کا جواب لیے بغیر ہی ان کے خلاف ریفرنس دائر کر دیا گیا تو اس کا اٹارنی جنرل نے کوئی جواب نہ دیا۔ تاہم اٹارنی جنرل نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس صرف گوشواروں میں ان جائیدادوں کا ذکر کرنے پر نہیں بلکہ یہ معاملہ تو اس سے بھی آگے ہے کیونکہ ان جائیدادوں کو خریدنے کے لیے منی لانڈرنگ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بینچ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ وہ عدالت کو ان قوانین کے بارے میں بتائیں کہ ایک شوہر اپنے بیوی بچوں کے اثاثوں کو کیسے اپنے گوشواروں میں ظاہر کر سکتا ہے۔ انور منصور کے پاس جب اس سوال کا جواب بھی نہیں تھا تو اُنھوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 211 کے تحت جب کسی جج کے خلاف معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ہو تو کوئی بھی عدالت اس کے خلاف درحواست نہیں سن سکتی۔ جب بینچ میں موجود ججز نے اس معاملے پر بھی اٹارنی جنرل کو عدالت کو مطمئن کرنے کے بارے میں کہا تو وہ اس نکتے پر بھی عدالت کو مطمئِن نہ کر سکے۔ مزید پڑھیے ’صدر کا کردار ربڑ سٹمپ ہے تو یہ خطرناک بات ہے‘ ’جج کی جاسوسی، ذاتی زندگی میں مداخلت بھی توہین ہے‘ بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ عدالت گذشتہ کئی ماہ سے ان درخواست کو سن رہی ہے اور اس بینچ میں شامل جج پوری تیاری کر کے کے آتے ہیں لیکن اپ نے کوئی تیاری ہی نہیں کی۔ اُنھوں نے کہا کہ کبھی آپ سپریم کورٹ کے جج کی طرف سے انکم ٹیکس کے گوشوارے جمع نہ کروانے کا ذکر کرتے ہیں اور کبھی ججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی بات کرتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا تھا کہ یہ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف صدارتی ریفرنس ہے اور ریفرنس میں شواہد بھی موجود ہونے چاہییں۔ اُنھوں نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا وہ ’گذشتہ دو روز سے اِدھر اُدھر کی ہانک رہے ہیں اور بڑی خوبصورتی کے ساتھ وقت ضائع کررہے ہیں۔‘ بینچ کے سربراہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اثاثوں کی ریکوری کرنے والے محکمے کو ان جائیدادوں کے بارے میں تمام شواہد پیش کرنے چاہیے تھے۔ اُنھوں نے کہا کہ بجائے اس کے کہ اٹارنی جنرل اس محکمے سے ان شواہد کے بارے میں پوچھے اس محکمے کو شواہد خود پیش کرنے چاہییں۔ دس رکنی بینچ میں شامل جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ک اپنے دلائل میں مختلف ملکوں کی عدالتوں کے فیصلوں کے حوالے دیے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف مفکروں کے بیانات بھی سنائے ہیں لیکن ابھی تک آپ عدالت کو اس بات پر قائل نہیں کرسکے کہ ان کے دلائل کی بنیاد کیا ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وہ عدالت کی طرف سے پوچھے گئے تمام سوالوں کے جواب دیں گے، جس پر منصور علی شاہ نے مسکرا کر کہا ’آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔‘ ان درخواستوں پر سماعت اب 24 فروری کو ہوگی۔
regional-54638138
https://www.bbc.com/urdu/regional-54638138
فیک نیوز: انڈین نیوز چینلز اور سوشل میڈیا پر پاکستان میں ’خانہ جنگی‘ کی جھوٹی خبریں
پاکستان میں حزب اختلاف کی 11 جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی ایم) کی جانب سے حکومت مخالف تحریک کے تحت کراچی میں جلسے اور اس کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے بعد اپوزیشن اور حکومت کے درمیان جہاں ایک جانب چپقلش کا پارہ چڑھتا دکھائی دے رہا تھا وہیں دوسری جانب منگل کی شب ساڑھے دس بجے ٹوئٹر پر ایک اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئی۔
ٹویٹ میں لکھا تھا ’خبروں کے مطابق پاکستان کے چار فوجی اور سندھ پولیس کے ایک سب انسپیکٹر کراچی میں ہونے والی ایک جھڑپ میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ غیر مصدقہ خبروں کے مطابق کراچی میں سڑکوں پر ٹینک نظر آئے ہیں۔‘ ایک گھنٹے بعد اسی اکاؤنٹ سے ایک اور ٹویٹ کی گئی جس میں لکھا تھا: ’کراچی کے گلشن باغ علاقے سے بھاری فائرنگ کی آوازیں، پاکستان فوج نے سندھ پولیس کے سپرانٹینڈنٹ محمد آفتاب کو حراست میں لینے کی کوشش کی۔‘ پاکستان میں صارفین کے لیے یہ ٹویٹس کافی حیرانی کا باعث تھیں کیونکہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا اور اسی حوالے سے متعدد صارفین نے یہ شکایت سوشل میڈیا پلیٹ فارم تک بھی پہنچائی کہ یہ ’فیک نیوز‘ یعنی غلط خبر ہے۔ لیکن یہ سلسلہ تھم نہ سکا اور رات بھر انڈیا سے تعلق رکھنے والے مختلف اکاؤنٹس سے اسی نوعیت کی ٹویٹس کی جاتی رہیں۔ یہ بھی پڑھیے انڈیا، چین سرحدی تنازع: سوشل میڈیا پر شیئر کیے جانے والے دعوؤں کی حقیقت کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر لنگڑاتا سچ اور دوڑتا جھوٹ کپل شرما شو کے بعد ’ارنب گوسوامی کے حامی بڑے صدمے میں ہوں گے‘ فیس بک نے پاکستانی اکاؤنٹس کے ایک ’منظم نیٹ ورک‘ کو بند کر دیا ایک انڈین ٹوئٹر صارف پرشانت پٹیل امراؤ نے، جن کا ٹوئٹر اکاؤنٹ نہ صرف ’تصدیق شدہ‘ ہے اور ٹوئٹر پر وہ خود کو بطور وکیل انڈین سپریم کورٹ پیش کرتے ہیں، متعدد ٹویٹس میں لکھا کہ ’پاکستان میں خانہ جنگی کے حالات بن گئے ہیں، پولیس اور فوج کے درمیان تصادم میں کئی اہلکاروں کی ہلاکت ہو گئی ہے، وزیر اعظم عمران خان نے ریڈیو پر قومی نغمے چلانے کا حکم دیا ہے اور ممکنہ طور پر امریکی بحریہ کراچی کی بندر گاہ پر پہنچنے والی ہے‘۔ پرشانت پٹیل کی ٹویٹس پر کئی لوگوں نے ان کا ازراہ مذاق مزید مبالغہ آرائی کرتے ہوئے ٹویٹس میں جواب دیا۔ ایک صارف مہوش نے لکھا کہ 'میں یہاں کراچی میں ہوں اور ہم نے ساری رات بیٹ مین کو سگنل بھیجے لیکن وہ نہیں آیا۔ ہم سب اس سے اتنے خفا تھے کہ اچانک سے کیپٹن امریکا ہمیں بچانے آ گئے۔ تب ہم نے دیکھا کہ بیٹ مین تو مخالفین کی جانب سے لڑ رہا تھا۔' یہی معاملہ بدھ کے روز بھی جاری رہا جب متعدد انڈین نیوز چینلز اور نیوز ویب سائٹس نے اسی نوعیت کی خبریں چلائیں اور شہ سرخیوں میں ’پاکستان میں خانہ جنگی کے امکانات' کے خدشے کا اظہار کیا اور لکھا کہ 'پاکستان آرمی نے کراچی کے تمام پولیس سٹیشنز پر قبضہ کر لیا ہے۔' ان اداروں میں زی نیوز، انڈیا ٹو ڈے، سی این این 18 اور کئی دیگر اداروں کے ٹوئٹر اکاؤنٹس شامل تھے جو کہ ٹوئٹر پر تصدیق شدہ ہیں۔ 'یہ میڈیا ہاؤسز صحافت نہیں مذاق کر رہے ہیں' سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر 'فیک نیوز' اور 'ڈس انفارمیشن' کے حوالے سے تنازعات نئے نہیں ہیں اور بالخصوص پاکستان اور انڈیا میں اس نوعیت کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں جہاں ان پلیٹ فارمز پر منظم طریقے سے 'فیک نیوز' کا پرچار کیا جاتا رہا ہے۔ عام صارفین تو اکثر اوقات اس نوعیت کی ٹویٹس کرتے ہیں اور 'ٹرولنگ' کرنے میں آگے آگے ہوتے ہیں لیکن جب بات میڈیا ہاؤسز کی ہو اور وہ بھی ایسے ادارے جن کے اکاؤنٹس ٹوئٹر سے تصدیق شدہ ہوں، تو یہ حالات میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ اس حوالے سے بی بی سی نے جب موقر انڈین جریدے 'دا کاراوان' کے سیاسی مدیر ہرتوش سنگھ بل سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’دونوں ممالک میں چند ایسے میڈیا ادارے ہیں جو صحافت نہیں مذاق کر رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کھیل کھیل رہے ہیں۔‘ ان کا کہنا تھا 'ان اداروں کا صحافت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جب ان کی اپنے خود کے ملک میں صحافت غیر جانبدار نہیں ہوتی اور وہ اس ایجنڈے پر چلتے ہیں جو حکومتی ہو، تو آپ ان سے کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ وہ دوسرے ملکوں کے بارے میں غیر جانبدارانہ صحافت کریں گے۔' دوسری جانب دہلی میں مقیم ایک سینئیر انڈین صحافی نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ یہ جو معاملہ چل رہا ہے وہ بظاہر ’حکومتی جماعت (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے آئی ٹی سیل کی جانب سے ہو رہا ہے‘۔ ٹویٹس کرنے والے صارفین پر تبصرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'اگر آپ ان کا جائزہ لیں تو یہ صاف نظر آتا ہے کہ غلط خبریں پھیلانے والے اکاؤنٹس وہ ہیں جو یا تو حکومتی جماعت سے منسلک ہیں یہ ان کے حمایتی ہیں۔' انھوں نے مزید کہا کہ جھوٹی معلومات کی ایسی مہم کوئی نئی بات نہیں ہے اور شاید انڈیا میں اس بار کسی کو خیال آیا ہے کہ پاکستان کی فوج اور پولیس کے درمیان تفرقہ پیدا کیا جائے کیونکہ یہ 'حکومتی بیانیے سے مماثلت رکھتا ہے کہ پاکستان تنزلی کا شکار ہے۔' صحافتی اقدار اور ایڈیٹوریل نگرانی کے بارے میں سوال پر انھوں نے کہا کہ اس نوعیت کی زیادہ تر ٹویٹس ٹی وی چینلز کی جانب سے کی گئی ہیں اور وہ 'فیکٹ چیکنگ' میں زیادہ مہارت نہیں رکھتے۔ دہلی میں واقع تھنک ٹینک 'او آر ایف' كے سوشانت سرین نے بی بی سی کے نیاز فاروقی سے بات کرتے ہوئے ان ٹویٹس اور خبروں کو 'بہت زیادہ مبالغہ آرائی' قرار دیا۔ سوشانت سرین کا کہنا تھا کہ پاکستان کے موجودہ حالات سول وار جیسی صورتحال سے 'بہت، بہت دور ہیں۔' اسی حوالے سے مزید پڑھیے فیس بُک نے’آئی ایس پی آر سے وابستہ اکاؤنٹ بند کر دیے‘ سوشل میڈیا اکاؤنٹس معطلی: پاکستان کی تشویش سوشل میڈیا: کیا گھمسان کا رن پڑا ہے؟ اسرائیلی ٹیکنالوجی سے پاکستانی حکام کی فون ہیکنگ ہوئی؟ انڈیا كے سابق سیکریٹری خارجہ امور ویوک کاٹجو نے بی بی سی کے نیاز فاروقی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے سیاسی حالات میں ایک ٹکراؤ ضرور ہے۔ ’اگر آپ پاکستان کی تاریخ دیکھیں تو ذوالفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی بینظیر كے بعد یہ پہلی مرتبہ ہے جو پاکستان کا ایک سیاسی حصہ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ فوج سیاست میں دخل اندازی نہ کرے۔' پاکستان کا موقف: 'انڈین میڈیا اپنی حکومت کے تابع ہے' ٹوئٹر پر چلنے والی ان خبروں اور ٹویٹس کے حوالے سے جب بی بی سی نے وزیر اعظم عمران خان کے فوکل پرسن برائے ڈیجیٹل میڈیا ڈاکٹر ارسلان خالد سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ 'بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب انڈین میڈیا نے اس طرح ایک منظم طریقے سے پاکستان کے خلاف مہم جوئی کی ہو، اور یہ بی جے پی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے کہ پاکستان کے خلاف پراپگینڈا کیا جائے۔' ڈاکٹر ارسلان خالد نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس پلیٹ فارم کو انڈیا میں موجود عناصر غلط طریقے سے استعمال کر رہے ہیں۔ 'تصدیق شدہ اکاؤنٹس سے جھوٹی ٹویٹس کی جاتی ہیں اور پراپگینڈا کیا جاتا ہے۔ یہ ٹوئٹر کی اپنی ساکھ کے لیے بہت نقصان دہ ہے اور ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی خود کی پالیسیوں پر عمل پیرا نہیں ہیں۔' ان کا کہنا تھا کہ حکومتِ پاکستان نے مختلف مواقعوں پر ٹوئٹر سے رابطہ کیا ہے اور اپنے خدشات کا اظہار کیا ہے لیکن ان کی شنوائی نہیں ہوئی ہے۔ ’اگر ہمیں لگتا ہے کہ انڈیا ٹوئٹر کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف جھوٹ کا پرچار کر رہا ہے تو حکومت پاکستان کے پاس پورا حق ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام قانونی اور سفارتی اقدامات اٹھائیں۔‘ بی بی سی نے ٹوئٹر کی انتظامیہ سے اس حوالے سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم ان سے اس مضمون کے شائع ہونے تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا تھا۔ تاہم سوشل میڈیا پر فیک نیوز اور ڈس انفارمیشن کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ماہرین سے بی بی سی نے جب اسی حوالے سے سوال کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ انڈیا میں ایسے کئی منظم نیٹ ورکس ہیں جن کا تعلق بے جے پی سے ہے اور وہ سماجی رابطوں کے مختلف پلیٹ فارمز پر ان کے بیانیے کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ ٹوئٹر کی پالیسیوں کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ 'فیک نیوز' پلیٹ فارم کی پالیسی کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے تاہم ٹوئٹر نے ایسا کوئی طریقہ نہیں بنایا کہ اُن اکاؤنٹس کی شکایت کی جا سکے جو اس خلاف ورزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں نے پرشانت پٹیل کے اکاؤنٹ کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ 'یہ ایک تصدیق شدہ اکاؤنٹ ہے لیکن ٹوئٹر نے ان کی فیک نیوز والی ٹویٹس یہ کہہ کر حذف نہیں کیں کہ یہ پالیسیوں کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔' سوشل میڈیا پر رد عمل: 'کراچی کے گلشن باغ میں خانہ جنگی کا ماحول' پہلے تو یہ جان لیں کہ کراچی میں ’گلشن باغ‘ نامی کوئی علاقہ ہی نہیں ہے۔ پاکستانی ٹوئٹر کا خاصہ رہا ہے کہ کوئی بھی بات ہو، طنز و مزاح کا موقع نہیں چھوڑنا چاہیے اور پاکستانی صارفین تفریح کی اس بہتی گنگا میں ہاتھ ضرور دھوتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ اس بار بھی ہوا جب انڈین اکاؤنٹس نے کراچی کے 'گلشن باغ' علاقے میں 'پولیس اور فوج کے درمیان تصادم' کا ذکر کیا۔ ایک صارف نے مزار قائد کی فوٹو شاپ کی ہوئی تصویر لگا کر ٹویٹ میں لکھا: 'بریکنگ نیوز، ہمارے پاس کراچی سے مناظر آ رہے ہیں کہ کراچی کے شہریوں نے خانہ جنگی میں شرکت شروع کر دی ہے اور پاک فضائیہ سے مقابلہ کر رہے ہیں۔' ایک اور صارف جین ڈو نے لکھا کہ ’ابھی تک گلشن باغ میں پھنسے ہوئے شہریوں کے لیے کسی نے چندے کی مہم کیوں نہیں شروع کی، ان کے پاس کھانے پینے کا سامان اور ختم ہو جائے گا‘۔ اسی طرح احسن نامی ایک اور صحافی نے ٹویٹ میں تباہ شدہ درختوں کی تصویر دکھاتے ہوئے تبصرہ کیا کہ 'گلشن باغ میں بھاری لڑائی کے بعد تباہ ہوئے درخت۔' لیکن مزاح کے علاوہ سنجیدہ تبصرے بھی کیے جا رہے ہیں۔ صحافی اور کالم نگار عباس ناصر نے انڈین میڈیا سے آنے والی خبروں پر ٹویٹ میں کہا کہ 'اگر انڈیا سے آنے والی خبریں اُس ففتھ جنریشن وارفئیر کا حصہ ہیں جس کے بارے میں ہمیشہ خبردار کیا جاتا تھا، تو ہمیں سوائے ہنس ہنس کر اپنا سر پھٹ جانے کے علاوہ کسی اور چیز سے خطرہ نہیں ہے۔' تجزیہ نگار مائیکل کگلمین نے بھی ٹویٹ میں کہا کہ انڈیا کے غلط خبریں پھیلانے والے صارفین کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی بحران سے فائدہ اٹھائیں لیکن وہ جو کر رہے ہیں وہ بہت خطرناک ہے۔ البتہ صحافی خرم حسین نے اس تمام سلسلے پر ٹوئٹر کو مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا کہ 'ٹوئٹر کب جاگے گا؟'
070628_mma_womenbill_ms
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/06/070628_mma_womenbill_ms
خواتین کے تحفظ کے لیے نئے بِل
صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کی خواتین ارکان اسمبلی کا کہنا ہے کہ انہوں نے اخبارات میں زیادتی کی شکار ہونے والی خواتین کی تصویروں کی اشاعت پر پابندی، کام کرنے والی خواتین کو پردہ کرنے کی بنیاد پر امتیازی سلوک کا نشانہ بنائے جانے کے خلاف اور خواتین کے لیے علیحدہ بسیں چلانے سے متعلق تین مختلف بل صوبائی اسمبلی میں جمع کرادیے ہیں۔
متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن صوبائی اسمبلی شگفتہ ناز نے بی بی سی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ انکی جانب سے صوبائی اسمبلی کے سکرٹریٹ میں جمع کرائے گئےایک بل میں کہا گیا ہے کہ زیادتی کا نشانہ بننے والی خواتین کی اخبارات یا رسائل میں تصاویر شائع کرنے پر پابندی لگائی جائے۔ انکے بقول بل میں خلاف ورزی کرنےوالے کو ایک سال قید یا پچاس ہزارروپے جرمانہ یا دونوں کی سزاتجویز کی گئی ہے۔ شگفتہ ناز کا مزید کہنا تھا کہ ’اخبارات اور رسائل میں اس کسی بھی متاثرہ خاتون کی تصویر کی اشاعت کی وجہ سے وہ عورت دوہرے ظلم کا شکار ہوجاتی ہے کیونکہ ایک طرف ان پر ظلم ہوا ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف تصویر کی اشاعت سے وہ ساری زندگی کے لیے سماج اور خاندان والوں کی نظروں میں گر جاتی ہے۔‘ شگفتہ ناز کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے لوکل بسوں میں سفر کرنے والی خواتین کے لیے علیحدہ نشستیں مختص کرنے اور صبح اور دوپہر کے اوقات میں خواتین کے لیے الگ بسیں چلانے سے متعلق قانون سازی کرنے کے لیے ایک اور بل بھی اسمبلی میں جمع کرا دیا ہے۔ ان کے مطابق ’ پشاور میں صبح اور دوپہر کے وقت کام کرنے والی خواتین اور طالبات کا رش زیادہ ہوتا ہے لیکن مخلوط بسوں میں ناکافی جگہ کی وجہ سے خواتین سفر کے دوران سخت مشکلات کا سامنا کرتی ہیں لہذا قانون سازی کے ذریعے ٹرانسپورٹروں اور حکومت کو پابند بنایا جائے گا کہ وہ خواتین کے لیے علیحدہ نشستیں اور بسیں چلائیں۔، شگفتہ ناز کا کہنا تھا کہ سرحد اسمبلی کے سپیکر سیکرٹریٹ میں جمع کرائے گئے ایک تیسرے بل میں کہا گیا ہے کہ اگرصوبے کے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں خواتین ملازمین کو عہدے میں ترقی، ملازمت یا داخلہ دینے میں پردے کی بنیاد پرامتیازی رویہ روا رکھا گیا تو یہ ایک قابل سزا عمل تصور ہوگا۔ شگفتہ ناز کاکہنا تھا کہ انکی کو شش ہے کہ تینوں بلوں پر بحث صوبائی اسمبلی کے رواں اجلاس میں ہو۔
031031_mahatir_forum_ms
https://www.bbc.com/urdu/forum/story/2003/10/031031_mahatir_forum_ms
مہاترمحمد ریٹائر: آپ کی رائے
اکتوبر کا آخری دن ملیشیا کے وزیراعظم مہاتر محمد کے بائیس سالہ اقتدار کا آخری دن تھا۔ وہ اسلامی دنیا میں ایک جمہوری انتخابات کے ذریعے منتخب ہو کر آنے والے حکمراں کے طور پر جنوب مشرقی ایشیا میں سب سے زیادہ دیر تک اقتدار میں رہے۔
مہاتر محمد نے اپنے دورِ اقتدار میں جہاں ملیشیا کو اسلامی دنیا کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور دنیا کے چند امیر ترین ممالک کی صف میں لاکھڑا کیا وہاں ان پر ملک کے اندر اظہارِ رائے کی آزادی سلب کرنے کا الزام بھی ہے۔ وہ جہاں اسلامی دنیا میں ایک روشن خیال اور جدت پسند رہنما تصور کئے جاتے ہیں وہاں ان کے دوسرے مذاہب اور ہم جنس پرستوں کے بارے میں نظریات کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ کیا مہاتر محمد کے دورِاقتدار نےایک مثالی اور جدید اسلامی ریاست کی نشو نما کی؟ ایسا کیوں ہے کہ زیادہ تر اسلامی ممالک کے حکمران خواہ وہ منتخب ہو کر آئیں یا تختہ الٹا کر، زیادہ سے زیادہ دیر تک اقتدار میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟ مہاتر محمد کا ایک مسلم رہنما کے طور پر کیا مستقبل ہے؟ ----------------- یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں------------------ ان کی کامیابیوں کو یقیناً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان رہنماؤں کی اکثریت ان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ فواد احمد، پشاور، پاکستان فواد احمد، پشاور، پاکستان ان کی کامیابیوں کو یقیناً نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ مسلمان رہنماؤں کی اکثریت ان سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ ان کا طویل اقتدار بدعنوانی، دھوکہ دہی اور بےقاعدگی کا نتیجہ ہے تاہم یہ جلد ہی بدلنے والا ہے کیونکہ نئی نسل اسے برداشت نہیں کرے گی۔ نواز فتح بلوچ، کیچ، پاکستان مہاتر محمد ایک عظیم رہنما تھے۔ ڈاکٹر ممتاز رسول ملک، سمندری، پاکستان اسلامی تاریخ میں ایسا انتہائی شاذونادر ہی ہوا ہے کہ کوئی حکمران اپنی مرضی سے اقتدار چھوڑ دے۔ عبدالعزیز انصاری، دبئی مہاتر ایک مخلص اور مضبوط شخصیت کے مالک تھے جس کے باعث وہ بدعنوانیوں سے بچے رہے اور مغربی ممالک اور مفاد پرست سیاستدانوں کے آگے کمزور نہیں پڑے۔ اگر انہیں اسلامی ممالک کی تنظیم او۔آئی۔سی میں کسی اہم عہدے کی پیشکش کی جاتی ہے تو یہ تمام ام مسلمہ کے لیے سود مند ہو گا۔ امید ہے کہ مہاتر اس تنظیم میں نئی روح پھونک سکیں گے۔ میری دعا ہے کہ خدا اسلامی ممالک کو مہاتر جیسے رہنما عطا کرے۔ ان کا دور حکومت یقینی طور پر ملیشیا کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا لیکن انہوں نے سیاستدانوں کو اقتدار میں آگے بڑھنے سے روکا۔ ان کے دور میں اقربا پروری کا زور رہا اور ان کے بیٹوں اور خاندان والوں نے خوب فائدے بھی اٹھائے۔ شہزاد رضا، اسلام آباد، پاکستان شہزاد رضا، اسلام آباد، پاکستان مہاتر محمد بلاشک و شبہ ایک عظیم مدبر ہیں جنہوں نے متعدد مسائل سے دوچار ملیشیا کو جنوبی ایشیاء کا اقتصادی ٹائیگر بنا دیا۔ ان کا دور حکومت یقینی طور پر ملیشیا کے لیے کسی نعمت سے کم نہ تھا لیکن انہوں نے سیاستدانوں کو اقتدار میں آگے بڑھنے سے روکا۔ ان کے دور میں اقربا پروری کا زور رہا اور ان کے بیٹوں اور خاندان والوں نے خوب فائدے بھی اٹھائے۔ ان کے دور حکومت میں آزادی اظہار اور پریس پر پابندی قابل ذکر ہیں۔ اس کے باوجود پاکستانی سیاستدان ان کی شخصیت سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ سجاد اختر سواتی، مانسہرہ، پاکستان میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مہاتر محمد نے ملیشیا کے لیے بہت قربانیاں دیں اور اسے ایک مثالی اور جدید اسلامی ریاست بنایا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ممالک کے حکمرانوں کا زیادہ سے زیادہ دیر تک اقتدار میں رہنا ان کی ہوس ہے اور میرے خیال میں مہاتر محمد کا مستقبل روشن ہو گا۔ طارق عثمان، پاکستان مہاتر محمد ایک زبردست حکمران رہے ہیں۔ موجودہ زمانے میں شاید ہی کوئی ان جیسا مسلمان حکمران ہو گا۔ مہاتر جیسے حکمران کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے ان جیسا کوئی لیڈر ہمیں بھی ملے۔ بیشتر مسلمان حکمران بدعنوان ہوتے ہیں اور اقتدار چھوڑنا گوارا نہیں کرتے کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بعد میں آنے والے ان کی بدعنوانیوں کو بےنقاب کریں۔ خرم شہزاد شیخ خرم شہزاد شیخ، فرینکفرٹ، جرمنی مہاتر محمد جیسا حکمران کسی بھی ملک و قوم کو ہزار سال میں نصیب ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنی قوم میں وہ جذبہ پیدا کیا جس نے اسے ایک پسماندہ قوم سے ایشیئن ٹائیگر بنا دیا۔ بیشتر مسلمان حکمران اقتدار چھوڑنا گوارا نہیں کرتے کیونکہ زیادہ تر سربراہ بدعنوان ہوتے ہیں اور یہ نہیں چاہتے کہ آئندہ آنے والے ان کی بدعنوانیوں کو بےنقاب کریں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم ممالک کے زیادہ تر حکمرانوں کو دھکے دے کر اقتدار سے نکالنا پڑتا ہے۔ ملا عمر اور اسامہ کے بعد مہاتر محمد ہی سب سے بہتر آدمی ہیں۔ شیخ فیصل ہدالوی مہاتر محمد تمام مسلم رہنماؤں میں سب سے ممتاز ہیں اور ملا عمر اور اسامہ کے بعد مہاتر ہی سب سے بہتر آدمی ہیں۔ انہوں نے ٹیکنالوجی کے اس جدید دور میں، جسے اسلامی دور سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا، اپنی قوم کو ایک نظریہ پیش کیا۔ نسیم خان، کراچی، پاکستان مہاتر محمد نے یہودیوں کے بارے میں ایسی دو ٹوک بیانات دیے ہیں جو کوئی مغربی ملک نہیں دے سکتا۔ یہ بات سو فیصد درست ہے کہ امریکہ یہودیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہی دنیا پر خاص طرز سے اپنا رسوخ جما رہا ہے۔ امریکہ نے محض اسرائیل کی خاطر تمام مسلم دنیا کو اپنا دشمن بنا لیا ہے۔ مہاتر محمد کی ان کے عہدے سے علیحدگی امریکی منصوبے کا نتیجہ ہے۔ طارق عزیز طارق عزیز، پاکستان مہاتر محمد ایک عظیم شخصیت ہیں اور میرے خیال میں ان کی اپنے عہدے سے علیحدگی امریکی منصوبے کا نتیجہ ہے کیونکہ انہوں نے اسلامی ممالک کی تنظیم او۔آئی۔سی میں خطاب کے دوران امریکہ کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ انوار محمد خان، پاکستان مہاتر محمد روشن خیال اور ذہین سربراہ کا نمونہ ہیں جسے مغربی نوآبادکار ٹھگوں کے ساتھ چالاکی سے نمٹنا خوب آتا ہے۔ ہر مسلمان سربراہ کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ طویل عرصے تک اقتدار میں رہے خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں، ضیاءالحق ہوں، یاسر عرفات، پرویز مشرف ہو یا پھر مہاتر محمد ہوں۔ محمد خالد محمود محمد خالد محمود، شارجہ مہاتر محمد کے دورِ حکومت میں ملیشیا کو جو مقام حاصل ہوا وہ ماضی میں کبھی حاصل نہ تھا۔ وہ مسلم دنیا کے ایک بہادر نمائندے تھے۔ مہاتر نے عالم اسلام کے لیے مفید ہر بات ہمیشہ دو ٹوک الفاظ میں کہی۔ جہاں تک مسلم رہنماؤں کا دیر تک اقتدار میں رہنے کا سوال ہے تو میرے خیال میں ہر مسلمان سربراہ کی دلی خواہش یہی ہوتی ہے خواہ وہ ذوالفقار علی بھٹو ہوں، ضیاءالحق ہوں، یاسر عرفات، پرویز مشرف ہو یا پھر مہاتر محمد ہوں۔ مہاتر محمد اسلام کے ہیرو نمبر ون ہیں۔ محمد عارف چیچی محمد عارف چیچی، سیالکوٹ، پاکستان مہاتر محمد نے ملیشیا کو وہ مقام دیا جو پورے عالم اسلام میں کوئی لیڈر اپنے ملک کے لیے حاصل نہ کر سکا۔ دعا ہے کہ اللہ پاکستان کو بھی ایسا ہی حکمران عطا کرے۔ مہاتر اسلام کے ہیرو نمبر ون ہیں۔ مہاتر محمد نے ہر موقع پر مسلمانوں کو بیدار کیا ہے۔ جاوید اقبال انجم جاوید اقبال انجم، پاکستان میرے خیال میں مہاتر محمد نے ہر موقع پر مسلمانوں کو بیدار کیا ہے۔ مثال کے طور پر جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا، مہاتر نے مسلمانوں کا ساتھ دیا۔ مسلمانوں کو متحد کرنے کے سلسلے میں ان کی کوششوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ عامر میاں عامر میاں، پاکستان مہاتر محمد آج کی دنیا میں بہترین مسلمان رہنما تھے۔ وہ بااصول شخصیت کے مالک تھے۔ مسلمانوں کو متحد کرنے کے سلسلے میں ان کی کوششوں کو کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ وہ اسلام میں اعتدال پسندی پر یقین رکھتے تھے اور انہوں نے اپنے ملک میں ایسے متعدد قوانین بھی متعارف کرائے۔ طلحہ مجید، لاہور پاکستان مہاتر محمد ملیشیا اور مسلم دنیا کے عظیم لیڈر ہیں۔ اگر پورے عالم اسلام کو مہاتر کی سی قیادت حاصل ہو جائے تو میرے خیال میں مغربی ممالک کبھی بھی مسلمانوں پر حاوی نہیں ہو سکیں گے۔ عالم اسلام کو مہاتر محمد جیسے وزیراعظم کی ضرورت ہے۔ علینا علی علینا علی، برطانیہ دنیا کے تمام مسلم ممالک کو مہاتر محمد جیسے وزیراعظم کی ضرورت ہے۔ وہ سب کے لیے ایک ماڈل رہنما کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے ملک کی بےانتہا خدمت کی ہے۔ وہ ایک بہادر اور نڈر انسان ہیں۔ دنیا میں اسلام کے حوالے سے انہیں ہمیشہ اچھے نام سے یاد کیا جائے گا۔ مہاتر محمد کا دورِ حکومت معاشی اعتبار سے بہترین رہا۔ فدا ایچ زاہد فدا ایچ زاہد، کراچی، پاکستان مہاتر محمد کا دورِ حکومت معاشی اعتبار سے بہترین رہا۔ ان کی اختیار کردہ پالیسیوں کی بدولت ملیشیا ایک اقتصادی قوت بن چکا ہے۔ لیکن جہاں تک جدید اسلام کا تعلق ہے تو اسلام میں کیا جدیدیت ہے۔ وہی نماز جو چودہ سو برس پہلے تھی، وہی قرآنی تعلیمات ہیں جو چودہ سو برس قبل تھیں۔ اسلامی ریاست صرف اسلامی ریاست ہوتی ہے جو کہ اس وقت پور دنیا میں کوئی نہیں ہے، یہ جدید ہو سکتی ہے نہ ہی قدیم۔ مہاتر کا دور حکومت عمر بن خطاب کے دور حکومت سے مشابہ ہے۔ عبدالصمد عبدالصمد، اوسلو، ناروے مہاتر ایک نہایت نفیس اور جرات مند مسلم رہنما ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ حق کا ساتھ دیا ہے اور ہمیشہ مغربی سامراجیت کی بھرپور مذمت کی ہے، بغیر کسی مصلحت کے۔ اگر میں ان کے دور حکومت کو عمر بن خطاب کے دور حکومت سے تشبیہ تو غلط نہیں ہو گا۔ اگر بہت سے لوگ انہیں بنیاد پرست کہتے ہیں تو ملیشیا اس قدر ترقی یافتہ ملک نہ ہوتا۔ خدا ہمیں بھی کوئی ایسا حکمران دے جو پسی ہوئی قوم کو دوسروں کی غلامی سے نجات دے۔ نعیم اکرم نعیم اکرم، کراچی، پاکستان میں ایسے عظیم رہنما کو سلام پیش کرتا ہوں۔ اور سلام ہے ایسے عوام پر جس نے اپنے رہبر کا ساتھ دیا اور اس کا نتیجہ ایک عظیم ملیشیا کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ خدا ہمیں بھی کوئی ایسا حکمران دے جو پسی ہوئی قوم کو دوسروں کی غلامی سے نجات دے۔ میرے خیال میں مہاتر محمد تمام مسلم دنیا کے بھی رہبر ہیں۔ انہیں او۔آئی۔سی کا سربراہ ہونا چاہیئے کیونکہ وہ اس تنظیم کے لیے خاصے مفید ثابت ہوں گے۔ رفیع الدین رفیع الدین صدیقی، نیویارک، امریکہ مہاتر محمد عالم اسلام کی ایک عظیم شخصیت ہیں۔ انہیں اسلامی ممالک کی تنظیم او۔آئی۔سی کا سربراہ ہونا چاہیے کیونکہ فی الوقت یہ تنظیم مؤثر نہیں ہے۔ مہاتر اس تنظیم کے لیے خاصے مفید ثابت ہوں گے۔ ملیشیا میں کوئی قانون نہیں ہے۔ محمود رانا محمود رانا، فیصل آباد، پاکستان ملیشیا ایسا ملک ہے جہاں کوئی قانون نہیں ہے۔ ملیشیا کے لوگ صرف ایک ہی قانون جانتے ہیں، وہ ہے پیسہ۔ انہیں انسانی حقوق کا کوئی پاس نہیں۔ یہ بات میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر کہہ رہا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ ان کا لوگوں کے ساتھ برتاؤ کیسا ہے۔ دنیا کے تمام رہنماؤں میں مہاتر واحد شخص ہیں جو سچ بولنے کی جرات رکھتے ہیں۔ ندیم انصاری ندیم انصاری، آرلینڈو، امریکہ مہاتر محمد کا شمار دنیا کے عظیم ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام رہنماؤں میں مہاتر واحد شخص ہیں جو سچ بولنے کی جرات رکھتے ہیں۔ دنیا اس عظیم رہنما کی کمی محسوس کرے گی خصوصاً ملیشیا کے عوام۔ جاوید سرور، سعودی عرب میں پاکستانی ہوں اور سعودی عرب میں ملازمت کرتا ہوں۔ کاش پاکستان میں مہاتر جیسا لیڈر ہوتا۔ پاکستانی سیاستدانوں نے ملکی وسائل کو تباہ کیا جبکہ مہاتر کے اقتدار میں ملیشیا نے ترقی کی۔ بلاشبہ ان کے عہدے پر رہ کر سب کو خوش نہیں کیا جا سکتا لیکن مجموعی طور پر مہاتر کا دورِ اقتدار ملیشیا کے لیے سب سے بہتر رہا۔ اگر ہم ان کی کہی ہوئی باتوں پر عمل کریں تو دنیا میں سب سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور دنیا کو ایک جنت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ اظہر افغان اظہر افغان، پاکستان مہاتر محمد امِ مسلمہ کے واحد اور صحیح معنوں میں عظیم رہنما ہیں۔ وہ جنگ اور دہشت گردی کو ناپسند کرتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں سے محبت کرتے ہیں۔ اگر ہم ان کی کہی ہوئی باتوں پر عمل کریں تو دنیا میں سب سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور دنیا کو ایک جنت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے اسلام کا صحیح تصور پیش کیا۔ حامد عباسی، نیوزی لینڈ میرے خیال میں مہاتر محمد کی شخصیت مسلم رہنماؤں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ملکی خوشحالی کے علاوہ امریکہ اور یہودیوں سے متعلق ان کی پالیسیاں بھی قابلِ ستائش ہیں۔
060101_italian_kidnapped_rs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/01/060101_italian_kidnapped_rs
غزہ:اٹلی کےشہری کو آزاد کرا لیاگیا
فلسطین کے علاقے غزہ سے اغوا کیے جانے والے اطالوی شہری کو رہا کر دیا گیا ہے۔اٹلی کے شہری کو خان یونس کے جنوبی قصبے سےاغواء کیا گیا تھا۔
فلسطین کےصدر محمود عباس نےغزہ میں بگڑتی ہوئی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس کو بحال کرنے کی پوری کوشش کریں گے۔ عزہ میں غیر ملکیوں کے اغواء کی وارداتیں عام ہیں۔ جہاں مغویوں کو عام طور پر بغیر کوئی گزند پہنچائے رہا کر دیا جاتا ہے۔ عینی شاہدوں کے مطابق اٹلی کی شہری کو زبردستی گاڑی سے اتار کر مسلح افراد نے اپنی گاڑی میں بٹھا کر لے گئے تھے لیکن سکیورٹی اہلکاروں نے اس علاقے کا محاصرہ کیا تو وہ اس کو چھوڑ کو فرار ہو گئے ۔
031018_ispr_dg_am
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2003/10/031018_ispr_dg_am
’کانسٹیبل نے حد سے تجاوز کیا‘
فوج کے تعلقات عامہ کے ادارے آئی۔ایس۔پی۔آر کے سربراہ میجر جنرل شوکت سلطان کا کہنا ہے کہ میجر جنرل صباحت حسین کی گاڑی روکنے کا واقعہ اندرونی نوعیت کا ایک معمولی واقعہ ہے جس سے آرمی، پولیس اور حکومت کے انتظامی ضوابط کی مدد سے عہدہ برآ ہوا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی کی بات ہے کہ ذرائع ابلاغ اور مفاد پرست عناصر نے اپنی زبان کی لذت کے لیے اس معاملے کو بہت زیادہ اچھال دیا ہے۔
انہوں نے واقعہ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ مذکورہ گاڑی کو ناکے پر رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن ڈرائیور نے گاڑی کچھ آگے جا کر روکی۔ پولیس کانسٹیبل نے پہلے گاڑی کے آگے رکنے اور بعد میں سیاہ شیشوں پر اعتراض کیا۔ شوکت سلطان کے مطابق گاڑی کے شیشے سیاہ نہیں تھے بلکہ پولیس اہلکار کو رات کے اندھیرے میں دھوکا ہوا تھا۔ گاڑی کی ونڈ سکرین پر تین سے چار انچ تک کی ایک سیاہ پٹی تھی جو ڈرائیور کو سورج کی شعاؤں سے بچانے کے لیے چسپاں کی گئی تھی۔ ’پولیس اہلکار نے وہ پٹی اتارنے کو کہا۔ فوجی گاڑی کے ڈرائیور نے منزلِ مقصود پر پہنچ کر سیاہ پٹی اتارنے کا وعدہ کیا لیکن کانسٹیبل نہ مانا۔‘ گاڑی کے شیشے سیاہ نہیں تھے بلکہ پولیس اہلکار کو رات کے اندھیرے میں دھوکا ہوا تھا۔ میجر جنرل شوکت سلطان جنرل صباحت کی گاڑی کے ڈرائیور کا کہنا تھا کہ گاڑی میں صاحب کے اہلِ خانہ سوار ہیں اس لیے وہ سیاہ کاغذ فوری طور پر نہیں اتار سکتا لیکن ’پولیس اہلکار نے اپنی حد سے تجاوز کیا‘۔ جنرل شوکت سلطان نے کہا کہ صرف اتنی سی بات کا بتنگڑ بنا کر اسے اچھالا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک ایس۔پی ماڈل ٹاؤن کیپٹن احمد مبین ملک اور گلبرگ سرکل کے اے۔ایس۔پی محمد علی نیکوکارہ کے تبادلے کا معاملہ ہے تو یہ ایک معمول (روٹین) کی بات ہے۔ فوج اور پولیس سمیت تمام سرکاری اداروں میں تبادلے ہوتے رہتے ہیں، اس میں کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ جنرل شوکت سلطان نے کہا کہ اگر پولیس کانسٹیبل سے پوچھ گچھ کی گئی ہے تو یہ پولیس کی محکمانہ کارروائی کے زمرے میں آتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی حدود سے تجاوز کرتا ہے تو محکمانہ کارروائی ضرور ہوتی ہے اور یہی اس ادارے کی بقا اور ترقی کی ضمانت ہے۔ اگر کسی محکمے میں پوچھ گچھ کا نظام صحیح ہو تو وہ محکمہ ٹھیک رہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر بھی انتظامی قواعد و ضوابط موجود ہیں، اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو انہی قواعد کے تحت اس کا ازالہ ہو سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ فوج پولیس پر تبادلوں اور معاملے کے دیگر پہلوؤں کے سلسلے میں دباؤ ڈال رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب کچھ قواعد و ضوابط کے تحت کیا گیا ہے۔
world-49625013
https://www.bbc.com/urdu/world-49625013
فلپائن: ایک پادری جسے دولت اسلامیہ کے لیے بم بنانے پر مجبور کیا گیا
سنہ 2017 میں دولت اسلامیہ نے جنوبی فلپائن کے شہر ماراوی میں پانچ ماہ کے لیے قبضہ کر لیا تھا۔ دولت اسلامیہ کی قید میں ایک کیتھولک پادری فادر چیٹو بھی تھے جنھیں تشدد کے خوف میں مبتلا رکھ کر بم بنانے پر مجبور کیا گیا۔
کیتھولک پادری فادر چیٹو کو تشدد کے خوف میں مبتلا رکھ کر بم بنانے پر مجبور کیا گیا یہ ان کے لیے ایک بہت دکھ بھرا تجربہ تھا لیکن پھر بھی ان کو یہ امید تھی کہ مسلم اور عیسائی مل کر باہمی امن سے رہ سکتے ہیں۔ رات کو باٹو مسجد کے تہہ خانے میں 20 لوگ کھانے کے لیے میز پر جمع ہوئے۔ کھانے کی میز کی ایک طرف 15 عسکریت پسند موجود تھے جبکہ دوسری طرف فادر چیٹو سمیت چند عیسائی مغوی براجمان تھے۔ اچانک گن فائر کی آواز نے انھیں الرٹ کر دیا تھا۔ فادر چیٹو فوراً اے کے 47 رائفل پر جھپٹے اور اسے ایک عسکریت پسند کی طرف اچھال دیا۔ عسکریت پسند شخص نے اس رائفل کو کیچ کیا اور اس کے بعد مسجد کے داخلی دروازے پر مستعد ہو کر کھڑا ہو گیا۔ کچھ دیر بعد گن فائر کی آواز کچھ فاصلے پر سنائی دی جانے لگی تو وہ دوبارہ آرام سے کھانے کی میز پر بیٹھ گئے۔ یہ ایک معمول بن چکا تھا۔ فادر چیٹو طویل عرصے کے لیے مغوی تھے۔ وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے تھے کہ وہ اپنے اغوا کاروں کو پسند کرتے ہیں لیکن پھر بھی انھوں نے ایک انسانی قربت کا تعلق جوڑ لیا تھا۔ یہ ایک محدود حلقہ ہے جو ایک ساتھ کھانے کھاتا ہے اور ایک ساتھ ہی کام کرتا ہے۔ اور جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ ایک عسکریت پسند فلپائن کی آرمی سے لڑتے ہوئے مارا گیا تو فادر چیٹو نے بھی افسوس کا اظہار کیا۔ ماراوی کی مسجد دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ایک گروپ نے فادر چیٹو کو 23 مئی 2017 کو اغوا کیا تھا۔ یہ وہ دن تھا جب دولت اسلامیہ والوں نے ماراوی شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ اس سے قبل ماراوی ایک بہت خوبصورت شہر تھا جہاں بڑی تعداد میں مکان اور مساجد موجود تھیں۔ ایک کیتھولک عیسائی اکثریتی ملک کے جنوبی مِنڈاناو جزیرے کا یہ مسلم آبادی والا شہر ہے۔ دین اسلام جنوبی فلپائن میں پہلی بار 13ویں صدی میں مشرق وسطی، ملائے اور انڈونیشیا سے آیا۔ جنھوں نے اسلام قبول کرلیا وہ ’مورو‘ کہلاتے تھے۔ سولہویں صدی میں جب سپین نے فلپائن پر قبضہ کرتے ہوئے اسے اپنی کالونی بنایا تو اس وقت بھی سپین کی فوجیں جنوبی فلپائن میں موجود ان مورو لوگوں کو زیر کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی تھیں۔ اس وقت سے بہت سے جنوبی فلپائن والے اپنے آپ کو پسماندہ طبقہ سمجھتے ہیں۔ یہ علاقہ ملک کا سب سے غریب ترین حصہ ہے اور یہاں کیتھولک منیلا سے آزادی حاصل کرنے کی آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی تھیں۔ یہ بھی پڑھیے فلپائن کے جزیرے منڈاناؤ میں مارشل لا نافذ ’دولتِ اسلامیہ افغانستان میں کیسے مضبوط ہوئی‘ فلپائن کے میئر پولیس کے ہاتھوں جیل میں ہلاک جب پہلی بار 23 برس قبل فادر چیٹو کو ماراوی شہر میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں بین المذاہب ہم آہنگی کے پیغام کو عام کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا تو شہر کے لوگوں کی بڑی تعداد نے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو خوش آمدید کہا۔ سال 2016 کے ابتدا میں مشرق وسطی سے ماؤت قبیلے سے تعلق رکھنے والے دو بھائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد واپس آبائی علاقے بوتِگ واپس لوٹے۔ یہ قصبہ ماراوی کے جنوب میں واقع ہے۔ ان دونوں نے اسلام کے عسکریت پسندی کے پہلو پر تبلیغ شروع کر دی اور 200 لوگوں پر مشتمل ایک گروپ بنا لیا جنھوں نے علاقے میں موجود حکومتی املاک پر حملے کرنا شروع کردیے۔ سال 2017 میں اس گروپ نے ماراوی شہر کے بہت قریب حملے کرنا شروع کردیے۔ انڈونیشیا اور ملائشیا سے آنے والے مئی میں پہلے سے ہی جہادی گروہوں کا حصہ بن چکے تھے۔ اس کے بعد شہر میں دولت اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے ایک اور گروپ ابو سیاف یعنی تلوار والے شہر میں نمودار ہو گئے۔ ماراوی شہر پر قبضے کا منصوبہ بن چکا تھا۔ دوپہر کے وقت فادر چیٹو گولیوں کی گن گرج میں نیند سے بیدار ہوئے۔ اس کے بعد انھوں نے دیکھا کہ ان کے موبائل فون، ٹیبلٹ اور کیمپیوٹر پر ان کے عیسائی اور مسلمان دوستوں کے پیغامات کی بھرمار تھی اور وہ یہ سب یہی مشورہ دے رہے تھے کہ جتنا جلدی ممکن ہو سکتا ہے ماراوی شہر سے باہر نکل جائیں۔ شہر سے نکلنے کے بجائے فادر چیٹو نے عبادت شروع کردی۔ فادر چیٹو کا کہنا ہے کہ’میں نے اپنے آپ کو کہا کہ جب سب کچھ خدا کے ہاتھ میں ہے تو پھر مجھے کسی صورت یہاں سے نکلنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘ شام ساڑھے پانچ بجے شہر میں سناٹا طاری ہو گیا۔ ماراوی کی گلیاں ویران ہو گئیں، کھڑکیاں اور لائٹیں بند جبکہ ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ عسکریت پسندوں نے ہسپتال کی چھت پر دولت اسلامیہ کا سیاہ پرچم لہرا دیا جبکہ اس کے برابر میں واقع پولیس سٹیشن کو جلا دیا۔ اس کے بعد عسکریت پسند، کیتھڈرل چرچ کے دروازے پر پہنچ گئے۔ جیسے ہی فادر چیٹو گیٹ تک پہنچے تو دو افراد نے ان پربندوقیں تان لیں۔ انھوں نے دیکھا کہ دو افراد کے پیچھے بھی سو سے زائد مسلح افراد کھڑے تھے۔ فادر چیٹو کو ان کے پانچ دوستوں سمیت گاڑی کے پچھلے حصے میں دھکیل دیا گیا جہاں انھوں نے پوری رات ایسے ہی گزاری۔ شدت پسندوں نے مغویوں کے سامنے اپنے نظریے کی تبلیغ کی۔ ’شام کے اوقات میں وہ ہمارے سامنے اپنے نظریے کی ترویج کرتے تھے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ ماراوی شہر کو پاک کرنے کے ارادے سے آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کہنے کو تو یہ ایک مسلم شہر ہے لیکن یہاں منشیات، بدعنوانی، شراب اور موسیقی کا راج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم یہاں خلافت قائم کرنے کے لیے آئے ہیں۔‘ وہ مسجد جہاں فادر چیٹو کو مغوی رکھا گیا شہر میں ہزاروں شہری پھنس کر رہ گئے جو دولت اسلامیہ کے اتحادیوں کی حکمرانی کو تسلیم کرنے پر کسی صورت آمادہ نہیں تھے۔ شہر پر قبضے کے پہلے دن ہر طرف افراتفری پھیلی ہوئی تھی۔ لوگ اپنے گھروں میں پھنسے ہوئے تھے، وہ بھاگ نکلنے کے لیے بے تاب تھے لیکن ان پر فائرنگ کا نشانہ بننے کا خوف بھی طاری تھا۔ ٹانگ پیکاسم ٹاؤن ہال میں ملازمت پیشہ تھے، ان کا کام سیلاب اور قدرتی آفات سے متعلق پلان تیار کرنا تھا۔ جب یہ جنگ شروع ہوئی تو ان کا فون بجنا شروع ہو گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ جب ان کو ریسکیو آپریشن سے متعلق پہلی کال موصول ہوئی تو میں نے باہر نکلنے سے قبل کئی بارسوچا کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اگر میں باہر چلا گیا تو پھر واپس آنے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا ہے۔ تاہم صورتحال کے پیش نظر زندگی کو لاحق تمام خطرات کے باوجود باہر نکلنے کے علاوہ کوئی اور آپشن موجود نہیں تھا۔ ٹانگ نے ماراوی شہر سے اپنے مسلم دوستوں کی ایک رضاکارانہ ٹیم تیار کی اور اس کے بعد وہ مل کر موت کا خوف نکال کر جنگ والے علاقے میں چلے گئے۔ جیسے جیسے وہ جلتی دیواروں اور ملبے کے ڈھیر کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہے تھے ان کی گاڑی پر فائرنگ ہوتی جا رہی تھی۔ ٹانگ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنا غیر جانبدارانہ طور پر تعارف کرائیں گے۔ ان کو یاد ہے کہ سفید رنگ کے تعمیرات کے کام میں استعمال ہونے والے ہیلمٹ سے ان کا دفتر بھرا ہوا تھا۔ پھر انھوں نے زخمیوں کی مرہم پٹی کے لیے میز کے سفید کپڑے کو کاٹ کر پٹیاں بنانی شروع کردیں۔ مقامی میڈیا نے رضاکاروں کی اس ٹیم کو خود کش سکواڈ کہنا شروع کردیا۔ ٹانگ پیکاسم کا کام سیلاب اور قدرتی آفات سے متعلق پلان تیار کرنا تھا لیکن فادر چیٹو اور دیگر سو مغوی اس خودکش سکواڈ کی پہنچ سے بہت دور تھے۔ ان کو باٹو مسجد کے تہہ خانے میں رکھا گیا تھا جو جہادیوں کا کمانڈ سینٹر بھی تھا۔ ان کو بتایا گیا کہ اگر انھوں نے تعاون نہ کیا تو ان کو انضباطی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ فادر چیٹو جانتے تھے کہ اس کا مطلب تشدد ہے اور انھیں یہ خوف تھا کہ اس کے بعد وہ اپنا ذہنی توازن بھی کھو بیٹھیں گے۔ لہذا انھوں نے جہادیوں کے لیے کام کرنا شروع کردیا، وہ ان کے لیے کھانا بناتے، صفائی کرتے اور حتی کہ انھوں نے دل پر پتھر رکھ کر ان کے لیے بم بھی بنانے بھی شروع کردیے۔ جہادیوں نے شہری گوریلا وار کے طریقوں سے دیواروں میں ایسے خول بنا دیے تھے کہ وہ گرفتاری سے بچ سکیں۔ لیکن امریکہ اور آسٹریلیا کی مدد سے فلپائن کی فوج نے بلا تعطل شدید فضائی بمباری شروع کردی تھی۔ فادر چیٹو فضائی حملوں کے اس طریقہ کار سے بـخوبی واقف ہوچکے تھے۔ دو جہاز آتے تھے جن میں سے ہر ایک چار بم اس طرح فائر کرتا تھا کہ پہلے کے بعد دوسرا بم گرایا جاتا تھا۔ سنہ 2017 میں ہونے والے فضائی حملے فادر چیٹو نے قید کے چار ماہ میں سو سے زائد فضائی حملوں کو دیکھا جن میں سے کچھ کی خواہش کرتے تھے کہ وہ ان پر گریں اور کچھ سے بچنے کی فکر میں رہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے دعا کی اور خدا سے کہا کہ اگلا بم مجھے نشانہ بنا لے۔ لیکن بعد میں انھوں نے اپنا ذہن بدل لیا۔ ’نہیں خدایا مجھے نشانہ نہ بنانا، میں (بم کا) نشانہ نہیں بننا چاہتا۔‘ کچھ لمحات ایسے بھی آتے تھے کہ مجھے یہ نہیں معلوم ہوتا تھا کہ میں کیسے دعا کروں۔ میں نے خدا سے یہ شکایت کی کہ اگر میں گناہ گار ہوں اور تو مجھے سزا دے رہا ہے تو یہ بہت ہوگیا ہے۔۔ یہ (عذاب میرے گناہوں سے) مطابقت نہیں رکھتا۔ ستمبر 16 کو فلپائن کی فوج مسجد کے اتنے قریب پہنچ گئی تھی کہ فادر چیٹو ان کی آپس کی باتوں کو سن سکتے تھے۔ جب رات کو اندھیرا گہرا ہوگیا تو انھوں نے اپنے ایک ساتھی کے ساتھ منصوبہ بنایا کہ یہ قید سے بھاگنے کا ایک اچھا موقع ہے اور اس کے بعد وہ آہستہ سے مسجد کے عقب کی جانب سے بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔ دو گلیوں کے بعد ان کو کچھ ایسے مسلح افراد ملے جو ان کو محفوظ مقام پر لے گئے۔ ایک ماہ بعد فلپائن کے سیکرٹری دفاع نے شہر کے محاصرے کے خاتمے کا اعلان کردیا۔ ماؤت برادرز عمراور عبداللہ سمیت جہادی گروپ کے ایک لیڈر ابو سیف مارے گئے اور ان کے دیگر جنگجوؤں کا بھی خاتمہ کر دیا گیا۔ شہر کے پانچ ماہ کے محاصرے میں 1000 سے زائد افراد مارے گئے۔ دو سال بعد بھی شہر کھنڈرات کا منظر پیش کررہا ہے۔ تعمیرات نو کا عمل بہت سست روی کا شکار ہے جبکہ ابھی بھی ایک لاکھ سے زائد لوگ بے گھر ہیں جو کیمپوں میں یا رشتہ داروں کے گھروں میں رہ رہے ہیں۔ شہر کے وسط سے دور ایک سکوائر ہے جسے گراؤنڈ زیرو یا انتہائی متاثرہ علاقہ کہلاتا ہے۔ یہاں رقہ، ادلیب اور موصل جیسی تباہی ہوئی۔ ہر عمارت کو نقصان پہنچا ہے، بہت ساری عمارتیں تقریباً ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں۔ ہم فادر چیٹو کے ساتھ اس علاقے میں سفر کرتے ہوئے کیتھڈرل چرچ تک پہنچے جہاں سے انھیں اغوا کیا گیا تھا۔ جیسے ہی ہم نے دروازہ کھولا تو وہ خوشی سے اس کھڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چلائے کہ یہ ہمارا چرچ ہے۔ لیکن جسے ہی ہم اندر داخل ہوئے تو موڈ تبدیل ہوتا گیا۔ کتھیڈرل کو کھنڈارت میں بدل دیا گیا تھا۔ دیوار پر گولیوں سے سراغ بنے ہوئے تھے، فرش پر لگی اینٹیں پاؤں کے نیچے ٹوٹ رہی تھیں۔ اس کی چھت اڑی ہوئی تھی صرف لوہے کا ڈھانچہ باقی رہ گیا تھا جو ہوا کے ساتھ خوفناک طریقے سے ہل رہا تھا۔ جیسے میں چرچ میں پڑی اس خاص میز کی طرف بڑھا تو وہاں میری توجہ حضرت عیسی کے مجسمے پر پڑی۔ اس کے پیٹ میں گولیوں سے سراغ بن چکے تھے۔ اس کے ہاتھ کٹ چکے تھے جبکہ ان کا پنکھوں سے بنا تاج ان کے سر پر لٹک رہا تھا۔ فادر چیٹو نے ہمیں کچھ لمحات کے لیے چھوڑ کر عبادت شروع کردی۔ وہ حضرت مریم کے ٹوٹے ہوئے مجسمے کے سامنے ہاتھ باندھ کر خاموشی سے کھڑے ہو گئے اور اس سے پلاسٹر ہٹا کر رونا شروع ہو گئے۔ ٹانگ کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے اس لڑائی میں اپنا گھر گنوا دیا اور اب انھیں ایک عارضی عمارت دی گئی ہے۔ لیکن اس میں رہنے کے بجائے وہ رشتہ داروں کے پاس رہ رہے ہیں اور اپنے گھر کو اپنے نئے فلاحی تنظیمی نیٹ ورک کے دفتر کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔ اس تنظیم کا مقصد شدت پسندی پر مبنی اسلامی تعلیمات کے فروغ کو روکنا ہے۔ اس کے دفتر کے ایک کونے میں ایک شخص اس تنظیم کے اسی علاقے کے 40 رضا کاروں کے نام پکار کر حاضری لگا رہا ہے۔ وہ محاصرے جیسی صورتحال سے نمٹنے کی غرض سے متعلقہ حکام کو کسی کے ذہن میں پیدا ہونے ولے شدت پسندی کے خیالات کو پہلے مرحلے پر ہی رپورٹ کردیتے ہیں تاکہ ان کی اصلاح یا بحالی کا مرحلہ وقت پر ہی یقینی بنایا جاسکے۔ ماراوی ایک قبائلی معاشرہ ہے اور یہاں خاندانی دشمنیاں ایک عام سی بات ہے۔ ٹانگ کے مطابق محاصرے سے قبل کے برسوں میں شدت پسند گروپوں نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے نیٹ ورک کے لیے بھرتیاں کی تھیں۔ اب ٹانگ اور ان کے ساتھی دشمنی بڑھنے سے قبل ہی ثالثی کرتے ہیں تاکہ باہمی اختلافات کو مزید ہوا نہ دی جا سکے۔ شہر کے محاصرے کے بعد ہر طرف خاموشی پھیلی تھی۔ جہادیوں کے پورے گروپ کی بیخ کنی کر دی گئی تھی تاہم جنگ نے اتنی تباہی مچائی کہ اب ہر کسی کی امن اور تعمیر نو کی خواہش تھی۔ اکتوبر 2017 میں شہر کا ایک منظر لیکن گذشتہ چند ماہ میں کچھ پریشان کن واقعات بھی سامنے آرہے ہیں۔ جن میں مسلح جہادیوں کے دوبارہ منظر پر آنے کے آثار، نوجوان خواتین شدت پسندوں کے کیمپوں سے تعلیم حاصل کرنا اور خاص خاندانوں سے محاصرے کے دوران شدت پسند گروپوں کے لیے بھرتی کرنا شامل ہے۔ ٹانگ کا کہنا ہے کہ شہر میں ایک چھوٹا سا گروپ دوبارہ منظم ہونے کی کوشش میں ہے۔ ماراوی میں پیش آنے والے واقعات ہی اس گروپ کی بنیاد ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں برباد ہو کر رہ گئیں۔ اگر تعمیر نو کے کام طویل وقت لیتا ہے تو پھر یقیناً مزید لوگ ایسے گروپوں میں شامل ہوجائیں گے۔ فادر چیٹو اب ماراوی شہر میں نہیں رہ رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہاں رہنا بہت خطرناک ہے۔ لیکن وہ کبھی کبھار جم میں ایک عارضی چرچ میں بنی یونیورسٹی میں پڑھانے کے لیے آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر میں یہ واحد جگہ ہے جہاں کیتھولک بڑی تعداد میں جمع ہو سکتے ہیں کیونکہ یہاں انھیں تحفظ کا احساس رہتا ہے۔ اب انھیں ایک مقامی ’سیلیبرٹی‘ کا درجہ حاصل ہے۔ چرچ میں سروس کے بعد طلبا ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور ان کے ساتھ سیلفیاں بناتے ہیں۔ وہ ناقابل شکست ہیں اور اب بھی مضبوطی کے ساتھ خود پر گزرے انتہائی تلخ لمحات کو یاد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مزاح کی حس ہی ہے جو زندگی کو آسان بنا دیتی ہے اور کاموں میں ایک توازن پیدا کردیتی ہے تاکہ انتہائی ذہنی کوفت یا انتہائی دباؤ میں جانے سے بچا جا سکے۔ یہ مشکل اور دردناک تجربات میں توازن پیدا کردیتی ہے۔ ان پر جو گزرا وہ ابھی بھی اپنا نفسیاتی علاج کرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میں پہلے ہی اپنا نفسیاتی توازن کھو بیٹھا ہوں، میں (اندر سے) مکمل تباہ ہو چکا تھا۔ لہٰذا میں خوش ہوں تو میں جی رہا ہوں۔ اگرچہ جسمانی طور پر میرے خوشی کے جذبات میں ابھی بھی کمی ہے۔ وقت بہترین دوا ہے۔ لہٰذا ہمیں (اچھے وقت کا) انتظار کرنا ہے۔ فادر چیٹو اب بھی ماراوی میں مذہبی ہم آہنگی سے متعلق پراُمید ہیں۔ جنگ کے بعد لوگوں کو خوب سبق حاصل ہو جاتا ہے۔ کیونکہ مسلم اور عیسائی یہ جانتے ہیں کہ انتشار میں کسی کی بھی فتح نہیں ہوتی بلکہ سب شکست خوردہ ہو جاتے ہیں۔
entertainment-56010213
https://www.bbc.com/urdu/entertainment-56010213
نصیبو لال: یہ میرا پہلا گانا ہے جو میں نے پاکستان کے لیے گایا ہے
’گاتی تو میں پاکستان کے لیے ہوں لیکن یہ ایک ترانے جیسا ہے۔‘
یہ کہنا تھا پاکستان سپر لیگ کا نیا گانا گانے والی نصیبو لال کا۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا ’اس سے پہلے میں نے ایک بسکٹ کی کمپنی کا گانا ’میرے دیس کا بسکٹ۔۔۔‘ گایا تھا۔ اس کے بعد میں نے ’گروو میرا' گایا۔ بڑا اچھا لگ رہا ہے مجھے یہ، کیونکہ میرا پہلا یہ گانا ہے جو میں نے پاکستان کے لیے گایا ہے۔‘ ’ہمارے پاکستان کی شان ہے یہ گانا‘ نصیبو لال کا کہنا ہے کہ یہ گانا ہمارے پاکستان کی شان ہے کیونکہ کافی لوگ فون کر کے انھیں مبارکباد دے رہے ہیں کہ یہ گانا بہت اچھا گایا ہے۔ ’لوگ اس گانے کو بہت پسند کر رہے ہیں اور مجھے اس بات کی بہت خوشی ہو رہی ہے۔‘ یہ بھی پڑھیے پی ایس ایل کا نیا گانا: ’نصیبو کا پارٹ سٹیڈیم میں بجے گا تو شائقین پاگلوں کی طرح چیخیں گے‘ پی ایس ایل میں تماشائی کیوں نہیں آتے؟ پی ایس ایل کیا کیا بیچے گی؟ ’میں بڑی حیران ہوئی کہ اتنا بڑا گانا مجھے مل گیا‘ نصیبو لال کے مطابق جب اس گانے کے لیے جب پی ایس ایل کی پروڈکشن ٹیم نے ان سے رابطہ کیا گیا تو انھیں بہت اچھا لگا۔ ان کے بقول یہ کوئی معمولی گانا نہیں ہے۔ ’یہ گانا میں نے جن کے لیے گایا ہے وہ پاکستان کا سرمایہ ہیں۔ میں بڑی حیران ہوئی کہ اتنا بڑا گانا مجھے مل گیا۔‘ گانے کی موسیقی اور گائیکی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ’اس گانے کے سُر بہت اونچے ہیں۔ یہ گانا گاتے ہوئے مجھے بڑی مشکل بھی ہوئی۔‘ نصیبو کے مطابق اس گانے کی فلم بندی کے دوران بھی انہیں کافی گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ ’ایک نیا گانا تھا یہ اور سب پڑھے لکھے لوگ تھے، ان کا بات کرنے کا ایک الگ انداز تھا، تو ان کو دیکھ کر میں بڑی حیران بھی ہوئی کہ کہیں مجھ سے کوئی غلطی نہ ہو جائے۔ تو تھوڑی سی مجھے کنفیوژن بھی ہوئی تھی۔‘ ’لیکن وہ سب بہت پیار کرنے والے تھے۔ تو میں نے بولا یہ تو بہت اچھے ہیں۔‘ نصیبو لال کے نزدیک وہ اس لیے بھی فکر مند تھیں کہ اتنی اچھی پیشکش کرنے والوں کو کہیں ناراض نہ کردیں۔ 'پھر میں نے بھی پوری کوشش کی کہ کچھ ایسا کروں کہ اچھا ہو جائے، تا کہ یہ خفا نہ ہوں اور مجھ سے یہ خوش ہو جائیں۔' نصیبو لال کا کہنا تھا کہ پروڈکشن ٹیم نے بہت محنت کی اور ’تھوڑی سی محنت میں نے بھی کی۔‘ ’اس گانے نے میری نئی پہچان بنائی‘ نصیبو لال کے مطابق اس گانے نے انھیں نئی پہچان دی ہے۔ اب لوگ انھیں نئے انداز اور ایک نئی سوچ کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ ان کے بقول انھیں فرط جذبات سے رونا بھی آ گیا۔ نصیبو لال کے مطابق اس گانے نے انھیں ایک نئی ’لُک‘ بھی دی ہے۔ ان کا کہنا تھا ’اس گانے کے لیے میرا پورا ’ڈریس اپ‘ بھی چینج کیا گیا۔ ’میں نے تھوڑا سا ڈانس بھی کیا ہے۔ ڈانس کی تو مجھے ویسے بھی عادت بھی ہے، عام سے گانے میں بھی میں ہلتی رہتی ہوں۔‘ نصیبو کے مطابق 'لُک کے بارے میں ’مجھے انھوں نے پہلے نہیں بتایا تھا، یہ ایسا ہی تھا جیسا کہ سرپرائز دیتے ہیں اور انھوں نے مجھے سرپرائز ہی دیا تھا۔' نصیبو کا کہنا ہے کہ اس گانے میں ہیوی میک اپ نہیں کیا گیا اور اس گانے کی ٹیم نے ان کا ہلکا سا میک کیا تھا۔ ’ان کا اپنا ہی ایک طریقہ تھا اور مجھے بہت اچھا لگا۔ ان کا کوئی بھی کام ہو گا اب میں انکار نہیں کروں گی۔‘ نصیبو لال کو پی ایس ایل کی پروڈکشن ٹیم بہت پسند آئی ان کے بقول ’اب پی ایس ایل کا کوئی بھی کام ہوگا تو میں حاضر ہوں کیونکہ یہ اچھے ہیں، انھوں نے جو میرے لیے کیا ہے وہ میں سوچ بھی نہیں سکتی۔‘ نصیبو کے بقول اس کام کی وجہ سے فلمی حلقوں میں بھی ان کی تعریف کی جا رہی ہے۔ ان کے مطابق اس گانے کے بعد جب وہ ایک اور گانا گا رہی تھیں تو انھیں وہاں موجود فلمی لوگوں نے کہا کہ 'بلے بلے نصیبو کمال ہو گیا، تم تو بہت بڑی سنگر ہو۔' نصیبو اب اپنے گانے کے ساتھ ساتھ پی ایس ایل کی کامیابی کے لیے بھی دعاگو ہیں۔ ان کے مطابق یہ ان کا پہلا ایسا گانا ہے جس نے اسے پی ایس ایل کا ایمبیسیڈر بنا دیا ہے۔
pakistan-54204988
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-54204988
پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی: ’حکومت کو شاید ابھی تک احساس نہیں کہ معاملات کتنے سنگین ہیں‘
پاکستان میں فرقہ وارانہ کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن حالیہ چند دنوں میں نہ صرف ملک کے مختلف شہروں میں شیعہ مخالف مظاہروں میں واضح اضافہ دیکھنے میں آیا ہے بلکہ اس کے علاوہ شیعہ علما پر اہم مذہبی ہستیوں کی مبینہ توہین کے الزامات عائد کیے گئے اور شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد کا قتل بھی ہوا۔
مگر یہ حالات کیسے شروع ہوئے اور ان کے عوامل کیا تھے، اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کالعدم تنظیموں پر تحقیق کرنے والے سکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا نے کہا کہ بہت سارے فرقہ وارانہ گروپ ایک موقع کی تلاش میں تھے کہ انھیں جگہ ملے اور وہ اپنے نیٹ ورک کو فعال بنا سکیں۔ 'ایک چھوٹے سے واقعے نے ماحول پیدا کیا اور وہ کالعدم تنظیمیں اور دوسری ایسی جماعتیں جن پر انتہا پسندی کا لیبل لگا ہوا ہے انھیں اسی طرح کے واقعے کی تلاش تھی اور انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا ہے۔ ہمیں کہا گیا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے بعد فرقہ ورانہ تنظیموں میں تبدلیاں آئی ہیں اور رویے بدلے ہیں، ان واقعات سے لگتا ہے کہ کچھ تبدیل نہیں ہوا ہے۔' یہ بھی پڑھیے ’تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ‘ پر تحفظات، پرویز الٰہی کی شیعہ علما کونسل کو ’مشاورت کی یقین دہانی‘ ’زیارت کرنے جاؤ تو واپسی پر ایجنسیاں اٹھا لیتی ہیں‘ وہ کراچی جہاں سبیل کا شربت صرف میٹھا ہوتا تھا، شیعہ یا سنّی نہیں وہ واقعہ بظاہر اس برس عاشورہ کے موقع پر پیش آیا جب کچھ ایسی ویڈیوز سوشل میڈیا پر سامنے آئیں جس میں مبینہ طور پر اہم مذہبی ہستیوں کے بارے میں مبینہ طور پر 'قابل اعتراض الفاظ' کہے گئے تھے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کے بعد قریباً پچاس کے قریب شیعہ علما پر اہم مذہبی ہستیوں کی مبینہ توہین کا الزام عائد کیا گیا اور دفعہ 295 اور 298 کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریباً روزانہ سوشل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر شیعہ برادری کی مخالفت پر مبنی مواد ٹرینڈ ہوتا دکھائی دیا ہے۔ اسی تناظر میں اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک اسلام آباد پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے جمعے کو منعقد کیے گئے سیمینار سے بات کرتے ہوئے ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری حارث خلیق نے زور دیا کہ سنی اور شیعہ مسالک کے اختلافات صدیوں پرانے ہیں اور وہ فوری طور پر حل نہیں ہو سکتے۔ انھوں نے حکومت پر زور دیا کہ انھیں ایسی راہ نکالنی ہو گی کہ اس مسئلہ کے حل کے لیے مل جل کے بیٹھیں اور جو گروہ کشیدہ صورتحال پیدا کرنے پر تلے ہوئے ہیں انھیں یہ بات باور کرائی جائے کہ پاکستان ایسے حالات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ریاست کے لیے ضروری ہے کہ مذہب کا سیاست میں استعمال نہ کیا جائے۔‘ اسی ویبینار میں شریک طارق پرویز، جو کہ ماضی میں نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی کے سربراہ رہ چکے ہیں، نے پاکستان میں فرقہ واریت کے پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ بر صغیر میں فرقہ واریت برسوں سے چل رہی ہے اور دونوں مسالک میں اختلافات پہلے سے ہیں لیکن ماضی میں یہ اختلافات پر امن طریقے سے حل ہو جاتے تھے اور بڑے پیمانے پر کبھی نہیں پھیلتے تھے۔ 'لیکن جو ہم آج کل دیکھ رہے ہیں، بنیادی سوال یہ ہے کہ اب اس میں تشدد کا عنصر کیوں آ گیا ہے۔ کیوں کہ جب ایک دفعہ شدت کا عنصر آیا اس کے بعد پھر کبھی ختم نہیں ہوا۔' حارث خلیق کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے طارق پرویز کا کہنا تھا کہ ریاست نے جب اپنی پالیسیوں میں مذہبی عنصر شامل کیا تو اس سے شدت پسندی کو پروان ملا۔ سنہ 1979 کو اہم ترین سال گردانتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس سال ہونے والے ملکی اور غیر ملکی واقعات نے ریاستی پالیسی کو تبدیل کیا اور جس کا نتیجہ آج دیکھا جا سکتا ہے۔ 'ان پالیسیوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے دیکھا کہ ملک میں دیو بندی جماعتوں کو سرکاری سرپرستی ملی اور پھر ان جماعتوں کے اراکین افغان جہاد کے لیے گئے تو وہ دیو بندی جہاد میں تبدیل ہو گیا۔ اور اس مسلک سے تعلق رکھنے والے ان افراد میں شیعہ مخالف خیالات تھے۔' طارق پرویز نے کہا کہ ریاست کا خیال تھا کہ جہاد میں جانے والے یہ افراد پاکستان واپس نہیں آئیں گے مگر جب 1989 کے بعد ان کی واپسی ہوئی تو اس کے بعد ملک میں پرتشدد فرقہ واریت میں اضافہ دیکھنے میں آیا اور 90 کی دہائی اس لحاظ سے سب سے بری تھی۔ 'اس دہائی میں حالات یہ تھے کہ صبح اگر سنی قتل، تو شام میں ایک شعیہ قتل ہوتا تھا۔ 97' میں ان واقعات میں عروج دیکھنے میں آیا اور پانچ سال تک جاری رہا جس کے بعد وقتاً فوقتاً اونچ نیچ آتی رہی لیکن کبھی مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوا۔ اور جس قسم کا بیانیہ ہم آج دیکھ رہے، یہ ہمارے لیے انتہائی خطر ناک ہے اور اگر اسے فوری قابو نہیں کیا تو بہت مشکل ہو جائے گی۔' اس سوال پر کہ ماضی میں ایسے مظاہرے صرف دیوبندی تنظیموں کی جانب سے ہوتے تھے لیکن اب ان میں بریلوی تنظیمیں کیوں شامل ہو گئیں، ویبینار سے خطاب کرتے ہوئے عامر رانا کا کہنا تھا کہ کراچی اور اسلام آباد میں ہونے والے مظاہروں میں شامل تمام علما وہ تھے جنھوں نے 'پیغام پاکستان' کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ یاد رہے کہ 2018 میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے 1800 علما کی مشاورت کے بعد ایک فتویٰ تیار کرایا تھا جس کے تحت مذہبی اتفاق رائے پر آمادگی اور شدت پسندی کے خاتمے پر اتفاق رائے حاصل کیے گئے تھا۔ 'بریلوی ہوں یا دیو بندی، دونوں مسالک کے اپنے اپنے سیاسی اور معاشی مفادات ہیں ۔ جب وہ حکومت سے بات کرتے ہیں تو وہ کچھ اور ہوتا ہے لیکن منبر پر جا کر ان کا بیانیہ کچھ اور ہوتا ہے۔ اس رویہ کی وجہ ہے اپنے مفادات کا تحفظ کرنا۔ اب یہ ایک دوسرے سے طاقت چھیننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جو اوپر آئے گا تو اس کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا، چاہے وہ سیاسی ہو یا معاشی۔' اس سوال پر کہ حالات کس نہج پر جا رہے ہیں اور مستقبل میں کہیں کشیدگی بڑھ نہ جائے، طارق پرویز کا کہنا تھا کہ ’حکومت کو شاید ابھی تک احساس نہیں ہو رہا ہے کہ معاملات کتنے سنگین ہیں اور وہ سمجھ رہے کہ یہ صرف وقتی ہے اور ختم ہو جائے گا، لیکن ایسا ہے نہیں۔ ‘ 'ہم لوگ صرف وقتی طور پر اس معاملے کو دیکھتے ہیں اور پھر بھلا دیتے ہیں۔ اس کو مسلسل توجہ دینا ہو گی۔' طارق پرویز نے سوشل میڈیا پر جاری گفتگو پر بھی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ وہاں سے ایک بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ 'یہ ایک حساس معاملہ ہے اور بہت دھیان سے اس پر کام کرنا ہوگا لیکن سوشل میڈیا بہت طاقتور پلیٹ فارم ہے اور اگر وہاں پر ہونے والی فرقہ واریت پر قابو نہیں پایا گیا تو یہ بہت سنگین بحران میں بدل سکتا ہے۔' عامر رانا نے بھی ایسی ہی منظر کشی کرتے ہوئے کہا کہ اگر اس فرقہ واریت کو جڑ سے ختم نہیں کیا تو ملک کے لیے اچھا نہیں ہو گا۔ 'حالات اسی طرف جا رہے ہیں جو نوے کی دہائی میں تھے۔ شیعہ تنظیمیں بھی دوبارہ سے اپنی طاقت میں اضافہ کر رہی ہیں اور اس سے مشکلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر اپنی آنکھیں کھولے۔' عامر رانا کا کہنا تھا کہ حکومت نے 'خوش آمدانہ پالیسی' کا طریقہ اپنا لیا ہے کہ ان جلسے جلوسوں کو آزادی سے کرنے دیا جائے اور میڈیا پر بلیک آْؤٹ رہنے دہیں لیکن یہ غلط طریقہ ہے اور یہ مستقبل میں بڑے مسائل کا باعث بن سکتا ہے۔ 'سیاسی جماعتیں ملک میں موجودہ حالت کے باعث کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور مستقبل کے انتخابات میں اگر مذہبی تنظیمیں ان جماعتوں کے نعم البدل کے طور پر ابھرتی ہیں تو اس سے ملک میں بڑی خطرناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔'
031207_karzai_direct_three
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/guest/story/2003/12/031207_karzai_direct_three
حصہ سوم: آپ کے سوالات، کرزئی کے جوابات
شفیع نقی جامعی: حامد کرزئی صاحب، لوگ آپ سے یہ جاننا چاہیں گے کہ آپ کی مادری زبان کیا ہے، اردو زبان آپ نے کہاں سے سیکھی اور اس کے علاوہ آپ کتنی زبانیں بولتے ہیں؟
حامد کرزئی: پشتو اور فارسی میری مادری زبانیں ہیں۔ اس کے علاوہ میں انگریزی جانتا ہوں اور اس میں بات چیت کرسکتا ہوں۔ تھوڑی بہت فرانسیسی بھی بولتا ہوں لیکن مجھے اردو سے بہت پیار ہے۔ آفتاب احمد، برطانیہ اور عبدالرحیم، کراچی: افغانستان میں امن و امان اور سیکیورٹی کی صورتحال کب بہتر ہوگی اور اس ضمن میں آپ کیا کررہے ہیں؟ بہت سے لوگ یہ بھی جاننا چاہیں گے کہ آپ کی حکمرانی صرف کابل تک ہی کیوں محدود ہے؟ گذشتہ دو برسوں کے دوران افغانستان کی انتظامی صلاحیت بیس فیصد بڑھ گئی ہے لیکن ملک میں مضبوط انتظامیہ قائم کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ حامد کرزئی حامد کرزئی: افغانستان میں انتظامیہ کی تشکیل اور فوج کے وجود میں آنے کے بعد امن و امان بحال ہوجائے گا کیونکہ یہ ایک بتدریج عمل ہے۔ افغانستان میں سیاسی عمل استوار ہونے اور پولیس کے وجود میں آنے کے بعد صورتحال مزید بہتر ہوجائے گی۔ ملک میں قومی اداروں کی تشکیل اور تشکیلِ نو کے عمل کے باعث ملک کی اقتصادیات پر اچھا اثر پڑا ہے اور افغانستان میں جو مہنگائی کی شرح ہے وہ صفر کے قریب ہے۔ لوگوں کی زندگی کا معیار بہتر ہوتا جارہا ہے، معاشرتی حالت بہتر ہورہی ہے، صحت عامہ کے امور میں بہتری آرہی ہے۔ اس برس افغانستان میں ایک کروڑ بیس لاکھ بچوں کو خسرے سے اور ساٹھ لاکھ بچوں کو چیچک سے نجات کے ٹیکے لگوائے گئے ہیں۔ سات لاکھ بہنوں کو ٹیٹنس کے ٹیکے لگوائے گئے ہیں۔ رہی بات ہماری حکومت کی اتھارٹھی کابل تک محدود رہنے کی تو یہ محض ایک واہمہ ہے۔ ہماری حکومت کی اتھارٹی تمام ملک میں یکساں طور پر مؤثر ہے۔ لیکن ہماری حکومت کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے وہ ہمارے پاس انتظامی صلاحیت کا موجود نہ ہونا ہے۔ گذشتہ دو برسوں کے دوران افغانستان کی انتظامی صلاحیت بیس فیصد بڑھ گئی ہے لیکن ملک میں مضبوط انتظامیہ قائم کرنے میں بہت وقت لگے گا۔ ایم ابراہیم وزیری، جنوبی وزیرستان: آپ کی حکومت نے افغانستان میں اسلام کے فروغ کے لئے کیا اقدامات کیے ہیں؟ افغانستان نے اسلام کے لئے کیا کیا نہیں کیا۔ لاکھوں افغان اسلام کا نام بلند کرنے کے لئے شہید ہوگئے اور ہمیں اس بات پر فخر ہے۔ حامد کرزئی حامد کرزئی: افغانستان ایک مضبوط اسلامی ملک ہے اور افغان عوام اسلامی امہ کا بہترین جز ہیں۔ افغانستان نے اسلام کے لئے کیا کیا نہیں کیا۔ لاکھوں افغان اسلام کا نام بلند کرنے کے لئے شہید ہوگئے اور ہمیں اس بات پر فخر ہے۔ ہم نے جو ملک کا نیا آئین تشکیل دیا ہے اس میں لکھا ہے کہ افغانستان کا دین اسلام ہے اور کوئی بھی قانون اسلامی احکام کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ ذوالفقار حیدر راجہ، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر: آپ کی حکومت اور مغربی ذرائع ابلاغ الزام لگاتے رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں موجود ہیں۔ لیکن مجھے یہ خدشہ ہے کہ اسامہ بن لادن نہ صرف افغانستان میں موجود ہیں بلکہ امریکی صدر جارج بش اور آپ کی تائید سے آپ ہی کی پناہ میں ہیں۔ امریکہ میں ہونے والے آئندہ انتخابات کے وقت اسامہ کی گرفتاری کا ڈرامہ رچاکر رائے عامہ ہموار کرکے صدر بش کی جیت یقینی بنائے جائے گی۔ افغانستان میں برسوں جاری رہنے والی جنگ میں امریکہ، روس، ایران اور پاکستان کے مقابلے میں افغانستان کی قیادت زیادہ ذمہ دار ہے۔ ہمارے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ اسامہ بن لادن ہمارے اور امریکہ کے پاس مشترکہ طور ہیں! میں امریکی حکام سے بھی پوچھوں گا کہ یہ بات سچ ہے کہ نہیں حامد کرزئی حامد کرزئی: ہم نے یہ کبھی بھی نہیں کہا کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہیں۔ ہم نے ہمیشہ یہی کہا کہ اسامہ غالباً افغانستان اور پاکستان کی سرحدوں میں ہیں۔ شاید وہ کہیں اور ہی ہوں، یہ ہم تو جانتے نہیں۔ ہمارے لئے یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ اسامہ بن لادن ہمارے اور امریکہ کے پاس مشترکہ طور ہیں! میں امریکی حکام سے بھی پوچھوں گا کہ یہ بات سچ ہے کہ نہیں، اور اگر یہ بات سچ نکلی تو ہم یہ ضرور بتائیں گے کہ آپ کی بات سچ نکلی۔ لیکن بھئی جہاں تک ہمیں معلومات حاصل ہیں ہم نہیں جانتے کہ اسامہ کہاں ہیں۔ شفیع نقی جامعی: صدر صاحب، کیا یہ بھی نہیں پتہ کہ اسامہ زندہ بھی ہیں یا نہیں؟ حامد کرزئی: آج کل ملنے والی وڈیو فلموں سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ شاید وہ زندہ ہیں مگر ہمیں یہ نہیں پتہ کہ وہ کہاں پر ہیں۔ انجینیئر طاہر بلال، پاکستان کے زیرانتظام کشمیر: سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے بارے میں آپ کی حکومت کا موقف کیا ہے؟ کیا آپ کشمیر کو متنازعہ خطہ تسلیم کرتے ہیں یا نہیں؟ حامد کرزئی: افغانستان ایک ایسا ملک ہے جو جنگ سے چھٹکارا پاکر خود کو بہتر بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ کشمیر کا معاملہ، کشمیر کے عوام کا مسئلہ ہے۔ ہم کشمیریوں کی بھلائی چاہتے ہیں، ان کے لئے امن چاہتے ہیں۔ اور کشمیر کے تنازعے کا پرامن حل چاہتے ہیں تاکہ پاکستان، کشمیر کے عوام اور بھارت اس تنازعے کا مذاکرات کے ذریعے حل نکالیں۔ مہوِش علی، اسلام آباد: پاکستان کے خلاف آپ کے الزامات کے کیا شواہد ہیں؟ حامد کرزئی: بہن جی، ہم تو پاکستان پر کوئی الزام تراشی نہیں کررہے ہیں۔ پاکستان کے لوگ افغان عوام کے بھائی بہن ہیں، اور دونوں ممالک کے درمیان طویل عرصے سے دوستی ہے۔ عثمان خان، لندن: کیا آپ افغانستان میں دہشت گردی مخالف جنگ کے سلسلے میں پاکستانی صدر جنرل مشرف کی کوششوں سے مطمئن ہیں؟ بھارت، پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کے بارے میں پاکستانی حکومت کی جو تشویش ہے اسے دور کرنے کے لئے آپ کیا اقدامات کررہے ہیں؟ حامد کرزئی: صدر مشرف کے ساتھ میرے بڑے اچھے تعلقات ہیں۔ ہمارا ٹیلیفون کے ذریعے رابطہ رہتا ہے، پاکستان کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف کی جانیوالی کوششوں کو ہم سراہتے ہیں۔ اگر پاکستان یہ کوششیں زیادہ کردے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر امن ہوجائے تو یہ صحیح معنوں میں قابلِ تعریف ہوگا۔ ہمیں خوشی ہے کہ آج کل بھارت اور پاکستان کے درمیان بات چیت جاری ہے اور دونوں ممالک تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں کررہے ہیں کیونکہ یہ ہمارے بھی مفاد میں ہے۔ جاوید سومرو: کرزئی صاحب، ایسے کون سے اقدامات ہیں جو پاکستان ابھی نہیں کررہا ہے اور اسے کرنا چاہئے؟ حامد کرزئی: میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان اقدامات نہیں کررہا ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ پاکستان اپنے اقدامات میں مزید اضافہ کرے۔ عتیق احمد چودھری، ٹیکسلا: آپ پاکستان کے ساتھ اپنے تجارتی تعلقات کو مستقبل میں کیسے آگے بڑھائیں گے؟ پاکستان کے قبائلی علاقے میں جو اسلحہ بنتا ہے اس کا خام مال افغانستان سے آتا رہا ہے۔ لیکن اب چونکہ آپ نے سرحد بند کردی ہے، تو یہ لوگ روزگار کیسے کریں گے؟ وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی افغانستان کو غیرسرکاری برآمدات اسیٰ کروڑ ڈالر ہیں۔ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات بہتر کرنے کے بہت مواقع ہیں۔ افغانستان پاکستان کے لئے ایک تجارتی راستے کے لئے کام کرسکتا ہے۔ حامد کرزئی حامد کرزئی: گذشتہ دو برس میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کے معاملے میں بہت بہتری آئی ہے۔ گذشتہ سال پاکستان نے افغانستان کو پینتالیس کروڑ ڈالر کی برآمدات کی ہیں۔ اور افغانستان کی جانب سے پاکستان اس سے کچھ کم برآمدات کی گئی ہیں۔ دونوں ملکوں کی وزارت تجارت کا کہنا ہے کہ پاکستان کی افغانستان کو غیرسرکاری برآمدات اسیٰ کروڑ ڈالر ہیں۔ دونوں ملکوں کے تجارتی تعلقات بہتر کرنے کے بہت مواقع ہیں۔ افغانستان پاکستان کے لئے ایک تجارتی راستے کے لئے کام کرسکتا ہے۔ محمد فہیم، راولپنڈی: افغانستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آئندہ برس ہونے والے انتخابات کا صاف و شفاف انعقاد ممکن ہے؟ حامد کرزئی: کچھ عرصہ پہلے لویا جرگہ کے لئے بڑی اچھی طرح انتخابات کا انعقاد کیا گیا جس میں اٹھارہ سے بیس ہزار افراد نے حصہ لیا۔ ملک میں عام انتخابات کے لئے ووٹروں کی رجسٹریشن کا کام بعض صوبوں میں شروع ہوگیا ہے۔ علی قندھاری، قندھار: افغانستان کی کچھ زمین، کیا آپ کے خیال میں پاکستان کے کنٹرول میں ہے، جسے پشتون افراد پشتونستان کے نام سے پکارتے ہیں۔ اور اگر ایسا ہے تو کیا آپ پاکستانی حکومت سے بات چیت کریں گے؟ حامد کرزئی: پاکستان افغانستان کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ اور افغانستان پاکستان کے ساتھ تعلقات مزید اچھے بنانا چاہتا ہے۔ لیکن ابھی ہم صرف اتنا ہی کہیں گے۔ صابر مائیکل، کراچی: افغانستان میں گذشتہ جنگ کے باعث لگ بھگ پانچ لاکھ افراد معذور ہوگئے۔ کیا آپ نے امریکہ سمیت امدادی ممالک کے ساتھ ملکر اس محروم طبقے کے لئے کچھ کرنے کی کوشش کی؟ افغانستان میں اقلیتوں کا مسئلہ ملک میں پشتون، تاجک اور ازبک مسئلے کی بنیاد دکھائی دیتا ہے۔ کیا آپ اقلیتی کمیشن کے قیام کے بارے میں ارادہ رکھتے ہیں؟ حامد کرزئی: افغانستان میں معذوروں کے لئے ایک وزارت موجود ہے۔ اور افغانستان کے نئے آئین میں بھی معذوروں کے لئے ایک جگہ مخصوص ہے کیونکہ انہی لوگوں کی قربانیوں کی وجہ سے آج افغانستان آزاد ہے۔ افغانستان میں بہت سی قومیں آزاد ہیں اور سب کو برابر کے حقوق دستیاب ہیں۔ ہم اقلیتوں یا اکثریتوں کی بات نہیں کرتے، بلکہ ہم سب کے لئے برابر حقوق کی بات کرتے ہیں۔ ہم کسی کو بڑا یا چھوٹا نہیں مانتے۔ خلیل اخون، بہاول نگر: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طالبان حکومت کے مقابلے میں اب افغانستان میں زیادہ خوشحالی ہے؟ حامد کرزئی: جی ہاں۔ افغانستان میں جنگ نہیں ہے۔ لوگ امن سے ہیں۔ بیالیس لاکھ بچے اسکول جارہے ہیں۔ افغانستان کو دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔ ختم شد
050613_jackson_case_sen
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2005/06/050613_jackson_case_sen
مائیکل جیکسن کیس: آپ کی رائے
دنیا کے شاید سب سے زیادہ جانے پہچانے گلوکار مائیکل جیکسن بچوں سے جنسی تعلق کے تمام الزامات سے بری ہو گئے ہیں۔ ان پر ایک تیرہ سالہ لڑکے سے زیادتی کرنے، اسے اغوا کرنے کی سازش کرنے اور ایک کم سن کو الکوہل پلانے سمیت دس الزامات تھے۔
آٹھ خواتین اور چار مردوں پر مشتمل بارہ رکنی جیوری نے سولہ ہفتے تک کیلی فورنیا کے شہر سانتا ماریا میں جاری رہنے والی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ سنا دیا ہے۔ تحسین آفتاب، کویت:فیصلہ ٹھیک نہیں ہوا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی جس کے پاس پیسہ ہے آپ اس کا کچھ بھی نہیں کر سکتے۔ محمد عقیل، انڈیا:میرے خیال میں ’ایم جے‘ کے خلاف واضح ثبوت پیش نہیں کیے جا سکے۔ محمد احسان الحق، پیرس، فرانس:یہ بہت اچھا فیصلہ ہوا ہے۔ بی بی سی بہت اچھی ویب ساائٹ ہے۔ میں روزانہ صبح اسے پڑھتا ہوں۔ سید ضرغام الدین، دبئی:پیسہ بولتا ہے۔ جاوید سوراتھیہ، امریکہ:معلوم نہیں کورٹ روم میں کیا ہوا تھا، جج کو مائکل کی کون سی بات اچھی لگی ہوگی۔ یہ وہ بلیک پوپیولیشن کے دباؤ میں آ گیا تھا۔ مائکل اگر مجرم تھا تو اسے پیسے نے بچا دیا۔ مگر اگر وہ بے گناہ تھا تب بھی ہم جسٹس سِسٹم کو کیسے مان سکتے ہیں؟ جسٹس سِسٹم دنیا میں ہر جگہ کرپٹ ہے اور صرف پیسے اور طاقت والوں کے لیے ہے۔ جیکسن نے تقریباً پانچ سے سات ملین ڈالر خرچ کیا، تب جا کر بری ہوا۔ مسعود رحمان، امریکہ:جیسا کہ عدالت نے بھی اپنا فیصلہ مائیکل کے حق میں سنادیا ہے اور مجھے بھی پورا یقین ہے کہ مائیکل بےقصور ہے، اگر کوئی قصوروار ہے تو وہ ہے امریکی معاشرہ جہاں زندگی کے ہر پہلوں اور ہر ایشو کو سیکس کی آنکھ سے دیکھا جاتا ہے۔ اگر دو لڑکے ہاتھ پکڑ لیں تو وہ گے ہوجاتے ہیں، اگر دو لڑکیاں ایک دوسرے کو گلے لگالیں تو وہ لیسبین ہوجاتی ہیں۔ کیا انسانی قدریں کوئی انسانیت کی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا؟ ناصر مروت، اونٹاریو:امریکی نظام انصاف کا ڈبل اسٹینڈرڈ۔۔۔۔ ثاقب رانا، امریکہ:یہ ایک اچھی مثال ہے کہ امریکہ کیوں ایک عظیم ملک ہے، یہاں سب کے لئے انصاف ہے، اور کسی کو بھی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ اچھا ہوتا کہ ہمارے یہاں بھی ایسا ہی ہوتا۔ عارف جبار قریشی، سندھ:مائیکل جیکسن ایک بیسٹ سِنگر ہے لیکن بیسٹ انسان نہیں، ویسے عدالت کی طرف سے ان کو چھوڑ دینا اچھا ہے کیوں کہ ان کا کیس بلیک میلِنگ کے سوا کچھ نہ تھا۔ خواجہ اویس پپو:مائیکل تھا بری ہوگیا، اگر پٹھان ہوتا تو پکڑا جاتا۔۔۔ محمد امین جاوید، راجپور، پاکستان:میرے خیال میں مائیکل ایسا نہیں کرسکتے، یہ سب الزام لگائے گئے ہیں۔ ہدایت اللہ خان، بنوں:یہ فیصلہ جو ہوا ہاں بہت اچھا ہوا ہے۔ اگر اس نے یہ جرم کیا ہے تو اس کو اس کی سزا بہت جلدی اللہ کی طرف سے مل جائے گی۔۔۔۔ عتیق وردک، کراچی:اگر مائیکل جیکسن بےگناہ تھا تو ٹھیک ہے اور بی بی سی نے اس کوریج میں کافی مدد کی ہے۔ جاوید حسنین، پشاور:ہمیں اپنے مسائل پر توجہ دینا چاہئے، امریکہ اور یورپ میں تو روز اس طرح ہوتا ہے، وہاں تو۔۔۔۔ سریر احمد، سرینگر:یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس طرح کے بےشرمی والے فعل کو اتنی کوریج ملی۔ چونکہ بی بی سی ایک بڑا نیوز نیٹورک ہے اس لئے لوگ امید کریں گے کہ بی بی سی ہر چھوٹی اور بڑی خبر کی کوریج کرے۔ خرم احمد، فینِکس:مجھے نہیں لگتا کہ جیکسن معصوم ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ چند برسوں پہلے جب ایک بچے نے اس پر الزام لگایا تو اس نے کئی ملین ڈالر دیے۔ اگر وہ معصوم تھا تو اس وقت اس نے اسے عدالت کیوں نہیں لے گیا؟ عدالت سے باہر معاملہ کیوں ہوا؟ قادر قریشی، ٹورانٹو:امیر لوگ جیل نہیں جاتے۔۔۔۔ غلام فرید شیخ، سندھ:کسی کو بھی پاپولر کرنے کے لئے یہ کافی ہے۔ ہمیں کیا پتہ کہ وہ بےگناہ ہے یا گناہ گار۔ اس نے یہ جرم کیا ہے یا نہ؟ لیکن بات یہ ہے کہ کیا ضرورت ہے کہ کسی کو حد سے زیادہ کوریج دی جائے اور اس کی پرسنل لائیف میں داخل ہونے کی کوشش کی جائے۔ عبدالمجید، عمان:اسے جتنی میڈیا کوریج ملی اتنی نہیں ملنی چاہئے تھی۔۔۔ الطاف خان، یو کے:کیوں کہ مائیکل ایک کالا عیسائی ہے اگر اس کو سزا ہوجاتی تو امریکہ میں کالے گورے کے فسادات شروع ہوجاتے، جیسا کہ اس سے قبل بھی سی اے میں ایسا ہوچکا ہے۔ اسی لئے سزا سے بچایا گیا ہے۔ جبران حسنین، کراچی:یہ سب سکینڈل تھے اور مائیکل جیکسن کو بدنام کرنے کا ایک سستا طریقہ تھا جس میں مائیکل کے مخالفین کو شکست ہوئی۔ عرفان سہیل ملک، چکوال:میرے خیال میں اس قسم کا کیس کسی بھی انسانی شخصیت پر برا اثر ڈالتا ہے۔ اب میڈیا کو چاہئے کہ مائیکل جیکسن کے بارے میں نیک خیالات کا اظہار کریں تاکہ پاپ سنگر اپنے کریئر کو آگے اچھے طریقے سے ہینڈل کرسکیں۔ ہارون چغتائی، امریکہ:میرے خیال سے سفیدفام لوگ جیکسن کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں کیوں کہ وہ سیاہ فام ہے۔ زندگی میں بڑی کامیابی حاصل کرنے پر ہر سیاہ فام شخص کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے، سفیدفام لوگ پسند نہیں کرتے۔۔۔ اللہ وڑایو بزدار، گھوٹکی:مائیکل جیسکن لکی ہے کہ امریکہ میں اس کا ٹرائل ہوا۔۔۔۔ منظور بانیان، اسلام آباد:اگر جیکسن معصوم تھا تو یہ اچھا فیصلہ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا، بالخصوصی بی بی سی، نے اس سماعت کو کافی کوریج دی ہے، میں بی بی سی اردو اور انگلش کا ریگولر قاری ہوں۔ اگر آپ بےقصور ہیں تو آپ کو سزا نہیں ہوسکتی۔ میں اس فیصلے سے مطمئن ہوں۔ محمد جمیل ہاشمی، کینیڈا:بلاضرورت کوریج۔۔۔۔ جاوید اقبال ملک، چکوال:اس میں کوئی شک یا شبہ نہیں ہے کہ بی بی سی اس وقت ایک عالمگیر نیٹورک بن چکا ہے اور دنیا بی بی سی کی نیوز اور تبصروں پر یقین رکھتی ہے اور بی بی سی کے نیوز کے ذرائع بھی بہت زیادہ ہیں۔ مائیکل جیکسن کے حوالے سے بھی بی بی سی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، حق کو حق کہا اور اپنا کام انتہائی دیانت داری سے کیا۔ مگر حقیقت یہ بھی ہے کہ سارے ورلڈ میں آئے روز جنسی زیادتی کے نہ جانے کتنے ہی کیس ہوتے۔ مغرب کو تو چھوڑیں ہم مسلمان ہیں اپنی بات کرتے ہیں، میں چکوال میں رہ رہا ہوں یہاں پھر نہ جانے کتنے ہی بچے مدرسوں میں جنسی زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں، مگر وہ کیا ہے کہ وہ سب کچھ انڈرگراؤنڈ ہوتا ہے۔ مسٹر مائیکل ایک جانے پہچانے سنگر ہیں اس لئے اس واقعہ کو زیادہ اچھالا گیا، بالکل اسی طرح جس طرح مسٹر بِل کلنٹن کا معاشقہ بہت پاپولر ہوا تھا۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ اس واقعے سے مائیکل جیکسن کی شخصیت متاثر ضرور ہوئی ہوگی۔ زریں ظفر، ٹورانٹو:میرے خیال سے یہ انصاف نہیں تھا۔۔۔۔ احمد، امریکہ:امریکی جیلوں میں قید تمام ’دہشتگردوں‘ کے لیے ایک ڈیفنس اٹارنی ہائر کرنے کی ضرورت ہے اور ہاں، ہمیں اسی جیوری کی بھی ضرورت ہوگی۔۔۔ محمد عقیل، شیکاگو:یہ تو ہونا ہی تھا۔ آپ کو ہم کو سب پتہ تھا کہ ملک کی میڈیا کو مصروف رکھنے کے لئے یہ سب ڈرامہ رچانا ہی ہے۔ اس کی وجہ اگر میڈیا کے پاس کوئی خبر نہ ہوتی تو میڈیا عراق کی خبریں شروع کردیتا اور لوگ سوال پر سوال کرتے رہتے، اس لئے ایسے ہی ناٹک کیے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس میں بھی جیکسن اچھا خاصا۔۔۔۔ عدنان اقبال، امریکہ:جیورے کے فیصلے سے قبل پچانوے فیصد امریکیوں کو یقین تھا کہ جیکسن غلط ہیں، اس کا مطلب ہے کہ میڈیا کوریج جیکسن کے خلاف تھا۔ فیصلے کے بعد بھی، میرے لئے تعجب کی بات ہے، کچھ میڈیا چینل ایسے ماہرین سے انٹرویو کررہے ہیں جو جیکسن کے تاریک مستقبل کے بارے میں بات کررہے ہیں۔ شاہد:سمجھ نہیں آرہا کہ کیا کہیں اور کیا نہیں۔۔۔ فراز حیدر، کراچی:مائیکل بےقصور تھا اور یہ ثابت ہوگیا ہے۔ وہ پاپ کا کِنگ ہے اور اسے اس کی حیثیت واپس ملنی چاہئے۔ اسد امیر، کراچی:یہ تو پہلے سے ہی طے تھا کہ ایک پبلِک فیگر کو ویسٹرن کنٹری میں سزا نہیں دی جاسکتی ہے۔ لہذا اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ مغربی معاشرے مکے لحاظ سے دیکھا جائے تو ویسے بھی یہ اتنا بڑا جرم بھی نہیں تھا۔ اگر مائیکل جیسک کو سزا دی جاتی تو مسلمانوں جن کو امریکیوں نے گوانتانامو بے میں قید رکھا ہوا ہے بغیر کسی الزام اور بغیر کسی قانونی حقوق کے، ان کے بارے میں کیا جواب ہوتا؟ بہر حال یہ امریکنز کی دغلی پالیسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ رازق حسین، پاکستان:سچ پوچھیں تو یہ انصاف کی جیت ہے۔ سیلیبریٹیز کے جہاں بہت سے مداح بنتے ہیں وہیں ان کے دشمن بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ جو کسی نہ کسی بہانے ان سے رقم بٹورنے اور ان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انصاف پر مبنی اس فیصلے سے ایک عظیم فنکار کا مستقبل تباہ ہونے سے بچ گیا ہے۔ عبدالشکور کانجو، دہرکی:جیکسن کو بری کرنا انصاف کی کامیابی ہے۔۔۔۔ ریاض فاروقی، دبئی:مائیک ٹائیسن کے بعد مائیک جیکس بھی جیل جاسکتے تھے لیکن قسمت نے ان کو بچالیا، عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ لوگ فیم حاصل کرنے کے لئے ایسے لوگوں پر الزامات لگادیتے ہیں جو کہ بہت سیریئس نوعیت کے ہوتے ہیں۔ خواجہ رضا، کینیڈا:میں سمجھتا ہوں کہ مائیکل جیکسن معصوم تھا۔ وہ ایک آرٹِسٹ ہے اور وہ اتنا سوفیسٹیکیٹیڈ ضرور ہوگا کہ وہ بچوں نقصان نہ پہنچائے۔ میرے خیال سے لوگ ملینائر بننے کے لئے اس پر الزامات عائد کرتے ہیں۔ محمد علی، جیک آباد:یہ ایک اچھا فیصلہ تھا۔ میں بہت خوش ہوں ان ججوں سے جنہوں نے یہ فیصلہ دیا ہے اور بہت جلدی اچھا فیصلہ دیا۔ اس کا نام ہے قانون۔ شاہد اقبال، ملتان:مائیکل جیکسن پر جو الزام لگا تھا وہ بالکل ٹھیک تھا کیوں کہ وہ جب بھی اسٹیج پر آتا تھا اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی کمسن بچہ ہوتا تھا جس سے ظاہرہوتا ہے کہ وہ اس بیماری میں مبتلا تھا۔ نامعلوم:سب یہی کہتے ہیں کہ مائیکل بےگناہ ہے، حقیقت میں یہ بڑا آدمی ہے اور ہر بڑے کے لئے اللہ کی پکڑ ہے۔۔۔۔ عمران جلالی، ریاض:مائیکل جیکسن ایک اچھے انسان ہیں اور خاص طور پر مائیکل جیکسن جیسی بلندیوں اور شہرت کو چھونے والا کوئی بھی ایسی حرکت نہیں کرے گا جس سے اس کے کردار پر بدنما داغ لگ جائے۔ جہاں تک تمام الزامات کا تعلق ہے تو وہ تو ہر سیلیبریٹی پر لگتے ہیں اور عام طور پر جھوٹے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ امان علی، نیوزی لینڈ:میرے خیال میں جیکسن جنسی زیادتی کا دو سو فیصد مرتکب ہے۔ زبیر عباسی، لاہور:میرے خیال میں تو مائیکل پر جھوٹے الزامات لگائے گئے تھے۔ میں پہلے سے جانتا تھا کہ مائیکل پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوگا۔ جہاں تک بات ہے میڈیا کی تو مائیکل کا یہ کیس میڈیا کے لئے بہت فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ میڈیا پر زیادہ تر جھوٹے الزامات کے مقدمے بہت چلتے ہیں۔ میں مائیکل کے بری ہونے کے فیصلے پر بہت خوش ہوا ہوں۔ اور میڈیا کو اب چاہئے کہ وہ مائیکل کے بارے میں اچھی باتیں لکھیں اور ان کے کام کو سراہیں۔
040717_tariq_car_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/07/040717_tariq_car_as
طارق عزیز کی کار چوری، برآمد
لاہور میں نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری اور لاہور ریس کلب کے صدر طارق عزیز کے زیر استعمال رہنے والی ایک کار کو ڈاکوؤں نے اسلحہ کی نوک پر چھین لیا تاہم سہ پہر تک گاڑی برآمد کر لی گئی۔
لاہور کے گرین ٹاؤن تھانہ کے محرر دین محمد کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ آج صبح آٹھ بجے پیش آیا۔ ہمدرد چوک کے پاس پانچ مبینہ ڈاکوؤں نے اسلحہ کی نوک پر ریس کلب کی کار چھین لی اور اس کے ڈرائیور محمد اسلم کو یرغمال بنا کر ساتھ لے گئے۔ پولیس کے مطابق یہ سفید رنگ کی ٹیوٹا کار ہے جس کا رجسٹریشن نمبر ایل آر ایس 4110 ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ کار میں حفاظتی نظام نصب تھا جس کی وجہ سے وہ شہر کے نواح میں کاہنہ روڈ پر جا کر خود بخود رک گئی اور ڈاکو اسے چھوڑ کر بھاگ گئے۔ سہ پہر کے وقت گاڑی ریس کلب کےحوالے کر دی گئی تاہم ڈکیتی کا مقدمہ درج کرلیا۔ نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری طارق عزیز ریس کلب کے صدر ہیں اور ہر اتوار کو گھڑ دوڑ دیکھنے کے لیے اسلام آباد سے لاہور آتے ہیں۔ ڈاکوؤں کا نشانہ بننے والی یہ گاڑی ان کے استعمال میں رہتی ہے۔
040727_acid_arrested_ra
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/07/040727_acid_arrested_ra
تیزاب پھینکنےکا ملزم گرفتار
ضلع خانیوال میں جہانیاں کے نواحی گاؤں ایک سو تیرہ بٹا دس آر میں پولیس نے ایک خاندان کی تین عورتوں پر تیزاب پھینک کر زخمی کرنے کے الزام میں ایک مقامی شخص کو گرفتار کرلیا ہے۔
جہانیاں پولیس کے محرر دلشاد حسین نے بتایا کہ پولیس نے پیر کے روز مٹھائی فروش محمد انور کے بیان پر اس واقعہ کا تعزیرات پاکستان کی اقدام قتل کی دفعہ تین سو چوبیس کے تحت مقدمہ درج کرکے گاؤں کے بائیس سالہ لڑکے بلال کو اس الزام میں گرفتار کرلیا اور آج اسے میجسٹریٹ کے سامنے پیش کیاجائے گا۔ پولیس نے تیزاب سے جلنے والے بستر، لڑکیوں کےکپڑے اور سامان بھی قبضہ میں لے لیا۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ دونوں فریقین میں صلح صفائی سے معاملہ حل کرانے کی کوششیں ناکام ہونے کے بعد پولیس نے ملزم کو گرفتار کیا۔ مدعی محمد انور کا کہنا ہےکہ ملزم کچھ عرصہ سے اس کی لڑکیوں کو تنگ کررہا تھا جس پر اس نے اس کی سرزنش کی تھی اور اس کے والدین کو اس کی شکایت لگائی تھی جس پر اس نے ہفتہ کی شب اس کی گھر میں سوئی ہوئی بیٹیوں پر تیزاب پھینک دیا۔
041117_kashmir_ms
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2004/11/041117_kashmir_ms
لائن آف کنٹرول ہی مستقل سرحد؟
انڈیا کے وزیر اعظم من موہن سنگھ نے کہا ہے کہ کشمیر کو مذہبی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جاسکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اگر لائن آف کنٹرول کو بارڈر بنائے جانے کی تجویز سامنے آئی تو اس پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نے گزشتہ ہفتے کشمیر میں فوجیں کم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کے اس اقدام سے خطے میں امن کی صورتِ حال بہتر ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ پاکستان پہلے ہی بھارت کے اس اقدام کا خیر مقدم کر چکا ہے۔ آپ اس کے متعلق کیا سوچتے ہیں؟ کیا آپ کی نظر میں لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد قرار دے دیا جانا چاہیے؟ کیا کشمیر میں بھارتی فوج کی کمی کشمیر کے حل کی طرف ایک قدم ہے؟ کیا اس سلسلے میں کانگریس حکومت کے اقدامات کافی ہیں؟ کیا علیحدگی پسند کشمیری گروہوں کو بھارتی حکومت کے ساتھ غیرمشروط طور پر مذاکرات کے لیے آمادہ ہوجانا چاہیے؟ فہد سعدی، دبئی، عرب امارات:ہمیں چاہیے کہ ہم حقیقت کو تسلیم کر لیں چاہے وہ کڑوی ہی کیوں نہ ہو۔ پاکستان اور بھارت کویہ فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کچھ بھی ہو جائے وہ جنگ نہیں کریں گے اور مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں گے، بشمول مسئلہ کشمیر کے۔ لائن آف کنٹرول کو بین الاقوامی سرحد مان لیں، ہمیشہ کے لیے نہ سہی کم از کم مذاکرات شروع کرنے کے لیے۔ خالد خان، سری نگر، کشمیر:یہ کشمیری لوگوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ انہیں موقع تو دیں۔ اور سچ یہ کہ ہم کشمیری لائن آف کنٹرول کو کبھی سرحد نہیں مان سکتے۔ ہم اپنی آزادی کے لیے خون کی قربانی دیتے رہیں گے۔ ندیم ملک، پیرس، فرانس:کشمیر کا کوئی حل نہیں نکل سکتا کیونکہ اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں ملکوں کی حکومتوں کا کیا بنےگا؟ میرا مطلب ہے ان کا کھانا پینا کہاں سے چلے گا؟ کریم احمد، راولاکوٹ، کشمیر:مسئلہ کشمیر کا واحد حل کشمیر کی مکمل خود مختاری ہے۔لگتا ہے انڈیا اور پاکستان صرف اپنا اپنا مسئلہ حل کر رہے ہیں کشمیری قوم کا نہیں۔ فراز قریشی، کراچی،پاکستان:کشمیر کی تقسیم مذہبی بنیاد پر ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ سن سینتالیس کی طرح یہ انڈیا اور پاکستان کے مسلمانوں کے ساتھ ایک اور دھوکھ ہوگا۔ احمد صدیقی،کراچی، پاکستان:پاکستان کو کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کہ علاوہ کسی دوسری تجویز پر بات نہیں کرنا چاہیے۔ اشتیاق بخاری، کیلیفورنیا، امریکہ:درست بات ضروری نہیں سب کے لیے قابلِ قبول ہو اور جو بات سب کو قبول ہو ضروری نہیں وہ ٹھیک بھی ہو۔ فیصل شیخ، خوشاب، پاکستان:ایسا کبھی نہیں ہو سکتا۔ جاوید، جاپان:اس سے پاکستان اور بھارت کے درمیان مسائل تو حل ہو جائیں گے لیکن امن کے لیے تو کشمیریوں کے ساتھ بات ہونا چاہیے۔ اگر کوئی حل ان کو ہی قبول نہیں تو امن کیسے ہوگا۔ اس قسم کا حل دونوں ملکوں کو مہنگا پڑسکتا ہے۔ ایم عرفان پاشا، لاہور، پاکستان:پاکستان اور بھارت کی حکومتیں اپنی من مانی کرنے کی بجائے کشمیر میں رہنے والوں کی رائے کو اہمیت دیں۔ من موہن کی تجویز کو مان لینے کی صورت میں کشمیری خاندان بٹ جائیں گے جس سے ان کی مشکلات میں اضافہ ہوگا۔ حسین سید، فیصل آباد، پاکستان:میرا خیال ہے اب یہ ممکن ہے کیونکہ انڈیا نے کشمیر میں بہت سے ہندؤوں کو آباد کر دیا۔ اب مقبوضہ کشمیر بھارت کے پاس رہے گا اور آزاد کشمیر پاکستان کے پاس۔ اگر وہاں پر ریفرنڈم ہوتا ہے توبھارت جیت جائےگا۔ عرفان عنایت، سمبریال، پاکستان:اگر کوئی آپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تو آپ کو کوئی حق نہیں کہ اسے زبردستی اپنے ساتھ رکھیں۔ اگر انڈیا واقعی کشمیر کے مسائل حل کرنا چاہتا ہے تو اسے استصوابِ رائے سے نہیں بھاگنا چاہیے۔ مقیت اقبال، بوچم، جرمنی:میرا خیال ہے انڈیا اس معاملے میں مخلص نہیں ہے اور من موہن صاحب کا بیان اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔ بلال، جہلم، پاکستان:مشرف صاحب امریکہ کا دورہ تو کر آئے لیکن لگتا ہے ساتھ کشمیر کے لیے بھی ایک فارمولا لے آئے ہیں۔ عبدالغفور، ٹورانٹو، کینیڈا:دونوں ملک یہ جان چکے ہیں کہ وہ ایک دوسرے پر مسئلہ کا فوجی حل نہیں تھوپ سکتے اس لیے ان کے پاس واحد حل یہی ہے کہ وہ مذاکرات کریں۔ پاکستان کئی مرتبہ قابلِ عمل تجاویز دے چکا ہے لیکن بھارت نے کبھی بھی مثبت جواب نہیں دیا۔ اب وقت آگیا ہے کہ اقوامِ متحدہ اس معاملے میں دلچسپی دکھائے۔ اسی طرح امریکہ وغیرہ کو بھی چاہیے کہ وہ ایک آزاد کشمیری ریاست کے لیے پاکستان اور بھارت پر دباؤ ڈالیں۔ محمد احمد مفتی، ٹورانٹو، کینیڈا:بھارتی وزیرِاعظم کے بیان کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ جو چیز پاکستان بزورِبازو نہیں لے سکتا وہ بھارت مذاکرات کے ذریعے دینے کو تیار نہیں ہے۔ اگر لائن آف کنٹرول کو ہی سرحد ماننا ہے تومیرے خیال میں بھارت کا احسان لینے کی بجائے پاکستانی کشمیر میں اقومِ متحدہ کی قرارداد کے مطابق استصوابِ رائے کروا دینا چاہیے۔ اس طرح اقوامِ متحدہ کی قرارداد بھی زندہ ہو جائے گی اور کشمیر کا آدھا مسئلہ حل ہوجائےگا۔ باقی آدھے کے لیے پاکستان شور مچاتا رہے اور مناسب وقت کا انتظار کرے۔ قیصر ایوب بھٹی، لاہور، پاکستان:میرا خیال ہے کشمیریوں کو یہ تجویز مان لینا چاہیے۔ آخر وہ اور کتنے سال بھارت کی دھمکیوں میں گذار سکتے ہیں۔ اگر کشمریوں کو آزاد ریاست چاہیے تو ہم بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کیوں خراب کر رہے ہیں اور اپنی افواج پر پیسہ خرچ کر رہے ہیں؟ ظفر محمود خان، مانٹریال، کینیڈا:بالکل صحیح حل ہے۔ لائن آف کنٹرول کو سرحد مان لینے سے دونوں طرف سے دہشت گردی بند ہوگی اور لوگ آزادانہ مل جل سکیں گے۔ ہمایوں قدیر، لاہور، پاکستان:مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کشمیر کی ترجمان وہ مذہبی جماعتیں ہیں جنہوں نے کشمیر تو کیا پاکستان کی آزادی کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ یہ لوگ پہلے پاکستان کو تو دل سے تسلیم کرلیں۔ آج ہم کشمیر کو جہاد کے ذریعے آزاد کرانا چاہتے ہیں، اس وقت یہ جذبہ جہاد کدھر تھاجب ہمارا آدھا ملک ہم سے جدا ہو رہا تھا؟ میرا خیال ہے لائن آف کنٹرول کو سرحد مان لینا چاہیے۔ اس طرح کشمیر کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا اور پاکستان اور بھارت کی سرحدوں پر بھی امن ہو گا۔ ویس ریڈی امریکہ:کشمیر کو ایک آزاد ملک ہونا چاہیے اور یہ پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے اچھا ثابت ہوگا۔ سمیرخان، کراچی، پاکستان:مشرف امریکہ کے ایجنٹ ہیں اور وہ ایک نہیں کئی لاکھ مسلمانوں کے خون کا سودا کر سکتے ہیں۔ آصف شیخ، ناگاساکی،جاپان:مسلہ کا واحد حل یہی ہے کہ کشمیریوں کو وہ کرنے دیا جائے جو وہ چاہتے ہیں۔ صوبیہ شکیل، نیویارک،امریکہ:جنگ کبھی بھی کسی مسئلے کا حل نہیں ہو سکتی۔ ہم گذشتہ نصف صدی سے کشمیر کے مسئلہ پر لڑ رہے ہیں اور اب یہ حال ہے کہ اس کی اہمیت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کشمیرصرف سیاستدانوں کے لیے ووٹ لینے کا ایک بہانہ بن چکا ہے۔ ظفر عباسی، اسلام آباد، پاکستان:کشمیر کا واحد حل اقوام ِمتحدہ کی قراردادوں پر عمل سے ممکن ہے۔ شہداد ابرو، ڈیرہ مراد جمالی،پاکستان:انڈیا صرف وقت برباد کر رہا۔ اس کا کہنا ہے کہ کشمیر بھارت کا اٹوٹ انگ ہے۔ ایسے میں وہ کشمیر کا مسُلہ کیونکر حل کر سکتا ہے؟ فرخ بٹ، ویلز، برطانیہ:ناممکن۔ میں اپنے آباواجداد کے خون کو اتنا بےقیمت نہیں سمجھتا کہ جس سے ہماری زمین کا ایک چپہ بھی آزاد نہ ہو سکے۔ناممکن۔ توقیر جیلانی، کوٹلی، کشمیر:اگرچہ یہ ایک مثبت قدم ہو سکتا ہے لیکن مسئلے کا اصل حل نہیں۔ پاکستان اور بھارت کو چاہیے کہ وہ اپنی اپنی فوجیں مکمل طور نکالیں،پھرمذاکرات ہو سکتے ہیں۔ ناصر چودھری، راولپنڈی، پاکستان:مشرقی تیمور کے عوام کی طرح کشمیریوں کو بھی موقع دیا جانا چاہیے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت ہے اس لیے دنیا کو اس کی آزادی سے کوئی غرض نہیں۔ صلاح الدین لنگاہ، ویسڈن، جرمنی:جی ہاں یہ حل ٹھیک ہے۔ دلشاد احمد، لاہور، پاکستان:پاکستان اور کشمیر کے ہزاروں لوگوں نے اس وجہ سے قربانیاں نہیں دی تھیں کہ لائن آف کنٹرول کو سرحد مان لیا جائے۔ اخترراجہ، سعودی عرب:کشمیری، جو کہ ساٹھ سال سے قربانیاں دے رہے ہیں، ان کو فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہیے۔ شاکراللہ، دیر، پاکستان:واحد حل یہی ہے کہ اپنے حقوق کے لیے لڑا جائے۔ وقت آئے گا جب بھارت کہےگا کہ اسے کشمیر نہیں چاہیے۔ مجاہدین ہی یہ مسئلہ حل کرا سکتے ہیں۔ مزمل مفتی،چنیوٹ، پاکستان:مشرف حکومت کے ہوتے پاکستان اپنی شرائط منوانے کی حالت میں نہیں اس لیے مذہب کے نام پر تقسیم ہو یا لائن آف کنٹرول کو سرحد ماننا، پاکستان کے لیےدونوں قابلِ قبول ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کبھی بھی کشمیر نہیں لے سکتا اس لیے شاید بہترین حل یہی ہے کہ جو حصہ بھارت کے پاس ہے ان کے پاس رہے اور جو حصہ پاکستان کے پاس ہے اس کے پاس رہے۔ جنید ملک، جرمنی:انڈین وزیرِاعظم نے ٹھیک کہا ہے کہ لائن آف کنٹرول تو سرحد ہے ہی نہیں اور پاکستان کا بھی یہی موقف ہے۔ انڈین سرحد تو کشمیر سے کافی دور ہے۔ کشمیر کا اصل متنازعہ علاقہ تو وہی ہے جہاں لوگوں کو اپنے پیاروں سے ملنے نہیں دیا جا رہا۔ خدارا کنٹرول لائن کے آر پار کی سسکیاں سنیں اور کشمیریوں کے خون کو اتنا سستا نہ کریں۔ ویسے کشمیر کیا، انڈیا کا کوئی بھی پڑوسی اس سے خوش نہیں۔ فہیم اعجاز، کینیڈا:جو احباب یہ کہہ رہے ہیں کہ ایک لاکھ کشمیریوں کا خون ضائع جائےگا، کیا وہ یہ چاہتے ہیں کہ کشمیریوں کا مذید خون بہے؟ بہتر یہی ہوگا کہ تینوں فریق لچک دکھائیں اور مسئلے کا حل نکالیں۔ اگر تینوں فریق اپنے اپنے موقف پر ڈٹے رہے تو مذید پچاس سال بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ صالح محمد، ویانا، آسٹریا:انڈیا کے وزیراعظم کا بیان انڈین پالیسی کا تسلسل ہے۔ پاکستان، انڈیا اور کشمیر تینوں کے لیے یہ مسئلہ حل ہونا ضروری ہے۔ تینوں فریقوں کو تھوڑی قربانی دینا پڑے گی تاکہ مذید بچے یتیم نہ ہوں۔ محمد ارشد خان، امریکہ:ہم حقِ خودارادیت چاہتے ہیں اور کچھ نہیں۔ ریاض احمد، ریاض، سعودی عرب:کشمیر کا فیصلہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دینے سے ہی ہوگا۔ اس میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہونا چاہیے۔ فراست زمان، سٹاک ہوم،سویڈن:میرا خیال نہیں کہ بھارت کبھی بھی ایک آزاد اور خود مختار کشمیر کو قبول کر سکتا ہے، چاہے پاکستان مان بھی جائے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سرحد کی دونوں طرف رہنے والے آپس میں ایک دوسرے سے بلاروک ٹوک مل سکیں۔ کشمیر کے دو حصوں کے درمیان کوئی سرحد نہیں ہونا چاہیے۔ تنویر کاظمی، واہ کینٹ، پاکستان:کشمیر کا کچھ بھی نہیں ہوگا۔جنرل مشرف اور ان کے حواری امریکہ کے ساتھ مل کر قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں کیونکہ انہیں اس وقت پاکستانیوں کو کسی کام پر لگانا ہے تاکہ امریکہ اور جنرل صاحب جو کھیل کھیل رہے ہیں لوگوں کی توجہ ادھر نہ جائے۔ آصف ججا،ٹورانٹو، کینیڈا:اگر واقعی کشمیر کا یہی حل ہے تو بھارت کشمیریوں کے ساتھ کھیل کیوں کر رہا ہے۔ درحقیقت بھارت بہت عیار ہے اور وہ صرف وقت گذار رہا ہے۔ اس کا کشمیر کو آزاد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ میکس بیکر، سینڈیاگو، امریکہ:یہ ممکن بنایا جا سکتا ہے اور شاید ایسا ہی ہونا چاہیے۔ میرے خیال میں اس طرح انڈیا اور پاکستان کے درمیان جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتا ہے۔ ابراش پاشا، تیماگرہ، پاکستان:میرے خیال میں مذہب کی بنیاد پر تقسیم سے انسانیت تقسیم ہو کر رہ جائےگی۔ کوئی بھی اس قسم کی تقسیم کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ آج برصغیر میں جو بھی تناؤ ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان اور انڈیامذہبی بنیادوں پر تقسیم کیے گئے تھے۔ عمر احسن، مظفرآباد، کشمیر:پاکستان اور انڈیا دونوں کو چاہیے کہ وہ کشمیر سے اپنی فوجیں واپس بلوائیں اور صرف اور صرف کشمیر کے عوام کو کشمیر کا فیصلہ کرنے دیں۔ سجاد عزیز، لاہور، پاکستان:تمام مسائل کشمیریوں کے لیے ہیں جو انڈیا کے ظلم اور بربریت کو برداشت کر رہے ہیں۔ یہ پاکستان اور بھارت کی لڑائی نہیں ہے۔ شاہد شان، امریکہ:جناب اگر کشمیری لوگ اس حل پر خوش ہیں، یعنی اگر وہ ایسی صورت میں اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ کشمیری نہ تو پاکستان آنا چاہتے ہیں اور نہ انڈیا کے ساتھ خوش ہیں۔ہونا وہی چاہیے جو کشمیریوں کو پسند ہے۔ حفیظ عثمانی، سعودی عرب:نہیں، یہ حل کشمیریوں کو قبول نہیں اور پھر اتنا خون کس لیے بہا۔ شاہد اقبال، دبئی، عرب امارات:بالکل نہیں۔ اگر لائن آف کنٹرول کو ہی مستقل سرحد بننا تھا تو گذشتہ ستاون سال سے انڈیا، پاکستان کیا کر رہے ہیں۔یہ کوئی حل نہیں ہے۔ کشمیر کے مسئلہ کے حل کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاکستان، بھارت اور کشمیریوں، تینوں کے لیے قابلِ قبول ہو۔ سید مالکِ اشترجعفری، پالمڈیل، امریکہ:اگر لائن آف کنٹرول کو سرحد مان لیں تو کیا ایک لاکھ جانوں کی قربانی دینے والے پاگل تھے؟ ویسے تو مشرف صاحب اعتدال پسند آدمی ہیں، انہیں کشمیر کے معاملے میں کیا ہو گیا ہے۔ آگرہ میں وہ اتنے کڑوے تھے اور اب اتنے میٹھے۔ ظفرمحمود وانی، راولپنڈی، پاکستان:کشمیر کا مسئلہ صرف کشمیریوں کی مرضی سے ہی حل ہو سکتا ہے۔ پاکستان نے توسارے امکانات سامنے رکھ دیے ہیں۔ اگر برِصغیرمیں پائیدار امن چاہیے تو انڈیا کو مسلمان کشمیر سے نکلنا پڑے گا ورنہ یہ ساری کوششیں فضول ہیں۔ علی عمران شاہین، لاہور، پاکستان:یہ بھارت کی ایک چال ہے کشمیری مجاہدین سے اپنی جان بچانے کی۔ بھارت کشمیری میں فوجوں میں جو نام نہاد کمی بھی کر رہا ہے وہ محض دنیا کو دکھانے اور پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لیے ہے۔ آٹھ لاکھ فوج میں سے تیس چالیس ہزار نکال بھی لی جائے تواس سے کیا فرق پڑنے جا رہا ہے؟ مسعود، امریکہ:اس طرح کشمیر تقسیم ہو جائے گا اور میرا خیال ہے کشمیری اس حل پر خوش نہیں ہوں گے۔ میرے خیال میں بہترین حل یہی ہو سکتا ہے کہ کشمیر کودونوں ملکوں کے درمیان ایک آزاد ریاست کے طور پر قبول کیا جائے۔ کشمیریوں کو پاکستان اور بھارت آنے جانے کی پوری آزادی ہو۔ اطہر وانی، پاکستان:یہ حل کشمیریوں کی خواہشات کے منافی ہے۔ کشمیری لوگ صرف سولہ نہیں بلکہ گذشتہ پچاس سال سے جدو جہد کر رہے ہیں۔ میں پچھلے ماہ ایک وفد کے ساتھ کشمیر گیا اور وہاں لوگوں سے ملا۔ وہ لوگ انڈین فوج سے شدید نفرت کرتے ہیں اور آزادی چاہتے ہیں۔ فوج سے عورتوں کی عزت کو خاص طور پر خطرہ ہے۔ بھارت کو احساس ہونا چاہیے کہ کشمیری بھی آخر انسان ہیں اور اسے ان کے بنیادی انسانی حقوق غصب کرنے کا کوئی حق نہیں۔ شوکت حسین، شارجہ، عرب امارات:الحاقِ پاکستان بھارت کو قبول نہیں، الحاقِ بھارت پاکستان کو قبول نہیں اور تقسیم کشمیر کشمیریوں کومنظورنہیں اس لیے کشمیر کا واحد حل آزادی ہے۔ کوئی مشرف، بش یا من موہن کشمیریوں کی تقدیر نہیں بدل سکتا۔ کشمیر آزاد ہو کر رہے گا، انشاءاللہ۔ راجہ امتیاز، ریڈنگ، برطانیہ:ہونا یہی تھا ایک دن۔ اتنا عرصہ لڑنے جھگڑنے کا کیا فائدہ؟ عنایت، دبئی، عرب امارات:یہ کشمیری عوام سے غداری کے مترادف ہے۔ بھارتی فوج کی واپسی ایک دھوکہ ہے۔ مشرف امریکی پٹھو کا کردار ادا کرنا بند کریں۔ خرم حمید بٹ، لاہور، پاکستان:کشمیر کسی کے باپ کی جاگیر نہیں، انڈیا کو کشمیر سے نکلنا ہی پڑے گا۔ عامر ندیم، پاکستان:انڈیا کی اصل ذہنیت یہی ہے کہ کشمیر کا کوئی حل نہ نکلے۔ پاکستان کے رہنما بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں کہ انڈیا مسئلے کو حل کرنا چاہتا ہے۔
060303_sherpao_khi_zs
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/03/060303_sherpao_khi_zs
کراچی حملہ: ایف بی آئی کی تحقیقات
پاکستان کے وزیرِ داخلہ آفتاب احمد خان شیرپاؤ کا کہنا ہے کہ جمعرات کو کراچی میں امریکی قونصلیٹ کے نزدیک ہونے والے بم دھماکے میں ملوث خودکش حملہ آور کی تصویر حاصل کر لی گئی ہے اور اس کے بارے میں خیال یہی ہے کہ وہ پاکستانی تھا۔ادھر امریکی ادارے ایف بی آئی کی ایک ٹیم نے کراچی بم دھماکے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں۔
کراچی میں امریکی سفارتخانے کے نزدیک ہونے والے حملے میں ایک امریکی سفارتکار سمیت چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ملزمان کی گرفتاری اور نشاندی پر حکومت نے پچاس لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔ ایف بی آئی کی تحقیقاتی ٹیم نے جمعرات کی شب جائے وقوع کا معائنہ کیا۔اس سے قبل کراچی پولیس نے ایف بی آئی کی تفتیش کی تصدیق سے انکار کیا تھا۔ تاہم سندھ حکومت کے ترجمان صلاح الدین حیدر نے بی بی سی کو بتایا کہ امریکہ کے سیکیورٹی عملدار تفتیش کر رہے ہیں۔ دوسری جانب آرٹلری تھانے پر نامعلوم ملزمان کے خلاف دہشتگردی اور دھماکہ خیز مواد ایکٹ کے تحت حملے کا مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ سندھ کے وزیر داخلہ نے اعلان کیا ہے دھماکے میں ملوث ملزمان کی نشاندہی کرنے والے اور ٹھوس ثبوت پیش کرنے والے شہری کو پچاس لاکھ روپے انعام دیا جائیگا اور اس کا نام بھی راز میں رکھا جائیگا۔ دریں اثناء سندھ کے وزیر اعلیٰ ارباب غلام رحیم نے امریکی قونصل جنرل مس میری کی رہائشگاہ پر جاکر انہیں مکمل حمایت اور تمام ممکنہ حفاظتی اقدام اٹھانے کی یقین دہانی کروائی۔ کراچی کا یہ علاقہ ہمیشہ پولیس اور نیم فوجی اہلکاروں کی ایک بھاری تعداد کے حصار میں رہتا ہے۔ اس کے باوجود اس علاقے میں خودکش بم حملے سے یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ خودکش حملہ آور کس طرح اس علاقے میں اپنی گاڑی پہلے کھڑی کر کے گیا اور اس کے بعد تقریبا آدھے گھنٹے بعد واپس آ کر اس نے اپنی گاڑی کو امریکی سفارتکار کی گاڑی سے ٹکرایا۔ سیکیورٹی کی اس ناکامی کے پیچھے ایک دفعہ پھر پاکستانی حکومت خصوصاً صدر جنرل پرویز مشرف کے اس دعوے کی نفی ہوئی ہے جس میں انہوں نے گذشتہ چند ماہ میں بار بار اس بات کو دہرایا تھا کہ حکومت نے دہشتگردوں کا نیٹ ورک توڑ دیا ہے۔تاہم کراچی کے اس انتہائی سیکیورٹی والے علاقے میں خودکش حملہ کر کے اس بات کو ثابت کر دیا گیا ہے کہ دہشت گرد کہیں اور کبھی بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ابھی تک اس حملے میں اس سے زیادہ پیش رفت نہیں ہوئی ہے سوائے اس کے کہ انہیں کلوز سرکٹ ٹی وی سے حملہ آور کے حلیے کا پتہ چلا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ابھی اس بارے میں اس سے زیادہ کچھ کہنے کو نہیں ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔ گزشتہ تین سالوں میں کراچی میں امریکی قونصلیٹ پر یہ تیسرا حملہ کیا گیا ہے۔ دو حملوں میں جانی نقصان ہو ا جبکہ ایک حملے میں جانی نقصان نہیں ہوا۔ چودہ جون سن دو ہزار دو میں امریکی سیکرٹری دفاع ڈونلڈ رمزفیلڈ کے دورہ پاکستان کے ایک روز بعد امریکی قونصلیٹ کے باہر ایک کار میں بم دھماکہ ہوا تھا جس میں گیارہ افراد ہلاک اور تیس سے زیادہ زخمی ہوگئے تھے۔ اس حملے میں زخمی ہونے والوں میں قونصلیٹ کے پانچ پاکستانی ملازم اور ایک میرین گارڈ بھی شامل تھا۔اس بم دھماکے کے بعد امریکہ نے کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں اپنے قونصلیٹ بند کردیئے تھے۔ مارچ سن دو ہزار چار میں قونصلیٹ کے باہر ایک گاڑی میں نصب بم کو ناکارہ بنایا گیا تھا۔ وین کی ایک ٹینکی میں کیمیکل سے بھرا ہوا مواد رکھا گیا تھا جس میں طاقتور ڈیٹونیٹر لگائے گئے تھے۔ کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جارج بش کے دورہ پاکستان سے ایک روز قبل ہونے والے اس حملے میں امریکہ اور پاکستانی حکومت کو پیغام دیا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ ابھی ایک طویل عرصے تک جاری رہے گی۔ توقع ہے کہ امریکی صدر جارج بش اور پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کے درمیان ہونےوالی بات چیت کا محور بھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مزید موثر بنانے کے لیئے ٹھوس اقدامات کرنے پر رہے گا۔
031219_women_islam_yourviews
https://www.bbc.com/urdu/interactivity/debate/story/2003/12/031219_women_islam_yourviews
حجاب، مساجد اور حقوق نسواں
اس ہفتے اسلام اور خواتین سے متعلق تین اہم واقعات سرخیوں میں رہے۔ پاکستان میں سپریم کورٹ نے ایک تاریخ ساز فیصلے میں کہا کہ کوئی عاقل و بالغ مسلمان عورت اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اہل ہے اور اس کو اپنےخاندان کے کسی ولی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔
ادھر ہندوستان کی جنوبی ریاست تمِل ناڈو میں کچھ عورتوں نے خواتین کے لئے ایک خصوصی مسجد کی تعمیر کا اعلان کیا۔اور یورپ کے اخباروں میں فرانسیسی صدر ژاک شیراک کا یہ بیان سرخیوں میں رہا کہ وہ فرانس میں حجاب پہننے کی ممانعت کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔ ان خبروں کی تفصیلات حسب ذیل ہیں: پاکستان میں سپریم کورٹ کے فیصلے کا تعلق اسلام سے نہیں، پاکستانی معاشرے سے ہے۔ تامل ناڈو میں عورتوں کا خیال تھا کہ چونکہ مرد عورتوں کو ایک خلل سمجھتے ہیں، لہذا خواتین کے لئے علیحدہ مسجد کی ضرورت ہے۔ جبکہ فرانس کے عوام حجاب اور دیگر مذہبی علامات کو اپنی معاشرتی آزادی پر ایک ضرب تصور کرتے ہیں۔ ان تینوں واقعات پر آپ کا ردعمل کیا ہے؟ اسلام، پاکستان اور مغرب میں مسلم خواتین کی زندگی کے حقائق کے بارے میں آپ کیا سمجھتے ہیں؟ یہ فورم اب بند ہو چکا ہے، قارئین کی آراء نیچے درج ہیں اطہر رسول، کینیڈا: یہ دور اسلام کے نشاۃ ثانیہ کا ہے۔ مسلمانوں کی زندگی کے ہر شعبے میں مشکلات سے گزرنا پڑے گا۔ اس لئے ہمیں عقلمندی سے کام کرنا چاہئے اور وقت کا انتظار کرنا چاہئے۔ میرا یقین ہے کہ اسلام فرد کی آزادی پر ضرب نہیں لگاتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کو مساوی سوچ و فکر کے لئے دماغ دیا ہے۔ قرآن جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتا ہے۔ میرے خیال میں بالغ لڑکیوں کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ برکات شاہ ککر، کوئٹہ برکات شاہ ککر، کوئٹہ: یہ تینوں فیصلے کافی دلچسپ ہیں۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسلم عورتیں مسجد جایا کرتی تھیں، بلکہ حضر عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے دور حکومت میں بھی عورتیں مسجد جاتی تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ مسلم معاشرے کو اس وقت تک بہتر نہیں بنایا جاسکتا جب تک عورتوں کو بھی بنیادی حقوقِ انسانی دستیاب ہوں۔ میرا یقین ہے کہ اسلام فرد کی آزادی پر ضرب نہیں لگاتا ہے۔ اللہ تعالی نے ہر انسان کو مساوی سوچ و فکر کے لئے دماغ دیا ہے۔ قرآن جنس کی بنیاد پر تفریق نہیں کرتا ہے۔ میرے خیال میں بالغ لڑکیوں کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کا حق ہونا چاہئے۔ نعیم عوان، راولپنڈی: میں حجاب پر پابندی کی سخت مخالفت کرتا ہوں۔ عورتوں کو اپنی زندگی جینے کا حق ہونا چاہئے، جیسے بھی انہیں پسند ہو۔ واجد نعیم، مریدکے، پاکستان: یہ تینوں فیصلے اسلام کی مخالفت کرتے ہیں۔ حجاب مسلم خواتین کے لئے اہم ضروریات میں شامل ہے، جبکہ ولی کی اجازت کے بغیر شادی کی وجہ سے مسلم معاشرے کو خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ آج کےدور میں پسند کی شادی بہت بری چیز ہے۔ عبدالسلام، ٹوکیو، جاپان: میرے خیال میں عدالت کا یہ فیصلہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ نکاح کے وقت لڑکی سے پوچھنا صحیح ہے۔ لیکن اگر عورت کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا گیا تو اسلامی اور مغربی معاشرے میں فرق کیا رہ جائے گا؟ علی ارشد، واہ کینٹ، پاکستان: شادی کے لئے عورتوں کی اجازت ضروری ہے، لیکن اسلامی قوانین میں ولی کے کردار کو بھی اہمیت دی گئی ہے۔ ذوالفقار علی زلفی، جھنگ: عورتوں کو والدین کی رضا کے بغیر شادی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اسلام نے عورتوں کو بہت ہی مقام دیا ہے۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اچھا نہیں ہے۔ ولی کی اجازت کے بغیر شادی نہیں ہونی چاہئے۔ کامران منظور، جہلم: جہاں تک بات ہے فرانس میں حجاب پر پابندی کی، تو یہ بات اس ملک کے معاشرے پر منحصر ہے کیونکہ دوسرے ممالک میں مقیم ہیں تو ہمیں وہاں کے قانون کے ساتھ چلنا چاہئے، وہاں کے رواج کو اپنانا چائے۔ اور مسجد میں عورتوں کو نماز پڑھنے سے منع کیا گیا ہے کیونکہ مردوں کے حقوق مجروح ہوتے ہیں۔ اور اسلام میں عورتوں کو نماز گھر پر پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ سعدیہ امین، پاکستان: میرے خیال میں فرانس میں حجاب پر پابندی صحیح نہیں نواز حسین، پاکستان: میرے خیال میں سپریم کورٹ کا فیصلہ تجربات پر مبنی نہیں ہے۔ یہ قانون اسلامی شریعہ کے خلاف ہے، اور پاکستانی آئین کی تردید کرتا ہے۔ پاکستان کے چیف جسٹِس کو ان کے عہدے سے ہٹا دینا چاہئے۔ حکومتِ پاکستان ہم لوگوں پر ایک غیرملکی ایجنڈا تھوپ رہی ہے۔ تنویر قریشی، سعودی عرب: لڑکیوں کی شادی والدین کی اجازت کے بغیر بھی ہوسکتی ہے۔ ثناء اللہ، کسور، پاکستان: اس بارے میں علمائے کرام بہتر سوچ بچار کرسکتے ہیں۔ ولی کے بجائے لڑکی کو شادی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس سے معاشرے میں بہت سی خرابنیاں پیدا ہوتی ہیں اور معاشرتی نظام تباہ ہوجاتا ہے۔ خواتین کو حجاب کرنا چاہئے۔ سید طارق مسعود کاظمی، میانوالی، پاکستان: عورت جس کو آزادی سمجھ رہی ہے یہ اس کی آزادی نہیں، اس کی موت ہے۔ اسلام میں عورت کو بہت بڑا مقام دیا گیا ہے۔ وہ ماں، بہن، بیٹی، بہو، جو بھی ہو گھر میں ہی اس کی عافیت ہے۔ بلاضرورت گھر کے باہار جانے سے ہی تمام مسائل کی ابتدا ہوتی ہے۔ ولی کی اجازت دراصل ایک استحصال تھا، جس کے ساتھ ماں باپ اپنی مرضی سے اسلام کی آڑ میں بیٹی کا سودہ کرسکتے تھے، اچھا سا مالدار خریدار دیکھ کر۔ فرزانہ بتول، اسلام آباد فرزانہ بتول، اسلام آباد: ولی کی اجازت دراصل ایک استحصال تھا، جس کے ساتھ ماں باپ اپنی مرضی سے اسلام کی آڑ میں بیٹی کا سودہ کرسکتے تھے، اچھا سا مالدار خریدار دیکھ کر۔ اب اس سے جان چھوٹ جائے گی، کسی حد تک۔ لیکن یہ معاشرہ بڑا ظالم ہے، استحصال جلدی ختم نہیں ہوگا۔ فدا ایم زاہد، کراچی: میں عدالت کے فیصلے کی تعریف کرتا ہوں۔ اسلام میں یہ بات پسند کی گئی ہے کہ عورتیں گھر پر عبادت کریں، نہ کہ مسجد میں۔ لیکن مسجد میں نماز پڑھنے پر پابندی نہیں ہے۔ جہاں تک حجاب کا تعلق ہے، یہ پردہ نہیں ہے۔ قیصر، لاہور: پاکستان میں عدالت کی فیصلہ صحیح نہیں ہے۔ عدالتوں اور ججوں پر ہماری فوج حکمرانی کرتی ہے۔ جہاں تک فرانس میں حجاب کا مسئلہ ہے، یہ اس لئے ہے کیونکہ فرانس کے صدر ایک عیسائی ہیں جس کی وجہ سے وہ مسلمانوں کی حمایت نہیں کرسکتے۔ اعجاز عوان، کراچی: فرانس کا یہ رویہ مسلمانو کے خلاف تو ہے ہی، ساتھ ساتھ حقوق انسانی کی خلاف ورزی بھی ہے۔ عورتوں کو گھر میں ہی رہنے دیں، ان کے لئے مسجد کی ضرورت نہیں ہے۔ زاہد حسین، امریکہ: حجاب عورتوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ یہ مسلم عورت کا حق ہے۔ صدر شیراک نے غلط فیصلہ کیا ہے۔ محمد خالد، کراچی: میری نظر میں یہ فیصلہ نبی کی تعلیمات کے خلاف ہے اور یہ بات آپ حدیث کی کتابوں میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس فیصلے سے لڑکیوں کو اپنے گھروں سے فرار ہونے میں آسانی ہوجائے گی۔ اس وجہ سے یہ فیصلہ ملک کی اخلاقی اقدار کو درہم برہم کردے گا۔ احمد فراز، ملتان: عورتوں کو ولی کی اجازت کے بغیر شادی کرنے کا فیصلہ ایک اچھا اقدام ہے۔ اس فیصلے سے عورتوں کو کچھ قانونی تحفظ مل گیا ہے کیونکہ اس فیصلے سے پہلے بھی عورت اور مرد عدالت میں شادی کرنے کی اجازت تھی۔ لیکن اس فیصلے سے قبائلی علاقہ جات کے خواتین کو کچھ سکون حاصل ہوا ہے۔ محمد جبار، شاموزئی، پاکستان: میرے خیال میں ہر شخص کو مذہب کی آزادی ہونی چاہئے۔ نعمان احمد، راولپنڈی کینٹ: اسلام نے عورتوں کو پورے حقوق دے رکھے ہیں لیکن کچھ مولوی حضرات ان حقوق کے معاملے میں رکاوٹ پیش کرتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔ قدامت پرست مولوی حضرات نے قبائلی اور دیگر رسم و رواج کو اسلام کا لبادہ پہنا دیا ہے۔ سلیم اقبال، ٹورانٹو: فرانس مضحکہ خیز اقدامات کررہا ہے۔ یہ لوگ حقوق انسانی کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف خود حجاب کے بارے میں کیا فیصلہ کررہے ہیں؟ سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے۔ یہ اصل میں وفاقی شرعی عدالت کے انیس سو اسی کے فیصلے کی توثیق ہے۔ محمد وقاص، میلبورن محمد وقاص، میلبورن: سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے۔ یہ اصل میں وفاقی شرعی عدالت کے انیس سو اسی کے فیصلے کی توثیق ہے۔ پردہ خواتین پر لازم ہے اور اس پر پابندی مغرب کا تعصب بھرا رویہ ہے۔ البتہ عورتوں کی مسجد کا شوشہ ایک فتنہ ہے اور یہ عورت کے نام نہاد آزادی کی حمایت کرنیوالوں کا حربہ معلوم ہوتا ہے۔ الطاف احمد: یہ مثبت پیش رفت ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہت کمیاں ہیں۔ امید ہے کہ عدالتیں اسی طرح کے فیصلے کریں گی۔ کلیم اللہ، اسلام آباد: اسلام نے عورت کو وقار اور عزت دیا ہے لیکن یہ شرط بھی رکھا ہے کہ پہلی نکاح سرپرست کے بغیر نہیں ہوسکتی۔ اگر عورت بیوہ ہے یا طلاق یافتہ ہے تو بغیر سرپرست کے نکاح کرسکتی ہے۔ غیاث الدین، نیویارک: میں عورتوں کے حجاب پہننے کے حق میں ہوں جیسا کہ مذہبی ضروریات میں شامل ہے۔ یہ فیشن نہیں ہے۔ ہارون مغل، راولپنڈی: اسلام نے کل بھی عورت کو عزت دی تھی جب عورت کو وقتِ پیدائش دفنا دیا جاتا تھا اور جب عورت کو اس کے خاوند کے ساتھ زندہ جلا دیا جاتا تھا۔ اور آـ بھی جو حقوق ہیں ان کی دنیا میں مثال نہیں ہے۔ عورت کے جسم کے ساتھ جو کچھ کیا جاتا ہے اس کا اندازہ نیٹ پر کسی سیکس سائٹ سے لگایا جاسکتا ہے۔ خالد، لاہور: ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا۔ یہ حدیث سے ثابت ہے۔ نفیس خان، کینیڈا: جو لوگ اس فیصلے کے خلاف ہیں یہ وہ لوگ جو ویسے تو کوئی اسلامی کام کرتے نہیں ہیں، مگر اس طرح کے موقعوں پر سامنے آکر ہمیشہ مخالفت کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ فیصلہ بالکل درست ہے اور عوام کو اسکا احترام کرنا چاہئے، خاص پور پر پولیس کو۔ تلاوت بخاری، اسلام آباد: پاکستان میں تو دینِ ملا رائج ہے۔ ملاؤں نے مسجد کے نام پر بڑے بڑے کمرشیل پلازہ بنا لیے ہیں جن کے خوبصورت مناروں کے ساتھ بھیانک لاؤڈ اسپیکروں لگے ہوئے ہیں جو دن رات لوگوں کی نیند حرام کرتے ہیں۔ عارف ریاض، کراچی: جہاں تک عورتوں کی مسجد کی بات ہے تو اس کی اسلام میں ممانعت نہیں ہے، البتہ اس سے کوئی شر نہ پھیلے۔ جہاں تک بات پردے کی ہے تو وہ عورت کا شوہر یا والد کی ذمہ داری ہے۔ ذ کی، پاکستان: ولی کی اجازت کے بغیر عورت کو غیرمحفوظ کردیا گیا ہے۔ فرانس میں حجاب کے متعلق جو کچھ ہوا وہ بہت برا ہوا ہےکیونکہ ایک جمہوری ملک میں ہر مذہب کو آزادی ملنی چاہئے۔ سہیل، پاکستان: میں پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کا رہنے والا ہوں۔ میرے خیال میں فرانس میں یہ مسلمانوں کے خلاف ہورہا ہے۔ فرانسیسیوں کو چاہئے کہ مسلمانوں کے حقوق کا دفاع کریں۔ اقبال کے بعد عالم اسلام میں کوئی ایسا مفکر پیدا نہیں ہوا جو اجتہاد کی ضرورت کو سمجھ سکے۔ ہم مسلمان اجتہاد کی کمی کی وجہ سے ہی ناکام ہورہے ہیں۔ محمد عامر خان، کراچی محمد عامر خان، کراچی: علامہ اقبال کے بعد عالم اسلام میں کوئی ایسا مفکر پیدا نہیں ہوا جو اجتہاد کی ضرورت کو سمجھ سکے۔ ہم مسلمان اجتہاد کی کمی کی وجہ سے ہی ناکام ہورہے ہیں۔ اگر کوئی عورت اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہتی ہے تو اس میں کوئی حرض نہیں۔ بھارت میں عورتوں کی مسجد ایک نئی سوچ ہے اس کے بارے میں علماء کو خواتین کے ساتھ بیٹھ کر کوئی فیصلہ کرنا چاہئے۔ صفیہ، کوئٹہ: لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اس کے جو ماں باپ ہیں اس کو بچپن سے پال رہے ہیں۔ دلشاد کمنگر، پاکستان: میرے خیال میں عورتوں کو گھر میں رہنا چاہئے۔ نعیم اللہ خان، پشاور: یہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی ہے۔ فیصل رضا، لاہور: اسلام خواتین کو مسجد میں عبادت کی اجازت دیتا ہے۔ بلکہ خواتین کو نماز جمدہ کے لئے مساجد میں جانے کا اور خطبۂ جمعہ سننے کا حکم ہے۔ اسلام میں عورت اور مرد دونوں کے لئے مسجد میں جانے اور عبادت کرنے کی برابر آزادی ہے۔ صرف عورتوں کے لئے الگ جگہ کا ہونا ضروری ہے۔ نماز عید کے لئے عورتوں کو حکم ہے کہ ہر حالت میں عیدگاہ جائیں۔ چوہدری خالد، دبئی: ولی کی اجازت کے بغیر شادی کی اجازت دے کر عورت کو غیر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ خالد اقبال، سوات: قرآن ہر کسی کو اپنی مرضی سے شادی کرنےکی اجازت دیتا ہے اس لئے سپریم کورٹ کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ محمد یومان، میرپور خاص: یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن لڑکی کو اپنے گھر والوں کے فیصلے کا بھی احترام کرنا چاہئے۔ عمر مختار، لاہور: سپریم کورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے اور بالکل صحیح ہے۔ اسلام میں خواتین کو علیحدہ مسجد بنانے کی اجازت نہیں ہے۔ ویسے بھی اس سارے مسئلے کا تعلق معاشرتی روایات سے ہے نہ کہ اسلام سے۔ دراصل تعلیم کی کمی کی وجہ سے اس قسم کے تصورات اسلام سے منسوب کر دیئے جاتے ہیں۔ احمد نواز نقوی، کراچی: اسلام میں سب برابر ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام اجازت نہیں دیتا وہ مولوی حضرات کی زبان بولتے ہیں۔ رابعہ نذیر، ناروے: بڑے افسوس کی بات ہے کہ حجاب کی باتیں کرنے ولے لوگ ہی عورت کو سرِعام بےحجاب کرتے ہیں۔۔۔ فضل الرحمٰن، گدامیس، لیبیا: سپریم کورٹ کا فیصلہ بلاشبہ قابل تحسین ہے اور پاکستان میں ابھی خواتین کے حقوق کے بارے میں کافی کام کرنے کی ضرورت ہے جبکہ مغرب میں عورت کی آزادی کو جو تصور ہے وہ ہمارے لئے قابل قبول نہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کےحقوق اور فرائض کا منبع قرآن اور سنت ہے۔ میرے خیال میں اسلام کا کہنا یہ ہے کہ خواتین کو گھر پر عبادت کرنی چاہئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خواتین کے لئے علیحدہ مسجد تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سعید اقبال، نوزی لینڈ سعید اقبال، نوزی لینڈ: میرے خیال میں اسلام کا کہنا یہ ہے کہ خواتین کو گھر پر عبادت کرنی چاہئے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ خواتین کے لئے علیحدہ مسجد تعمیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ شادی کے معاملے میں لڑکی کے ولی کی رضامندی بہت ضروری ہے کیونکہ شادی دو افراد کے درمیان نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان رشتے کا نام ہے۔ لیکن پردہ کرنے کے بارے میں خواتین کو اپنی مرضی سے فیصلہ کرنے کا حق ہے۔ اگر عورت پردہ کرنا چاہتی ہے تو کسی کو اس میں رکاوٹ نہیں ڈالنی چاہئے۔ ظفر خان کریم، پشاور: اسلام خواتین کو اس بات کی پوری اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ اپنی مرضی سے کر سکتی ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر وہ اپنے والدین کی خوشنودی بھی حاصل کر لے۔ خواتین کو ایسی راہ اختیار کرنی چاہئے جو اسلامی تعلیمات سے متصادم نہ ہو۔ خواتین کو اپنے والدین کی مرضی کو بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کیونکہ آخر وہ والدین ہیں۔ کامران خان مہسود، اسلام آباد: میرے خیال میں اس ضمن میں اسلامی احکامات بالکل درست ہیں کیونکہ اسلام نے خواتین کو جائز حقوق دیئے ہیں جبکہ ہماری نظریں یورپ میں خواتین کی نام نہاد آزادی پر ہیں۔ عمر دراز راجپوت، پاکستان: خواتین کو تمام حقوق حاصل ہونے چاہئیں لیکن صرف ایک حد تک۔ مغرب کی طرح بالکل کھلی چھٹی نہیں ہونی چاہئے۔ سپریم کورٹ کو اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ اسلام سرپرست کی اجازت کے بغیر شادی کی جازت نہیں دیتا۔ مرزا عاصم محمود، گجرات: مغرب اپنا گند اب مشرق کے سر تھوپنا چاہتا ہے۔ جن حماقتوں سے مغرب کا نظام بگڑ چکا ہے ان کا پرچار وہ مشرق میں کرنے لگا ہے۔ حجاب اور خاندان اسلام کا امتیاز ہیں اور ان کا تحفظ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ یاسرممتاز، رینالہ خورد، پاکستان: یہ سب قرآن اور اسلام کے خلاف ہے۔ قرآن ولی کے بغیر شادی کو حرام کہتا ہے۔ عمران خالد، فیصل آباد، پاکستان: کسی عورت کو اس کے خاندان کی مرضی کے خلاف حق حاصل نہیں ہونا چاہئے۔ آپ مغرب میں بے آرامی اور انتشار دیکھ لیں جو اس کی سب سے بڑی مثال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مغربی عورت اپنے تمام فیصلوں میں مکمل طور پر آزاد ہے جس میں ہم جنس پرستی جیسے انتہا پسندانہ فیصلے بھی شامل ہیں لیکن اسے ساری زندگی تحفظ نہیں حاصل ہو پاتا۔ قیوم خان، کراچی، پاکستان: ہمیں بھی عورتوں کو انسان سمجھنا چاہئے اور ان کے حقوق پامال نہیں کرنے چاہئیں۔ سعید احمد چشتی، پاک پتن، پاکستان: اسلام تمام عورتوں کو اپنی مرضی سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے اس لئے سپریم کورٹ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔ ان تینوں مسئلوں نے بے پردگی سے جنم لیا ہے کیوں کہ پردے میں حیا ہے اور حیا ہی عورت کا زیور ہے۔ اس لئے عورت پردے میں ہو تو کائنات میں رنگ اور خوبصورتی ہے۔ عزیزاللہ، پشاور، پاکستان عزیزاللہ، پشاور، پاکستان: میرا خیال ہے کہ تینوں مسئلے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ پھر ان تینوں کا دارومدار پردے پر ہے۔ ان تینوں مسئلوں نے بے پردگی سے جنم لیا ہے کیوں کہ پردے میں حیا ہے اور حیا ہی عورت کا زیور ہے۔ اس لئے عورت پردے میں ہو تو کائنات میں رنگ اور خوبصورتی ہے۔ احمد فراز، ملتان، پاکستان: یہ بہت اچھا ہے لیکن عورتوں کو اسلام مسجد بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ حیدر رند، ٹھٹھہ، پاکستان: عورتوں کو غیبت کرنے کےلئے ایک اور پلیٹ فارم چاہئے۔ مسجدوں کا تقدس پامال نہیںں ہونا چاہئے کیونکہ عورتیں سارا مہینہ عبادت نہیں کر سکتیں اور نہ ہی ان کے ناپاک ہونے کا کوئی وقت ہے اس لئے بھی اجتناب ضروری ہے۔ اختر بھٹی، ریاض، سعودی عرب: پیغمبر اسلام کے مطابق ولی کے بغیر شادی نہیں ہو سکتی اس لئے ہم مغرب کی تقلید کر رہے ہیں اور اسلام کے تقاضوں کو پورا نہیں کر رہے۔
060825_waziristan_inter_tribe
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/08/060825_waziristan_inter_tribe
وزیرستان میں قبائیل میں لڑائی
پاکستان کے قبائیلی علاقہ وزیرستان میں پہاڑی ملکیت پر شمالی وزیرستان کے وزیرقبائل اور جنوبی وزیرستان کے محسود قبا ئیل میں شدید لڑائی چھڑ گئی ہے۔ جمعہ کے شام تک لڑائی میں پانچ افراد ہلاک جبکہ سات افراد شدید زخمی ہوچکے تھے۔
شمالی وزیرستان کی پولٹیکل انتظامیہ کے مطابق افغان باڈرکے قریب شوال کے علاقےمیں جانی خیل وزیراورملک شاھی محسود قبائل کے درمیان اس وقت شدید لڑائی شروع ہوگئی ھیں جب مصالحتی جرگہ ناکام ہوگیا۔ جرگے کے ناکامی کے بعد دونوں قبائل نے ایک دوسرے پر بھاری ہتھیارسے حملےشروع کردئےہیں جس کے نتیجہ اب تک جانی خیل قبائل کےچارافراد ہلاک جبکہ چھ افراد شدید زخمی ہوگئے ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں ایک نوعمرلڑکی بھی شامل ہے دوسری جانب ملک شاھی محسود قبائل کے سے تعلق رکھنے والا ایک شخصو شاہ پل ہلاک جبکہ سات افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ شمالی وزیرستان سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق میرانشاہ میرعلی بکا خیل سےمسلح لوگ شوال پہنچ رہے ہیں اور اس طرح ملک شاھی محسود کے قبیلےکے لوگ بھی مسلح ہوکرشوال پہنچ رہےہیں۔ فائربندی کے لئے شمالی وزیرستان اورجنوبی وزیرستان کی پولٹیکل انتظامیہ کی مشترکہ کوشش بھی جاری ہیں اور شام گئے ایک جرگہ شوال راونہ کیا گیاہے تاکہ دونوں فریقین کوفائربندی پرآمادہ کیا جاسکے۔ جنوبی وزیرستان اورشمالی وزیرستان کے سنگم پرواقع شوال کے دشوار گزار پہاڑی سلسلے اورگھنے جنگلات میں روسی انقلاب کے تربیتی کیمپ اور اب پاکستانی فوج کی طرف سے غیر ملکیوں کے خلاف جاری کارروائی کی وجہ سے اس علاقے کا نام میڈیا میں مسلسل آتا رہتا ہے۔
060912_inzi_pcb_na
https://www.bbc.com/urdu/sport/story/2006/09/060912_inzi_pcb_na
انضی کا ’پیر پر کلہاڑی مارنا‘
انضمام الحق نے انگلینڈ سے کراچی پہنچنے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے اوول ٹیسٹ میں بال ٹیمپرنگ کا الزام عائد کیئے جانے پر بطور احتجاج بائیکاٹ کو حق بجانب قرار دیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ہار جیت سے قطع نظر ملکی وقار اور اپنے اوپر لگنے والے الزام کو غلط ثابت کرنا زیادہ اہم بات ہوتی ہے۔
پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین شہریارخان نے منگل کو ایڈہاک کمیٹی کے اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر انضمام الحق نے اس قسم کی کوئی بات کی ہے تو یہ ان کے خلاف جاسکتی ہے دوسرے لفطوں میں یہ اپنے پیر پر کلہاڑی کے مترادف ہے۔ شہریارخان کا کہنا ہے کہ کپتان، کوچ اور ٹیم مینجمنٹ کو اوول ٹیسٹ قضیئے کے بارے میں بات کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے انضمام الحق کی کپتانی پر اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں ویسٹ انڈیز کے خلاف سیریز تک کپتان مقرر کیا گیا ہے۔ انضمام الحق کو ستائیس اور اٹھائیس ستمبر کو آئی سی سی میچ ریفری کے سامنے پیش ہوکر دو الزامات کی صفائی دینی ہے جن کا تعلق کھیل کا وقار خراب کرنے اور بال ٹیمپرنگ سے ہے۔ انضمام الحق کے علاوہ ظہیرعباس، باب وولمر، دانش کنیریا اور عمرگل بھی سماعت میں پیش ہوں گے۔
sport-55031865
https://www.bbc.com/urdu/sport-55031865
مائیک ٹائسن: پرس چھیننے سے حریف باکسر کا کان چبانے تک
باکسرز عام طور پر بے رحم ہوتے ہیں اور مائیک ٹائسن ان بے رحم باکسرز میں کچھ زیادہ ہی سنگ دل واقع ہوئے تھے۔ وہ ایک ایسے باکسر کے طور پر مشہور تھے جو اپنے حریفوں کو فولادی مکوں سے رنگ میں ڈھیر کر دینے میں وقت ضائع کرنے میں دیر نہیں لگاتے تھے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اپنے کرئیر کے 41 فیصد باکسنگ مقابلے پہلے ہی راؤنڈ میں جیتے تھے۔ غربت کے سائے اور جرائم کی دنیا
دنیا کے کئی بڑے باکسرز کی طرح مائیک ٹائسن نے بھی غربت کے سائے میں پل کر شہرت کی بلندیوں کی طرف سفر شروع کیا لیکن اس سفر میں جہاں انھوں نے کامیابیاں دیکھیں وہیں تنازعات اور جرائم بھی سائے کی طرح ان کا پیچھا کرتے رہے۔ مائیک ٹائسن نے نیویارک میں بروکلین کے علاقے براؤنسِول میں آنکھ کھولی جو آوارہ اور جرائم پیشہ افراد کے لیے مشہور تھا۔ مائیک ٹائسن کہتے ہیں کہ وہ خوف کی وجہ سے سکول نہیں جاتے تھے۔ انھیں لوگوں سے ڈر لگتا تھا۔ ٹائسن بچپن میں موٹے تھے اور ان کی زبان میں لکنت بھی تھی لیکن وہ چاہتے تھے کہ وہ علاقے کے ان لوگوں جیسے طاقتور بن جائیں۔ پھر وہ بھی ان ہی جیسے لوگوں کے رنگ میں رنگ گئے اور کبوتر بازی شروع کر دی یہاں تک کہ وہ چوری اور لوٹ مار میں بھی ملوث رہے۔ خود ان کے ایک انٹرویو کے مطابق وہ 38 مرتبہ پکڑے گئے تھے۔ مائیک ٹائسن جب 12 برس کے تھے انھیں پرس چھیننے کے جرم میں ایک ایسے سینٹر میں بھیج دیا گیا جو کم عمر قانون شکنوں کے لیے مخصوص تھا۔ وہاں ان کی ملاقات ایک سابق باکسر ٹرینر بابی سٹیورٹ سے ہوئی جو بگڑے ہوئے بچوں کی ذہنی حالت درست کرنے پر مامور تھے۔ یہ بھی پڑھیے 53 کی عمر میں ٹائسن رِنگ میں پھرتی دکھا سکیں گے؟ 'محمد علی فائٹ سے پہلے ہی جیت جایا کرتے تھے' کھلاڑی کمایا ہوا پیسہ اتنی تیزی سے کیسے لٹا دیتے ہیں؟ حریفوں کو اشاروں پر نچانے کے ماہر سٹیورٹ کے توسط سے ٹائسن باکسنگ مینیجر اور ٹرینر کانسٹنٹائن ڈی ایماٹو سے ملے جو سابق ہیوی ویٹ چیمپیئن فلائیڈ پیٹرسن کی تربیت کر چکے تھے۔ وہ ٹائسن کے قانونی سرپرست بھی بنے لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ انھوں نے ٹائسن کو باکسنگ رنگ میں حریف باکسرز کے لیے دہشت کی علامت بنا دیا تھا۔ مائیک ٹائسن نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ ایماٹو نے ان کی زندگی میں غیر معمولی کردار ادا کیا۔ وہ ان کے لیے باپ کا درجہ رکھتے تھے۔ مائیک ٹائسن سنہ 1984 کے لاس اینجلز اولمپکس میں حصہ لینا چاہتے تھے لیکن دو مقابلوں میں شکست کی وجہ سے وہ امریکی باکسنگ سکواڈ میں جگہ نہ بنا سکے لیکن جب وہ پروفیشنل باکسنگ میں آئے تو انھوں نے اسی باکسر کو شکست دی جس نے اولمپکس میں ہیوی ویٹ گولڈ میڈل جیتا تھا۔ سب سے کم عمر عالمی ہیوی ویٹ چیمپیئن بائیس نومبر 1986 کو مائیک ٹائسن نے پہلی بار ورلڈ ہیوی ویٹ باکسنگ ٹائٹل جیتا۔ لاس ویگاس میں ہونے والے اس باکسنگ مقابلے میں ان کے حریف عالمی چیمپیئن ٹریور برِبک تھے جنھیں ٹائسن نے دوسرے ہی راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر دیا۔ ٹریور بربک وہ باکسر تھے جنھوں نے عظیم محمد علی کو شکست دے رکھی تھی لیکن ٹائسن کے سامنے وہ بے بس نظر آئے تھے۔ اس مقابلے کے ریفری ملز لین کا کہنا تھا کہ ٹائسن کا ہر مکا اس قدر طاقتور تھا کہ جیسے اس پر لکھا ہوا ہو ʹگڈ نائٹ۔ʹ ٹائسن نے یہ مقابلہ جیت کر نئی تاریخ بھی رقم کر دی۔ وہ 20 سال کی عمر میں ورلڈ باکسنگ کونسل کا ہیوی ویٹ عالمی چیمپیئن بننے والے دنیا کے سب سے کم عمر باکسر تھے۔ ٹائسن نے اس کے صرف چار ماہ بعد ورلڈ باکسنگ ایسوسی ایشن کا ورلڈ ٹائٹل جیمز سمتھ کو شکست دے کر حاصل کیا اور پھر اگست 1987 میں وہ ٹونی ٹکر کو ہرا کر انٹرنیشنل باکسنگ فیڈریشن کے چیمپیئن بھی بن گئے۔ سنہ 2003 میں ٹائسن نے مالی طور پر دیوالیہ قرار دینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ اپنی زندگی میں کمائے گئے تین سو ملین ڈالرز گنوا چکے ہیں ٹائسن نے ان ٹائٹلز کا کامیابی سے دفاع کرنا شروع کیا۔ ان کی سب سے قابل ذکر کارکردگی صرف 91 سیکنڈز میں مائیکل سپنکس کو ناک آؤٹ کرنا تھی۔ ٹائسن جو دوسروں کو ناک آؤٹ کر کے خوشی محسوس کیا کرتے تھے خود اس صورتحال سے اس وقت دوچار ہوئے جب فروری 1990 میں بسٹر ڈگلس نے انھیں دسویں راؤنڈ میں ناک آؤٹ کر دیا۔ ٹائسن نے اس شکست کے بعد اعتراف کیا کہ فائٹ سے پہلے انھوں نے دو خواتین کے ساتھ وقت گزارا تھا۔ وہ پہلے بھی ہر مقابلے سے پہلے یہی کیا کرتے تھے اور مقابلے جیت لیا کرتے تھے لہذا انھوں نے سوچا کہ اس بار بھی ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ریپ کا الزام اور چھ سال قید کی سزا مائیک ٹائسن کی ہنگامہ خیز زندگی میں اس وقت اہم موڑ آیا جب جولائی 1991 میں ایک مقابلہ حسن میں شریک خاتون ڈیزائری واشنگٹن نے ان پر ریپ کا الزام عائد کیا۔ ٹائسن نے اگرچہ اس الزام کی تردید کی لیکن عدالت نے انھیں چھ سال قید کی سزا سنائی تاہم تین سال کی قید کے بعد وہ جیل سے باہر آ گئے تھے۔ اس دوران یہ خبر بھی آئی کہ ٹائسن نے جیل میں اسلام قبول کر لیا ہے اور ان کا اسلامی نام ملک عبدالعزیز رکھا گیا ہے۔ ٹائسن کی ایک تصویر بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بنی جس میں وہ خانہ کعبہ میں احرام پہنے بیٹھے ہیں۔ وہ مارچ 1995 میں باکسنگ رنگ میں واپس آئے اور ورلڈ باکسنگ کونسل اور ورلڈ باکسنگ ایسوسی ایشن کے عالمی ہیوی ویٹ ٹائٹل دوبارہ حاصل کر لیے لیکن 1996 میں ایوینڈر ہولی فیلڈ نے انھیں شکست دے کر ورلڈ باکسنگ ایسوسی ایشن کا ٹائٹل حاصل کر لیا۔ دونوں کے درمیان دوبارہ ہونے والا مقابلہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ ایوینڈر ہولی فیلڈ کا کان چبانا جون 1997 میں مائیک ٹائسن نے ہولی فیلڈ کو اپنے مکوں سے قابو کرنے کے بجائے دو مرتبہ ان کا کان ہی چبا ڈالا جون 1997 میں ٹائسن اور ایوینڈر ہولی فیلڈ کے درمیان میں ہونے والا باکسنگ مقابلہ اپنی نوعیت کی منفرد فائٹ ثابت ہوئی جو ٹائسن کو ڈس کوالیفائی کیے جانے پر منتج ہوئی۔ انھوں نے ہولی فیلڈ کو اپنے مکوں سے قابو کرنے کے بجائے دو مرتبہ ان کا کان ہی چبا ڈالا۔ ٹائسن کو اپنی اس حرکت کا خمیازہ اس طرح بھگتنا پڑا کہ ان کا باکسنگ لائسنس معطل کر دیا گیا جو ایک سال بعد بحال ہوا۔ دو افراد کی پٹائی پر جیل ٹائسن کو اپنی زندگی میں ایک مرتبہ پھر جیل کی شکل اس وقت دیکھنی پڑی جب انھوں نے واشنگٹن میں ٹریفک کے ایک جھگڑے میں دو افراد کی پٹائی کر دی تھی جن میں سے ایک کی عمر 62 برس تھی۔ عدالت نے انھیں ایک سال کی سزا سنائی تاہم وہ ساڑھے تین ماہ جیل میں رہے۔ ٹائسن کی زندگی میں کبھی ٹھہراؤ نہیں آیا۔ انھوں نے تین شادیاں کیں لیکن ازدواجی زندگی ناخوشگوار رہی۔ ان کی پہلی بیوی رابن گیونز نے، جو ایک ادکارہ تھیں، طلاق کی درخواست یہ کہہ کر دی کہ ان کا شوہر انھیں جسمانی اور ذہنی اذیت دے رہا ہے۔ ان کی دوسری شادی بھی کامیاب ثابت نہ ہو سکی۔ سنہ 2003 میں انھوں نے مالی طور پر دیوالیہ قرار دینے کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ اپنی زندگی میں کمائے گئے تین سو ملین ڈالرز گنوا چکے ہیں۔ ان کی زندگی کا سب سے تکلیف دہ لمحہ وہ تھا جب سنہ 2009 میں ان کی چار سالہ بیٹی گھر میں موجود ایکسرسائز مشین میں گردن پھنس جانے کی وجہ سے ہلاک ہو گئی تھی۔
science-49031715
https://www.bbc.com/urdu/science-49031715
فیس ایپ: تصاویر میں رد و بدل کرنے والی ایپ صارفین کی تصاویر کے ساتھ کیا کرتی ہے؟
آج کل ہر کوئی فیس ایپ کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ یہ ایک ایسی ایپ ہے جس کی مدد سے صارفین اپنے چہروں کو بوڑھا اور جوان دکھا سکتے ہیں۔
یہ ایک ایسی ایپ ہے جس کی مدد سے صارفین اپنے چہروں کو بوڑھا اور جوان دکھا سکتے ہیں ہزاروں لوگ اس ایپ کے استعمال سے اپنے تجربے کی تصاویر سوشل میڈیا پر لگا رہے ہیں۔ لیکن کیونکہ یہ چہرے کی بناوٹ تبدیل کرنے والا فیچر پچھلے کچھ دنوں سے وائرل ہو چکا ہے تو کچھ لوگوں نے اس ایپ کی شرائط و ضوابط کے بارے میں تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایپ بنانے والی کمپنی صارفین کا ڈیٹا بے دھڑک استعمال کر رہی ہے۔ البتہ فیس ایپ نے اس حوالے سے اعلامیہ جاری کیا جس میں ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر تصاویر سرورز پر اپ لوڈ ہونے کے 48 گھنٹوں بعد ہی مٹا دی جاتی ہیں۔ کمپنی کا مزید کہنا ہے کہ وہ صرف ان تصاویر کو اپ لوڈ کرتے ہیں جن کا انتخاب صارفین خود کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کوئی اضافی تصویر استعمال نہیں کی جاتی۔ فیس ایپ ہے کیا؟ فیس ایپ نئی نہیں ہے۔ یہ پہلی مرتبہ خبروں کی زینت دو سال پہلے اپنے نسلی فلٹرز کی وجہ سے بنی۔ اس فیچر کی مدد سے صارفین اپنی نسل تبدیل کر سکتے تھے۔ لیکن اس فیچر پر شدید تنقید کے بعد کمپنی کو اسے ہٹانا پڑا۔ کسی بھی ایپ کو ڈاؤن لوڈ کرنے سے پہلے اس کے قواعد و ضوبط کو پڑھنا چاہئیے۔ یہ ضرور ہے کہ اس ایپ کی مدد سے آپ کورے اور بدمزاج چہروں پر چہچہاتی مسکراہٹ سجا سکتے ہیں۔ اور اس کی مدد سے میک اپ میں بھی ردوبدل کیا جا سکتا ہے۔ یہ سب مصنوعی ذہانت کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ ایک ایلگو ردھم آپ کے چہرے کی تصویر کو دوسری تصویر کے حساب سے تبدیل کرتا ہے۔ اس کی مدد سے آپ چہرے پر دانتوں والی مسکراہٹ بھی سجا سکتے ہیں اور اپنے منھ، تھوڑی اور رخساروں کے اردگرد جھریوں میں ردوبدل لا کر ایک قدرتی روپ لا سکتے ہیں۔ تو اس میں مسئلہ کیا ہے؟ اس حوالے سے صارفین کو تشویش تب ہوئی جب ایپ بنانے والے جوشوا نوزی نے ٹوئٹ کی کہ فیس ایپ صارفین کی تصویریں ان کے فون سے ان کی اجازت کے بغیر نکال کر اپ لوڈ کر رہا ہے۔ تاہم ایک فرانسیسی سائبر سکیورٹی پر تحقیق کرنے والے ایلیٹ ایلڈرسن (فرضی نام) نے نوزی کے دعووں پر تحقیق کی۔ انھیں پتا چلا کہ بڑی تعداد میں تصاویر اپ لوڈ نہیں کی جا رہیں بلکہ فیس ایپ صرف وہی تصاویر استعمال کر رہا ہے جن کا انتخاب صارفین نے خود کیا ہے۔ فیس ایپ نے بی بی سی سے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ صرف صارفین کی جانب سے بھیجی جانے والی تصاویر ہی اپ لوڈ کی جاتی ہیں۔ چہرے کی مدد سے شناخت ؟ کچھ لوگو ں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ فیس ایپ شاید صارفین سے ڈیٹا اکھٹا کر کہ اسے ایسے ایلگوردھم کی تربیت کے لیے استعمال کر رہی ہے جو چہروں کی مدد سے شناخت کر پائے گا۔ ایسا اس صورت میں بھی کیا جا سکتا ہے اگر تصاویر مٹا دی گئی ہوں کیونکہ چہرے کی پیمائش پہلے ہی محفوظ کی جا چکی ہوتی ہے۔ فیس ایپ کے چیف ایگزیکٹو یاروسلاو گونچاروو نے بی بی سی کو بتایا کہ 'نہیں ہم ان تصاویر کو ایسے کسی ایلگوردھم کی تربیت کے لیے استعمال نہیں کر رہے بلکہ یہ تصاویر کے صرف ردوبدل میں استعمال ہوتا ہے۔' بس یہی کچھ ہے؟ بات بالکل ایسی نہیں ہے۔ کچھ لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ فیس ایپ تصویروں کو سرے سے اپ لوڈ ہی کیوں کرتا ہے جبکہ فیس ایپ ان تصویروں کو کلاؤڈز میں لے جانے کے بجائے سمارٹ فون پران کی محفوظ جگہ پر پروسیس کر سکتا ہے۔ فیس ایپ کے معاملے میں اس کا سرور، جہاں سارا ڈیٹا محفوظ کیا جاتا ہے وہ امریکہ میں ہے جبکہ یہ کمپنی روسی ہے اور اس کے دفاتر پیٹرزبرگ میں ہے۔ سائیبر سکیورٹی پر تحقیق کرنے والے جین منچون وونگ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ فیس ایپ کو اس سے ایک فائدہ ہوتا ہے، یعنی دوسری کمپنیاں جو ایسے سوفٹ وئیر پر کام کر رہی ہیں ان کو یہ پتہ نہیں چل سکتا ہے کہ فیس ایپ کا ایلگوردھم کس طرح کام کرتا ہے۔ ’اب میں سمجھ سکتا ہوں کے فیس ایپ صارف کی تصویر کیوں اپنے سرور میں اپ لوڈ کرتا ہے اور کیوں اسے اپنے سرور میں پروسیس کرتا ہے۔‘ کاروباری نکتہِ نگاہ سے پروسیسےنگ کوڈ کو اپنے سرور پر خفیہ رکھنے سے کسی مقابلہ کرنے والی حلیف کمپنی کو نقل کرنے سے روک سکتا ہے۔ اس سے کاروباری راز چرانے کو بھی روکا جا سکتا ہے۔ فیس ایپ کہ کہنا ہے کہ وہ صارفین کا ڈیٹا روس نہیں بھیجتی یونیورسٹی کالج آف لندن کے سٹیو مرڈوک اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ : ’یہ کسی کی نجی زندگی کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تصویر کی پروسیسنگ سمارٹ فون پر ہی کی جائے، لیکن اس سے یہ عمل سست رفتار سے ہوسکتا ہے، بیٹری زیادہ استعمال کرسکتا ہے، اور فیس ایپ ٹیکنالوجی کو آسانی سے چرایا بھی جا سکتا ہے۔‘ ایک امریکی وکیل ایلزبتھ وائینسٹائین کہتی ہیں کہ فیس ایپ کے اپنے قوائد و ضوابط میں یہ کہا گیا ہے کہ صارف کی تصویر کو فیس ایپ کے اشتہارات سمیت تجارتی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ٹیکنالوجی سے وابستہ ایک میگیزین ’لائف وائر‘ کے ایڈیٹر لانس النوف نے ٹویٹر کی شرائط کی طرف توجہ مبذول کرائی کہ جس میں مثال کے طور پر اس سے ملتی جلتی بات کا ذکر ہے: اب جب ہم فیس ایپ کو اس بحث میں الجھا رہے ہیں کہ وہ ہماری تصویروں کو اپنی کہہ رہا ہے تو اسی حوالے سے ہمیں ٹویٹر کے قوائد و ضوابط کو بھی دوبارہ سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔‘ کیا صارفین کو اس کا علم ہے؟ کچھ لوگوں کے لیے یہ اس مسئلے کی بنیاد ہے۔ نجی زندگی (پرائیویسی) کے حوالے سے آواز اٹھانے والے پیٹ والش نے فیس ایپ کی پرائیویسی پالیسی میں کچھ جملوں کی نشاندہی کی جس کے مطابق صارفین کا ڈیٹا تشہیری وجوہات کی بنا پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مختلف ایپس صارفین کے نجی ڈیٹا کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ایپ میں گوگل کا تشہیری فیچر گوگل ایڈ موب بھی لگایا جاتا ہے جس کے ذریعے گوگل کے اشتہار صارفین کو دکھائے جاتے ہیں۔ والش نے بی بی سی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام 'غیر واضح انداز میں کیا گیا ہے' اور 'یہ صارفین کو صحیح معنوں میں انتخاب اور کنٹرول کرنے کا حق نہیں دیتا۔' گونچاروو کا کہنا ہے کہ فیس ایپ کے قواعد و ضوابط میں پرائیویسی پالیسی بہت عام فہم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کمپنی کوئی بھی ڈیٹا تشہیری مقاصد کے لیے تقسیم نہیں کرتی۔'. انھوں نے مزید بتایا کہ ایپ اپنے خصوصی فیچرز کے ذریعے سے آمدنی حاصل کرتی ہے۔ ڈاکٹر مرڈوک کا کہنا تھا کہ 'فیس ایپ کے قواعد و ضوابط کے مطابق کمپنی صارفین کی تصاویر کے ساتھ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ یہ خدشے کا باعث ضرور ہے لیکن یہ ایک عام سی بات ہے۔" سائیبر سیکیورٹی کے ماہرین فیس ایپ کی یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں ہیں۔ کمپنیوں کو علم ہوتا ہے کہ کوئی بھی ان کے قواعد و ضوابط پرھنے کی زحمت گوارا نہیں کرے گا اس لیے وہ ان میں صارفین سے زیادہ سے زیادہ اجازتیں مانگ لیتی ہیں، اس لیے اگر ان کو اپنے موجودہ منصوبوں میں اس ڈیٹا کی ضرورت نہ بھی ہو تو وہ اسے بعد میں استعمال کر سکتی ہیں۔' فیس ایپ کا اس کے علاوہ کیا کہنا ہے؟ گونچاروو نے کمپنی کا اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ فیس ایپ صرف وہی تصاویر اپ لوڈ کرتی ہے جن کا انتخاب صارفین ایڈٹ کرنے کی غرض سے کرتے ہیں۔ اعلامیے کے مطابق کمپنی کبھی کوئی دوسری تصاویر اپ لوڈ نہیں کرتی ہے۔ ’ہم اپ لوڈ کی ہوئی ایک تصویر کو کلاؤڈ میں ضرور رکھ سکتے ہیں۔‘ اس کی بڑی وجہ کارکردگی اور ٹریفک ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ ایک صارف ایک ہی تصویر بار ہا اپ لوڈ کرے۔ 'زیادہ تر تصاویر ہمارے سرورز سے 48 گھنٹوں کے اندر مٹا دی جاتی ہیں۔' برطانیہ کے انفارمیشن کمشنر آفس نے کہا ہے کہ انھیں اُن کہانیوں کے بارے میں علم ہے جو فیس ایپ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہی تھیں اور وہ انھیں سنجیدگی سے لے رہے ہیں اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ فیس ایپ صارفین کا ڈیٹا مٹانے سے متعلق درخواستوں کی توثیق کرے گی اور کمپنی کے نمائندے اس حوالے سے بے حد مصروف ہیں۔ فیس ایپ نے صارفین کو کہا ہے کہ اس طرح کی درخواستیں پرائیویسی کے متن کے ساتھ سیٹنگز، سپورٹ اور 'رپورٹ اے بگ' کے ذریعے جمع کروائی جا سکتی ہیں۔ اعلامیے کے مطابق صارفین کا ڈیٹا روس نہیں بھیجا گیا۔ برطانیہ کے انفارمیشن کمشنر آفس نے بی بی سی نیوز کو بتایا کہ انھیں اُن کہانیوں کے بارے میں علم ہے جو فیس ایپ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کر رہی تھیں اور وہ انھیں سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔ 'ہم صارفین کو یہ تنبیہ کریں گے کہ وہ جب بھی کسی ایپ کو استعمال کرنے لگیں تو اس بات کو یقینی بنائیں کے ان کی ذاتی معلومات کے بارے میں کیا کیا جائے گا۔ ساتھ ہی تب تک اپنی ذاتی معلومات نہیں دینی چاہیے جب تک یہ اندازہ نہ ہو جائے کہ انھیں کس طرح استعمال کیا جا ئے گا۔' ادھر امریکی سینیٹ میں اقلیتی رہنما چنک شومر نے تحقیقاتی ایجنسی ایف بی آئی کے نام ایک خط میں کہا کہ وہ فیس ایپ کے حوالے سے تحقیقات کرے۔ ٹویٹر پر ان کی جانب سے لکھے گئے خط میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ امریکی صارفین کا ذاتی ڈیٹا ایک غیر ملکی اشتعال انگیز طاقت کے ہاں جا سکتا ہے۔
050831_michael_jackson_dubai_uk
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2005/08/050831_michael_jackson_dubai_uk
مائکل جیکسن دبئی میں
ایک بچے کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے والے مقدمے میں بری ہوجانے کے بعد سے پاپ گلوکار مائکل جیکسن کی پہلی تصاویر شائع ہوئی ہیں۔
مائکل جیکسن کو عدالت نے جون میں بری کیا تھا اور اس کے بعد سے وہ نصبتاً خاموشی سے زندگح گزار رہے ہیں اور ان کی نہ کوئی تصاویر او نا ہی کوئی خبریں نکلی ہیں۔ پیر کے روز مائکل جیکسن کی سینتالیسویں سالگرہ کے موقع پر شائع ہونے والی ان فوٹوز میں وہ دبئی میں ایک جگہ کا دورہ کرتے نظر آتے ہیں۔ تصاویر میں گلوکار خوش اور صحتیاب نظر آرہے ہیں۔ خیال ہے کہ مائکل جیکسن تقریباً دو ماہ پہلے بحرین پہنچے تھے اور افواہ یہ ہے کہ انہوں نے وہاں ایک گھر خرید لیا ہے۔
150920_ad_blocking_kill_internet_sh
https://www.bbc.com/urdu/science/2015/09/150920_ad_blocking_kill_internet_sh
’انٹرنیٹ پر کچھ بھی مفت نہیں ہے‘
تصور کریں کہ آپ کی تمام پسندیدہ ویب سائٹس تک رسائی مفت نہ رہے بلکہ اس کے لیے آپ کو باقاعدہ ادائیگی کرنا پڑے۔
’فیس بک پر آپ نے اپنے بارے میں جو بھی معلومات مہیا کی ہیں وہ قیمتی ہیں اور فیس بُک اس معلومات سے معاشی فائدہ اٹھا رہا ہے‘ کیا آپ انٹرنیٹ کا استعمال بالکل ترک کر دیں گے یا پھر بخوشی معیاری صحافتی اور تفریحی ویب سائٹوں تک رسائی حاصل کرنے کے لیے رقم خرچ کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے؟ اگر ایڈ بلاکنگ (اشتہارات روکنے والے پروگرام) کا استعمال عمومی طور پر زیادہ دیکھی جانے والی ویب سائیٹوں پر شروع ہوگیا تو ہمارے پاس یہی راستے رہ جائیں گے۔ ایسا اس لیے ہے کہ آن لائن ہم جو کچھ بھی دیکھتے ہیں اس کی آمدنی کا 90 فیصد دارومدار اشتہارات پر ہوتا ہے۔ یہ انٹرنیٹ کا بنیادی اقتصادی طریقہ کار ہے۔ تجزیہ کارسمجھتے ہیں کہ موبائل فون اور کمپیوٹر ٹیبلٹ بنانے والی سب سے معروف کمپنی ایپل کا اپنے آئی فون اور آئی پیڈ کے براؤزر ’سفاری‘ کے ذریعے اشتہارات روکنے کے فیصلے سے انٹرنیٹ کے اس اقتصادی ماڈل کو کافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ انٹرنیٹ ایڈورٹائزنگ بیورو کے سینیئر پروگرام مینیجر ڈیوڈ فِریو کا کہنا ہے کہ ’ایڈ بلاکنگ اشتہارات کی پوری صنعت کے لیے خطرہ ہیں۔‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’یہ ممکنہ طور پر اشارہ ہے کہ آن لائن اشتہارات کی موجودہ شکل اپنے خاتمے کے نزدیک ہے۔ یہ ضروری ہے کہ لوگ اس بات کو سمجھیں کہ وہ آن لائن جو کچھ بھی دیکھتے ہیں وہ مفت نہیں ہے بلکہ کسی نہ کسی شکل میں اس کی قیمت ہے۔ مثال کے طورپر سوشل میڈیا کی سب سے مقبول ویب سائٹ پر آپ نے اپنے بارے میں جو بھی معلومات مہیا کی ہیں وہ قیمتی ہیں اور فیس بُک اس معلومات سے معاشی فائدہ اٹھا رہا ہے۔‘ ایپل کا اپنے آئی فون اور آئی پیڈ کے براؤزر ’سفاری‘ کے ذریعے اشتہارات روکنے کے فیصلے سے انٹرنیٹ کے اس اقتصادی ماڈل کو کافی نقصان پہنچا سکتا ہے عام طور پر استعمال کیے جانے والے اٹرنیٹ براؤزر اپنے صارفین کو اشتہارات کے نئی ونڈو میں ایک دم سے کھلنے والے پیج (پوپ اپ ایڈز) کو روکنے کے اختیارات دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سالہاسال سے یہ ایڈز پوپ اپ ہو رہے ہیں۔ ان اشتہارات کو روکنے کے لیے کئی پروگرام دستیاب ہیں جن میں ایڈ بلاک، ایڈ بلاک پلس، یو بلاک، اور ایڈگارڈ شامل ہیں۔ ان پروگراموں کو دنیا بھر میں لاکھوں صارفین استعمال استعمال کررہے ہیں۔ اشاعت و تشہیر کی صنعت سے وابستہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اب جبکہ ایپل جیسی بین الاقوامی طور پر معروف کمپنی بھی اشتہارات کی روک تھام کا حصہ بن گئی ہے یہ عمل اور بھی مقبول ہو جائے گا خاص طور پر موبائل فون میں۔ ڈیجیٹل ایڈورٹائزنگ ٹیکنالوجی فرم ’ایپ نیکسِس‘ کے چیف ایگزیکٹو برائن اوکلی سمجھتے ہیں کہ اس تمام تر صورت حال کی ذمہ دار ویب سائٹسں خود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کئی ویب سائٹس لالچ کا شکار ہوگئی تھیں۔ ان کی سائٹ کے پہلے پیج پر 50 فیصد جگہ اشتہارات نے گھیری ہوئی ہوتی ہے۔ اور ان میں زیادہ تر غیر ضروری چیزیں ہوتی ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ اشتہارات کا مقصد صارف کی توجہ اپنی مصنوعات کی جانب مبذول کرانا ہوتا ہے لیکن انھیں صارف کے لیے پریشان کُن بھی نہیں ہونا چاہیے۔‘ ’ جیگوار کمپنی نے مخصوص سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا رخ کیا جہاں قیمت ادا کرکے آپ اپنی مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے‘ اشتہارات کے حوالے سے تحقیق کرنے والے ادارے آئی ایچ ایس کے سینیئر ڈائریکٹر ڈینیل کناپ بھی اس بات کی تائد کرتے ہیں کہ ’صارفین ان اشتہارات کی بے جا مداخلت سے اب تنگ آچکے ہیں۔ یہ اشتہارات نہ صرف صارف کے لیے مطلوبہ معلومات دیکھنے میں مشکل کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے موبائل فون پر ڈیٹا کا غیر ضروری استعمال بڑھ جاتا ہے اور بیٹری بھی جلد کمزور ہو جاتی ہے۔‘ ڈیجیٹل مارکیٹنگ ایجنسی ’میٹیا‘ کے مینیجنگ ڈائریکٹر مارک پِنِسنٹ کہتے ہیں کہ اشتہارات کے حوالے سے ہمارے ملے جلے جذبات ہوتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ وہ اشتہارات کو ناپسند کرتے ہیں اور جیسے ہی آپ انہیں یہ موقع دیں کہ وہ ان اشتہارات کو روک سکیں تو وہ فوراً ایسا کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ہم اکثر اپنے پسندیدہ اشتہارات کے بارے میں ایک دوسرے کو بتانا بھی چاہتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اچھے اشتہارات کہ ساتھ بہت سارے بُرے اشتہارات بھی ہوتے ہیں۔‘ اگرتمام انٹرنیٹ صارفین ہی اشتہارات کو روکنا شروع کردیں گے تو آن لائن ناشرین سالانہ آمدنی میں ہونے والی اس کٹوتی سے کیسے نمٹیں گے جو اس عمل سے ناگزیر ہو جائے گی۔ اور مشتہرین اپنے صارف تک کیسے رسائی حاصل کرسکیں گے؟ اوکلی کہتے ہیں کہ ’ایسی صورت میں اشتہارات کی تعداد کم ہوجائے گی اور اس کے ساتھ ان سے آنے والی آمدنی بھی۔ لیکن وہ بالکل ختم نہیں ہوگی، بس آمدن میں سے سب کا حصہ کم ہوجائے گا۔ انٹرنیٹ ایڈورٹائزنگ بیورو کے ڈیوڈ فِریو کا کہنا ہے کہ ’ایڈ بلاکنگ اشتہارات کی پوری صنعت کے لیے خطرہ ہیں‘ ان کا خیال ہے کہ ویب پروڈیوسروں اور آن لائن ناشرین کو اپنے صارفین کے ساتھ یہ ’مشکل گفتگو‘ کرنی پڑے گی اور انھیں راضی کرنا پڑے گا کہ وہ اشتہارات کو روکنے والے پروگرام یعنی ایڈ بلاکراستعمال نہ کریں۔ وہ کہتے ہیں ’صارفین کا پاس اس بات کا اختیار ہونا چاہیے کہ فیصلہ کر سکیں کہ وہ کس قسم کے اشتہارات دیکھنا چاہتے ہیں، ان کی ڈاؤن لوڈنگ کے لیے وہ کیا رفتار چاہتے ہیں، اور نجی معلومات تک وہ خوشی سے کتنی رسائی دینے کے لیے تیار ہیں۔ جب آپ اشتہارات روکنے والے پروگرام کے ساتھ کسی ویب سائٹ پر جائیں تو اس ویب سائٹ پر موجود معلومات تک رسائی مفت حاصل کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے۔‘ ایسی دنیا میں جہاں انٹرنیٹ پر موجود مواد تک مفت رسائی روزانہ کے معمولات کا حصہ ہو اورسبسکِرپشن کا طریقہ کار صرف خصوصی طور پر شائع ہونے والے مواد تک محدود ہووہاں قیمت کے عوض معلومات تک رسائی کا سوچنا کتنا حقیقت پسند ہو سکتا ہے؟ معروف رسالوں جیسے کوسمُوپولیٹن، گُڈ ہاؤس کِیپنگ، اوراِسکوار کے ناشر اور برطانوی جریدے ہارسٹ میگزین کے چیف ٹیکنالوجی آفیسر ڈیرن گولڈزبی اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ایڈ بلاکر ’بھی ہمارے کام کے لیے اتنے ہی خلل کی باعث ہیں جتنا کہ خود انٹرنیٹ کی آمد تھی۔ اشتہارات کی روک تھام کرنے کا رجحان خطرناک ہے اور وقت کے ساتھ ان پروگراموں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں ایسا کام کرنے کے لیے سخت محنت کرنا ہوگی جو تجارتی بنیادوں پر کامیاب ہو اور لوگ اُسے پڑھنا چاہیں۔‘ گولڈزبی کہتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں زیادہ توجہ ’نیِٹو ایڈورٹائزنگ‘ ( آن لائن اشتہاری مہم کا طریقہ کار جس میں اُس ویب سائٹ پر موجود اصل مواد سے ملتی جلتی صورت میں ہی مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے) پر دینی ہوگی۔ نیٹو ایڈورٹائزنگ میں سپانسرڈ کانٹینٹ ایڈورٹوریل، برانڈڈ مائکرو سائیٹس وغیرہ شامل ہیں اور انھیں ایڈ بلاکر کے ذریعے نہیں روکا جا سکتا۔ پنِسنٹ کہتے ہیں کہ مشتہرین پہلے ہی سماجی رابطے کی ویب سائٹس کے ذریعے صارفین کی توجہ حاصل کرنے اور ایسی معلومات ان تک پہنچانا سیکھ رہے ہیں جو صارف کسی اور کو بھی بتانا یا دکھانا چاہے۔ ’ایڈ بلاک‘ کا دعویٰ ہے کہ یہ پروگرام تمام قسم کے اشتہارات کو بلاک کرسکتا ہے مثال کے طور پر جیگوار گاڑی بنانے والی کمپنی نے اپنی نئی گاڑی ’ایف پیس فور وہیل ڈرائیو‘ کا رولر کوسٹر جھولوں کے عمودی دائرے میں چلانے کا مظاہرہ فلمبند کیا۔ گاڑی چلانے کے لیے استعمال ہونے والا یہ دائرہ قطر کے حساب سے دنیا کا سب سے بڑہ دائرہ تھا اور اپنی انفرادیت کے باعث اخباروں نے اپنی شہہ سرخیوں میں اس خبر کو جگہ دی۔ پنِسنٹ نے بتایا کہ ’اس کے بعد جیگوار کمپنی نے مخصوص سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کا رخ کیا جہاں قیمت ادا کرکے آپ اپنی مصنوعات کی تشہیر کی جاتی ہے تاکہ فلمبند مناظر کوان صارفین تک پہنچایا جا سکے جن کے لیے یہ دلچسی کا باعث ہوں۔ اور یہ انھوں نے کسی روایتی مشتہر کا سہارا لیے بغیر کیا۔ آگے چل کر کمپنیوں کی اپنی مصنوعات خود کانٹینٹ پروڈیوسر بن جائیں گی۔ مشتہرین آن لائن آمدن میں ہونے والا اپنا خسارہ پورا کرنے کے لیے نیٹو ایڈورٹائزنگ اور برانڈڈ کانٹینٹ کے طریقے استعمال کر رہے ہیں لیکن یہ آزاد صحافت کے لیے کیا معنی رکھتا ہے؟ پنِسنٹ کہتے ہیں کہ ’جیسے ہی آپ اُن لکیروں کو دھندلا دیتے ہیں جو صحافت اور کسی کمپنی کی طرف سے اپنی مصنوعات کی تشہیر کے لیے لکھوائے جانے والے مواد کو ایک دوسرے سے جدا کرتی ہیں یہ بہت خطرناک ہوجاتا ہے۔ کیونکہ اس عمل سے صارف اس معلومات سے متاثر ہو سکتا ہے بغیر یہ جانے کہ وہ اصل صحافتی مضمون ہے یا تشہیری۔‘ ایک بار اگر انٹرنیٹ کے صارفین یہ بات سمجھ لیں کہ بغیر اشتہارات کے ویب سائٹ دیکھنے کے لیے انھیں ادائیگی کرنی پڑے گی تو ممکن ہے کہ ایڈ بلاکرز کی مقبولیت میں کمی آجائے۔ خاص طور پر اگر اس کا متبادل یہ ہو کہ انھیں ایسے مضامین برداشت کرنے پڑیں گے جو تجارتی مقاصد کے تحت لکھے گئے ہوں۔ ہیرسٹ کا کہنا ہے کہ اس کے برطانیہ میں شائع ہونے والے ڈیجٹل ٹائلز ڈیڑھ کروڑ افراد تک پہنچتے ہیں کچھ مبصرین سمجھتے ہیں کہ ایڈ بلاکر کی مقبولیت سے صارفین کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ ناشرین اور مشتہرین کے ساتھ اس مسئلے پراپنے نقطعہ نظر کو سامنے لاتے ہوئے نئے سرے سے بات کر سکیں۔ صارفین کو اپنی ذاتی معلومات کو محفوظ اور تجارتی بنیادوں پر استعمال کرنے میں مدد فراہم کرنے والے ایک گروہ ’سٹیزن می‘ کے چیف ایگزیکٹو سینٹ جان ڈیکن کہتے ہیں کہ ’نئے طریقہ کار کے تحت انٹرنیٹ صارفین اپنی معلومات تک رسائی اپنی مرضی اور اپنی مرضی کی قیمت کے تحت دے سکیں گے۔‘ دیگر لوگ سمجھتے ہیں کہ اس تبدیلی سے فیس بُک، گُوگل، اور ایمیزون کی انٹرنیٹ کی معیشت پر گرفت مزید سخت ہوجائے گی۔ آئی ایچ ایس کے ڈینیل کناپ کہتے ہیں کہ ’سنہ 2020 تک یورپ کی آن لائن تشہیری صنعت پر 70 فیصد فیس بُک اور گُوگل کی اجارہ داری ہوگی۔ وہ ایسا نظام تشکیل دے رہے ہیں جس میں معلوماتی مواد، تشہیری مواد کے ساتھ ہوگا اور اپنے صارفین پر ان کی مکمل گرفت ہے۔‘ کیا وقت آگیا ہے کہ صارفین اس گرفت سے اپنے آپ کو آزاد کرا لیں؟
060814_journo_kidnap_si
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/08/060814_journo_kidnap_si
غزہ: دو ٹی وی جرنلسٹ اغواء
مسلح ہتھیار بندوں نے امریکی ٹی وی چینل فاکس نیوز سے وابستہ دو صحافیوں کو غزہ سے اغواء کر لیا ہے۔
امریکی صحافیوں کے ڈرائیور نے سکیورٹی اہلکاروں کو بتایا کہ ان کی کار کو پیر کی شام کو غزہ شہر میں روکا تھا۔ ڈرائیور نے بتایا کہ ہتھیار بندوں نے دونوں صحافیوں کو دوسری گاڑی میں بیٹھنے کا حکم دیا اور بعد میں اسے بھگا کر لے گئے۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ صحافیوں کے اس اغواء کا ذمہ دار کون ہے۔ گزشتہ دو برس میں کئی غیر ملکیوں کو غزہ سے اغواء کیا گیا لیکن سب ہی کو بغیر کوئی نقصان پہنچائے چھوڑ دیا گیا۔
040716_wana_killings_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2004/07/040716_wana_killings_as
شکئی میں تازہ جھڑپوں کی اطلاع
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے اطلاعات ہیں کہ شکئی میں القاعدہ کے مشتبہ عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک تازہ جھڑپ میں ایک فوجی اور ایک حملہ آور ہلاک ہوئے ہیں۔ البتہ حکام اس کی تصدیق نہیں کر رہے۔
جنوبی وزیرستان کا شکئی کا علاقہ حکومت کے ساتھ تعاون اور وقفے وقفے سے جھڑپوں کی بنا پر آج کل مسلسل خبروں میں ہے۔ ایک جانب اگر شکئی کے سرسبز پہاڑی علاقے کے قبائل حکومت سے ہر قسم کا تعاون کر رہے ہیں تو دوسری جانب اسی علاقے میں سکیورٹی دستوں کے ساتھ جھڑپوں کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں۔ یہ تازہ تصادم شکئی کے نواح میں سنتوئی کے مقام پر ہوا۔ علاقے سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق یہ جھڑپ دو گھنٹے تک جاری رہی جس میں فریقین نے ہلکا اور بھاری دنوں قسم کا اسلحہ استعمال کیا۔ اس لڑائی میں ایک فوجی اور ایک حملہ آور کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ لیکن حکام نہ تو فوجی کی ہلاکت کی اور نہ ہی اس جھڑپ کے بعد علاقے میں کارروائی کے دوران بڑی تعداد میں مقامی قبائلیوں کو حراست میں بھی لیے جانے کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ادھر جنوبی شہر ٹانک سے بھی اطلاعات ہیں کہ نامعلوم حملہ آوروں نے پولیس لائنز کے علاقے پر تین راکٹ داغے لیکن ان سے کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ہے۔
pakistan-41036993
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-41036993
’11 ماہ تک محصور رہ کر لڑتے رہے‘
دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایک امریکی اور ایک جاپانی فوجی کسی غیرآباد جزیرے میں گھر جاتے ہیں اور دونوں کے درمیان وسائل پر قبضے کے لیے ایک دوسرے کو زیر کرنے کی طویل جنگ چھڑ جاتی ہے جس میں کبھی ایک مغلوب ہوتا ہے کبھی دوسرا۔
محمد امین سکردو کے قریب سندس گاؤں میں اپنے سرسبز باغ میں اسی طرح ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے سالہاسال گزر جاتے ہیں اور ان دونوں کو معلوم نہیں ہو پاتا کہ دوسری جنگِ عظیم کب کی ختم ہو چکی ہے۔ ٭ تقسیمِ ہند کے 70 سال پر بی بی سی اردو کا خصوصی ضمیمہ اس کہانی پر فلمیں بن چکی ہیں، لیکن بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان کشمیر میں لڑے جانے والی جنگ میں بالکل ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا، تاہم اس پر فلم بننا یا کتاب لکھے جانا تو کجا، بہت کم لوگوں کو اس کے بارے میں علم ہے۔ اس واقعے کے واحد زندہ کردار محمد امین ہیں جو سکردو کے مضافاتی گاؤں سندس میں انگور، خوبانی، سیب اور چیری کے باغ سے گھرے ہوئے گھر میں رہتے ہیں۔ ملیشیا شلوار قمیص میں ملبوس محمد امین کو خوبانی کے حجم کے لذیذ سیب کے درختوں کی دیکھ بھال کرتے دیکھ کر ایسا لگا ہے جیسے وہ جنم جنم سے دنیا کے اسی پرامن ترین پیشے سے وابستہ چلے آئے ہیں۔ لیکن جب وہ اپنی کہانی شروع کرتے ہیں تو ان کی آنکھوں میں تاریک سائے دوڑ جاتے ہیں جن کے اندر جنگ کی تباہ کاریاں، محصوری کا ہراس اور ناقدری کا احساس سب کچھ نمایاں ہوتا ہے۔ محمد امین اور ان کے مٹھی بھر ساتھیوں نے 11 ماہ تک انڈین فوج کے محاصرے میں گزار کر ہمت، شجاعت اور برداشت کی وہ داستان رقم کی ہے کہ اگر ان کا تعلق یورپ یا امریکہ سے ہوتا تو ہالی وڈ انھیں جنگی ہیرو بنا کر کب کا دنیا بھر میں مشہور کر چکا ہوتا۔ ذیل میں ان کی کہانی انھی کی زبانی پیش کی جا رہی ہے جس میں وہ 1947 میں کشمیر جا کر لڑنے، وہاں 11 ماہ تک محصور رہنے اور پھر واپس آ کر اپنے ساتھ ہونے والی ناقدری کی روداد بیان کر رہے ہیں۔ محمد امین (سیاہ چشمہ پہنے ہوئے) پدم پارٹی کے دوسرے ارکان کے ہمراہ ہم یہاں مشکل سے بھرتی ہوئے، سب نے کہا چھوٹا ہے، رائفل نہیں اٹھا سکتا، میری گیارہ بارہ برس عمر ہو گی۔ میں نے کہا میں خود اٹھاؤں گا رائفل، آپ کو زحمت نہیں دوں گا۔ ہم کل 95 نفر تھے، کوئی تربیت نہیں دی گئی، بس بتایا گیا کہ فائر اس طرح کرنا ہے، یا جہاز آئے تو اس طرح چھپنا ہے۔ ہمیں اس طرف بھیج دیا گیا۔ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ کس طرف جانا ہے۔ جب ہم دائیں مڑے تو پتہ چلا کہ کرگل جا رہے ہیں۔ یہاں سے کرگل آٹھ گھنٹے کا راستہ ہے۔ وہاں سے ہمیں تین حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک پارٹی کو لداخ بھیج دیا گیا۔ دوسری دراز جائے گی، باقی رہ گئے ہم۔ ہمیں نائیک بنا دیا گیا اور دو فیتے لگا دیے گئے اور ہمیں پدم بھیج دیا۔ آٹھ دن پیدل چلنے کے بعد ہم پدم پہنچے۔ یہ بدھسٹوں کا علاقہ تھا۔ لال قمیص شلوار پہنتے تھے وہ۔ ایک چوٹی کے اوپر مندر تھا جس میں وہ پوجا کرتے تھے۔ ہم وہیں رک گئے۔ اسی دوران لداخ میں جنگ ہو رہی تھی۔ ہمیں خبریں آ رہی تھیں کہ کل فتح ہو گا، پرسوں فتح ہو گا۔ کہا کہ یہاں بہت برف گرتی ہے۔ کورا جمتا ہے۔ پھر وہاں ہندوستانی فوج آ گئی۔ رات کو ایک بجے انھوں نے فائر کیا۔ ہر طرف آگ کے شعلے نظر آتے تھے۔ ہم لوگ بدھسٹوں کے گاؤں میں محصور ہو گئے۔ دیواروں میں سوراخ کر کے دیکھتے رہے۔ ان کی نسبت ہم نہ ہونے کے برابر تھے۔ صبح پتہ چلا کہ حالت خراب ہے۔ ہم لوگ ایک رات کے لیے آئے تھے۔ لیکن یہاں گھر کر رہ گئے۔ جنگ لڑتے رہے۔ دشمن ہمارے ارد گرد آ گئے، دوسرے تیسرے دن۔ لمبے تڑنگے۔ برانڈی پہنے ہوئے۔ مورچے آمنے سامنے تھے۔ انھوں نے وہاں سے آوازیں لگانا شروع کیں۔ کہتے تھے، تم بچے ہو،، تمھارے منھ سے ماں کا دودھ ابھی سوکھا نہیں ہے، ہتھیار ڈال دو۔ ہم نے کہا کہ مر جائیں گے، ہتھیار نہیں ڈالیں گے۔ چھ مہینوں تک ہمیں پتہ نہیں تھا، نیند کس چیز کا نام ہے، آرام کیا چیزہے۔ بچھانے کے لیے کچھ نہیں تھا، کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ البتہ کارتوس ہمارے پاس بہت تھے، اور ڈی وی گن تھے اور ایک امریکی برین گن تھے۔ اس کا منھ چوڑا ہوتا ہے۔ 11 مہینے اس طرح ہوتا رہا۔ وہ کبھی فتح نہیں حاصل کر سکے۔ ہم سات لوگ ایک مورچے میں تھے۔ وہ گرینیڈ مارتے تھے۔ وہ ہمیں کہتے تھے، 'بلتی آج کیا کھایا ہے؟' ہمارے پاس صرف آٹا تھا۔ ہم برف پگھلا کر کٹورے میں ڈالتے تھے اور اس میں آٹا ڈال کر اسے پیتے تھے۔ کبھی کبھار گرم کر کے موٹی روٹی بنا لیتے تھے۔ ہمیں پتہ نہیں تھا کہ پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ کھانے کے لیے کچھ نہیں تھا۔ صرف آٹا بہت تھا۔ نمک بھی سمندری تھا۔ (ہمارے کپڑے پھٹ گئے اور ہم) بےپردہ ہو گئے۔ کسی کے پاس دری ہے تو بوری سینے والے سوئے سے کاٹ کر انڈورویئر بنا لیتے تھے۔ اور کچھ نہیں تھا۔ اتنی برف گرتی تھی۔ تھوک پھینکو تو وہ بنٹے کی طرح نیچے گرتا تھا۔ ہم برف میں پاؤں مار مار کر اوپر جانے کے لیے راستہ بناتے تھے۔ دشمن کے پاس سامان تھا۔ برانڈی تھا۔ وہ اپنی لاشیں بھی گھسیٹ کر لے جاتے تھے کہ کہیں ہمارے ہاتھ ان کی جیکٹیں یا بوٹ نہ لگ جائیں۔ ہمیں صرف دستانے ملے۔ ہمارے پانچ شہید ہوئے۔ وہ بھی دھوکے سے۔ کبھی یہ نہیں سوچتا۔ کبھی کوا چلاتا تھا، سب خوش ہوتے تھے کہ کچھ خبر آئے گی۔ ہمارے پاس وائرلیس بھی نہیں تھا۔ وہیں سے نیپال کو راستہ جاتا تھا۔ ہم نے ادھر ایک مورچہ بنایا۔ ایک دو مہینہ وہاں ٹھہرے۔ ایک دن سب سے میٹنگ کی۔ کسی نے کہا بھاگ جاتے ہیں۔ ہمارے لوگ تقسیم ہو گئے آپس میں مخالفت ہو گئی۔ (کچھ نے کہا کہ چھپ کر فرار ہو جاتے ہیں۔) خود میں اس کے خلاف ہوا۔ میں نے کہا ہم لوگ برف میں دھنس جائیں گے۔ نہ دنیا ملے گی نہ قیامت۔ ادھر ہی مریں گے۔ آخر مشورہ کر کے تین آدمیوں کو بھیج دیا کہ پتہ چلاؤ کیا ہو رہا ہے۔ وہ چھپتے چھپاتے کسی طرح سکردو جا پہنچے۔ وہاں جا کر انھوں نے بتایا کہ پدم پارٹی والے ابھی زندہ ہیں۔ سکردو والوں نے تحقیقات کیں۔ پھر گلگت ہیڈکوارٹر کو اطلاع ہوئی۔ (ہیڈکوارٹر نے انڈیا سے بات کی اور انھوں نے بھی ہمیں جانے دینے کے لیے ہامی بھر لی۔) انھوں نے ہمیں چھڑوانے کے لیے ایک آدمی واپس بھیجا۔ اس طرح 11 مہینے کے بعد ہمیں وہاں سے گلوخلاصی ملی۔ انڈیا والوں نے ہمارے اعزاز میں ایک جلسہ کیا۔ ایک پورے میلے کا اہتمام کیا۔ اس میں نشانہ بازی کا مقابلہ ہوا تو ہم جیت گئے۔ ان کے میجر نے مجھے شاباش دی۔ مجھے اتنا چھوٹا دیکھ کر سب پاگل ہو جاتے تھے کہ یہ کیسے لڑا ہے۔ اللہ نے مجھے ایسی ہمت اور طاقت دی کہ میں موت کے بارے میں سوچتا بھی نہیں تھا۔ واپس آنے کے بعد۔ 21 توپوں کی سلامی دی گئی۔ بڑے احترام کے ساتھ ہمیں لایا گیا۔ سرحد سے یہاں تک ہمارا پیر زمین پر نہیں لگنے دیا۔ لوگوں نے کہا کہ پاکستان بن گیا ہے۔ ہم نے پوچھا پاکستان کیا ہے؟ یہاں سب لوگ رو رو کر فاتحہ پڑھ بیٹھے تھے۔ جب انھیں خبر ہوئی تو بارڈر تک ہمارے لوگ آئے ہوئے تھے۔ میرے گاؤں والے۔ نعرے لگا رہے تھے۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ اس کے بعد ہمیں کہا گیا کہ لیاقت علی خان آپ سے ملیں گے۔ ہمیں پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہیں۔ خیر، ہمیں کہا گیا کہ آپ سے وہ کراچی میں ملیں گے۔ ہمیں سفید کپڑے پہنا کر ڈکوٹا جہاز میں بٹھایا گیا، لیکن رستے میں کہا گیا کہ جہاز کراچی نہیں جائے گا، بلکہ گلگت اترے گا، کیوں کہ لیاقت علی خان صاحب خود گلگت آ رہے ہیں۔ وہاں دوسرے دن لیاقت علی خان صاحب آ گئے۔ ہمیں گورنر ہاؤس میں ٹھہرایا گیا۔ وہ جناح کیپ پہن کر آئے تھے۔ لیاقت علی خان نے مجھے چھوٹا بچہ سمجھ کر پرچ سے بسکٹ لے کر میرے منھ میں ڈال دیا۔ لیاقت علی خان پدم پارٹی کے ارکان سے ملنے کے لیے خود گلگت گئے اور انھیں اپنی جیب سے دس ہزار روپے انعام دیا پھر انھوں نے دس ہزار روپے دیے، مجھے نہیں، ساری پارٹی کو۔ اور کہا کہ یہ سرکاری پیسہ نہیں ہے، بلکہ میری جیب سے ہے، یہ آپ لوگوں کو انعام ہے۔ اس کے بعد جیسے غبارے کی ہوا پھٹ گئی۔ پھر کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہمیں فوج میں شامل تو کیا گیا لیکن پھر تتر بتر کر دیا گیا۔ کوئی ادھر پھینک دیا، کوئی ادھر پھینک دیا۔ پتہ نہیں کیا مقصد تھا اس کا۔ انڈیا میں ہمیں لوگوں نے کہا تھا کہ آپ کو وکٹوریا کراس ملے گا۔ لیکن کچھ نہیں ملا۔ آخر میں نے تنگ آ کر نوکری چھوڑ دی۔ میں ڈسچارج آدمی ہوں، پنشن یافتہ نہیں ہوں۔
science-54597964
https://www.bbc.com/urdu/science-54597964
کیا ٹھنڈے پانی میں تیراکی سے ذہنی مرض ڈیمنشیا کا علاج ممکن ہے؟
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق کے مطابق ٹھنڈے پانی میں تیراکی سے دماغ بھلکڑ پن جیسی متعدد بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
شمالی لندن کے علاقے پارلیمنٹ ہل لڈو میں سردیوں میں باقاعدگی سے تیراکی کرنے والے غوطہ خوروں کے خون سے کولڈ شاک پروٹین کی موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔ تحقیق کے دوران پتا چلا کہ یہ پروٹین ڈیمنشیا کی بیماری کو نہ صرف جلد ہونے سے روکتی ہے بلکہ اگر کوئی نقصان ہوا ہو تو اس میں بہتری لے کر آتی ہے۔ پروفیسر گیوانا مالوشی جو کیمبرج یونیورسٹی میں یو کے ڈیمینشا سینٹر کے سربراہ ہیں کا کہنا ہے کہ یہ ریسرچ محققین کو ڈیمینشیا کی بیماری کا دوائی کے ذریعے علاج تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو گی، جس سے اس بیماری سے نجات حاصل کی جا سکے گی۔ اگرچہ یہ تحقیق حوصلہ افزا ہے مگر ابھی یہ بہت ابتدائی مرحلے پر ہے۔ یہ تحقیق ممالیا میں ہائبرنیشن کی صلاحیت کو مرکوز کرتی ہے جس میں سردی سے بڑھوتری ہو جاتی ہے۔ برطانیہ میں دس لاکھ سے زائد ڈیمنشیا کے مریض ہیں جن کی تعداد 2050 تک دُگنا ہونے کے امکانات بتائے جاتے ہیں۔ محققین ابھی اس بیماری کے علاج کے لیے نئے طریقے ڈھونڈ رہے ہیں کیونکہ موجودہ طریقہ علاج بہت محدود پیمانے پر قابل عمل ہے۔ ڈاکٹرز کئی دہائیوں سے اس بات سے واقف ہیں کہ لوگوں کا درجہ حرارت کم کر کے یعنی انھیں ٹھنڈا کر کے ان کے دماغ کا تحفظ یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے ڈیمنشیا: کیا پاکستان آنے والے وقت کے لیے تیار ہے؟ 35 برس کے ہو گئے تو بلڈ پریشر پر نظر رکھیں صحت بہتر بنانے کے چند آسان طریقے سر پر زخم کی صورت میں یا وہ جن کا دل کا آپریشن کرنا ہوتا ہے انھیں اکثر سرجری کے دوران ٹھنڈا کیا جاتا ہے۔ یہی طریقہ بچوں کے علاج کے دوران بھی اختیار کیا جاتا ہے۔ ابھی اس بات کا صیحح علم نہیں ہے کہ سردی سے ایسے حفاظتی اثرات کیسے مرتب ہوتے ہیں۔ ڈیمنشیا کے ساتھ اس کا تعلق دماغ میں پیدا ہونے والے خلیوں اور اس دوران ہونے والے بگاڑ سے ہے۔ الزئمر اور دماغ سے متعلق دیگر بیماریوں کے دوران دماغ کے اندر اس قسم کے کنکشن کا رابطہ منقطع ہو جاتا ہے، جس سے یادداشت متاثر ہوتی، تذبذب اور رویے میں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔ اور اس سے دماغ کے تمام سیل بھی مر سکتے ہیں۔ پروفیسر مالوشی کے مطابق دماغ کا کنکشن اس وقت ختم ہو جاتا ہے جب ہائبرنیٹنگ جانور جیسے سہہ، ریچھ اور چمگادڑیں سردیوں کی نیند میں چلے جاتے ہیں۔ تقریباً 20 سے 30 فیصد تک ان کے اجسام قیمتی ذرائع محفوظ کر لیتے ہیں۔ جب یہ جانور بہار میں جاگتے ہیں تو دماغ کے یہ کنکشن معجزانہ طور پر بہتر ہو جاتے ہیں۔ سرد ہونا کیوں خطرناک ہوتا ہے؟ سردی انسانی جسم پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ سرد پانی میں داخل ہونے کے شاک کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے اور فشار خون میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس صورتحال میں بیماریوں کے شکار لوگوں کو فالج کا حملہ یا دل کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ اس طرح سرد پانی میں تیراکی سے سانس پھول سکتی ہے اور اگر پانی منھ سے اندر چلا جائے تو پھر ڈوبنے کے بھی امکانات ہیں۔ جب کوئی زیادہ وقت ٹھنڈے پانی میں گزارتا ہے تو یہ رسپانس سست روی کا باعث بن جاتا ہے۔ لوگ تذبذب اور عجیب طبیعیت کا شکار ہو سکتے ہیں اور پانی سے باہر نکلنا ان کے لیے ایک مشکل ٹاسک بن سکتا ہے۔ پورٹسماؤتھ یونیورسٹی کی ایکسٹریم انوائرمنٹس لیبارٹری کے ڈاکٹر ہیتھر میسی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے کچھ اہم باتیں ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے۔ ٹھنڈے پانی میں غوطہ مارنے سے قبل اس بات کی تسلی کر لیں کہ آپ فٹ اور صحتمند ہیں۔ ایسے دوسرے افراد کے ساتھ ہی تیراکی کریں جو ٹھنڈے پانی میں تیراکی کرتے ہیں اور اس حوالے سے درپیش رکاوٹوں سے بھی شناسائی رکھتے ہوں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ سردی محسوس کرتے ہیں تو پھر پانی سے باہر نکل آئیں۔ کسی محفوظ جگہ پر چلے جائیے، گیلے کپڑوں کو جتنا ممکن ہو سکے گرم اور خشک کپڑوں سے تبدیل کیجیے۔ ہیٹ اور دستانے بھی پہن لیں۔ ادھر ادھر گھومتے رہیں، ہلکی پھلکی ورزش کر لیں اور کپکپی سے نہ ڈریں یہ آپ کو گرم رکھنے میں مدد دے گی۔ ڈاکٹر میسی کے مطابق گرم پانی سے نہ نہائیں۔ ان کے مطابق جب آپ گرم ہو رہے ہوتے ہیں تو آپ کے بلڈ پریشر میں تبدیلی رونما ہو رہی ہوتی ہے، جس سے آپ بے ہوش ہو سکتے ہیں اور آپ اس سے زخمی بھی ہو سکتے ہیں۔ کولڈ شاک کیمیکلز کیمبرج یونیورسٹی کی ٹیم نے 2015 میں یہ دریافت کیا کہ کولڈ شاک کیمیکلز اس عمل کو مزید تیز کر دیتے ہیں۔ انھوں نے معمولی چوہوں اور الزائمر کی بیماری اور چوہوں (نیورو ڈیجنریٹو) مرض کے ساتھ چوہوں کو اس حد تک ٹھنڈا کیا کہ جہاں تک کہ وہ ’ہائپوتھرمک‘ بن گئے یعنی ایسی کیفیت میں چلے گئے جب ان کے جسم کا درجہ حرارت 35 سینٹی گریڈ سے کم بھی تھا۔ دوبارہ حرارت ملنے پر انھیں معلوم ہوا کہ صرف عام چوہے اپنی دوسری شکل دوبارہ تیار کر سکتے ہیں جبکہ الزاہمر اور پرین چوہے ایسا نہ کر سکے۔ انھوں نے یہ بھی دریافت کیا کہ کولڈ شاک پروٹین جو آر بی ایم تھری کہلاتی ہے وہ عام چوہوں میں تو پائی جاتی ہے مگر دوسرے چوہوں میں یہ نہیں ہوتی۔ نئے کنکشنز کے لیے آر بی ایم تھری بہت اہم ثابت ہو سکتی ہے۔ ماہرین نے لنک کو ایک علیحدہ تجربے میں ثابت کیا جس میں بتایا گیا تھا کہ الزائمر میں دماغی خلیوں کی ہلاکت اور چوہوں میں آر بی ایم تھری کی سطح کو مصنوعی طور پر اضافے سے پرین بیماری کو روکا جاسکتا ہے۔ یہ دریافت ڈیمنشیا کی بیماری کے علاج سے متعلق تحقیق میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے اور ماہرین کے یہ نتائج سائنسی جریدے ’نیچر‘ میں بھی شائع ہوئے ہیں۔ سردیوں میں تیراکی کرنے والے پروفیسر مالوچی کے خیال میں ایسی دوائی جس کی وجہ سے آر بی ایم تھری کی پیداوار لوگوں میں کچھ نیورو اضطرابی (ڈی جنریٹو) بیماریوں کی ترقی کو سست ممکنہ طور پر جزوی یا ریورس بھی کر دے گی۔ بی ایم تھری انسانی جسم میں نہیں مل سکا۔ اب اگلا چیلنج یہی معلوم کرنا ہے کہ آیا انسانی آبادی میں یہ پروٹین پایا بھی جاتا ہے یا نہیں۔ بی بی سی ریڈیو 4 کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پروفیسر مالوچی نے وضاحت کی کہ وہ یہ جاننا پسند کریں گی کہ آیا آر بی ایم تھری انسانوں میں پایا جاتا ہے یا نہیں۔ تاہم یہ اخلاقی گائیڈ لائنز اس امر کو مشکل بنا دیں گے کہ لوگوں کو ہائپر تھرمک کرنے سے قبل ان کی اجازت حاصل کی جائے۔ مزید پڑھیے فٹ بال: سکاٹ لینڈ میں ہیڈنگ پر پابندی پورے شہر کی صحت بہتر کرنے کا انوکھا ’کامیاب‘ تجربہ مارٹن پیٹ، ایک چھوٹے سے گروپ کے ایک رکن ہے، جو لندن میں ہیمپسٹ سٹیٹ ہیتھ پر ٹھنڈے پانی میں سخت سردی کے موسم میں تیراکی کرتے ہیں۔ وہ اور ان کے ساتھ دیگر تیراکوں نے انھیں ای میل پر اطلاع دی کہ وہ رضاکارانہ طور پر اپنے آپ کو ہائیپو تھرمک بنا دیتے ہیں یعنی اپنے جسم کا درجہ حرارت کم کر دیتے ہیں لہٰذا وہ اس مطالعے کے لیے اہم ثابت ہو سکتے ہیں۔ پروفیسر مالوچی نے ان کی درخواست کو منظور کر لیا اور سال 2016، 2017 اور 2018 میں ان کے ماتحت کام کرنے والے ماہرین نے سردیوں میں تیراکی کرنے والے اس گروپ میں پروٹین دریافت کرنے کے لیے ٹیسٹ کیے۔ ماہرین نے تائی چائی کلب کے ان ارکان پر بھی تجربہ کیا جو سوئمنگ پول کے باہر پریکٹس کرتے ہیں مگر وہ خود کبھی تیراکی نہیں کرتے۔ کیمبرج یونیورسٹی کی ٹیم نے یہ دریافت کر لیا کہ ان تیراکوں کی بڑی تعداد میں آی بی ایم تھری موجود تھا۔ یہ سب ہائیپو تھرمک بن گئے یعنی ان کے جسم کا درجہ حرارت 34 درجہ سینٹی گریڈ سے بھی کم ہو گیا۔ تائی چائی گروپ کے کسی بھی رکن میں آر بی ایم تھری کا لیول بڑھا ہوا نہیں پایا گیا اور نہ ہی ان کے اجسام کا درجہ حرارت اتنا کم ہوا۔ کیا سردی ڈیمنیشا کو کم کر سکتی ہے؟ کیمبرج کے ماہرین نے ابھی تک جو تحقیق سردیوں میں تیراکی کرنے والوں پر کی ہے اسے لیکچر کی صورت میں بتایا ہے مگر ابھی تک اس کام کو کسی سائنسی جریدے میں شائع نہیں کیا ہے۔ کئی اور ماہرین نے بھی انسانوں اور ان کے بچوں میں آر بی ایم تھری کے لیول کی موجودگی کا پتا چلایا ہے۔ اسی طرح جب دل کے مریض یا سٹروک کے مریضوں کے جسم کا درجہ حرارت کم کیا گیا تو ان میں بھی اس پروٹین کی تصدیق ہوئی ہے۔ پروفیسر مالوچی کہتی ہیں کہ ممالیہ کے ہائیبرنیٹ کرنے کی طرح انسان بھی کولڈ شاک پروٹین پیدا کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بات ذہن میں رکھنے کے قابل ہے کہ سردی سے وابستہ خطرات کسی بھی ممکنہ فوائد سے کہیں زیادہ ہیں لہٰذا ٹھنڈے پانی سے نہانہ یقینی طور پر دماغی بیماری کا کوئی مصدقہ علاج نہیں ہے۔
050803_miandad_valima_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2005/08/050803_miandad_valima_as
میانداد کے بیٹے کا ولیمہ
جاوید میانداد نے اپنے بیٹے کے ولیمے میں صدر پرویز مشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز سمیت تمام اعلیٰ سرکاری شخصیات کو مدعو کیا ہے۔ یہ دعوت چار اگست کو کراچی کے بڑے ہوٹل میں رکھی گئی ہے۔
میانداد کے بیٹے جنید کی شادی داؤد ابراہیم کی بیٹی ماہ رخ کے ساتھ تیئس جولائی کو دبئی میں ہوئی تھی۔ جاویدمیانداد کا کہنا ہے کہ انہوں نے صدر سمیت تمام اعلیٰ شخصیات کو دعوت نامے بھیجے ہیں۔ میانداد بھارتی میڈیا سے سخت ناراض ہیں ان کا کہنا ہے کہ بھارتی میڈیا نے منفی انداز اختیار کرکے زبردست پروپیگنڈہ کیا جس کی وجہ سے ان کے کئی بھارتی دوست شادی کی تقریب میں شرکت نہ کرسکے کیونکہ انہیں خوف میں مبتلا کردیا گیا تھا۔ شادی کی طرح ولیمہ بھی مکمل فیملی دعوت ہے جس میں میڈیا کے لوگ میانداد کے دوست کی حیثیت سے شرکت کرینگے۔ انہیں تصاویر بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ شادی کی تقریب کی تصاویر یا فلم بھی ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ میانداد یہ بتانے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتے کہ داؤد ابراہیم ولیمے میں موجود ہونگے یا نہیں؟ بھارتی میڈیا کا کہنا ہے کہ شادی کی تقریب میں تمام تر سکیورٹی کے باوجود داؤد ابراہیم نے اس میں شرکت کی تھی۔
051018_nabi_killed_rza
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/10/051018_nabi_killed_rza
بھارتی کشمیر کے وزیرِ تعلیم قتل
حکام کے مطابق بھارت کے زیرِانتظام کشمیر میں شدت پسندوں نے تعلیم کے وزير غلام نبی لون کو گولی مار کر ہلاک کر دیا ہے۔ پولیس نے اس حادثہ میں ایک سکیورٹی گارڈ سمیت ایک شدت پسند کی ہلاکت کی بھی تصدیق کی ہے۔
پولیس اہلکاروں نے بتایا ہے کہ یہ واقعہ شہر کے انتہائی پہرے والے علاقہ تلسی باغ میں پیش آیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ منگل کی صبح دو شدت پسندوں نے وزير تعلیم کے گھر کے سامنے گولیاں چلانی شروع کر دیں ۔ فائرنگ میں مسٹر لون کے پڑوسی مارکسوادی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما یوسف تارگامی کا ایک ذاتی محافظ ہلاک ہو گیا۔ تاہم جب مسٹر تارگامی کے دوسرے گارڈ نے جواب میں گولیاں چلائیں تو اس میں ایک شدت پسند مارا گیا ۔ اس کے بعد ایک شدت پسند مسٹر لون کے گھر میں داخل ہوگیا اور ان پر مسلسل گولیاں چلانے لگا۔ مسٹر لون کوجب زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا جا رہا تھا تو راستے میں ہی انہوں نے دم توڑ دیا۔ ریاستی حکومت نے پورے علاقے میں چھٹی کا اعلان کر دیا ہے۔ لیکن زلزلے سے متاثرہ علاقوں میں امدادی کاورائی جاری رکھنے کا حکم دیا ہے۔ آٹھ اکتبور کے زلزلے کے بعد وادی میں شدت پسندی کا یہ سب سے بڑا واقعہ ہے۔
071108_ppp_arrests_update2_si
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/11/071108_ppp_arrests_update2_si
لانگ مارچ کے اعلان کے بعد سینکڑوں پی پی پی کارکن گرفتار
پاکستان کے مختلف حصوں میں پولیس نے پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے اور سینکڑوں کارکنوں کو ان کے گھروں میں چھاپے مار کر حراست میں لے لیا گیا ہے۔
لاہور سے ہمارے نامہ نگار علی سلمان کے مطابق پیپلز پارٹی پنجاب کی ترجمان فرزانہ راجہ نے کہا ہے پنجاب بھر سے ان کے ایک ہزار سے زائد کارکن گرفتار ہوچکے ہیں اور پولیس مسلسل کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ گھر گھر سے ٹیلی فون آرہے ہیں اور گرفتاریوں کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ترجمان نے کہا کہ گرفتاریاں پورے ملک میں ہورہی ہیں اور ان کی اطلاعات کے مطابق سندھ سے بھی چھ سو سے زائد گرفتار ہو چکےہیں۔ اطلاعات کے مطابق سب زیادہ تعداد میں کارکن راولپنڈی سے پکڑے گئے جن کی تعداد سوسے زائد بتائی جاتی ہے۔ لاہور پولیس کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ لاہور سے اسی کے قریب کارکن گرفتار کیے گئے ہیں، ضلع گوجرانوالہ سے اٹھاسی، سیالکوٹ سے چھیالیس گرفتار ہوئے، فیصل آباد سے دیگر کارکنوں کے علاوہ ایک رکن پنجاب اسمبلی اصغرعلی قیصر کے حراست میں لیے جانے کی بھی اطلاع ہے۔ گوجرانوالہ میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ ہولڈر اور مقامی یونین کونسلوں کے ناظم اور کونسلر بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں البتہ صوبائی اور ضلعی سطح کے کسی عہدیدار کی گرفتاری کی اطلاع نہیں ملی۔ تھانوں میں بھی دیگر پارٹیوں اور وکلاء قیدیوں کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے ساتھ نسبتا نرم رویہ روا رکھا گیاہے۔ اسلام آباد میں بار کا ہنگامی اجلاساسلام آباد میں ہمارے نامہ نگار ہارون رشید کے مطابق پاکستان میں وکلاء کی نمائندہ تنظیم پاکستان بار کونسل نے بڑی تعداد میں وکلاء نمائندوں کو جیلوں میں مبینہ طور پر انتہائی خراب حالت میں رکھنے کی مذمت کی ہے۔ بار کونسل کی جانب سے جاری ایک بیان میں الزام لگایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے صدر اعتزاز احسن اور نائب صدر طارق محمود کو اڈیالہ اور ساہیوال جیلوں میں قید تنہائی میں رکھا جا رہا ہے، ایسو سی ایشن کے سابق صدر منیر اے ملک کو اٹک جیل جبکہ علی احمد کُرد کو سہالہ ریسٹ ہاؤس میں مبینہ طور پر آئی ایس آئی کے اہلکار تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ ایک اور رہنما امداد علی اعوان کو ادویات مہیا نہیں کی جا رہی ہیں۔ تاہم ان الزامات کی تصدیق کے لئے سرکاری اہلکاروں سے رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔ بار کے نائب چیئرمین مرزا عزیز بیگ اور اراکین سید قلب حسن اور حامد خان کے دستخط سے جاری کیے گئے بیان میں وکلاء اور ذرائع ابلاغ کے احتجاجی جذبے کی بھی تعریف کی گئی ہے۔ اسلام آباد میں ہمارے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق جمعرات کے روز اسلام آباد ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کا بھی ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کی شدید مذمت کی گئی اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئین اور برطرف کیے گئے ججوں کو فوری طور پر بحال کرے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان بار کونسل کے ہر فیصلے کا احترام کیا جائے گا اور ہڑتال کےضمن میں کونسل جو بھی فیصلہ کرے گی ڈسٹرکٹ بار اُس کا احترام کرے گی۔اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت سے آئین اور ججوں کی بحالی تک مذاکرات نہیں ہوں گے۔ اجلاس کے بعد وکلاء کی بڑی تعداد نے کچہری کے احاطے میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نےبینرز اور کتبے اُٹھا رکھے تھے جن پر ملک میں ایمرجنسی اور نئے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے ججوں کے خلاف نعرے درج تھے۔ وکلاء نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی بعدازاں وکلاء احتجاج کے بعد پرامن طور پر منتشر ہوگئے ۔ پولیس کی بھاری نفری ضلع کچہری کے اردگرد موجود تھی۔ دوسری طرف ایمرجنسی کے نفاذ کے پانچویں روز بھی شاہراہ دستور اور سپریم کورٹ کا علاقہ عوام کے لیے نو گو ایریا بنا ہوا ہے اور کسی کو بھی اس علاقے میں جانےکی اجازت نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی انتظامیہ نے ان وکلاء کو جنہو ں نے مقدمات کی پیشی کے سلسلے میں عدالت میں پیش ہونا تھا ان کو انٹری پاسز جاری کیے ہیں۔ سندھ کے شہروں میں شٹر ڈاؤنکراچی سے ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل کے مطابق شہر میں مزید وکلاء کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے گئے ہیں جن میں سے کچھ کو گرفتاری بھی کرلیا گیا ہے۔ پاکستان بار کونسل کے رکن یاسین آزاد نے بتایا کہ جنرل باڈی کےاجلاس کے بعد جسٹس ریٹائرڈ ابو الانعام کو بار روم سے نکلتے ہیں گرفتار کرلیا گیا، جبکہ سینئر وکلا عبدالحفیظ لاکھو، اختر حسین، محمود الحسن اور ان سمیت آٹھ وکلا کی ایم پی او کے تحت گرفتاری کے احکامات جاری کیےگئے ہیں۔ یاسین آزاد نے بتایا کہ وہ اس وقت بار روم میں موجود ہیں اور یہاں سے نکل کر گرفتاری پیش کردیں گے جبکہ خدشہ ہے کہ دیگر وکلاء کو ان کے گھروں سے گرفتار کرلیا جائیگا۔ واضح رہے کہ ہائی کورٹ بار کے عہدیداروں کی گرفتاری کے بعد ان وکلاء نے ایک کمیٹی بنائی تھی جو تمام فیصلوں کی مجاز تھی اور وکلاء تحریک کو آگے لیکر چل رہی تھی۔ دوسری جانب وکلاء کے حاضر نہ ہونے پر عدالتوں نے مقدمات خارج کرنا شروع کردیا ہے، یاسین آزاد نے کہا کہ موکلوں کا دباؤں بڑھ رہا ہے اور وکلا نے انہیں کہا ہے کہ وہ خود جاکر عدالتوں میں پیش ہوں۔ پاکستان میں ایمرجنسی کے نفاذ اور بنیادی انسانی حقوق کی معطلی کے خلاف سندھ کی کئی شہروں میں جمعرات کو شٹر بند ہڑتال ہے اور سخت انتظامات کیے گئے ہیں۔ قوم پرست جماعت سندھ ترقی پسند پارٹی کی جانب سے ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا، جس کا دیگر قوم پرتس جماعتوں کے ساتھ جماعت اسلامی نے بھی حمایت کی تھی، کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد یہ پہلا بڑا احتجاج ہے۔ بینظیر بھٹو کے آبائی شہر لاڑکانہ سمیت جیکب آباد، گھوٹکی، عمرکوٹ، ٹنڈو محمد خان، جامشورو، سمیت کئی شہر مکمل طور بند ہیں، جبکہ میر پور خاص، نوابشاھ میں جزوری ہڑتال رہی ہے۔ صوبے کے دونوں بڑے شہروں کراچی اور حیدرآباد میں سندھی آبادی والے علاقوں میں کاروبار بند رہا ہے۔ آٹھ وکلاء کے خلاف بغاوت کا مقدمہکراچی میں ہمارے نامہ نگار عباس نقوی کے مطابق کراچی پولیس نے سٹی کورٹ کے آٹھ وکیلوں کے خلاف ملک سے بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا ہے۔ پولیس مقدمے میں نامزد وکیلوں کو گرفتار کرنے کے لئے چھاپے مار رہی ہے۔ سٹی کورٹ تھانے کے ایس ایچ او کی جانب سے دائر کی گئی ایف آئی آر نمبر 114 پاکستان پینل کورٹ کی دفعہ 124 اے 34 کے تحت درج کی گئی جو بغاوت کے زمرے میں آتی ہے جو قانوں کے تحت ناقابلِ ضمانت جرم ہے۔ سٹی کورٹ پولیس کے مطابق مقدمے میں نامزد وکیلوں میں مقبول الرحمان ایڈوکیٹ، جاوید تنولی ایڈوکیٹ، صابر تنولی ایڈوکیٹ، محمد اسلم بھٹہ ایڈوکیٹ، مسعود الرحمان ایڈوکیٹ، عمران خان ایڈوکیٹ، خرم ایڈوکیٹ اور خاتون وکیل جمیلہ منظور شامل ہیں۔ مقدمے کے تفتیشی افسر انسپکٹر چوہدری نظیر کا کہنا ہے کہ نامزد وکلاء نے چھ نومبر کو اپنے رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد ایک میٹنگ منعقد کی تھی جس میں اُنہوں نے ایک پمفلیٹ بنا کر وکلاء میں تقسیم کیا تھا جس میں ملک میں لگنے والی ایمرجنسی اور موجودہ حکومت کے خلاف مواد تحریر کیا گیا تھا۔ پولیس افسر کے مطابق پمفلیٹ میں تحریر تھا کہ ایمرجنسی صرف عدلیہ کے خلاف لگائی گئی ہے جبکہ وزیرِ اعظم اور دیگر لوگ بدستور اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ پولیس کے مطابق بغاوت کے مقدمے میں نامزد وکلاء نے ملک کے موجودہ حالات میں بیرونی قوتوں سے مداخلت کی بھی اپیل کی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ نامزد تمام وکیل فرار ہوگئے ہیں جن کی گرفتاری کے لئے کراچی بار ایسوسی ایشن اور اُن کے نجی دفاتر پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔واضح رہے کہ ایمرجنسی کے بعد یہ پہلی ایف آئی آر ہے جو پولیس نے وکلاء کے خلاف بغاوت کے الزامات کے تحت درج کی ہے۔ پشاور میں عدالتوں کا بائیکاٹ ملک کے دیگر حصوں کی طرح صوبہ سرحد میں بھی ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف عدالتوں کا بائیکاٹ اور سیاسی جماعتوں کی سے طرف احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ پشاور ہائی کورٹ میں دو عدالتیں سارا دن کھلی رہیں جس میں عبوری آئینی حکم کے تحت حلف لینے والے جج موجود رہے لیکن سرکاری وکلاء کے علاوہ کوئی وکیل عدالت میں حاضر نہیں ہوسکا۔ پشاور ہائی کورٹ کی عمارت کے اندر وکلاء نے پولیس کی سخت سکیورٹی میں ایک جلسے کا اہتمام بھی کیا جس میں وکلاء تنظیموں کے نمائندوں نے پاکستان بھر میں وکلاء کی بڑی تعداد میں حراست کی سخت الفاظ میں مزمت کی۔ اس کے علاوہ پشاور ہائی کورٹ کے عمارت کے اندر ایک بھوک ہڑتالی کیمپ بھی لگایا گیا ہے جو صبح سے لیکر عدالتوں کا وقت ختم ہونے تک جاری رہتا ہے۔ کیمپ میں ایک درجن کے قریب وکلاء موجود رہے۔ پشاور ہائی کورٹ کے اندر اور باہر گزشتہ دنوں کے مقابلے میں اج سخت حفاظتی اقدامات کیے گئے تھے۔ ہائی کورٹ کے برامدے اور عدالتوں کے دروازوں پر پولیس کے اہلکار بڑی تعداد میں موجود تھے جبکہ ہائی کورٹ کے عمارت باہر بھی بھاری نفری تعینات تھی۔
vert-tra-52100241
https://www.bbc.com/urdu/vert-tra-52100241
کورونا وائرس دنیا کی ثقافتوں کے متعلق کیا بتاتا ہے؟
کہا جاتا ہے کہ انسان کا صحیح کردار کسی بحران کے دوران کھل کر سامنے آتا ہے۔ اگر کورونا وائرس کی وبا نے ہمیں ابھی تک کچھ سکھایا ہے تو یہی بات کسی ملک کے متعلق بھی کہی جا سکتی ہے، یعنی کسی ملک کا کردار بھی بحران کے دوران ہی کھل کر سامنے آتا ہے۔
جیسے جیسے دنیا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے گھروں تک محدود ہوتی جا رہی ہے، اس دوران سامنے آنے والی سب سے دلچسپ چیز یہ ہے کس طرح مختلف شہر اور ملک اس وبا کا سامنا کرنے کے لیے نت نئے تخلیقی، نرالے اور متاثر کُن طریقے استعمال کرتے ہوئے اپنا اپنا ’کوارنٹائن کلچر‘ (الگ تھلگ ہونے کی ثقافت) پیش کر رہے ہیں۔ اٹلی میں ’سیلف آئیسولیشن‘ یا خود ساختہ تنہائی اختیار کرنے والے شہریوں کو ان کی بالکونیوں میں اوپیرا پرفارم کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔ بیلجیئم کے مشہور ’فریٹیریز‘ ابھی بھی فرنچ فرائز بیچ رہے ہیں۔ اور سارے سکینڈینیویا میں کچھ لوگ ابھی بھی سائیکلوں پر کام پر جا رہے ہیں۔ کئی طریقوں سے یہ عالمی وبا یہ بھی بتا رہی ہے کہ مختلف اقوام کن معاملات کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں اور اس طرح اس دوران اس ملک کا کردار بھی سامنے آ جاتا ہے۔ اس سے ہمیں سمجھ آتا ہے کہ کس طرح مختلف لوگ، ثقافتیں اور جگہیں دنیا کو اپنی اپنی خوبصورتی سے متنوع بناتی ہیں۔ کورونا وائرس کی علامات کیا ہیں اور اس سے کیسے بچیں؟ کورونا وائرس اور نزلہ زکام میں فرق کیا ہے؟ کیا کورونا وائرس کی وبا کے دوران سیکس کرنا محفوظ ہے؟ کورونا وائرس: سماجی دوری اور خود ساختہ تنہائی کا مطلب کیا ہے؟ ہم نے حال ہی میں اپنے کچھ نامہ نگاروں کو اپنے اپنے ممالک کا ’کوارنٹائن کلچر‘ کی تفصیل بیان کرنے کو کہا ہے جو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔ فرانس کاسیا ڈیٹز فرانس اپنی مشہور بیکریوں کے بغیر شاید کچھ بھی نہیں؟ اگرچہ بیرٹ (گول چپٹی ٹوپی) اب اتنا فیشن میں نہیں رہی، لیکن روایتی فرنچ ’بگیٹ‘ (فرانسیسی بریڈ) ہمیشہ مقبول رہے گا، یہاں تک کہ وبا کے دنوں میں بھی۔ اٹلی کے بعد فرانس نے بھی لاک ڈاؤن کے حوالے سے سخت اقدامات کیے ہیں جس کے تحت گھر سے باہر نکلنے والے ہر شخص پر لازم ہے کہ وہ انتظامیہ کو دستخط شدہ دستاویز دکھائے اور آگاہ کرے کہ وہ گھر سے باہر کیوں نکلا۔ فرانس میں تمام ’غیر ضروری‘ کاروبار بھی بند ہیں۔ سپر مارکیٹس اور دوائیوں کی دکانیں ضرورت کے اس وقت کھلی ہیں۔ فرانس کی وزارتِ صحت کی طرف سے جاری سرکاری حکم نامے میں 40 کاروباروں کو بھی بندش سے مثتثنیٰ قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہ کاروبار ملک میں زندگی کا پہیہ رواں رکھنے کے لیے بہت ضروری ہیں۔ ان میں بیکریاں، قصاب کی دکانیں، پنیر اور وائن کی دکانیں اور گلی کوچوں میں قائم تمباکو کی دکانیں شامل ہیں۔ اب بھی ہر صبح پیرس سے لے کر پرونس تک تقریباً 33 ہزار کھلی ہوئی بیکریوں سے نکلنے والی بھینی بھینی خوشبو فرانس کی ویران گلیوں کو مہکا رہی ہے۔ میری رہائش کے نزدیک واقع مقامی پیسٹری کی دکان سے لوگ اپنے معمول کے مطابق ہر صبح ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے تازہ بگیٹ لے کر جاتے ہیں۔ فرانس کی ’نیشنل کنفیڈریشن آف فرنچ پیٹیسری اینڈ بیکریز‘ (سی این پی بی ایف) کے صدر ڈومینیک اینٹریکٹ کے مطابق ’بگیٹ‘ فرانسیسی ثقافت کا نشان ہے۔ وہ فرانسیسی ثقافت میں بیکریوں کا کردار بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’بطور ایک چھوٹے بچے کے جس پہلی جگہ پر آپ اپنے بچپن میں بریڈ لینے جاتے ہیں وہ بیکری ہے۔ جبکہ بزرگوں کے لیے دن کے اوقات میں واحد انسانی رابطہ اکثر بیکرز ہی ہوتے ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ وبا کے دوران بیکریوں کو کھلا رکھنے کا مقصد بالکل ٹھیک ہے۔ ’فرانسیسی لوگوں کو کھانا مہیا کرنا کے لیے بیکریاں ایک بنیادی ضرورت ہیں، خاص کر ان فرانسیسوں کے لیے جو سپر مارکیٹس کے نزدیک نہیں رہتے۔‘ پیرس میں وائن بھی اتنی ہی قابلِ قدر ہے جتنا کہ آج کل ہینڈ سینیٹائیزر۔ فرینچ وائن انسٹرکٹر تھیئری جیون کہتے ہیں کہ ’فرانسیسی وائن کے بغیر کسی اچھے کھانے کا تصور ہی نہیں کر سکتے۔ یہ بالکل اسی طرح ہے کہ بریڈ کے بغیر کھانا کھایا جائے۔‘ کچھ مقامی دکانوں نے کوارنٹین میں رہنے والوں کے لیے ایک درجن اور آدھا درجن بوتلوں کا پیک گھر پر پہنچانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ سماجی دوری کی پریکٹس کی وجہ سے اگرچہ ہماری بوسہ لینے کی عادت رک رہی ہے، لیکن کوئی بھی وبا ہم سے زندگی کا مزہ نہیں چھین سکتی۔ جرمنی کرسٹین آرنیسن برلن میں رات کے اوقات میں زندگی (نائٹ لائف) بالکل افسانوی ہے۔ گذشتہ کئی دہائیوں سے ’ٹریسر‘ اور ’برگھین‘ جیسے نائٹ کلبوں نے شائقین میں اپنا ایک مقام بنایا ہوا ہے۔ لیکن حال ہی میں جرمنی کی حکومت کی جانب سے دو سے زیادہ افراد کے اکٹھے ہونے پر پابندی عائد کرنے کے فیصلے کے بعد سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ جمعہ کی رات (یا منگل، یا اتوار) کو پارٹی کہاں کریں۔ تو جواب ہے گھر پر۔ یہاں آتی ہے ’یونائیٹڈ وی سٹریم‘ (یو ڈبلیو ایس)۔ یہ برلن کلب کمیشن کا ایک حکومتی حمایت یافتہ اقدام ہے۔ برلن کلب کمیشن 245 کے قریب کلبوں اور کنسرٹ وینیوز کی ایک ایسوسی ایشن ہے۔ یو ڈبلیو ایس روزانہ کلبز کے فلورز سے ڈی جے سیٹس کے ذریعے ان لوگوں کے لیے میوزک لائیو سٹریم کرتی ہے جو گھروں میں بیٹھے ہیں۔ اگرچہ ہم عام طور پر کلبوں کے باہر رات دو بجے لائن بنا کر کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن یہاں لائیو سٹریمز شام سات بجے سے آدھی رات تک ہوتی رہتی ہیں اور دیکھنے والوں سے گذارش کی جاتی ہے کہ کوارنٹین کی وجہ سے متاثر ہونے والے کلبوں اور آرٹسٹوں کی مدد کریں۔ سنہ 1991 میں بننے والے ٹریزر کلب کے بانی دمیتری ہیجیمان کہتے ہیں ’یہ یو ڈبلیو ایس آن لائن پارٹی برلن کے کلبوں کے درمیان گہری یکجہتی کا مظاہرہ کرتی ہے اور اس بات کا بھی کہ ہم سب ایک ہی کشتی کے سوار ہیں۔‘ ہو سکتا ہے کہ اکثر لوگوں کو یہ غیر معمولی لگے لیکن برلن کی رہائشی کیئسا برجر کہتی یں کہ اپنے صوفے پر بیٹھے ہوئے، جبکہ آپ کا کتا بھی سات ہی اونگھ رہا ہوتا ہے، اپنے پسندیدہ ڈی جے کو سپن کرتے ہوئے دیکھنے کا مطلب ہے کہ دونوں دنیاؤں کا بہترین مزہ۔ ’میں نے واقعی اپنی پارٹی کا مزہ لیا۔ بلکہ ایک موقع پر تو میں اپنے کمرے میں ڈانس کر رہی تھی۔‘ وہ کہتی ہیں کہ آدھی رات کو سٹریم بند ہو جاتی ہے اور آپ سونے کے لیے جا سکتے ہیں اور اگلے دن آپ تروتازہ اٹھتے ہیں، شام سات بجے اگلے ورچوئل کلب کے لیے تیار۔‘ ریکل فیداتو جو مشہور برلن پارٹی ’پورنسیپچوئل‘ کے روح رواں ہیں وہ یو ڈبلیو ایس کو کمیونٹی کے اکٹھے ہونے کے طریقے کے طور پر دیکھتی ہیں۔ انھوں نے اپنے پارٹنر کے ساتھ مل کر حال ہی میں متے کے ایک کلب ’آلٹے مِنزے‘ سے ایک سیٹ سٹریم لائن کیا۔ انھوں نے کہا کہ ’اپنے ڈی جے فرینڈز کو دوبارہ پلے کرتا دیکھنے کا تجربہ بڑا روحانی تھا۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اگرچہ سکرین کے سامنے ڈانس کرنا ذرا عجیب لگا، لیکن میرے ذہن سے اس عجیب وقت کا دھیان نکل گیا جس سے ہم گزر رہے ہیں۔‘ چاہے یہ جتنا بھی عجیب وقت ہے لیکن برلن نائٹ لائف کی روح ابھی کہیں نہیں جا رہی، کم از کم اس وقت تک جب تک لوگ ورچوئل اکٹھے ہوتے رہیں۔ اور جب یہ وبا ختم ہو گئی تو؟ ہیجیمان کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں پتہ کہ زیادہ عرصے کے لیے کیا ہو گا۔ لیکن مجھے پتا ہے کہ (کووڈ 19) کے بعد، لوگ اپنی اپنی زندگی دوبارہ شروع کریں گے اور پارٹی بند نہیں ہو گی۔‘ انڈیا چاروکیسی رامادورائے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنے کے لیے انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندر مودی نے گذشتہ ہفتے 21 دن کے لیے دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں لاک ڈاؤن کے نفاذ کا اعلان کیا ہے۔ مودی نے لوگوں کو کہا کہ وہ گھروں کے اندر ہی رہیں۔ لوگ لاک ڈاؤن کی افادیت کو ابھی تک سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ کس طرح اپنی ضروری اشیا کی خریداری اور ادویات کی ضرورت پوری کریں گے۔ لیکن غسل خانے میں رفع حاجت کے بعد پانی کا استعمال کرنے والی قوم کو ابھی تک ٹوائلٹ پیپرز کی ذخیرہ اندوزی کی ضرورت نہیں پڑی۔ مودی کے اعلان کے فورا بعد انڈیا کے سب سے مشہور جوڑے، انڈین کرکٹ ٹیم کے کپتان وراٹ کوہلی اور ان کی اہلیہ انوشکا شرما، نے ٹوئٹر پر اپنے 55 ملین فالوورز کو بتایا کہ ’جو (حکومت کی طرف سے) بتایا گیا ہے وہ کریں اور متحد رہیں۔‘ تاہم انڈیا کے باشندوں کے لیے اگلے تین ہفتوں میں سب سے مشکل چیز اس بات کو سیکھنا ہے کہ کس طرح مناسب فاصلہ اختیار کر کے کھڑا ہوا جائے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم انڈیا والوں میں بہت سی دوسری خوبیاں ہوں لیکن قطار بنانا ان خوبیوں میں سے نہیں ہے۔ اتنی بڑی آبادی والے ملک میں ’پرسنل سپیس‘ یعنی ذاتی جگہ کا تصور تقریباً وجود ہی نہیں رکھتا۔ اور انڈیا آنے والوں کو معلوم ہو گا کہ یہاں سیدھی قطار عموماً ایک دائرہ ہوتا ہے جس میں درجنوں اجنبی اِرد گرد گھسنے کی کوشش کرتے ہوئے اونچا اونچا بول رہے ہوتے ہیں تاکہ دکان کے کاؤنٹر تک ان کی آواز سنی جا سکے۔ سُو لاک ڈاؤن کے دوران سپر مارکیٹس لوگوں کو یہ سکھانے کی کوشش کر رہی ہیں کہ ایک محفوظ فاصلے پر کیسے کھڑا ہوا جاتا ہے اور دکان کے باہر لگے ہوئے دائروں میں سے ہوتے ہوئے ایک کے بعد ایک چیز خریدنے کے لیے آگے بڑھنا ہے۔ مغربی بنگال کی ریاست کی وزیرِ اعلیٰ ممتا بینرجی نے بغیر بتائے ایک سپر مارکیٹ کا دورہ بھی کیا اور اپنے ہاتھوں سے سڑک پر دائرے بنا کر لوگوں کو سماجی دوری کا تصور سمجھایا۔ ہم صرف قطار بنانے کا سبق ہی نہیں لے رہے۔ گذشتہ چند روز سے جو بھی انڈیا میں کال ملانے کی کوشش کرتا ہے اسے پہلے ایک ریکارڈ شدہ پیغام سننا پڑتا ہے جس میں کھانستے ہوئے اپنے منھ کو ڈھانپنے اور ہاتھ دھونے کی افادیت بتائی جاتی ہے۔ لیکن کیرالا پولیس آفس کی طرف سے جاری کی گئی ایک ویڈیو دیکھ کر لگتا ہے کہ ہاتھ دھونے کی اہمیت اور بھی دلکش اس وقت ہو جاتی ہے جب صحت سے متعلق پیغام میں بالی وڈ سٹائل کا ڈانس اور گانے بھی شامل کر دیے جائیں۔ برطانیہ مائیک میک ایچرن بہت کم مقدار یا بالکل الحکوحل فری ڈرنکس کے دور میں بھی برطانوی شراب خانوں کی وہی حیثیت ہے جو ہمیشہ سے تھی: یعنی ثقافتی اقدار اور ماحول۔ ایسی چیز ہو کیوں ٹھیک کیا جائے جو خراب ہی نہ ہو؟ جیسا کہ برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن، جو خود بھی کورونا وائرس سے متاثر ہیں، نے حال ہی میں کہا تھا کہ یہ برطانوی شہریوں کا کبھی نہ چھینا جانے والا اور پیدائشی حق ہے کہ وہ ’پب (شراب خانے) جائیں۔‘ کورونا وائرس کی وبا نے ایک دم سب کچھ بند کر دیا ہے۔ شراب نوشی کرنے والوں نے اپنے آخری آرڈر جمعہ 20 مارچ کو دیے، لیکن ہم جیسے برطانوی شہریوں کو کام کے بعد تھوڑی مقدار میں شراب نوشی کے لیے ذرا زیادہ تخلیقی ہونے کے ضرورت پیش آ رہی ہے۔ واٹس ایپ، سکائپ، زوم اور ہاؤس پارٹی جیسی ایپس کے ساتھ جو سینٹ آئیوز سے لے کر سوانسی تک دوستوں کے ساتھ پارٹی کا پلیٹ فارم دے رہی ہیں، ’ڈیجیٹل ڈرنکنگ اور ورچوئل ہیپی آور‘ کے نئے دور نے جنم لیا ہے۔ اسی طرح کا ایک پب ڈنڈی میں قائم ’جم اینڈ جینیز ورچوئل پب‘ ہے جس کے اب 13 ہزار ممبر بن ہیں اور شام کے لیے یہ ایک اچھی کمپنی ہے۔ سو اب ہم نے ورچوئل برتھ ڈے پارٹی، سٹیگ پارٹی اور آن سکرین پب کوئز کو اپنا لیا ہے۔ لنکاشائر میں واقع ورچوئل پب کویز میں اس ہفتے 34 ہزار افراد نے اپنی دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سُو آپ اس ہفتے کے اختتام پر لاک ڈاؤن میں کیا کر رہے ہیں؟ ابھی بھی وقت ہے کہ ورچوئل پب میں شامل ہو جائیں، یا پھر آپ فلائنگ سکاٹس مین، گے گورڈنز اور ہائی لینڈ بارن ڈانس پر ناچیں۔ آسٹریلیا کیتھرین مارشل اگر آسٹریلیا کی کوئی ایک روایت جو آسٹریلوی باشندوں کو ان کے گھروں سے باہر نکلنے، بے فکر رویے اور مگر مچھ، شارک، خطرناک سانپوں اور مکڑیوں سے بھرے جزیروں پر رہنے کے حوالے سے جوڑتی ہے تو وہ ہے ایسٹر کیمپنگ۔ سردیوں کے آنے سے قبل عموماً سال کے اس وقت آسٹریلوی عوام کی ایک بڑی تعداد اختتام ہفتہ کی چھٹی کیمپ فائر کے گرد دوستوں اور خاندان والوں کے ساتھ باربی کیو کی تیاری کرنے میں مصروف ہوتی ہے۔ اگرچہ لوگ وبا کی وجہ سے گھروں میں واپس چلے گئے ہیں اور ایسٹر کی چھٹیاں منسوخ ہو چکی ہے لیکن ہم آسٹریلوی شہری بڑے اختراعی طبیعت کے مالک ہیں۔ اس ہفتے ’دی کاروان انڈسٹری آف آسٹریلیا‘ نے تین لاکھ سے زائد باشندوں، جو ایسٹر کیمپنگ کرتے ہیں، سے کہا ہے کہ وہ ایسٹر ویک اینڈ پر اپنے گھر کے عقبی حصوں میں ٹینٹ لگا لیں۔ گھروں میں کیمپنگ کرنے والے افراد مختلف کمپنیوں کی جانب سے چلائی جانے والی لائیو سٹریمز کے ذریعے آسٹریلیا کی وائلڈ لائف سے لطف اندوز ہو سکیں گے۔ اور تمام آسٹریلوی، کرکٹ آسٹریلیا کی طرف سے دکھائے جانے والے دلچسپ میچوں کے ذریعے گھروں کے عقبی حصوں میں کرکٹ سے بھی لطف اندوز ہو سکیں گے۔ کووِڈ 19 نے ہم میں سے زیادہ تر افراد کو گھروں تک محدود کر دیا ہے لیکن اس دوران بالکونی سے گائے جانے والے ’آئی سٹل کال آسٹریلیا ہوم‘ سے اوپرا آسٹریلیا کے پرفارمز ٹام ہیملٹن اور تھامس ڈیلٹن نے ہمیں ایک مرتبہ پھر یاد دلایا ہے کہ یہ کوئی بری جگہ نہیں ہے۔ کوریا ہنا یون اپنی رات کو کھلنے والی مارکیٹوں، دن رات کام کا معمول اور بظاہر کبھی نہ ہار ماننے والے سمارٹ فون کلچر کے درمیان سیول ایک ایسے ملک کا دارالحکومت نہیں لگتا جسے ’لینڈ آف دی مارننگ کام‘ یا صبح کے سکون کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ لیکن گذشتہ کئی ہفتوں کے دوران جنوبی کوریا کی جارحانہ سماجی دوری کے اقدامات نے ایک خوش کُن، طمانیت کا احساس دلانے والا ایک عالمی ٹرینڈ شروع کیا ہے: پرسکون آن لائن ویڈیوز جن میں دکھایا جاتا ہے کہ کوریا کی ڈالگونا کافی کس طرح بنائی جائے۔ جنوبی کوریا میں ملنا ملانا اکثر کیفے میں ہوتا ہے اور خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق کوریا میں فی کس کے حساب سے دنیا میں سب سے زیادہ کافی کی دکانیں ہیں۔ لیکن کم لوگوں کے باہر نکلنے کے بعد کوریائی باشندوں نے گھروں پر بیٹھ کر اپنے کیفے کلچر کو بڑھاوا دیا ہے۔ وہ آن لائن مشقوں کے ذریعے بتا رہے ہیں کہ کس طرح کافی، چینی، دودھ اور برف کو ایک ساتھ پھینٹ کر پھولی ہوئی ’پینٹ بٹر‘ کے رنگ کی کافی بنائی جاتی ہے، جسے مقامی طور پر ڈالگونا کہتے ہیں۔ گوگل ٹرینڈز کے مطابق یہ آن لائن پاگل پن فروری کے آخر میں بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ اور کیونکہ دنیا کے بہت زیادہ لوگ گھروں پر محدود ہو گئے ہیں اس لیے زیادہ سے زیادہ لوگ گھروں میں بیٹھ کر کوریا کی کافی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ابھی تک ڈولگونا ویڈیو کے 35 لاکھ ویوز ہیں۔ ٹوئٹر پر ایک حوالے سے ایک عالمی ٹرینڈ بھی ہے اور اس ہیش ٹیگ کے ٹِک ٹاک پر 64 ملین سے زیادہ ویوز ہیں۔ ڈولگونا کافی سے زیادہ یہاں اگر کوئی شے اہم ہے تو وہ ہیں ہاتھ سے لکھی ہوئی تحریریں اور آج کل ہم شکریہ پر مبنی یہ تحریریں اپنے ملک کے محنت کش ڈلیوری ورکرز کو دے رہے ہیں۔ کوریائی ثقافت میں ہاتھ سے لکھی ہوئی شکریے کی تحریر زبانی یا ای میل سے لکھی ہوئی تحریر سے بہت زیادہ گہرا معنی رکھتی ہے۔ دی کوریئن ٹائمز نے ایک مرتبہ ایک کوریائی لسانی ماہر کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’ہمارے آباؤ اجداد سمجھتے تھے کہ ہاتھ سے لکھے ہوئے خط میں انسان کے جذبات نظر آتے ہیں۔‘ انسٹاگرام پر دکھائی جانے والی ہزاروں ہاتھ سے لکھی ہوئی شکریے کی تحریروں کی تصاویر میں ڈلیوری کرنے والے مردوں اور عورتوں کے لیے دعائیہ پیغامات میں جو سب سے زیادہ مشہور جملہ ہے وہ ہے کہ ’میں امید کرتا ہوں کہ کورونا وائرس کے مزید متاثرہ افراد نہیں ہوں گے۔‘
141211_jihadi_finances_fz
https://www.bbc.com/urdu/world/2014/12/141211_jihadi_finances_fz
جہادی گروپوں کے مالی وسائل
جہادی گروپوں کے بارے میں بی بی سی کی طرف سے کرائی گئی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ جہادی گروپوں نے مخیر حضرات کی طرف ملنے والے مالی عطیات کے بجائے اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے دوسرے طریقوں پر انحصار کرنا شروع کر دیا ہے، جن میں قدرتی وسائل کی فروخت سمیت مختلف طریقے شامل ہیں، جیسا کہ زیر تسلط علاقوں سے ٹیکسوں کی وصولی اور سمگلنگ کے راستوں پر کنٹرول۔
topcat2 اس رپورٹ کو رائل یونائٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ کے ماہرین نے مرتب کیا ہے۔ اس تحقیق سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ اپنے آپ کو ریاستِ اسلامیہ کہلوانے والا گروہ مالی اعتبار سے تاریخ میں سب سے زیادہ مستحکم عسکری گروپ ہے اور ایک اندازے کے مطابق اس کو سالانہ ایک ارب 30 کروڑ ڈالر کے مالی وسائل حاصل ہیں۔ دولتِ اسلامیہ کو مخیر حضرات سے مالی عطیات بھی حاصل ہوتے ہیں لیکن مالی وسائل کا ایک بڑا حصہ بلیک مارکیٹ میں تیل کی فروخت اور اپنے زیر قبضہ علاقوں میں آباد غیر مسلموں اور ان کے کاروبار کو تحفظ فراہم کرنے کے بدلے میں وصول کیے جانے والے ٹیکسوں سے آتا ہے۔ اس طرز پر طالبان نے بھی مال وسائل حاصل کرنے کے ذرائع بڑھا دیے ہیں جن میں منشیات کی تجارت پر کنٹرول اور وسیع پیمانے پر بھتے کی وصولی شامل ہے۔ طالبان سالانہ 25 کروڑ ڈالر جمع کرتے ہیں۔ صومالیہ میں متحرک الشباب گروپ کا زیادہ تر انحصار کوئلے کی برآمد اور ٹیکسوں پر ہے۔ یہ بہت منظم گروہ ہے اور اس نے انتظامی ادارے بھی بنا رکھے ہیں اور یہ اپنی وزارتِ خزانہ بھی چلا رہا ہے۔ رائل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ میں سینٹر فار فائننشل کرائم اور سکیورٹی سٹڈیز کے ڈائریکٹر ٹام کیٹنگز کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی برادری اس طرح کے جہادی گروپوں کے مالی معاملات سمجھنے میں اکثر غلطی کرتی ہے۔ آپ اکثر دیکھیں گے کہ اس طرح کی تنظیموں میں مالی معاملات کو دیکھنے والا غیر ملکی ہوتا ہے۔ یہ کوئی ایسا شخص ہوتا ہے جو کہیں اور سے آیا ہوتا ہے اور مالیات کا تجربہ اور مہارت رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے ہمیں بین الاقوامی برادری کے طور پر ان تنظیموں پر اس سے زیادہ محنت صرف کرنی چاہیے جتنی یہ تنظیمیں اپنے اوپر لگاتی ہیں لیکن ہم ان کا غلط اندازہ لگاتے ہیں۔ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق ان تنظیموں کے مالی وسائل کو روکنے کا سب سے بہتر موقع ان کے ابتدائی ایام میں ہوتا ہے جب یہ مخیر حضرات سے ملنے والے عطیات پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ ان مخیر حضرات پر مالی پابندیاں عائد کی جاسکتی ہیں۔ ایک مرتبہ یہ مالی وسائل حاصل کرنے کے مختلف ذرائع بنا لیتی ہیں پھر ان کو ملنے والے رقوم کو روکنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ ایک سال قبل دولت اسلامیہ نام کے جہادی گروپ کو کم ہی لوگ جانتے تھے سوائے ان کے جو اس سے متاثر ہو کر اس میں شامل ہونے کے لیے جاتے تھے یا پھر وہ جو سکیورٹی اور تعلیمی اداروں میں شام اور عراق کی صورت حال پر نظر رکھے ہوئے تھے۔ اس کے سامنے آنے کے بعد بھی اسے یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا تھا کہ یہ بھی ان بے شمار گروپوں کی طرح ہے جو صدر بشار الاسد کے خلاف پھیلنے والے انتشار کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔ جنوری سنہ 2014 میں امریکی صدر براک اوباما نے فلوجہ اور دوسری جگہوں پر عراق اور شام میں القاعدہ کا جھنڈا لہرانے والوں کی استطاعت اور ان سے پیدا ہونے والے خطرات کو گھٹا کر بیان کیا تھا۔ لیکن چند ہی مہینوں میں دولت اسلامیہ نے شمالی شام اور عراق کے وسیع علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ امریکہ کے سابق وزیر دفاع چک ہیگل نے دولت اسلامیہ کو منظم اور وسیع مالی وسائل کی حامل تنظیم قرار دیا تھا۔ انھوں نے کہا تھا کہ وہ دہشت گرد گروہ سے بڑھ کر ہے اور بے شمار مالی وسائل رکھتا ہے۔ نئی حقیقتیں بین الاقوامی برادری کی توجہ کسی اور دہشت تنظیم سے زیادہ دولت اسلامیہ کے فنڈ پر تھی جو اسے تیل کی آمدن، ٹیکسوں ، لوٹ مار اور بھتوں سے حاصل ہو رہی تھی۔ امریکہ کی قیادت میں قائم اتحاد نے دولت اسلامیہ کے خلاف فضائی مہم کو تیل کے کارخانوں اور سمگلنگ کے راستوں پر مرکوز کیے رکھا، اس یقین کے ساتھ کہ تنظیم کے ذرائعِ آمدن کو مسدود کرنے سے یہ تنظیم اپنی موت آپ مر جائے گی۔ مالی وسائل کی اہمیت اس بحران میں اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود یہ بحران۔ روم کے ایک مقرر مارکس تولیس سسرو نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ سرمائے کی لامحدود فراہمی ہی جنگ کا ایندھن ہوتا ہے۔ ماضی قریب میں سرد جنگ کے دوران میں ریاستوں نے سرمایہ اور بالواسطہ طریقوں سے سیاسی تشدد کو ہوا دیتی رہیں۔ لیکن سرد جنگ کے ختم ہونے کے بعد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے لیبیا اور سوڈان جیسے ملکوں کے خلاف منظور کی جانے والی قرار دادوں کی وجہ سے ریاستی دہشت گردی میں ڈرامائی حد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ حزب اللہ جیسی تنظیمیں ریاستی پشت پناہی سے چلتی رہیں، لیکن سرد جنگ کے بعد کی دہشت گرد تنظیمیں ریاستی پشت پناہی پر انحصار نہیں کر سکتی تھی اور انھیں اپنے مالی وسائل ڈھونڈنے کی ضرورت تھی۔ مالی وسائل کا ماہرانہ حساب کتاب ہی کسی دہشت گرد اور باغی گروہوں کی کامیابی کا ضامن ہوتا ہے۔ یہ رگوں میں دوڑتےخون کی طرح اہم بھی ہوتا ہے اور ایک بڑی کمزوری بھی۔ ڈونرز مالی وسائل حاصل کرنا اور ان کو محفوظ بنانا کسی بھی دہشت گرد گروپ کے لیے بڑا اہم ہوتا ہے۔ سرمائے کی مینیجمٹ، عسکری مہارت اور نئے رضاکاروں کو بھرتی کرنے کی صلاحیت سے ہی دہشت گرد تنظیموں کو کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔ عام طور پر دہشت گرد گروپوں کے لیے مالی وسائل حاصل کرنے کے دو بنیادی ذرائع ہوتے ہیں۔ مالی عطیات اکثر اوقات ہم خیال گروپ فراہم کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر نائجیریا کے بوکو حرام گروپ نے مبینہ طور پر القاعدہ سے ڈھائی لاکھ ڈالر وصول کیے تھے۔ القاعدہ کے رہنما ایمن الظواہری نے سنہ 2005 میں عراق میں القاعدہ کو ایک خط لکھا تھا جس میں ان سے ایک لاکھ ڈالر منتقل کرنے کو کہا تھا کیونکہ ان کے اپنے مالی وسائل ختم ہو گئے تھے۔ گو کہ عطیات ابتدائی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ ہو سکتے ہیں، لیکن اسے حکام کی جانب سے بند کرنے کا خطرہ ہوتا ہے اور اس کی ترسیل معطل ہو سکتی ہے۔ مالی طور پر خود کفیل ہونے کے لیے شدت پسند تنظیموں کو بیرونی عطیات سے بڑھ کر اپنے اندرونی اور اپنے مالی ذرائع پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے جسے بین الاقوامی برادری کے لیے روکنا مشکل ہوتا ہے۔ منشیات صومالیہ کی شدت پسند تنظیم الشباب اس کی بڑی مثال ہے۔ جبکہ تنظیم کو معمولی عطیات بھی ملتے ہیں لیکن اس نے کوئلہ برآمد کرنے کا ایک مؤثر کاروبار شروع کیا جس سے اسے اقوامِ متحدہ کے مطابق سالانہ 80 لاکھ امریکی ڈالر کی آمدن ہوتی ہے۔ الشباب نے مالی وسائل جمع کرنے کے ایک اور ذریعے پر بھی مہارت حاصل کی ہے اور وہ ہے ذاتی اور ٹرانسپورٹ ٹیکس کا نفاذ۔ تنظیم ایک علاقے اور اس کی آبادی کو کنٹرول کرتی ہے اور اپنے زیرِ کنٹرول علاقے میں حکومتی طرز پر کام کرتی ہے۔ یہ لوگوں سے ٹیکس وصول کرتی ہے اور اس کے بدلے میں انھیں کچھ خدمات دیتی ہیں جن میں سکیورٹی اور انصاف دینا شامل ہے۔ دولتِ اسلامیہ بھی اپنے زیرِ قبضہ علاقوں میں آباد مسلمانوں کو خوراک اور دیگر خدمات کی فراہمی کا وعدہ کرتی ہے۔ کسی علاقے پر کنٹرول سے منافع بخش کاروبار شروع کرنے کا موقع بھی ملتا ہے جس طرح افغانستان میں پوست کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے۔ افغانستان میں منشیات کے کاروبار کو بند کرنے کے لیے سات ارب امریکی ڈالر سے زائد رقم خرچ کی گئی ہے اور گذشتہ 13 سال کے دوران نیٹو کی جانب سے اس پر قابو پانے کی کوششوں کے باوجود پوست کی کاشت ماضی سے بھی بڑھ کر ہے۔ دنیا کی 90 فیصد افیون کی ترسیل افغانستان سے ہوتی ہے۔ طالبان اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے منشیات سے سالانہ ڈیڑھ کروڑ امریکی ڈالر کماتے ہیں۔ لیکن تمام شدت پسند گروہ اپنے زیرِ قبضہ علاقوں سے ٹیکس اور بھتہ وصول نہیں کرتے۔ کم آبادی والے صحارا اور ساحل کے وسیع علاقوں میں قائم شدت پسند تنظیم اے کیو آئی ایم اسلامی مغرب میں القاعدہ دو مرکزی ذرائع سے مالی وسائل جمع کرتی ہے۔ افغانستان پاکستان کے سرحدی علاقوں میں قائم حقانی نیٹ ورک کے مالی وسائل کار مرکزی ذریعہ سمگلنگ ہے۔ یہ تنظیم سنہ 1979 میں سابق سوویت یونین کی جانب سے افغانستان پر حملے کی مخالف رہی ہے اور اسی وجہ سے اسے سمگلنگ کے پرانے راستوں پر کنٹرول حاصل ہے اور پاکستان افغانستان میں عدم استحکام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے حقانی نیٹ ورک اپنی مجرمانہ سرگرمیوں سے وسائل اکٹھے کرتا ہے۔ اغوا برائے تاوان شدت پسند گروہوں کی جانب سے مالی وسائل جمع کرنے کے لیے اغوا برائے تاوان کے طریقے کے استعمال میں تیزی آئی ہے۔ یمن میں قائم اے کیو اے پی یا جزیرہ نما عرب میں القاعدہ نے ایک اندازے کے مطابق سنہ 2011 سے سنہ 2013 کے درمیان اغوا برائے تاوان کے ذریعے 20 لاکھ امریکی ڈالر کمائے۔ اقوامِ متحدہ نے اغوا برائے تاوان سے ہونے والی آمدن کا اندازہ لگاتے ہوئے حال میں افشا کیا ہے کہ شدت پسند تنظیموں کو سنہ 2004 سے سنہ 2012 کے درمیان اغوا برائے تاوان سے تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ امریکی ڈالر کی آمدن ہوئی ہے۔ خیال کیا جاتا ہے صرف دولتِ اسلامیہ نے گذشتہ سال اس طریقۂ کار کے ذریعے 45 لاکھ امریکی ڈالر کمائے۔ پس ظاہر ہوا کہ اگر شدت پسند تنظیموں کو اپنے آپ کو قائم و دائم رکھنا ہے اور بڑھنا ہے تو اسے اپنے زیرِ کنٹرول اور زیرِ اثر علاقوں میں اور آبادی کے اندر مالی وسائل اکٹھے کرنے کے ذرائع پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عراق پر سنہ 2003 میں حملے کے دوران ملنے والی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ اے کیو آئی یا عراق میں القاعدہ نے مالی وسائل کے اہمیت کو تسلیم کیا تھا۔ ان دستاویزات میں اس گروپ نے معاشی بدانتظامی کو اپنی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ قرار دیا تھا۔ شدت پسند تنظیم کو قائم و دائم رہنے کے لیے مالی وسائل بے انتہا ضروی ہوتے ہیں جس کے بغیر یہ نہیں چل سکتے اور یہ ان کی ایک بڑی کمزوری بھی ہے۔ نائن الیون کے حملوں کے بعد بین الاقوامی برادری نے شدت پسند گروپوں کو منتشر کرنے کے لیے ان کے مالی وسائل کے ذرائع کو نشانہ بنایا۔ امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کے ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ کا پہلا قدم ’دہشت گردی کے عالمی نیٹ ورک کے مالی وسائل کی بنیادوں پر حملہ تھا۔‘ تاہم جس طرح ہم شمالی شام اور عراق میں دیکھ رہے ہیں کہ شدت پسندوں کو مالی وسائل سے عاری رکھنا بھی آسان نہیں خاص کر جب وہ بیرونی عطیات سے خود کفالت کی طرف چل پڑتے ہیں۔
130406_rolling_news1
https://www.bbc.com/urdu/rolling_news/2013/04/130406_rolling_news1
بلوچستان: نوشکی میں الیکشن کمیشن کے دفتر پر حملہ
پاکستان صوبہ بلوچستان کے ضلع نوشکی میں پولیس حکام کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے دفتر پر حملہ ہوا ہے۔
مقامی پولیس کے مطابق نامعلوم افراد نے ضلعی ہیڈ کوارٹر نوشکی میں سنیچر کو الیکشن کمیش کے دفتر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ واضح رہے کہ جمعرات کو بھی بلوچستان کے علاقے خاران میں الیکشن کمیشن کے دفتر پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے میں ایک سکیورٹی اہلکار زخمی ہوا تھا اور اس حملے کی ذمہ داری کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ نے قبول کی تھی۔
pakistan-52115524
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-52115524
جنگ گروپ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر میر شکیل الرحمان کا ہار کر جیتنے والا بھائی
میر شکیل الرحمان پاکستان کے سب سے بڑے اور بااثر میڈیا گروپ جنگ جیو کے مالک ہیں. ویسے تو وہ آج کل بہت کڑے امتحان سے گزر رہے ہیں کیونکہ وہ ایک مقدمے کے حوالے سے نیب کے زیر حراست ہیں۔ مقدمہ تو جوں کا توں ہے لیکن ان کے برادرِ کبیر میر جاوید رحمان کی وفات کی وجہ سے انھیں رہا کیا گیا ہے۔
میر جاوید رحمان کینسر کے مرض میں مبتلا تھے جاوید رحمان پھیپھڑوں کے سرطان میں مبتلا تھے اور کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں زیرِ علاج تھے۔ 31 مارچ 2020 کو وہ وفات پا گئے۔ میر خلیل الرحمان اور محمودہ بیگم کے چھ بچے تھے جن میں چار لڑکیاں اور دو لڑکے تھے۔ جاوید رحمان سب سے بڑے تھے۔ وہ 11،اگست 1946 کو پیدا ہوئے گویا وہ پاکستان سے ایک سال بڑے تھے۔ 25 جنوری سنہ 1992 کو جب میر خلیل الرحمٰن لندن کے ایک ہسپتال میں دنیا سے رخصت ہو گئے تو میر جاوید رحمان ادارے کے پبلشر اور پرنٹر بن گئے۔ جنگ گروپ کی تشکیل و ترقی کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے تناظر میں غالباً سنہ 1939 میں برِصغیر کی انگریز سرکار نے ’جنگ‘ کے نام کا ایک اخبار جاری کیا۔ اس پرچے میں عالمی جنگ کے حوالے سے تازہ خبریں اور مضامین شائع ہوتے تھے تاکہ پراپیگنڈا سے رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کی جا سکے۔ یقیناً اس اخبار میں جنگ کے تناظر میں انگریز حکومت کا مؤقف بیان کیا جاتا ہو گا۔ مزید پڑھیے جنگ گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان ریمانڈ پر نیب کے حوالے پاکستان کے نجی میڈیا ہاؤس کے مالک کی گرفتاری کے محرکات کیا؟ یہ پرچہ نصف لاکھ سے زائد چھپتا تھا اور لوگوں میں مفت تقسیم کیا جاتا تھا۔ ملک یوسف العزیز اس کے ایڈیٹر تھے۔ بعد ازاں غالباً سنہ1940 میں میر خلیل الرحمٰن نے دہلی سے ’جنگ‘ کے نام سے اپنا اخبار نکال لیا۔ قبل ازیں سنہ 1939 میں میر خلیل الرحمان دہلی سے نکلنے والے فلمی پرچے ’نگار خانہ‘ میں کام کر کے صحافتی تجربہ حاصل کر چکے تھے۔ اس فلمی رسالے کے ایڈیٹر دادا عشرت علی تھے۔ میر شکیل الرحمان، میر خلیل الرحمان، میر جاوید رحمان (دائیں سے بائیں) میر خلیل الرحمان نے بہت مشکل حالات میں ’جنگ‘ اخبار شائع کرنا شروع کیا تھا۔ وہ دفتر کی صفائی سے لے کر اخبار کی چھپوائی اور تقسیم تک تمام امور خود ہی سر انجام دیتے تھے۔ ان کی بے انتہا محنت کی بدولت سنہ 1941 تک اخبار کی اشاعت 3 ہزار تک پہنچ گئی۔ ابتدا میں یہ شام کا اخبار تھا اور صرف دو اوراق پر مشتمل ہوتا تھا۔ بعدازاں دہلی کے ناموافق حالات کی بنا پر انھیں کراچی آنا پڑا۔ یہاں بھی حالات چنداں بہتر نہیں تھے لیکن اپنے پختہ عزائم کو ہتھیار بناتے ہوئے وزیر آباد آ کر اپنے سُسر سے 5 ہزار قرض لیا اور 14،15 اکتوبر سنہ1947 سے ’جنگ‘ شام کے اخبار کے طور پر کراچی سے چھاپنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد میر خلیل الرحمان نے زندگی بھر پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ انھوں نے اپنے ادارے کو خالص پیشہ ورانہ بنیادوں پر استوار کیا اور سنہ 1992 تک وہ اپنی زندگی میں ہی جنگ گروپ کو ایک ایمپائر کی شکل دے چکے تھے۔ اپنے اخبار سے ان کی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ وہ ’جنگ‘ کو اپنا تیسرا بیٹا کہتے تھے۔ میر خلیل الرحمان کی وفات کے بعد ان کے دونوں بیٹے ادارے کو چلا رہے تھے۔ بظاہر تو بڑا بھائی ہونے کے ناطے جنگ گروپ کے پرنٹر اور پبلشر میر جاوید ہی تھے لیکن اصل کرتا دھرتا میر شکیل الرحمان تھے۔ میر شکیل الرحمان جنگ گروپ کے ایڈیٹر ان چیف اور پاکستان کے مقامی چینل جیو کے مالک ہیں جنگ چونکہ بہت بڑا اور بارسوخ اخباری گروپ تھا اور بظاہر ادارہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔ سنہ 1996 میں دونوں بھائیوں کے درمیان حق ملکیت پر کچھ تنازعات پیدا ہوئے اور بات عدالت تک جا پہنچی۔ میر جاوید رحمان کے ہاں کوئی اولاد نہیں تھی لہذا وہ شکیل الرحمان کے بیٹے یوسف رحمان کو بیٹے کے طور پر اپنا چکے تھے۔ سندھی اخبار کے چیف ایڈیٹر اور اخباری ایڈیٹرز کی تنظیم CPNE کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک نے بتایا کہ میں میر جاوید کے ساتھ APNS میں جوائنٹ سیکریٹری رہ چکا تھا جب کہ وہ سیکرٹری جنرل تھے۔ وہ فون کر کے میرے دفتر آ گئے اور اپنے خاندان میں پیدا صورت حال بتائی اور مدد طلب کی۔ ڈاکٹر جبار بتاتے ہیں کہ تعلق کی بنا پر میں نے ان کا ساتھ دینے کی حامی بھر لی۔ یوں انھوں نے جاوید رحمان کو لیفٹ سے تعلق رکھنے والے معروف وکیل اختر حسین سے ملوایا۔ جنھوں نے کراچی اور کوئٹہ کی اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات دائر کر دیے۔ ان ہی دنوں میں کراچی سے ایک نیا روزنامہ شروع ہوا جو لگ رہا تھا کہ کامیاب ہو جائے گا۔ اختر حسین نے کہا کہ جاوید صاحب اگر جنگ کی لوح اس اخبار کے اوپر لگا کے چھاپا جائے تو آپ کی قانونی پوزیشن بہت مضبوط ہو جائے گی۔ اس اخبار کے ایک اہم فرد مشتاق قریشی سے بھی اس بابت معاملات طے پا گئے مگر دو ہفتے تک میر جاوید رحمان نے کوئی رابطہ نہیں کیا جب ان سے پوچھا گیا کہ تو جبار خٹک بیان کرتے ہیں کہ جاوید صاحب نے کہا کہ میں قانونی جنگ تو جیت جاؤں گا لیکن ادارہ ’جنگ‘ تباہ ہو جائے گا. اختر حسین پاکستان بار کونسل اور جوڈیشل کمیشن آف پاکستان کے ممبر ہیں وہ اے پی این کے لیگل ایڈوائزر بھی رہے ہیں۔ قانونی جھگڑے میں میر جاوید کی عدالتی لڑائی لڑنے والے اختر حسین کہتے ہیں کہ میں نے میر جاوید رحمان کو انتہائی شریف النفس آدمی پایا۔ وہ اپنے بھائی کو سب کچھ دینے پر تیار تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ یوں ہوشیاری سے اپنے نام سب کچھ کروانے سے شکیل نے میری توہین کی ہے اور میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے۔ سینئر صحافی اور کالم نگار مشتاق احمد قریشی بھی میر جاوید کے بہت قریب رہے۔ انھوں نے گلو گیر آواز میں بتایا کہ میر جاوید رحمان بے پناہ اصول پسند انسان تھے۔ تناؤ اور چپقلش کے باوجود کبھی انھوں نے اپنے بھائی کے خلاف بات نہیں کی بلکہ ایک دفعہ میں نے کوئی ایسی بات کہہ دی تو انھوں نے مجھے ڈانٹ دیا۔ ابلاغیات کے استاد اور دانشور ڈاکٹر توصیف احمد خان نے بتایا کہ نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں جنگ گروپ اور سرکار میں شدید تنازع اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ جب نواز شریف حکومت نے میر شکیل الرحمان کے خلاف میر جاوید رحمن کو بیان دینے کا کہا تو میر جاوید رحمان نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ اختر حسین بتاتے ہیں کہ بعدازاں جب دونوں بھائیوں کے درمیان والدہ کی کاوشوں سے باہمی طور پر معاملات طے پا گئے تو میں نے وکالت کرنے کی جو فیس وصول کی تھی وہ جاوید صاحب کو واپس کرنا چاہی تو انھوں نے فیس واپس لینے سے انکار کر دیا۔ میر جاوید رحمان اے پی این ایس کے دو دفعہ سیکرٹری، ایک بار سینئر نائب صدر اور ایک دفعہ صدر کے عہدے پر فائز رہے۔ اسی تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر تنویر احمد طاہر کا کہنا ہے کہ وہ اصول ضابطے کے بہت پابند تھے وہ باریک بین ایڈیٹر تھے اور ان کے زمانے میں اے پی این ایس بہت فعال رہی۔ ان کے ساتھ طویل عرصہ کام کرنے والے ڈاکٹر جبار خٹک کہتے ہیں کہ طبیعت اور مزاج کے اعتبار سے دونوں بھائی بالکل متضاد مزاج کے حامل تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب میر جاوید اے پی این ایس کے عہدیدار تھے تو انھوں نے سختی سے میرٹ کی پابندی کی۔ قواعد و ضوابط کے مطابق ہی نئی ممبر شپ دی۔ قواعد کی خلاف ورزی پر اپنے ادارے کو کروڑوں روپے کے جرمانے کیے ایسا کبھی پہلے اور نہ بعد میں ہوا۔ جرمانہ کرنے کی وجہ یہ ہوتی تھی کہ اگر کوئی ایڈورٹائزگ ایجنسی اخبارات کو بروقت بل کی ادائیگی نہیں کرتی تھی تو میر صاحب ضوابط کے مطابق ایسی ایجنسی کے اشتہارات روک دیتے تھے جب کہ ’جنگ‘ کا شعبہ اشتہارات کوئی اشتہار نہیں چھوڑتا تھا۔ لہٰذا اسی بنا پر میر جاوید رحمان اپنے ہی ادارے کو کئی بار جرمانہ کر دیتے تھے۔ شاید دونوں بھائیوں میں اختلافات کی وجہ بھی یہی معاملہ بنا ہو۔ دونوں بھائیوں کے درمیان باہمی قضیہ ختم ہونے کے بعد میر جاوید رحمان ہفتہ وار ’اخبارِ جہاں‘ اور انگریزی رسالے ’میگ‘ کے معاملات دیکھتے تھے۔ پچھلے چند برسوں سے وہ نفسیاتی عوارض کے بھی شکار ہو چکے تھے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ’اخبارِ جہاں‘ کے ایک ایڈیٹر کو چار بار نکال چکے ہیں اور پانچ بار دوبارہ رکھ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ کام کرنے والے ایک صحافی نے بتایا کہ وہ عوامی مزاج کے حامل اخباری مالک تھے اور عام کارکنوں کے ساتھ بھی گُھل مل جاتے تھے لیکن صحت کے مسائل کی بنا پر ماضی کی طرح پختہ مزاج کے مالک نہیں رہے تھے۔ ان کی وفات پر ملک کی سیاسی قیادت، اخباری مالکان اور عامل صحافیوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اور ان کی وفات کو صحافتی دنیا کا نقصان قرار دیا ہے۔ بے شک میر شکیل الرحمان ہی جنگ گروپ کے کرتا دھرتا اور مدارالمہام ہیں لیکن میر خلیل الرحمان کے بڑے بیٹے کے کردار کو بھی ادارے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ میر جاوید رحمان کی وفات کا علم ہوا تو خیال آیا کہ دنیا اور دنیا داری کے معاملات تو چلتے ہی رہیں گے لیکن پاکستان کے میڈیا گورو میر شکیل الرحمان کو ہار کر جیتنے والا بھائی کبھی نہیں ملے گا۔
050216_straw_afghanistan_fz
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/02/050216_straw_afghanistan_fz
جیک سٹرا کابل کے دورے پر
برطانوی وزیر خارجہ جیک سٹرا بدھ کو افغانستان کے دروے پر کابل پہنچ رہے ہیں جہاں افغان حکام سے مذاکرات کے دروان وہ افغانستان سے ہونے والی منشایات کی اسمگلنگ پر بات چیت کریں گے۔
برطانیہ افغانستان سے مغربی ممالک کو ہونے والی منشیات کی اسمگلنگ روکنے کے لیے کی جانے والی عالمی کوششوں کی قیادت کر رہا ہے۔ طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں پوست کی کاشت اور ہیروئن کی پیدوار میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق مغربی ممالک میں بکنے والی نوئے فیصد ہیروئن افغانستان میں پیدا ہوتی ہے۔ جیک سٹرا افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے اپنی ملاقات میں افغانستان میں سکیورٹی کی صورت حال اور افغانستان واپس آنے والے مہاجرین کی ضروریات کے بارے میں بھی بات چیت کریں گے۔
060210_mma_protests_uk
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/02/060210_mma_protests_uk
کارٹون کے خلاف احتجاج جاری
جمعہ کے روز پاکستان کے مختلف شہروں میں پیغمبر اسلام حضرت محمد کے بارے میں یورپی ممالک کے اخبارات میں شائع ہونے والے کیری کیچرز کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور مظاہرین نے اس موقع پر ڈنمارک کا پرچم اور امریکی صدر بش کے پتلے نذر آتش کیے۔
مظاہرین نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فی الفور ان ممالک سے اپنے سفیروں کو واپس بلائے جن کے اخبارات میں یہ کیری کیچرز شائع ہوئے ہیں۔ اسلام آباد میں آب پارہ چوک پر متحدہ مجلس عمل کے ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں سینکڑوں افراد نے یورپی یونین اور امریکہ مخالف نعرے لگائے اور پیغمبر اسلام کی بے حرمتی پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ ان افراد نے کتبے بھی اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا کہ پیغمبر اسلام کی بے حرمتی کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔ مقررین نے پاکستانی حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ اس کو رسمی احتجاج کے بجائے دیگر اسلامی ممالک کی طرح یورپی ممالک کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات منقطع کر لینے چاہیئیں۔ اس موقع پر مقررین نے امریکی صدر بش کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور دعویٰ کیا کہ اسلام کے خلاف یورپی یونین اور امریکہ متحد ہو کر مسلمانوں کی تضحیک کر رہا ہے۔ اس موقع پر صوبہ سرحد سے تعلق رکھنے والے ممبر قومی اسمبلی بختیار مانی نے کہا کہ توہین رسالت کے مرتکب افراد کو موت کی سزا دینی چاہیے۔ کراچی میں بھی مختلف مذہبی اور دیگر تنظیموں نے آٹھ مظاہرے کئے جبکہ کوئٹہ،پشاور اور لاہور میں بھی مظاہرے کئے گئے۔ ان مظاہروں میں دینی جماعتوں کے اتحاد مجلس عمل کے مرکزی رہنما شریک نہیں تھے مگر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے ان مظاہروں میں شرکت کی۔
130619_book_review_asaleeb_rh
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/2013/06/130619_book_review_asaleeb_rh
کتابی سلسلہ اسالیب کا سالنامہ، یادگار اشاعت
نام کتاب: کتابی سلسلہ اسالیب سالنامہ
ترتیب: عنبرین حسیب عنبر صفحات: جلد اوّل 672، جلد دوم 640 قیمت: مکمل سیٹ، 2000 روپے ناشر: اسالیب پبلی کیشنز، 147 سی، بلاک جے، نارتھ ناظم آباد، کراچی 74700 ای میل:[email protected] کتابی سلسلہ اسالیب کا یہ سالنامہ دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ ترتیب کے اعتبار سے یہ کتاب نمبر چار اور پانچ ہے۔ اس پر جولائی 2011 تا دسمبر 2012 لکھا ہوا ہے لیکن یہ دونوں کتابیں یا شمارے 2013 میں شائع ہوئے ہیں۔ ان دوجلدوں کے 13 سو کے لگ بھگ صفحات پر پھیلی ہوئی تحریروں کی فہرست ہی دی جائے تو خاصی جگہ درکار ہو گی جب کہ ان میں ایسی تحریریں ہیں، جنھیں بلا تامل تخلیق قرار دیا جا سکتا ہے۔ کتابی سلسلہ اسالیب کی شمارہ چار اسالیب کے سالنامے کا پہلا حصہ اداریے کے بعد سات حصوں پر مشتمل ہے۔ ان حصوں میں حمد ونعت، میر و غالب، مضامین، گفتگو، فن فنکار ونگارشات، طنز و مزاح اور خصوصی گوشہ کے عنوانات قائم کیے گئے ہیں۔ لیکن ان سے پہلے ادیبوں شاعروں ایک سیاہ و سفید اور اکہتر چار رنگی تصاویر ہیں۔ حمد و نعت سرشار صدیقی کا کلام ہے۔ سیمنٹ انجینئر سے مستنصر حسین تارڑ تک میر و غالب کے عنوان سے قائم کیے گئے حصے میں، ڈاکٹر اسلم انصاری، سحر انصاری، سید جمیل مظہر، پرتو روہیلہ، زبیر رضوی، ڈاکٹر محمد ضیاالدین شکیب اور ڈاکٹر علی احمد فاطمی کے مضامین ہیں جو ایک سو ستائیس صفحات پر پھیلے ہوئے ہیں۔ ان میں سحر انصاری کا مضمون ’میر کی بد زبان شاعری‘ مختصر ہونے کے باوجود صرف میر کے ایک فراموش پہلو کی طرف ہی توجہ نہیں دلاتا بلکہ اردو ادب میں آنے والی ایک بڑی تبدیلی کی طرف بھی متوجہ کرتا ہے۔ یہ مضمون ظفر اقبال سے اختلاف کرنے والوں کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ ’مضامین‘ کے نام سے قائم کیے گئے حصے میں سحر انصاری، رضا علی عابدی، رضی مجتبٰی، سلیم یزدانی، محمد سہیل عمر، محمد حمید شاہد، ڈاکٹر ناصر عباس نیّر، ڈاکٹر باقر رضا، ایم خالد فیض اور تصنیف حیدر کی تحریریں ہیں۔ اس حصے کےعنوان سے یہ نہیں سمجھا جانا چاہیے کہ پہلے حصے کی تحریریں یا اس کے بعد کے حصوں کی تحریریں مضامین کے معیار کی نہیں ہیں۔ اس حصے میں سحر انصاری، رضا علی عابدی، رضی مجتبٰی، اور سلیم یزدانی کے مضامین معلوماتی نوعیت کے ہیں، ان میں رضا علی عابدی نے ’عالمی انجمن ترقیِ اردو‘ کی ضرورت کے لیے اپنی پرانی تجویز یاد دلائی ہے۔ اب اگر اُس پر عمل کیا بھی گیا تو جس نوع کی گروہ بندیاں اور مفادات پرستی اردو کے مختلف حلقوں میں ہے اس میں اس تجویز کا حال کیا ہو گا، کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ سہیل عمر اور ناصر عباس نیّر کے مضامین انتہائی بحث طلب ہو سکتے ہیں۔ ان مضامین جو اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ان کے معنی کے تعین پر اختلاف کے ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ محمد حمید شاہد اور تصنیف حیدر کے مضامین بہت جاندار ہیں، ایم خالد فیض کا مضمون سیفو کے بارے میں پائے جانے والے تصور کی انتہائی درکار اصلاح میں مددگار ہوگا، جبکہ ڈاکٹر خالد فیاض کا مضمون صرف ادب پڑھنے والوں ہی کے لیے نہیں ذرائع ابلاغ کے لوگوں کے لیے بھی اہم ہے اگر انھیں پڑھنے سے بھی دلچسپی ہو تو۔ ’گفتگو‘ کے حصے میں عنبرین حسیب عنبر کی انتظار حسین اور شمیم حنفی سے گفتگو ہیں جن میں دونوں ادیبوں نے خود اپنے اور دوسروں کے تصورات کے بارے میں بہت سے پہلو اجاگر کیے ہیں لیکن کوئی ایسی بات نہیں کی جو وہ اس سے پہلے نہ کر چکے ہوں۔ ’فن، فنکار اور نگارشات‘ کے عنوان سے قائم کیے جانے والے حصے میں پروفیسرگوپی چند نارنگ، ڈاکٹر معین الدین عقیل، محمود شام، ڈاکٹر علی احمد فاطمی، ڈاکٹر ممتاز احمد خاں، ڈاکٹر ضیا الحسن، زیب ازکار حسین، عشرت ظفر، خالد معین، فاضل جمیلی اور عنبرین حسیب عنبر نے مختلف کتابوں پر تبصرے کیے ہیں۔ ڈاکٹر نارنگ اور ڈاکٹر عقیل کے مضامین میں البتہ بالترتیب جاوید اختر اور نورالسعید کی مکمل شخصیتیں بھی سامنے آتی ہیں۔ باقی تبصرے بھی کتابوں کے تعارف کے لیے ناکافی اور رسمی انداز کے نہیں۔ ’طنز و مزاح‘ کے حصے میں سعید آغا کی منظومات، انجم انصاری اور عمر واحدی کی نثری تحریری ہیں۔ اسالیب کے سالنامے کی پہلی جلد میں سب سے جاندار اور غالبًا بہت دنوں تک یادگار رہ جانے والا حصہ ’خصوصی گوشہ‘ کے نام سے قائم کیا گیا ہے۔ یہ اکیسویں صدی کے اردو ادب کے بارے میں ہے۔ اس میں پروفیسر سحر انصاری نے اردو نظم، مبین مرزا نے جدید اردو افسانے، ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے دو الگ الگ مضامین میں مزاح اور زبان، ڈاکٹر ضیاالحسن نے اردو عزل، امجد طفیل نے اردو ناول اور اردو تنقید اور مشرف عالم ذوقی نے ہندوستان کے اردو فکشن کا جائزہ لیا ہے۔ مشرف عالم ذوقی کے مضمون کو پڑھ کر ہی اندازہ ہوتا ہے کہ دیگر مضامین میں ہندوستان کا حصہ کمزور اور کم و بیش نہ ہونے کے برابر ہے۔ جبکہ مشرف عالم ذوقی کا مضمون کچھ تنگ نظری کا احساس دلاتا ہے۔ مبین مرزا کا مضمون بھی اگرچہ اپنے گرد وپیش سے سے بہت دور نہیں جاتا اور انھیں خود بھی اس کا احساس ہے کہ ایسے کسی بھی مطالعے میں تمام تصاضے پورے نہیں کیے جا سکتے۔ اگرچہ انھیں وسائل بھی دستیاب ہیں لیکن ظاہر جب تمام باتیں ایک مضمون میں ہی سمیٹنی ہوں تو ضرور کچھ نے کچھ چھوڑنا بھی پڑے گا اور پھر لکھنے والا اپنے دائرۂ تفہیم و ترجیح سے آگے نہیں جا سکتا۔ اس کا اطلاق ضیاالحسن کے مضمون پر بھی ہوتا ہے۔ البتہ امجد طفیل کی کوشش نسبتًا اُس اخلاص سے زیادہ بھر پور محسوس ہوتی ہے جس کی ایک نقاد سے توقع کی جانی چاہیے۔ ڈاکٹر سحر انصاری کا جائزہ، ان معنوں میں اس حصے کا سب سے کمزور ٹکڑا ہے کہ انھوں نے اپنے جائزے میں کچھ نظموں کو موضوع بنایا ہے اور اگر ان کے مضمون کے عنوان ’اکیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اردو نظم‘ کے تناظر میں پڑھا جائے تو صورتِ حال خاصی خراب دکھائی دیتی ہے۔ اس میں وہ امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا تک تو گئے ہیں لیکن ہندوستان کی نظم کا ان کے مضمون میں کوئی ذکر نہیں۔ کیا اس سے یہ سمجھا جائے کہ ہندوستان میں اردو نظم نے اکیسویں صدی میں آتے ہی دم توڑ دیا ہے۔ مضمون میں یا تو سحر انصاری صاحب کی محبت اور تعلق کی خُو بُو زیادہ ہے یا انھوں نے اس عرصے میں ان کا مطالعہ انتہائی محدود رہا ہے جب کہ یہ بات ان کی اپنی ساکھ اور شناخت کے برخلاف ہے۔ اسالیب ،5 سالنامہ جلد دو جلد دو 638 صفحات پر مشتمل ہے اور اس میں اداریے اور نعت کے حصوں کے علاوہ افسانوں، شاعری، تراجم، فلم، ٹی وی، موسیقی، اداکاری، کتابوں پر تبصرے، خطوط، ایک سفر نامہ اور تین خصوصی مطالعے شامل ہیں۔ خصوصی مطالعوں میں رضیہ فصیح احمد، احفاظ الرحمٰن اور صابر وسیم شامل ہیں۔ رضیہ فصیح احمد کے حصے میں ان سے ایک گفتگو ہے جو عنبرین حسیب نے کی ہے۔ پروفیسر سحر انصاری نے ان کی افسانے نگاری پر ایک مختصر مضمون لکھا ہے، مبین مرزا، آصف فرخی اور فاطمہ حسن نے ان کے ناولوں کے جائزے لیے ہیں اور آخر میں ان کے نام جمیل الدین عالی، رام لعل، جیلانی بانو، قدرت اللہ شہاب، جمیلہ ہاشمی، ابنِ انشا اور انور سدید کے خطوط ہیں۔ سحر انصاری، مبین مرزا اور آصف فرخی کے خیالات میں قدرِ مشترک یہ محسوس ہوتی ہے کہ رضیہ فصیح احمد کی جتنی پذیرائی ہونی چاہیے تھی، وہ نہیں ہوئی۔ احفاظ الرحمٰن کے لیے مخصوص کیے گئے حصے میں ان کی 13 نظمیں ہیں۔ اور پروفیسر سحر انصاری نے ان کا اور ان کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ احفاظ الرحمٰن سماجی شعور اور تاریخ کے جدلیاتی عمل کے ساتھ ساتھ انسانی شعور کے ارتقا پر یقین رکھتے ہیں۔ وہ ایک نظریاتی انسان ہیں اور اس نظریے کی خاطر انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی سہی ہیں۔ سینئر اور کامیاب صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ خوش فکر شاعر ہیں۔ سحر انصاری کا یہ کہنا درست ہے کہ ایک حصہ مخصوص کرنے سے پڑھنے والوں کو احفاظ الرحمٰن کے شاعرانہ اسلوب اور ان کے موضوعات سے تھوڑا بہت تعارف ضرور ہو جائے گا۔ تیسرا حصہ صابر وسیم کے لیے مخصوص ہے۔ اس حصے میں بھی صابر کی غزلوں کا جائزہ پروفیسر سحر انصاری نے ہی لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صابر وسیم غزل گو شعراء میں ایک پہچان رکھتے ہیں۔ آج کل کی زبان پر ایک عمومی رائے یہ ظاہر کی جاتی ہے کہ چند استعارے شعراء نے منتخب کر لیے ہیں اور انہی کو دہراتے رہتے ہیں۔ صابر وسیم امکانی حد تک اس تن آسانی سے اپنے کلام کو بچاتے رہے ہیں، اس لیے ان کی غزل اپنے اندر سچائی کی رمق لیے ہوے ہے، اگر چند غزلیں مجموعی طور پر زیر مطالعہ آئیں تو صابر کے لہجے اور ڈکشن کی انفرادیت واضح ہو سکتی ہے۔ اس حصہ میں صابر وسیم کی دس غزلیں شامل کی گئی ہیں۔ نعت کے حصے میں شبنم شکیل، ماجد خلیل، سلیم کوثر اور شہاب صفدر کا کلام ہے۔ افسانوں کے حصے میں اقبال مجید، رشید امجد، یونس جاوید، اخلاق احمد، مبین مرزا، محمد حمید شاہد، مشرف عالم ذوقی، نیلم بشیر احمد، رئیس فاطمہ، محمد حامد سراج، سمیرا نقوی اور سید سعید نقوی کے افسانے ہیں اور تمام ہی افسانے پڑھنے کے لائق ہیں۔ ان میں مبین مرزا اور محمد حمید شاہد کے افسانے خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔ حمید شاہد نے ایک کہانی کار کی کہانی لکھی ہے اور اس میں بار بار ایک جانی پہچانی سی شبیہ ابھرتی اور جبر و قدر کے بھاری سوال کو بہت نزاکت سے چھو کر گذرتی دکھائی دیتی ہے۔ جب کہ مبین مرزا کا افسانہ روایتی زندگی اور بندھے ٹکے رہن سہن کی گھٹن میں دم توڑتی روحوں کا نوحہ ہے جو شاید ہی اب کہیں باقی رہ گیا ہو۔ لیکن اس میں اُن کا انداز ایسا ہے کہ پڑھنے والا درد کی کسک سے بچ نہیں پاتا۔ سفر نامے کے حصے میں سلمٰی اعوان کے عراق کے سفر کا ایک باب ہے۔ اس کا انداز خاصا غیر روایتی محسوس ہوتا ہے۔ وہ پڑھنے والوں کو سفر کے مقامات سے تاریخ اور تاریخ کے کرداروں کی تجسیم اور تضادات میں ایسے لے جاتی ہے کہ فکشن اور تاریخ کے الگ ہونے کا احساس ہی نہیں ہوتا۔ ان کی تحریر میں داستان گوئی کا سا لطف ہے اگرچہ یہ داستان گوئی الف لیلوی نہیں ہے۔ شاعری کا حصہ بھی صفحات کے حساب سے افسانوں کے حصے کے لگ بھگ برابر ہے۔ اس میں راویتی اصناف ادب میں اظہار کرنے والے پاکستان اور باہر کے کم و بیش 52 شاعر ہیں۔ ان میں رسا چغتائی، سرشار صدیقی، ساقی فاروقی، افتخار عارف، اسلم انصاری، سحر انصاری، زبیر رضوی، کشور ناہید، محمود شام، انور سدید، انور شعور، امجد اسلام امجد، سلیم کوثر، رضی مجتبٰی، جلیل عالی، صبیحہ صبا، باصر سلطان کاظمی، یونس جاوید، یاسمین حمید، شہناز نور، فاطمہ حسن، شاہین مفتی، فراست رضوی، مبین مرزا، ملکہ نسیم، ن م دانش، جاوید منظر، نسیم نازش، خالد معین، حمیدہ شاہین، خلیل اللہ فاروقی، شکیل جاذب، ثروت زہرہ، فہیم شناس کاظمی، رخسانہ صبا، فیصل عظیم، فوقیہ مشتاق، سید رضی محمد، عطالرحمٰن قاضی، نصرت مسعود، کامی شاہ، توقیر تقی، علی یاسر، یحیٰی خان یوف زئی، شبیر نازش، رفیع الدین، شمشیر حیدراور سجاد بلوچ شامل ہیں۔ تراجم کے حصے میں سرویشور دیال سکسینہ، والٹیئر، وائی زیڈ چن، گُنٹر گراس، چیخوف، کامیو، جمال میر صادقی، احمد رضا احمدی، ماحور احمدی، نزار قبانی، امر لعل ہنگورانی، امر جلیل، جیمز جوائس، لیڈی کاسا، تاکاہاشی شنکیچی، اور شرلی جیکسن کے تراجم ہیں۔ اس حصے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں کچھ ایسے مصنفوں کے تعارف تو موجود ہیں جو خاصے جانے پہچانے ہیں لیکن جو اردو والوں کے لیے نسبتًا غیر معروف ہیں ان کے لیے کوئی تکلف نہیں کیا گیا۔ مثلًا جمال میر صادقی، احمد رضا احمدی، ماحور احمدی، امر لعل ہنگورانی، لیڈی کاسا، تاکاہاشی شنکیچی، اور شرلی جیکسن۔ اس کے علاوہ نزار قبانی کی نظم کو حارث خلیق نے جو اپنا رنگ دیا ہے اس کی وضاحت انھیں کرنی چاہیے تھی، کامیو کی کہانی کے ترجمے میں بھی یہ وضاحت ہو جاتی تو کوئی برائی نہیں تھی کہ یہ کہانی پہلے بھی ترجمہ ہو چکی ہے۔ اس حصے میں امر لعل ہنگو رانی کی کہانی، جس کا ترجمہ رفیق نقش نے کیا ہے اور جو غالبًا ان کی زندگی میں شائع ہونے والی ان کی آخری تحریر تھی، نہ صرف ترجموں کے حصے میں بلکہ فکشن کے سارے حصے میں ایک باکمال تخلیق قرار پانے کی مستحق ہے۔ یہ کہانی ہمیں بتاتی ہے کہ فن کے لیے موضوع سے زیادہ اظہار کا انداز زیادہ اہم ہوتا ہے۔ فلم، ٹی وی، موسیقی اور اداکاری کے حصے میں امراؤ بندو خان، جگجیت سنگھ کے بارے میں سحر انصاری، استاد فیض خان اور آگرہ گھرانے کے عنوان سے کمار پرساد مکھرجی، راجیش کھنہ کے بارے میں عدیل انصاری اور لہری کے بارے میں سید حسیب احسن کی تحریریں ہیں۔ کتابوں پر تبصروں کے حصے میں منٹو کا اسلوب / طاہر اقبال، نوبل انعام کے سو سال/ باقر نقوی، فانی بدایونی- شخصیت اور شاعری/ اکرام بریلوی، بجھے رنگوں کی رونق/ آصف رضا، خوشبو سے لکھی فرد/ آمنہ عالم اور جہان حمد کے قرآن نمبر پر تبصرے ہیں جو سحر انصاری، خالد معین اور الطاف مجاہد نے کیے ہیں۔ خطوط کے حصے میں اگرچہ کم بیش ویسے ہی خطوط ہیں جو عام طور پر ادبی جرائد کے مدیروں کے نام چھپنے والے لکھتے ہیں۔ لیکن یہ حصہ بھی پڑھا ضرور جانا چاہیے۔ مجموعی طور پر ضخیم ہونے کے باوجود اسالیب کی یہ دونوں جلدیں پڑھنے والوں کے لیے یقینًا دلچسپی کی حامل ہوں گی۔ پروڈکشن بہت عمدہ اور پروف کی غلطیوں سے پاک ہے۔ قیمت اگرچہ رائج انداز کے مطابق ہے لیکن پھر بھی کچھ زیادہ ہے۔
070401_isi_bajor_talib_sen
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/04/070401_isi_bajor_talib_sen
آئی ایس آئی: طالبان کاافسوس اورتردید
پاکستان کے قبائلی علاقے باجوڑ ایجنسی میں مقامی طالبان نے کچھ روز قبل علاقے میں خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے چار اہلکاروں کی نامعلوم افراد کے ہاتھوں ہلاکت پر سخت افسوس کا اظہار کیا ہے اور اس واقعہ میں ملوث ہونے کی سختی سے تردید کی ہے۔
ملک عبد العزیز نے بی بی سی اردو ڈاٹ کام کو بتایا کہ ان کی اور امن جرگہ کےممبران کی حال ہی میں مولوی فقیر محمد کے حامیوں سےملاقاتیں ہوئی ہیں جس میں انہوں نے آئی ایس آئی کی اہلکاروں کی ہلاکت سے نہ صرف لاتعلقی ظاہر کی ہے بلکہ اس واقعہ کو علاقے میں امن کےلیے جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ایک سازش قرار دیا ہے۔ چھ روز قبل باجوڑ کے رشکئی علاقے میں نامعلوم مسلح افراد نے آئی ایس آئی کے چار اہلکاروں کو گھات لگا کر قتل کیا تھا جبکہ اس واقعہ سے ایک روز پہلے باجوڑ میں قبائل کے مابین ایک امن معاہدہ طے پایا تھا جس میں انہوں نے حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ایجنسی کے حدود میں غیر ملکیوں کو پناہ نہیں دی جائے گی۔ ملک عبد العزیز کے مطابق اس معاہدے کو مولوی فقیر محمد اور ان کے حامیوں کی حمایت حاصل تھی۔ ایک سوال کے جواب میں ملک عبد العزیز نے بتایا کہ تاحال کسی نے ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ہے جس سے ثابت ہوسکے کہ سرکاری اہلکاروں کی ہلاکت میں مقامی طالبان ملوث تھے۔ ’ہمارا ملک دہشت گردوں کے زد میں ہیں، روزانہ کوئی نہ کوئی واقعہ ملک کے بڑے بڑے شہروں میں ہورہا ہیں ۔یہ کارروائی بھی غیر ملکی عناصر کی ہے‘۔ ملک عبد العزیز سے جب پوچھا گیا کہ غیر ملکی عناصر کون ہوسکتے ہیں تو انہوں نے کسی کا نام لینے سے گریز کیا۔
world-50094188
https://www.bbc.com/urdu/world-50094188
عرب شکاریوں کا شوق پورا کرنے والے باز کہاں سے آتے ہیں؟
باز یا عقاب صدیوں سے عرب روایات کا اہم حصہ رہے ہیں۔ لیکن عرب ممالک میں یہ باز کہاں سے لائے جاتے ہیں؟ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عرب شکاریوں کا شوق پورے کرنے والے ان بازوں میں سے بیشتر شکاری باز سپین سے لائے جا رہے ہیں ۔ اس طرح سپین باز برآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔
سپین میں بازوں کے شکار کی روایت صدیوں پرانی ہے جس کے آثار قرون وسطیٰ سے ملتے ہیں جب عرب اور گوتھ قوم نے اسے سپین میں متعارف کروایا تھا۔ آج بازوں کا شکار، اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے ناقابل تسخیر ثقافتی ورثے کی فہرست میں بھی شامل ہے اور سپین میں بازوں کے اس کھیل سے تقریباً 3000 افراد جڑے ہیں۔ باز پالے والوں کے لیے سپین ایک بہترین جگہ ہے یہاں کی گرم اور خشک آب و ہوا ایک خاص قسم کے باز کو، جو ٹھنڈے علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں، خلیج کے گرم موسم کا عادی بنانے میں مددگار ہے۔ گزشتہ برس سپین نے تقریباً 2800 باز برآمد کیے جن میں سے بیشتر خلیجی ممالک کو بھیجے گئے تھے۔ یہ تعداد برطانیہ کے برآمد کردہ 2500 بازوں سے زیادہ تھی۔ خلیج کے امیر طبقے میں تیزی سے شکار کرنے والے پرندوں کی بے حد قدر و قیمت ہے۔ حتیٰ کہ اکثر عرب خریدار محض ایک باز کے لیے ہزاروں یورو تک نچھاور کر دیتے ہیں۔ اگرچہ عرب دنیا میں باز کا مالک ہونا دولت کی نمائش سمجھا جاتا ہے لیکن ان بازوں کے مالکان تقریبا ایک سال کے بعد پرندے میں دلچسپی کھو دیتے ہیں اور کسی نئے چیمپئن کی تلاش میں بازار کا رخ کرتے ہیں۔ اور اس طرح سپین میں باز پالنے والوں کے لیے یہ ایک ایسا منافع بخش ذرائع آمدن ہے جس کی مقبولیت میں کمی ہوتی نظر نہیں آتی۔ تمام تصاویر کے جملہ حقوق محفوظ ہیں۔
world-46693359
https://www.bbc.com/urdu/world-46693359
نیو یارک میں خلائی مخلوق کی آمد کا ڈراپ سین
امریکہ کے سب سے بڑے شہر نیو یارک کے رہنے والوں کے بارے میں مشہور ہے کہ انھیں کوئی بھی چیز حیران نہیں کر سکتی۔ لیکن جمعرات کی شب نیو یارکرز نے ایک ایسا نظارہ دیکھا جس سے پورا شہر دنگ رہ گیا۔
امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے ان الفاظ میں وہ منظر بیان کیا: ’ایک دھماکے کی آواز سنائی دی، پھر ایک دھیمی آواز آئی۔ بتیاں جھلملانے لگیں، دھوئیں کے بادل آسمان پر چھا گئے اور پھر آسمان کا رنگ فیروزی پڑ گیا۔‘ Twitter پوسٹ کا اختتام, 1 رات کے وقت پیش آنے والے اس حیران کن واقعے نے شہر بھر کے لوگوں کو شش و پنج میں ڈال دیا، اور کئی لوگوں نے سوشل میڈیا پر یہ خیال ظاہر کیا کہ شاید کوئی خلائی مخلوق آخرکار زمین پر اتر آئی ہے۔ کچھ صارفین کا خیال تھا کہ اس پراسرار روشنی کے پیچھے کوئی آسیبی قوّت بھی ہوسکتی ہے۔ لوگوں نے اسے ایک مذہبی رنگ بھی دیا اور خیال ظاہر کیا کہ یہ حضرت عیسیٰ کی آمد کا عندیہ بھی ہوسکتا ہے۔ البتہ نیو یارک پولیس ڈپارٹمنٹ نے جلد ہی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے لوگوں کو حقیقت سے آگاہ کر دیا: دراصل یہ روشنی ایسٹوریا کے علاقے میں واقع کان ایڈیسن بجلی گھر میں جنریٹر کے دھماکے کے بعد خارج ہوئی۔ بجلی گھر کی انتظامیہ نے بھی صورتِ حال پر مزید روشنی ڈالی۔
060724_nuclear_reaction_sq
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/07/060724_nuclear_reaction_sq
’جوہری پلانٹ کا سب کو پتہ ہے‘
خوشاب جوہری پلانٹ کی سیٹلائٹ تصویر
پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے بتایا ہے کہ پاکستان کے پاس خوشاب ضلع میں جوہری پلانٹ ہے تاہم وہ عالمی جوہری ایجنسی ’آئی اے ای اے‘ کے دائرہ کار سے باہر ہے۔ یہ بات انہوں نے پیر کو ہفتہ وار بریفنگ کے موقع پر امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی خبر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جوہری قوت رکھنے والا ملک ہے اور خوشاب کی جوہری سائیٹ کے بارے میں بھارت سمیت سب کو معلوم ہے۔ واضح رہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پاکستان خوشاب میں اپنی جوہری سائیٹ پر ایک ہزار میگا واٹ کا جوہری ری ایکٹر لگا رہا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے پلوٹونیم کی مقدار اتنی بڑھ جائے گی کہ وہ چالیس سے پچاس جوہری ہتھیار سالانہ بنا پائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان اس وقت سالانہ پلوٹونیم والے دو جوہری ہتھیار بنا سکتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق پلوٹونیم سے بننے والے جوہری بم کو یوینیم سے بننے والے بم کی نسبت میزائل پر نصب کرنا آسان ہے۔ خوشاب کی جوہری سائیٹ کے بارے میں دفتر خارجہ کی ترجمان سے کئی سوالات کیے گئے لیکن انہوں نے اس پلانٹ کی تفصیلات بتانے سے صاف صاف انکار کیا اور کہا کہ ’میں نے جتنا کہنا تھا کہہ دیا۔‘ ایک سوال پر ترجمان نے کہا کہ واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کوئی نیا انکشاف نہیں کیا گیا اور انہیں سمجھ نہیں آتا کہ اس کی آخر ضرورت ہی کیا تھی۔ تسنیم اسلم نے کہا کہ پاکستان نے جوہری ہتھیار بنانے اور اس کا تجربہ کرنے میں پہل نہیں کی اور نہ ہی وہ اس کے پہلے استعمال کے حق میں ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ پاکستان ایک جوہری طاقت ہے اور اس کی خوشاب سائیٹ سے خطے میں جوہری اسلحہ کی دوڑ شروع نہیں ہوگی اور نہ پاکستان اس کے حق میں ہے۔ بھارت کے ساتھ امن مذاکرات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ بھارت نے سیکرٹری سطح کی بات چیت کے لیئے نئی تاریخیں دینےکا اشارہ دیا ہے اور انہیں ان کی تجویز کا انتظار ہے۔ رواں ماہ کے آخر میں ڈھاکہ میں سارک ممالک کے خارجہ سیکرٹریوں کے اجلاس کے متعلق انہوں نے کہا کہ اگر بھارت کے سیکرٹری خارجہ وہاں آئے اور دونوں ممالک نے اتفاق کیا تو امن مذاکرات کے بارے میں بات چیت ہوسکتی ہے۔ جب ان سے بھارتی میڈیا میں آنے والی ان رپورٹوں کے بارے میں پوچھا گیا جن میں کہا گیا ہے کہ بھارتی انتظامیہ اس بات پر غور کر رہی ہے کہ جہاں بھی انہیں شدت پسندوں کے کیمپ نظر آئے وہ ان پر حملہ کریں گے چاہے وہ پڑوسی ممالک میں ہی کیوں نہ ہوں تو تسنیم اسلم نے کہا کہ اس طرح کی خبریں انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہیں۔ تاہم انہوں نے وضاحت کی پاکستان شدت پسندوں کے خلاف ہے اور خطے میں امن چاہتا ہے اور اس پر بات چیت کرنے کو تیار ہے لیکن سرحدوں کے اندر کسی کو تعاقب کی اجازت نہیں دے سکتے۔ افغانستان میں زیر حراست ایک پاکستانی فوجی افسر کی رہائی کی تصدیق کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انہیں افغانستان کی سرحد پر واقع ویش منڈی کے مقام سے کچھ وقت قبل گرفتار کیا گیا تھا اور اب انہیں رہا کردیا گیا ہے اور وہ پاکستان پہنچ چکے ہیں۔ لبنان کے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ پاکستان اسلامی ممالک کی تنظیم کی سطح پر لائحہ عمل چاہتا ہے اور جو بھی ان کا فیصلہ ہوگا پاکستان اس پر عمل کرے گا۔ اس بارے میں انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شوکت عزیز نے ’او آئی سی، کے سیکریٹری جنرل سے بات بھی کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ بیروت میں پاکستانی سفارتخانہ کھلا ہے اور وہ پاکستانیوں کو نکالنے میں مصروف ہے۔ ان کے مطابق جو افراد ٹکٹ نہیں خرید سکتے انہیں سفارتخانہ ٹکٹ بھی خرید کر دےگا۔ ان کے بقول تاحال انہتر پاکستانیوں کو لبنان سے شام منتقل کیا جاچکا ہے۔
regional-55530886
https://www.bbc.com/urdu/regional-55530886
انڈیا: جہاں کیلا جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج ہے
ایک دہائی قبل یہ اس وقت کی بات ہے جب میری نئی نئی شادی ہوئی تھی۔ میں اپنے سسرال والے گھر کے قریب جنوبی انڈیا کے شہر نگرکوائل میں سڑک کے کنارے ایک دکان سے مذہبی تقریب کے لیے کیلے خریدنے رکی۔ میں نے اس غذائیت بخش پھل کے خوشے پر نگاہ ڈالی جس میں زرد سے لے کر سرخ اور جامنی رنگ شامل تھے۔ وہ دکان کی چھت سے لٹک رہے تھے گویا بہت ہی قیمتی سامان ہوں۔
ہر ایک خوشے پر مقامی نام لکھے ہوئے تھے جیسے کہ پوون، شیوازائی اور مٹی پازھم۔ میں نے اپنی نوعمری میں، جو کہ 12 سو کلومیٹر شمال میں حیدرآباد شہر میں گزری تھی، کیلے کی اتنی اقسام کبھی نہیں دیکھی تھیں۔ میں صرف تیلگو زبان میں اس کا نام جانتی تھی جو کہ اراتی پنڈو اور تمل میں واظائپازم اور ہندی میں کیلا ہے لیکن یہاں نگرکوائل میں کچھ 12 سے 15 اقسام تھیں جن میں سے ہر ایک کا الگ نام اور خاصیت ہے۔ کیلا قدیم زمانے سے انڈیا میں ایک کثیرالمقاصد اور قابل احترام پھل کی طرح استعمال ہوا ہے۔ یہ اپنی مقامیت، ہر موسم میں دستیابی اور فوائد کی بنا پر ایک سدا بہار پھل ہے اور اس کا درخت پوری طرح سے ملک کے ثقافتی نظام کا حصہ ہے۔ یہ بھی پڑھیے انڈین کھانوں کے بارے میں چند حیران کُن حقائق کھانوں میں پھولوں کا استعمال لاک ڈاؤن میں ہر کوئی ’بنانا بریڈ‘ کیوں ڈھونڈ رہا ہے؟ کیلے کی مقامی اقسام اب بھی جنوبی انڈیا میں کاشت کی جاتی ہیں اگرچہ اس کی دیسی اقسام پورے انڈیا میں گھروں میں کاشت کی جاتی ہیں لیکن نگرکوائل جیسے مقامات پر اس کی گھریلو اور جنگلی دونوں اقسام موجود ہیں۔ یہ خاص طور پر اس لیے ہے کہ جنوبی انڈیا کے مغربی گھاٹ کی زمین زرخیز اور آب و ہوا گرم اور مرطوب ہے۔ کیلے کو دنیا کے قدیم ترین اور سب سے زیادہ کاشت کیے جانے والے پھلوں میں سے ایک کہا جاتا ہے جو کہ انڈیا اور جنوب مشرقی ایشیا سے دنیا کے اور خطوں میں پھیلا ہے۔ آج یہ دنیا کے سب سے زیادہ استعمال ہونے والے پھلوں میں سے ایک ہے اور اس وبائی دور میں بھی دنیا میں گوگل سرچ پر ٹرینڈ ہوتا رہا ہے کہ آسانی سے اس کی روٹی کیسے بنائیں۔ تاریخی ریکارڈ میں بتایا گیا ہے کہ سکندر اعظم کڈالی پھلام (کیلے کا سنسکرت نام) کے انوکھے ذائقے سے متاثر تھے اور اس پھل کو انڈیا سے مشرق وسطی لے گئے جہاں عرب تاجروں نے اسے بنان (انگلی کا عربی لفظ) کہنا شروع کر دیا۔ اس کے بعد یہ 15ویں صدی میں افریقہ، لاطینی امریکہ اور کیریبیئن پہنچا اور پھر شمال کی طرف برمودا گیا۔ برمودا سے کیلے کو 17ویں اور 18ویں صدی کے دوران ایک نئے پھل کے طور پر برطانیہ پہنچایا گیا تھا۔ سنہ 1835 میں ڈربی شائر میں چیٹس ورتھ سٹیٹ کے ہیڈ باغبان جوزف پاکسٹن نے ایک نئی پیلے رنگ کے کیلے کی کاشتکاری کی اور اس کا نام اپنے آجر ولیم کیوانڈش کے خاندانی نام پر موسا کیوینڈیشی رکھا۔ اپنے نسبتاً چھوٹے سائز اور ایک حد تک پھیکے ذائقے کے باوجد کیونڈیش کی انفرادیت، بیماری کے خلاف مزاحمت اور اعلی پیداواری صلاحیت نے اسے مغربی دنیا میں پسندیدہ بنا دیا ہے۔ انڈیا میں اعلی پیداوار والی جی نائین کیوانڈیش کی (جو کہ اسرائیل سے ہے) اب پورے ملک میں تجارتی طور پر کاشتکاری کی جاتی ہے۔ تاہم کیلے کی مقامی اقسام اور ان کے پرانے رشتے دار کی اب بھی کاشتکاری ہوتی ہے، خاص طور پر انڈیا کے جنوبی علاقوں میں۔ مقامی لوگ ذائقے اور بناوٹ کے لئے اکثر پوون، مونڈن اور پیان (بالترتیب مقدس ہندو تثلیث برہما، وشنو اور شیو کے نام پر منسوب ہیں) جیسی اقسام کی تعریف کرتے ہیں۔ انڈیا میں کیلا جسمانی اور روحانی بیماریوں کا علاج سمجھا جاتا ہے۔ بچپن میں مجھے پھلوں کی نازک اور کچی ساخت پسند نہیں تھی۔ تاہم مجھے کیلے کا ٹکڑا نگلنا یاد ہے جب میری والدہ نے مجھ سے التجا کی تھی کہ میں اسے یرقان کے بعد مدافعتی بوسٹر کے طور پر کھاؤں۔ جبکہ میری دادی نے مجھے مذہبی تقاریب کے بعد پرساد (نذرانہ) کے طور پر کھلایا تھا۔ کیلے کے صحت پر اچھے اثرات کو آج بڑے پیمانے تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایک پکا ہوا کیلا پوٹاشیم، کیلشیم، وٹامن بی 6 اور وٹامن سی سے بھرا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ کاربوہائیڈریٹ اور فائبر کا بھرپور ذریعہ بھی ہے۔ انڈیا میں اس کا طبی استعمال ہزاروں برس سے کیا جا رہا ہے۔ کیلے کے درخت کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور اس کا ہر حصہ استعمال ہوتا ہے، چاہے وہ کھانے کے لئے پھل ہو یا دواؤں کے لیے پتی، پھول اور چھال ہو۔ انڈیا میں کیلے کو مقدس سمجھا جاتا ہے اور یہ اکثر مذہبی مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں دلی کے ناد ویلنیس نامی مرکز میں سینیئر آیوروید کی مشیر ڈاکٹر سری لکشمی نے کہا، ’ایک پکا ہوا کیلا کاپھا پریڈومینینٹ ہے یعنی اس میں پانی اور زمین کے حیاتیاتی عناصر ہیں اور یہ آیوروید میں جلد کے کئی امراض کے علاج کے لیے استعمال ہوتا ہے۔` اس کے علاوہ آیوروید میں کیلے کے پھول اور تنے کو ذیابیطس کے علاج کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے اور درخت کا ساپ (جس میں کئ قسم کی خصوصیات ہیں) کوڑھ اور مرگی جیسے بیماریوں کے ساتھ ساتھ کیڑے کے کاٹنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسا کہ سری لکشمی نے واضح کیا، ہائی بلڈ پریشر اور بے خوابی جیسے امراض کا علاج تھلاپوتھیچل نامی ایک علاج کے ذریعے کیا جاتا ہے جس میں سر کو دواؤں کی پیسٹ میں ڈھک دیا جاتا ہے اور پھر کیلے کے پتے سے لپیٹا جاتا ہے جو کہ پر سکون ہوتا ہے۔ کیلا واحد پھل ہے جس کا ذکر پالی کینن (بدھ مذہب کے تھیراوڈا سکول کے مرکزی صحیفہ)، ویدوں اور بھگوت گیتا میں ہے اور آم اور کڑوا پھل کے ساتھ پھلوں کی تپش تشکیل دیتا ہے جسے تامل سنگم ادب میں مکانی کہتے ہیں۔ ہندو مذہب میں کیلے کے درخت کو لارڈ برہسپتی (مشتری) کے ساتھ مساوی کیا جاتا ہے جو ہندو پنتھیوں کے گرو سمجھے جاتے ہیں۔ کیلے کا درخت زرخیزی اور فیاضیت سے بھی وابستہ ہے۔ لہذا جنوبی انڈیا میں شادیاں، مذہبی تہوار اور دیگر خاص مواقع کے دوران گھر یا پنڈال کے داخلی راستے کے دونوں طرف پھولوں کی شاخوں والی کیلے کے درختوں کا جوڑا رکھا جاتا ہے۔ بنگال میں درگا پوجا تہوار کے دوران درگا (جنگ اور نسائی توانائی کی ہندو دیوی) کی ایک علامتی مورتی کیلے کے پودے سے بنائی جاتی ہے جس کو سرخ رنگ کی سرحد والی ایک پیلی ساڑھی میں لپیٹا جاتا ہے۔ دیوی کی اس شکل کو کولا بئو کہا جاتا ہے جہاں کولا کا مطلب ’کیلا ہے اور بئو کا مطلب بنگالی میں ’خاتون ہے۔ کیلا انڈین ذائقے کا ایک اہم حصہ ہے جب انڈیا میں کیلا کھانے کی بات آتی ہے تو اس کی کئی مختلف اقسام ہیں مثلاً پکا یا کچا کیلا۔ آسانی سے ہضم ہونے والی مٹی پازھم جیسی اقسام بچے کے کھانے کے طور پر استعمال ہوتی ہیں جبکہ نینڈران اور رستھالی جیسے دیگر اقسام اپنی طویل زندگی اور پانی کی کم مقدار کی وجہ سے روایتی اور جدید دونوں پکوانوں میں استعمال ہوتے ہیں۔ شانتالا نائک شینائے، جو دی لو آف ایسپائس نامی ایک فوڈ بلاگ چلاتی ہیں، کہتی ہیں کہ ’ہم کنکانی یعنی مغربی گھاٹوں میں بسے کونکن علاقے کے باشندے اسے کیلے کہتے ہیں اور یہ ہمارے روایتی کھانوں کا ایک اہم حصہ ہے۔ شینائے کہتی ہیں ’میں اکثر کیلے اپکری [بھنے ہوئے ہلکے مصالحے دار اور کچے کیلے کا آمیزش] اور کیلے کوڈیل (ایک مصالحے دار ناریل پر مبنی سالن‘ تیار کرتی ہوں اور پکے کیلے کا استعمال کر کے کیلے پھوڈی (چنے کے آٹے کے پکوڑے) اور کیلے حالوو (پکے کیلے اور سوجی) تیار کرتی ہوں۔ کیلے سے زیادہ تر ٹیسٹ بڈ اور پیلیٹ لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔` حیدرآباد کے ونس اپون اے ٹائم ریستوراں کے شیف پارٹنر ویگنیش رامچندرن کے مطابق ’ہم میون کوزامبو (مچھلی کا سالن) کی ایک سبزی والی قسم سیوامین کوزامبو میں مچھلی کے بجائے میرینیٹڈ اور گرلڈ کچے کیلے کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ کچا کیلا سالن میں مچھلی کی طرح تیرتا ہے جیسے اصلی ڈش میں مچھلی۔‘ کیلے کا درخت انڈیا میں ثقافتی اہمیت رکھتا ہے جب مجھے لگا کہ اب میں کیلے کا انڈیا میں ہونے والے ہر طرح کے استعمال سمجھ گئی ہوں تب میری ملاقات چنئی میں ایک بینکر سے ہوئی جو کہ کیلے کے فضلے اور ریشے سے ماحولیات کے لیے مقبول ساڑھیاں بناتے ہیں۔ وہ 100 کے قریب خواتین کی ایک ٹیم کی رہنمائی کر رہے ہیں جو برسوں سے روئی اور کیلے فائبر کی مکس ساڑھیاں بنا رہی ہیں۔ جب معمولی اور کئی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی بات آتی ہے تو کیلا کچا ہو یا پکا، پھل ہو یا پھول، کیویندش یا پوون، انڈیا میں اس کی اقسام کی کوئی کمی نہیں بلکہ اس کے متعلق جتنی زیادہ معلومات دریافت کی جائیں، اتنی ہی حیرت انگیز کہانیاں سامنے آتی ہیں۔ نگیرکویل میں میں اب بنا شک، بلکہ پر اعتماد طریقے سے، رسکدالی یا مٹی پازام کا انتخاب کرتی ہوں جو کہ مذہبی مقاصد میں استعمال کئے جاتے ہیں۔ میں اکثر ناشتے کے لئے کیلے کا نیندرن چپس خریدتی ہوں۔ اس کا ہر ایک نوالہ ایک نئی داستان سناتا ہے۔
051025_altaf_teetwal_zs
https://www.bbc.com/urdu/india/story/2005/10/051025_altaf_teetwal_zs
’چھ گھنٹے میں پل بنا دیں گے‘
ٹیٹوال کا علاقہ کنٹرول لائن پر واقع ہے اور یہاں صرف ایک دریا پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور بھارت کے زیرِانتظام کشمیر کو جدا کرتا ہے۔ اس دریا کو پاکستان میں دریائے نیلم اور بھارت میں کشن گنگا ندی کہا جاتا ہے۔
اس علاقے میں بھارتی فوجیوں نے متعدد ٹینٹ نصب کیے ہوئے ہیں اور ان ٹینٹوں میں ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف تعینات کیا گیا ہے۔ ان عارضی میڈیکل کیمپوں میں حالیہ زلزلے سے متاثرہ افراد کے لیے چھوٹے پیمانے پر سرجری کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ تاہم ان طبی کیمپوں میں کسی قسم کی بڑی سرجری کا انتظام نہیں ہے اور نہ ہی ان کیمپوں میں کام کرنے والے جانتے ہیں کہ کسی مریض کے تشویش ناک حالت میں ہونے کی صورت میں اسے ہیلی کاپٹر کی مدد سے کسی بڑے ہسپتال میں منتقل کیا جا سکے گا یا نہیں۔ بھارتی فوج کے انجینیئر بھی کنٹرول لائن پر موجود اس دریا پر پل بنانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں لیکن پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی فوج کو اس وقت تک یہ پل تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی جب تک اسے حکومت کی جانب سے حکم نہیں مل جاتا کیونکہ بصورتِ دیگر اس پل کی تعمیر لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی تصور ہو گی۔ بھارتی فوج کی انجینیئروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کی جانب سے اجازت ملنے کے چھ گھنٹے کے اندر اندر وہ یہ پل تیار کر سکتے ہیں۔
sport-55302124
https://www.bbc.com/urdu/sport-55302124
مدثر نذر کی سُست ترین سنچری: ’غلط شاٹ کھیلا تو امتیازاحمد نے پیغام بھیجا ٹیم کے لیے کھیلو‘
پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان سنہ 1977 میں کھیلی جانے والی سیریز کے لاہور ٹیسٹ کے پہلے دن اوپننگ بیٹسمین مدثرنذر ُپرسکون انداز میں بیٹنگ کر رہے تھے کہ انھیں نہ جانے کیا سوجھی کہ انھوں نے ایک گیند کو باہر نکل کر کھیلنا چاہا۔
ʹمیں نے باہر نکل کر جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہا لیکن میری قسمت اچھی تھی کہ گیند بلے کا کنارہ لیتی ہوئی سٹمپس کے قریب سے گزر گئی' گیند سٹمپس کے بہت قریب سے گزر کر چلی گئی اور وہ آؤٹ ہونے سے بال بال بچے، جس پر انھیں ڈریسنگ روم سے سنبھل کر کھیلنے کا پیغام ملا۔ مدثر نذر 43 سال گزر جانے کے بعد بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے اس لمحے کو یاد کرتے ہیں۔ ʹمیں نے باہر نکل کر جارحانہ انداز اختیار کرنا چاہا لیکن میری قسمت اچھی تھی کہ گیند بلے کا کنارہ لیتی ہوئی سٹمپس کے قریب سے گزر گئی۔‘ ’میں نے ڈریسنگ روم سے بارہویں کھلاڑی کو گلوز کے ساتھ اپنی جانب بھاگ کر آتے دیکھا جس نے مجھے چیف سلیکٹر اور ٹیم کے منیجر امتیاز احمد کا پیغام پہنچایا کہ ٹیم کے لیے کھیلو۔ʹ مدثر نذر کہتے ہیں ʹمجھے اور کیا چاہیے تھا۔ اس پیغام کے بعد میں نے خود کو دفاعی خول میں بند کر لیا۔ جب پہلے دن چائے کا وقفہ ہوا میں 48 رنز پر کھیل رہا تھا۔ اس دوران میں نے سوچا کہ بہت ہو گیا اب تھوڑا بہت تیز کھیل بھی دکھانا چاہیے۔ ’باب ولس کی پہلی گیند پر میں نے چوکا لگایا لیکن جب پہلے دن کا کھیل ختم ہوا تو اُس وقت میں 52 رنز پر ہی کھیل رہا تھا۔‘ 15 دسمبر کو لاہور ٹیسٹ میچ کے دوسرے دن مدثرنذر نے اپنا نام ریکارڈ بُک میں کس طرح درج کرایا یہ انھی کی زبانی سنیے۔ یہ بھی پڑھیے جب امریکی صدر آئزن ہاور ٹیسٹ میچ دیکھنے کراچی کے نیشنل سٹیڈیم پہنچے جب فضل محمود کو چھٹی دینے کے احکامات براہ راست وزیراعظم ہاؤس سے آئے لکھنؤ ٹیسٹ میں پاکستان کی فتح، اندرا گاندھی کا طنزیہ جملہ اور بیگم اختر کی گائیکی ’دوسرے دن میں نے ہارون رشید کے ساتھ اننگز دوبارہ شروع کی تو وہ 84 رنز پر ناٹ آؤٹ تھے جبکہ میں 52 رنز پر کھیل رہا تھا۔‘ ہارون نے اپنی سنچری جلد ہی مکمل کر لی۔ ’وہ ہارون رشید کے عروج کے دن تھے ان دنوں وہ بہت زبردست بیٹنگ کر رہے تھے۔ اس کے بعد جاوید میانداد کریز پر آئے تھے ان کے ساتھ میری بہت اچھی ہم آہنگی تھی۔‘ مدثر نذر بتاتے ہیں ’جب میں 99 رنز پر ناٹ آؤٹ تھا تو تماشائی گراؤنڈ کے اندر داخل ہو گئے تھے اور کھیل کافی دیر تک رُکا رہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے آف سپنر جیف کوپ کی گیند پر ایک رن لے کر اپنی سنچری مکمل کی تھی۔‘ مدثر نذر نے اپنی یہ پہلی ٹیسٹ سنچری 557 منٹ میں مکمل کی تھی۔ اس سے قبل ٹیسٹ کرکٹ میں سُست ترین سنچری کا ریکارڈ جنوبی افریقہ کے جیکی میک گلیو کا تھا جنھوں نے جنوری 1958 میں آسٹریلیا کے خلاف ڈربن ٹیسٹ میں اپنی سنچری 545 منٹ میں مکمل کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مدثر نذر کی اس سُست ترین سنچری کے مکمل ہونے کے اگلے ہی روز انگلینڈ کے اوپنر جیف بائیکاٹ نے بھی کچھوے کی چال سے بیٹنگ کرتے ہوئے مدثر نذر سے 20 منٹ زیادہ وقت میں اپنی نصف سنچری مکمل کی تھی اور ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ وہ مدثرنذر کو عالمی ریکارڈ کے مالک کے طور پر دیکھنا پسند نہیں کرتے اور اس ریکارڈ پر اپنا نام درج کرانا چاہتے ہیں لیکن ان کی اننگز 63 رنز پر اقبال قاسم کے ہاتھوں بولڈ ہونے پر تمام ہو گئی تھی۔ عالمی ریکارڈ کے بارے میں لاعلم عام طور پر جب کھلاڑی میدان میں ہوتے ہیں تو انھیں اپنے بنائے ہوئے ریکارڈز کا علم نہیں ہوتا۔ مدثر نذر کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔ وہ بتاتے ہیں ’میں نے جب سنچری مکمل کی تو ظاہر ہے اس وقت کسی نے بھی مجھے یہ نہیں بتایا کہ میں نے سُست ترین سنچری کا نیا عالمی ریکارڈ بنایا ہے۔ سٹیڈیم میں پبلک اناؤنسمنٹ کے ذریعے بھی کوئی اعلان نہیں ہوا۔ یہ بات مجھے بعد میں معلوم ہوئی۔‘ مدثر نذر کہتے ہیں ’جب میں نے سنہ 1983 میں بھارت کے خلاف حیدرآباد ٹیسٹ میں جاوید میانداد کے ساتھ 451 رنز کی پارٹنرشپ قائم کی تھی تو اس وقت بھی مجھے نہیں پتہ تھا کہ ہم نے ورلڈ ریکارڈ برابر کر دیا ہے۔‘ وہ بتاتے ہیں ’اس وقت مجھے یہ پتہ تھا کہ عمران خان اننگز ڈکلیئر کر دیں گے کیونکہ بھارت کی بیٹنگ لائن بہت لمبی تھی اور اسے آؤٹ کرنے کے لیے وقت چاہیے تھا۔‘ ’ ’میں تیز کھیلنے کی کوشش میں کور پوزیشن پر کیچ ہو گیا۔‘ ’جب میں ڈریسنگ روم میں آیا تو سرفراز نواز نے مجھ سے کہا بیڈ لک ہو گئی۔ میں نے سوچا کہ سکور بورڈ پر صرف دو وکٹوں پر پانچ سو رنز لگے ہوئے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ بیڈ لک ہو گئی بعد میں کسی نے بتایا کہ ہم صرف ایک رن کی کمی سے سب سے بڑی پارٹنرشپ کا عالمی ریکارڈ نہیں بنا سکے تھے۔‘ وہ بتاتے ہیں کہ ’وقتی طور پر افسوس ضرور ہوا تھا لیکن پھر یہ احساس ہوا کہ ہمارا نام سر ڈان بریڈمین اور بل پونسفورڈ کے ساتھ درج ہوا ہے جس کی زیادہ خوشی تھی۔‘ فوجی اور کرکٹ انقلاب ساتھ ساتھ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان لاہور ٹیسٹ مدثرنذر کی سُست ترین سنچری کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے حوالوں سے بھی یاد رکھا جاتا ہے۔ یہ انگلینڈ کے آف سپنر جیف کوپ اور پاکستانی لیگ سپنر عبدالقادر کا اولین ٹیسٹ بھی تھا۔ جیف کوپ اپنے کپتان مائیک بریرلی کی سپورٹس مین سپرٹ کی وجہ سے اپنے اولین ٹیسٹ میں ہیٹ ٹرک کے اعزاز سے محروم ہو گئے۔ جیف کوپ نے لگاتار گیندوں پر عبدالقادر اور سرفراز نواز کو آؤٹ کیا۔ تیسری گیند پر امپائر نے اقبال قاسم کو سلپ میں کیچ آؤٹ قرار دے دیا لیکن مائیک بریرلی نے امپائر کو بتایا کہ یہ کیچ نہیں تھا اور انھوں نے اقبال قاسم کو بیٹنگ کے لیے واپس بلا لیا اس طرح کوپ کی ہیٹ ٹرک رہ گئی۔ یہ وہی ٹیسٹ ہے جس میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی قذافی سٹیڈیم آمد کے موقع پر زبردست ہنگامہ آرائی ہوئی تھی اور پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی تھی اس دوران بیگم نصرت بھٹو کے سر سے خون بہنے لگا تھا۔ انگلینڈ کی ٹیم مائیک بریرلی کی قیادت میں جب پاکستان پہنچی تھی تو اس وقت ملک میں جنرل ضیا الحق فوجی بغاوت کے ذریعے ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر چکے تھے۔ سیاسی اجتماعات پر پابندی تھی لہٰذا ان کے سیاسی مخالفین نے اپنی سیاسی طاقت دکھانے کے لیے کرکٹ سٹیڈیم کا انتخاب کیا تھا۔ دوسری جانب کرکٹ کی دنیا میں کیری پیکر انقلاب برپا کر چکے تھے۔ پاکستان کی کرکٹ اسٹیبلیشمنٹ پر کیری پیکر ورلڈ سیریز میں حصہ لینے والے کرکٹرز کو پاکستانی ٹیم میں شامل کرنے کے لیے شدید عوامی دباؤ تھا لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتا اس کے حق میں نہیں تھے حالانکہ وہ اس خوف میں بھی مبتلا تھے کہ ان تجربہ کار کرکٹرز کی غیر موجودگی میں پاکستانی ٹیم کہیں انگلینڈ سے ہار نہ جائے۔ ایک موقع پر یہ امید ہو چلی تھی کہ کیری پیکر سیریز میں حصہ لینے والے کرکٹرز پاکستانی ٹیم میں شامل کر لیے جائیں گے اسی وجہ سے مشتاق محمد، عمران خان اور ظہیرعباس آسٹریلیا سے وطن واپس آئے تھے لیکن فوجی حکمراں ضیا الحق نے مشہور کمنٹیٹر ہنری بلوفیلڈ کی موجودگی میں مشتاق محمد سے ہونے والی ملاقات میں کیری پیکر کرکٹ کے بارے میں انتہائی سخت الفاظ استعمال کیے تھے اور یہ تینوں کرکٹرز کھیلے بغیر آسٹریلیا واپس چلے گئے تھے۔ مدثر نذر کہتے ہیں ʹمیرے ُسست کھیلنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت پاکستانی ٹیم میں ماجد خان، ظہیرعباس، مشتاق محمد اور عمران خان جیسے ورلڈ کلاس کھلاڑی موجود نہیں تھے اور ٹیم مجھے زیادہ سے زیادہ دیر کریز پر دیکھنا چاہتی تھی۔‘ ماجد نے مشتاق سے کہا کہ اسے بولنگ دو مدثرنذر کہتے ہیں ʹجس زمانے میں میں پاکستانی ٹیم میں آیا اس وقت پاکستان کی مڈل آرڈر بیٹنگ بہت مضبوط تھی اس لیے اوپنر کے طور پر ہی جگہ بنتی تھی حالانکہ اس وقت صادق محمد بھی خاصے تجربہ کار تھے لیکن مجھے اس وجہ سے ٹیم میں آنے کا موقع ملا کہ میں ہر پوزیشن پر فیلڈنگ کر لیا کرتا تھا اس کے علاوہ میں بولنگ بھی کرتا تھا۔‘ مدثر نذر بتاتے ہیں کہ ʹمیری بولنگ کے بارے میں عام طور پر ہر کوئی انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ کی بات کرتا ہے لیکن جو لوگ مجھے پہچانتے ہیں وہ سنہ 1978 میں انڈیا کے خلاف لاہور ٹیسٹ کی وجہ سے جانتے ہیں۔‘ مدثر نذر بتاتے ہیں ʹلاہور ٹیسٹ کے آخری دن عمران خان اور سرفراز نواز یہ سوچ کر کہ وشواناتھ اور وینگسارکر میچ کو ڈرا کی طرف لے جا چکے ہیں یہ دونوں بولرز ڈریسنگ روم میں گئے اور اپنے جوتے تبدیل کر کے آ گئے کہ اب بولنگ نہیں کرنی پڑے گی۔ ’اس موقع پر کپتان مشتاق محمد نے پریشان ہو کر سوال کیا کہ اب میں کسے بولنگ دوں؟ جس پر ماجد خان نے میری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے بولنگ کراؤ۔‘ مدثر نذر بتاتے ہیں ʹمیں نےاپنے پہلے ہی اوور میں وشواناتھ کو 83 رنز پر بولڈ کر دیا۔ اگلے اوور میں جب میں وینگساکر کو بولنگ کرنے آیا تو میں نے مشتاق محمد سے کہا کہ مجھے سلپ میں ایک کے بجائے دو فیلڈرز چاہییں جس پر مشتاق نے پنجابی میں مجھ پر فقرہ کسا ’ہون ُتسی اٹیک وی کرو گے۔‘ میں نے اسی اوور میں وینگسارکر کو وسیم باری کے ہاتھوں کیچ کرا دیا تھا۔ ’یہ دیکھ کر عمران اور سرفراز دونوں ڈریسنگ روم کی طرف بھاگے اور دوبارہ سپائکس پہن کر آ گئے اور انھوں نے آخری چار وکٹیں لے کر میچ پلٹ دیا تھا۔‘ مدثرنذر کہتے ہیں ʹمیں انگلینڈ کے خلاف لارڈز ٹیسٹ میں اگرچہ بولر کا اینڈ تبدیل کرنے آیا تھا لیکن مجھے پتا تھا کہ سرفراز اور طاہر نقاش فٹ نہیں تھے اور انجکشن لگوا کر کھیل رہے تھے اس لیے مجھے لمبی بولنگ کرنی پڑے گی۔‘ یاد رہے کہ اس اننگز میں مدثر نذر نے صرف 32 رنز دے کر چھ وکٹیں حاصل کی تھیں۔ اپنے پہلے ہی سپیل میں انھوں نے صرف چھ گیندوں پر ڈیرک رینڈل ایلن لیمب اور ڈیوڈ گاور کو آؤٹ کر دیا تھا اور اسی حیران کن کارکردگی پر وہ مین ود گولڈن آرم کے نام سے پہچانے جانے لگے تھے۔
060913_shaukat_aziz_afghanistan_ur
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/09/060913_shaukat_aziz_afghanistan_ur
جلال آباد طورخم سڑک کا افتتاح
پاکستان کے وزیر اعظم شوکت عزیز جو کہ آج کل افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے بات چیت کے لیے افغانستان کے دورے پر ہیں پاکستان اور افغانستان کے درمیان رابطے کا کام دینے والی اہم شاہراہ کا دوبارہ افتتاح کریں گے۔
جلال آباد سے طورخم جانے والی دو سو چوبیس کلو میٹر لمبی یہ سڑک افغان تاجروں کے لیے بہت اہم ہے۔ ان تاجروں کو اس سڑک پر کئی سالوں سے مرمت کا کام جاری ہونے کے باعث اپنے سفر میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ٹریفک آپریٹروں کے مطابق اب اس سڑک پر سفر کرنے والوں کو موجود آٹھ گھنٹوں کی بجائے صرف چار گھنٹے کا وقت لگے گا۔ پچھلے چند برسوں میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ رہے ہیں جن کی وجہ کابل کی طرف سے کی جانے والی یہ الزام تراشی تھی کہ پاکستان ان طالبان مزاحمت کاروں سے مقابلہ کرنے میں کامیاب نہیں رہا جو کہ اس کی سرحد کے پار دیہاتوں میں پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔
pakistan-41750696
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-41750696
’عدالت نے ایمانداری کو دیکھنا ہے اکاؤنٹس آڈٹ نہیں کرنا‘
پاکستان تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ میں درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی تو ان کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ اُن کے موکل نے کبھی بھی ایسا کوئی کام نہیں کیا جو غیر قانونی ہو اور آف شور کمپنی کی تشکیل اور بیرون ملک جائیداد کی خریداری کے لیے جتنی بھی رقم بھیجی گئی وہ بینکوں کے ذریعے تھی جس پر ایف بی آر نے کبھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔
اس پر پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ کسی کی ’بددیانتی جانچنے کے لیے اس کا ذہن نہیں بلکہ عمل دیکھا جاتا ہے۔‘ * ’سب سے زیادہ ٹیکس جہانگیر ترین نے دیا‘ * 'اتنی خاموشی کیوں ہے بھائی؟' جہانگیر ترین کے وکیل نے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ آف شور کمپنی کے لیے ادائیگی بذریعہ بینک کی گئی۔ سنہ 2011 میں جہانگیر ترین نے پچیس لاکھ پاؤنڈ بیرون ملک بھجوائے، دو ہزار بارہ میں پانچ لاکھ پاؤنڈ بیرون ملک بھجوائے دوہزار چودہ میں گیارہ لاکھ پاونڈ بیرون ملک منتقل کیے اور اس ضمن میں ٹرسٹ کو کی گئی تمام ادائیگیوں کا بینک ریکارڈ موجود ہے۔ عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ پلاٹ کو رہن رکھوا کر قرض بھی لیا گیا تھا اور دو ملین پاونڈ سے زائد کا قرض ای ایف جی بنک سے لیا گیا اور ابھی بھی قرض کی موجودہ رقم پندرہ لاکھ پاؤنڈز ہے۔ جہانگیر ترین کے وکیل نے کہا کہ بیرون ملک جائیداد سے کوئی آمدن نہیں ہو رہی جس پر سپریم کورٹ نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا برطانیہ میں ہائیڈ ہاؤس جہانگیر ترین کا اثاثہ نہیں ہے۔ سماعت کے دوران درخواست گزار حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے اعتراض اُٹھایا کہ جہانگیر ترین کے وکیل نے یہ نہیں بتایا کہ اس آف شور کمپنی کے لیے رقم بیرون ملک کیسے منتقل کی گئی جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ رقم بینکوں کے ذریعے منتقل کی گئی اور اس میں منی لانڈرنگ نہیں ہوئی۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایک موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جہانگیر ترین کے اکاونٹ سے رقم شائنی ویو کو ہی منتقل ہوئی ہوگی جس پر اکرم شیخ نے کہا کہ رقم ٹرسٹ کے بغیر ہی آف شور کمپنی کو بھجوائی گئی ہے۔ اس جواب پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے صرف ایمانداری کو دیکھنا ہے اکاونٹس کا آڈٹ نہیں کرنا۔ سماعت کے دوران پاکستان تحریک انصاف کی قیادت موجود نہیں تھی اور صرف اس جماعت کے میڈیا سیل کے لوگ موجود تھے جبکہ اس کے برعکس وفاقی وزرا پوری عدالتی کارروائی کے دوران کمرۂ عدالت میں بھی موجود تھے اور ان کے باڈی لینگویج سے لگ رہا تھا کہ وہ عدالت عظمیٰ سے کم از کم وقت میں عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی چاہتے ہیں لیکن سپریم کورٹ بظاہر ان درخواستوں کا فوری فیصلہ کرنے کو تیار نہیں ہے اور سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کی سماعت سات نومبر تک ملتوی کردی اس پر وفاقی وزرا نے دبے لفظوں میں میڈیا پر آکر اظہار بھی کیا جس میں اُن کا کہنا تھا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کیس میں تو اُنھیں چند گھنٹے دیے گئے جبکہ عمران خان اور جہانگیر ترین کے خلاف مقدمے میں ایسا نہیں کیا جارہا۔ سماعت کے دوران کمرہ عدالت میں موجود وکلا جہانگر ترین کے بارے میں مقامی میڈیا پر آنے والی سکیورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کی خبر پر تبصرہ کر رہے تھے جس میں جہانگیر ترین نے مبینہ طور پر اربوں روپے کی جائیداد اپنے گھریلو ملازموں کے نام پر کی ہوئی تھی جن کی خود اپنی تنخواہ چند ہزار روپے ہے۔ داخلہ امور کے وزیر مملکت طلال چوہدری نے کہا کہ ان ملازموں کے نام اتنی مہنگی جائیدادیں ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان ملازموں نے جہانگیر ترین کو بطور مالک رکھا ہوا ہے۔
pakistan-48176807
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-48176807
علی وزیر: بغاوت پر اکسانے، ملکی سلامتی خطرے میں ڈالنے کے الزامات پر ایف آئی آر درج
پشتون تحفظ موومنٹ کے لیڈر اور آزاد رکن قومی اسمبلی علی وزیر نے اپنے خلاف بغاوت اور ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے جیسے الزامات کے رد عمل میں کہا ہے کہ انھوں نے شمالی وزیرستان میں کسی غیر قانونی اجتماع میں نہیں بلکہ مقامی لوگوں کے ایک جرگے میں شرکت کی جہاں ریاست مخالف نہیں بلکہ مقامی لوگوں کے حقوق اور ان کے تحفظ کی بات کی گئی۔
یاد رہے کہ پانچ مئی (اتوار) کو پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں پولیس نے علی وزیر سمیت درجن بھر دیگر افراد کے خلاف بغاوت پر اکسانے، ملکی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے، ریاست مخالف نعرے بازی، اشتعال انگیز تقاریر اور دیگر الزامات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ ایف آئی آر ضلع شمالی وزیرستان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر کفایت اللہ خان کی مدعیت میں درج کی گئی ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ملزمان نے یکم مئی کو شمالی وزیرستان کی تحصیل شواہ میں کرم تنگی ڈیم کی تعمیر کا کام روکنے کے سلسلے میں ایک اجتماع منعقد کیا اور لوگوں کو اس کی تعمیر کے خلاف اکسایا۔ ایف آئی آر کے متن کے مطابق اس اجتماع میں ملزمان کے علاوہ کابل خیل قوم کی تمام شاخوں کے نمائندے، یوتھ اور پشتون تحفظ موومنٹ کے ورکرز نے شرکت کی۔ یہ بھی پڑھیے ’احتساب کے لیے تیار ہیں لیکن ثبوت تو پیش کریں‘ ’پی ٹی ایم بتائے ان کے پاس کتنا پیسہ ہے اور کہاں سے آیا؟‘ ’پی ٹی ایم ہماری روح ہے، اس کے بغیر انسان نہیں جی سکتا‘ الزامات کے مطابق اس دوران جذباتی نعرہ بازی ’یہ جو دہشت گردی ہے اس کے پیچھے وردی ہے‘ اور ’یہ جو نامعلوم ہے یہ ہمیں معلوم ہے‘ جیسے نعرے لگائے گئے جبکہ ملزمان پاکستان کی مسلح افواج کے خلاف شرکا کو اکساتے بھی رہے اور ملکی سلامتی کے لیے خطرات پیدا کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ایف آئی آر مجرمانہ سازش، مجرمانہ دھونس دھمکی، سرکاری ملازمین کو جانی نقصان پہنچانے کی دھمکی، بلوا، غیر قانونی اور جان لیوا ہتھیار رکھنے، غیر قانونی اجتماع، ہتکِ عزت، نقص امن اور دیگر دفعات کے تحت درج کی گئی ہے۔ علی وزیر کا موقف بی بی سی سے بات کرتے ہوئے علی وزیر کا کہنا تھا کہ یہ ان کے خلاف ہونے والی کوئی پہلی ریاستی کارروائی نہیں ہے۔ ’مجھے یہ لگ رہا ہے کہ اب وہ مجھے گرفتار کرنا چاہ رہے ہیں اور اس کے لیے یہ ذمہ داری سے سب چالیں چل رہے ہیں لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اگر مجھے کوئی نقصان پہنچا تو اس کی ذمہ دار ریاست اور ریاستی ادارے ہوں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ان کے استاد کہتے تھے کہ موجودہ حکومت اور فوج میں کوئی فرق نہیں ہے اور اب یہ بات ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ اپنی عوام کے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں، آواز بھی بلند کر رہے ہیں اور اس کام کے لیے وہاں کے لوگوں نے انھیں ووٹ اور اپنی نمائندگی کا حق دیا ہے۔ ’ہمیں پارلیمان میں بات کرنے سے روکا جا رہا ہے، میڈیا پر بلیک آؤٹ کیا جا رہا ہے اور ہمیں پریس کانفرنس کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔‘ فوج کے ترجمان کی حالیہ پریس کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان سے کافی سوال پوچھے گئے مگر کئی سوالوں کے جوابات نہیں دیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ ’یہ (آصف غفور)‘ ہمارے ساتھ کسی بھی فورم پر بات کر لیں وہ تمام الزامات کا جواب دیں گے اور اپنے موقف کے حق میں ثبوت پیش کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر چیز اور عمل کی ایک حد ہوتی ہے مگر یہ معاملات کو تباہی کے دھانے پر لے کر جا رہے ہیں۔ تحصیل شواہ میں مسئلہ کیا ہے؟ علی وزیر کا کہنا تھا کہ قبائلی لوگ متعدد فوجی آپریشنز سے گزر چکے ہیں اور وہ پریشان ہیں مگر اب ان کے لیے ایک نئی مشکل کھڑی کی جا رہی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ تحصیل شواہ میں کرم تنگی ڈیم مقامی لوگوں کی مرضی کے خلاف بنایا جا رہا ہے اور لوگ نہیں چاہتے ہیں کہ وہ وہاں سے نقل مکانی کریں، ان کے گھر ڈوب جائیں اور معاوضہ بھی نہ ملے۔ کرم تنگی ڈیم پر پہلے مرحلے کا کام مکمل ہو چکا ہے اور حکومت نے مقامی لوگوں سے وعدہ کیا تھا کہ دوسرے مرحلے پر کام مقامی لوگوں کی مرضی کے بغیر نہیں شروع کیا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈیموں کے لیے بہت سے جگہیں موجود ہیں جہاں آبادیاں متاثر نہیں ہوں گی مگر مقامی لوگوں کی اس درخواست پر غور نہیں کیا جا رہا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ جو لوگ فوجی آپریشنز میں متاثر ہوئے تھے ان کو ابھی تک مکمل معاوضہ نہیں ملا۔ ’ایک تباہ ہونے والے گھر کا معاوضہ اگر چار لاکھ ہے تو سرکاری ملازمین کو رشوت دے کر دو لاکھ بھی نہیں مل رہے اور اب لوگوں کو پتہ ہے کہ ان کو ڈیم کے عوض بھی کچھ نہیں ملنے والا۔‘ اب وہاں کے مقامی لوگوں نے احتجاج کے لیے کمیٹیاں بنائی ہیں۔ ’لوگ اب اپنے حقوق کے لیے نکل رہے ہیں اور ان (ریاست) کا اصل مسئلہ یہی ہے۔ اسی لیے اب وہ زبردستی کر رہے ہیں۔‘
060705_bugti_operation_as
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2006/07/060705_bugti_operation_as
بلوچستان آپریشن میں اکتیس ہلاک
بلوچستان حکومت کے ترجمان رازق بگٹی نے کہا ہے کہ بدھ کے روز سیکیورٹی فورسز نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے سنگسیلہ میں فوجی کارروائی کی ہے جس میں کم سے کم اکتیس بگٹی مسلح قبائلی ہلاک ہوئے ہیں۔
رازق بگٹی نے کہا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے ایک کیمپ پر حملہ کیا ہے جہاں سے بعد میں بھاری مقدار میں اسلحہ بھی برآمد ہوا ہے۔ جب ان سے پوچھا کے لاشیں کہاں ہیں تو انھوں نے بتایا کہ کوئی لاش نہیں ملی یہ معلومات سیکیورٹی فورسز کو قبائلیوں کے کمیونیکیشن سسٹم سے ملی ہے۔ انھوں نے کہا کہ فوجی کارروائی بدھ کو صبح دس بجے شروع کی گئی اور یہ کوئی بارہ بجے دوپہر تک جاری رہی۔ابتدا میں پچیس افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ملی لیکن بعد میں یہ تعداد اکتیس بتائی گئی ہے۔ اس سے پہلے مسلح بگٹی قبائلیوں نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ فوجی کارروائی گزشتہ تین روز سے جاری ہے اور کبھی شدت اختیار کر جاتی ہے تو کبھی اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ اس دوران مختلف مقامات پر سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں جس میں سیکیورٹی فورسز کے لگ بھگ پینتیس اہلکار ہلاک ہوئے ہیں لیکن سرکاری سطح پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ رازق بگٹی نے کہا ہے کہ فوجی کارروائی کو تین چار روز سے جاری نہیں تھی بلکہ صرف بدھ کے روز دو گھنٹے تک جاری رہی ہے۔
080509_sc_geotv_notices_rh
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2008/05/080509_sc_geotv_notices_rh
سپریم کورٹ: جیو، جنگ کی طلبی
تین نومبر کے پی سی او کے تحت معرض وجود میں آنے والی سپریم کورٹ نے پاکستان کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے کہا ہے کہ وہ اُس وقت تک سپریم کورٹ کے کسی جج کی تصویر یا خبر شائع نہیں کریں جب تک اُس کی تصدیق نہ کرلی جائے اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار سے اس کی اس کی اجازت نہ طلب کی جائے۔
یہ احکامات سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سیکرٹری داخلہ کے ساتھ ملاقات کی خبر نشر کرنے پر از خود نوٹس لینے کی کارروائی کے دوران کہی۔ سپریم کورٹ نے مقامی نجی ٹی وی چینل جیو کے بیورو چیف اور مقامی روزنامہ جنگ کے ایڈیٹر اور پبلیشر کو بارہ مئی کو عدالت میں طلب کیا ہے۔ عدالت نے پیمرا کے چئیرمین اور وزارت اطلاعات کے سیکریٹری کو بھی طلب کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ عدالت کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بارے میں ضابطہ اخلاق کے بارے میں بتائیں۔ جسٹس نواز عباسی پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اس از خودنوٹس کی سماعت کے دوران شریف الدین پیرزادہ، عبدالحفیظ پیرزادہ اور وسیم سجاد کو بھی عدالت کی معاونت کے لیے طلب کیا ہے۔ واضح رہے کہ نجی ٹی وی چینل اور مذکورہ اخبار نے آٹھ مئی کو ایک خبر نشر کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس نواز عباسی اور فقیر محمد کھوکھر نے سیکرٹری داخلہ سید کمال شاہ سے ملاقات کی ہے جبکہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کی طرف سے اس کی تردید کی تھی۔ عدالت نے جن افراد کو نوٹس جاری کیے ہیں اُن سے کہا گیا ہے کہ وہ اس کا جواب دیں کہ انہوں نے کن ذرائع سے تصدیق کر کے یہ خبر نشر کی۔
science-53617043
https://www.bbc.com/urdu/science-53617043
ہم رہیں یا نہ رہیں ہمارے اعضا سو برس زندہ رہ سکتے ہیں
ایک ریسرچ کے مطابق، انسانی جسم کے بعض اعضا دوسرے اعضا کی نسبت تیزی سے بوڑھے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ایک مجموعی جسم کی عمر کی نسبت زیادہ عمر پاتے ہیں۔ کیا یہ بات دریافت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہم طویل عمر تک زندہ رہ سکتے ہیں؟
یہ ایک بہت ہی پریشان کن حالت تھی۔ ایک 19 برس کی ترک خاتون کو جگر کی تبدیلی کے لیے فوری طور پر کسی کے جگر کے عطیے کی ضرورت تھی۔ جب جگر کے عطیے کے وصول کنندگان کی منتظرین کی فہرست میں اس کا نام تھا، تو اسی دوران اُسے ہیپاٹک انسیفالوپیتھی (جگر کی بیماری سے ہونے والے کوما) کا مرض لاحق ہوگیا۔ یہ ایک ایسی حالت ہوتی ہے جب جگر کی ناکامی کی صورت میں جو زہر آلودہ مادہ خون میں شامل ہوتا ہے وہ دماغ کو بری طرح متاثر کرنے لگتا ہے۔ اس سے پہلے اس کے جگر نے کام کرنا چھوڑ دیا تھا اور ڈاکٹر اس کی زندگی بچانے کی کوششیں کر رہے تھے۔ جب اس کے لیے وقت تیزی سے گزر رہا تھا، ڈاکٹروں کے پاس اب صرف ایک رستہ رہ گیا تھا کہ وہ جگر کے اس عطیے کو آزمائیں جسے باقی دوسرے ہستالوں نے مسترد کردیا تھا۔ عطیہ کیا گیا جگر بری حالت میں تھا۔ اس میں نہ صرف انفیکشن کی وجہ سے پس موجود تھے، بلکہ جس کے جسم سے یہ عطیہ حاصل کیا گیا تھا وہ خود ترانوے برس کی معمر خاتون تھی جس کا اسی وقت انتقال ہوا تھا۔ جگر کی پیوندکاری کے مروجہ اصولوں اور معیار کے لحاظ سے یہ ایک بہت زیادہ عمر کا جگر تھا اور خاص کر ایک ایسے جسم کے لیے جو خود بہت جوان تھا یہ کچھ زیادہ ہی بوڑھا تھا۔ یہ بھی پڑھیے جسم کے چھ حصے جو کسی کے کام نہیں آتے ڈاکٹروں نے دھڑکتے دل کا آپریشن کرنا کیسے سیکھا ’میرا بچہ مر گیا لیکن اس نے ایک بچے کو زندگی دی‘ جس کا دنیا میں کوئی نہیں اس کا ٹرانسپلانٹ کیسے ہوگا؟ لیکن اس وقت حالت یہ تھی کے اس جوان خاتون کے پاس زندہ رہنے کے لیے زیادہ وقت نہیں تھا اور کوئی دوسرا جگر فوری طور پر مل نہیں سکتا تھا، تو ڈاکٹروں نے اسی جگر کی پیوندکاری کے لیے آپریشن شروع کردیا۔ کمال کی بات یہ ہوئی کہ یہ آپریشن جو ترکی کے شہر ملاتیا کی انونو یونیورسٹی کی لیور ٹرانسپلانٹ انسٹیٹیوٹ میں سنہ 2008 میں کیا گیا تھا، کامیاب ثابت ہوا۔ یہ جوان ترک عورت زندہ رہی اور پیوندکاری کے اس آپریشن کے چھ برس بعد اس نے ایک صحت مند بچی کو جنم دیا۔ اپنی بیٹی کی پہلی سالگرہ کے موقع پر یہ ترک خاتون 26 برس کی ہو چکی ہے اور اُس وقت اس نے اپنے جگر کی سو ویں سالگرہ منائی۔ ہم میں اس بات کا بہت لوگوں کو اندازہ ہو گا کہ اپنے دادا نانا کی عمر کے لوگوں کا جگر استعمال کرنے سے کیسا محسوس کریں گے۔ لیکن کمال کی بات جو سمجھ میں آئی وہ یہ کہ ہمارے جسم کے بعض اعضائے رئیسہ ہماری طبعی زندگی سے زیادہ عرصہ زندہ رہ سکتے ہیں جب کہ بعض اعضا ہماری زندگی سے پہلے ہی تیزی سے بوڑھا ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ آپ کے جسم کے اعضاء اور جسم کے ٹیشوز بوڑھے ہونے سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کا جسم اصل میں کتنا بوڑھا ہوا ہے نہ کہ یہ کہ آپ کون سی سالگرہ منا رہے ہیں۔ عمر کی طوالت کی ریسرچ کے بارے میں جس بات کو جاننے میں بہت زیادہ تجسس ہوتا ہے وہ یہ نہیں کہ آپ کی اصل میں عمر کتنی ہے بلکہ اصل دلچسپی اس میں ہوتی ہے کہ آپ کتنے برس جی سکتے ہیں۔ دراصل، ماہرین اس فرق کے جاننے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں کہ اپ کو پیدا ہوئے کتنے برس ہوگئے ہیں اور آپ کے جسم کی 'بائیولوجیکل عمر' کتنی ہے، یعنی یہ کہ ہماری عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارے جسم کے اعضا کی کارکردگی کیسی بدل رہی ہے۔ ایسے افراد کی تعداد سو سے زیادہ بڑھ گئی ہے جن کے جسموں میں بوڑھوں کے جگر کے عطیوں کی پیوندکاری کی گئی ہے۔ ان دو قسم کے اعداد کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جا سکتا ہے لیکن یہ ایک بدیہی احساس پیدا کرتے ہیں کہ یہ دونوں اعداد ہر مرتبہ ایک جیسے نہیں ہوتے ہیں۔ ہم سب اس بات سے آگاہ ہیں کہ ہماری غذا میں بے احتیاطی اور معمول کے اوقات میں نیند کا پورا نہ کرنے سے ہم طبعی عمر کے لحاظ سے جلد بوڑھے ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بوڑھے ہونے کے عمل کے بارے میں ہمارا عمومی تصور یہ ہے کہ ہمارا جسم ایک مجموعی اکائی کی صورت میں بوڑھا ہوتا ہے، تاہم ہر شخص کے لیے بڑھاپے کی ایک اپنی رفتار ہوتی ہے۔ اگرچہ بڑھاپے کا یہ مجموعی اکائی کی صورت میں وقوع پذیر ہونے کا یہ تصور ہمارے جسم کے روبہ زوال ہونے کے عمل کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے، لیکن اس سے ہمیں اس جسم کے بوڑھا ہونے کے عمل کی مکمل تصویر نظر نہیں آتی ہے۔ ریسرچ بتاتی ہے کہ جینیاتی، طرزِ زندگی، ماحولیاتی عوامل جو ہماری جسم کے بوڑھا ہونے کی رفتار کا تعین کرتے ہیں، وہ ہمارے جسم کے تمام اعضا کو ایک ہی رفتار کے ساتھ بوڑھا نہیں کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک حالیہ ریسرچ کے مطابق، اس لیے ممکن ہے کہ ہم ظاہری طور پر 38 برس کے نظر آرہے ہوں لیکن ہوسکتا ہے کہ ہمارے گردے ایک 61 برس کے بوڑھے فرد کی طرح سُکڑ گئے رہے ہوں۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے جسم پر ایک 80 برس کے بوڑھے شخص کی طرح جھریاں پیدا ہوگئی ہوں اور سر پر گنج آگیا ہو لیکن ہمارا دل ایک 40 برس کے شخص کی طرح دھڑکتا ہو۔ سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر جینیات مائیکل سنائیڈر اس کی ایک کار سے مثال دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک کار کی مجموعی کارکردگی روبزوال ہوتی ہے، لیکن اسی کار کے بعض پرزے دوسرے پرزوں کی نسبت زیادہ تیزی سے گِھس جاتے ہیں۔ اگر آپ (کی گاڑی) کا انجن خراب ہوتا ہے تو آپ اِس کی مرمت کرتے ہیں، اگر کار کی باڈی خراب ہوتی ہو تو اس کی مرمت کرتے ہیں، اور یہ عمل اسی طرح چلتا رہتا ہے۔' لہٰذا جس طرح ہمارے لیے اپنی مجموعی بائیولوجیکل عمر کے بارے میں جاننا اچھی بات ہے۔ اگر ہم زیادہ عرصہ صحت مند انداز سے جینا چاہتے ہیں، تو ہمیں اس پر توجہ دینی چاہیے کہ کہیں ہمارے جسم کے تمام اعضا ایک ہی رفتار کے ساتھ بوڑھے تو نہیں ہو رہے ہیں۔ لیکن کسی بھی عضو کی بائیولوجیکل عمر کا درست طریقے سے تعین کرنے کوئی آسان طریقہ نہیں ہے۔ اس وقت کافی ساری ویب سائیٹس ایسی ہیں جن میں ایسے 'کیلکیولیٹرز' (حساب لگانے والے نظام) موجود ہیں جو دل یا پھیپھڑے جیسے مختلف اعضا کی بائیولوجیکل عمر کا تعین کرتے ہیں، لیکن اصل میں کسی کی بھی عمر کے تعین کرنے کے لیے اس عضو کے تفصیلی معائینے کی ضرورت ہوتی ہے جس میں اس کے ٹیشوز کی جُڑت، خلیوں کی ساخت، اور جینیاتی صحت کے بارے میں معلومات درکار ہوتی ہیں۔ پیوندکاری کے دوران حاصل کیا گیا ڈیٹا اعضا کے بارے میں اس سے بھی زیادہ پیچیدہ قسم کے اشارے دیتا ہے کہ کون سے اعضا دوسرے اعضا کی نسبت مستقبل میں بہتر کارکردگی دکھائے گا۔ ماہرین نے پیوندکاری کے آپریشنوں کے اعداد و شمار کا تجزیہ کیا ہے، انھوں نے نتیجہ اخذ کیا کہ وہ افراد جن میں بوڑھے افراد کے اعضا کی پیوند کاری کی گئی وہ افراد جلد موت کا شکار ہوئے۔ تاہم ان میں ایک خاص بات مختلف تھی وہ یہ کہ بعض اعضا دوسرے اعضا کی نسبت زیادہ مجموعی جسمانی بڑھاپے کے باوجود، صحت مند تھے۔ جہاں دل اور لبلبے کی حالت 40 برس کی عمر کے بعد خراب ہوئی، وہیں ماہرین پھیپھڑوں کو پیوندکاری کے بارے میں کوئی مسئلہ نظر نہیں آیا سوائے ان آپریشنوں میں جن میں عطیہ دینے والے کی عمر 65 برس سے زیادہ تھی۔ آنکھ کا قرنیہِ چشم سب سے زیادہ مضبوط اور مزاحمت کرنے والا عضو سمجھا جاتا تھا، عطیہ دینے والے کی عمر کا قرنیہ کی عمر سے کوئی تعلق نہیں بنتا ہے۔ جسم میں خون کے سرخ خلیے تبدیل ہونے سے پہلے چند مہینوں کے لیے پائیدار ثابت ہوتے ہیں لیکن نیورونز جیسے خلیے نئے نہیں بنتے ہیں۔ برطانیہ میں یونیورسٹی آف لیورپول کے محققین کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کے اعضا کی نسبتاً پیچیدگی اور ان کا خون کی شریانوں پر انحصار، غالباً یہ طے کرتے ہیں کہ جب جسم بوڑھا ہورہا ہوتا ہے تو اعضا خود بڑھاپے سے کس طرح نبرد آزما ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'یہ سوچ منطقی ہے کہ انسانی جسم کے مختلف اعضا کے واسکیولیچر (عروق کا نظام) اور مائیکرو واسکیولیچر میں تبدیلیاں بہت اہم نوعیت کی ہونی چاہئیے جو عمر بڑھنے کی وجہ سے ان کے کام کو منفی طور پر متاثر کرتی ہیں۔‘ پیوند کاری کے آپریشنز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کی وجہ سے اعضا کی زندگی طویل عمر کی حد کے بارے میں بھی اب سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ مثال کے طور پر جگر اپنی تجدیدی صلاحیت کے حوالے سے اب کافی شہرت حاصل کرچکا ہے، اور ایسے مریض جن کی پیوندکاری کے دوران ان کا تین چوتھائی جگر تبدیل کردیا گیا تھا ان کا جگر ایک برس میں اپنے پرانے سائز کے برابر خود سے بڑھ گیا۔ انہیں ریسرچروں نے حالیہ برسوں میں زیادہ عمر کے لوگوں کے جگر کے عطیات کی پیوندکاری کے آپریشنز کی کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نوے برس کی عمر کے لوگوں کے جگر کو عطیہ کے طور پر حاصل کر کے استعمال کرنے کی زیادہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ جبکہ دیگر ماہرین ایسے مریضوں کا بغور مطالعہ کر رہے ہیں جن کے پیوند شدہ جگروں کی اپنی عمر کئی دہائیاں پہلے سو برس سے زیادہ ہو چکی ہو گی۔ بعض اعضا شاید ہماری طرزِ زندگی کے مخصوص پہلوؤں سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور اُن سے شاید زیادہ حساس ہوں۔ کنگز کالج لندن کے ڈائریکٹر ایجنگ ریسرچ، رچرڈ سی او کہتے ہیں کہ 'اس کی ایک اچھی مثال پھیپھڑے اور ماحولیاتی آلودگی ہے۔ (شہروں میں رہنے والوں کے یا زیادہ آلودہ ماحول میں رہنے والوں کے پھیپھڑے زیادہ بوڑھے ہوتے ہیں۔' ہرچرڈ سی او کے مطابق، ہمارے طرزِ زندگی کے مختلف طریقے ہمارے بوڑھے ہونے کے ایک پیچیدہ عمل کو تشکیل دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ 'ہم کیا غذا کھاتے ہیں اور کیسے کھاتے ہیں، ہم کس طرح سوتے ہیں اور کب سوتے ہیں ۔۔۔ ان سب باتوں کا ہمارے اعضا پر مختلف انداز میں اثر پڑتا ہے، جسے ہم مکمل طور پر سمجھ نہیں پاتے ہیں۔' کسی بھی عضو کے بوڑھا ہونے کے عمل کو اگر بہت باریک بینی کی سطح پر دیکھا جائے تو یہ مزید غیر واضح ہوتا چلا جاتا ہے۔ کسی بھی عضو کے خلیے جو اس کو تشکیل دیتے ہیں وہ روبزوال ہونا شروع کردیتے ہیں اور ایک قاعدے کے تحت اپنا متبادل چاہتے ہیں، یعنی کئی ٹیشوز وقت کے ساتھ ساتھ اپنی تجدید خود کرتے ہیں، لیکن جس تعداد یا رفتار سے یہ تجدید کرتے ہیں یہ ایک جیسی نہیں ہوتی ہے۔ خون کے سرخ خلیے آپ کے جسم کی رگوں میں چار ماہ تک گھومتے پھرتے ہیں، لیکن وہ خلیے جو آپ کی آنتوں میں پہنچتے ہیں ان کو چند دنوں ہی میں تبدیل کرنا ہوتا۔ جب کہ اس کے بالکل ہی برعکس، دماغ کے خلیے، یا نیورونز، ہمارے بڑھاپے کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں ہوتے ہیں، جس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ یہ اتنے ہی بوڑھے ہوتے ہیں جتنی کہ جسم کی عمر ہوتی ہے۔ لیکن سنہ 2019 میں سالک انسٹیٹیوٹ آف بائیولوجیکل سٹڈیز کی ایک ٹیم جس کی سربراہی مارٹِن ہیٹزر کر رہے تھے، نے یہ دریافت کر کے حیران کردیا کہ دودھ دینے والے جانوروں میں نیورونز وہ واحد خلیے ہیں جن کی عمر طویل ہوتی ہے۔ انھیں جگر اور لبلبے میں ایسے خلیے نظر آئے جن کی اتنی ہی عمر تھی جتنی کے اس جسم کی تھی اور وہ اپنے سے کم عمر کے خلیوں کے ساتھ زندہ رہ رہے تھے۔۔۔ اس بقائے باہمی کو 'ایج موزیکزم' (عمر کی پچکاری) بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ لمبی عمر پانے والے خلیے چند دنوں تک زندہ رہنے والے خلیوں کی نسبت بڑھاپے کی وجہ سے زیادہ خطرے میں ہوتے ہیں، جس کی وجہ ان کے دماغ سے باہر ہونا ہے، اس لیے یہ ماہرین کو اعضا کے بڑھاپے کے نظام کو سمجھنے کے مختلف اشارے مہیا کرتے ہیں۔ شخصی بڑھاپا اس بات سے قطع نظر کے ہمارے اعضا بڑھاپے کے عمل کے مقابلے میں کتنے مضبوط ہیں، یہ سب کے سب بالآخر اپنی نشو و نما میں سست ہونا شروع ہو جاتے ہیں، تاہم نئی ریسرچ بتاتی ہے کہ ان میں سے کون سا عضو پہلے اپنے انجام تک پہنچے گا. انسانی جسم کے بوڑھا ہونے کی مختلف رفتار ہوتی ہے، اس لیے ہماری سالگرہ کا ہماری بائیولوجیکل عمر سے بعض اوقات کوئی تعلق نہیں بنتا ہے۔ سنہ 2020 میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سنائیڈر، وینیو ژؤ، سارا احدی اور ان کے ساتھیوں نے کم از کم ایسے 87 مالیکولز اور مائیکروبز کی نشاندہی کی ہے جنھیں بڑھاپے کے 'بائیومارکرز' کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس ریسرچ میں شریک رضاکاروں کے دو برس تک ہر تین ماہ بعد مختلف انداز سے ان کے بائیومارکرز کے مطالعے کے بعد محققین کی اس ٹیم نے دریافت کیا کہ لوگوں میں بڑھاپے کے ظاہر ہونے کے مختلف حیاتیاتی نظام کام کر رہے تھے۔ اس سے بڑھ کے یہ کہ انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ وہ مختلف افراد کو ان کے عضو سے خاص تعلق کی بنیاد پر تیار کیے گئے بائیو مارکز کی بدولت انہیں مختلف 'ایجیو ٹائپ' کے گروہوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اس ٹیم کو بڑھاپے کے ہونے کے مراحل کی بنیاد پر بننے والے چار مختلف قسم کے بڑھاپے کے نشانات ملے۔ گردے، جگر، جسم میں خلیوں کی ٹوٹ پھوٹ کا نظام اور قوت مزاحمت۔ تاہم ان کا خیال ہے کہ شاید دل سے جڑا ہوا بڑھاپے کا بھی ایک مارکر کا وجود ہے۔ اس بات کو نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ ٹیم لوگوں کے ایجیوٹائب کی شناخت کرنے کے قابل تھی، جس کے بارے میں سنائیڈر کہتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کے بوڑھا ہونے سے بہت پہلے ان کے جینیاتی اور ماحولیاتی عوامل کا ایک مجموعہ بنتی ہے۔ اگر سٹینفورڈ کی ٹیم درست کہہ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ایک دن نوجوانوں کو جب وہ بوڑھے ہونا شروع ہوں گے، انہیں پہلے سے بتا دیا جائے گا کہ انھیں اپنی صحت کے کس پہلو پر زیادہ توجہ دینی چاہیے۔ سنائیڈر کہتے ہیں کہ اگر آپ کے بڑھاپے کی وجہ دل کا کوئی مسئلہ ہے تو آپ اپنے برے کولیسٹرول کو چیک کریں، اپنے دل کا چیک اپ کروائیں، جسمانی ورزش کریں۔ خلیوں کے ٹوٹنے کا عمل اگر آپ کے بڑھاپے کی وجہ ہے تو اپنی خوراک کا خیال رکھیں، اگر جگر وجہ ہے تو شراب کم ہیں۔' ان نظریات پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ سٹینفورڈ ٹیم نے قدرے کم مدت میں جن 'ایجیوٹائیپس' کی نشاندہی کی ہے وہ حقیقت میں انسانی جسم میں وہ تبدیلیاں پیدا کریں گے جو طویل مدت کے لیے صحت پر مضر اثرات مرتب کرتے ہیں۔ لیکن سنائیڈر کو یقین ہے کہ ہم ایک اسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جس میں بڑھتی ہوئی عمر کے اثرات پر قابو پانے کے لیے انفرادی طریقے اپنائے جائیں گے۔ 'جسمانی ورزش اور مناسب غذا سے کافی مدد ملے گی، لیکن اگر آپ کا گردہ یا دل کے چند مسائل سے دو چار ہے تو پھر آپ کو شاید انہیں بہتر بنانے کی حکمت عملی پر کام کرنا ہوگا۔' دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو کمپیوٹر میں آرٹیفیشل انٹیلیجینس کی پیش رفت کی وجہ سے اب سائنسدانوں کے لیے ممکن ہے کہ وہ انسانی اعضا کی بائیولوجیکل عمر کا اندازہ بھی لگا سکیں۔ ان میں سے ایک طریقہ ہے کہ ہم اعضا کے ڈی این اے میں غیر مستقل تبدیلیوں، جنھیں 'میتھائی لیشن' کہتے ہیں، ان کا مطالعہ کیا جائے۔ متعدد جینز اپنے عمل کے دوران کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں یا پھر سے کام کرنا شروع کردیتے ہیں، جس میں ڈی این اے سے چپکا ہوا کیمائی مواد 'میتھائل' بھی شامل ہوتا ہے۔ ایک خیال ہے کہ یہ عمل ڈی این اے کے ایپی جینیٹک (برتولیدی) میں ہونے والی تبدیلیوں میں سے ایک ہے جو یہ تعین کرتا ہے کہ ہمارے جینز اس طرزِ زندگی اور ماحول سے کس طرح متاثر ہوتے ہیں جن میں ہم رہ رہے ہوتے ہیں۔ ڈی این اے کے میتھائی لیشن کی مقدار میں تبدیلی ہماری عمر میں تبدیلی سے جڑی ہوتی ہے اور ہمارے 'ایپی جینیٹک پیٹرنز' (بر تولیدی نمونوں) میں تبدیلی آتی ہے۔ اس پیش رفت کی وجہ سے سائینس دانوں نے 'ایپی جینیٹک کلاک ( برتولیدی گھڑی) تیار کرلی جو، بقول ان کے، بائیولوجیکل عمر کے تعین کرنے کے بہترین اشارے دیتی ہے۔ یہ گھڑیاں سائنسدانوں کو اعضا کے مختلف ٹیشوز کی بائیولوجیکل عمر کا موازنہ کرنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر اب ایسے کچھ شواہد ملے ہیں کہ عورت کی چھاتی کے ٹیشوز اس کے جسم کے باقی ٹیشوز کی نسبت زیادہ تیزی سے بوڑھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے یہ سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آیا 'ایپی جینیٹک کلاکس' سے چھاتی کے کینسر کے بارے میں پیشین گوئی کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ باقاعدگی کے ساتھ جسمانی ورزش اور معیاری غذا بڑھتی عمر میں صحت برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے، تام ہدف بنا کر حکمت عملی بنانے کی زیادہ ضرورت ہے۔ فرض کریں کہ یہ سب بالکل درست ہو، بہرحال کچھ سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہمیں ابھی تک یہ نہیں معلوم ہے کہ آیا جو علاج ایپی جینیٹک کلاک کو سست کردیتا ہے آیا وہ بڑھاپے کی رفتار کو بھی سست کرے گا۔ ہم عمر بڑھنے کے عمل کو جس انداز سے بھی دیکھیں، بڑھتی عمر کے ریسرچروں کا اصل مقصد اس کلاک کو سست کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس ہے۔ یہ جسم میں خلیوں کی سطح پر پہلے ہی سے ممکن ہے۔ اس برس مارچ میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کے ریسرچروں نے کہا تھا کہ انھوں نے بوڑھوں میں سے خلیے لے کر ان کی تجدید کا کام کیا ہے۔ ان بوڑھے افراد کے خلیوں کو لے کر ان سے 'یماناکا فیکٹر' تیار کروایا، یعنی ان سے وہ پروٹین بنوائی جس کے بارے میں پہلے سے علم ہے کہ وہ ایک خلیے کو واپس اس سطح پر لے جاتی ہے جو کہ جنینی مر حلہ پر ہوتی ہے۔ اس عمل کے چند دنوں کے بعد بوڑھے جسم سے لیے گئے یہی خلیے کئی برس زیادہ جوان نظر آنے لگے۔ اس طرح کا عمل ایک عضو کے ساتھ کرنا شائد ایک کافی پیچیدہ چیلینج ہو، لیکن یہ ریسرچ اس جانب نئے طریقہِ علاج کے لیے پہلا قدم ہو سکتی ہے جو انسانی جسم کے خلیوں اور ٹیشوز کے بائیولوجیکل کلاک کو جسم سے علحیدہ کیے بغیر پیچھے کی جانب موڑ سکتے ہیں۔ فی الحال کئی سائنسدان زیادہ عمر کے لوگوں کی صحت مند زندگی بڑھانے کی جانب توجہ دے رہے ہیں تندرست زندگی یونیورسٹی آف لندن کی لِنڈا پیٹریج اور ان کی ٹیم نے ایسی ادویات کی نشاندہی کی ہے جو جسم میں بیماریوں کےحملوں کو موخر کردیتی ہیں جن سے بڑھاپا پیدا ہوتا ہے، لیکن انھوں ایک بات نوٹ کی کہ ان میں سے کوئی بھی دوائی ایسی نہیں تھی جو بڑھتی عمر کی مختلف علامتوں کو پیچھے کی جانب موڑ سکے۔ تاہم دوسرے سائینس دان اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ بڑھاپے کی علامتوں کو کم کرنے والے علاج غالباً جسم کے ٹیشوز کو بہتر بنانے کی حکمت علمی ہر کام کریں گے، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ سائنس دانوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بوڑھا ہونے کا عمل کس طرح مختلف اعضا کو مختلف انداز میں متاثر کرتا ہے۔ بہرحال اس بارے میں کئی احتلافات ہو سکتے ہیں کہ کون سا عضو کس طرح بوڑھا ہوتا ہے، لیکن ان سب کو ایک اکائی کے طور دیکھنا بھی اپنی جگہ ایک مناسب بات تو بنتی ہے۔ رچرڈ سی او کہتے ہیں کہ یہ اعضا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ایک نظام کا حصہ ہیں اور ایک عضو کے بوڑھا ہونے سے دوسرے کی کارکردگی بھی متاثر ہوگی۔ وہ کہتے ہیں کہ 'اگر آپ کے جوڑوں میں سوزش ہے، وہ سوزش آپ کے دماغ اور دل کو بھی کو متاثر کرسکتی ہے۔ ہر عضو کی اپنی اپنی عمر بڑھنے کا ایک خطِ رفتار ہوتا ہے، لیکن یہ سب باہم وابستہ ہوتے ہیں۔'
050404_nuclear_waste
https://www.bbc.com/urdu/science/story/2005/04/050404_nuclear_waste
ضائع شدہ جوہری مواد کدھر جائے؟
برطانیہ میں حکومت کو ایک مشاورتی کمیٹی نے کہا ہے کہ وہ ضائع شدہ جوہری مواد کو زیر زمین دبا دے یا عارضی طور پر زمین کے اوپر محفوظ مقامات پر رکھے۔
کمیٹی نے حکومت سے کہا ہے کہ ایسے مواد کو خلا میں بھیجنا یا سمندر کی تہہ میں رکھنا نا قابل عمل ہے۔ برطانیہ میں گزشتہ ساٹھ سال میں جوہری تحقیق اور توانائی کی پیداوار کے بعد بڑی مقدار میں استعمال شدہ جوہری مواد جمع ہو چکا ہے جس کو ٹھکانے لگایا جانا ہے۔ آئندہ دہائیوں میں برطانیہ میں نئے جوہری پلانٹ کام شروع کریں گے جس کے بعد مزید جوہری مواد جمع ہوگا۔ مشاورتی کمیٹی نے گزشتہ اٹھارہ ماہ میں ماہرین اور عام لوگوں سے مشاورت کے بعد سفارشات مرتب کی ہیں۔ کچھ سائنسدانوں کے خیال میں اس معاملے میں کسی کمیٹی کی ضرورت نہیں تھی۔ ان کا کہنا ہے برطانیہ میں اس کے بارے میں بہت بحث ہو چکی ہے اور کئی دوسرے ممالک اس مسئلے کو کامیابی سے حل کر چکے ہیں۔
050920_basra_vedio_zs
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2005/09/050920_basra_vedio_zs
بصرہ میں مظاہروں کی ویڈیو
گزشتہ روز بصرہ میں گرفتار ہونے والے دو برطانوی فوجیوں کو شیعہ جنگجوؤں کے قبضے سے رہا کرا لیا گیا ہے۔
برطانوی فوجیوں کی رہائی کے لیے بصرہ میں موجود فوجی دستوں نے بظاہر دو کارروائیاں کی جن میں سے ایک کے دوران جیل کی دیوار توڑی گئی جبکہ دوسری کارروائی میں ایک گھر کو نشانہ بنایا گیا جہاں وزارتِ دفاع کے بقول برطانوی فوجی موجود تھے۔
130505_wusat_baat_sy_baat_rwa
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/2013/05/130505_wusat_baat_sy_baat_rwa
پیپلز پارٹی کو کیا ہوا ؟
’تم ہمیں موت سے ڈراتے ہو۔ارے ہم تو وہ لوگ ہیں جو خود موت کا تعاقب کرتے ہیں‘ یہ تیور تھے آصف علی زرداری کے چار اپریل سنہ 2012 کے گڑھی خدا بخش میں۔ اور پھر بلاول کو اسی گڑھی خدا بخش میں باضابطہ طور پر پارٹی کے کراؤن پرنس کے طور پر مرکزی مقرر کا منصب دیا گیا، پھر نہ جانے کیا ہوا اور ہوتا چلا گیا۔
اب یہ حال ہے کہ سندھ کو چھوڑ کے ’تیر‘ اڑ تو رہا ہے مگر اندھیرے میں۔ پینتالیس سال پہلے پاکستان میں عوامی جلسہ کلچر کو متعارف کرانے والی پیپلز پارٹی کے جیالا بریگیڈ کے پاس ایسی فرصت کبھی نہ آئی تھی کہ وہ کسی انتخابی دفتر میں بیٹھنے کے بجائے ٹی وی پر اپنی جماعت کی اشتہاری مہم دیکھتا رہے اور سوچتا رہے کہ کچھ کام نکالو میری فرصت کے برابر۔ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت لاہور جس سے زوالفقار علی بھٹو کو لاڑکانہ جیسا لگاؤ تھا، جہاں بے نظیر بھٹو انتخابی مہم کا آخری جلسہ کرنے کی عادی تھیں، اسی لاہور میں کئی جیالے ایسے بھی ملے جنہیں انتخاب کے دنوں کی عدم مصروفیت اندر ہی اندر یوں کھائے جا رہی ہے جیسے نئی دلہن کو شوہر کی بے اعتنائی کھا جائے۔قیادت یا تو ویڈیو میں قید ہے یا اونچی دیواروں کے پیچھے یا پھر اپنی خاندانی دنیا میں۔ پہلے پیپلز پارٹی کے ہر دورِ حکومت میں یہ ہوتا تھا کہ کارکن بھلے خود کو اقتدار کے دنوں میں کتنا ہی نظرانداز محسوس کریں لیکن انتخابی موسم میں وہ سب کچھ بھلا کر ناراض بیٹوں کی طرح گھر لوٹ آتے تھے۔ کسی کا شکوہ گلے لگ کر دور ہوجاتا، کوئی حرفِ معذرت پر ہی راضی ہوجاتا، کوئی دو گالیاں دے کر خود کو ہلکا کرلیتا اور پھر دیوانوں کی طرح اپنی جماعت کی انتخابی مہم میں مصروف ہو جاتا۔ اب کی بار وہ ہُوا ہے جو پہلے نہیں ہُوا۔ جتنے بھی ٹکٹ بٹے ان میں سے اکثر خاندانوں میں بٹ گئے۔جیسے اوکاڑہ میں پیپلز پارٹی کا مطلب ہے وٹو خاندان۔ ملتان میں انتخابی فرنچائز گیلانیوں کے پاس ہے، سندھ میں مخدومین، مرزا اور زرداری خاندان نے ٹکٹوں کا سٹاک لے لیا، خیبر پختون خواہ میں سیف اللہ فیملی اور ان کے حواری ٹکٹوں ٹکٹ ہوگئے باقی ٹکٹ ارب پتی الیکٹ ایبلز لے اڑے ۔ یہاں تک ہُوا کہ کچھ الیکٹ ایبلز نے ایک شام ٹکٹ لے لیے اور اگلی شام کسی اور پارٹی سے اچھی ڈیل ہونے پر واپس کر دیے۔ پھر بھی جو ٹکٹ بچ گئے وہ کارکنوں کے لیے چھوڑ دیے گئے جیسے ساغر کی تہہ میں قطرہ چھوڑ دیا جائے، جیسے میز پر بچا ہوا کھانا ملازموں میں بانٹ دیا جائے۔ ایسے میں اگر کارکن غائب ہے تو حیرانی کیوں ؟ پیپلز پارٹی کی بالائی قیادت کہتی ہے کہ روائیتی جلسوں اور ریلیوں سے اس لیے گریز کیا جارہا ہے کیونکہ وہ اپنے کارکنوں اور لوگوں کی جان خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتی۔ لیکن پانچ سالہ دور میں اس نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، زرعی اجناس کی قیمتوں میں اضافے اور اٹھارویں ترمیم سمیت بعض ایسے بنیادی اقدامات کیے ہیں کہ عام آدمی ووٹ ڈالتے وقت انہیں ضرور پیشِ نظر رکھے گا۔ اگر یہ منطق درست ہے تو پھر بے نظیر بھٹو کو پاکستان آنا ہی نہیں چاہیے تھا۔سب ہی ووٹر جانتے تھے کہ وہ کس کی بیٹی ہے؟۔آمریت کے خلاف اس کی کتنی قربانیاں ہیں؟ اور پاکستان آمد پر بے نظیر بھٹو کو سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرز کی جانب سے کس قدر شدید جانی خطرات لاحق ہیں۔اگر وہ آ بھی گئی تھیں تو 18 اکتوبر سنہ 2007 کو کارساز بم دھماکے کے اگلے دن انہیں دوبئی میں ہونا چاہیے تھا۔ جس خطرے کو بے نظیر بھٹو خاطر میں نہیں لائیں۔ آج اسی خطرے سے ان کی جماعت بھاگی پھر رہی ہے۔ یہ جانے بغیر کہ پسپا ہوتی فوج کا جانی نقصان کھڑی رہ جانے والی فوج سے دوگنا ہوتا ہے۔ آج کی پیپلز پارٹی ( احتیاطی گروپ ) سے بہتر تو عوامی نیشنل پارٹی ہے جس کے سیاسی حجم کے اعتبار سے اس کی جانی قربانیاں کسی بھی ملک گیر جماعت سے زیادہ ہیں۔ اس نے پانچ برس کی خام حکمرانی کے باوجود شدت پسندی کے خلاف جو موقف اپنایا اس پر آج تک ڈٹی ہوئی ہے ۔ اسے جتنی بھی گنجائش میسر ہے وہ اسے استعمال کرتے ہوئے ووٹر تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہے۔حالانکہ کتنا آسان ہے اس کے لیے یہ کہنا کہ شدت پسندی کے خلاف ہمارا موقف اور قربانیاں سب پر عیاں ہیں لہذا ووٹر تک پہنچنے کی ضرورت نہیں ۔ووٹر سب جانتا ہے۔ مگر میں صرف پیپلز پارٹی کا نوحہ ہی کیوں پڑھ رہا ہوں ؟ اور بھی تو جماعتیں ہیں۔ بات یہ ہے کہ عوامی سیاست اور قربانیوں کا چار عشرے اونچا علم جب کسی وفاق پرست جماعت کے ہاتھ سے صرف اس لیے گر جائے کہ اپنی ہی تاریخ اور مذاج سے نابلد پارٹی قیادت نے دونوں ہاتھ ہوا میں اٹھا دیے ہوں تو بظاہر کچھ بھی نہیں ہوتا مگر ایک پورا مکتبِ فکر ڈھے جاتا ہے۔ یہی تو کسی کی فتح اور کسی کی شکست ہوتی ہے۔اب یہ فتح و شکست عارضی ہے کہ مستقل۔اس پر بحث کے لیے زندگی پڑی ہے۔
040404_sehgal_ms
https://www.bbc.com/urdu/entertainment/story/2004/04/040404_sehgal_ms
توے، سہگل اور چھوٹوں کا زمانہ
میرے لئے کےایل سہگل کی گائیکی ان پرانے تووں کی یاد سے جڑی ہوئی ہے جو ایک کے بعد ایک پر گرتے چلے جاتے اور ان سے ایک کے بعد ایک گیت ابھرتا رہتا۔ کبھی کبھی ان پر ’سوئی اٹک جاتی‘ اور وہ بالم آن، بالم آن، بالم آن، کی گردان کرتے رہتے جب تک کہ سوئی والے ہاتھ کو اٹھا کر دوبارہ ریکارڈ پر نہ رکھ دیا جاتا۔ یوں اس زمانے میں ایک ہی بات کی مستقل تکرار کرنے والے بچے کے بارے میں اصطلاح وضع ہوئی کہ ’اس کی سوئی اٹک گئی ہے‘۔
یہ ریکارڈز عرفِ توے ہم بچوں کے لئے خاصے وزنی ہوتے تھے۔ ان کے گر کر ٹوٹ جانے کا تصور ہمیں ویسے ہی سہما دیا کرتا جیسے بعد میں سہگل کے کسی گانے کو گانے کی کوشش سے ڈرنا۔ سہگل کا یہ زمانہ میرے تایا کا زمانہ ہے جو ان کے اپنے چالیس برس قبل کی دنیا سے رینگتا رینگتا ستر اور اسی کی دہائی تک ہمارے زمانے میں گھس آیا تھا۔ ہم نے نورجہاں، رفیع اور لتا کو چھوٹے تووں، ریڈیو، ٹیپ ریکارڈر اور بعد میں ٹی وی پر ضرور دیکھا اور سنا لیکن پرانے، بڑے اور وزنی ریکارڈ صرف سہگل ہی کے سنے۔ اس سال جب کے ایل سہگل کی پیدائش کی سو سالہ تقریبات منائی جا رہی ہیں، یہ توے تقریباً ناپید ہوتے جارہے ہیں، کم از کم میرے گھر سے تو ہوچکے ہیں۔ آج ہندوستانی فلمی سنگیت کی جو شکل ہے اس میں سب سے زیادہ حصہ کے ایل سہگل کا ہی ہے۔ وہ مقبول فلمی ستاروں اور گلوکاروں کے باوا آدم تھے۔ ہر جگہ یہ لکھا جاتا ہے کہ انہوں نے ہندوستانی فلمی موسیقی کی گرامر ترتیب دی لیکن یہ کم پڑھنے میں آتا ہے کہ یہی وہ گرامر ہے جس کی حدوں کے اندر چلنا یا انہیں توڑنا ان کے بعد آنے والے ہر فلمی گلوکار اور موسیقار کا مقدر بنا۔ سہگل کے فلمی کیریئر کا آغاز انیس سو بتیس میں ہوا جب انہیں نیو تھئیٹر میں سٹیج پر اور فلموں میں اداکاری اور گائیکی کے لئے دو سو روپے ماہانہ تنخواہ پر ملازم کیا گیا اور پھر انیس سو پینتیس تک دیوداس نے انہیں شہرت کے اس آسمان پر پہنچا دیا جس سے بعد میں کئی ستارے چڑھ کر اترتے رہے۔ پندرہ برس میں سہگل نے چھتیس فلموں میں کام کیا اور دو سو سے زیادہ گیت اور کئی غزلیں گائیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو اور ریکارڈز کی بدولت پہلی مرتبہ ہندوستانی موسیقی شرفاء کے گھروں میں آدھمکی جو اس سے پہلے صرف رئیسوں کے گھروں پر گائیکوں کو ملازم رکھ کر موقعہ پر سنی جاتی تھی۔ مجھے ان کے کئی گانوں نے بعد میں بہت حیران کیا کیوں کہ اس زمانے میں سنتے ہوئے کبھی اندازہ نہیں ہوتا تھا کہ وہ اتنا مشکل گانا گاتے ہوں گے۔ ان گانوں میں زبان کا رچاؤ بھی ایسا ہوتا کہ میرے لئے ہندی اور اردو کی تقسیم بہت سادہ سی تھی جو آج کے حالات میں بالکل بدل گئی ہے۔ جیسے ایک طرف تو ’بابل مورا نیئر چھوٹی او جائے‘ یا بالم آئے بسو مورے من میں‘ تھے اور دوسری طرف اردو کی وہ پکی غزلیں جیسے غالب کی ’وہ آکے خواب میں تسکینِ استعجاب تو دے‘ اور ’لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے‘۔ دونوں زبانیں اپنے اپنے رس سے بھری ہوتیں اور ان میں ایک پرانی ’ہز ماسٹرز وائس‘ کسی ایسے وقت کی یاد دلاتی جو ہمارے زمانے سے بہت دور تھا جب لوگوں کے قدوقامت اور دل بہت بڑے ہوتے تھے۔ ہمارے لئے اس زمانے کا نقشہ بڑا حیرت انگیز تھا۔ یہ بڑوں کا زمانہ تھا۔ گھر میں تایا جی اور دادا جی کا زمانہ، کلاسیکی موسیقی میں بڑے غلام علی خاں، فیاض علی خان اور خاں صاحب عبدالکریم خاں کا زمانہ اور فلموں میں کے ایل سہگل کا زمانہ۔ حتیٰ کہ چھوٹے ریکارڈ بھی صرف رفیع لتا اور نورجہاں کے لئے مخصوص ہوتے تھے۔ ہمیں اپنے چھٹ پن میں یہی احساس دامن گیر رہتا کہ ہم بڑوں کے زمانے میں کیوں پیدا نہ ہوئے۔ شاید یہی احساسِ کمتری تھا جس کی بدولت میں نے چھپ چھپ کر بڑوں کی نقلیں اتارنا شروع کیں اور اس بات پر میرا پختہ ایمان رہا کہ ان ’بڑوں‘ کا گانا گائے اور محسوس کئے بغیر وہ بےنیازی زندگی میں آنا ممکن ہی نہیں جو ان میں دکھائی دیتی ہے۔ حیرت انگیز بات ہے کہ سہگل جو فلموں کے ابتدائی دنوں کی علامت کے طور پر ہندوستان کی اجتماعی یاداشت پر نقش ہیں صرف بیالیس سال جئے اور ہندوستان کی تقسیم اور اسکے نتیجے میں ہونے والے فسادات کو دیکھنے سے بچ گئے۔ سعادت حسن منٹو نے اپنی کتاب نور جہاں سرورِ جاں میں کہیں لکھا کہ اگرچہ شراب اور اچار آواز کے لئے برے ہوتے ہیں لیکن سہگل جتنی شراب پیتے تھے، نورجہاں اتنا ہی اچار کھاتی تھیں اور جو چار چاند ان دونوں چیزوں نے ان کی آوازوں کو لگائے وہ کہیں اور لگتے نہیں دیکھے۔ اس ذکر میں منٹو سہگل کے اتنے گرویدہ نظر آتے ہیں کہ اگر زندگی موقعہ دیتی تو شاید ان کے بارے میں بھی ایک کتاب لکھ ڈالتے۔ منٹو کی بات اپنی جگہ مگر سہگل اور نورجہاں کی زندگیوں سے ایک بات تو واضح ہوئی کہ شراب سے زندگی کم ہوتی ہے اور اچار سے زندگی بڑھ جاتی ہے۔
070922_suspect_suicide
https://www.bbc.com/urdu/pakistan/story/2007/09/070922_suspect_suicide
خودکش بمباروں پر وفاقی وارننگ
پاکستان کی وزارت داخلہ نے چاروں صوبوں، اسلام آباد کی انتظامیہ اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے حکام کو خبردار کیا ہے کہ خودکش حملہ آوروں کا گروہ ایک مرتبہ پھر سرگرم ہوگیا ہے اور وہ اپنی کارروائیاں کرنے کی کوشش کریں گے۔
ملک بھر کی پولیس کے اعلی افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ ان شدت پسندوں کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے سخت حفاظتی اقدامات کریں۔ بی بی سی کو حاصل ہونے والی ایک سرکاری دستاویز کے مطابق وزارت داخلہ کے نیشنل کرائسز مینجمنٹ سیل نے چاروں صوبوں کے ہوم سیکرٹریز اور صوبائی پولیس کے اعلی حکام کو گیارہ ستمبر کو ایک خط لکھا ہے جس میں ایک خودکش حملہ آور کے بارے میں مخصوص معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس دستاویز کے مطابق ایک مشتبہ خودکش حملہ آور حال ہی میں مہمند تحصیل سے اپنے مشن پر روانہ ہوا ہے۔ اُس کی روانگی سے پہلے ایک خصوصی تقریب منعقد ہوئی جس میں اس کے مشن کی کامیابی کے لیے دعا کی گئی تھی۔ خط کے مطابق اس مبینہ خود کش حملہ آور کا حلیہ بھی بیان کیا گیا ہے۔ خط کے مطابق اس خودکش حملہ آور کی عمر چالیس سال کے قریب ہے، قد پانچ فٹ سات انچ ہے اور کالی داڑھی ہے۔ حکومتی معلومات کے مطابق حملہ آور نے باجوڑی ٹوپی اور چارسدہ کی چپل پہنے ہوئے ہے۔
040208_straw_pakistan_rizvi
https://www.bbc.com/urdu/news/story/2004/02/040208_straw_pakistan_rizvi
جوہری پھیلاؤ خطرہ ہے: جیک اسٹرا
برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا نے کہا ہے کہ پاکستانی سائنسدانوں کے ذریعے جوہری ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی کا پھیلاؤ دنیا بھر کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔
بھارت کے جنوبی شہر بنگلور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے برطانوی وزیر خارجہ نے کہا کہ برطانیہ کو پاکستانی جوہری ہتھیاروں کے خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی قیادت میں ہونے والی سائنسدانوں کی سرگرمیوں پر شدید تشویش ہے۔ دریں اثنا، پاکستان کے ایک سابق فوجی سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) مرزا اسلم بیگ نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر امریکی و برطانوی خفیہ ادارے ان سرگرمیوں کے بارے میں پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت کو بروقت آگاہ کردیتے تو ان غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کی جاسکتی تھی۔
regional-56310550
https://www.bbc.com/urdu/regional-56310550
عورتیں اگر گھر کا کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟
چین کی ایک عدالت نے حال ہی میں طلاق سے متعلق ایک معاملے میں ایک تاریخی فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت نے ایک شخص کو ہدایت کی ہے کہ وہ پانچ سال تک جاری رہنے والی شادی کے دوران بیوی کی طرف سے کیے گئے گھریلو کام کے بدلے میں اس کو معاوضہ دے۔ اس معاملے میں خاتون کو 5.65 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔
لیکن اس فیصلے نے چین سمیت دنیا بھر میں ایک بڑی بحث کو جنم دیا ہے۔ چینی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اس معاملے کو لے کر لوگوں کی رائے منقسم ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ خواتین گھریلو کام کے عوض معاوضے کے طور پر کچھ بھی لینے کا حق نہیں رکھتی ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ جب خواتین اپنے کیریئر کے مواقع چھوڑ کر روزانہ گھریلو کام کرتی ہیں تو پھر انھیں معاوضہ کیوں نہیں ملنا چاہیے۔ اس سے قبل جنوری کے شروع میں انڈیا کی عدالت عظمی نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ 'گھریلو کام حقیقت میں خاندان کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ قوم کی معیشت میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔' اور یہ پہلا موقع نہیں تھا جب عدالتوں نے 'گھریلو کام' کو معاشی سرگرمی کے طور پر منظور کرنے کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ چین سے لے کر انڈیا اور مغربی دنیا کے ممالک کی عدالتوں نے بار بار ایسے فیصلے دیے جن میں خواتین کی بنا کسی اجرت مزدوری (بلا معاوضہ مزدوری) کو معاشی پیداوار کے طور پر قبول کیا گیا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کوڑے دان میں ڈالنے کی آزادی: جھاڑو دی گریٹ انڈین کچن: ’نرم گو، رحم دل مرد بھی زہریلے ہو سکتے ہیں‘ ’کسی مرد کو بچی نکالنے کی اجازت نہیں دیں گے، آپ ہماری مدد کریں‘ اس کے باوجود ، 'گھریلو کام' جی ڈی پی میں حصہ ڈالتے ہوئے نہیں دکھائے جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں معاشرے میں گھر کے کام کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی نوکری یا کاروبار کو دی جاتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواتین 'گھریلو کام' چھوڑ دیں اور نوکری یا کاروبار شروع کریں تو پھر کیا ہوگا؟ ’گھریلو کام‘ کا کیا مطلب ہے؟ دنیا کی بیشتر خواتین اس سوال سے دوچار ہیں کہ گھریلو خاتون کی حیثیت سے ان کے کیے جانے والے 'گھریلو کام' کو معاشرہ اتنی اہمیت یا احترام کیوں نہیں دیتا جو مردوں کے کاموں کو دیتا ہے۔ حالانکہ گھریلو خاتون کے طور پر کیے جانے والے امور خانہ داری کے اوقات مردوں کے کام کے اوقات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ برسوں سے صحافت کے ساتھ ساتھ گھریلو کام کی ذمہ داریوں کو نبھانے والی کریتیکا خود بھی اس سوال سے دوچار ہیں۔ وہ کہتی ہیں 'میں یہ کبھی نہ سمجھ سکی کہ لوگ گھر کے کاموں کو اہمیت کیوں نہیں دیتے۔ یہ خیال عام ہے کہ گھر کا کام کوئی کام ہی نہیں ہے۔ جبکہ گھریلو کام کاج آسان نہیں ہوتا ہے۔ گھر میں اگر کسی کو دوا دینی ہے تو دینی ہے۔ کھانا وقت پر تیار کرنا ہے تو تیار کرنا ہے۔ اس میں کوئی چھوٹ نہیں ملتی ہے۔` 'ان سب کے بعد اگر کسی کو شام کو بھوک لگ گئی تو اس کے لیے بھی کچھ بنانا ہوتا ہے۔ صاف بات کی جائے تو گھر میں کام کرنے والی خاتون کو 'آلہ الدین کا چراغ' سمجھا جاتا ہے۔ میرے پاس اس سے بہتر تشبیہ نہیں ہے۔ اگر کبھی تعاون کی بات کی جائے، تو کہا جاتا ہے کہ کیا کرتی ہی کیوں ہو۔۔۔ ماں بھی کرتی تھیں لیکن انھوں نے تو کبھی کچھ نہیں کہا۔' تعاون یا شرکت میں فرق اگر ہم اعداد و شمار پر نگاہ ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ انڈیا میں عورتیں گھریلو کاموں میں مردوں سے کہیں زیادہ کام کرتی ہیں۔ حکومت کے تازہ ترین ٹائم یوز سروے کے مطابق خواتین ہر دن گھریلو کام (بغیر تنخواہ والے گھریلو کام) کرنے میں 299 منٹ گزارتی ہیں۔ جبکہ انڈین مرد دن میں اوسطاً صرف 97 منٹ تک ہی گھریلو کام انجام دیتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، اس سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خواتین گھر کے افراد کی دیکھ بھال کے لیے روزانہ 134 منٹ لگاتی ہیں جبکہ مرد صرف 76 منٹ اس کام میں صرف کرتے ہیں۔ معاشی قیمت نکالنا مشکل ہے؟ اگر آپ غور سے دیکھیں تو ہر کام کی کچھ نہ کچھ قیمت ہوتی ہے۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خواتین کے گھر پر کیے جانے والے کام کی کوئی معاشی اہمیت نہ ہو؟ کسی بھی کام کی قدرو قیمت نکالنے کے لیے اس کام کا صحیح اندازہ کرنا ضروری ہے۔ بغیر معاوضہ گھریلو کام کی قمیت یعنی خواتین کے 'گھریلو کام' کا حساب لگانے کے لیے تین فارمولے دستیاب ہیں: پہلے فارمولے کے مطابق اگر کوئی عورت باہر جا کر 50 ہزار روپے کما سکتی ہے اور اس کے بجائے وہ گھریلو کام کرتی ہے تو پھر اس کے کام کی قیمت پچاس ہزار روپے سمجھی جانی چاہیے۔ دوسرے فارمولے کے مطابق کسی خاتون کے کیے جانے والے 'گھریلو کام' کی قیمت کا تعین ان خدمات کے حصول میں آنے والی قیمت سے ہوتا ہے۔ آسان الفاظ میں اگر عورت کے بجائے کوئی اور گھر میں کام کرتا ہے تو اس کی خدمات کے بدلے جو اخراجات آتے وہ اس عورت کے کیے جانے والے کام کی قیمت ہوگی۔ اسی طرح تیسرے فارمولے میں خاتون خانہ کے گھر میں کیے جانے والے کام کی مارکیٹ ویلیو نکالی جاتی ہے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی فارمولا جذباتی طور پر پیش کی جانے والی خدمات کی حقیقی قدروقیمت نہیں نکالتا۔ معیشت میں خواتین کا تعاون بین الاقوامی ادارہ آکسفم کی تحقیق کے مطابق خواتین کے 'گھریلو کام' کی قدر و قیمت انڈین معیشت کا 3.1 فیصد ہے۔ سنہ 2019 میں خواتین کے کیے جانے والے 'گھریلو کاموں' کی قیمت دس کھرب امریکی ڈالر سے زیادہ تھی۔ یہ فارچیون گلوبل 500 کی فہرست میں شامل والمارٹ، ایپل اور ایمیزون وغیرہ جیسی پچاس بڑی کمپنیوں کی کل آمدنی سے زیادہ تھی۔ اس کے بعد بھی انڈین عدالتوں کو بار بار گھریلو خواتین کے کام کو معاشی اہمیت دینے کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ حال ہی میں سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں کہا: 'گھریلو خاتون کی آمدنی کا تعین کرنے کا معاملہ بہت اہم ہے۔ یہ ان تمام خواتین کے کام کو تسلیم کرتا ہے خواہ وہ متبادل کے طور پر یا معاشرتی/ ثقافتی اصولوں کے تحت اس سرگرمی میں مصروف ہیں۔ یہ بڑے پیمانے پر معاشرے کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ قانون اور عدالتیں گھریلو خواتین کی محنت، خدمات اور قربانیوں کی قیمت پر یقین رکھتی ہیں۔ خواتین کیا کام کرتی ہیں؟ اگر آپ غور سے دیکھیں تو گھریلو خاتون کام کے دوران اپنی خدمات تین طبقوں کو دیتی ہیں۔ پہلا حصہ بزرگ شہریوں کا ہے جنھوں نے ملک کی معاشی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ ڈال چکا ہوتا ہے، دوسرا وہ نوجوان جو فی الحال جی ڈی پی میں حصہ ڈال رہا ہے اور تیسرا طبقہ بچے ہیں جو آنے والے سالوں میں معیشت میں حصہ ڈالیں گے۔ تکنیکی زبان میں اسے خیال یا مجرد محنت کہا جاتا ہے۔ یہ ایسی محنت یا مزدوری ہے جو براہ راست کسی بھی ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ آسان الفاظ میں ایک عورت اپنے شوہر کے کپڑے دھونے، پریس کرنے، کھانے پینے، جسمانی اور دماغی صحت وغیرہ کا خیال رکھتی ہے تاکہ وہ دفتر کام کر سکے۔ وہ بچوں کو تعلیم دیتی ہے تاکہ وہ بعد میں ملک کے انسانی وسائل کا حصہ بن سکیں۔ وہ اپنے والدین اور ساس سسر کی صحت کا خیال رکھتی ہے جو ملک کی معاشی ترقی میں اپنا حصہ دے چکے ہوتے ہیں۔ اب اگر گھریلو خاتون کو ان سب کاموں سے ہٹا دیا جائے تو حکومت کو بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر ان کی فلاح و بہبود کی خدمات، بزرگ شہریوں کی دیکھ بھال کرنے کے لیے اولڈ ایج ہوم، نگہداشت وغیرہ پر خرچ کرنا پڑے گا۔ اگر خواتین کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟ ابھی یہ سارے کام خواتین کر رہی ہیں جو بنیادی طور پر حکومت کے کام ہیں کیونکہ ایک شہری کی دیکھ بھال کی ذمہ داری ملک کی ہوتی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر خواتین مفت میں حکومت کے لیے کام کرنا چھوڑ دیں تو پھر کیا ہوگا؟ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی پروفیسر ارچنا پرساد نے غیر منظم شعبے اور مزدوری کے امور پر مطالعہ کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اگر خواتین گھریلو کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو یہ نظام مکمل طور پر ٹھپ ہو جائے گا۔ وہ کہتی ہیں: 'اگر خواتین یہ بلا معاوضہ کام کرنا چھوڑ دیں تو پورا نظام ہی رک جائے گا کیوںکہ خواتین کا بلامعاوضہ کام ہی نظام کو سبسڈی فراہم کرتا ہے۔ اگر گھریلو کام اور نگہداشت سے متعلق کام حکومت یا کمپنیوں کو برداشت کرنا ہو تو مزدوری کی قیمت میں کافی اضافہ ہوجائے گا۔ 'خواتین محنت کو زندہ کررہی ہیں۔ اسے سنبھال رہی ہیں۔ اس طرح سے ہر فرد کی محنت میں عورت کی بلا معاوضہ محنت شامل ہوتی ہے۔ تکنیکی لحاظ سے ہم اسے مجرد مزدوری کہتے ہیں۔' ماہر معاشیات، مصنف اور نیوزی لینڈ کی سیاستدان مارلن وارنگ خواتین کی طرف سے گھریلو کاموں کو جی ڈی پی کا حصہ ہونے کی وکالت کرتی ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جی ڈی پی میں عورت کے ذریعہ حمل کو بھی پیداواری سرگرمی نہیں سمجھا جاتا ہے جبکہ وہ مستقبل کے انسانی وسائل کو جنم دیتی ہیں۔ اپنے ملک کی مثال دیتے ہوئے وہ کہتی ہیں: 'نیوزی لینڈ کے قومی اکاؤنٹس۔ جہاں سے جی ڈی پی کے اعداد و شمار ملتے ہیں، ان میں گائے، بکری، بھیڑ اور بھینس کے دودھ کی قیمت ہوتی ہے لیکن ماں کے دودھ کی کوئی قیمت نہیں جبکہ یہ دنیا کی بہترین غذا ہے۔ یہ کسی بچے کی صحت اور تعلیم میں بہترین سرمایہ کاری ہے لیکن اسے شمار نہیں کیا جاتا ہے۔' معاشی شناخت کیسے دی جائے؟ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواتین کے ذریعہ کیے گئے گھریلو کاموں کو معاشی شناخت کیسے دی جاسکتی ہے۔ بلامعاوضہ محنت پر متعدد کتابیں لکھنے والی اور احمد آباد میں قائم سینٹر فار ڈویلپمنٹ آلٹرنیٹوز میں معاشیات کی پروفیسر اندرا ہیروے کا خیال ہے کہ خواتین کے کیے گئے کام کو ایک پیداوار کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔ وہ کہتی ہیں: 'گھر میں خواتین جو کھانا پکاتی ہیں، کپڑے دھوتی ہیں، بازار سے سامان لاتی ہیں، بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں، گھر میں بیمار لوگوں کی دیکھ بھال کرتی ہیں۔ یہ سب سروسز ہیں جن کا براہ راست پیداوار سے تعلق ہے۔ یہ کام ملک کی آمدنی اور ملک کو صحت مند رکھنے میں ان کی کمائی کا حصہ ہیں۔' 'اگر کسی نرس کی خدمات لی جائیں تو اسے قومی آمدنی میں شمار کیا جائے گا۔ لیکن اگر یہی کام گھریلو خاتون کرتی ہے تو اسے قومی آمدنی میں شمار نہیں کیا جاتا ہے۔ یہ غلط بات ہے جبکہ کام ایک ہی ہے۔ اس کی کوئی وجہ نہیں کہ اسے قومی آمدنی سے دور رکھا جائے۔ صرف یہی نہیں وہ قومی معیشت میں بھی اپنا تعاون کرتی ہیں۔ سرکاری شعبے سے لے کر نجی شعبے تک کوئی بھی شعبہ خواتین کے اس بلا معاوضہ محنت کے بغیر چل نہیں سکتا۔' تاریخ کے صفحات کو پلٹیں تو ایک وقت ایسا نظر آتا ہے جب ایسا ہوا بھی ہے جس کا اشارہ پروفیسر ہیروے نے کیا ہے۔ سنہ 1975 میں آئس لینڈ کی نوے فیصد خواتین نے 24 اکتوبر کو ایک دن کے لیے کھانا پکانے، صفائی کرنے اور بچوں کی دیکھ بھال کرنے سے انکار کردیا۔ خواتین کے اس اعلان کا اثر یہ ہوا کہ پورا ملک اچانک رک گیا۔ کام پر جانے والے مردوں کو فوری طور پر گھر واپس آنا پڑا اور بچوں کو ریستوران لے کر بھاگنا پڑا اور وہ تمام کام رک گئے جو عام طور پر مرد کرتے تھے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ وقت میں بھی اگر خواتین اس قسم کی بلا معاوضہ محنت بند کردیتی ہیں تو پھر وہی ہوگا جو سنہ 1975 میں ہوا تھا؟ ’کنبہ ختم ہوجائے گا‘ پروفیسر ہیروے کا خیال ہے کہ اگر خواتین گھر کا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو خاندان نام کا ادارہ ختم ہوجائے گا۔ وہ کہتی ہیں: 'ترقی کا مفہوم یہ ہے کہ تمام لوگ اپنی پسند کے کام کرسکیں۔ جو عورت ڈاکٹر بننا چاہتی ہے وہ ڈاکٹر بن سکے، جو انجینیئر بننا چاہتی ہے وہ انجینئر بن سکے۔‘ 'لیکن پدر شاہی معاشرے نے خواتین پر گھریلو کام مسلط کر دیا ہے۔ اس سے ان کے پیروں میں ایک طرح کی بیڑیاں ڈال دی گئی ہیں۔ ان پر دباؤ ہے کہ پہلے وہ گھر کا کام کریں اور پھر کوئی اور کام کریں۔ اگر وہ کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں تو ہمارا کنبہ نامی ادارہ پہلے ختم ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں نجی شعبے سے لے کر سرکاری شعبے تک کا کام رک ہوجائے گا۔ آپ کو یہ یقین کرنا ہوگا کہ بلا معاوضہ محنت کے بغیر معیشت نہیں چل سکتی ہے۔' ہیروے نے اندرا نوئی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ باضابطہ کاروباری نظام میں خواتین کی بہترین کارکردگی کے باوجود گھر سنبھالنے کی ذمہ داری بھی ان ہی کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تمام تر عیش و آرام کے باوجود گھر چلانے کی ذمہ داری ان پر ہے۔ انھوں نے ایک دلچسپ کہانی سنائی: ایک بار کمپنی میں انھیں ترقی ملی۔ وہ گھر پہنچیں تو والدہ دروازے پر ملیں جنھوں نے کہا، جاؤ اور دودھ لےآ ؤ، تمہارے شوہر اور بچوں کو صبح کے وقت دودھ کی ضرورت ہوگی۔ اندرا پہلے دودھ لینے گئیں۔ لہذا اس کا مطلب یہ ہے کہ ذمہ داری تو صرف خواتین پر عائد ہوتی ہے۔ بہت سی خواتین سی ای او نے یہ بات کہی ہے کہ چاہے وہ کتنی بھی ترقی کیوں نہ کر لیں وہ ان کاموں سے چھٹکارا نہیں پاسکتیں کیونکہ ہمارا معاشرہ پدرشاہی ہے۔ ہیروے کا خیال ہے کہ انڈیا کو جی ڈی پی میں خواتین کی جانے والی بلا معاوضہ محنت کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ پوری دنیا کی بہت ساری خواتین اور مرد اس حقیقت پر توجہ دے رہے ہیں کہ معاشیات سے لے کر معاشرے تک پدرانہ اقتدار کے اثرات کو کم کیا جانا چاہیے۔ 'جاگو رے' موومنٹ چلانے والی کملا بھسین کا کہنا ہے کہ پہلی لڑائی یہ ہے کہ ہم پدر شاہی معاشرے سے باہر نکلیں۔ وہ کہتی ہیں: 'آپ یہ سوال کیوں نہیں کرتے کہ مردوں کو اپنی سب سے بڑی ہوتی بیٹی یا بیٹے کے ساتھ وقت گزارنے کا حق کیوں نہیں ہے۔ تاکہ وہ انھیں پڑھا لکھا سکیں، ان کے ساتھ کھیل سکیں۔‘ 'مرد جو کچھ کرتے ہیں وہ معاش کمانا ہے۔ وہ زندگی نہیں ہے۔ آپ کی اہلیہ جو کر رہی ہے وہ زندگی ہے۔ اگر آپ کچھ وقت کام نہیں کریں تو آپ کے بچوں کی زندگی متاثر نہیں ہوگی۔ آپ کی اہلیہ ایک دن کام نہیں کرتی ہے تو پھر زندگی اور موت کا سوال پیدا ہوجاتا ہے۔‘ 'سوچیں کہ اگر آج خواتین یہ کہیں کہ یا تو ہمارے ساتھ مناسب سلوک کریں ورنہ ہم بچے پیدا نہیں کریں گے تو کیا ہوگا؟ ایسا ہوگا فوجین رک جائیں گی، آپ انسانی وسائل کہاں سے لائیں گے؟' لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا معاشی سرگرمی کی حیثیت سے گھروں کے کام کو درجہ دلانے کی لڑائی زیادہ طویل تو نہیں ہے۔ درختوں اور پودوں پر تحقیق کرنے والی روچیتا دیکشت کا خیال ہے کہ جہاں سے غلطی شروع ہوئی ہے اصلاح بھی وہیں سے شروع ہوگی۔ وہ کہتی ہیں: 'میں سائنس دان ہوں۔ لیکن جب میری بیٹی ہوئی تو میرے سامنے سوال یہ تھا کہ میں اپنی بیٹی کو کس رشتہ دار یا آیا پر چھوڑوں یا اپنی ملازمت چھوڑ کر اس کی پرورش کروں۔ میں نے دوسرے آپشن کو چنا۔ لیکن میں نے اس متبادل کو اختیار کرتے ہوئے لوگوں کو احساس دلایا کہ یہ آسان کام نہیں ہے۔' 'اصلاح ہم سے ہوگی۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں مستقبل میں اپنی بیٹی بہو کے گھر یلو کاموں کو وہی اہمیت دینی ہوگی جو ہم لڑکوں کے کام کو دیتے ہیں۔'
130722_dubai_rape_victim_released_rk
https://www.bbc.com/urdu/world/2013/07/130722_dubai_rape_victim_released_rk
جنسی زیادتی کی شکایت کرنے والی خاتون کو معافی
دبئی میں جنسی زیادتی کی شکایت کرنے والی خاتون نے کہا ہے کہ حکام نے انھیں معاف کر دیا گیا ہے اور وہ دبئی چھوڑ کر جا سکتی ہیں۔ اس سے پہلےناروے سے تعلق رکھنے والی اس خاتون مارتے ڈیبرا دالیلو نے دبئی میں اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کے واقعے کی رپورٹ کی تو انھیں گرفتار کر کے 16 ماہ قید کی سزا دی گئی تھی۔
مارتے ڈیبرا دالیلو نے کہا تھا کہ وہ دبئی میں ایک بزنس دورے پر تھیں جب ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی مارتے ڈیبرا دالیلو کی رہائی پر ناروے کے وزیرِخارجہ نے کہا کہ ’مارتے کو رہا کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں مدد کرنے والے تمام لوگوں کا شکریہ۔‘ مارتے ڈیبرا دالیلو نے کہا تھا کہ وہ دبئی میں ایک بزنس دورے پر تھیں جب ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ چوبیس سالہ خاتون نے مارچ میں ہونے والے اس واقعے کے بارے میں جب پولیس کو بتایا تو ان پر غیر ازدواجی روابط رکھنے، شراب نوشی اور جھوٹا الزام لگانے کی فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ اس کیس کی وجہ سے ناروے میں انسانی حقوق کی تنظیمیں شدید ناخوش تھیں۔ ڈیبرا دالیلو کا کہنا تھا کہ وہ چھ مارچ کوچند ساتھیوں کے ساتھ رات کو باہر گئی ہوئی تھیں جب ان کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی۔ جب انھوں نے یہ بات پولیس کو بتائی تو پولیس نے اُن کا پاسپورٹ اور ان کے پیسے ضبط کر لیے گئے اور چار روز بعد ان پر غیر ازدواجی روابط رکھنے، شراب نوشی اور جھوٹا الزام لگانے کی فردِ جرم عائد کر دی گئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جس شخص نے ان پر حملہ کیا اسے بھی غیر ازدواجی روابط رکھنے اور شراب نوشی کے جرم میں تیرہ ماہ کی سزا سنائی گئی۔
pakistan-44808684
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-44808684
’جیل تو جانا ہے دعا کرو پیروں پر چل کر جائیں‘
سنہ 1999 کی بات ہے جب میاں نواز شریف ایک طاقتور وزیراعظم تھے۔
نوام شریف جمعہ کو پاکستان پہنچ رہے ہیں مگر جب اپنے بنائے جنرل پرویز مشرف کو فارغ کرنے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ اتنے بھی طاقتور نہیں۔ جنرل مشرف نے مارشل لا نافذ کر دیا اور خود کو چیف ایگزیکیٹو کہلوانے لگے۔ یہ بھی پڑھیں نواز شریف کی سزا اور پاکستان واپسی کا اعلان ’ نواز شریف حاضر ہوں‘ نواز شریف کی سزا اور پاکستان واپسی: خصوصی ضمیمہ مشرف طبیعت کے بادشاہ تھے۔ انھوں نے نواز شریف کو جیل میں ڈال دیا۔ پھر کئی سعودی اور امریکی دوستوں نے بیچ بچاؤ کروایا اور نواز شریف کو معافی مل گئی۔ ایک کاغذ پر دستخط ہوئے، دیس نکالا ملا اور میاں صاحب سعودی عرب جا کر اللہ اللہ کرنے لگے۔ ’جیل جانا پڑے یا پھانسی دے دی جائے،اب قدم نہیں رکیں گے‘ نواز شریف اور عدالتیں جب نواز شریف لاہور ایئرپورٹ پر اتریں گے تو کیا ہو گا؟ نواز شریف کی ڈنڈا ڈولی نواز شریف کی سیاسی زندگی کے نشیب و فراز کہتے ہیں کہ طاقت ایک ایسا نشہ ہے کہ جو ایک مرتبہ لگ جائے تو کبھی نہیں چھوٹتا۔ سعودی عرب کے بادشاہ نے تھوڑی ڈھیل دی تو لندن پہنچ گئے۔ کچھ دن تک لندن میں گھومتے رہے پھر اپنے حمایتیوں سے کہا کہ میں اسلام آباد جا رہا ہوں اور آپ بھی ایئرپورٹ پہنچیں۔ کئی دوسرے صحافیوں کی طرح میں بھی اسی جہاز میں بیٹھ کر اسلام آباد گیا۔ جہاز میں دعا کروائی گئی، میاں صاحب کے نعرے لگے۔ میاں صاحب نے چھوٹی سی تقریر کی اور ایک لڑکے نے تھوڑا جذباتی ہو کر وہ گانا بھی گایا 'سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے، دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے'۔ اسلام آباد اترے تو پتہ چلا کہ مشرف کے بازو میں کچھ زیادہ ہی زور ہے۔ اس نے ایسا ڈنڈا چلایا کہ ایئرپورٹ پر نہ کوئی بندہ نہ بندے کی ذات ہر طرف فوج ہی فوج اور پولیس ہی پولیس۔ نوام شریف کے دور میں پرویز مشرف فوجی سربرارہ تھے میاں صاحب کا ایک بھی حمایتی ایئرپورٹ نہیں پہنچنے دیا گیا۔ میاں صاحب کو جہاز سے اتارا گیا اور کیمرے والوں کو ادھر ادھر کر کے دوسرے جہاز میں ٹھونس کر واپسں سعودی عرب بھیج دیا گیا۔ میاں صاحب کی قسمت اچھی تھی۔ ان کی قسمت پلٹی اور وہ پھر وزیراعظم بن گئے لیکن پرانے زور آوروں کو پسند نہیں آئے۔ ہمارے بہادر جرنیلوں اور منہ زور ججوں نے نکال کر باہر کیا اور اب سزا بھی سنا دی ہے۔ میاں صاحب ایک بار پھر جہاز میں بیٹھ کر لندن سے اسلام آباد پہنچنے والے ہیں اور اپنے حامیوں کو بھی کہہ دیا ہے کہ میں آ رہا ہوں، تم بھی پہنچو۔ مگر میں اب تک یہ سمجھ نہیں سکا ہوں کہ کوئی پاکستان کا وزیراعظم کیوں بننا چاہتا ہے۔ نواز شریف کے ساتھ انکی بیٹی مریم بھی پاکستان جا رہی ہیں ہمارے پہلے وزیراعظم لیاقت علی تھے۔ انھیں گولی مار دی گئی اور پھر گولی مارنے والے کو بھی گولی مار دی گئی۔ پھر بھٹو آئے جن کے بارے میں ’فخرِ ایشیا‘ کے نعرے لگے تھے، انھیں پھانسی دے دی گئی۔ ان کی بیٹی دو مرتبہ وزیراعظم بنیں۔ وہ اس طرح گئیں کہ سڑک سے ان کا خون اتنی جلدی صاف کیا گیا کہ آج تک ان کے قاتلوں کا کچھ پتہ نہیں چلا۔ جس مشرف نے نواز شریف کی ڈنڈا ڈولی کروائی تھی اس کی عدالتیں منتیں کرتی ہیں، وہ دبئی میں بیٹھ کر ہنستا ہے۔ اب سنا ہے کہ لیکچر دینے لندن گیا ہے۔ جیل تو جانا ہی ہے بس اتنی دعا کرو کہ میاں صاحب اپنے پیروں پر چل کر جائیں ان کی ڈنڈا ڈولی نہ ہو۔ ٭ بی بی سی پنجابی پر محمد حنیف کا اسی بارے میں وی لاگ دیکھیں
world-41163796
https://www.bbc.com/urdu/world-41163796
ڈچز کی ٹاپ لیس تصویریں شائع کرنے پر جرمانہ
فرانس کی ایک عدالت نے اس میگزین کے خلاف فیصلہ دیا ہے جس نے ڈچز آف کیمبرج کیٹ میڈلٹن کی ٹاپ لیس تصاویر چھاپ دی تھیں۔ شہزادہ ولیئم اور ان کی اہلیہ کو ہرجانے کےطور پر پچاس پچاس ہزار یورو ادا کیے جائیں گے جبکہ میگزین پر بھی ایک لاکھ یوروز کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔
فرانسیسی جریدے 'کلوزر' نے شاہی جوڑے کی تصویر اس وقت اتاریں جو وہ فرانس میں چھٹیاں منا رہے تھے۔ ہرجانہ 1.5 ملین پاؤنڈ کی اُس رقم سے کم ہے جس کا مطالبہ شہزادے وِلیم اور ان کی بیوی کیتھرین کے وکلا نے کیا تھا۔ جریدے 'کلوزر' نے سنہ دوہزار بارہ میں ایک چبوترے پر کیتھرین کے غسلِ آفتابی لیتے ہوئے تصاویر کو اندونی صفحات پر شائع کیا تھا۔ ٹربیونل ڈا گرانڈ انسٹانس ڈا نانٹیئر میں مقدمے کی سماعت کے دوران جج فلورانس لیساژینہ نے ایک مقامی اخبار 'لا پرووُنس' کو بھی کیتھرین کی پیراکی کے لباس میں تصاویر شائع کرنے پر 3000 یورو ہرجانے کے طور پر ادا کرنے کا حکم دیا۔ یہ فیصلہ کلوزر کے سابق ایڈیٹر اور فوٹوگرافروں سمیت چھ افراد کے خلاف مئی میں شروع ہونے والی سماعت کے بعد دیا گیا ہے۔ تمام چھ مدعاعلیہان کو ان تصاویر کی اشاعت کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا ہے۔ مئی میں سماعت کے موقع پر شہزادے وِلیم کا بیان پڑھ کر سنایا گیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ان کی والدہ (شہزادی ڈیانا) کے پاپارازیوں (موقع پرست فوٹوگرافر) کے ہاتھوں پریشانی کے تناظر میں کسی کی نجی زندگی میں مداخلت انتہائی اذیت ناک ہے۔
040108_newyear_column_as
https://www.bbc.com/urdu/indepth/story/2004/01/040108_newyear_column_as
نئے سال کا ’پودا‘
نئے سال کا آغاز کچھ اس طرح سے ہوا۔
میں اور انور سن رائے ایک دوسرے کو یہ کہہ کر گلے ملے کہ چلو اس سال تو بچ گئے۔ پچھلے سال کے آخری مہینوں میں انور کا بائی پاس ہوا تھا اور اس طرح وہ ان لوگوں کی صف میں کھڑے ہو گئے جن کے بارے میں مجھے کسی نے کہا تھا کہ ’یہاں سے بائی پاس کروا لو۔ پاکستان میں تو کئی لوگ اوپر والے بٹن کھول کر سینہ پھلا کر کہتے ہیں ولایت سے بائی پاس کروا کر آئے ہیں‘۔ میں انور کی طرح مضبوط آدمی نہیں ہوں اس لیے ڈر گیا اور دل کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تک ہی معاملہ محدود رکھا اور اس کے بعد گول کر دیا۔ خدا انور کو صحت اور لمبی عمر دے اور میرا معاملہ یہاں تک ہی رکھے۔ آمین۔ گزشتہ سال دوستوں کو میری صحت پر کافی تشویش تھی۔ کئی ایک نے علاج تبدیل کرنے کا مشورہ دیا، کسی نے کہا پاکستان آ جاؤ اپنی مرضی کے ڈاکٹر ملیں گے، کسی نے کہا کہ فلاں چیز کھاؤ دل کے لیے اچھی ہوتی ہے۔ ایک مشورہ جو سب سے زیادہ دیا گیا وہ تھا ہربل علاج کا۔ جڑی بوٹیوں کے ساتھ بیماریوں کا علاج صدیوں سے ہوتا آیا ہے۔ خصوصاً برِصغیر میں تو یہ علاج ہمیشہ سے مقبول تھا اور اب بھی کافی مقبول ہے بلکہ ایک خاص طبقے میں تو ہربل علاج فیشن کے طور پر بھی کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں ہمارے (دل کے مریضوں کے حلقے میں) ایک دوست کو دل کا دورہ پڑا تو انہوں نے ایلوپیتھی علاج کے ساتھ ہربل علاج بھی کیا اور اب ماشااللہ صحتیاب ہیں۔ انہوں نے وہ دوائی مجھے لندن بھیجنے کی بھی پیش کش کی۔ میرے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ میں دنیا میں بہت کم ہی چیزوں کو مانتا ہوں۔ اور جن پر یقین نہیں رکھتا ان میں اس طرح کے علاج بھی شامل ہیں۔ یہ نہ پوچھیئے کیوں۔ اس کی کوئی وجہ نہیں۔ آپ کہیں گے کہ یہ کیا بات ہے۔ جڑی بوٹیوں سے علاج سے تو کسی کا کچھ نہیں بگڑتا۔ تو بھائی سن لیں کہ بگڑتا ہے۔ کسی اور کا نہیں تو کم آز کم جڑی بوٹیوں کا ضرور۔ دوسری طرف پلانٹ لائف انٹرنیشنل گروپ کی ایک رپورٹ میں بھی کہا گیا ہے کہ پودوں کو بیدردی سے استعمال اور ضائع کیا جاتا ہے۔ مثلاً ایک پودے بیر بیری، حکمت کی زبان میں عِنب الدّب، کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مشرقی یورپ میں بالکل ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ عِنب الدّب سرد علاقے کی ایک سرسبز جھاڑی ہے جس میں سرخ پھول لگتا ہے۔ اس کے سبز چمکدار پتے قابض اور مقوی دوا کے طور پر استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس طرح یہ گردوں کے علاج کے لیے بھی بہتر تصور کیے جاتے ہیں۔ گروپ کا کہنا ہے کہ اگرچہ جڑی بوٹیوں کے ڈاکٹروں کو صرف اس پودے کے پتے چاہیئے ہوتے ہیں لیکن وہ پتے کے حصول میں پورے کا پورا پودا اکھاڑ پھینکتے ہیں۔اسی طرح جنوبی بھارت اور سری لنکا میں پایا جانے والا ایک پودا ’تیتو لکھا‘ بھی ناپید ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کینسر کے علاج میں کام آتا ہے۔ اس پودے کی یورپ میں بہت مانگ ہے جہاں کینسر کے مریضوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ پودے بھی بچوں کی طرح ہیں۔ ان کو پھلتا پھولتا دیکھ کر کتنی خوشی ہوتی ہے یہ میں اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں اور وہ اس لیے کہ اپنے باغ میں جو پھولوں کے پودے میں نے دو ماہ پہلے لگائے تھے ان کی کونپلیں اب زمین میں سے نکل رہی ہیں۔ میں روز صبح اٹھ کر انہیں دیکھتا ہوں کہ اب ان کا قد کتنا بڑھا ہے۔ ان کو دیکھ کر جتنی خوشی ملتی ہے وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ اکثر میں اپنے ساتھ اپنے بیٹے بلال کو بھی لے جاتا ہوں اور اسے دکھاتا ہوں کہ اپنا لگایا ہوا پودا جب بڑا ہوتا ہے تو بالکل اپنا بچہ لگتا ہے اور اسے دیکھنے میں کتنا مزہ ہے۔ بلال بہت چھوٹا ہے۔ اپنے لگائے ہوئے پودے اور بچے کی تشبیہ کو ابھی نہیں سمجھتا۔
040114_fghansinger_sen
https://www.bbc.com/urdu/regional/story/2004/01/040114_fghansinger_sen
خاتون گلوکارہ: افغان عدلیہ ناراض
خاتون گلوکارہ: افغان عدلیہ ناراض
افغانستان کی عدالتِ عظمیٰ نے حکومت سے کہا ہے کہ آئندہ سرکاری ٹیلیویژن پر خاتون گلوکاراؤں کو نہ لایا جائے۔ ڈپٹی چیف جسٹس فضل احمد مناوی نے خبر رساں ادارے رائٹرز کو بتایا ہے کہ ’اسے روکنا ہو گا۔‘ افغان ٹیلیویژن نے گزشتہ سوموار کو ایک ایسا پرانا پروگرام دوبارہ نشر کیا تھا جس میں مقبول افغان گلوکارہ سلمیٰ کو ایک دیہی گانا گاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ انیس سو بانوے میں، غیر اسلامی قرار دے کر عائد کی جانے والی پابندی کے بعد سے خاتون گلوکاراؤں کو افغان ٹیلیویژن پر نہیں دیکھا گیا۔ مجاہدین اور ان کے بعد طالبان کی حکومت نے افغان ٹیلی ویژن کو پابند کیا تھا کہ وہ ٹی وی پر خواتین کو بغیر برقعے کے نہ دکھائیں۔ سوموار کو نشر کیے جانے والے پروگرام کو موجودہ افغان صدر حامد کرزئی کی آزادانہ پالیسیوں کا حصہ تصور کیا گیا تھا۔ افغانستان کی سپریم کورٹ بالعموم ذرائع ابلاغ کے بارے میں یہ شکایت کرتی رہتی ہے کہ وہ اسلامی شعائر کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں بھارتی فلموں اور کیبل ٹیلی ویژن کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
pakistan-43238526
https://www.bbc.com/urdu/pakistan-43238526
زینب قتل کیس: ٹی وی اینکر شاہد مسعود کے دعوے جھوٹے ثابت
پاکستان کے وفاقی تحقیقاتی ادارے نے اپنی رپورٹ میں نجی ٹی وی چینل ’نیوز ون‘ کے اینکر پرسن ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے قصور میں آٹھ سالہ زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کرنے کے مقدمے میں موت کی سزا پانے والے مجرم عمران علی کے بارے میں کیے جانے والے دعوؤں کو جھوٹ پر مبنی قرار دیا ہے۔
جمعرات کو سپریم کورٹ میں جمع کروائی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زینب قتل سے متعلق ڈاکٹر شاہد مسعود اپنے پروگرام میں ملزم عمران علی کے بارے میں جو 18 مبینہ حقائق سامنے لے کر آئے تھے ان میں سے کوئی ایک بھی ثابت نہیں ہوا ہے۔ نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کی جانب سے جمع کروائی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نہ تو ملزم عمران علی کے پاکستان میں غیر ملکی کرنسی کے 37 اکاونٹس ہیں اور نہ ہی ان کا تعلق بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے والے کسی بین الاقوامی گینگ سے ہے۔ اس بارے میں مزید پڑھیے شاہد مسعود کی 'میں نہ مانوں' '35 پنکچر بھی موصُوف نے ایجاد کیے تھے' رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہد مسعود کی جانب سے اپنے ٹی وی پروگرام میں جو دعویٰ کیا گیا تھا کہ ملزم عمران علی نے زینب کو جنسی تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیو بین الاقوامی گینگ کو بھجوائی ہے اس کے شواہد بھی سامنے نہیں آئے ہیں۔ ایف آئی اے کی اس رپورٹ میں مذکورہ اینکر پرسن کے اس دعوے کی بھی نفی کی گئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ملزم عمران علی کی پشت پناہی ایک وفاقی وزیر کر رہا ہے۔ زینب قتل کیس سے متعلق پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ڈاکٹر شاہد مسعود کے پروگرام پر از خود نوٹس لیتے ہوئے ڈاکٹر شاہد مسعود کو طلب کیا تھا۔ عدالت نے ڈاکٹر شاہد مسعود سے کہا تھا کہ اگر ان کے تمام دعوے جو انھوں نے اپنے ٹی وی پروگرام میں کیے تھے جھوٹے ثابت ہوئے تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ اس موقع پر کمرۂ عدالت میں موجود متعدد صحافیوں نے شاہد مسعود کو مشورہ دیا تھا کہ اگر ان کے پاس ثبوت نہیں ہیں تو وہ عدالت سے معافی مانگ لیں لیکن وہ اپنے دعوے سچے ہونے پرچار کرتے رہے۔ ڈاکٹر شاہد مسعد زینب قتل کے مقدمے کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے بھی پیش نہیں ہوئے تھے۔